"یہ وہی انگریزی نظام ہے" 12
فصل دہم
چنانچہ
اس وقت توحید کی دعوت ہی ناگزیر ہے۔ کچھ دیر تک یہی کام ہونا ہے۔ توحید کو نفوس
میں گہرا اتارنا بیک وقت دونوں کام کر دیتا ہے اور باحسن انداز انجام دیتا ہے۔
یعنی دین کی طلب اور دین کا شعور دونوں کا پیدا ہونا اس کے ذریعے سے ممکن ہوتا ہے۔
اس کی بدولت لوگوں کو خدائے واحد کی شریعت سے اپنے لئے ہدایت اور راہنمائی طلب
کرنے کی فکر لاحق ہوتی ہے، جو کہ ایک مبارک فکر ہے۔ پھر توحید لوگوں کو وہ شعور
بھی دیتی ہے جو خدا کی شریعت سے ہدایت پانے کےلیے اور راستے کی رکاوٹوں کو دور
کرنے کےلیے اور اس راہ میں مطلوب قیادت کا تعین کرنے کےلیے درکار ہوتا ہے، جو کہ
ایک مبارک شعور ہے۔ شرط یہ ہے کہ توحید اپنی اس حقیقت کے ساتھ نفوس میں گہری اتاری
جائے جسے انبیاء لے کر مبعوث ہوئے ہیں اور جو کہ ’لا‘ یعنی باطل کی نفی سے شروع
ہوتی ہے اور بندگی کی حقیقت سے آشنا کراتے ہوئے معبود واحد ہی کا خوف پیدا کرتی ہے
اور تنہا اسی کی چاہت۔ یہی وجہ ہے کہ طاغوتوں کو یہ دنیا میں کبھی ایک آنکھ نہیں
بھائی۔
چنانچہ باطل کو باطل کہنا اور باطل سے لوگوں کو بیزار کرنا دعوت کا
باقاعدہ حصہ ہے۔ یہاں کا رائج سیاسی نظام ہو یا معاشی یا عدالتی... یا پھر یہاں کی
رائج تہذیبی اقدار ہوں... ان کا بطلان کرنا، ان کو مسترد کرنا، ان کو حرفِ غلط
کہنا توحید ہے۔ جو قیادتیں اور جو ریاستیں امتِ اسلام کو باطل کی ان راہوں پر
چلائے لئے جا رہی ہیں ان سے امت کو بری و بے زار کرنا اور امت کو ان سے خلاصی پانے
کی جانب متوجہ کرنا اور ان کے پیچھے چلتے جانے کے انجام سے خبردار کرنا دعوتِ
توحید کا بنیادی تقاضا ہے۔ توحید کی دعوت آپ سے آپ پھر قرآنی آیات سے اور قرآنی
آیات میں ہونے والے آخرت کے تذکروں، جہنم کی وعیدوں اور جنت و مغفرت کی خوشخبریوں
اورخدا کے ہاں سرخرو ہونے کی یاد دہانیوں کے ساتھ جڑ جاتی ہے۔ یوں توحید کی دعوت
اگر جامعیت اور درست انداز کے ساتھ اور ان تھک ہو کر دی جائے تو یہ ایک زبردست
مخفی توانائی ہے جو معاشروں کے رخ اور تہذیبوں کے دھارے بدل دیتی ہے۔ معاشروں اور
بستیوں ایسی خود سر اور زور آور مخلوقات کو جہت بدل لینے پر تیار کرنا اگر ممکن ہے
تو وہ قرآن اوردعوت توحید کی بدولت ہی ممکن ہے۔ اس کے سوا معاشروں کے دھارے بدل کر
رکھ دینے کا کوئی نسخہ نہیں۔
چنانچہ اس وقت ہر عالم اور عامی کو معاشرے میں کھل کھلا کر یہ کہنا
ہے کہ یہاں رائج نظام باطل ہے اور خدا کے غضب کو دعوت ہے۔ ایسا کہنے کےلیے ہرگز
ضروری نہیں کہ ’متبادل‘ پہلے آدمی کے پاس ہو۔ باطل نظام کو مسترد کرنے کےلیے ہرگز
شرط نہیں کہ اسلامی نظام کی تمام تر تفصیلات اورجزئیات پہلے بتائی جائیں یعنی جو
کوئی اسلام کے سیاسی یا معاشی یا عدالتی نظام کی جزئیات و تفصیلات پر سیر حاصل بحث
نہ کر سکتا ہو وہ اس باطل کو مسترد کرنے اور اس کا بطلان بیان کرنے کا سرے سے مجاز
نہ ہو! شرک اور باطل کو جہنم کی وعید ہر کوئی سنا سکتا ہے۔ شرک اور باطل کو خیر
باد کہنے کےلیے آواز اٹھانا ہر کسی کا حق ہے بلکہ فرض ہے۔ یہ دعوت کا حصہ ہے۔ اور
بنیادی طور پر یہ دعوت کا مرحلہ ہے۔ جیساکہ دورِ حاضر کے ایک عظیم مفکرِ اسلام سید
قطبؒ نے اس نقطے کو نہایت واضح کیا ہے: دعوت کے مرحلے میں ”اسلامی نظام کی
تفصیلات“ شائع کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ یہ سب ’دعوت کے مابعد مراحل‘ کی کارروائیاں
ہیں جب، اس دعوت کے نتیجے میں، معاشرے پر اثر انداز ہو سکنے والا ایک قابل ذکر
طبقہ خدا سے ڈر جانے پر تیار ہو جاتا ہے، یا جب خدا سے ڈرنے والا ایک قابل ذکر
طبقہ معاشرے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت پا لیتا ہے۔ دعوت کے مرحلہ میں اسلامی
قانون کی دفعات بیان نہیں کی جائیں گی۔ اسلامی معیشت یا اسلامی سیاست پر پیچیدہ
قسم کی بحثیں نہیں چھیڑی جائیں گی۔ پوچھنے والوں کو اسلامی سیاست یا اسلامی معیشت
یا اسلامی قانون کے بنیادی اصول ضرور بتائے جا سکتے ہیں جن کے بیان سے اسلام کا
وقت کے ان باطل نظاموں سے ”امتیاز“ واضح ہو سکے اور جس سے لوگوں کو یہ معلوم ہو
سکے کہ ان باطل نظاموں کو اسلام کی رو سے ہم کیوں مسترد کرتے ہیں۔
ان باطل نظاموں کے ساتھ ہمارا کوئی ’اجتہادی‘ اور ’فقہی‘ اختلاف
