"یہ وہی انگریزی نظام ہے" 3
فصل اول
ہمارے اس مضمون میں، بلکہ
جمہوریت کی بابت ہمارے بیشتر مضامین میں، ایک معروضی (Objective)
انداز کی گفتگو ہو سکتا ہے آپ کو کم ملے۔ وجہ یہ نہیں کہ معروضی انداز کی افادیت
ہماری نگاہ سے روپوش ہے۔ وجہ یہ ہے کہ خود اسی موضوع کا کچھ یہ تقاضا سا ہو گیا
ہے۔ یہ مضمون پڑھنے کے بعد امید ہے آپ ہمارے ساتھ اتفاق فرمائیں گے...
معاملہ کچھ یوں ہے کہ
جمہوریت کے بارے میں کوئی ایک بات کہنا خاصا مشکل بنا دیا گیا۔ اس کے اتنے چہرے
ہیں کہ اس پر ’معروضی انداز‘ سے بات کرنا کسی مسئلہ کا حل نہیں رہ گیا ہے۔ جمہوریت
کے بارے میں آپ کچھ بھی کہہ لیں، آپ کوئی ’نرالی‘ بات نہ کریں گے! اس کے بارے میں
سب کچھ کہا جا چکا ہے! ایک خاصی بڑی تعداد یہاں آپ ایسے لوگوں کی پائیں گے جو ’ایک
لحاظ سے‘ جمہوریت کو ’بجا طور پر کفر اور شرک‘ مانتے ہوں گے تو کسی ’دوسرے لحاظ‘
سے وہ جمہوریت کو حق ثابت کرتے ہوئے دیکھے جا سکیں گے۔ چنانچہ جمہوریت کو آپ حرام
کہہ کر کوئی نئی بات کریں گے اور نہ حلال کہہ کر!
معروضی انداز کسی چیز کا
ثبوت دینے کےلیے اختیار کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کی پیچیدگی ’ثبوت‘ دینے یا نہ دینے
سے بڑھ کر ہے۔ ہماری اُلجھن یہ ہے کہ جمہوریت کو دیکھنے کےلیے یہاں بے شمار
’اعتبار‘ ہیں؛ کسی اعتبار سے یہ کفر ہے تو کسی اعتبار سے یہ عین اسلام ہے۔ کسی
اعتبار سے یہ حرام ہے جبکہ کسی اعتبار سے یہ حلال ہی نہیں واجب بلکہ اَوجب
الواجبات ہے۔ کسی اعتبار سے یہ مغربی ہے اور کسی اعتبار سے مشرقی بلکہ قرون اولیٰ
اور سلف صالحین کا ورثہ! آپ اس کی مذمت کریں تب اوپرے نہیں لگیں گے۔ آپ اس کی
تعریف کریں تب برے نہیں لگیں گے۔ دونوں صورتوں میں آپ کی بات ’درست‘ مانی جاسکتی
ہے البتہ اس کا معنی و مراد، سننے والے اپنے اپنے ’مفہوم‘ کے مطابق متعین کریں گے۔
اب ایسے میں ایک ’معروضی انداز‘ کی گفتگو کیا کر پائے گی!؟
بیک وقت بہت سے مفہومات
رکھنے کے باعث جمہوریت اب ایک ایسی چیز بن گئی ہے کہ اس کے خلاف ’دلائل‘ بڑی حد تک
بے اثر ہو جاتے ہیں۔ اس پر کی گئی تنقید اور مذمت بڑی حد تک بے سود ثابت ہوتی ہے۔
آپ کی علمی تنقید سے ’پورا پورا اتفاق‘ کر لیا جاتا ہے مگر اس کو جمہوریت کے اُس
مفہوم کی طرف پھیر دیا جاتا ہے جو ’مغرب‘ سے تعلق رکھتا ہے۔ ’مشرق‘ کی جمہوریت پھر
بچی رہتی ہے! یہ ایک ’زرہ بکتر‘ ہے جو اسے پہنا دیا گیا ہے اور اس کے باعث اس پر
کئے گئے سب وار ناکام جاتے ہیں۔ البتہ اس کی تحسین ہو تو وہ پوری کی پوری اس تک
پہنچ جاتی ہے!
جمہوریت کو بہت سی قسموں
میں تقسیم کر کے اس میں یہ خوبی پیدا کر لی گئی ہے کہ ہر قسم کی علمی تنقید کو طرح
دے جایا کرے! اس جمہوریت پر یہاں کے لادین تنقید کریں تو اس کی ذمہ داری یہاں کے
دینداروں کو اٹھوا دی جائے اور اس کا رخ یہاں کی مشرقی اور ’مذہبی‘ مجبوریوں کی
طرف کر دیا جائے۔ اسی جمہوریت پر کوئی اسلامی بنیادوں پہ تنقید کرے تو اس کا رخ
جمہوریت کے مغربی مفہوم کی طرف کر دیا جائے! البتہ وہ نظام جو جمہوریت کے نام پر
یہاں رائج ہے وہ اُس تنقید سے بھی بچا لیا جائے جو یہاں کے ’لادین اصول پسند‘ اس
پر کرتے ہیں اور اُس تنقید سے بھی اس کو محفوظ رکھا جائے جو یہاں کے ’مسلم اصول
پسند‘ اس پر کرتے ہیں!
