عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
EmanKaSabaq آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
معاتبۂ نفس
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

معاتبۂ نفس

 

خوب جان لو کہ تمہارا جو سب سے بڑا دشمن ہے دراصل وہ تمہارے ہی اندر براجمان ہے۔ یہ تمہارا نفس ہے۔ اس کو پیدا ہی کچھ اس ڈھب پر کیا گیا کہ یہ أمَّارَۃّ بِالسُّوءہو۔ یعنی یہ تمہیں کھینچ کھینچ کر بدی کی جانب لے کر جائے، شر کی جانب بے قابو ہو ہو کر بھاگے اور خیر سے ہر صورت کترائے۔

جبکہ تمہیں اِس کی بابت جو حکم دے رکھا گیا ہے وہ یہ کہ اس کا تزکیہ کرو۔ اِس کو قابو میں رکھو۔ اِس کو سدھاؤ اور سنوارو۔ اِس کو درست رکھنے پر خوب محنت کرو اور بجائے اِس کے کہ یہ تمہیں کھینچ کر اپنی مرضی کی کسی سمت میں لے جائے اور بربادی کے کسی گڑھے میں پھینک آئے، تم اِس کی مہار تھام کر اِس کو اُس مہربان ذات کی جانب لے کر بڑھو اور اُس کی بارگاہِ عظمت میں باریاب کراؤ جس نے اِس کو پیدا کیا ہے اور جس نے اِس کو خواہشات و شہوات کی اندھی پیروی سے منع کر رکھا ہے اور اِس پر یہ آزمائش عائد کر دی ہے کہ یہ اپنے منہ کو لگی لذتوں کو، جب وہ اُس ذاتِ کبریاءکو ناراض کر دینے والی ہوں، یوں چھوڑ دے جیسے لاڈلے بچے کے منہ کو لگا دودھ چھڑا دیا جاتا ہے۔

اب اگر تم اسے اس کے اپنے حال پر چھوڑ دیتے ہو تو یہ خود سر ہو رہے گا۔ یہاں تک کہ یہ تمہارے قابو کا ہی نہ رہے گا۔ پھر تم چاہو بھی تو یہ تمہارے کہنے میں نہ آئے گا۔ بلکہ الٹا یہ تمہی کو اپنی منوانے لگے گا، یہاں تک کہ تمام تر ہوش اور خرد کے مالک ہوتے ہوئے تم ہی اِس عاقبت نا اندیش کے تابع اور غلام بن رہو گے۔

البتہ اگر تم اس کو سدھانے پر خوب محنت کرلو، اس کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہو، سرکشی پر اس کا پورا مؤاخذہ کیا کرو، اور نافرمانی و سرتابی پر اس کو سرزنش کرنے میں ہرگز کوتاہی نہ برتو، تو بھلا کیا ہوگا؟ تب یہی نفس، نفسِ لوَّامۃ بن جائے گا، جس کی برگزیدگی کے کیا کہنے، خدا خود اس کی قسم اٹھاتا ہے: وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ!

نہ صرف یہ، بلکہ اس راہ میں آگے بڑھتے بڑھتے یہ تک امید ہو چلے گی کہ یہ نفس اس سے بھی ایک درجہ بلند جا کر نفسِ مطمئنۃ بن جائے.... اور نفسِ مطمئنہ کے تو کیا ہی کہنے، اس کو تو دعوتیں ملیں گی کہ: دنیا کا کام مشقت ختم کرکے ’آ پلٹ آ اپنے پروردگار کے پاس، تو مالک سے راضی اور مالک تجھ سے، تو اب آ شامل ہوجا میرے (پسندیدہ) بندوں میں اور پیر رکھ لے میری جنت میں‘!!!

پس کوئی ایک گھڑی بھی اس بات سے غافل نہ رہو کہ تم اپنے اس نفس کو اس کی اوقات یاد دلاتے اور اس کا فرض اس کے ذہن نشین کراتے رہو۔ جب بھی یہ بندگی سے بھاگے، اس پر خوب عتاب ظاہر کرو۔ اور ہرگز کسی دوسرے کو سمجھانے میں نہ لگ جاؤ جب تک کہ اپنے اس نفس کو ہی نہ سمجھا لو۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی تھی: ”اے ابن مریم!اپنے نفس کو نصیحت کرو، اگر یہ نصیحت لے لے تو پھر لوگوں کو نصیحت کرنے لگو، ورنہ میری شرم کئے رہو“۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ ”اور نصیحت کرو، بے شک نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے“۔ پس نفس کو نصیحت کرنے کا طریقہ یہ ہوگاکہ تم اس کی جانب متوجہ ہو جاؤ۔ پھر تم اس کو باور کرا دو کہ اے نفس تو نرا جاہل ہے اور حد درجہ نادان بھی۔ اور تو اور، اپنے آپ کو نادان کہا جانے پر تجھے اپنی ذہانت اور فطانت کا غرور تنگ کرنے لگتا ہے اور جہالت کا الزام سن کر تیری گردن تن جاتی ہے۔

پس لازم ہے کہ تم اپنے نفس کو یہ سنتے رہنے پر مجبور کر دو کہ:

اے نفس، تو کس قدر جاہل ہے؟! تجھے زعم ہے دانائی کا اور ذہانت اور خرد مندی کا، مگر تیری کند فہمی اور کوتاہ نظری ہر ایک سے بڑھ کر ہے۔ کیا تو جانتا نہیں ہے کہ تیرے آگے، جہاں تیری یہ دنیا ختم ہوتی ہے، یا تو دائمی بہشت ہے اور یا ابدی دوزخ، دونوں میں سے کسی ایک میں تو عنقریب پہنچ کر دم لینے والاہے۔ پھر بھی تیرے قہقہے نہیں تھمتے۔ ہنس ہنس کر برا حال ہوا جاتا ہے۔ شغل میلہ ہی ختم ہونے میں نہیں آتا۔ کیسا بڑا فیصلہ ہے جو تمہارے بارے میں ہونے جارہا ہے اور تم کس بے پروائی سے یہاں کھیل تماشے میں مگن ہو! اور وہ قیامت کا وقت چلو جتنا بھی دور ہو، تمہارا اپنا کیا پتہ پکڑنے والوں کے نرغے میں تم تو آج آجاؤ یا کل؟! تمہاری حالت کو دیکھ کر کب یہ لگتا ہے کہ موت تمہیں کہیں قریب قریب نظر بھی آتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ موت کو تمہارے بہت قریب دیکھتا ہے۔

اے نفس! کیا تو جانتا نہیں کہ ہر وہ چیز جسے آکر رہنا ہے وہ درحقیقت نزدیک ہی ہے۔ دور صرف وہ چیز ہے جسے کبھی نہیں آنا۔ کیا تجھے پتہ نہیں کہ موت جب بھی آتی ہے اچانک ہی آ پکڑتی ہے، موت نے آج تک کسی کو اپنے آنے کی خبر دینے کیلئے قاصد نہیں بھیجا۔ کسی کو ٹائم نہیں دیا اور کسی کو اپنی جگہ نہیں بتائی۔ کیا تونے دیکھا ہے کہ موت جوانوں کو چھوڑتی ہو اور صرف بوڑھوں کو اٹھاتی ہو؟ ایک جگہ سے اس کا گزر ہوتا ہو اور دوسری جگہ وہ پیر دھرنے سے گریزاں ہو؟ موت نے کبھی گرمی کی پروا کی ہے اور نہ جاڑے کی۔ دن کا فرق کیا ہے اور نہ رات کا۔ بچپن کا اور نہ بڑھاپے کا۔ کوئی بھی سانس جو تم لیتے ہو کیا معلوم موت کی سانس ہو۔ اتنے دانا ہو تو کیوں اس موت کیلئے تیاری میں مصروف نظر نہیں آتے؟ حالانکہ تم سے قریب ترین کوئی چیز ہے تو وہ موت ہی ہے۔ پھر، کیا تو اپنے مالک کے اس فرمان پر غور نہیں کرتا:

اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مَّعْرِضُونَ۔ مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مَّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ۔لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ وَأَسَرُّواْ النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ۔ (الأنبیاء: 1-3) ’قریب آگیا ہے انسانوں کے حساب کا وقت اور وہ پڑے ہوئے ہیں غفلت میں منہ موڑے ہوئے۔ نہیں آتی ہے ان کے پاس کوئی نصیحت ان کے رب کی طرف سے مگر وہ اسے سنتے ہیں اس طرح جیسے کھیل رہے ہوں۔ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ان کے دل۔ اور چپکے چپکے سرگوشیاں کرتے ہیں یہ ظالم کہ ’نہیں ہے یہ شخص مگر ایک بشر تم جیسا تو کیا تم پھنس جاؤ گے جادو میں آنکھوں دیکھتے ہوئے؟‘

اگر تری یہ دیدہ دلیری جو تجھ سے خدا کی نافرمانی کراتی ہے اس وجہ سے ہے کہ تجھے لگتا ہے خدا تجھے دیکھ نہیں رہا، تو تیرا کفر کس قدر سنگین ہے!؟ اور اگر یہ سب کچھ، یہ علم رکھتے ہوئے ہوتا ہے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے، تو کیاپھر یہ تیری ڈھٹائی بلکہ بے شرمی کی انتہا نہیں؟! حیف تجھ پر اے نفس! تجھے اگر کوئی شخص جو تیرے ماتحت ہو اس حال میں دیکھنے کو ملے جو تیرے لئے باعثِ خفگی ہو، بلکہ تو تیرے برابر کا کوئی شخص تجھے ناخوش کر دینے والا کام کرے، تو کیا کبھی دیکھا ہے تمہیں کس قدر وہ شخص برا لگتا ہے اور تم اس پر کس قدر ناراض ہوتے ہو؟ تو پھر کس ہمت کے ساتھ روز تم اپنا آپ خدا کے غضب کی زد میں لاتے ہو اور کس جرأت کے ساتھ خدا کی پکڑ کا مستوجب بنتے ہو؟ یا پھر تمہیں زعم ہوا ہے کہ تمہارے اندر خدا کا عذاب سہہ لینے کی ہمت ہے؟؟؟اف! کہاں!!! تمہاری جرأت اور بے ہودگی حد سے ہی بڑھ گئی ہے اور اس ذاتِ بے نیاز کی پکڑ اور اس کی سزا تمہیں معمولی نظر آنے لگی ہے، تو پھر کبھی تجربہ کرلو۔ چلچلاتی دھوپ میں گھنٹہ بھر کھڑے ہو کر دیکھ لو۔ آگ میں انگلی ڈال کر ذرا روک لو، تمہیں پتہ چل جائے تم میں ہمت اور طاقت کتنی ہے!

