’یہ کہ میری خامشی فکر ہو‘ |
آدمی کے اندر اتریں تو اس کو کہاں سے ٹٹولیں؟ کہاں سے پتہ چلے آدمی کا رخ سلامتی کے گھر کی طرف ہے یا بربادی کے کسی گڑھے کی جانب؟
آدمی خود اپنا یہ تعین کیونکر کرے؟
اس کا جواب کچھ اتنا مشکل نہیں۔ ذرا دیکھو تو.... تمہاری سوچوں کا دھارا پل پل تمہیں کس طرف کو لے جاتا ہے؟ خیالات کا بہاؤ کچھ کچھ دیر بعد تمہیں کس طرف کو کھینچ لے جاتا ہے؟ سوچیں اور امیدیں اور اندیشے کن باتوں کے گرد بکثرت گھومتے ہیں؟
انسان، عمل کے میدان میں تو محدود حد تک ہی چلتا ہے مگر سوچ اور تفکیر کے اسپِ تیز رفتار پر تو روز بہت دور دور تک گھوم آتا ہے۔ بہشت کی وادیوں کے راستے جن سوچوں اور اندیشوں اور فکروں سے پُر رہتے ہیں وہ کچھ لوگوں کیلئے بہت مانوس ہوتے ہیں تو کچھ کیلئے بہت اوپرے اور انہونے! انسان اپنے مقام کا تعین بس یہیں سے کر سکتا ہے!!!
’سوچیں‘ انسان کا ایک درست مگر مشکل امتحان ہیں۔ خیر اور شر کے راستے یہیں سے پھوٹتے ہیں تو یہیں سے الگ ہو جاتے ہیں۔ یہیں سے ’ارادے‘ جنم لیتے ہیں۔ یہیں سے ’عزائم‘ پرورش پاتے ہیں اور یہیں سے ’ہمتیں‘ وجود میں آتی ہیں۔ پس جو شخص یہاں پامرد ہے اور یہیں پر اپنی سمت پہ قابو پالیتا ہے وہ اپنا رخ پھر خود بناتا ہے اور اپنے نفس کی لگام اپنے ہاتھ میں کر لیتا ہے۔ اور جو یہاں نامردی دکھائے وہ آگے تمام راستہ اپنے ہویٰ ونفس کا غلام رہتا ہے۔ جو شخص ’یہاں‘ بے ہمت رہے، آگے تباہی کے بہت سے چھوٹے بڑے گڑھے اس کی ’آمد‘ کے منتظر رہتے ہیں۔
یہی سوچیں اور خیالات جب کسی بے کار سمت میں چلتے ہیں تو بہت جلد خام آرزوؤں میں ڈھل جاتے ہیں۔ ”ایک ایسے سراب کی مانند جسے ریت کے لق ودق میں ایک پیاسا جوئے آب سمجھ کر (چلتا) ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں ’پہنچتا‘ ہے تو کچھ بھی تو نہیں پاتا، البتہ خدا کو وہاں پاتا ہے جو اس کو اس کا پورا پورا حساب کردیتا ہے اور خدا تو ہے ہی سریع الحساب“ (1)
سب سے نامرد اور سب سے کمتر نفس وہ شخص ہے جو ’حقیقت‘ کی بجائے ’آرزو‘ پہ ریجھ جائے اور اسی کے چاؤ میں یہ مختصر زندگی تمام کردے۔ اس زندگی سے گزرتے وقت یہی __ یعنی خام آرزوئیں __ اس کا کل اثاثہ ہوں اور یہی اس کی وہ پونجی اور زیور جسے اس نے زندگی بھر جوڑ جوڑ کر اور سینت سینت کر رکھا ہو۔ اس سے بڑھ کر بھلا کوئی بدقسمت ہے؟ بخدا یہ مفلسوں کا رأس المال ہے اور قلاشوں کا سرمایۂ تجارت۔ یہ ان نیچ نفسوں کا زاد راہ ہے جو ’وصل‘ کی راہ میں مشقت اٹھانے کی بجائے ’سپنوں‘ میں ہی راحت پا لیتے ہیں اور جو ’حقیقت‘ کی لذت چھوڑ کر ’آرزو‘ سے ہی دل بہلا لیتے ہیں!!!