تھوڑی ہے! ایسا ہوتا تو ضرور ہم پر لازم ہوتا کہ ایک ایک معاملے پر ہم اس کے ساتھ
سیر حاصل فقہی بحث کریں اور ایک ایک جزئیات کی پوری پوری تفصیل دیں! دِیَّت کے
موضوع پر مفصل مضمون لکھا کریں! ’عورت کی گواہی‘ پر فقہی نکتے اٹھائیں، تاکہ ’قول
راجح‘ اختیار کرنے میں ’سننے پڑھنے والوں‘ کو آسانی ہو!! حضرات! یہ تو اصولی
اختلاف ہے۔ اس نظام نے تو ابھی یہ طے ہی نہیں کیا کہ اس کو خدا کی غیر مشروط اطاعت
کرنی ہے اور اِس حقیقت کو کہ شریعت خدا کے ہاں سے نازل ہوچکی اور محمدﷺ کی زبان سے
بیان ہو چکی، اس بات کےلیے کافی جاننا ہے کہ نمائندگانِ خلق کے ہاتھوں ’پاس‘ ہوئے
بغیر ہی یہ شریعت قانون کہلائے اور ہر قانون اور ہر آئین سے بالاتر جانی جائے۔ یہ
تو اصولی اختلاف ہے۔ یہ تو عقیدہ کا تنازعہ ہے۔ اصولی اختلاف میں صرف اصولی باتیں
بیان کر دی جانا کافی ہے: یہ نظام باطل ہے؛ انسانوں کو انسانوں کےلیے حکم اور
قانون اور نظام صادر کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ باطل کے ساتھ فقہی بحثوں کا کیا مصرف
؟ باطل کو تو بس مسترد ہونا ہے۔
یہ نظام اسلام کے ساتھ کس کس بنیاد پر ___اصولاً___ متصادم ہے وہ سب
بنیادیں واضح کر دی جانی چاہئیں۔ اسلام کے وہ کونسے اُصول اور اُسس ہیں جو اس نظام
میں ملیا میٹ ہوتی ہیں اور جن کا اسلام کے نظام میں، خواہ وہ جب بھی آئے، پایا
جانا ضروری ہے...اسلام کے یہ سب اصول اور اُسُس واضح کر دیے جانا حرج کی بات نہیں۔
مگر یہ کہ ’اسلامی نظام‘ کی پوری تفصیل کیا ہے اور اس کو نافذ کرنے کی فوری اور فی
الوقت کیا عملی صورت ہو گی...اس کا جواب دینے کےلیے پہلے سوال یہ ہو گا کہ اسلامی
نظام کو فی الوقت نافذ کرنے کون جا رہا ہے؟ اگر وہ کوئی فرد ہے تو اس کو اس کے
کرنے کا کام بتایا جا سکتا ہے اگر وہ کوئی حکومت ہے تو اس کو اس کے فرائض کی
نشاندہی کر کے دی جا سکتی ہے۔ کسی کو بھی اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلف نہیں کیا
جائے گا۔ ہر کسی کو اس کی طاقت اور اس کے دائرۂ عمل کی حدود کے اندر اس کے فرائض
کا تعین کر کے دیا جا سکتا ہے۔ جو اپنا فرض پوچھنے آئے گا شریعت کی رو سے اس کو اس
کا فرض بتا دیا جائے گا۔ اور جسے شریعت سے اپنا فرض پوچھنے کی طلب نہ ہو گی اسے
اسلامی نظام کی تفصیلات بتانے پر وقت صرف نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے اسلام کو
__بطور طرزِ حیات__ اپنا لینے کی دعوت دی جائے گی۔ اسے اس بات کی دعوت دی جائے گی
کہ وہ شریعت سے اپنا فرض پوچھے اور اپنے آپ کو خدا کا دَیندار جانے۔ مختصراً، اسے
خدا کی طرف بلایا جائے گا۔ الوہیت اور عبادت کے بنیادی حقائق بتائے جائیں گے ۔
جہنم کی آگ سے ڈرایا جائے گا۔ خدا کی نعمت پانے کی ترغیب دی جائے گی۔ قبر میں
اترنے اور خدا کے سامنے کھڑا ہونے کا لمحہ یاد کرایا جائے گا۔ یہ یاددہانی اس کو
کرائی ہی جاتی رہے گی۔ سو بار، ہزار بار، لاکھ بار...یاددہانی کی کوئی حد نہیں۔ اس
کو یاد دہانی کروانے کےلیے زیادہ سے زیادہ اشخاص کو تیار کیا جائے گا۔ ایک، یا سو،
یا ہزار، یا لاکھ... ان کی بھی کوئی حد نہیں۔
پھر اگر کوئی صرف اپنا ہی نہیں __اپنی سماجی حیثیت کی بنا پر__ اوروں
کی معصیت و نافرمانی کا بھی بوجھ اٹھانے پر تیار ہے... کوئی اگر باطل پہ خود چلنے
کے ساتھ ساتھ لوگوں کے کسی چھوٹے یا بڑے طبقہ کو بھی لے کر چلتا ہے... یعنی جو لوگ
قبیلے یا قوم پر اپنے اثرورسوخ یا اپنے اقتدار کے بل بوتے پر خدا کی راہ میں رکاوٹ
بنتے ہیں... انہیں اس دعوت کا بطورخاص مخاطب کیا جائے گا۔ انہیں ہزاروں یا لاکھوں
یا کروڑوں انسانوں کا بار اٹھانے کے انجام سے خبردار کیا جائے گا۔ ان کو بیک وقت
ہزاروں یا لاکھوں یا کروڑوں کا اجر و ثواب لینے کی بھی ترغیب دلائی جائے گی۔ خدا
کی عدالت میں نسلوں کی بابت جواب پرسی کا لمحہ یاد کرایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ
وہ لوگ جو نادانی میں ان کی اتباع کرتے ہیں ان کے سامنے قرآن کے وہ مباحث لائے
جائیں گے جو کسی قوم کے بااثر طبقوں (الملأ الذین استکبروا) ا ور ضعیف و پسماندہ طبقوں (الذین
استضعفوا) کو ایک دوسرے کا شریک جرم ٹھہراتے ہیں اور خدا کے سامنے ان دونوں
کو جواب پرسی کےلیے گویا اسی دنیا میں کھڑا کر دیتے ہیں۔