ایک عرصے سے ہمارے یہاں
جمہوریت کے خلاف اسلامی بنیادوں پر خاصے علمی انداز میں کام کرنے کی بھی متعدد
قابل قدر کوششیں ہوتی آئی ہیں، جو قابل ستائش ہیں۔ جمہوریت کے خلاف خاصے نصابی(Academic)
انداز میں بھی بہت کچھ لکھا گیا اور کئی ایک اچھی تصنیفات اس موضوع پر اب دستیاب
ہیں۔ بلاشبہ یہ ہمارے نظریاتی لٹریچر میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے اور ان تصنیفات کی
اہمیت کم کرنا ہرگز ہمارے پیش نظر نہیں ہے، کیونکہ جمہوریت کے خلاف ایک معروضی
انداز سے دیے گئے دلائل بہرحال اپنی جگہ اہم اور ضروری ہیں... البتہ یہ وہ کُل کام
نہیں جو اس شجرۂ خبیثہ کو اکھاڑ دینے کےلیے ضروری ہے۔
بلاشبہ جو ہم لکھیں گے وہ
بھی ہرگز وہ کل کام نہ ہوگا جو اس شجرۂ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑنے کےلیے مطلوب ہے۔
لکھنے لکھانے کے سوا بہت کام ہیں جو اس میدان میں عملاً کئے جانا ہیں۔ ہماری بھی
ہرگز یہ مراد نہیں کہ اس میدان میں جو کوئی کمی تھی وہ ہماری ان تحریروں سے اب
پوری ہوا چاہتی ہے۔ مراد صرف یہ ہے کہ جمہوریت کے کریہہ جثہ سے تدلیس کی یہ زرہ
اتارنے کی کوشش ہمارا مقصود ہے اور ہماری اس تحریر یا ان تحریروں کا یہی اصل ہدف۔
دراصل یہ وہ زرہ بکتر ہے
جس کے باعث اس نظام پر کئے گئے بہت سے علمی اور مدلل وار بھی ناکام چلے جاتے رہے
ہیں۔ کیونکہ دینی حلقوں کی جانب سے کئے جانے والے ان علمی و نظریاتی حملوں کا رخ
بڑی سمجھداری کے ساتھ جمہوریت کے کچھ ’غیر اسلامی‘ اور ’مغربی‘ مفہومات کی جانب
پھیر دیا جاتا رہا ہے اور نفسِ جمہوریت اس تدبیر سے صاف بچا لی جاتی رہی۔ جمہوریت
پر ان علمی اور اکادمی (Academic) انداز کے حملوں کی افادیت اب بھی ختم نہیں ہو گئی۔ اس پر کام کی
گنجائش یقینا باقی ہے بلکہ اس میں پہلے سے زیادہ تیزی آجانا بھی بے حد مطلوب ہے
مگر اس کے ساتھ ساتھ جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اس کے جس جس حصے کو ممکن ہو
تدلیس کی اس زرہ بکتر سے ہی محروم اور برہنہ کر دیا جائے۔ تب اس پر کئے گئے سب
’علمی حملے‘ اور ’معروضی دلائل‘ بھی خود بخود کارگر ہونے لگیں گے۔یوں جمہوریت کے
خلاف پچھلے کئی عشروں میں جو بڑی حد تک ایک نظری انداز کا کام ہوا ہے خود وہ کام
بھی آپ سے آپ کارآمد اور ’عملی‘ ہو جائے گا۔
اس بات کی بہرحال ضرورت
ہے۔ ہماری یہ تحریر یا سلسلۂ تحاریر اسی سمت بڑھنے کی ایک کوشش ہیں... ... خلاصہ
یہ کہ:
جہاں تک جمہوریت پر ایک
علمی انداز کا کام کرنے کا تعلق ہے تو وہ ہمارے اردو اسلامی لٹریچر میں مفقود
نہیں۔ اس میں اضافہ کی گنجائش یقینا ہے مگر اس سے زیادہ جس بات کی گنجائش اور
ضرورت ہے وہ یہ کہ جتنا علمی کام اس پر اب تک ہو چکا ہے اسی کو مؤثر کیا جائے یعنی
وہ علمی کام جو اب تک ہو چکا ہے جمہوریت کے اس ناروا وجود کو پہلے اس کی زد میں لے
آیا جائے۔ اس کے بغیر، ہم سمجھتے ہیں، جمہوریت پر ایک معروضی انداز میں لکھا گیا
کوئی ایک آدھ مقالہ یا کتاب یا حتی کہ کوئی لائبریری بھی ہو وہ کوئی بہت بڑا فرق
نہ لا سکے گی اور یہ ’الجھن‘ جو اِس کے گرد نہایت سمجھداری کے ساتھ ڈال رکھی گئی
ہے، جوں کی توں باقی رہے گی۔
گزشتہ آگے
پڑھیے