انسان کی نامرادی یہی ہے۔ آج سستی اور پس ہمتی ہے تو کل حسرت اور ندامت۔ صاحبو! آرزوؤں کی اسیری اور لایعنی اہداف سے وابستگی زندگی کی سانسوں کا بدترین مصرف ہے۔
نفس کی عظمت یہ ہے کہ آدمی ہر اس خیال سے بلند ہو جائے جس کی انتہا ’حقیقت‘ کی بجائے ’آرزو‘ پہ ہوتی ہو۔ احاطۂ خیال میں اس سوچ کا گزر دشوار کردے جو اسے دُنیا یا آخرت کی خیر نہ دلوا سکتی ہو۔
مومن کے وارے کی سوچیں وہی ہو سکتی ہیں جو ان چار صورتوں سے باہر نہ ہوں:
- یا وہ اس کو دُنیا کی خیر لا کر دیں
- یا وہ اس کو دُنیا کے نقصان سے تحفظ دیں
- یا وہ آخرت کے فائدے کریں
- یا وہ آخرت کے نقصان سے اس کا بچاؤ کریں
بندے کا کام ہے وہ اپنے گرد انہی چار فصیلوں کا حصار کھڑا کرلے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی سوچ کی ان چاروں جہتوں کو بیک وقت اکٹھا رکھے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی جہت ایسی نہیں جس سے وہ کسی وقت غافل ہو جائے۔ نہ دُنیا کا فائدہ اس کی نگاہ سے اوجھل ہو اور نہ دُنیا کے نقصان سے بچاؤ کو کبھی وہ کم اہم جانے، اگرچہ ’دینداری‘ کا محدود تصور اس سے کتنا ہی تقاضا کرے کہ وہ ان دو باتوں سے غافل ہوجائے.... اور پھر نہ ہی وہ کبھی آخرت کی خیر جمع کرنے سے غافل ہو اور نہ آخرت کے اپنے کسی نقصان سے لاپروا۔
ہاں البتہ ان چہار جہتوں کا بیک وقت مجتمع رہنا کسی وقت ممکن نہ رہے اور فکروں اور اندیشوں کے لشکر اس پر یوں حملہ آور ہوں کہ ہر سمت بیک وقت پورا اترنا اس کے بس میں نہ رہے.... تو پھر ضروری ہے کہ اہم سے اہم تر کو ترجیح دے اور اس جہت کو مقدم جانے جہاں نقصان ہو جانے کا سب سے بڑھ کر اندیشہ ہو۔
پھر، کسی وقت ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک بات ہو تو اہم تر، مگر اس کے چھوٹ جانے کا کچھ بہت اندیشہ نہ ہو۔ اور ایک بات ہو تو کم اہم، مگر اس کے جاتے رہنے کا اندیشہ زیادہ ہو۔ یوںایک پہلو سے ایک چیز کو مقدم رکھنا ضروری ہو تو ایک دوسرے پہلو سے دوسری چیز کو۔ اب یہاں ظاہر ہے معاملے کی پیچیدگی بڑھ جاتی ہے۔ اہم تر کو ترجیح دے تو کم اہم تو بالکل ہی ہاتھ سے گیا۔ کم اہم کو مقدم کر لے تو امکان ہے اہم تر ہاتھ سے چلا جائے۔ پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ دو بھلائیاں بیک وقت ہاتھ آنے کی ہی نہ ہوں، ایک کا حصول دوسرے کو کھوئے بغیر ممکن ہی نہ ہو۔ اب یہ ہے وہ اصل میدان جہاں آدمی کی عقل اور اس کی دانائی اور اس کے تفقہ کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ مقام جہاں رفعت پانے والے رفعت پا گئے اور کامیابی پانے والے کامیابی۔ یہ ہے وہ نقطہ جہاں ناکام رہنے والے درحقیقت ناکام اور نامراد رہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں تم بڑے بڑے دانائی کا زعم رکھنے والوں کو دیکھو گے کہ سونا ہاتھ سے دے کر مٹی لئے جاتے ہیں اور اعلیٰ کے بدلے ادنیٰ پہ فریفتہ ہوئے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس چیز سے بچتا تو کوئی بھی نہیں، پھر بھی کسی کو یہ خسارہ بڑا وافر ملتا ہے تو کسی کو نسبتاً کم۔
اس معاملے کا دارومدار البتہ اسی اصل بڑے قاعدے پر ہے جس پر دراصل پوری شریعت کا ہی دارومدار ہے اور جو کہ دانائی کی اصل اساس ہے: یعنی دو پیش آمدہ مصلحتوں میں سے، باوجودیکہ دونوں مصلحت ہیں، بڑی کو ترجیح دینا اگرچہ کم تر مصلحت اس سے فوت ہی ہوتی ہو۔ علاوہ ازیں دو مفسدتوں میں سے، باوجودیکہ دونوں مفسدت ہیں، چھوٹی کو اختیار کرلینا تاکہ بڑی میں آدمی بہرحال نہ پڑے۔ چنانچہ ایک مصلحت کو فوت کرلینا تاکہ اس سے بڑی مصلحت فوت نہ ہو اور ایک مفسدت یعنی بُرائی کو اختیار کر لینا تاکہ اس سے بڑی میں آدمی بہرحال نہ جا پڑے.... یہی آدمی کی سمجھ کا اصل امتحان ہے۔
چنانچہ آدمی کے تفکرات اس ڈھب پہ ہونے چاہیں اور اس قاعدہ سے ہرگز تجاوز نہ ہونا چاہیے۔ دُنیا اور آخرت کے سب مصالح اسی پر سہارا کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
سب سے اعلیٰ ونفیس سوچ وہ ہے جو خدا اور یوم آخرت سے وابستہ ہو۔ کسی سوچ کی بلندی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ آدمی کو کس سمت میں لے کر جانے والی ہے۔ آدمی کا مول دراصل یہیں پر لگتا ہے!!!