یا پھر خدا کے فضل اور کرم کی بابت تم کسی فریب میں پڑ گئے ہو اور اس بات سے دھوکہ کھا گئے ہو کہ وہ تمہاری اس عبادت و ریاضت سے بے نیاز ہے؟! بھلا یہ بتاؤ، خدا کے فضل اور کرم پر تمہارا یوں سہارا کرنا ایک آخرت کے معاملہ میں ہی کیوں ہوتا ہے؟ اپنے دنیا کے مسئلے مسائل خدا کے فضل وکرم پر کیوں نہیں چھوڑ لیتے؟ یہاں دنیا کے اندر کسی دشمن یا کسی آفت سے اپنا تحفظ کرنے کیلئے جہان بھر کا سازوسامان اکٹھا کرتے ہو اور اس مسئلہ کو خدا کے کرم اور رحمت پر کبھی نہیں چھوڑتے! دنیا کی کوئی ضرورت لاحق ہوتی ہے یا کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے، جسے پورا کرنے کیلئے روپیہ دھیلا پاس ہونا لازم ہو، تو اس کے حصول میں کیا کیا پاپڑ نہیں بیلتے اور اس کو پانے کیلئے کیا کیا حیلے اور اسباب اختیار نہیں کرتے؟ یہاں خدا کا مہربان ہونا اور اس کا کرم اور اس کا فضل تجھے کیوں بھول جاتا ہے؟ یہاں خدا پر بھروسہ کرنے کا کوئی ایسا مفہوم تیرے ہاں نہیں پایا جاتا کہ وہ تیری اس دنیوی ضرورت کیلئے خود ہی کہیں سے کوئی خزانہ تیرے لئے برآمد کرا دے گا یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو تیرے لئے یوں مسخر کر دے گا کہ وہ تیری ضرورت پوری کرنے کیلئے آپ سے آپ حاضر ہو اور تجھے ہاتھ پیر مارنے اور محنت مشقت کرنے کی حاجت ہی نہ رہنے دے!!! یا پھر تمہارا خیال ہے اللہ رب العزت آخرت میں کریم ہے دنیا میں نہیں؟ حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ وہی آخرت کا رب ہے اور وہی دنیا کا اور تم نے اس کا فرمان بھی سن رکھا ہے وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى”یہ کہ نہیں ہے واسطے انسان کے مگر وہی جس کی اس نے سعی کی ہو“

حیف تجھ پر اے نفس! تمہارا نفاق کس قدر عجیب ہے اور تمہارے دعوے کس قدر کھوکھلے؟ زبان سے تمہارا دعویٰ کہ تم ان باتوں پر ایمان رکھتے ہو مگر نفاق کی علامات تمہارے رویے سے عیاں ہیں۔ تو نے کبھی دیکھا کہ تو نے معاملے کو کس طرح الٹ دیا؟ کیا تیرے مالک اور تیرے پروردگار نے دنیا کے معاملے میں یہ نہیں فرما رکھا: وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ إِلاَّ عَلَى اللّهِ رِزْقُهَا یعنی ”نہیں کوئی جاندار سطح زمین پر مگر اس کا رزق اللہ پر ہے“؟ اور آخرت کے معاملے میں اس نے کیا یہ نہیں فرما رکھا: وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى یعنی ” نہیں ہے واسطے انسان کے مگر وہی جس کی اس نے سعی کی ہو“؟ چنانچہ دنیا میں تیرے رزق کا اس نے ذمہ لے رکھا ہے۔ مگر تو نے اپنے افعال اور اپنے رویے سے اس بات کو جھٹلایا اور دنیا کو پانے کیلئے ہر ہر حد سے گزر جانا روا کرلیا۔ جبکہ تیرے آخرت کے رزق کا اس نے ہرگز کوئی ذمہ نہیں لیا بلکہ اس کو تجھی پر اور تیری ہی کمائی پر چھوڑ دیا۔ مگر تونے طلب آخرت سے یوں بے پروائی اور حقارت کے ساتھ منہ موڑ رکھا ہے گویا یہ تیری ضرورت ہی نہیں۔ یہ ایمان کی علامت تو نہیں! ایمان اگر زبان سے لایا جاتا تو منافقین دوزخ کے درکِ اسفل میں کیوں جا پڑتے؟

حیف تجھ پر اے نفس! گویا یوم حساب پر تیرا ایمان ہی نہیں! گویا تجھے زعم ہے کہ مر کر خدا کے ہاتھ سے نکل جاؤ گے اور یونہی چھٹکارا ہو جائے گا!! اف! کہاں!!! کیا تیرا خیال ہے کہ تجھے پیدا کیا گیا اور اتنا عرصہ تجھے پالا پوسا گیا اور تیری خدمت تواضع میں زمین آسمان کو لگا دیا گیا، اس لئے کہ آخر میں تجھے چھوڑ دیا جائے!!! کیا تو محض ایک گھٹیا بوند نہ تھی جو کہ بس ٹپکا دی گئی تھی؟ پھر اسی بوند سے پیدا کرلینے والی ذات نے تجھے لوتھڑا نہیں بنا دیا اور پھر اسی سے ایک پورا انسان برآمد نہیں کر ڈالا؟ کیا اب وہ اس بات سے بے بس ہے کہ وہ تجھے مردوں میں زندہ کھڑا کر لے؟ اگر تیرے دل کے کسی گوشے میں یہ گمان بیٹھ گیا ہے تو تیرے کفر اور تیری جہالت میں کیا شک ہے؟

پھر کیا یہ بھی کبھی غور کیا کہ تجھے اس نے پیدا کس چیز سے کیا؟ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَه۔ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاء أَنشَرَهُ۔ (عبس 80: 19- 22) ایک پانی کی ٹپک سے اس نے تجھے پیدا کرلیا۔ پھر آگے کے کتنے مراحل تھے جو اس نے تیرے لئے آسان کردیے۔ پھر اس نے تجھے موت دی اور قبر دی۔ پھر وہ جب چاہے تجھے اٹھا کر کھڑا کر لے گا۔ اب تو ہے جسے اس بات پر یقین ہے کہ اُس نے تجھے غلیظ پانی کے ایک چھینٹے سے پیدا کر ڈالا۔ تجھے یہ قبول کہ اُس نے یہ سب مراحل طے کر لینا تیرے لئے ممکن بنایا۔ تجھے یہ تسلیم کہ تجھے وہ موت دے گا اور پھر ایک قبر فراہم کرے گا۔ تو کیا تجھے اُس کی اسی بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ وہ جب چاہے تجھے اس قبر سے اٹھا کھڑا کر لے گا؟ اور اگر تجھے یقین ہے تو پھر اس دن کی تیاری میں مصروف کیوں نظر نہیں آتے؟ کیا تجھے اندازہ ہے قبر سے زندہ کھڑے ہو اٹھنے کا کیا مطلب ہے اور اس منظر کی تاب لے آنے کی تمہارے پاس کیا صورت ہے؟

کوئی یہودی طبیب اگر تجھے یقین دلائے کہ کوئی ایسا کھانا جو تجھے دنیا میں ہر چیز سے بڑھ کر مرغوب ہے کسی خاص مرض کی وجہ سے اب وہ تیرے لئے زہر قاتل ہے تو اسے چھوڑ دینے میں تو ہرگز کوئی بحث نہ کرے گا۔ اس سے پرہیز کے معاملہ میں تجھے اپنے آپ سے کتنا بھی مجاہدہ کرنا پڑے اور اپنی خواہش سے کتنی بھی جنگ کرنی پڑے، تو ضرور کرے گا۔ تو کیا پھر اے ظالم نفس! وہ باتیں جو انبیاءتجھے بتا کر گئے اور اپنی صداقت پر لاتعداد معجزات کو تیری خرد کیلئے دلیل بنا کر گئے، اور سب سے بڑھ کر اللہ کا اپنا قول جو اس نے اپنی کتابوں میں نازل کیا، کیا اس یہودی طبیب کے قول برابر بھی نہیں جو محض اپنے ظن اور تخمین سے تجھے ایک خبر دیتا ہے اور جس کے غلط ہونے کا ہزار امکان ہے اور جوکہ مطلق حقیقت کا علم پانے پر ہرگز کوئی قدرت رکھتا ہے اورنہ طاقت؟!!