لوگوں کو قبیلہ وقوم کی ان قیادتوں کی اتباع سے خبردار کیا جائیگا جو
ان کو خدا کے غضب کی جانب لئے بڑھ رہی ہوں۔ لوگوں پر یہ واضح کیا جائیگا کہ قرآن
کا ان سے براہِ راست یہ تقاضا ہے کہ وہ جاہلی قیادتوں سے اپنی براءت و بیزاری کو
___جس حد تک ممکن ہو اور جس حد تک حالات اجازت دیں___ واضح اور واشگاف کریں اور اس
کو ایمان کا براہ راست تقاضا جانیں۔ یوں حاکم کیا محکوم ہر شخص ’ایمان‘ کا مخاطب
ہو گا۔ پھر یہ ’حکومت‘ اور ’اپوزیشن‘ نہیں ’ایمان‘ اور ’کفر‘ کا مسئلہ بن جائے گا۔
قرآن سے لے کر اذان اور نماز تک، حتی کہ اَشہَدُ
اَن لَّا اِلٰہَ الا اللہُ وَاَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللہ کا لفظ بولنے تک...ہر چیز اسی بات کا پیغام بن جائے گی۔ دین کی
ہر چیز کو اسی بات کا پیغام بنایا جائے گا۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ان دو دھڑوں کے
درمیان حد فاصل کا آپ سے آپ عنوان ہو گا۔ ایک طرف خدائے وحدہ لاشریک کی بندگی
اختیار کر لینے اور اس کی شریعت سے اپنا فرض پوچھنے والے اوردوسری طرف اپنے آپ کو
اس بات سے بے نیاز رکھنے والے کہ وہ شریعت سے اپنے اور اپنے زیر اثر لوگوں کےلیے
اپنا فرض پوچھیں اورجاہلی طرز زندگی سے تائب ہوں۔ دعوت کا آہنگ بلند ہونے کی نتیجے
میں معاشرے کے اندر ہرشخص اپنا محل وقوع اور اپنی وفاداری کا تعین کرے گا۔ خدائے
وحدہ لا شریک سے وفاداری آپ سے آپ باطل سے بیزاری کے ساتھ مشروط ہو گی۔
شرک سے اجتناب اور نظام شرک سے براءت ایمان کا اولین تقاضا ہے۔ یہ
دراصل ایک نئے معاشرے کے وجود کا اعلان ہے۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ایک طرز معاشرت
کو ختم کر کے ایک نئے طرز معاشرت کو اپنانے کا عنوان ہے۔ یہ ایک جاہلی دھارے سے
علیحدگی اختیار کرنے کا نام ہے۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا یہ مفہوم واضح کرنے پر
محنت بہت ہو گی مگر یہ آپ سے آپ ایک نئے معاشرے کی تاسیس ہو گی۔ یعنی ایک جاہلی
نظام کے تحت چلنے والے ایک بے مقصد اور ناکارہ معاشرے کے اندر ایک بامقصد، مخلص،
فعال اور فرض شناس معاشرہ۔ تب یہ دو معاشروں کی مقاومت ہو گی۔ دونوں معاشرے ایک
دوسرے کو بدلنے کے درپے ہوں گے۔ دونوں معاشرے اپنے اپنے حجم کے مطابق اپنی ضروریات
کا تعین کریں گے۔ دونوں معاشرے اپنے اپنے پھیلاؤ کے بقدر اپنے لوازم پورے کرنے اور
اپنی ضروریات بہم پہنچانے کے پابند ہونگے۔ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
گو ان میں سے ایک بااختیار اور دوسرا بڑی حد تک بے اختیار ہو گا مگر دونوں ایک
دوسرے کو زیر کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ دونوں ایک دوسرے کی قیمت پر اپنی توسیع
چاہیں گے۔ جس میں جتنی جان ہو گی وہ اتنا ہی دوسرے پر اثر انداز ہو گا۔ فیصلہ قلت
و کثرت پر نہیں عزم و ہمت، صبر و حوصلہ اور زیرک پن پر ہو گا۔ تاآنکہ معاشرے کی
سطح پر حق کی اتباع کرنے والے، قلیل ہونے کے باوجود، کثیر پر اثرانداز ہونے لگیں
بلکہ اس کثیر کو ممکنہ حد تک غیر مؤثر کر کے رکھ دیں اور معاشرتی رجحانات پر رفتہ
رفتہ حاوی ہونے لگیں۔ پھر جب معاشرتی رجحانات اسلام سے ہم آہنگ ہونے لگیں گے تب
اسلام معاشرے کی ضرورت بنے گا۔ جب کوئی چیز معاشرے کی ضرورت بن جائے تو پھر اس کی
فراہمی نہیں روکی جا سکتی۔ کبھی روٹی اورآٹے کا کال پڑے تو اس کااثر ہر طرف دیکھا
جا سکتا ہے۔ اسلام جب معاشرے کی ضرورت بن جائے گا اس دن اگر لوگوں کو اسلام کا
نظام نہیں ملے گا تو اس کا اثر بھی ہر طرف دیکھا جانے لگے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلام کو معاشرے کی ضرورت بنانے پر کچھ کام کیا ہی
نہیں گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معاشرے کو جاہلیت سے برگشتہ کرنے اورجاہلی
قیادتوں سے بری و بےزار کرنے اور اس بات کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا ایک واضح
ترین تقاضا بنا کر پیش کرنے پر محنت نہیں ہوئی۔
ہم سے اب تک جو غلطی ہوتی آئی وہ یہ کہ ہم نے ’نظام بدلنے‘ کو تو
اپنے لئے چیلنج سمجھا اور اس کو بطور ایک مشن بھی اپنایا مگر ’معاشرہ بدلنے‘ پر
ہرگز کوئی توجہ نہ دی۔ بقول سید قطبؒ:”...’اسلامی نظام‘ دراصل تو ’اسلامی معاشرے‘