خدا سے وابستہ سوچیں طرح طرح کی ہو سکتی ہیں:
- ایک یہ کہ آدمی خدا کی نازل کردہ کسی آیت کی بابت سوچنے میں محو ہو۔ خدا کی اس سے جو منشا اورمراد ہو سکتی ہے اس کیلئے اپنے احاطۂ فہم میں وہ زیادہ سے زیادہ گنجائش نکالنے کی سعی کر رہا ہو۔ خدا نے اپنی آیتیں اس کی ہدایت کیلئے اتار رکھی ہیں تو وہ محض تلاوت کئے جانے کیلئے نہیں۔ تلاوت وسیلہ ہے نہ کہ غایت۔ سلف میں سے کسی کا قول ہے: خدا نے قرآن نازل کیا کہ اسے پڑھ کر ’عمل‘ برآمد ہو۔ لوگوں نے اس کو پڑھ لینا ہی ’عمل‘ سمجھ لیا!
- دوسرا یہ کہ خدا کی کسی کائناتی آیت کی بابت سوچے اور اُس پر غور وفکر کرنے میں محو ہو۔ اس سے آدمی خدا کے اسماءوصفات پراستدلال کرے۔ اس میں خدا کی حکمت ودانائی کی داد دے۔ اس میں خدا کے احسان کا اندازہ کرے۔ خدا کی صناعی کا بار بار معترف ہو۔ خدا کے جود وسخا کو بار بار نگاہ میں لائے اور اس کی مہربانی کا خوب خوب اندازہ کرے۔ کائنات میں خدا نے اپنی یہ نشانیاں تو ہر طرف بکھیر دی ہیں اور جہان کو اس سے حسن اور توازن بھی خوب دیا ہے اور اس کو زندگی اور وجود کا وافر سامان بھی بنا دیا ہے۔ ان کو برتتا بھی ہر ایک ہے خواہ یہ خالی ’استعمال‘ کی صورت میں ہو اور خواہ ’سائنسی استفادہ‘ کی صورت میں۔ البتہ خدا نے ’اپنے خاص بندے‘ ان لوگوں کو کہا ہے جن کیلئے یہ واقعتا خدا کی ’نشانیاں‘ بن جائیں، یعنی جو ان کے ذریعے خدا تک پہنچیں اور ان نشانات کے پیچھے خدا کی صفات کو کار فرما دیکھیں اور یوں خدا کی ان تخلیقات پر، جن کو خدا نے اپنی آیات کہا ہے، بار بار تدبر کریں.... اور یوں ہر روز خدا کی جانب ایک منزل بڑھیں۔ جبکہ اس غافل شخص کو، جو کائنات میں بکھرے ان نشانات میں کوئی پیغام نہیں پڑھتا، خدا نے قابل مذمت گردانا ہے۔
(2)”کیا تم دیکھتے نہیں: اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے۔ اس کے ذریعے سے پھر ہم طرح طرح کے مختلف رنگتوں کے پھل نکال لاتے ہیں۔ پہاڑوں (کو دیکھو) کہیں سفید دھاریاں ہیں کہیں سرخ اور کہیں گہری سیاہ۔ مختلف رنگتیں ہیں۔ انسانوں اور چوپایوں اور مویشیوں (کو دیکھو کیسی کیسی) مختلف رنگتیں ہیں۔خدا سے ڈرنے والے تو اصل میں وہی لوگ ہیں جو ’علم‘ رکھتے ہیں“۔
_ تیسرا یہ کہ خدا کے احسانات کو توجہ کا مرکز بنائے۔ خدا کی نعمتوں پر مکرر غور کرے۔ اس کائنات کو بنانے اور چلانے والے کو مخلوق کی ضرورتوں کا جس طرح پاس ہے، یہ بات اس کو بار بار متوجہ کرے۔ خدا کی رحمت اور مغفرت کی وسعت کی جانب آدمی کی نگاہ جائے اور بندوں کے ساتھ خدا کی بردباری اس کو بار بار حیران کرے۔