عجیب تو یہ ہے کہ ایک چھوٹا بچہ بھی اگر تجھے بتائے کہ تیرے کپڑوں میں کوئی بچھو چلا جارہا ہے، تو کبھی دیکھا ہے وہ کپڑا تو کس تیزی کے ساتھ دور پھینکتا ہے؟ کبھی اس بچے سے تو نے بچھو کے چلنے کی ’دلیل‘ پوچھی؟ کبھی کوئی ’تاویل‘ کی؟ کبھی کوئی ’خیال‘ ظاہر کیا؟

تو کیا پھر سب کے سب انبیاء، سب کے سب علماء، سب کے سب حکماءاور سب کے سب اولیاءکا ایک بات کہنا تیرے نزدیک اس چھوٹے بچے کی بات جتنا بھی وزن نہیں رکھتا جو خرد مندوں کی صنف میں بھی مشکل سے شمار ہو؟ یا پھر خدا کی دہکائی ہوئی وہ دوزخ اپنی تمام تر ہولناکیوں، اپنی ستر ستر ہاتھ لمبی زنجیروں، سر پھوڑنے والی گرزوں، اپنے تھور، اپنی پیپ اور کچ لہو، اپنی راکھ کردینے والی لو، اپنے ناگوں اور بچھوؤں سمیت تیری نظر میں دنیا کے اس بچھو جتنی بھی توجہ کے لائق نہیں.... جو اگر تجھے لڑ بھی گیا تو اس کا درد تجھے دو دن محسوس ہوگا یا بڑی حد چار دن؟؟؟!!!

کیا خرد مندی کی یہی باتیں ہیں؟ تجھ خرد مند کی یہ حالت تو چوپایوں سے کہی جائے تو اے نفس، وہ اس پر خندہ زن ہوں!

تو پھر اے نفس! اگر تجھے یہ سب معلوم ہے اور اس پر تیر ایمان ہے تو پھر عمل میں ٹال مٹول کرنے میں کیوں لگا ہے؟ کیا جانتا نہیں موت تیری گھات لگائے بیٹھی ہے اور کیا بعید کسی بھی وقت تو اپنے آپ کو اس کی آہنی گرفت میں دیکھے جس کے بعد تجھے مانگے بھی مہلت نہ ملے۔ اور فرض کیا تجھے سو سال کی چھوٹ مل گئی، پھر بھی کیا خیال ہے جو آدمی عین گھاٹی چڑھنے کے وقت جاکر اپنی سواری کو چارہ ڈالنے کا روادار ہو، گھاٹی پار کر سکے گا؟ اور کسی دشت میں سائے کے نیچے بیٹھ رہنے والا کیا اس کی طویل مسافت طے کر لے گا؟ اگر تمہارا یہ خیال ہے تو تمہاری نادانی میں کیا شک ہے؟ کیا خیال ہے کوئی شخص کہیں دور پردیس میں تعلیم حاصل کرنے جائے اور وہاں سالوں کے سال فارغ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اِس امید میں کہ اُس کے واپس جانے کو ابھی بہت سال پڑے ہیں! اور یہ کہ وطن جانے سے پہلے آخری سال میں ہی اس کو جتنا پڑھنا ہے وہ پڑھ لے گا!!! کیا تو ایسے شخص کی عقل اور سمجھ کو استہزاءکے قابل نہ جانے گا؟

کیا تو ایسے شخص پر نہ ہنسے گاجو یہ سمجھے کہ علم وخرد میں کسی بڑے مقام کو پانا دنوں کی بات ہے یا یہ کہ ایک فقیہانہ مقام فقیہ بنے بغیر بھی پایا جاسکتا ہے یا یہ کہ کوئی رتبۂ بلند پانا کسی محنت کو لازم نہیں، اس کے لئے کسی تگ ودو کی ضرورت نہیں اور یہ کہ یہ کام ہاتھ ہلانے کا نہیں بلکہ خدا کے کرم اور فیاضی پر چھوڑ دینے کا ہے؟! اور چلو فرض کرلیا کہ آخری عمر میں جاکر کی جانے والی تیری محنت ثمر آور ہوگی اور اس سے درجاتِ بلند بھی تجھ کو مل جائیں گے، مگر یہ بھی تو پتہ نہیں کہ ’آخری عمر‘ تجھے ملتی بھی ہے یا نہیں۔ کیا پتہ یہ دن ہی تیرا آخری دن ہو اور وہ ’آخری عمر‘ جو تو نے ’نیک‘ ہونے کیلئے اپنے ذہن میں پس انداز کر رکھی ہے، تیری قسمت میں لکھی ہی نہ ہو۔ تو پھر ابھی کیوں نہیں اس فرض میں جت جاتے؟ اگر تم پر کوئی ایسی وحی نازل نہیں ہو چکی کہ تمہیں ایک لمبی چھوٹ ہے، تو پھر عمل کی جلدی کرنے میں کیا چیز رکاوٹ ہے؟ ’آج کل‘ کرتے جانے کا پھر کیا باعث ہے؟ کیا اس کے علاوہ اس کا کوئی اور سبب بھی ہے کہ اپنی خواہشات کے خلاف مزاحمت کرنا تمہارے لئے دوبھر ہے اور اپنی شہوات کو مات دینا تمہیں ایک مشقت نظر آتی ہے؟ تو پھر کیا تمہیں اُس دن کا انتظار ہے جب خواہشوں کو مات دینا مشکل نہ رہے گا؟؟؟ ارے اے نفس! ایسا تو کوئی دن خدا نے پیدا نہیں کیا اور نہ پیدا کرنے والا ہے۔ ایسا تو کبھی ہونے والا نہیں کہ جنت، نفس پہ گراں گزرنے والے جن امور سے گھری ہوئی ہے، جنت کے ارد گرد سے وہ سب رکاوٹیں تیرے نخروں کے لحاظ میں ہٹا دی جائیں۔ اور نہ کبھی ایسا دن آنے والا ہے کہ نفس پر گراں گزرنے والی یہ چیزیں جن سے جنت گھیر دی گئی ہے، نفس پر گراں ہی نہ رہیں اور تیرا خیال کر کے ان سب چیزوں کی سرشت ہی سرے سے بدل ڈالی جائے!

کیا تو سوچتا نہیں، کتنی بار تو اپنے آپ سے وعدے کرتاہے اور کہتا ہے ’کل کل‘۔ ہاں تو یہ ’کل‘ آگئی، تیری یہ ’کل‘ ’آج‘ میں بدل گئی، تو اب یہ ’آج‘ کیسی لگی؟ کیا تجھے معلوم ہوا کہ ’کل‘ جسے آنا تھا کتنی جلدی وہ ’آج‘ بن گئی ہے اور ’آج‘ بن جانے کے بعد اب یہ گزرا ہوا ’کل‘ بننے جارہی ہے بلکہ تو ’پار سال‘ اور اس سے بھی ’پار سال‘ اور بلکہ تو ایک بھولی بسری کہانی جو صرف ’لکھنے والوں‘ کو یاد رہے گی!؟! ارے اے نفس، جس نیک کام سے تو آج عاجز ہے کل اس سے تُو کہیں بڑھ کر عاجز ہوگا!

کیونکہ خواہش ایک مضبوط درخت کی طرح ہے جس کو دل کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکنا ہی بندے کے حق میں بندگی کا اصل امتحان ہے۔ تو اگر بندہ اس درخت کو اکھاڑنے سے آج عاجز ہے اور اپنی کسی کمزوری کے باعث اس کو موخر ہی کئے جاتا ہے تو وہ اسی شخص کی مانند ہے جو اپنے صحن میں پائے جانے والے ایک زہر بھرے درخت کو اپنے عنفوانِ شباب میں اکھاڑ پھینکنے سے عاجز ہے اور اپنی کمزوری کے باعث اس کو اور سے اور موخر کئے جاتا ہے۔ حالانکہ جانتا ہے جوں جوں وقت گزرے گا درخت اور سے اور ہی جوان اور توانا ہوگا جبکہ خود وہ شخص اور سے اور ہی ضعیف اور ناتواں ہوگا۔ پس جوانی میں آدمی سے جو کام نہ ہوسکا بڑھاپے میں جاکر وہ کیا کرے گا۔ زور کے کام کیا بڑھاپا آنے پر اٹھا رکھے جاتے ہیں!؟ ایک سرسبز ٹہنی کو جیسے مرضی موڑ لو اور جیسا مرضی رخ دے لو مگر جب وہ سوکھ کر کاٹھ بن جائے پھر اس میں یہ خوبی کہاں!!؟

ارے اے نفس، اتنی واضح باتیں بھی اگر تو سمجھنے پر تیار نہیں، اور ٹال مٹول کا سہارا لینے پر ہی مصر ہے، تو پھر تیرا دانائی کا یہ زعم کیسا؟ کسی کا نقصان تھوڑی ہے، اپنے آپ کو بربادی میں جھونکنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ شاید تو کہے ’کیا کروں خواہشوں کی لذت ہی کچھ ایسی ہے اور ان کو چھوڑنے میں تکلیف اور مشقت ہی کچھ ایسی ہے کہ اسے سہنا آسان نہیں‘۔ یہ بھی کیسی حماقت کی بات ہے اور کیسا بے ہودہ عذر! ارے اے نادان، تمہیں اگر پتہ ہے کہ خواہشوں کی لذت کیا چیز ہے تو پھر اُن خواہشوں کی طلب کرو جن میں لذت ہی لذت ہے اور جن میں کوئی کچرا اور گدلاپن نہیں اور جو ابد الآباد تک قائم رہیں گی۔ ارے اے جاہل، تیری یہ خواہشیں پوری کرانے کو ہی تو جنت وجود میں آئی ہے! اگر خواہشیں ہی تیری مطمع نظر ہیں تو اس کی صورت بھی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ تم ذرا دیر ان سے منہ موڑ رکھو۔ دیکھتے نہیں کتنے ہی کھانے ایسے ہوتے ہیں جن کو کھا لینے سے آدمی کو پھر کبھی کھانا نصیب نہیں ہوتا! ذرا یہ تو بتاؤ اس مریض کیلئے تمہارا کیا مشورہ ہے جسے کسی حاذق طبیب نے صرف تین دن کیلئے ٹھنڈا پانی نوش کرنے سے منع کر دیا ہو تاکہ وہ تندرست ہولے اور پھر عمر بھر مزے سے جتنا چاہے ٹھنڈا پانی پئے، اور اس کو یہ بھی بتادیا ہو کہ اگر ان تین دنوں میں وہ ٹھنڈے پانی کے قریب گیا تو اس کو بے حد مہلک عارضہ لگ جائے گا اور اس کے باعث پوری عمر وہ ایک ٹھنڈا پانی تو کیا اپنی ہزاروں خواہشیں پوری کرنے سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ کیا فرماتی ہے تیری عقل اور دانائی بیچ اس مسئلے کے؟ کیا وہ تین دن صبر اور برداشت سے کام لے لے تاکہ پھر ساری عمر موج کرے یا پھر وہ اپنی خواہش فی الفور پوری کر گزرے کیونکہ تین دن صبر کرنا بہت مشکل ہے، اور پھر اسکے نتیجے میں وہ تین دن نہیں تین سو دن نہیں تین ہزار دن نہیں کبھی بھی اپنے اس پسندیدہ مشروب کی شکل نہ دیکھ پائے!!؟