کا پیدا کردہ ہوتا ہے نہ کہ ’اسلامی معاشرہ‘ ’اسلامی نظام‘ کا پیدا کردہ‘۔ ہم نے
’اسلامی نظام‘ کے ذریعے ’اسلامی معاشرے‘ کو وجود دینا چاہا۔ جبکہ کام کی ترتیب
بالکل اس کے برعکس تھی۔ یہ کام کی ترتیب ہمیں بہرحال بدلنا ہو گی۔
چنانچہ آج اس وقت __بطور ایک داعی توحید __ جب ہم یہاں پر قائم سیاسی
یا معاشی یا ثقافتی یا سماجی نظام کو مسترد کرتے ہیں جو کہ اسلام سے ماخوذ نہیں
بلکہ یہ دو سو سال تک یورپ میں اٹھنے والی آندھیوں ہی کی گرد ہے... آج جب ہم اس
نظام کو مسترد کرتے ہیں تو اس سے یہ مراد نہیں کہ ابھی اسی وقت ہم اس کی جگہ’
اسلامی نظام‘ لانے جا رہے ہیں یا کسی جاہلی قیادت کو ’اسلامی نظام لانے‘ کی
عرضداشت پیش کرنے جا رہے ہیں۔ اس رائج الوقت نظام کو غلط اور باطل اور مسترد ہونے
کے قابل کہنا دراصل ’دعوت‘ کا حصہ ہے۔ یہ توحید کا ایک اہم مضمون ہے۔ یہ لَا
اِلٰہَ کے تحت درج ہونے والی چیز ہے۔ باطل کی نفی حق کے اثبات پر مقدم ہے۔ جیسے ہم
نے پہلے کہا ’اسلامی نظام‘ تو صرف معاشرے کی طلب پر فراہم کیا جائے گا مگر باطل کو
مسترد کر دینے کی بات ابھی کی جائے گی ورنہ معاشرے میں حق کی طلب بھی نہ ہو گی۔
اپنی مفصل حالت میں اسلامی نظام... یا اپنی مطلوبہ تعداد میں اسلامی
نظام کے ماہرین و متخصصین و منتظمین... تو صرف اس وقت پائے جائیں گے جب معاشرہ اور
معاشرے کے رجحان ساز، اسلامی ماہرین کے وجود میں آنے کےلیے، بے چین ہوں گے اور جب
اسلامی نظام کو چلانے والوں کی معاشرے میں ’مانگ‘ پیدا ہو گی۔ البتہ یہ ’مانگ‘
پیدا ہونا کلیتاً اس بات پر منحصر ہے کہ یہاں کفر بالطاغوت و ایمان باللہ کی دعوت
دی جائے اور معاشرے کی ہیئت ترکیبی بدلنے پر جان کھپا دی جائے۔ مگر یہ ایک خاص
انداز کی دعوت ہونی چاہیے۔ اس میں باطل کو باطل کہنے پر شدید زور دیا گیا ہو اور
باطل کو مسترد کر دینا اس کے سرفہرست مضامین میں سے ایک مضمون ہو۔ ایسا کرنا دراصل
حق کےلیے طلب پیدا کرنا ہے۔ حق کی وہ طلب جس پر ’اسلامی نظام‘ کی فراہمی کا تمام
تر دارومدار ہے۔ ایک چیز کا باطل ہونا جب تک معاشرے سے بہت ہی واضح انداز میں نہ
منوا لیا جائے ___خاص طور پر جبکہ وہ باطل محض کوئی فرضی چیز نہ ہو بلکہ معاشرے میں
عملاً رائج اور قانوناً جاری و ساری ہو___ ایک موجود اور متسلط باطل کو باطل کہنے
پرجب تک معاشرے کے ایک بڑے طبقے کو یک آواز اور یکسو نہ کر لیا جائے اور معاشرے کا
ایک مخلص، مؤثر اور فعال طبقہ جب تک اس باطل کے خاتمہ پر آخری حد تک مصرنہ ہو، تب
تک اس باطل نظام کے متبادل کی مانگ پیدا ہی کیوں ہونے لگی؟ جبکہ ’متبادل‘ کی مانگ
کا معاشرے میں صرف پیدا ہونا نہیں بلکہ ایک خاص درجے تک شدت اختیار کر جانا ضروری
ہے۔ اس کے بغیر ’متبادل‘ کبھی وجود میں نہیں آئے گا چاہے جتنی مرضی قانونی تجاویز
اور آئینی ڈرافٹ تیار کر لئے جائیں۔
چنانچہ اس وقت لوگوں کو اس باطل سے برگشتہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کی
بندگی اورفرمانبرداری میں آجانے پر ہی ایک اصولی انداز میں تیار کیا جانا ہے، بغیر
یہ بتانے کا پابند ہوئے کہ اس کا متبادل نظام ہم نے کیا تیار کیا ہے۔
چنانچہ آج جب معاشرے کا ایک عام مسلمان بآوازِ بلند اس نظام کو __جو
ہمیں مغرب سے ملا ہے__ باطل کہتا ہے تو اس کا یہ کہنا عین اس کام کا ایک حصہ ہو گا
جو کہ اس سے فی الوقت مطلوب ہے۔ اس آواز کو بلند سے بلند تر کیا جانا ہے یہاں تک
کہ معاشرے میں بس سنائی ہی یہ دے کہ غیر اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کا یہ نظام
ملیامیٹ ہو جانے کے قابل ہے۔ ہر استعداد کے شخص کو معاشرے میں یہ بات کرنی ہے اور
توحید کا ایک تقاضا جان کر کرنی ہے۔ باطل کو مسترد کرنا ... یہ عقیدہ کا حصہ ہے۔
عقیدہ کا بیان ہر شخص پر حسب استطاعت لازم ہے۔ عقیدہ کی دعوت ہر شخص پر حسب
استطاعت فرض ہے۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ غیر اللہ کے نظام کو اللہ کی مخلوق پر حاکم
رہنے کا کوئی حق نہیں اور یہ کہ بندگی واطاعت انسانی زندگی کے ہر پہلو میں ایک
خدائے وحدہ لاشریک کی ہو گی اور صرف اسی شریعت کے مطابق ہو گی جو اس نے خاتم
المرسلین محمد ﷺ پر نازل کی ہے اور جس کو اتار کر اس نے پہلی آسمانی شریعتیں تک
