شعوانہ نام کی ایک سیاہ فام خاتون، کہ عبادت گزاروں میں اس کا ذکر ہوتا تھا، خدا کو پکارتی تو یوں گویا ہوتی:
’الہٰی! تجھے ملنے کا شوق کیا چیز ہے! تجھ سے خیر پانے کی امید کیا زبردست ہے! اور تو وہ عزت دار کہ جس کے در سے کوئی امید لے کر آیا سوالی کبھی خالی نہیں گیا اور شوق سے آیا ہوا کوئی شخص محروم نہیں لوٹا!
الٰہی! اگر میری اجل قریب آچکی ہے اور میرے دامن میں کوئی ایک بھی ایسا عمل نہیں جو مجھے تیری قربت نصیب کرادے، تو مالکا پھر میں اپنے اس اعترافِ قصورواری کو ہی اپنا وسیلہ بنا کر تیرے حضور پیش کرتی ہوں! الٰہی تو اگر میری یہ سماجت قبول کرلے اور مجھے معاف فرمادے تو تجھ سے بڑھ کر بھلا یہ شان کس کی ہے کہ ذلت سے پھیلائے گئے ہاتھوں میں مغفرت کی خیرات ڈال دے!؟ اور اگر تیرا فیصلہ مجھے عذاب ہی دینے کا ہے تو مالکا تجھ سے بڑھ کر عدل کس کا ہے؟!
الٰہی! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا۔ میں اس ناتواں نفس کا خیال نہ رکھ پائی اور اس پر زیادتی کر بیٹھی۔ الہٰی! تو ہی اب اس پر رحم فرمادے!
الٰہی اس زندگی میں تیرا لطف اور کرم دیکھنے کی عادی ہوگئی ہوں، الہٰی کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلے جہان میں آنکھ کھولوں تو تیرے اس لطف سے محروم ہو چکی ہوں! تو وہ ذات ہے کہ میں جیتی ہوئی اس کے سہارے رہی۔ الٰہی! جب میں مروں تو آخر کس کا سہارا دیکھوں!؟
الٰہی! میرے گناہ مجھے ڈراتے ہیں تو تیری محبت مجھے سہارا دیتی ہے! بارِ الہا! جب تو میرا معاملہ نمٹانے لگے تو وہ فیصلہ ہو جو تیرے شایان ہے اور جس کا کہ تو اہل ہے نہ کہ وہ فیصلہ جس کی میں اہل ہوں! الٰہی میری جہالت نے اگر مجھے کسی فریب میں مبتلا رکھا ہے تو پھر تیرے فضل کے سوا میرا کیا آسرا ہوسکتا ہے؟!
الٰہی! تیرا ارادہ مجھے اگر ذلیل کرنے کا ہوتا تو تو مجھے ہدایت نہ دیتا! تیرا ارادہ مجھے رسوا کرنے کا ہوتا تو ساری زندگی تو میری پردہ پوشی کرکے نہ رکھتا! خدایا! یہ ہدایت تو نے مجھے جس مقصد کیلئے دی، مجھے اس مقصد تک پہنچا! خدیا میرے اوپر اپنی یہ پردہ پوشی صدا بحال رکھ!
الٰہی! ساری زندگی تجھ سے تیری قربت کا سوال کرتے گزاری۔ خدایا زندگی بھر کی یہ تمنا ہے تو پھر اس میں مجھے نامراد نہ رہنے دیجیو! الٰہی! میں نے اتنے گناہ سرزد نہ کئے ہوتے تو تیرے پاس آنے سے نہ ڈر تی! الٰہی! تیرے کرم کی خبر نہ پا چکی ہوتی تو تیری نوازش کی آس نہ رکھتی!
الٰہی! گناہوں کی شرم ہے جس نے میری زبان گونگی کردی۔ عمل میرے پاس نہیں۔ تیری رحمت پر نظر اور تیرے فضل کی آس کے سوا میرا کوئی وسیلہ اور نہ میرے پاس کوئی سفارش!‘
(استفادہ از احیاءعلوم الدین مؤلفہ ابو حامد الغزالی ج 4 ص 415-416)