اور یہ تو تجھے معلوم ہے کہ دنیا کی یہ تیری ساری کی ساری عمر ملا کر بھی، اُس ابد الآباد مدت کے مقابلے میں کہ جب اہل جنت جنت میں موج کریں گے اور کرتے ہی رہیں گے اور اہل دوزخ دوزخ میں عذاب سہیں گے اور سہتے ہی رہیں گے.... تیری یہ ساری عمرخواہ وہ کتنی ہی دراز ہو جائے اُس ابد الآباد مدت کے مقابلے میں تین دن سے بھی کم ہے۔ صد افسوس تیری عقل اور بینائی پر! خواہشوں کے فراق کا درد تجھے زیادہ المناک اور زیادہ طویل دِکھتا ہے نہ کہ جہنم کے گڑھوں میں آگ پر پکنا اور لذتوں بھری بہشت سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم ہو رہنا!!! ایسی نازک طبیعت پائی ہے کہ خواہشوں کے خلاف مزاحمت کرلینا تجھے ناقابل برداشت تکلیف نظر آتی ہے اور ایک نہایت ناگوار اور پر مشقت کام، تو پھر تیری اس نازک طبیعت پر خدا کا عذاب سہنا ہی کیا آسان ہوگا؟؟؟

میں دیکھتا ہوں تو اپنا ہی بھلا کرنے سے جو یوں کتراتا ہے اور ہر حال میں راہِ فرار اختیار کر جانے پر ہی مصر ہے تو یا تو کوئی چھپا ہوا کفر تیرے اندر کہیں سما گیا ہے یا پھر کھلی ہوئی حماقت۔ چھپا ہوا کفر یہ کہ یوم حساب کی بابت تجھے یقین کا عارضہ ہے اور تجھے وثوق نہیں کہ نہ تو خدا کے ثواب کی کوئی حد ہے اور نہ خدا کے عذاب کی۔ کھلی ہوئی حماقت یہ کہ خدا کے عفو و مغفرت پر سہارا کرتے ہو اور اس کی چال سے بے خبر اور اس کی پکڑ سے بے خوف۔ جبکہ خود دیکھتے ہو یہاں دنیا میں روٹی کے ایک لقمے یا مال کے ایک ذرے کے معاملہ میں بھی تم خدا کے کرم پر معاملے کو چھوڑ دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ خدا کے کرم پر سہارا کرتے ہوئے یہاں تم کسی سے کوئی ایک بات سننے کے روادار نہیں ہوتے۔ بلکہ اپنے مقصد کو پانے کیلئے یہاں ہر ممکن حیلہ اختیار ہوتے ہو اور اپنے ہدف تک پہنچنے کیلئے ہر تدبیر اور ہر ممکن چارہ کرتےہو۔ اس نادانی پر حماقت کا یہ لقب تو تجھے رسول کی ہی زبان سے ملتا ہے، فرمایا:

الکیس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت۔ وال أحمق من أتبع نفسه هواها وتمنیٰ علی اللہ ال أمانی۔

”دانا وہ ہے جو اپنے نفس کو زیر کر لے اور ما بعد الموت کیلئے عمل کرنے میں لگا ہو۔ احمق وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہش کے زیر کردے اور اللہ پر آرزوئیں باندھنے لگے“

حیف تجھ پر اے نفس! اس دنیا کی زندگانی سے فریب مت کھائیو۔ اور اُس بڑے فریب کار کے دام میں آنے سے تو حد درجہ بچ کر رہیو۔ اپنا خیال خود نہ کرو گے تو اور کسی کو تمہاری کیا پڑی؟ وقت برباد مت کئے جاؤ۔ تمہارے پاس گنے چنے ہی تو کچھ سانس ہیں۔ ایک سانس چلا جاتا ہے تو سمجھو تمہارا کچھ حصہ تم سے جھڑ گیا۔ اس سے پہلے کہ تمہیں کوئی روگ لگ جائے اس تن درستی کو غنیمت جانو۔ قبل اس سے کہ تمہیں کوئی بپتا پڑ جائے یہ فراغت جو تجھے بے حدوحساب حاصل ہے اس کو غنیمت جان لو۔ قبل اس سے کہ غربت اور فاقہ دیکھنا پڑے اس آسودہ حالی سے فائدہ اٹھا لو۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی کو اور موت سے پہلے زندگی کی اس بے مثال نعمت کو بڑی کام کی چیز جانو اور اس میں جو ہو سکتا ہے کر لو۔ آخرت کیلئے اسی حساب سے تیاری کرلو جس قدر طویل زندگی تمہیں وہاں بسنا ہے۔

اے نفس! جاڑے کا موسم تجھے جب قریب نظر آتا ہے تو اس کیلئے تو کس طرح تیار ہوتا ہے؟ جتنا طویل جاڑا ہو کیا اسی حساب سے تو اس کیلئے اپنا بندوبست نہیں کرتا؟ اسی حساب سے گرم کپڑے، کھانے پینے کاسامان اور ایندھن کا انتظام کیا تیرے ہاں نہیں ہوتا؟ کبھی ایسا ہوا ہے کہ جاڑا آیا ہو اور تو نے گرم کپڑوں اور ایندھن وغیرہ کا بندوبست کرنے کی بجائے معاملہ خدا کے فضل وکرم پر چھوڑ دیا ہو کہ وہ خود ہی اپنی مہربانی سے سردی کو تجھ سے دور کر دے گا اور تجھے گرمائش پہنچاتا رہے گا؟! حالانکہ وہ تو بلاشبہہ اس پر قادر ہے! تو پھر کیا اے نفس !تیرا خیال ہے کہ جہنم کی زمہریر (کپکپی طاری کردینے والی سردی) تیری دنیا کی اِس سردی سے شدت میں کم ہے یا مدت میں؟ یا پھر تجھے خیال ہوا ہے کہ اور پھنسیں تو پھنسیں مگر تو تو بغیر کوئی بھی سعی کئے جہنم سے نجات پا جائے گا؟ اف! کہاں! دنیا کی یہ سردی گرم کپڑے حاصل کئے بغیر اور آگ تپائے بغیر دور ہونے کی نہیں، اور تو خوب جانتا ہے دنیا کی یہ گرمی اور سردی تجھے بھی اتنی ہی لگتی ہے جتنی کہ اوروں کو.... جب ایسا ہے تو پھر جان لو، آخرت کی گرمی سے تحفظ بھی توحید کے قلعہ میں پناہ لئے بغیر اور فرماں برداری کی فصیل اٹھائے بغیر ممکن نہیں۔

ارے نادان! خدا کا فضل اور کرم یہی تو ہے کہ اُس نے تجھے وہ طریقہ بتا دیا جس سے کام لے کر تو آخرت کے ان خطروں کے مد مقابل قلعہ بند ہوسکے۔ اُس کی مہربانی یہی تو ہے کہ آخرت کی خواری سے بچاؤ کے اسباب اُس نے تیرے لئے میسر کردیے۔ پر تو نے سمجھا کہ اُس کا مہربان ہونا یہ ہے کہ تو اُس کے بتائے ہوئے طریقے پر قلعہ بند بھی نہ ہو اور اُس کے ہدایت کردہ اسباب بھی اختیار نہ کرے، پھر بھی آخرت کی وہ سب کی سب سختی اور عذاب آپ سے آپ ہی تیرے راستے سے ہٹ جائے!

تجھ سے دنیا کی یہ سردی ہٹا دینے کے معاملہ میں خدا کا فضل اور کرم یہی تو تھا کہ اُس نے آگ پیدا کردی اور تجھے وہ سب طریقے سجھا دیے اور وہ سب اسباب تیرے لئے میسر کردیے جن سے کام لے کر تو اپنے گھر میں آگ روشن کر لینے کے قابل ہو اور یوں سردی سے تو اپنا تحفظ کرلے۔ یہ ایندھن، یہ گرم کپڑے، یہ سردی سے تحفظ کا سب سامان خدا کی اپنی ضرورت تھوڑی ہے! جب تو ان چیزوں کو حاصل کرنے کیلئے دوڑ دھوپ کرتا ہے تو یہ تیری اپنی ہی ضرورت کیلئے تو ہوتا ہے۔ جب ایسا ہے تو آخرت کا بندوبست کرنے کیلئے تیری نیکی وفرماں برداری اور نفس کے خلاف تیرا مجاہدہ، یہ بھی خدا کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی تو تیری ہی ضرورت ہے اور تیری ہی جان بخشی کا سامان! یہاں بھی جو بھلا کرے گا وہ اپنی ہی جان کا بھلا کرے گا اور جو برا کرے گا وہ اپنی جان پر بنائے گا.... رہی خدا کی ذات تو وہ تو جہانوں سے بے نیاز ہے!!!

