ایک در جو کھلا ہے!
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
حبیبہ عدویہ کی بابت آتا ہے کہ نماز عشاءکے بعد کوئی ایک ساعت گزرتی تو وہ اپنے گھر کی چھت پر چلی جاتی۔ اپنی اوڑھنی اپنے گرد کس کر لپیٹ لیتی کہ بار بار نہ کھلے۔ قیامِ شب میں کھڑی ہوجاتی اور اس سے پہلے یوں گویا ہوتی: الٰہی! تارے گہرے چلے گئے۔ آنکھیں سونے لگیں۔ سب بادشاہوں نے اپنے پھاٹک بند کرلئے۔ ہر پیار کرنے والا اپنے پیارے کے ساتھ خلوت میں جا چکا۔اور تیری یہ بندی ہے جو تیرے سامنے آ کھڑی ہوئی ہے! اس کے بعد وہ اپنی نماز میں مگن ہوجاتی۔ فجر ہوجاتی تو گویا ہوتی: الٰہی! رات جا چکی۔ دن چڑھ آیا۔ آہ کہیں مجھے معلوم ہوجائے، تو نے قبول کرلی ہے تو خوشیاں کروں، رد کردی ہے تو بین کروں! تیری عزت کی قسم! جب تک تو مجھے یہاں رکھے گا تیرے آگے روز کھڑی ہوں گی۔ ہاتھ پھیلا کر ہی رکھوں گی۔ تیرے در کو چھوڑ کر کہاں جاؤں؟ کچھ بھی ہو میں یہاں سے نہ ہلوں گی۔تیرا کرم جس کو نظر آتا ہو وہ اس کو چھوڑ کر بھلا کہاں جاتا ہے؟! (استفادہ از احیاءعلوم الدین، مؤلفہ ابو حامد الغزالی، ج 4 ص 414)
|
|
|
|
|
|