عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
EmanKaSabaq آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
رجاء
:عنوان

رجاء (امید) وہ چیز ہے جو آدمی کو ’محبت‘ کی دہلیز سے اٹھنے ہی نہیں دیتی!!! جیسےجیسے مالک کا التفات پانے کی امید بندھتی ہے ویسےویسے وہ اس کی دہلیز پر اور جمتا ہے

. رقائقايمان كا سبق :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

رجاء

 

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی منازل میں سے ایک منزل ’رجاء‘ ہے۔ فرمایا:

أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَة أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ۔ (الاسراء: 57)

”یہ جن کو پکارتے ہیں، وہ (پوجی جانے والی ہستیاں) تو خود تلاش کرتی ہیں اپنے رب تک رسائی کا ذریعہ، کہ کون ان میں سے اُس کا مقرب ہوتا ہے، اور امیدوار رہتی ہیں اُس کی رحمت کی، اور ڈرتی ہیں اس کے عذاب سے“

سو اُس تک ’رسائی کا ذریعہ‘ہوا: اُس کا قرب پانے کی سعی کرنا عبدیت میں قدم رکھ کر اور اُس کی طلب اور چاہت کو بڑھا کر۔

پس اسی ایک آیت میں بندگی کے تین مقامات اکٹھے مذکور ہوگئے: چاہت، خوف اور امید۔ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَة أَيُّهُمْ أَقْرَبُ یعنی ان کا خدا کو پانے اور اس تک رسائی کا ذریعہ (وسیلہ) تلاش کرنے کیلئے کوشاں ہونا اور اُس کے ہاں ایک دوسرے سے بڑھ کر مقرب ہونے کی سعی کرنا، ’چاہت‘ ہوئی۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ ’امید‘ ہوئی۔ اور وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ، ’خوف‘۔

اور مقام پر فرمایا:

مَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَآتٍ  (العنکبوت: 5)

”کوئی اللہ سے ملاقات کا امیدوار ہے تو اللہ کی مقرر کی ہوئی وہ گھڑی ضرور آجانے والی ہے“

اور فرمایا:

فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَة رَبِّهِ أَحَدًا۔ (الکہف: 110)

”پس جو تو ہے اپنے رب سے ملاقات کا امیدوار، اسے چاہیے عمل کرے خوب، اور ہرگز شریک نہ کرے اپنے رب کی بندگی میں کسی کو بھی“

اور فرمایا:

أُوْلَـئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللّهِ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ (البقرۃ: 218)

”وہی ہیں جو اللہ کی رحمت کے امیدوار ہوسکتے ہیں، اور اللہ بخشنے والا ہے رحم کرنے والا“

صحیح مسلم میں جابرؓ سے روایت ہے، کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے وفات پاجانے سے تین روز قبل فرماتے ہوئے سنا:

”تم میں سے ہرگز کسی کو موت نہ آئے سوائے اس حالت میں کہ وہ اپنے پروردگار کے ساتھ بہترین گمان رکھتا ہو“

صحیح حدیث میں آتا ہے:

”خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ”میں اپنے بندے کے اس گمان پر پورا اترتا ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھے ہوئے ہوتا ہے، پس اس کو چاہئے میری بابت جیسا گمان رکھنا چاہے رکھ لے“

 

٭٭٭٭٭

 

’رجاء‘ وہ خوبصورت نغمہ ہے جو قلوب کو محبت کی کٹھن وادیوں میں منزلِ مراد کی جانب گامزن کرتا ہے اور جو راہِ وفا میں عزیمتوں کے قافلے رواں دواں رکھتا ہے۔ خدا کی جانب بڑھنے والے راستوں کی رونق اسی ’رجاء‘ کے دم سے بحال رہتی ہے۔ خدا کو پانا جن دلوں کا مقصود ہوتا ہے، دشوار گزار راہوں کے اندر بھی ان دلوں کی راحت اور ان کا لطف اسی ’رجاء‘ کی بدولت قائم رہتا ہے۔

’رجاء‘ کی تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ: یہ اُس مسرت کا نام ہے جو بندے کے دل پر پروردگار کی سخاوت کو نگاہ میں لانے سے وارد ہوتی ہے اور اس راحت کا عنوان ہے جو مالک کے کرم اور فضل کا تصور کرنے سے دل میں جاگزیں ہوتی ہے۔