افسوس اے نفس تجھ پر! اپنی اس نادانی سے نکل آ۔ آخرت کی وسعت کے ساتھ اپنی اس محدود دنیاکی ذرا پیمائش تو کر۔ مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ”نہیں ہے پیدا کرنا تم سب کا (اے انسانو) اور نہ دوبارہ اٹھانا تم سب کا مگر ایسا ہی جیسے ایک شخص کا“ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ ”جس طرح پیدا کیا اُس نے تم کو (اب) - (اسی طرح) تم پھر پیدا کئے جاؤ گے“ خدا کی سنت اور اُس کا کہا کبھی بدلتا تھوڑی ہے۔ پر کیسا تونے اس دنیا کے ساتھ دل لگایا ہے اور کیونکر تو بس اسی کے ساتھ مانوس ہے!؟ یہ دل جب اسی دنیا میں ہوگا اور دل میں یہی دنیا، تو اس کو چھوڑنے کا لمحہ تیرے لئے کس قدر جان لیوا ہوگا!؟ تیرا سب کچھ اسی دنیا میں ہے اور یہ دنیا ہے کہ تیزی سے جارہی ہے! جب یہ دنیا ہی تیرے لئے سب کچھ ہے تو وہ ’بڑے پیمانے‘ جو جہانِ آخر میں پائے جانے والے ہیں تجھے کب سمجھ آئیں گے؟! تب خدا کے عذاب کی تیرے ہاں کیا وقعت اور خدا کی دین اور بخشیش کی تیرے ہاں کیا اہمیت اور قیامت کی ہوش بھلا دینے والی ہولناک ساعتوں کی تیری نظر میں کیا حیثیت؟! یہ چھوٹی حقیر سی دنیا جو تیرے دل میں بیٹھی ہے تجھے معلوم ہی تو ہے عنقریب تجھ سے چھوٹ جانے والی ہے جبکہ آخرت میں دل لگانے یا وہاں گھر بنانے کا تجھے کبھی خیال تک نہیں آیا۔ تیری ساری خواہشیں اسی دنیا کی تو پھر اس دنیا کا جانا تو ہر چیز کا چلا جانا ہے۔ ہائے رے نفس تیری موت بھی کیسا بڑا سانحہ ہوگا!!!

یہاں جن کے ساتھ تیرا دل لگا ہے یہ تو سب سمٹتے سائے ہیں اور تو جو ایک طویل سفر پر ہے، اور تیرے آگے دشت ہی دشت ہیں، تو نادان اِنہی روپوش ہوتے سایوں پہ ریجھ بیٹھا! جن سے تیری سب دل لگی ہے، اور ان کے سوا تونے کوئی محبت پالی ہی نہیں، ان سے تیرا بچھڑنا پل دو پل کی ہی تو بات ہے! ارے اے نفس کوئی ایسا ساتھ بھی تو ہو جو آگے کی ہولناک گھڑیوں میں تیرے لئے باعث اُنس ہو!

کوئی شخص بادشاہ کے ایک ایسے محل سے گزرتا ہے جس میں آدمی ایک طرف سے داخل ہو تو دوسری طرف جا نکلے۔ یہ شخص محل کی راہداریوں ہی میں پائی جانے والی صورتوں اور مورتوں کو دل دے بیٹھے جہاں رکنا اس کے بس میں نہ ہو اور اس کے آگے ایک لق ودق صحرا ہو اور ایک طویل خوفناک جنگل، جس سے گزرنا اس کیلئے ناگزیر ہو اور اس کے پار اس کا مستقر.... تو ایسے شخص کو عقلمند کیونکر کہیں جو محل کی انہی راہداریوں میں دل کھو بیٹھے؟!ارے نادان! ساتھ تو وہ جو دشت اور بیابان میں کام دے اور دائمی مستقر میں ہی جس کی صحبت میسر آسکے!

کیا تجھے معلوم نہیں کہ یہ دنیا کائنات کے بادشاہ نے تیرے لئے محض ایک گزرگاہ بنائی ہے اور تیرا گھر کہیں اور ہے جو کئی ایک بیابانوں سے گزر کر آنے والا ہے؟! ارے نادان! یہاں کی راہداریوں میں کھو جانا عقلمندی نہیں۔ یہاں سے تو وہی ساتھ پکڑ جو تیری راہ کا ساتھی بن سکے اور جو آگے تک تیرا ساتھ نباہ سکے!

دنیا کی یہی حقیقت بتانے کیلئے تو سید البشر نے یہ خبر دی ہے:

ان روح القدس نفث فی روعی: أحبب من أحببت فاِنک مفارقه، واعمل ما شئت فاِنک مجزی به، وعش ما شئت فاِنک میت۔

”روح القدس نے میرے قلب پر یہ بات القاءکی: چاہ لو جس کو بھی چاہنا ہے، تمہیں اس کو چھوڑ کر مگر جانا ہے۔ عمل کرلو جیسا مرضی چاہو بدلہ اس کا تمہیں مگر ملنا ہے۔ یہاں رہ لو جتنا رہنا چاہو، مرنا تمہیں مگر ہے“۔

وائے رے نفس! کیا تو جانتا ہے جتنا کوئی شخص دنیا کے ان میلوں ٹھیلوں میں دل لگاتا ہے اور جتنا کوئی یہاں کی پرچھائیوں کو دل میں بٹھاتا ہے، جبکہ یہاں وہ خود بھاگا جا رہا ہے اور موت اس کے پیچھے پیچھے ہے.... جب وہ موت کے ہاتھ آتا ہے، تو جتنا کوئی اس دنیا کو دل دے بیٹھا تھا اتنا ہی اِس سے بچھڑتے وقت وہ یہاں سے حسرتیں ساتھ لے جاتا ہے!؟ جتنا کوئی اس فانی دنیا کے ساتھ اُنس بڑھاتا ہے اتنا ہی وہ اپنے لئے زہر اکٹھا کرتا ہے اور اتنا ہی، دمِ فراق، وہ اپنی ان فانی محبتوں کے لگائے کچوکے کھاتا ہے، بے شک آج وہ یہ جانتا نہیں!؟

ارے نادان! کیا تو نے یہاں سے جانے والوں کو دیکھا نہیں، کیسے کیسے اُنہوں نے گھر بنائے اور کیا کیا اونچے محل سجائے؟ پھر وہ چپ چاپ ان سجے سجائے محلات کو اوروں کے بسنے کیلئے چھوڑ گئے۔ آخر وہ ان میں بسے کیوں نہ؟؟؟ تو نے دیکھا کیسے خدا نے ان سے یہ گھر لے کر اوروں کو دے دیے اور بسا اوقات تو ان کا بنایا ان کے دشمنوں کے کام آیا! کیا تو اِن کو دیکھتا نہیں، یہ یہاں وہ کچھ اکٹھا کرنے میں لگے ہیں جو یہ کھائیں گے نہیں! وہ کچھ بنا رہے ہیں جن میں یہ بسیں گے نہیں! وہ آرزوئیں پال رہے ہیں جن کو یہ پہنچیں گے نہیں!

یہاں ہر آدمی ایسا محل بنانے میں لگا ہے جس کا رخ آسمان کی جانب ہو حالانکہ اس کا اپنا ٹھکانہ زمین کے خاصا نیچے ہے اور تو نے دیکھا قبر گہری ہی کھودی جاتی ہے! ارے اے نفس کیا اِس دنیا کی کم عقلی پر تجھے اس سے بھی بڑھ کر کوئی دلیل چاہیے!؟ یہاں ہر آدمی اپنی یہی دنیا آباد کرنے میں لگا ہے حالانکہ یقینی طور پر وہ یہاں سے کوچ کر جانے والا ہے۔ یہاں ہر آدمی اپنی آخرت اجاڑنے میں لگا ہے حالانکہ یقینی طور پر وہ وہاں پہنچ رہنے والا ہے۔ اے نفس کیا تجھے شرم نہ آئے گی جو ان احمقوں کا ساتھ دینے چل پڑو گے؟ فرض کر لیا تیری یہ بات سچ ہو کہ تو اتنی گہری عقل کا مالک نہیں کہ یہ تیرے کسی باقاعدہ فیصلہ کا نتیجہ ہو بلکہ یہ سب جو تو کرتاہے بس یونہی دنیا کی دیکھا دیکھی ہے۔ ارے اے نادان! کسی کی دیکھا دیکھی ہی کرنی ہے تو انبیاءکو کیوں نہ دیکھو؟ علماءکو کیوں نہ دیکھو؟ حکماءکی کیوں نہ نقل کرو؟ ذرا موازنہ تو کرو کہاں انبیاءکی عقل اور علماءکی خرد اور حکماءکی سمجھ اور کہاں ان نادانوں کی عقل جو دنیا کے سمٹتے سایوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ تیرے سامنے یہ دو ہی تو فریق ہیں۔ ان میں سے کس کی عقل تیرے نزدیک قابل اعتبار ہے اور کس کا اختیار کردہ راستہ تیرے نزدیک قابلِ بھروسہ اور لائقِ تقلید؟ تجھے عقل کا اگر کوئی زعم ہے اور سمجھ کا ذرہ بھر کوئی دعویٰ ہے تو ذرا یہی دیکھ لے کہ ان دو فریقوں میں سے عقل مند کون ہے ؟ کون ان میں سے اس لائق ہے کہ تو اس کی نقل کرے اور اسی کا چلا ہوا راستہ اختیار کرے؟

اے نفس! تیرا معاملہ کس قدر عجیب ہے اور تیری سرکشی کس قدر بڑھی ہے۔ اتنی واضح باتیں ہیں جو تیری عقل سے اوجھل رہ جاتی ہیں!

