حسنِ ظن درحقیقت حسن عمل ہے! |
خدا کے ساتھ ’حسنِ ظن‘ در اصل ’حسنِ عمل‘ ہی کے ساتھ منسلک ہے۔ جو شخص خدا کے سامنے پیش کرنے کیلئے ’نیک اعمال‘ کے انتظام میں لگا ہے، درحقیقت تو وہی ہے جو خدا کے ساتھ ’نیک گمان‘ رکھتا ہے؛ یعنی یہ شخص گمان رکھے ہوئے ہے کہ اِس کا مالک مطلق لائقِ بندگی ہے، ہر نفیس جذبہ اور ہر عمدہ عمل اُس کی خدمت میں پیش کر دینا ہی اُس کو سزاوار ہے۔ اور یہ کہ اِس کا مالک اِس کی نیکی کا بہترین صلہ دینے والا ہے، اپنا وعدہ ضرور پورا کرنے والا ہے، ’توبہ‘ جب اِس نے کر لی ہے تو وہ ضرور اس کو قبول فرمائے گا، ’معافی‘ جب یہ اُس سے مانگنے لگ گیا ہے تو وہ مہربان ضرور اِس کو معاف کر دے گا۔
رہا وہ شخص جو کبیرہ گناہوں میں ہی صبح شام مگن ہے، مالک کی نافرمانیاں کرنے سے ہی فرصت نہیں پاتا اور ظلم اور زیادتیاں کرنا ہی اپنا معمول بنائے بیٹھا ہے؛ تو ظلم اور حرام کاری کی تو وحشت کچھ ایسی چیز ہے کہ وہ انسان کو اپنے رب کے ساتھ ”بہترین گمان“ رکھنے ہی نہ دے۔ جو غلام اپنے مالک کے ہاں سے بھاگ کھڑا ہوا ہو، اور مالک کے درہ بردار آدمی اس کو پکڑ لانے کیلئے حرکت میں آنے والے ہوں، بھلا ایسا غلام اپنے مالک کے ساتھ ’نیک گمان‘ رکھنے کی طاقت کہاں پائے گا!؟
چنانچہ حسن بصری کا قول ہے: مومن کا گمان اپنے رب کے ساتھ اچھا ہوا تو تبھی وہ اچھے عمل کرنے لگا۔ ایک بدکار شخص کا گمان اپنے رب کے ساتھ برا ہوا اسی لئے وہ برے عمل کرنے میں لگا ہے!
پس ’عمل‘ اور ’رویہ‘ ہی مالک کے ساتھ انسان کے ’گمان‘ کا اصل مظہر ہے!
خدائے رب العرش کے معاملہ میں وہ شخص ’نیک گمان‘ کیونکر ہونے لگاجو اُس کے ہاں سے بھاگا ہوا ہے؟! اِس کا ہر قدم اُس کے مخالف سمت میں اٹھتا ہے اور اِس کے سفر کی ہر منزل اِس کو اُس سے دور ہی کرنے کیلئے ہے؟! ہر وہ جگہ جہاں اُس کا غضب برستا ہو، یہ رخ کرے تو ہمیشہ وہیں کا؟! ہر وہ فعل جو اُس کو ناراض کردینے والا ہو، یہ بڑھ کر ہاتھ ڈالے تو ایسے ہی فعل کو؟!
خدائے مالک الملک کی بابت وہ شخص ’نیک گمان کیونکر ہونے لگا جس کی نگاہ میں اُس کا حکم بھی بے وقعت ہوگیا ہو، اُس کا امر بھی اور اُس کا نہی بھی؟!خدا کا کہنا نہ کہنا جس کیلئے ایک برابر ہوگیا ہو؟!
خدائے ذوالجلال کے ساتھ ’نیک گمان‘ وہ شخص کیونکر ہونے لگا جو اُس کے ساتھ جنگ اور اُس کے دوستوں کے ساتھ دشمنی روا رکھے ہوئے ہے؟!
خدائے سمیع وبصیر کے ساتھ ’نیک گمان‘ وہ شخص کیونکر ہونے لگا جو خدا کی صفات کا تیاپانچہ کرتا ہو اور خدا کا ان صفات کے ساتھ ذکر کرنا، جن کے ساتھ اُس نے خود اپنا ذکر کیا اور اُس کے رسول نے اُس کا ذکر کیا، اپنے حق میں ایک پاپ جانتا ہو؟! جو (جہمیہ کی طرز پر) گمان رکھتا ہو کہ اُس کا خالق نہ تو کلام کرتا ہے، نہ احکامات دیتا ہے، نہ ممانعت کرتا ہے، نہ خوش ہوتا ہے اور نہ ناراض ہوتا ہے؟! مطلب یہ کہ خدا کی بابت اسکا اعتقاد ہی خراب ہے!