’رجاء‘ کی یہ تعریف بھی کی گئی ہے کہ: یہ بندے کے ہاں اس بات کے وثوق اور اعتماد کا پایا جانا ہے کہ اس کا مالک بے حد سخی ہے اور پزیرائی بخشنے میں اس کے تصور سے بڑھ کر۔

’رجاء‘ اور ’آرزو‘ میں بھلا کیا فرق ہے؟

’آرزو‘ وہ چیز ہے جو کاہلی کا نتیجہ ہو اور جو آدمی کو محنت اور تگ ودو کی راہ پر ڈال دینے کی صلاحیت سے عاری ہو۔ جبکہ ’رجاء‘ وہ چیز ہے جو بیٹھے کو کھڑا کر دے، جو آدمی کو جان لڑا دینے پر آمادہ کردے اور توکل کی حقیقت سے آشنا کرائے۔

’آرزو‘ کی مثال یوں سمجھو جیسے کوئی آدمی تمنا کرے کہ اس کی کوئی زمین ہو جس میں بس وہ بیج ڈال دے اور پھر اس میں فصل ہی فصل ہو جائے! جبکہ ’رجاء‘ کی مثال یوں ہے کہ کوئی آدمی اپنی زمین میں ہل چلائے، بڑی محنت سے کیاریاں بنائے، صحیح وقت پر بیج ڈالے.... اور امید رکھے کہ اس کو نہایت خوب فصل حاصل ہوگی....!

چنانچہ اہل معرفت کا اس پر اتفاق ہے کہ ’رجاء‘ جس چیز کا نام ہے اس کا اعتبار تب ہوتا ہے جب اس کے ساتھ عمل پایا گیا ہو۔

شاہ کرمانیؒ کا قول ہے: ’رجاء‘ کا اعتبار کیا جانا اس علامت سے مشروط ہے کہ آدمی کے اندر فرماں برداری پائی جائے۔

رجاءیعنی امید، تین صورتوں میں پائی جاتی ہے؛ پہلی دو صورتیں قابل ستائش ہیں اور تیسری صورت مذموم، بلکہ رجاءکی اس تیسری صورت کا نام ہی درحقیقت ’رجاء‘ نہیں بلکہ ’غرور‘ یا ’اغترار‘ یعنی فریب خوردگی ہے:

- رجاءکی پہلی صورت ہے ایک ایسے آدمی کا، جو خدا کا کہا مانتا ہے اور ایک بصیرت کے ساتھ اس کی فرماں برداری میں لگا ہے، اس امید سے مالامال ہونا کہ مالک ضرور اس کو پزیرائی بخشے گا اور اِس پر اس کو نوازنے میں ہرگز کوئی کمی نہ چھوڑے گا۔ یہ عبادت کی جان ہے۔

- رجاءکی دوسری صورت یہ ہے کہ ایک آدمی جو کوئی گنا ہوں کا ارتکاب کر بیٹھا ہو، مگر پھر ان سے تائب ہوگیا ہو، اس امید سے سرشار ہو کہ خدا اس کو ضرور معاف کرنے والا ہے اور اپنی مغفرت، احسان، حلم و درگزر، اور اپنے جود وسخا کے ساتھ ضرور اس کو باریابی بخشنے والا ہے۔

- تیسری صورت جوکہ مذموم ہے اور جوکہ درحقیقت ’رجاء‘ کہلانے کے ہی لائق نہیں، یہ ہے کہ ایک آدمی گناہوں پہ گناہ کئے جاتا ہے، توبہ کی طرف مائل تک نہیں مگر امید کرتا ہے کہ عمل کئے بغیر ہی خدا کی رحمت مل جانے والی ہے۔ اس چیز کو علمائے قلوب کی اصطلاح میں ’غرور‘ بھی کہا جاتا ہے، ’آرزو‘ بھی اور ’امیدِ کاذب‘ بھی۔

سالک کو خدا کے ساتھ معاملہ کرنے کی بابت نظر کی دو جہتیں سامنے رکھنا ہوتی ہیں:

- پہلی جہت یہ کہ اس کی نظر اپنے عیوب پر ٹک جائے اور اپنے عمل کی خرابیوں کو وہ ہر دم نظر میں رکھے۔ اس سے اس کے سامنے خدا کی جانب بڑھنے کیلئے ’خوف‘ اور ’خشیت‘ کا دروازہ کھلے گا۔ خوف کے اس دروازے سے گزر کر ہی وہ اپنے پروردگار کے فضل کی وسعت اور اس کے کرم اور بخشش کی لامحدودیت سے صحیح معنیٰ میں آشنا ہوگا۔