شاید، اے نفس، شہرت کی طلب اور مقبول ہوجانے کی چاہت نے تیری آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے۔ معاشرے کے اندر ایک بڑا ’اسٹیٹس‘ پانے کی آرزو نے ایسی واضح حقیقتوں کو دیکھنے سے تجھ کو عاجز کر رکھا ہے۔ تیری یہ جاہ پرستی اور دنیا میں پزیرائی پانے کی طلب کیا معنیٰ رکھتی ہے؟ یہی نا کہ لوگوں کے دلوں کا میلان تیری جانب ہوجائے اور تو ان کی نگاہوں کا مرکز بنا رہے؟! تو چلو پھر لمحہ بھر فرض کرلو کہ زمین پہ پایا جانے والا ہر ذی نفس تجھ کو سجدہ کرنے لگا ہے اور تیری ہی عظمت کا دم بھرنے لگا ہے اور تیرا ہی غلام فرماں بردار ہوچکا ہے۔ اس سے بڑھ کر تو کوئی درجہ نہیں؟! پھر بھی کیا تجھ کو یہ معلوم نہیں کہ پچاس سال گزرنے نہ پائیں گے کہ نہ تو یہاں رہے گااور نہ وہ خلقت جو آج تجھے سجدے کرتی ہے اور تیری عظمت کو سلام کرنے میں لگی ہے؟! اور پھر ایک وقت آئے گا جب یہاں نہ تیرا نام رہے گا اور نہ تیرا نام لینے والوں کا نام!!! نہ تیرا ذکر ہوگا اور نہ تیرا ذکر کرنے والوں کا کوئی ذکر!!!کیا تجھ سے پہلے گزرنے والے پادشاہوں اور شہنشاہوں پر یہ وقت نہیں آیا؟ اُن میں سے کس کا طنطنہ آج تجھے سنتا ہے اور کس کو فرشی سلام ہوتے تجھے نظر آتے ہیں؟ کیا سب مٹی نہیں ہوگئے؟ کونسی دیمک تھی جو ان کو چاٹ گئی!!؟ جسد خاکی بھی ڈھونڈو تو کیا کہیں ملتا ہے؟ تو پھر اے جاہل نفس! کیوں اُس ٹھاٹھ کو جو ابد الآباد تک باقی رہے گا اس چیز کے عوض ہی بیچ ڈالنے پر مصر ہے جو پچاس سال سے زیادہ کی نہیں، وہ بھی اگر رہے تو، اور وہ بھی یہ فرض کرتے ہوئے کہ تجھے تمام دنیا کی ریاست اور سیادت مل چکی ہے اور مشرق تا مغرب گردنیں تیرے آگے جھک چکی ہیں اور فوجیں تجھ کو سلام کرنے لگی ہیں اور یہ انتظام ہو چکا ہے کہ پوری دنیا میں بس اک تیرا ہی طوطی بولنے لگے، کجا یہ کہ ایک محلے کی سیادت تجھ کو مل جانے کا واقعہ بھی ابھی اِس دنیا میں رونما نہ ہوا ہو، بلکہ کیا بعید اپنے گھر میں ہی تیری نہ چلتی ہو!

اے نفس! اگر تو آخرت کی رغبت میں اس دنیا کی طلب سے دستبردار نہیں ہوتا، کیونکہ تجھے وہ دانائی حاصل نہیں اور وہ بصیرت تیرے پاس نہیں جو دنیا پر آخرت کی فضیلت تیرے ذہن نشین کرائے.... تو بھی اے نفس! وہ جن کے ساتھ تیری یہ دنیا کی دوڑ لگتی ہے ان کی خست اور گھٹیا پن کو دیکھ کر ہی تجھے اس سے کراہت کیوں نہیں ہوجاتی؟ اس کی طلب میں جتنی خواری اٹھانا پڑتی ہے اسی کو دیکھ کر تجھے اس سے نفرت کیوں نہیں ہوجاتی؟ لاکھ جتن کرلینے کے بعد یہ دنیا ابھی آتی نہیں کہ چلی جاتی ہے، ایسی بے ہودہ چیز کیلئے ذلت اٹھاتے چلے جانے سے تیری طبیعت کیوں نہیں اکتاتی؟ دنیا کو تیری طلب نہیں پر تیرا دنیا کی چھوٹی چھوٹی چیز پر دل نکل نکل جانا کیا تجھے معیوب نظر نہیں آتا؟! فرض کرلے یہ دنیا کچھ اگر تیرے ہاتھ آ بھی گئی، اور تو اسی پر پھولنے لگا، تو اے نفس کیا تجھے معلوم نہیں تو اس بات پر جامے سے باہر ہونے لگاہے جس میں کتنے ہی یہودی پھر بھی تجھ سے آگے ہیں اور کتنے ہی مجوسی اس میں تجھے آخری درجے کی مات دے چکے اور کتنے ہی کافر اِس آن بان میں، جس پر تو ناز کرتا ہے، پھر بھی تجھ سے بہت اوپر ہیں! تف ہے اس دنیا پر جس میں ایسے ایسے گھٹیا اور کمتر لوگ تجھ پر کمال کی سبقت رکھیں اور تو اس میں اپنے آپ کو ان سے کہیں پیچھے اور کمتر پائے اور جس میں تجھے اپنا آپ انکے مقابلے میں ناچیز جاننا پڑے!!!یہ تیری کیسی جہالت ہے! کیسی کمتری ہے! یہ کیسی کمینگی کی دوڑ ہے جس میں تجھے اپنے سے بڑھ کر نظر آنے والے، انبیاءوصدیقین اور شہداءوصالحین نہیں، دنیا کے گھٹیا ترین لوگ ہوں!!! وہ خدا کی نگاہ میں سب سے ہیچ لوگ ہوں جو تجھے اپنے سے بہت اوپر نظر آئیں جبکہ خدا کی قربت پانے والے تیری نظر سے اوجھل ہوجائیں اور نیکوکار تیرے کسی شمار میں آنے سے ہی رہ جائیں!!! جس زمرے میں شمار ہونے کیلئے تجھے بے تاب دیکھا جاتا ہو وہ خدا کے مقرب لوگ نہ ہوں جوکہ اس کی مجاورت میں ابد الآباد تک بسیں گے! تمہیں بے تابی ہو تو اس بات کی کہ کسی صورت دنیا کے جاہلوں اور احمقوں میں، چاہے پچھلی ہی صف میں ہو، اور تھوڑے ہی دنوں کیلئے سہی، تمہارا شمار ضرور ہونے لگے! حسرت ہے تجھ پر حسرت اے نفس! دنیا کا گھاٹا اور پھر آخرت کا اجاڑا!!!

اے نفس! خدا کی طرف چل پڑ اور سنبھل جانے کی جلدی کر۔ ورنہ تو ہلاک ہوا کہ ہوا۔ موت کی دستک سن جو آس پاس مسلسل ہورہی ہے۔ یہاں روز ہی تو بلاوے آتے ہیں، کیا پتہ تیرا نام کس دن نکل آئے! اے نفس وقت سنبھال لے۔ آج عمل تیرے پیش نظر نہیں تو پھر اے بیچارے نفس! مرنے کے بعد کون تیری جگہ نماز پڑھے گا؟! موت آگئی تو کون تیرے حصے کے روزے رکھے گا؟! تو خود آج خدا سے اپنی بخشش کا سوالی نہیں تیرے مرجانے کے بعد کون تیرے لئے خدا کو راضی کرائے گا؟!

اے نفس! تیرے پاس کچھ ہی تو دن باقی ہیں۔ تیری ساری پونجی جو تیرے پاس بچی ہے بس وہ یہی ہے، اگر تو اب بھی اِس کو کاروبار میں لگا لے۔ اس کا بڑا حصہ تو تو ضائع کر ہی چکا۔جو وقت تو ضائع کر بیٹھا باقی زندگی پوری تو اسی پر روتا رہے تو بھی حق ادا نہ ہو۔ پھر اس بارے میں کیا خیال ہے کہ جو باقی بچا اِس کو بھی تو ضائع کرلے! اے نفس کیا تجھے معلوم نہیں موت تیری میعاد ہے۔ قبر تیرا ٹھکانہ ہے۔ مٹی تیرا بچھونا ہے۔ حشرات الارض تیرے پڑوسی ہیں۔ اور پھر یہاں سے اٹھے گا تو آگے روزِ محشر ہے۔کیا تجھے خبر ہے موت کے فرشتوں کا پورا ایک لشکر تیرا منتظر ہے؟!

اے نفس! کیا تو جانتا ہے کہ یہ جو مردے قبروں میں پڑے ہیں، وہ یہ تمنا کرتے ہیں کہ کاش انہیں یہاں دنیا میں لوٹ آنے کیلئے بس ایک دن دے دیا جائے تاکہ وہ اپنے قصوروں کی تلافی کر لیں اور جو بھاری نقصان وہ اپنے حق میں کر چکے اس کا ازالہ کر جائیں؟ اے نفس جس چیز کی وہ تمنا کرتے ہیں پر کبھی وہ انہیں ملنے والی نہیں تیرے پاس وہ آج وافر ہے۔ جانتاہے تیری زندگی کا ایک دن اگر ان مردوں کو بیچا جائے تو پوری دنیا دے کر وہ اس ایک دن کو تجھ سے خرید لیں، بشرطیکہ وہ اس کی قدرت پائیں؟اور تو ایسی دولت کو کس لا پروائی سے ضائع کرتا جا رہا ہے۔ یہ دن اور راتیں کس غفلت اور بے کاری میں گزرتے ہیں؟! وائے اے نفس! تو سنبھل کیوں نہیں جاتا؟

اپنے ظاہر کو، جسے تو نے مخلوق کے سامنے لے جانا ہوتا ہے، دیکھ تو کس قدر سنوارتا نکھارتا ہے۔ خدا کو دکھانے کیلئے تیرے پاس البتہ گناہ ہیں اور برے سے برے کرتوت۔ کیا سب شرم تو نے مخلوق کیلئے ہی بچا رکھی ہے، خالق کے سامنے شرمسار ہونے کا تجھے خیال تک نہیں؟ کیا تجھے دیکھنے والوں میں تیرے نزدیک سب سے کم وقعت وہی ذات ہے جس نے تجھے پیدا کیا اور جس کے قبضے میں تیری جان ہے؟؟؟

