’اور میرا دیکھنا عبرت‘....!!! |
’نگاہ‘ بری خواہشات کا ہر اول ہے اور اس کا تیز رفتار ترین ایلچی۔ اس سے تحفظ کر لینا ہی دراصل شہوتِ شر سے اپنا تحفظ کر لینا ہے۔ جو شخص اپنی نگاہ کو بے مہار چھوڑ دے وہ ضرور اس کو بربادی کے کسی گڑھے میں پھینک کر آئے گی۔
نبی ﷺ اس سے خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”ایک نظر کے پیچھے دوسری نظر مت جانے دو۔ پہلی پر تمہیں چھوٹ ہے، پر دوسری پر نہیں“
مسند میں روایت ہوئی کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
”نظر شیطان کے ترکش کا ایک بہت کاری تیر ہے۔ پس جو شخص کسی عورت کے محاسن پر جا پڑنے والی نگاہ محض اللہ کے خوف سے نیچی کر لے گا اللہ اس کے دِل میں (ایمان کی) ایک ایسی مٹھاس بٹھائے گا کہ جس کا مزہ روز ملاقاتِ خدواندی کہیں نہ جائے گا“۔ یہ حدیث کا مفہوم ہے۔
اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:
”نگاہیں نیچی رکھا کرو اور عفت کا تحفظ کرو“
اسی طرح آپ ﷺ فرمایا:
”گزرگاہوں کے اندر براجمان ہو جانے سے اجتناب کرو“
صحابہؓ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! ہم (غریبوں) کو اس کے سوا بیٹھنے کی کوئی جگہ ہی میسر نہیں۔
فرمایا:
”ہاں تو اگر کوئی چارہ ہی نہیں تو گزرگاہ کو اس کا حق بہرحال دو۔
عرض کیا: گزرگاہ کا حق کیا ہے؟
فرمایا:
”نگاہیں نیچی رکھنا۔ اذیت روک کر رکھنا اور سلام لوٹانا“
٭٭٭٭٭
بیشتر نقصان جو انسان کے نفس کو لاحق ہوتے ہیں جس نقطے سے پیدا ہوئے ہوتے ہیں وہ ’نظر‘ ہی ہے۔ ’نگاہ‘ ’خیال‘ کو جنم دیتی ہے۔ ’خیال‘ ’سوچوں‘ میں ڈھلتا ہے۔ ’سوچیں‘ ’خواہش‘ کو وجود میں لاتی ہیں۔ ’خواہش‘ ’ارادے‘ کو جنم دیتی ہے۔ ’ارادہ‘ جان پکڑنے لگے تو رفتہ رفتہ ’عزم‘ بننے لگتا ہے.... یہاں تک کہ ’فعل‘ واقع ہو جاتا ہے!!! اِلاَّ یہ کہ فعل کے واقع ہونے میں کوئی اور چیز حائل ہو۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ نگاہ نیچی رکھنے پر صبر کر لینا اس سے کہیں آسان ہے کہ آدمی اس سے مابعد مراحل کی الم ناکی پر صبر کرے۔
نگاہ ایک ایسا تیر ہے جسے آدمی چلاتا ہے مگر وہ کسی اور پر نہیں خود اسی پر چلتا ہے۔ اب یہ تم پر ہے اس تیر کو کتنا تاک کر اور کتنا کھینچ کر چلاتے ہو!!!
ذرا سوچ لیا کرو تمہارے ڈھیلے جب تمہاری آنکھوں کی مچان میں گھوم گھوم کر نشانے تاک رہے ہوتے ہیں کہ یہ تمہیں کن کن خطروں کے منہ میں دے آنے کیلئے پر تولتے ہیں اور کیسی کیسی تباہ کن مہمات پر تم کو روانہ کرنے پر ہر وقت آمادہ رہتے ہیں!!!
’نگاہ‘ کے ہاتھوں تم کسی تیر کی طرح اپنے ہاتھ سے نکل جاتے ہو اور کیا بعید تم کبھی اپنے آپ کو پھر واپس نہ ملو....!!!
نظر کی آفتیں بے شمار ہیں۔ اب یہ کہ ہر ہر نگاہ تمہیں حسرتیں لا لا کر دے۔ کبھی ٹھنڈی آہیں بھرو۔ کبھی کسی ناقابل تکمیل خواہش پہ سو سو بار مرو۔ یعنی ایک چیز پر آدمی کو نہ قدرت اور نہ اس پر صبر۔ جبکہ خدا کی بخشش و ثواب اور خدا سے ملنے والے نعم البدل کی اُمید پہلے ہی نہ ہو۔ یہ اس نافرمانی کے عذاب کی پہلی نقد قسط ہے!!!
کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ آدمی نے نظر کا تیر چلایا اور اگلے ہی لمحے اُس نے اپنے آپ کو کسی خاردار جھاڑی کے اندر لہولہان پایا....!!!
نگاہ ایک ایسا نشتر ہے جو آدمی کے اپنے ہی دِل پر لگتا ہے۔ آدمی اپنے دِل پر خود اپنے ہاتھوں چرکا لگاتا ہے اور پھر شفا پانے کی آس میں بار بار اسی کا اعادہ کرتا ہے....!!!
اسی لئے کہا گیا ہے: نظروں پر قابو پانا حسرتوں کے دوام سے کہیں بہتر ہے“!!!
٭٭٭٭٭