- نظر کی دوسری جہت یہ کہ آدمی کی نظر مالک کے کرم کی وسعت پر ٹک جائے اور اس کے دینے کے پیمانوں پر ہی اس کی نظر لگ جائے۔یہاں سے اس کیلئے ’رجاء‘ کا دروازہ کھلتا ہے۔

ابو علی روذباریؒ کہتے ہیں: خوف اور رجاءکا معاملہ عین ویسا ہی ہے جیسا پرندے کے دو پروں کا۔ دونوں سیدھ میں ہوں تو پرندہ صحیح اڑان بھرتا ہے، اعتماد سے پرواز کرتا ہے اور لمحوں میں کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے۔ البتہ پروں میں تناسب نہ رہے تو پرواز میں نقص واقع ہوتا ہے اور خلل حد سے بڑھ جائے تو پرواز دشوار تر ہوجاتی ہے۔ البتہ جب دونوں پر ہی چلے جائیں پھر تو پرندے کی موت بھی قریب قریب یقینی ہے۔

علماءمیں اس بابت اختلاف ہوا ہے کہ اوپر ’رجاء‘ کی جو دو قابل ستائش صورتیں مذکور ہوئیں ان میں سے رجاءکی کونسی صورت کامل تر ہے، آیا نیکی کرنے والے کا اپنے نیک عمل کے ثواب کی بابت امیدوار ہونا یا ایک گناہگار تائب کا اپنے رب سے مغفرت اور بخشش پانے کی بابت امیدوار ہونا؟

ایک گروہ نے اول الذکر کو برتر جانا ہے اور ایک گروہ نے ثانی الذکر کو۔ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ایک گناہگار کا تائب ہونا اور اس پر اپنی مغفرت کی بابت پروردگار کی رحمت کی آس رکھنا اس حال میں ہوتا ہے کہ اس کا اپنا کوئی کارنامہ اس کی نظر میں ہوتا ہی نہیں اور خدا کے سامنے ذلت اور بے چارگی کا احساس رکھنے میں بھی کہیں وہ بڑھ کر ہوتا ہے اور یوں اس کی ساری نظر ہوتی ہی مالک کی رحمت اور فضل پر ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں یحییٰ بن معاذؒ کا قول ہے: گناہوں کی معافی طلب کرنے کے معاملہ میں مجھ پر جو ’رجاء‘ طاری ہوتی ہے وہ اس ’رجاء‘ سے بڑھ کر ہے جو اعمال کی قبولیت کے معاملہ میں مجھ پر وارد ہوتی ہے کیونکہ اعمال میں جو اخلاص درکار ہوتا ہے اس کی بابت آدمی کیا کہہ سکتا ہے جبکہ میں جانتا ہوں کہ بوقتِ عمل اخلاص بہم پہنچانے میں میں کتنا ناقص ہوں، جبکہ گناہوں کی بخشش مانگتے وقت میری نظر صرف اور صرف مالک کے عفو و درگزر پر ہوتی ہے، بھلا جب اس سے بخشش مانگی جائے تو وہ کیوں نہ بخشے گا، اس سے بڑھ کر تو کوئی سخی نہیں!

یحییٰ بن معاذؒ ہی کا یہ بھی قول ہے: الٰہی! تیرے عطیات مجھ پر بے شمار ہیں مگر سب سے زیاد مٹھاس مجھے تیری جس دین میں ملتی ہے وہ ہے میرا تجھ سے امید رکھنا۔ سب سے میٹھے بول جو کبھی میری زبان پر آتے ہیں وہ ہیں جب میں تیری ثنا کرتا ہوں۔ میری سب سے لذیذ ساعت کوئی ہوگی تو وہ گھڑی جب میں تجھ سے ملاقات کروں گا۔

امام ہرویؒ کہتے ہیں کہ رجاء، ارادت کی منازل میں سب سے کمتر درجہ ہے۔ مگر امام ہرویؒ کی یہ بات درست نہیں۔ حق یہ ہے کہ رجاء، عبادت اور ارادت کی سب سے برگزیدہ صورتوں میں سے ایک صورت اور بندگی کے نہایت اعلیٰ مقامات میں سے ایک مقام ہے۔ ’رجاء‘ اور ’محبت‘ پر ہی آدمی کے خدا کی جانب بڑھتے چلے جانے کا اصل انحصار ہے۔ اہل رجاءکی مدح و ستائش خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا۔ ”بے شک تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے رسول اللہ ﷺ (کی شخصیت) میں، اس شخص کیلئے جو رجاءرکھتا ہے اللہ کی اور یوم آخرت کی اور ذکر کرتا ہے بکثرت اللہ کا“۔