تو اوروں کو نیکی کی بات بتانے چل پڑتاہے اور خود برائیوں میں دھنسا پڑی ہے؟ !اوروں کو خدا کی طرف بلا رہا ہے اور خود خدا سے بھاگا ہوا ہے؟! دوسروں کو خدا کی یاد دلاتا ہے اور خود خدا کو بھولا ہوا ہے؟! تو خوب جانتا ہے طہارت کیلئے تو پاک کرنے والا پانی ہی درکار ہوتا ہے۔ تو اوروں کو پاک کرنا چاہتا ہے اس حال میں کہ تو خود پاک نہیں ہے!؟

ارے اے نفس! تو جو دوسروں کو دعوت دیتا پھرتا ہے، اگر تجھے خود اپنی حالت کی خبر ہو جائے تو تو کہے کہ پوری دنیا کے مصائب تیری ہی نحوست کے باعث ہیں۔ افسوس تجھ پر کہ تونے ابلیس کیلئے اپنے آپ کو نہایت آرام دہ سواری بنا رکھا ہے اور وہ تیری پیٹھ پہ سوار تجھے جدھر کو چاہتا ہے ہانک لے جاتا ہے۔ وہ تجھ پہ بیٹھا تجھ پہ ہنستا ہے مگر تجھے رونا نہیں آتا۔

پھر، تجھے اپنے عمل پہ زعم ہونے لگتا ہے اور گناہوں کے ڈھیر تجھے نظر نہیں آتے۔ جانتا ہے اس ابلیس نے دو ہزار سال تک خدا کی عبادت کی پھر جب اس نے خم ٹھونک کر خدا کی معصیت کی تو اس کو راندۂ درگاہ کردیا گیا؟ آدمؑ خدا کے نبی اور ولی ہوتے ہوئے خدا کی معصیت کرتے ہیں تو انہیں جنت سے نکال دیا جاتا ہے۔ اے نفس تو نے کونسی نیکی کر لی جو تجھے اتنا مان ہے؟ خدا کی معصیت کرتے وقت کیا کبھی تو نے اپنی جرأت دیکھی؟

اے نفس! یا تو تو نے یہاں دنیا بسائی ہے یا گناہ اکٹھے کئے ہیں۔ یہ تو تیری پونجی ہے! کسی بھی وقت جہاں سے تجھے کوچ کرجانا ہے اس جگہ کو سجانے سنوارنے سے تجھے فرصت ہی نہیں! ان قبروں میں پڑے ہوؤں کو بھی کبھی دیکھ لے، دنیا بسانے میں انہوں نے کوئی کمی تو نہ چھوڑی تھی! کیا کچھ انہوں نے جمع نہیں کیا؟ کیا کیاکچھ انہوں نے نہیں بنایا؟ کیسی کیسی آرزوئیں ہیں جو انہوں نے نہیں پالی تھیں؟ وہ سب جو انہوں نے جمع کیا تھا آخر اُن کے کام تو نہ آیا! اُن کی بلند وبالا عمارتیں اُن کیلئے حسرت ہی بنیں، قبریں تو اُن کی پھر بھی چٹیل ویرانوں ہی میں بنیں! ان کی سب آرزوئیں فریب ثابت ہوئیں اور آخر وہ ایک اٹل حقیقت کا سامنا کرنے کیلئے چپ چاپ چل دیے۔ وائے اے نفس! اتنی دنیا مری پر تجھے عبرت نہیں! اُن کے بارے میں کبھی غور تو کر۔ تیرا کیا اندازہ ہے اُن کو تو بلاوا آگیا اور تجھے ہمیشہ رہنے کیلئے یہاں چھوڑ دیا جائے گا؟ اف! کہاں! تجھے اگر یہ زعم ہے تو کتنا برا زعم ہے۔ تو جب سے اپنی ماں کے پیٹ سے باہر آیا ہے تب سے تو اپنی عمر ایک ایک اینٹ کر کے گرا ہی تو رہا ہے۔ زمین کے اوپر محل بنا لے، دفن تجھے زمین کے نیچے ہی ہونا ہے۔ آخر تو ڈرتاکیوں نہیں اُس وقت سے جب روح تیری ہنسلی میں آ پھنسے گی اور تیرے رب کے بھیجے ہوئے خوفناک فرشتے تیری جان نکالنے کا کام شروع کردیں گے کیا تب پچھتاوا تجھے کچھ فائدہ دے گا؟ تیرے رونے دیکھ کر کیا وہ تجھے چھوڑ دیں گے؟ تیرا افسوس کرنا اور تیرا ہائے دہائی کرنا کیا اُس دن قبول ہو جائے گا؟ عجیب تو یہ ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود تجھے خردمندی کا دعویٰ ہے! تو اس کو ذہانت سمجھتا ہے کہ روز تیرا مال بڑھے تو اس پر تو خوب خوش ہو۔ مگر روز تیری عمر گھٹتی ہے اس پر تجھے کبھی افسوس نہیں ہوا! کیا یہی دانش ہے؟ مال بڑھتا جائے عمر گھٹتی جائے، حسرت یہی تو ہے کہ ایک دن یہ دونوں باتیں اپنی انتہا کو پہنچ جائیں!!!

ظالم نفس! آخرت سے منہ موڑتا ہے حالانکہ وہ آرہی ہے۔ دنیا کو اپنا رخ دیے بیٹھا ہے حالانکہ دنیا جار ہی ہے۔ کتنے ہی ایسے ہیں جو دن شروع کر لیتے ہیں مگر دن پورا نہیں کر پاتے۔ کتنے ہی ایسے ہیں جو تجھ سے کہیں بڑھ کر آرزوئیں اور ارادے رکھتے ہیں مگر وہ انکو پہنچ نہیں پاتے، اس سے پہلے ہی لے جانے والے انکو حساب کی جگہ لے جاتے ہیں۔ تو روز یہ دیکھتا تو ہے۔ تیرے اپنے ہی بھائی، تیرے اپنے ہی عزیز، تیرے ہی آس پاس کے لوگ موت کے وقت حسرت کی تصویر بنے یہاں سے جائے جارہے ہیں۔ مگر تو پھر بھی ’انجان‘ بنا رہنا چاہتا ہے! اے ناتواں نفس! وقت سنبھال لے اور اُس دن کا خیال کرلے جسکی بابت رب العالمین نے قسمیں اٹھا رکھی ہیں کہ کوئی ایک بھی نفس جسے اُس نے دنیا میں اپنے امر و نہی کا پابند کر کھا تھا، اُسکے سامنے کھڑا پیر تک نہ ہلا پائے گا جب تک وہ اس سے اس کے عملوں کا حساب نہ لے لے۔ پس اے نفس ابھی سوچ لے کن پیروں پہ تو اُس دن اپنے مالک کے سامنے حساب دینے کیلئے کھڑاہو گا؟ کس زبان سے تو اُس دن اپنے مالک کے سوالوں کا جواب دے گا؟ سوال کیلئے ابھی سے جواب تیار کرلے اور جواب کے صحیح ہونے کی تسلی کر جا۔ جو زندگی ابھی باقی ہے اس کو بہت بڑی غنیمت جان۔ یہاں کے مختصر دنوں میں وہاں کے طویل دنوں کا سامان کرلے۔ زوال کی اِن گھڑیوں میں اُن لازوال ساعتوں کیلئے کچھ کر جا۔ دکھوں کے اِس گھر میں اور محنت مشقت کے اِس جہان میں نعیم اور خلود کی ضمانت پا جا۔ عمل کرلے قبل اس کے کہ تجھے عمل کرنے نہ ملیں۔ اِس دنیا سے باعزت نکلنے کا سامان کر لے قبل اس کے کہ تجھے یہاں سے رسوا ہوکر نکلنا پڑے۔ دنیا کے ٹھاٹھ پر ہرگز مت اِترا۔ کتنے ہی ایسے ہیں جو یہاں بڑے خوش تھے آگے جا کر بہت روئے۔ یہاں کتنے ہی ایسے ہیں جو بڑے بڑے گھاٹے کھانے میں مصروف ہیں اور ان کو اِس کی ذرہ بھر خبر نہیں۔ برا ہو اس شخص کا جس کی بربادی طے ہے اور وہ ہنسی میں مگن ہے! جس کی بابت طے ہے کہ یہ شخص جہنم کا ایندھن ہے اور وہ ہنس ہنس کر بے حال،خوب کھانے پینے اور شغل تماشے میں مصروف ہے!