منسوخ کر دی ہیں پھر زمینی شریعتوں کو تو حق ہی کیا ہے کہ خاتم المرسلین کی شریعت
کو انسانی معاشروں پر حکمرانی سے بے دخل کر رکھیں؟
اس مرحلہ میں، جس میں عقیدہ کا یہ بیان اور توحید کی دعوت ہی ذہنوں
میں راسخ کی جانی ہے، کسی باطل نظام کو باطل کہنے پر اسلامی نظام سیاست یا معیشت
کی جزئیات وتفصیلات نہیں بتائی جائیں گی۔ صرف اسلامی سیاست یا معیشت کے بنیادی
اصول واضح کئے جا سکتے ہیں۔ داعیان توحید اس مرحلہ میں اس بات کے پابند نہ ہونگے
کہ اگر وہ اس نظام کو باطل کہتے ہیں تو پہلے اس بات کا ایک متبادل نظام اور قانون
مدون کرکے دکھائیں جو معاشرے کو اُس کی اپنی ہی موجودہ حالت پر بحال رکھتے ہوئے
شریعت کے مکمل نفاذ کا معجزہ کرکے دکھا سکتا ہو اور جس میں یہ جاہلی قیادتیں کوئی
نقص تک نکال دکھانے سے عاجز ہوں! داعیان توحید صاف بتا دیں کہ جو چیز ان سے طلب کی
جا رہی ہے اس کے فراہم ہونے کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ معاشرے کے رحجان
ساز معاشرے میں کن رحجانات کی پرورش کرتے ہیں اور معاشرہ اپنی قیادتوں کی وساطت سے
اپنی اس ضرورت کا تعین کس شدت سے کرتا ہے کہ اس کو صرف اور صرف خدائے وحدہ لاشریک
کی شریعت کے تحت ہی بسنا ہے اور یہ کہ اس کی شریعت کے سوا کسی شریعت کا چلن ہو
جانا اب اس کی زندگی میں خارج از سوال ہو چکا ہے۔
معاشرے کو اپنی قیادت کی وساطت سے اور معاشرے کی قیادت کو اپنے اور
معاشرے کی طرف سے، اللہ اور رسول کی غیر مشروط فرمانبرداری کےلیے، واضح طور پر
اپنی استعداد ظاہر کرنی ہے۔
چنانچہ ’متبادل‘ کا جو سوال توحید کے داعیوں سے کیا جائے گا داعیان
توحید اس سوال کو معاشرے اور معاشرے کی قیادت کی طرف لوٹا دیں گے اور اپنی جگہ اس
باطل کو باطل کہنے کا کام بدستور جای رکھیں گے تاوقتیکہ معاشرے کی قیادت خود ہی
اپنے اس سوال کا سنجیدہ جواب دینے پر تیار نہ ہو جائے کہ اس باطل نظام کا متبادل
کیا ہونا چاہیے اور اس کو وجود میں لانے کے کیا تقاضے ہیں...یا پھر جب تک معاشرے
کا ایک فعال، مخلص، فرض شناس اور سنجیدہ طبقہ اس جاہلی راستے کو جاہلی قیادت سمیت
مسترد کر دینے پر یک آواز نہ ہو جائے اور معاشرے کو رحجانات دینے کی خود صلاحیت نہ
کرلے۔
یہ بہرحال طے ہے کہ متبادل نظام کےلیے متبادل معاشرہ کی ضرورت ہے۔ اس
میں اگر معاشرے کے رحجان سازوں اور معاشرے کے مقتدر حلقوں کا تعاون شامل ہو جاتا
ہے تو جو کام عشروں میں ہونا مشکل ہے وہ برسوں میں پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔
بنا بریں ... رائج نظام کو باطل کہہ کر اور باطل ثابت کرکے اور
معاشرے کو اس باطل سے بری وبیزار کر کے اور اس باطل سے بری وبیزار ہونے کو ایمان
کا تقاضا بنا کر دراصل ہم اس متبادل معاشرے کے وجود میں آنے اور قوت پکڑنے کی راہ
ہموار کر رہے ہیں جو اسلام سے اپنے لئے ’نظام‘ طلب کرے گا اور اپنی اس طلب میں ایک
اعلیٰ ذوق اور ایک پختہ شعور کا بھی مظاہرہ کرے گا ... ایک ایسے شعور کا مظاہرہ جو
جاہلیت کو لوگوں کے اسلامی جذبات سے کھیلنے کا موقعہ نہ دے اور جو جاہلی قیادتوں
کو، حق قبول نہ کرنے کی صورت میں، برہنہ وبے نقاب ہو جانے اور اپنی اصل گھناﺅنی صورت
دکھانے پر مجبور کر دے۔
چنانچہ ’اسلامی متبادل‘ سے بات شروع نہیں ہو گی بلکہ ’اسلامی متبادل‘
پر بات ختم ہو گی۔ بات کا آغاز جس بات سے ہو گا وہ باطل کا اصولی بطلان ہے اور حق
کا اصولی احقاق۔ پھر معاشرے کے ایک موثر طبقے کو، باطل کو مسترد کرکے حق کا محکوم
ہونے پر، اصولاً اور عملاً تیار کیا جانا ہے۔ اب یہ طبقہ ___جو باطل کو مسترد کرنے
اور حق کا محکوم ہونے پر اصولاً اور عملاً تیار ہو گا___ اپنے روزمرہ اجتماعی
معاملات میں جیسے جیسے شریعت سے رہنمائی لے گا اسی کو ’اسلامی نظام‘ یا ’اسلامی
متبادل‘ کہا جائے گا۔ جیسے جیسے شریعت سے رہنمائی لینے والا یہ طبقہ بڑھے گا ویسے
ویسے ’اسلامی نظام‘ وسعت اختیار کرے گا۔ پھر اگر کسی دن یہ طبقہ معاشرے کی قیادت
سنبھال لیتا ہے یا معاشرے کی قیادت اس طبقے میں شامل ہو جاتی ہے تو اس وقت معاشرے
کی سب ضروریات کی بابت جس طرح یہ اسلامی شریعت سے رہنمائی لے گا وہ ’اسلامی نظام‘
ہو گا۔ غرض معاشرے کا وہ طبقہ جو باطل کو مسترد کر دینے اور حق کا محکوم ہونے پر
مجتمع اور یک آواز ہو گا وہ اپنی قلت وکثرت یا ضعف وقوت کے لحاظ سے جس مرحلے میں
