"یہ وہی انگریزی نظام ہے" 1
بیک ٹائٹل عبارت:
اس نظام میں... ’مذہب‘ کے خدا کو ’قانون‘ کے
دائرے میں بہرحال ’قانون‘ ہی کے خدا کی منظوری درکار رہتی ہے۔ ’قانون‘ کے خدا کی
منظوری کے بغیر ’مذہب‘ کا خدا جو مرضی کہہ لے اُس کا کہا ’مذہب‘ تو ہوتا ہے
’قانون‘ نہیں۔
واقعتا یہ نظام اس پر معترض نہیں کہ ’مذہب‘ کی کوئی بات
کسی وقت ’قانون‘ بنا دی جائے۔ مگر اس کی رُو سے ہیں یہ دو الگ الگ چیزیں۔ اور یہی
بات غور طلب ہے۔ ’مذہب‘ یہاں قانون بن ضرور سکتا ہے البتہ ’مذہب‘ خود بخود ’قانون‘
نہیں...!
جبکہ اللہ کے ہاں ”دین“ وہ ہے جو بیک وقت ’مذہب‘ بھی ہو
اور ’قانون‘ بھی۔ اللہ کے ہاں سے جو کچھ اتر آیا ہے، کسی بھی اضافی شرط کے بغیر،
وہ آپ سے آپ ’مذہب‘ ہے اور آپ سے آپ ہی ’قانون‘۔ جتنا وہ ’مذہب‘ ہے اتنا ہی وہ
’قانون‘ ہے۔ اس کی ایک حیثیت کو ماننا اور دوسری کو نہ ماننا خدائے مالک المک کے
ساتھ کھلا کفر ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ
بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ
إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ
أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ
إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ
عَنكَ صُدُودًا فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا
قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَآؤُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلاَّ
إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللّهُ مَا
فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ
قَوْلاً بَلِيغًا وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ
بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ
فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ
تَوَّابًا رَّحِيمًا فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ
يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ
حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا
(النساء: 65- 60)
(اے
نبی) کیا تو نے نہیں دیکھا ایسے لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے
اس (شریعت) پر جو تجھ پہ نازل کی گئی اور اس پر جو تجھ سے پہلے نازل کی گئی، مگر
چاہتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے لے کر جائیں طاغوت کے پاس، جبکہ ان کو حکم دے رکھا گیا
ہے کہ وہ اس (طاغوت) کے ساتھ کفر کر دیں۔ اور شیطان چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر بہت
دور کی گمراہی میں لے جائے۔ اور جب ان سے کہا جائے آؤ اس چیز کی طرف جو نازل فرما
رکھی ہے اللہ نے اور (آؤ) رسول کی طرف، تو تو منافقوں کی یہ حالت دیکھے گا کہ تجھ
سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔ پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب ان کے اپنے ہاتھوں کے کیے
کے بدلے ان پر مصیبت آئے گی، تب آئیں گے یہ تیرے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہوئے کہ
ہمارا کچھ مقصود نہ تھا سوائے بھلائی کے اور موافقت لے آنے کے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ
اللہ ہی جانتا ہے کیا ان کے دلوں میں ہے، پس تو ان سے کنارہ کر، ان کو نصیحت کر،
ان کو ان کے نفوس سے متعلق قولِ بلیغ کہہ۔ اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا اسی لیے تو
بھیجا کہ اللہ کے اذن سے اس کی (مطلق)
اطاعت ہو۔ اور اگر یہ لوگ بھی جب یہ اپنی جانوں
پر ظلم کر بیٹھے تھے، آجاتے تیرے پاس، پھر بخشش مانگتے اللہ سے، اور رسول بھی ان کےلیے
بخشش مانگتا، تو ضرور وہ اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔
تو پھر قسم ہے تیرے پروردگار کی (اے نبی) کہ یہ مومن نہ ہوں گے جب تک یہ تجھ ہی سے
فیصلے نہ کرانے لگیں اپنے ان سب معاملات کے جو اِن میں باعث نزاع ہوں، پھر تیرے اس
فیصلہ سے اپنے دلوں میں تنگی تک محسوس نہ کریں، بلکہ جب تلک سر بسر تسلیم نہ ہو
جائیں۔
*****
کتاب کی فصل ’’اسلامی
اقدامات‘‘ سے اقتباس
گزشتہ آگے
پڑھیے