غور وفکر کی یہ تین جہتیں ایسی ہیں کہ آدمی ان کو توجہ دے تو یہ اس کے دِل میں خدا کی معرفت اور محبت کا ایک سیلاب لے آسکتی ہیں۔ خدا کے معاملہ میں یہاں خوف اور اُمید کا وہ نقطۂ مطلوب آسکتا ہے جو اس کے وجود کو مجسم عبادت بنا دے۔ اور اگر کبھی ایسا ہو جائے کہ آدمی کی سوچوں پہ یہ تین جہتیں حاوی ہی ہو جائیں اور یوں آدمی کے ’ذکر‘ میں یہی احساسات عمل پذیر ہوں، تب تو معرفت اور محبت کے بحر میں اس کا دل یوں غوطے لیتا ہے کہ خدا کے رنگ کے سوا اس پر کوئی رنگ ہی باقی نہیں رہتا۔
- چوتھا یہ کہ آدمی اپنے نفس کے عیوب پر غور کرے۔ اپنے نفس کی آفتوں کی بابت سوچے۔ اپنے عمل کے عیب بار بار نگاہ میں لائے۔ اپنی نیکیوں کے نقائص پہ متوجہ ہو اور اپنے گناہوں کو یاد کرے۔ سوچ کا یہ دھارا کیسے کیسے انمول فوائد لا کر دیتا ہے، یہ آدمی کے اندازے سے بھی باہر ہے۔ یوں سمجھئے یہ ایک ایسا دروازہ ہے جو ہر ہر خیر کی جانب کھلتا ہے۔ نفسِ امارہ، یعنی نفس کا وہ پہلو جو انسان کو بُرے انجام کی جانب اٹھا کر بھاگتا ہے، اس نفسِ امارہ کو کچلنے میں اس عمل کی افادیت بے مثال ہے۔ نفس کے اس پہلو کو کچل دیا جائے تو نفس مطمئنہ، یعنی نفس کا وہ پہلو جو اس کو خیر کی جانب کشاں کشاں لئے چلتا ہے، خوب پھلتا پھولتا اور آگے سے آگے ترقی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ انسان کی باگ ڈور نفس مطمئنہ ہی کے ہاتھ میں آ رہتی ہے۔ تب دِل میں ہر دم ایمان کی سرسبزی اور یقین کی شادابی رہتی ہے۔ مملکت دِل میں خیر کی باقاعدہ حکومت ہو جاتی ہے اور خیر کے ہر کارے یہاں ہر طرف دَوڑتے اور مملکت کی فلاح وبہبود کے انتظام میں چوکس اور مستعد پھرتے نظر آتے ہیں۔
- پانچواں یہ کہ آدمی اس فرض کی بابت سوچے جو عین اس لمحے اس سے مطلوب ہے۔ یوں ’فریضۂ وقت‘ ہی اس کی سوچوں پہ حاوی ہو اور اس کی کل توجہ اس پر مرکوز ہو جائے۔ صاحبِ معرفت ہم اس شخص کو کہیں گے جو ہر کام کیلئے درست وقت کا علم رکھے اور ہر وقت کیلئے درست کام کا۔ دانا وہ شخص ہے جو وقت کو سنبھال لے اور نادان وہ جسے وقت سنبھالے! عارف وہ ہے جو وقت کو چلائے اور عاجز وہ جسے و قت چلائے! آدمی جس لمحے میں ہے عین اس لمحے کے فرض سے غافل ہو جائے تو سب مصالح اور سب نیکیاں اس کی زندگی میں درہم برہم ہو جاتی ہیں۔ مصالح جہاں سے انجام پاتے ہیں وہ ہے ’اوقات کا درست تعین‘۔ حکمت کا یہ سرا اس سے چھوٹ جائے تو سمجھو سب کچھ اس سے چھوٹ گیا....!