حدیث قدسی میں آتا ہے:

”ابن آدم! جب تک کہ تو مجھ کو پکارنے والا رہے اور مجھ سے امید وابستہ رکھے، میں تجھے معاف کرتا ہی رہوں گا، چاہے تجھ سے جو بھی ہوتا رہا ہو، اور (تجھے بخشتے ہوئے) پروا تک نہ کروں گا“

اور پھر وہ آیت جو ہم نے ابتداءمیں ذکر کی.... اس میں اللہ اپنے ان خاص عبادت گزاروں کا حال بیان کرتا ہے جن کو مشرکین نے تقربِ خداوندی کا ذریعہ بنا رکھا تھا، اللہ اپنے ان خاص عبادت گزاروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ تو وہ ہستیاں تھیں جن کی سب امید ایک اُسی سے وابستہ تھی اور جن کو خوف صرف اسی کا تھا۔ چنانچہ فرمایا: یہ تو وہ ہستیاں ہیں جو مالک تک رسائی کا ذریعہ پانے کی طلبگار رہتی تھیں کہ کون اس کاسب سے بڑھ کر تقرب پاتا ہے، ان کو اسی کی رحمت کی آس ہوتی تھی اور اسی کے عذاب کا خوف۔

چنانچہ یہ ایمان کی بہترین حالت کا ہی ایک ذکر ہے۔

امام ہرویؒ نے گو اتنا ہی کہا ہے کہ یہ منازلِ بندگی میں سب سے کمتر مقام ہے، جوکہ، ہم بیان کرچکے، کہ درست فہم نہیں۔ مگر صوفیاءکا ایک گروہ اسی سمت میں آگے بڑھتے ہوئے یہ مذہب اختیار کرتا ہے کہ ’رجاء‘ درحقیقت کامل اخلاص کے منافی ہے!انکے نزدیک ’رجاء‘ایک حرص رکھنے کانام ہے اور خدا سے ایک ’تقاضا‘! انکے نزدیک کامل اخلاص یہ ہے کہ انسان کے نفس کا کوئی حظ باقی ہی نہ رہے اور یہ کہ خدا سے اپنی بندگی کے عوض آدمی کچھ بھی نہ چاہے، وہ خود ہی جو دے سو دے۔ تجرد اور بے لوثی اور نفس کے حظ سے دستبرداری انکے نزدیک یہی ہے۔ خدا کے آگے کوئی بھی ’تقاضا‘ رکھنا انکے خیال میں ’رضا‘ سے تجاوز کر جانا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ نفس کا حظ ہونا تو بعد کی بات ہے اس نفس ہی کو ختم کردینا اصل بندگی اور اخلاص ہے۔ پس ’نفس کے حظ‘ سے دستبرداری بھی انکے نزدیک وہ اصل پہنچا ہوا مقام نہیں۔ اصل مقام انکے ہاں یہ ہے کہ اس ’نفس‘ ہی سے آدمی دستبردار ہوجائے اور خدا کے حق میں اس کو کالعدم کر لے۔ اس چیز کو یہ لوگ ’فنا‘ کا نام بھی دیتے ہیں۔
انکا کہنا ہے خدا کا اپنا ارادہ اور مشیئت ہے، اب جو شخص اپنا ارادہ اور طلب اور اپنی امیدیں اور رجاءیں خدا کے سامنے لا کر رکھ دیتا ہے تو نہ صرف یہ کہ یہ کمالِ اخلاص کے منافی ہے بلکہ خدا کی پسند کے آگے اپنی پسند لے کر آنا انکے ہاں رعونت بھی شمار ہوتی ہے!

ان کا یہ مذہب اور ان کے یہ اقوال نقل کرنے کے بعد امام ابن القیمؒ لکھتے ہیں:

انسان تعجب کرے تو ان کے ان باطل اقوال پر۔ ایک آدمی جو اپنے مالک کے احسان کی آس رکھے، اس کے فضل کی طلب اور اس کے التفات کی امید کرے اور اس سے اس کی رحمت اور بخشش کا سوالی ہو، یہ ان لوگوں کے نزدیک ’رعونت‘ ہوئی اور اُس سے امیدیں درخواستیں نہ کرنا ’بندگی‘! حالانکہ ’رعونت‘ اگر ہے تو وہ یہ کہ آدمی اپنے مالک کے احسان کی آس نہ رکھے، اس کے فضل کی طلب اور اس کے التفات کی امید نہ کرے اور اس کی رحمت اور بخشش کا سوال تک زبان پر نہ لائے....