ہو گا، اسی مرحلے کے مطابق یہ شریعت سے رہنمائی لینے کا پابند ہو گا اور شریعت سے جس
مرحلے میں یہ جو رہنمائی لے گا یہی اس کے لئے ’اسلامی نظام‘ ہو گا۔ رہ گیا معاملہ
اس پابندِ شریعت طبقے سے باہر، تو وہ لوگ جو اس طبقے سے اپنے آپ کو باہر رکھے ہوئے
ہیں ___یعنی وہ لوگ جو باطل کو مسترد کر دینے اور صرف حق کا محکوم ہونے پر ابھی
اصولاً اور عملاً تیار ہی نہیں، خواہ اس کے کوئی بھی وجوہات ہوں___ تو ان لوگوں کےلیے
اس حاملِ دین طبقے کے پاس ’اسلامی نظام‘ نہیں اسلام کی دعوت ہو گی۔ ’اسلامی نظام‘
تو کسی کو دیا ہی تب جائے گا جب وہ باطل کو مسترد کر دینے اور حق کا محکوم ہونے پر
پیشگی طور پر آمادہ اور اصولاً اور عملاً تیار ہو گا اور اپنی اس استعداد کا ثبوت
دینے اور شریعت سے اپنا فرض دریافت کرنے کےلیے بے چین ہو گا۔
گویا جو شخص ابھی شریعت کی غیر مشروط اطاعت پر تیار ہی نہیں یا وہ
شخص جو شریعت پر پیشگی شروط عائد کرتا ہے یا جو شخص حق کو صرف وہاں قبول کرے جہاں
حق اس کی مرضی یا مفاد کے موافق ہو یا وہ شخص یا مجموعۂ اشخاص یا طبقہ یا حکومت یا
مجلس جو اللہ کی شریعت سے ایک کیش فرمانبرداری کے ساتھ اپنا فرض دریافت کرنے پر
ابھی تیار ہی نہیں اور جس کو صرف اور صرف اس بات سے غرض نہیں کہ خدائے دانا وبزرگ
وبرتر نے کسی مسئلے میں اپنے رسول پر کیا اتارا ہے... اس کو البتہ ’اسلامی نظام‘
نہیں ”اسلام کی دعوت“ کا مخاطب کیا جائے گا۔ اس کا خدا کی شریعت سے اپنا فرض
دریافت نہ کرنے کا سبب خواہ اس کی اس بات سے لاعلمی ہو یا اس کی ہٹ دھرمی اور
عناد، ہر دو صورت میں اس کے لئے اسلام کی دعوت ہے نہ کہ اسلام کا نظام۔ یہ ضرور ہے
کہ دعوت کے مخاطبین اپنے رویہ وطرز عمل کی لحاظ سے یا علم اور بے علمی کے لحاظ سے
یا اپنی سماجی حیثیت یا اپنی ذہنی استعداد کے لحاظ سے مختلف اقسام کے ہو سکتے ہیں
اور ان میں ہر قسم کے ساتھ ہی اس کے مناسب حال اور خود داعی کی اپنی استطاعت کے
لحاظ سے برتاؤ کیا جائے گا مگر ان میں سے کسی کو بھی ”اسلامی نظام“ کی بابت کوئی
فرمائشی اور آزمائشی سوال کرنے کا حق نہیں دیا جائے گا۔ ان میں سے جو کوئی بھی
اللہ اور رسول کی غیر مشروط اطاعت وفرمانبرداری اختیار کر لینے کےلیے آگے بڑھے گا
اس کو شریعت سے اس کا فرض اور اس کے اس وقت کے کرنے کا کام بتا دیا جائے گا۔ رہا
یہ کہ وہ ’چودہ کروڑ‘ انسانوں کی بابت سوال کرے اور ملک میں فی الفور رائج ہونے کےلیے
ایک update مرتب مدون نظام پیش کرنے
کا ’کھلا چیلنج‘ دے اور ”موجود الوقت حالات میں خلافت کیسے آئی گی!“‘کا مفصل خاکہ
طلب فرمائے یا سود کا متبادل لا حاضر کرنے کی فرمائش کرے ... اور ایسے سوال اٹھا
کر وہ دین کے داعیوں کو خاموش کرانا یا پھر جاہلیت کے اپنے پیدا کردہ سیاسی اور
معاشی بحرانوں کی پیچیدہ اور گرہ در گرہ بحثوں میں الجھانا اور یوں ان داعیوں کو
ان کے اصل موضوع سے ہٹانا چاہے تو اس کے ایسے کسی سوال کو، جس کا تعلق اس کے اپنے
فرض سے نہیں، ہرگز کسی توجہ کے لائق نہ جانا جائے گا۔
’اسلامی نظام‘ کے حوالے سے ہر شخص کو اس بات کا جواب دیا جائے گا جو
اس کے اپنے فرض سے متعلق ہو۔ کوئی کسی دوسرے کےلیے کیوں پوچھے جبکہ وہ ’دوسرا‘
شریعت سے اپنا فرض دریافت کرنے کی ضرورت ہی ابھی محسوس نہ کرتا ہو!؟ ’چودہ کروڑ
عوام‘ کے مسائل کا حل ، چودہ کروڑ عوام خود پوچھیں یا پھر وہ پوچھے جو ’چودہ کروڑ
عوام“ کا گناہ اٹھا کر خدائے جبار وقہار کے ہاں کھڑا ہونے کے لمحے سے خائف ہے۔ رہا
ایک فرد تو وہ اپنے بارے میں پوچھے یا اپنے اس حلقے کے بارے میں جو اس کا دائرۂ
اثر شمار ہوتا ہے۔ وہ ’چودہ کروڑ عوام‘ کے فرائض جان کر کیا کرے گا!؟
’اسلامی نظام‘ کوئی ایسی دلچسپ بحث نہیں جو کسی وقت گزاری کے کام
آئے۔ اسلامی ’متبادل‘ کا نو من تیل کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس حجت کے اعتراف میں
جاہلیت کو حق بجانب ہونے کی سند دے رکھی جائے۔ یہ کوئی ایسی بنیاد نہیں ہے کہ جس
کے سہارے جاہلیت یہاں عالم اسلام میں جتنے برس یا جتنے عشرے یا جتنی صدیاں گزارنا
چاہے بخوشی گزارے اور ’متبادل‘ پاس نہ ہونے کے باعث مسلمان اس کےلیے دیدہ ودل فرش
راہ کئے رکھنے کے ’شرعاً‘ اور ’اخلاقاً‘ پابند ہوں!