امام شافعی کہتے ہیں: میں نے صوفیہ کی مصاحبت میں ایک وقت گزارا۔ ان دو باتوں کے سوا ان سے کچھ فائدہ نہ پایا: ایک یہ کہ: وقت تلوار ہے، اگر تم اسے نہیں چلاتے تو یہ تم پر چل جائے گی۔ اور دوسری یہ کہ: یہ تمہارا جو نفس ہے تم اسے اگر خیر میں مصروف نہیں کر لیتے تو یہ تمہیں شر میں مصروف کرلے گا۔
پس انسان کا ’وقت‘ ہی دراصل انسان کی ’عمر‘ ہے۔ انسان کو اگر اپنے ہاں پائے جانے والے اس اصل ’عنصر‘ کا تعین کرنا ہے جو صورت بدل کر ایک حیات ابدی میں مسلسل ڈھل جاتا ہے اور جوکہ اصل بیج ہے یا تو بہشت کے لافانی جہان کا اور یا پھر دوزخ کی لامتناہی زندگی کا، تو وہ اصل ’عنصر‘ اور اصل ’بیج‘ اس کا وہ ’وقت‘ ہی ہے جو آج اسے بے پناہ حاصل ہے۔ یہ وقت ہی ہے جو بادل کی طرح بھاگ رہا ہے اور کچھ معلوم نہیں کب روپوش ہو جائے۔ پس اس کے اس ’وقت‘ کا وہ حصہ جو خدا کیلئے اور خدا کے ساتھ گزرا، اس کی اصل ’عمر‘ اور اصل ’زندگی‘ بس وہی ہے۔ باقی ماندہ وقت اس کی ’عمر‘ میں شمار نہیں۔ ایسے وقت کا کیا شمار جو چوپایوں کی طرح گزرا ہو؟ ایسے وقت کا کیا مول لگے جو بے مقصد اور بے سمت گزر گیا ہو اور جو صرف آرزوئیں پالنے کے کام آیا ہو؟ وقت سے بھلی چیز کیا کسی کے پاس ہوسکتی ہے؟ اس سے بڑھ کر نایاب چیز کیا کبھی پائی گئی ہے؟ مگر دیکھ لیجئے کتنے ہیں جن کے پاس اس کا کوئی مصرف نہیں؟! کتنے ہیں جن کی زندگی کے وہ لمحات ہی خدا کی میزان میں سب سے بہتر یا سب سے کم ضرر لمحات شمار ہوں جو خیر سے نیند میں گزر گئے ہوں!؟ ذرا غور تو کرو، حساب دینے میں جس کی نیند کے لمحات اس کی بیداری کے لمحات سے بہتر یا کم ضرر ہوں، اس کی موت اس کی زندگی سے بہتر کیوں نہ ہو؟!
بندہ نماز تک کی حالت میں ہوتا ہے تب بھی بندے کے حق میں نماز کا صرف وہ حصہ شمار ہوتا ہے جس میں اس کا شعور خدا کی جانب متوجہ رہا.... تو پھر ’عمر‘ کا بھی صرف وہی حصہ شمار ہونے والا ہے جو خدا کیلئے اور خدا کے ساتھ گزرا۔ خدا کے ماسوا سب حوالے جو اس کی سوچوں کو مصروف کریں اور اس کی تفکیر پہ حاوی ہوں اس کی ’عمر‘ شمار نہ ہوں گے۔ یہ شیطان کے وسوسے ہیں اور یا پھر خام آرزوئیں اور بڑھتے اور پھیلتے چلے جانے والے فریب.... جن کا کچھ مول پڑنے والا نہیں.... اور ’مول‘ کے بغیر کچھ ملنے والا نہیں!