پھر فرماتے ہیں: بو العجبی ہے تو وہ اِن کا یہ دعویٰ کرنا کہ یہ اپنے نفوس سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ حالانکہ سب سے بڑھ کر اپنے نفس کو پوجنے والے کوئی ہیں تو وہ یہی لوگ ہیں۔ خدا کی عظمت کے آگے اپنے نفس کو کالعدم کرنے والا اور خدا کی منشا و تقاضے کے آگے اپنے نفس کے حظ اور اپنے نفس کے تقاضے سے دستبردار ہونے والا شخص کوئی ہو سکتا ہے تو وہی جو خدا اور رسول کے قول پر سر تسلیم خم کرے۔ جو اپنے نفس کو خدا کے دین کی اقامت کی راہ میں قربان کردے اور خدا کی شریعت کے نفاذ کی آواز اٹھاتے ہوئے خدا کے باغیوں، نافرمانوں اور سرکشوں کے بالمقابل کھڑا ہو۔ جو خدا کے دشمنوں اور باغیوں کیلئے تکلیف کا باعث ہو جبکہ وہ اس کی حق گوئی اور اس کی باطل بیزاری کے باعث اس کی جان کے دشمن ہوجائیں، پھر بھی ان کے خلاف برسر جہاد ہونے سے اِس کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت باز نہ رکھ پائے۔ جو ڈنکے کی چوٹ پر حق بیان کرے اور ایسا کرتے ہوئے اس کو خوف ہو تو صرف رب ا لعالمین کا اور رجا اور آس ہو تو صرف مالک الملک کی۔ جس کے لئے اہل باطل سے اپنے لئے تعریفیں کرانا بے وقعت ہوجائے۔ لوگوں پر اِس کی پیری کی دھاک بیٹھے اور اہل ظلم وجبر تک عقیدت سے سلام اور دست بوسی کو آیا کریں اور حضرت کی بہت ساری ’ضروریات‘ بھی پوری کرجایا کریں، اِس کی نگاہ میں بے قیمت ہوجائے۔ یہ اُن کو خیر اور نصیحت کی بات برسرعام بھی بتائے اور پوشیدہ بھی۔ نہ اِس کو کوئی خاص حلیہ اختیار کرنے کی حاجت ہو اور نہ خاص وضع قطع اپنا رکھنے کی اور نہ کسی پروٹوکول کی۔ اِس کی سب خواہشیں، سب امیدیں اور سب آرزوئیں وابستہ ہوں تو الحی القیوم سے۔اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد میں ایک ساعت گزارنا اور ایمان کی سرحدوں پہ پہرہ دینے میں ایک رات کا رباط کرنا اِس کو ’فنا‘ کی مشقوں اور ’مشاہدوں‘ اور ’حال‘ طاری کرنے کی ریاضتوں سے کہیں عزیز تر ہو۔

یہ ’حال‘ اور یہ ’فنا‘ اور یہ ’مشاہدات‘، جنہیں یہ اخلاص اور تجرد کا نام دیتے ہیں، اپنی حقیقت میں یہی سب سے بڑھ کر ’نفس‘ کی تسکین ہیں۔ ’نفس کا حظ‘ سب سے زیادہ یہی تو ہے، گو آدمی یہ سمجھ رہا ہو کہ وہ اپنے نفس ہی سے دستبردار ہو چکا ہے تو پھر اب نفس کا حظ بھی باقی نہیں رہا! حالانکہ یہ حال اختیار کرکے وہ جس چیز سے دستبردار ہوا ہوتا ہے وہ ہے خدا کی شرعی منشا، یعنی خدا کا اسِ سے اپنا وہ تقاضا جسے خدا نے اِس کیلئے مشروع ٹھہرایا ہے۔ خدا کو جو پسند ہے، یعنی اپنی وحی اور شریعت کی راہ سے خدا اِس سے جس چیز کا تقاضا کرتا ہے اور جس کو پورا کرنا ہی دراصل عبدیت ہے، یہ وہ کرنے پر تیار نہیں۔ پس یہ ’نفس‘ سے دستبرداری کہاں، یہ تو خدا کی منشا اور مراد سے دستبرداری ہے!!! ایسا شخص خدا کی عبدیت سے نکل کر اپنے نفس کے حظ اور تقاضے کے عین نیچے جا کھڑا ہوتا ہے اور سمجھتا ہے یہ اخلاص اور فنا کی منزلیں طے کرنا ہے! یہ اگر کبھی اپنے نفس کو ٹٹولے تو یہ بات اس کے اندر بالکل عیاں پائے گا۔

جس نفس کو شیطان نے اس نوبت کو پہنچا دیا ہو وہ تو بہت ضرورت مند ہے کہ وہ خدا سے اپنے لئے عافیت کا سوال کرے....!