’متبادل‘ کی نوبت آخر تبھی تو آئے گی جب قوم کا ایک موثر طبقہ
’موجود‘ سے بیزار ہو گا! آپ ہمیں قوم کے ایک موثر طبقے کو ’موجود‘ سے بے زار ہی
نہیں کرنے دیں گے اور متبادل نہ ہونے کے باعث وہیں پر چپ کرا دیں گے تو متبادل کی
نوبت آئے گی ہی کیونکر!؟ جس چیز کے نہ ہونے کو دلیل بنا کر آپ ہمیں خاموش کرار ہے
ہیں اس کا پایا جانا تو منحصر ہی اس بات پر ہے کہ معاشرے پر تاثیر رکھنے والے طبقے
میں اس کے سچے طلبگار پیدا کئے جائیں کیونکہ وہ طلب صادق کے بغیر فراہم ہو جانے
والی چیز ہی نہیں۔ اب جس متبادل کی طلب میں شدت لائی جانا مطلوب ہے وہی متقاضی ہے
کہ پہلے آپ ’موجود‘ سے بے زار ہوں۔ بلکہ جس شدت سے آپ موجود کو مسترد کریں گے اسی
شدت سے ’متبادل‘ کی طلب کریں گے تاآنکہ وہ ایک خاص اور مطلوبہ حد کو پہنچ جائے اور
’تبدیلی‘ کا عمل تب بالفعل شروع ہو جائے۔ مگر جاہلیت چاہتی ہے کہ معاملے کو الٹی
طرف سے لیا جائے۔ اس کی اس چال میں آپ آگئے تو وہ سچی اور آپ جھوٹے۔ سب قصور پھر
دینی طبقوں کا اور حق کے داعیوں کا نکلے گا جو جاہلیت کو متبادل فراہم کرنے کے
معاملے میں ہاتھ ہلانے تک کےلیے تیار نہیں اور جاہلیت بیچاری مجبور! متبادل پاس
نہیں تو کیا کرے! مظلوم ساٹھ سال سے متبادل کےلیے چیخ رہی ہے کوئی سن کر دے تو بات
ہے الٹا الزام بھی اسی پر!
لہٰذا کتنا اچھا ہے، خاص طور پر جب میڈیا گھر کا ہے، کہ ’متبادل‘ کا
شور ہی اتنا اٹھا رکھا جائے کہ کسی اور بات کی جانب توجہ چلی جانے کی نوبت ہی نہ
آئے۔ اچھے اچھے آپ کو متبادل کے موضوع پر لاجواب کرکے رکھ دیں گے!
جاہلیت کی یہ ایک حجت مان لی جائے پھر وہ یہاں خیر خیریت سے ہے۔ اس
کے سب منصوبے اور فساد کے سب پروگرام پھر یہاں رواں دواں رہیں گے۔ اور معاشرے کے
اخلاقی بگاڑ، بے حیائی، انحلال، لادینیت اور مغرب زدگی کی طرف بڑھائے جانے میں پھر
کوئی رکاوٹ نہیں۔ ایک ’مجبوری‘ جب صحیح دلیل سے ثابت تو جو ہو گئی!
معاشرہ کو رخ جاہلیت دے، معاشرے کےلیے رحجانات جاہلیت صادر کرے مگر
معاشرے کو ’نظام‘ دینے کا چیلنج اسلام کو ملے! قوم کو چلایا جاہلیت کی سمت میں جا
رہا ہو مگر داعیان توحید کو چیلنج یہ دیا جائے کہ وہ قوم کو چلنے کےلیے راستہ اور
نظام تجویز کرکے دیں اور ایسے نظام کی نشاندہی کرکے دکھائیں کہ قوم چلتی جاہلیت کے
راستے میں رہے اور پہنچے اسلام کی منزل پر! اور اگر ایسا لغو اور بے تکا اور غیر
طبعی چیلنج وہ قبول کرکے نہیں دیتے تو غلط پھر وہ جاہلیت کو نہیں اپنے آپ کو کہیں!
جاہلی نظام کو باطل تب تک بہرحال نہ کہیں جب تک ایک عدد ’متبادل‘ وہ اپنی جیب میں
نہیں رکھتے!