٭٭٭٭٭
یہ بھی جان لو کہ کوچۂ خیال سے کسی سوچ کا محض گزر ہو جانا ضرر رساں نہیں۔ ضرر رساں وہ اس وقت ہوتی ہے جب تم اسے ذہن کی نشست گاہ میں براجمان کر لیتے ہو اور اس سے باقاعدہ ’محو گفتگو‘ ہو جاتے ہو۔
سوچیں، خیالات، وسوسے آتے جاتے تو مسلسل رہتے ہیں مگر ان کے ساتھ ایک راہ گیرکا سا برتاؤ کرنا چاہیے۔ اس ’راہ گیر‘ کو ’توجہ‘ نہ دو تو وہ آپ اپنی سمت چلا جاتا اور آخرکار روپوش ہو جاتا ہے۔ ہاں اسے بیٹھنے کیلئے کہہ دو پھر ضرور ہوسکتا ہے وہ تمہارے پاس بیٹھ جائے اور پھر بیٹھا ہی رہے اور اپنی مسحور کن باتوں اور اداؤں سے تمہیں زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ الجھائے۔ اس صورت میں ضرور ممکن ہے کہ اب اس گھر آئے مہمان کو دھکے دے کر نکالنا تمہارے لئے دشوار ہو جائے.... لیکن اس کے ہاتھوں لٹ جانے کی نسبت یہ پھر بھی وارے کا ہے۔
پس یہ ابتدائی لمحہ سب سے اہم ہے اور سب سے زیادہ فیصلہ کن۔ ناروا سوچ ابتدا میں اپنا آپ خود بتاتی ہے۔ ایک عالی ہمت اور بلند عزم انسان پر اس کو گھاس ڈالنا بہت گراں گزرتا ہے اور انسان اپنی اس حالت کو آپ محسوس کئے بغیر نہیں رہتا۔ البتہ ایک کھوکھلے اور بے مقصد نفس کو اس کا بار کچھ زیادہ محسوس نہیں ہوتا۔ پھر بھی انسان کے اندر تنبیہ کرنے والے بہت سے آلات نصب رہتے ہیں۔
خدا نے انسان کی ذات میں دو نفس فٹ کئے ہیں: نفس امارہ اور نفس مطمئنہ۔ یہ دونوں اپنی فطرت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جو چیز ایک پر گراں گزرتی ہے وہ دوسرے کو آرام دیتی ہے۔ جو چیز ایک کو لطف دیتی ہے وہ دوسرے کو بدمزہ کرتی ہے۔ نفسِ امارہ پر اس سے بڑھ کر کوئی چیز گراں نہیں کہ انسان کا عمل خدا کیلئے ہو اور یہ کہ خدا کی رضا کو اس کی ھویٰ پر ترجیح ملے۔ حالانکہ اس سے بڑھ کر کوئی چیز بھی اس کیلئے نفع بخش نہیں۔ دوسری جانب، نفس مطمئنہ پر کوئی چیز بھی اس سے بڑھ کر گراں نہیں کہ عمل کی غایت خدا کے کچھ ماسوا ہو اور یہ کہ اس کی اپنی خواہش کو خدا کی رضا پر ترجیح ملے۔ جبکہ اس سے بڑھ کر اس کے لئے کوئی چیز بھی مہلک وضرر رساں نہیں۔ اِدھر دائیں جانب سے فرشتہ اِس کی مدد کو موجود رہتا ہے اُدھر بائیں جانب سے شیطان اُس کی مدد پر مستعد رہتا ہے۔ بات بات پر دونوں میں جنگ چھڑتی ہے۔ لڑائی بھڑائی کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی، تاآنکہ انسان کا وقت ہی دُنیا میں پورا نہ ہو جائے۔ باطل اور شر، ماحول میں جتنا بھی میسر ہو، شیطان اور اَمارہ کی پشت پر آجاتا ہے۔ حق اور خیر جس قدر بھی میسر ہو، فرشتے اور مطمئنہ کی اعانت کرتا ہے۔ جنگ میں کبھی ایک کی جیت ہوتی ہے تو کبھی دوسرے کی، البتہ سلسلۂ جنگ کبھی نہیں تھمتا۔ جیت آخرکار صبر کی ہوتی ہے، جو یہاں صابر رہتا ہے اور خیر کو ہی اپنے اوپر طاری کئے رہتا ہے اور خدا کا تقویٰ کسی وقت ہاتھ سے چھوڑنے کا روادار نہیں ہوتا اس کو فیصلہ کن جیت ملتی ہے۔ آخری جیت اسے دنیا میں ملتی ہے اور انجامِ خیر آخرت میں۔ خدا نے اس جنگ کے نتیجے کی پیشگی خبر کر دی ہے اور خدا کی بات لازماً سچ ثابت ہوگی۔ فرمایا: وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى۔ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ۔
میدان تقویٰ کے ہاتھ رہتا ہے، بشرطیکہ اختیار کر لیا گیا ہو!!!
’دِل‘ دراصل ایک لوح ہے اور ’خیالات وافکار‘ وہ نقوش جو ذرا چھوڑ دیئے جائیں تو اس لوح پر ثبت ہو جاتے ہیں اور بالآخر گہرے ہو جاتے ہیں۔ اب ایک دانا کیونکر روادار ہو سکتا ہے کہ اس کے دِل کی لوح پر روز جو نقش ثبت ہوتے ہوں وہ سب کے سب بے حقیقت سراب ہوں اور خام آرزوئیں اور دروغ اور فریب کے تانے بانے؟ جس دِل میں سراب اور آرزو نقش ہوں اس میں حکمت اور دانائی اور علم اور ہدایت کے نقش بھلا کیونکر بیٹھیں گے؟ آدمی وہاں زور لگا کر علم اور ہدایت کے نقش بٹھانے بھی لگے تو وہ ایک ایسی لوح پر کام کی بات لکھنے کے مترادف ہے جو بے کار تحریروں سے پہلے ہی بھری پڑی ہو۔ پس اگر اس لوح سے بے کار نقش ہی سب سے پہلے کھرچ نہیں دیئے جاتے اور جب تک دِل کی اس سرزمین کو بے مقصد خیالوں کے قبضہ سے واگزار نہیں کرا لیا جاتا تب تلک اس پر کارآمد اور نفع بخش خیالات کی چھاپ نہ لگ سکے گی۔ ایک بے کار بات تو کہیں بھی سما سکتی ہے مگر کارآمد چیز تو اپنے سمانے اور فائدہ مند ہونے کیلئے سب سے پہلے ’مناسب جگہ‘ مانگتی ہے۔
اور چیزوں کا معاملہ اور ہوگا۔ ’محبت‘ تو کہیں بٹھائی ہی نہیں جا سکتی جب تک اور ’چیزیں‘ وہاں سے اٹھا نہ دی جائیں۔ ’محبت‘ اور ’طلب‘ اگر خدا کی کرانا مقصود ہو پھر تو یہ کہیں ضروری ہو جاتا ہے کہ خیالاتِ لغو سے سرزمین دِل کا خاص تحفظ ہو۔
چنانچہ اربابِ سلوک کو یہ بات نصیب ہوئی ہے کہ وہ عین اس نقطے کا تعین کر لیں اور وہیں پر پہرے بٹھا دیں جہاں سے معاملے کی ابتدا ہوتی ہے.... اور یہ ہے ’خیالات‘ اور ’تفکرات‘ کی دُنیا۔ چنانچہ وہ یہیں پر چوکس ہو جاتے ہیں اور خیالاتِ بد سے اپنا پورا تحفظ کرتے ہیں۔ بے کار سوچیں اپنے آپ سے دور کرتے ہیں۔ اپنی سوچ کی سب توانائیاں نیک مقاصد اور اچھی دلچسپیوں پر مرکوز کر دیتے ہیں۔ اپنے شعور کو خدا کی رضا کی سمت میں ہی دوڑاتے چلے جاتے ہیں اور اپنی طلب اور چاہت کو خدا کیلئے زیادہ سے زیادہ نکھارتے اور سنوارتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ دِل آئینے ایسے شفاف ہو جاتے ہیں، جہاں پھر صرف ’حقائق‘ ہی کے عکس نظر آئیں! عُلوی حقائق کا کشف اور ظہور ایسے ہی قلوب پر ہو سکتا ہے نہ کہ ان قلوب پر جو لغویات سے چپکے رہیں، فضولیات کی طلب میں پراگندہ رہیں اور فانی وارضی اہداف پر ہی فریفتہ ہوں!!!
تاہم اصحابِ سلوک یہاں ایک انحراف کا بھی شکار ہو جاتے ہیں....
یہ ایک بات یاد رکھتے ہیں تو کئی باتیں بھلا بیٹھتے ہیں۔ ’اَشغالِ دُنیا‘ سے دِل کی سرزمین خالی کراتے کراتے یہ ہر چیز سے ہی دِل کو خالی کرا بیٹھتے ہیں! شیطان یہاں جگہ خالی پاتا ہے تو وہاں باطل کے کچھ ایسے بیج بو دیتا ہے جن کو یہ لوگ عُلوی اور سماواتی جانتے ہیں جبکہ یہ وہ مواد نہیں ہوتا جو انبیاءکے لائے ہوئے علم اور ہدایت سے عبارت ہو!!!
معاملہ دراصل یہ ہے کہ شیطان ہر دِل میں باطل کی وہی فصل بوتا ہے جسے اس کی طبیعت اور مزاج قبول کر لینے والا ہو۔ ضروری نہیں شیطان ہر دِل میں فواحش اور سفلی خیالات ہی پیدا کرے۔ کچھ لوگوں کو شیطان ’اِخلاص‘ اور ’اِرادت‘ کی راہ دکھاتا ہے اور وہ دُنیا کے سب علائق سے دستبردار بھی ہو جاتے ہیں مگر یہاں وہ ان افکار کو نہیں آنے دیتا جو درحقیقت ان دلوں پہ حاوی ہونے چاہیں اور جن کے ذریعے سے ہی دُنیا اور آخرت کی مرادیں پائی جا سکتی ہیں۔ یہ خدا کے شرعی مرادات ہیں اور اس کے اوامر ونواہی جن میں اس کی رضا پوشیدہ ہے اور باطل کے خلاف جہاد کا وہ مسلسل عمل جس میں دُنیا وآخرت کی سب خیر رکھ دی گئی ہے۔ خدا کو یہ باقاعدہ طور پر مطلوب ہے کہ قلبِ مومن خدا کی شریعت اور خدا کے راستے کی سب وادیوں کے ساتھ مشغول ومنسلک رہے۔ خدا کی طرف سے جو دین اترا ہے اس کے علم اورمعرفت اور اس سے بہ تفصیل آگاہی میں مومن کا دِل برابر مصروف رہے۔ مخلوق میں اس دین کے قیام اور تنصیب کی جانب برابر توجہ رہے۔ آدمی اس کی نصرت کی ہر دم تدبیریں کرے اورمعاشرے میں شریعت کے قیام و سربلندی کیلئے معاشرے کے عین بیچ میں رہے۔ مگر شیطان نے ان کو کیا پٹی پڑھائی کہ یہ سب کچھ ان کے ہاں متروک ٹھہرا ہے۔ ’زہد‘ کے نام پر اور ’دُنیا‘ کے خیالات وتفکرات سے دامن جھاڑ لینے کے پردے میں شیطان نے ان کو ان بہت سے نیک خواطر اور بابرکت تفکرات سے محروم کردیا جو دراصل ایک صاحبِ بصیرت کیلئے توشۂ آخرت ہیں۔ شیطان نے ان کو یہ وہم ڈال دیا کہ ’کامل‘ ہونے کیلئے دُنیا کے ان سب ہنگاموں سے نکل آنا ضروری ہے اور ان سب سوچوں سے فراغت پا لینا ہی ’اِخلاص‘ اور ’تجرد‘ ہے! مگر کہاں!!! اِس چیز کو اُس بات سے کیا تعلق!!!؟
’کامل‘ وہ دِل ہے جس میں ’خیالات‘ اور ’افکار‘ اور ’ارادوں‘، اور ’تفکرات‘ کا تانتا بندھا رہے اور وہ خدا کی خوشنودی کے راستوں میں عمل اور جہاد کی سوچوں سے لدا ہوا مسلسل بڑھتا جائے۔ خیر کے اتنے منصوبے اور پروگرام لے کر وہ معاشرے سے گزرتا ہو جن کو اٹھانے کو ایک عزمِ بلند درکار ہو!!!!!
سب سے کامل شخص وہ ہے جو سوچیں اور ارادے اور عزائم رکھنے میں بھرپور ہو البتہ یہ سب سوچیں اور یہ سب ارادے اور یہ سب عزائم اللہ اور یوم آخرت سے وابستہ ہوں۔ سب سے ناقص شخص وہ ہے جس کی سوچیں اور ارادے اورعزائم اس کے اپنے ہی نفس کا حظ ہوں اور اس کی اپنی ہی خواہش کی تسکین!!!!!
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں عمرؓ بن الخطاب ہمیشہ خواطرِ حق اورمشاغلِ خیر سے لدے رہتے تھے، جبکہ یہ سب خواطر اورمشاغل خدا کو خوش اور باطل کو زیر کرنے کی راہوں سے وابستہ تھے۔ یہاں تک کہ کسی وقت وہ آپؓ پر نماز میں بھی وارد ہو جاتے تھے۔ آپؓ دوران نماز بعض اوقات ذہن میں لشکرِ جہاد کی ترتیب دے لیتے تھے۔ یوں جہاد اور صلوٰة آپؓ کے ہاں کسی وقت یکجا ہو جاتے۔ یہ دراصل کئی عبادتوں کو ایک عبادت میں جمع کر لینا ہے جو کہ علم وفقہ کا ایک نہایت برگزیدہ باب ہے اور سوائے ایک طالبِ صادق اور مردِ حاذق کے ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ علم کا ایک بلند مقام ہے جس میں آدمی ایک عبادت کے اندر داخل ہوتا ہے تو وہاں کئی کئی عبادتیں کر آتا ہے۔ یہ خدا کا فضل ہے اور وہ جسے چاہے دیتا ہے۔
٭٭٭٭٭
(1) اشارہ ہے سورة النور کی آیت 39 کی طرف
(2) اشارہ ہے آیت کی طرف:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَاتٍ مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهَا وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ. وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَلِكَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء. (فاطر: 27۔ 28)