قرآن میں بیان ہوا کہ دوزخیوں کو سزا دیتے وقت بتایا جائے گا کہ یہ دراصل وہ خدا کے ساتھ برا گمان رکھنے کی سزا پارہے ہیں، جس سے وہ اب تباہی کے گڑھے میں جا گرے ہیں:
وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنْ الْخَاسِرِينَ۔ (حم السجدۃ: 13)
”یہ تمہارا گمان تھا جو تم نے اپنے رب کے ساتھ رکھا، اسی نے تمہیں برباد کرایا، جس کے نیتجے میں تم خسارہ پانے والوں میں سے ہوگئے“
’خدا کی بابت گمان‘ کیا چیز ہے، اس کا اندازہ آئیے ذرا اس حدیث سے کرتے ہیں:
عن أبی سہل بن حنیف، قال: دخلت أنا وعروۃ بن الزبیر علیٰ عائشۃ رضی اللہ عنہا، فقالت: لو رأیتما رسول اللہ ﷺ فی مرض لہ، وکانت عندہ ستۃ دنانیر، أو سبعۃ دنانیر۔ فأمرنی رسول اللہ ﷺ أن أفرقہا، فشغلنی وجع رسول اللہ ﷺ حتیٰ عافاہ اللہ، ثم سألنی عنہا: ما فعلت أکنت فرقت الستۃ دنانیر؟ فقلت: لا واللہ، لقد کان شغلنی وجعک۔ قالت: فدعا بہا فوضعہا فی کفہ، فقال: ”ما ظن نبی اللہ لو لقی اللہ وہذہ عندہ؟!“ وفی لفظ: ”ما ظن محمد بربہ لو لقی اللہ وہذہ عندہ؟!“(1)
روایت ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے، کہا: میں اور عروہ بن الزبیر، عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں: کہیں اگر تم دونوں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک مرض کی حالت میں دیکھا ہوتا۔ آپ کے پاس چھ سونے کی اشرفیاں تھیں، یا پھر سات اشرفیاں ہوں گی۔ آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں انہیں ضرورتمندوں میں بانٹ دوں۔ مگر میں رسول اللہ ﷺ کی بیماری کے باعث الجھی رہی، یہاں تک اللہ نے آپ کو شفایاب کردیا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: کیا بنایا، کیا وہ چھ اشرفیاں تم نے تقسیم کردی تھیں؟ میں نے عرض کی: نہیں، اللہ کی قسم، میں آپ کی بیماری میں الجھی رہی۔ عائشہؓ کہتی ہیں: تب آپ نے وہ اشرفیاں منگواکر اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا: ”کیا گمان ہے نبیُّ اللہ کا، اگر وہ خدا سے جاملتا اس حال میں کہ یہ اس کے پاس ہی ہوتیں!“ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: ”کیا گمان ہے محمد کا اپنے رب کی بابت، اگر وہ اللہ سے جا ملا ہوتا اس حال میں کہ یہ اس کے پاس ہی ہوتیں!“
سبحان اللہ!!! ’کیا گمان ہے محمد کا اپنے رب کے بارے میں، اگر وہ ان چھ یا سات اشرفیوں کے ساتھ ہی اپنے رب سے جا ملے ہوتے، بغیر اس کے کہ وہ انہیں اسی دنیا میں لٹا کر جائیں!!!“ تو پھر، خدارا، کبھی سوچا، ان لوگوں کا اپنے رب کے بارے میں کیا خیال ہے جو کبائر کا انبار اٹھائے پھرتے ہیں؟! جنہوں نے حرام کے ڈھیر لگا رکھے ہیں؟!جو انسانوں پر زیادتی اور غصبِ حقوق کی صورت میں مظالم کے پہاڑ اٹھائے پھرتے ہیں؟! یہ لوگ اپنی اس بے پروائی کو ’خدا کے ساتھ حسنِ ظن‘ کا نام دیں تو پھر خدا کے ساتھ بندے کا حسنِ ظن یہ ہوا کہ نہ تو وہ ظالم کو کبھی پکڑنے والا ہے، نہ بدکار کو کبھی سزا دینے والا ہے، لہٰذا آدمی جو چاہے سو کرے، کھل کر خدا کی نافرمانی کرے اور پوری ڈھٹائی سے اس کی حدوں کو پامال کرتا پھرے، البتہ خدا کے ساتھ یہ ’نیک گمان‘ ساتھ ضرور رکھے کہ وہ اس پر اسے کچھ نہ کہے گا اور یہ کہ روزِ قیامت آگ تو برے آدمی کو چھونے کی چیز ہی نہیں!!! سبحان اللہ! غرورِ آرزو انسان کو کہاں تک پہنچا دیتا ہے!
فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ؟ (الصافات: 87)
”تو تم نے جہانوں کے پروردگار کی بابت آخر سمجھ کیا رکھا ہے؟؟؟“
پس جو بھی اس مسئلہ پر غور کرے گا وہ اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہ رہے گا کہ ’خدا کے ساتھ حسنِ ظن‘ درحقیقت ’حسنِ عمل‘ ہی کا نام ہے۔ جو چیز انسان سے حسنِ عمل کرواتی ہے وہ خدا کے ساتھ اس کا حسنِ ظن ہی ہے کہ وہ ذاتِ کریم کیونکر انسان کے عمل کو پزیرائی بخشتی اور قبولیت سے نوازتی ہے اور اس پر اپنے فضل سے بھی عطا کرتی ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا کہ: جتنا کسی شخص کا اپنے رب کی بابت گمان اعلیٰ درجے کا ہوگا اتنا ہی اس کا عمل اعلیٰ پائے کا ہوگا!
(استفادہ از: الجواب الکافی، مؤلفہ ابن القیمؒ، ص 14، 15)
(1) الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ، ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے،(مسند احمد، ابن حبان) ارنؤط نے اسے صحیح کہا