پس اے نفس! دنیا کی جانب تو جب بھی دیکھے تو وہ عبرت کا دیکھنا ہو۔ دنیا کیلئے تیرا سعی کرنا ضرورت کیلئے ہو۔ دنیا کو تیرا مسترد کردینا تیرے اختیار سے ہو نہ کہ مجبوری سے۔ تیرا آخرت کی طلب کرنا تیرے دل کی چاہت سے ہو اور آگے بڑھ کر ہو۔ ایسا کم عقل مت ہو کہ جو تجھے مل چکا اس کے معاملہ میں تو تُو شکر گزار ہونے سے عاجز رہے البتہ جو ملنے سے رہ گیا اس کو آگے بڑھ بڑھ کر مانگے، دوسروں کو ایک بات سے روکے اور خود نہ رکے۔

خوب جان لے دین کا کوئی مول نہیں۔ ایمان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ یہ جسم جو تجھے مل چکا دنیا میں بس یہی ہے، اس کے بعد صرف فنا ہے۔ تیری یہ فنا مسلسل جاری ہے اگر تجھے کچھ ہوش آجائے۔ ہر نیا دن چڑھنے کے ساتھ تیرا ایک حصہ فنا ہوجاتا ہے۔ جس شخص کو رات اور دن کی یہ تیز رفتار سواری اٹھائے جارہی ہو وہ تو نہ بھی چلے تو چلتا ہے۔

اے نفس اسی نصیحت کو کافی جان۔ کیا تو جانتا نہیں، جو شخص نصیحت کا اثر لینے پر تیار نہ ہو وہ اپنے رویے سے یہی تو کہتا ہے کہ وہ دوزخ جانے کو تیار ہے؟ اے نفس، تو ہے جو دوزخ جانے پر تیار نہیں، مگر نصیحت سننے پر بھی آمادہ نہیں! دیکھ اگر نصیحت سننا مشکل ہے تو تہجد اور قیام اللیل سے مدد لے لے۔ پھر بھی دل ساتھ نہ دے تو روزوں کا معمول بڑھا لے۔ پھر بھی افاقہ نہیں ہوتا تو لوگوں کے ساتھ ہر وقت گھلے ملے رہنا کم کر لے۔ پھر بھی دل نرم نہ تو کہیں یتیموں کو ڈھونڈ اور ان پر شفقت کر۔ صلہ رحمی سے مدد لے۔ کسی بھی نیک عمل سے فرق نہ پڑے اور دل کی سختی ہر صورت ہی باقی رہے تو سمجھ لے کہ گناہوں کی کوئی بہت ہی موٹی تہہ چڑھ چکی ہے اور خدا نے اس کے باعث دل پہ قفل چڑھا دیے ہیں۔ پس اگر نصیحت کا کوئی اثر تجھ پر ہوتا ہی نہیں تو اے نفس اپنے آپ کو دوزخ کیلئے تیار کرلے اور سمجھ لے کہ سیاہ بختی کی ایک علامت تجھے یہیں اِسی دنیا میں دِکھا دی گئی، تاکہ اگلے جہان میں تجھ کو اپنے انجام پر تعجب نہ ہو۔ خدا نے جنت اگلے جہان میں پیدا کی ہے پر جنت جانے والی شکلیں یہاں پیدا کر رکھی ہیں۔ دوزخ اگلے جہان میں بنائی پر دوزخ کی اہل صورتیں یہاں پیدا کر رکھی ہیں۔ ہر کوئی جس چیز کیلئے پیدا کیا گیا اسی کیلئے سہولت پاتا ہے۔

اور اگر کسی صورت نصیحت کو تیرے اندر اترنے کا راستہ ملتا ہی نہیں تو پھر اپنے آپ سے مایوس ہوجا اور سمجھ لے دروازے بند ہیں۔ مایوسی البتہ کفر ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ۔ ایسی بدبختی سے خدا کی پناہ۔ مومن کا شیوہ بجا طور پر یہی ہے کہ وہ رجاءاور امید سے کسی وقت دستکش نہ ہو۔ پر یہ جان لے کہ خدا سے رجاءاور امید ہونا اسی وقت معتبر ہے جب تو اپنے دل پر سب کے سب خیر کے دروازے بند نہ پائے۔ ہاں جب خیر کو کوئی راستہ تیرے دل میں اترنے کیلئے نہ ملتا ہو اور تو پھر بھی سمجھے کہ تو رجاءاور امید کی نعمت سے مالا مال ہے تو یہ رجاءنہیں بلکہ علمائے قلوب کے ہاں یہ ’اغترار‘ یا ’غرور‘ کہلاتا ہے۔ اس کو ’فریب پسندی‘ کہا جاتا ہے۔ پس تو اپنا جائزہ لے لے کیا اس مصیبت پر جس میں تو مبتلا ہے تیرا دل دُکھتا ہے؟ کیا تیرے اپنے اوپر ترس کھا کر تیری آنکھ کوئی آنسو لے آنے کی روادار ہوتی ہے؟ اگر یہ نظر آئے کہ تیری آنکھ اپنی اس حالت پہ آنسو لے آنے سے ابھی عاجز نہیں ہوئی تو خوش ہوجا اور سمجھ لے یہ ایک قطرہ جو تیری آنکھ کو نصیب ہوا اِس کے پیچھے خدا کی رحمت کا ایک بحر ہے۔ تب سمجھ لے کہ امید اور رجاءکی بڑی گنجائش ہے۔ تب تو، رونا اور اپنی حالت پہ آنسو بہانا اپنا معمول بنا لے۔ اُس ذات سے اور بھی مدد مانگ جو ارحم الراحمین ہے۔ اپنی عاجزی اور بے بسی کا شکوہ اس ذات کے پاس اور بھی کر، جوکہ اکرم الاکرمین ہے۔ اُس سے فریاد کرنے میں ہرگز کوئی کمی مت کر اور اس سے یہ خیر مانگنا اپنا معمول بنا لے۔ اپنا حال اس سے خوب کھل کر کہہ۔ اُس کے آگے اپنی حالت کے رونے رونے سے ہرگز عاجز نہ ہو۔ اور تیری مناجات اس کے حضور طویل ہوجائے تو اس کو گراں مت جان۔ کیا بعید وہ تیری رونی صورت پہ ترس کرلے اور تیری فریاد رسی کا فیصلہ فرما لے۔ آخر تیری یہ مصیبت کوئی چھوٹی مصیبت تھوڑی ہے۔ تیری آزمائش ایک بڑی آزمائش ہے۔ یہاں تیرے انجام کا سوال درپیش ہے۔ تجھے کسی اور کی نہیں اپنی ہی زیادتی کا سامنا ہے اور تو نے اپنے ہی اوپر ظلم کمایا ہے۔ یہاں تیری مدد اُس ذات کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ تیرے سب حیلے جواب دے چکے۔ سب اسباب ساتھ چھوڑ چکے۔ تیرے پاس کوئی چارہ نہیں رہ گیا، تیرا کوئی فریاد رس اور کوئی جائے پناہ باقی نہیں، سوائے تیرے مالک کے۔ اُس کی امان میں چلا جا اور اُس کی پناہ میں آجا۔ اُس کے آگے گریہ کر، وہی تیری حالت پہ رحم کر سکتا ہے۔ اپنے اس گریہ اور بے بسی کے اظہار میں اتنا ہی خشوع اختیار کر جتنی بڑی تجھ سے نادانی ہوئی ہے اور جتنے تجھ سے گناہ ہوئے ہیں۔ اُس کے پاس جو ذلت اختیار کرکے آئے اور اُس کے حضور جو اپنی بے بسی بتائے، ممکن نہیں وہ اس پر رحم نہ کرے۔ بے یار ومددگار کی فریاد رسی کرنا اُس کی دائمی شان ہے اور مضطر کی دعا قبول فرمانا اس کی ہمیشگی صفت۔ تیرے سب اسباب جواب دے گئے ہیں اور تو اپنے ہی اوپر حد سے بڑھ کر بے رحم ہو چکا ہے اور تیرا دل خیر کا اثر لینے کے معاملے میں تیرا ساتھ چھوڑ چکا ہے اور سب نصیحتیں تجھ پر بے کار چلی گئی ہیں تو وہ ذات جس سے تو اس خیر کا سوال کرسکتاہے یہ سب خیر اور یہ سب نعمتیں اپنے پاس رکھتی ہے اور دینے میں حد سے بڑھ کر کریم ہے۔ تو جس ذات سے فریاد کرنے جارہا ہے ، احسان اس کی صفت ہے اور مانگنے والے کو خالی لوٹانا اس کی شان کے منافی۔ اُس سے مانگ کر تو کبھی گھاٹے میں نہ رہے گا۔ کیا تو سوچ سکتا ہے کہ جو چیز بھی تیرے تصور میں آئے اُس ذات کی رحمت اس پر وسیع ہے۔ پھر تیرے گناہ کیا ہیں جو وہ معاف نہ کرے اور تجھے بخش کر اپنے ہاں پزیرائی نہ دے؟! سمندر کی موجیں کیا ہیں اس کے کرم کی ٹھاٹھوں کے آگے؟! اُس کی بخشش کی کوئی حد نہیں۔ اُسے پکار۔ کہہ: اے وہ ذات جس سے بڑھ کر کوئی مہربان نہیں! اے رحمٰن! اے رحیم! اے وہ ذات جس کی صفت درگزر کر دینا ہے! عظمت کے مالک! اے کریم ہستی! مجھ سے قصور ہوئے ہیں۔ گناہوں پہ گناہ ہوئے ہیں۔ تیرے سامنے جرأت ہوئی ہے۔ بدی کا رَسیا ہوگیا ہوں اور اس سے ٹلتا نہیں۔ تیری نافرمانی میں بڑھتا جاتا ہوں اور تیری شرم کرنے سے عاری ہوگیا ہوں۔ اے مہربانوں سے بڑھ کر مہربان! خیر سے تہی دست ہوں، تجھ سے بھیک مانگتا ہوں۔ مجھ پر فضل کردے۔ بے چارہ ہوں۔ بے حیلہ اور ناچیز ہوں۔ غرق ہونے کو ہوں۔ تو نے نہ تھاما تو برباد ہی برباد ہوں۔ خدایا! مجھے سہارا دے اور میری اس حالت سے مجھے چھٹکارا دلا۔ مجھے اپنی رحمت کے آثار دیکھنے کو اور اپنے کرم کے ثمرچکھنے کو نصیب کر۔ اے بخشش کرنے والی ذات، تیرے عفو کا سوالی ہوں، وہ عفو جسے تو نے اپنے گناہگار بندوں کیلئے ہی رکھا ہے۔ تیری مغفرت وبخشش کیلئے تیرے آگے ہاتھ پھیلاتا ہوں، وہ بخشش جس کو لٹانا تجھے عزیز ہے اور میری یہ ضرورت۔

(استفادہ از: احیاءعلوم الدین مؤلفہ امام غزالی، فصل توبیخ النفس ومعاتبتہا ص: 417- 422)

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز