ترمذی کی ایک حدیث(1) کا مفہوم ہے :
”جو آدمی صبح اٹھے تو صحیح سلامت ہو آفتوں سے محفوظ ہو ، ہاتھ پیر چلتے ہو ں ، جسم کے اعضاءقویٰ اور کام کرتے ہوں، اور اس روز کا کھانا اسکو میسر ہو تو گو یا اسے دنیا جہاں کی خیر و سعاد ت حاصل ہے“
عزیز بھائیو اور بہنو، ہم میں سے بیشترکو دنیا جہاں کی یہ خیر اور سعادت حاصل ہے بس یہ سوچنا شاید باقی ہو کہ لکھنے والے صبح شام ہمارا نام کس خانے میں لکھ کر لے جاتے ہونگے۔ شکرگزار یا نا شکرے!!
ویسے عموماً اس خیر و عافیت کی قدر صرف اس وقت ہوتی ہے جب یکایک یہ ہاتھ سے جاتی رہے، آدمی اپاہج ہوجائے تو دنیااسکے لیے اندھیر ہوجاتی ہے کوئی زندگی بھر کا روگ لگ جائے تو مایوسی کے سیاہ بادل چھا جاتے ہیں اور آدمی سمجھنے لگتا ہے کہ اب کوئی نہیں جو اسکی دنیا روشن کرسکے انسان درحقیقت ظالم اور نادان ہے وہ کسی نعمت کا ادراک کرتا ہی نہیں جب تک وہ اس سے چھن نہ جائے۔ حالانکہ نعمت کا ادراک تو محض اس لیے مطلوب تھا کہ وہ اسکا کچھ شکر اداکرے۔ ایسے ادراک اور خالی احساس کا کیا فائدہ جو وقت گزر جانے کے بعد پیدا ہو اور پھر دل کو حسرتوں کا روگ لگادے!! جو نعمت ہاتھ سے جاتی ہی رہی اب لاکھ اسکا احساس کریں آپ اس پر شکر تو نہ کرپائے! اب تو شکر نہیں صبر ہوگا!! پر جو ظالم نعمت پر شکر تک نہ کرسکا و ہ مصیبت پر صبر کیا کرے گا۔ شکر اور صبر دونوں ہی عبادت ہیں بلکہ عباد ت کی جان ہیں پر ان دونوں عبادتوں کا اپنا اپنا وقت ہے اور اپنی اپنی جگہ ۔ غلط وقت یا غلط جگہ پر تو نماز بھی قبول نہیں !!!
صاحبو! ہم سب انسان ہیں اورانسان حقیقت میں ظالم اور نادان ہے جب تک نعمت حاصل ہے یہ خوش رہتا ہے۔ اس پر اپنا حق جتاتا ہے۔ اتراتا ہے۔ اور منعم کو تو گویا بھول ہی جاتا ہے کہ اُس کا بھی کوئی حق ہے اور نعمت دے رکھنے سے اُس کا بھی کوئی مقصد ہے۔ اب بھلا ایسے نا شکرے کو خدا یاد دلانا ہو تو اسکی کیا صورت ہے؟ تا کہ یہ جو اُس کے آسمان تلے رہتا ہے اور اُس کی زمین پر اُس کے فضل کا سہارا ٹیک کر چلتا ہے اپنی اوقات یاد کرلے سمجھ جائے کہ جس چیز کے بل بوتے پر یہ ٹھاٹھ کرتا ہے و ہ اِس کی اپنی نہیں پرائی ہے یہ جن نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے ان میں سے کسی ایک پر بھی اِسکا حق نہیں۔ یہی نہیں بلکہ جن ہاتھ پاؤں ، جن آنکھوں ، جن کانوں ، جس دل اور جس دماغ کے ذریعے یہ ان نعمتوں کا حظ اٹھاتا ہے اور ہر وقت مزے کرتا ہے وہ بھی اسکے اپنے نہیں ۔ یہ دیدہ دلیری محض پرائے مال پر عیاشی ہے جس کی دنیا میں کہیں گنجائش نہیں ۔ ایسی سینہ زوری چل جانے کی تو صرف ایک صورت ہے کہ اصل مالک نرا مجبور اور لاچا ر ہو،تب آدمی زبردستی اسکی چیز دبا رکھے! پر جو زبردست اور زور آور ہو اسکے آگے دم بھلا کون مارتا ہے! اُسکی چیز تو اُسکی مرضی اور احسان مندی کے بغیر ایک لمحہ نہیں رکھی جاتی !!!
پھر یہ سارا کچھ جان کر جو کم ظرف ہر نعمت کا خود مالک بن بیٹھے، اس پر اپنا حق جتائے، اترائے اور کہے یہ’ میری ‘ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہاں کتنے آئے او ر کتنے گئے اس زمین پر نہ تو آج تک کوئی خود رہا اور نہ ہی وہ چیز جسے وہ ’میری‘ کہتا ہے، ہر کوئی مٹی کا تھا اور مٹی کی چیز بالا خر مٹی کو مل کر رہی.... تو آپ ہی بتائیے ایسے ناشکرے کو موت سے پہلے خدا یاد دلانے کی کیا صورت ہے؟ یہی نا کہ جو جو کچھ یہ ’اپنا‘ سمجھتا ہے اور اس پر اپنی مرضی چلاتا ہے اس میں سے کوئی ایک چیز اسکی’اپنی‘ نہ رہے! اس کو جو ہزار ہا نعمتیں حاصل ہیں ان میں سے کوئی ایک آدھ ذرا اس سے چھن جائے!! تب جاکر اس کا ماتھا ٹھنکے کہ اگر وہ چیز اسکی ’اپنی‘ تھی تو پھر اسکی مرضی کے بغیر وہ چلی کیسے گئی ۔ بھئی مالک کی منشا کے بغیر چیز آ خر جا کہاں سکتی ہے ! پھر اگر اسکو ’مالک‘ اور ’مزدور‘ کا فرق سمجھ آجائے تو یہ سودا مہنگا نہیں! بھائیو خدا اپنی عافیت میں رکھے، سچ پوچھیں تو یہ بھی ایسے انسان پر ایک نعمت ہوئی جو اسے باقی نعمتوں کی قدر و قیمت معلو م ہو اور چھن جانے والی نعمت پر اپنا ظلم یاد آئے۔ مگر .... انسان بہت ظالم اور نادان ہے ۔ اپنا قصور کب مانتا ہے۔ الٹاخدا کو دوش دیتا ہے واویلا کرتا ہے اور شکووں سے خالق ہی کو بدنام کرتا ہے۔ قسمت سے خدا ’یاد‘ بھی آیا تو گلے کرنے اور دھائی دےنے کو! اپنا ظلم نہ تب مانے جب یہ ناشکرا تھا اور نہ اب مانے جب یہ بے صبر ا ہے!!
الا المصلین سوائے بندگی کرنے والوں کے جو ہر حال میں اپنی اوقات یاد رکھتے ہیں ۔ اپنے خالق کا مقام جانتے ہیں ۔ اسکا حق پہچانتے ہیں اور یہ حق ادا کرنے کا خیال انکو صبح شام بے چین رکھتا ہے جو سب کچھ دے کر بھی سمجھتے ہیں کہ حق ادا نہ ہوا بھائیو اس نعمت کا نام ہدایت ہے جہاں میں ا س سے بڑی کوئی نعمت نہیں بس یو ں سمجھو ہدایت ایک سلیقہ ہے جس سے ہر نعمت کا حق ادا ہوتا ہے ہر دکھ میں سکھ کا پہلو نکل آتا ہے گویا اس نعمت کے اندر ہر نعمت ہے اور اسکے بغیر ہر راحت و بال جان عزیز و کچھ بھی مانگو تو ساتھ یہ نعمت ضرور طلب کرو یہ مانگنے سے بہت ملتی ہے اور دینے والادینے پر آئے تو بے حساب دیتا ہے ۔
اللّٰھم انی اسئلک الھدیٰ والتقیٰ والعفاف والغنیٰ (صحیح مسلم)
٭٭٭٭٭
قارئین! آپ نے ملک میں آئے روز مہنگائی اور ٹیکسوں کا رونا بہت سنا ہوگا! یہ کوئی ایسا غلط ہے نہ اچھنبے کی بات۔ ظلم کے نظام میں آخر توقع ہو بھی کس چیز کی سکتی ہے! مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کتنا کچھ آپکو بالکل مفت ملتا ہے، کیا اسکی بھی کوئی قیمت ہے؟ کوئی چیز آپکو مفت ملنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ سرے سے اسکی کوئی قیمت نہیں! بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ ہو توآپکو بہت کھلتا ہے، مگر صبح سے شام تک آپ کتنی ہوا پھونک لیتے ہیں، کیا اسکا بھی کبھی آپ نے حساب کیا؟ اگر اس پر بھی دام اٹھیں اور ٹیکس پڑیں تو آپ کیا کریں گے ؟ بجلی او رگیس کی طرح کیا ہوا کا استعمال بھی کم کرلیں گے ؟
پھر اشیائے خوردونوش اور روزمرہ استعمال کی ان چیزوں کو بھی لے لیجئے جوآپ بازار سے خریدتے ہیں۔ انکے بھاؤ بڑھنے اور ان پر بھتے لگنے کی نوبت بھلا کب آتی ہے؟ تبھی نا جب یہ چیزیں انسانوں کے ہاتھ میں پہنچتی ہیں البتہ انکے پیدا کرنے والے نے تو کبھی انکے ”پیسے“ طلب نہیں کئے!!! اُسکے پاس سے تو بھائیو سب مفت آتا ہے.... مفت!!!
اور یہ جو چیزوں کی’ قیمت ‘ہم جیب سے نکال کر دے دےتے ہیں یہ بھی بھلا کہاں سے آتی ہے؟غالباً اِس کا جواب ہمارے پاس یہ ہوگا کہ یہ ہماری اور ہمارے باپ دادا کی خون پسینے کی کمائی ہے! جواب برا نہیں ۔ اسباب کی دنیا میں جواب اس کے سوا ہو بھی کیا سکتا ہے۔ مگر یہ اس سوال کا پورا جواب نہیں ۔بھئی یہ کمائی ہوئی کیسے ؟ اور یہ خون پسینہ ، ساری دنیا کو ایک سا کیوں نہیں ملا؟ پھر جو بھوک سے لوگ مرجاتے ہیں انکا ’خون پسینہ‘ کہاں چلا جاتا ہے؟ وہ بے وقوف یہ کمائی کیوں نہیں کرلیتے!!؟اس کا جواب ہم کیا جانیں بھئی یہ توقسمت کے کھیل ہیں! اور’ کمائی‘ کے مواقع ؟ یہ سب چانس پر ہے!!! ویسے کمائی کےلئے یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کے ہاتھ پیر چلتے ہوں اور دل و دماغ صحیح کام کرتے ہوں.... جی ہاں وہی چیز جسے اﷲ کے رسول نے دنیا جہان کی خیر و سعادت کہا ہے!!
قارئین و قاریات!
ہم میں سے بیشتر کو دنیا جہا ں کی یہ خیر اور سعادت حاصل ہے یہ فراغت ، یہ تن آسانی ، یہ صحت ، یہ جوانی ، یہ خوشیوں اور امنگوں سے بھری زندگی کتنی بڑی بڑی نعمتیں ہیں!بھلا آنکھ چلی جائے تو ’نئی ‘کتنے میں ’لگ ‘جاتی ہے ؟ سماعت جواب دے جائے تو ’مرمت‘ کتنے میں ہوجاتی ہے ؟ دل کا عارضہ لگ جائے تو جان کب جاکر چھوٹتی ہے؟ اور تو اور دانتوں کی قدر بھی آدمی کو تب ہوتی ہے جب کسی ایک دانت یا داڑھ میں زور کی ٹیس اٹھے یا جب مسوڑھوں سے چیز چبانی پڑے! کسی پیاسے یا قحط سالی کے مارے سے پوچھئے گا ٹھنڈا پانی کتنی بڑی نعمت ہے! یہی پانی جسم سے کچھ دیر خارج نہ ہو تو پتہ چلے حضرت انسان کے لیے پیشاب کا آنا کتنا اشد ضروری ہے! آپکے مسام بند ہوجائیں تو انکو کھلوانے پر کیا خرچہ آتا ہے! ؟ کبھی کسی ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں آکسیجن ماسک لگے مریض سے پوچھ کر دیکھئے گا ایک سانس کا کیا مول ہے !
بھائیو! گھر کی راحت اور زندگی کا سکون کتنی بڑی نعمت ہے !بچوں کی فرمائش پوری کرنا آپ کے بس میں ہوتو خوشی سے انکا چہکنا اور بے خودی میں انکا اچھلنا دل کو کتنا بھلا لگتا ہے۔ گھر کا دروازہ کھلتے ہی دہلیز میں بچے آپ سے لپٹ جاتے ہیں تو دنیا کتنی خوبصورت ہوجاتی ہے! ایک خوشیوں سے بھرے قہقہو ں سے گونجتے گھر کا بولو کیا مول لگاتے ہو ؟ دوستوں اور عزیزوں کے فرا ق میں دل کو کھینچ کیسے پڑتی ہے؟ پھر طویل جدائی پر یہ وارفتگی سے لپٹ جانا کیا ہے؟ کسی پیارے کا جنازہ اٹھاتے ہو تو گویا دل نکل جاتا ہے! یہ بیٹوں اور عزیزوں کی محبت آخر کیا چیز ہے او رکس نے یہ الفت گوشت پوست کے لوتھڑوں میں بے حساب بھر دی ہے؟ پاک ہے وہ ذات جس نے مٹی کو رشتوں کی پہچان سکھائی اور محبت کا سلیقہ بخشا!!! بھائیو پھر اس محبت پر کیا صر ف مٹی کا حق ہو، اِس کے خالق کا حق مقدم نہ ہو؟؟!
بہنو! تم اپنے سہاگ کا کیا مول لگاتی ہو !؟اپنے نونہالوں کے سر پر باپ کا سایہ سلامت رہنے کی کیا قیمت دیتی ہو؟اوس پڑوس کے کسی گھر سے تم نے کبھی یتیم بچوں کی معصوم چیخیں اور کسی جوان بیوہ کے دل چیر دینے والے نوحے ضرور سنے ہونگے ۔ آخر انکے ہاں سے کیا چلا جاتا ہے !؟ یایوں کہوانکے ہاں کیا رہ جاتا ہے؟ !! تمہارا کنبہ سلامت ہے اور تمہاری خوشیاں آباد __ اور خدا کرے آباد رہیں __ تواس کو تم محض اتفاق سمجھتی ہو !اُس حکیم اور خبیر کے کام ہوں اور پھر اتفاق ! .... اتنا بڑا ظلم !!!تمہارے آنگن میں کھیلنے والے یہ قہقہے اور تمہارے لعلوں کی یہ چہک کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں! دیکھو، یہ تم پر تمہارے مالک کا یہ احسان ہے جوتمہارے گھر کو تمہارے لیے خوشیوں کا گہورا بنانے کے لیے صبح شام اپنا فضل کرتا ہے! پھر تمہیں اپنی اس چھوٹی سی دنیا کو اسکی شکر گزاری اور بندگی کا نمونہ بنادینے میں آخر کیا تامل ہے ؟؟؟
بھائیو او ر بہنو! اپنی عقیدت اور شکرانہ پیش کرنے کےلئے اب کس’ لمحے‘ کا انتظار ہے!!؟
٭٭٭٭٭
ترمذی میں ہے ابوبرزہ ا سلمیؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسولﷺ نے فرمایا(2):
(اﷲ کے سامنے ) کسی بندے کے قدم ہلنے بھی نہ پائیں گے جب تک وہ ان چیزوں کا جواب نہ دے لے
زندگی تھی وہ کس( مقصد ) میں گزاردی؟
علم تھا تو اسکا کیا کیا ؟
مال تھا تو وہ کہاں سے کمایا؟
اور کہاں خرچ کرتا رہا ؟
اور اپنے بدن کی (قوتوں اور صلاحیتوں ) کا کیا مصرف کیا ؟
ایک اور حدیث(3) میں یہ سوال بھی آتا ہے ۔
جوانی تھی تو اس کا کیا بنایا ؟
صحیح مسلم میں ابو ھریرہ ؓ اور عائشہؓ کی روایات جمع کرنے سے کچھ یو ںمفہوم نکلتا ہے کہ:
”جس صبح کا سورج بھی آدمی کو دیکھ لینا نصیب ہوجائے اس روز آدمی پر اپنے ایک ایک جوڑ کی صحت اور سلامتی کا صدقہ دینا ضروری ہوجاتا ہے وہ اﷲ کی تسبیح کرے۔ تکبیر کہے۔ اسکی حمد و تعریف کرے سب صدقہ ہے یہ صدقہ اﷲ کی توحید کے بار بار اقرار (تہلیل )سے ادا ہوسکتا ہے امر بالمعروف یعنی نیکی کا حکم دے کر ہوسکتا ہے نہی عن المنکر یعنی برائی سے روک کر کیا جاسکتا ہے مخلوق میں عد ل و انصاف کرادینا صدقہ ہے مشکل میں کسی کے کام آنا صدقہ ہے راستے سے رکاوٹ اور تکلیف کا سبب دور کردینا صدقہ ہے منہ سے اچھی بات کہہ دینا صدقہ ہے نما ز کی طرف اٹھایا جانے والا ایک ایک قدم صدقہ ہے انسان کے کل تین سوساٹھ جوڑ بنتے ہیں پس جو آدمی شام پڑنے تک صدقوں کی اتنی ہی تعداد پوری کرلے (اپنے ایک ایک جوڑ کی عافیت کا صدقہ نکال لے) تو وہ سمجھے بس اس نے کھینچ تان کر اپنا آپ جہنم کی آگ سے بچا ہی لیا“
دیکھا آپ نے خواتین و حضرات!صبح کا سورج چڑھتا ہے تو ساتھ کتنے پیغام لاتا ہے جس کے شام تک ہمیں جواب تیار کرنے ہوتے ہیں ۔ لکھنے والے تو سورج طلوع ہونے سے پہلے آموجود ہوتے ہیں سورج غروب ہونے سے پہلے وہ اپنا کام مکمل کرلیتے ہیں اور ڈیوٹیاں تک بدل کر چلے جاتے ہیں۔ اپنے دن کا آغاز اور اختتام خوشگوار بنانے کے لیے روزانہ فجر اور عصر کی نمازو ں میں زندہ انداز کی شرکت بروقت اور یقینی بنالیجئے۔ آفتا ب کے طلوع اور غروب سے پہلے اور شفق کی سیاہی ، یہ ایسے اوقات ہیں کہ زمین پر ہونے والے سجدے اور حمد و تسبیح کے مناظر آسمانوں پر بطور خاص دیکھے جاتے ہیں ۔ شکر گزاروں کی تلاش بس یہیں ہوتی ہے!!
الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ۔ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ۔ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔ (الشعراء 218۔220)
”وہ جو تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم (اسکی بندگی کرنے کو) کھڑے ہوتے ہو۔ اور سجدے کرنے والوں میں تمہاری نقل و حرکت بھی وہ دیکھتا رہتا ہے ۔ وہ تو ہے ہی سمیع اور بصیر“
بھائیو اور بہنو !
شکر گزاروں میں نام لکھوانے کی خواہش ہے تو آئیے اپنی اپنی دنیا منعم کی مرضی اور چاہت کے مطابق تبدیل کرلیں!
سب سے پہلے تو دل کی دنیا ہے۔ اپنی اس دنیا پر بادشاہت ہر آدمی خود کرتا ہے۔ اس میں کون کس حیثیت میں رہے اور کون اس سے بے دخل ٹھہرے ؟ یہ طے کرنے کا اختیار آدمی کے اپنے پاس رہتا ہے ۔ اور دنیاؤں کا تو اس کو اختیار ہو یا نہ، مگر یہاں ضرور اسکی اپنی چلتی ہے۔ اس لیے شکرمندی کا فیصلہ بھی بس اسی پر ہوجاتا ہے۔ ہاں تو بھائی دل کی اس دنیا میں کون بستا ہے جہاں صرف تمہاری فرمانروائی ہے ؟ یہاں اُس ذات کو کیا مقام حاصل ہے جس کی رحمت سے تمہار ا وجود ہے! جس سے تم نے ساری زندگی اپنی ہر چاہت ہر ارمان پورا کرایا! وہ ذات جو برسوں سے تمہیں وقت پہ کھلاتی رہی، طر ح طرح کے مشروب سے تمہاری پیاس بجھاتی رہی، جس نے آج تک تمہار ا تن ڈھانپا ، اوروں سے تمہارا ننگ چھپایا اور اب بھی یہ اسی نے چھپا رکھا ہے! جس نے ’اوروں‘ میں ہمیشہ تمہاری عزت اور حیثیت کا بھرم رکھا۔ ہاں اُس ذات کا تمہارے اِس دل میں کیا مقام ہے...اس دل میں جس کی ایک ایک دھڑکن اب بھی اُسی کے اذن اور اشارے کی محتاج ہے ؟یہاں اگر سب سے بلند حیثیت اسکو نہیں بلکہ’ اوروں‘ کو حاصل ہے اور تم اپنی اس قلمرو میں اپنے مالک کو دوسرے ’درجے کی شہریت‘ دے کر رکھنا چاہتے تو تم اُس کی بردباری او راپنی کم ظرفی کا بس یہیں حساب کرلو!بھائی تم نے اس کو غلط جانا ۔ وہ پاک ہے صرف پاک چیز قبول کرتاہے اور پاک جگہ ہی اس کے لائق ہے!بہتر ہے اُس کے لیے اِس دل کو پاک کرلو۔’ اور وں‘ کی محبت او ر وارفتگی اِس سے نکال دو۔ غیروں کی خفگی کے اندیشے کھرچ دو ۔ سب سے بڑھ کر یہاں ایک اُسی کی چاہت رکھو اور ایک اُسی کی نظر التفات پھر جانے کا خوف۔ کبھی دل پر بس نہ چلے تو مدد بھی بے شک اُسی سے لے لو۔ پریہ دنیا چھوڑنے سے پہلے اُسکو ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ دل ضرور پیش کردو۔ بھئی کہیں اور اس کا نام بلند نہیں کرسکتے اِس دل میں تو کرسکتے ہو! کیا اِس میں بھی کوئی اور اس سے اونچا رہے؟؟ ؟ آدمی کابس ایک دل ہی تودیکھا جاتا ہے!!!
وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُون۔ يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ۔ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ۔ (الشعراء 87۔89)
”خدایا بس اس روز کی رسوائی سے مجھے بچائیو ۔ جب قبروں سے انسان برآمد کر لیے جانے ہیں جس رو ز مال کام آئے گا نہ لخت جگر بچے گا ایک وہی جو اﷲ کے پاس پہنچا تو قلب سلیم پاس رکھتا ہوا“
٭٭٭٭٭
(1) الترمذی عن عبد اللہ بن محصن، حدیث حسن (صحیح وضعیف سنن الترمذی، للألبانی، رقم: 2346، ج 5 ص 346)
(2) الترمذی، حدیث صحیح (صحیح وضعیف سنن الترمذی، للألبانی، رقم: 2417، ج 5 ص 417)
(3) السلسلۃ الصحیحۃ للألبانی، رقم: 946، ج 2 ص 629)