مطلب یہ ہے کہ یہ باطل یہاں ہے اور رہے گا اور اسلام کی جانب سے اس
کو غلط تک نہیں کہا جائے گا اور اس باطل کے خاتمہ کا سوال تک نہیں اُٹھایا جائے
گا۔ کیونکہ اس کو غلط کہنے کےلیے جو چیز پاس ہونی چاہئے، اور جس کا نام ’متبادل‘
ہے، اسلامی نظام کے شائقین وہ اپنے پاس نہیں رکھتے۔ لہٰذا اس نظام کو مسترد کرنے
کی بات تک نہ اٹھائی جائے۔
صاف صاف الفاظ میں ... متبادل لانے کا یہ چیلنج ... ’تیار حالت‘ میں
اسلامی نظام موجود نہ ہونے کا یہ فلسفہ ... اور اسلامی نظام کو چلانے کےلیے مطلوبہ
حجم کی مشینری نہ پائے جانے کی یہ ’مجبوری‘ ... دراصل سینہ زوری کے سوا اور کیا
ہے!
مگر ابلاغ کا اثر دیکھئے کہ اچھے اچھے مسلمان بھی جاہلیت کا یہ ’عذر‘
تسلیم کرتے ہیں اور الٹا دینی طبقوں کو ہی ’متبادل‘ نہ لانے کے معاملہ میں مورد
الزام ٹھہراتے ہیں۔
دینی طبقوں اور اسلامی تحریکوں کی یہ کوتاہی ضرور مانی جا سکتی ہے
اور یہ کوئی چھوٹی کوتاہی نہیں کہ معاشرے کو بدلنے کا کوئی خاص قابل ذکر پروگرام
ان کے پاس نہیں، جیسا کہ پیچھے ہم نے ذکر کیا، کیونکہ معاشرے کو بدلنے اور باطل سے
بیزار کرنے پر کی جانے والی محنت ہی اس بات کا سبب بنے گی کہ معاشرہ شریعت سے
رہنمائی لینا اور باطل سے بیزار ہونا اپنی ایک باقاعدہ ضرورت اور اپنا اساسی فرض
سمجھے جو کہ اسلام نظام کے معاشرہ میں آنے کی اصل بنیاد بنے گی،... مگر اسلامی
تحریکوں پر یہ الزام کہ وہ موجودہ نظام کا متبادل معاشی اور سیاسی اور عدالتی نظام
ایک مرتب اور مدون شکل میں یہاں کی جاہلی قیادت کو پیش نہیں کر سکیں، ایک باطل
الزام ہے اور دراصل یہ اس پراپیگنڈے کی تبلیغ میں نادانستہ تعاون ہے جو جاہلیت کو
یہاں شدید طور پر درکار ہے۔
*****
یہاں اب ایک آخری بات کرکے ہم اپنی گفتگو ختم کرتے ہیں...
جس راہ کو بھی آپ اپنے سعی وعمل کےلیے اختیار کریں گے اس سے نااُمیدی
کی کوئی گنجائش نہ ہو گی۔ کامیابی کا امکان کسی راہ میں ہو بھی تو ناامیدی اس کو
ختم کرکے رکھ دے گی۔ جن لوگوں نے انتخابی سیاست کی راہ سے اسلام لانے کی جدوجہد کا
طریقہ اختیار کیا ہے وہ بھی اپنے لئے ناامیدی کی کوئی گنجائش نہیں پاتے۔ ان کا
ایسا کرنا اس راہ میں ان کے اب تک کے سب کئے کرائے پر پانی پھیر کر رکھ دے گا۔
دعوت اور انذار کی راہ اپنانے والوں کا بھی یہی معاملہ ہو گا۔ بے دلی اور ناامیدی
کی اِدھر بھی کوئی گنجائش نہ ہو گی ... تاآنکہ معاشرے کا ایک موثر طبقہ اس دعوت کو
قبول کر لے... اور یا پھر دعوت کو قبول کرنے والا طبقہ ہی، تربیت کے نتیجے میں،
معاشرے کا موثر طبقہ بنا دیا جائے ... یا پھر یہ دونوں کام ہو جائیں، اس کے بعد ان
کے پاس کرنے کرانے کےلیے بہت کچھ ہوگا۔
اور راہوں کا معاملہ مختلف ہو تو ہو مگر دعوت اور انذار کی راہ میں
تو امید اور ناامیدی کا معاملہ ’نتائج‘ پر سرے سے موقوف نہیں۔ ہمیں تو رسول اللہ ﷺ
نے اپنے آنکھوں دیکھے منظر اسی دُنیا میں بتا دیئے ہیں کہ خدا کے پاس کوئی نبی چند
افراد کی معیت میں چلا آرہا ہے، کسی نبی کے ساتھ دو ہیں کسی کے ساتھ ایک اور کسی
کے ساتھ ایک بھی نہیں۔ (1) یہ
بتانے کا مقصد یہی تو ہے کہ ’دعوت‘ وہ میدان ہے اور لوگوں پر توحید کی حقیقت واضح
کرنا اور لوگوں سے توحید کی حقیقت منوانا وہ کام ہے جس میں کامیابی کو ’نتائج‘ سے
نہیں ماپا جاتا۔
’دعوت‘ میں دیکھا یہ جائے گا کہ دعوت کس چیز کی دی گئی۔ اس میں اسلوب
کون سا اپنایا گیا اور اس پر محنت کتنی ہوئی۔ اگر یہ وہی چیز ہے جس کی دعوت
انبیاءدیتے رہے اور اگر یہ ممکنہ حد تک وہی اسلوب ہے جو دعوت اور انذار میں
انبیاءنے اختیار کئے رکھا اور اگر اس کی اہلیت پانے کےلیے اور اس فرض سے عملاً
عہدہ برآ ہونے کےلیے مقدور بھر کوشش کر لی گئی تو سمجھئے وہ سب کچھ ہو گیا جو
مطلوب تھا۔ اب پیچھے کچھ نہیں رہ گیا، جس کی حسرت کی جائے۔ کوئی فکر مندی کی بات
رہ جاتی ہے تو وہ قبولیت کا معاملہ ہے مگر اس کا تعلق اس دُنیا سے نہیں بلکہ خدا
کے خوش ہونے سے ہے جو دلوں کے حال سے واقف ہے اور جس کے ہاں ناانصافی ہو جانے کا
کوئی سوال نہیں۔
گزشتہ آگے
پڑھیے