میری خامشی فکر ہو، |
اور میرا بولنا ذکر ، |
اور میرا دیکھنا عبرت |
اور میرا چلنا جہاد....!!! |
”وہ نظروں کی خیانت جان جاتا ہے اور سینوں کے راز اُس پر عیاں ہوتے ہیں“
مسئلے کا آغاز چونکہ ’ نگاہ‘ سے ہوتا ہے، ہم دیکھتے ہیں قرآن میں غضِ بصر کا ذکر حفظِ فرج سے پہلے آتا ہے....
حادثے جب بھی ہوتے ہیں ابتدا نگاہوں سے ہوئی ہوتی ہے....
زیادہ تر ’آگ‘ چھوٹی چھوٹی ’چنگاریوں‘ سے بھڑکی ہوتی ہے جو کہ بالآخر آدمی کو اپنی زد میں لے لیتی ہے۔ ’نگاہ‘ اٹھتی ہے۔ پھر ’خیال‘ آجاتا ہے، پھر ’قدم‘ اٹھ جاتے ہیں اور پھر ’گناہ‘ ہو جاتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے:
جو شخص ان چار محاذوں پر پہرے بٹھا لے اس کا دِین محفوظ ہو جاتا ہے:
نگاہیں، خیالات، کلمات اور اِقدامات
آدمی کو چاہیے وہ ان چار دروازوں پر آپ ہی اپنے نفس کا پہرہ دار بن کر کھڑا رہے۔ ان چاروں جہتوں سے جہاں کہیں کوئی رخنہ آجانے کی صورت بنے وہیں پر فوری ترین کارروائی کرڈالے۔ یہ طے ہے ’چور‘ جب بھی داخل ہوگا یہیں کسی راستے سے سرک کر اندر آئے گا۔ البتہ اگر اسے اپنی ’افواج‘ اندر لے آنے دیا گیا تب ضرور وہ یہاں کا سب کچھ تلپٹ کر جائے گا اور یہاں کی سب خوبصورت تعمیرات کو خاک میں ملا ڈالے گا۔
پس زیادہ تر گناہوں کو نفس کی دُنیا میں در آنے کیلئے راستہ انہی چار دروازوں سے ملتا ہے۔ آئندہ صفحات میں ہم اِن میں سے ہر ایک کی بابت علیحدہ علیحدہ کچھ گفتگو کریں گے۔
یہ اردو استفادہ ہے ابن القیمؒ کے کلام سے، کتاب ہے الجواب الکافی لمن سأل عن الدواءالشافی
٭٭٭٭٭