سب فلسفے چھوڑ، تم ذرا بس یہ موازنہ کرلو کہ انبیاءاور رُسُل اور صدیقین کس روش پر رہے اور کس انداز میں وہ اپنے رب سے رجاءیں اور التجائیں اور دعائیں کیا کرتے تھے اور دوسری طرف ان مغالطوں میں پڑے ہوئے لوگوں کی کیا روش ہے؟ یہ موازنہ کر لینے کے بعد خود ہی تم پر کھل جائے گا کہ دونوں راستوں کے مابین کیسا زمین آسمان کا فرق ہے۔

کہاں ’رضا‘ اور ’فنا‘ اور ’تجرد‘ کے نام پر ان کا یہ طرزِ استغناءاور کہاں نبی ﷺ کا سجدے میں پڑے دعائیں اور التجائیں کرنا:اللہم انی أعوذ برضاک من سخطک، وبمعافاتک من عقوبتک، وبک منک، لا أحصی ثناءعلیک، أنت کما أثنیت علی نفسک۔ ”خدایا! میں پناہ میں آتا ہوں تیری رضا کی، تیری ناراضی سے (بھاگ کر)۔ میں پناہ میں آتا ہوں تیرے معاف فرما دینے کی، تیری عقوبت سے (بھاگ کر)۔ خدایا میں تجھ ہی سے تیری ہی پناہ میں آتا ہوں۔ خدایا! میں اس سے عاجز ہوں کہ تیری ثنا کا احاطہ کرپاؤں۔ خدایا جیسی تعریف تو اپنی ذات کی خود کردے، تیری ویسی ثنا“....!!!

اور نبی ﷺ کا اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو یہ تلقین کرنا: اے عباسؓ، اے رسول اللہ کے چچا! خدا سے عافیت کا سوال کرو۔

اور نبی ﷺ کا صدیقِ اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو، ابوبکرؓ کی درخواست پر، یہ دعا سکھانا جو وہ اپنی نماز میں خدا سے کیا کریں:اللہم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا ولا یغفر الذنوب الا أنت فاغفر لی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک أنت الغفور الرحیم۔ ”الٰہا! میں نے ظلم کیا اپنی جان پر، بڑا ہی ظلم، اور کوئی نہیں جو بخش دے گناہوں کو مگر تو ہی۔ پس بخش دے مجھے، بخشش خاص اپنی جناب سے، اور ترس کر مجھ پر۔ مجھے شک نہیں کہ تو ہی ہے بخشنے والا اور تو ہی ہے ترس کرنے والا“۔

اور نبی ﷺ کا صدیقۂ کبریٰ عائشہ رضی اللہ عنہا کو، عائشہؓ کی درخواست پر کہ وہ اگر لیلۃ القدر کو پالیں تو اپنے مالک سے کیونکر دعا گو ہوں، یہ کلمات سکھانا: اللہم انک عفو، تحب العفو، فاعف عنی۔ ”الٰہا! مجھے شک نہیں تو معاف کرنے والا ہے، معاف کرنا تجھے پسند ہے، تو پھر الٰہی مجھ (اپنی بندی) کو معاف کردے“۔

اور نبی ﷺ کا بکثرت یہ دعا کرنا، بلکہ اس دعا کو کبھی نہ چھوڑنا اور کوئی بھی اور دعا کرنے کے بعد آخر یہ دعا ضرور کرنا: ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ ”اے ہمارے پروردگار! دے ہمیں جو خوب ہے دنیا میں، اور دے ہمیں جو خوب ہے آخرت میں، اور بچا ہمیں آگ کے عذاب سے“۔

اور خدا کا اپنے خاص الخاص بندوں کی تعریف میں، جنہیں وہ اولو الالباب کہتا ہے، ان کی صبح شام التجاؤں کا ذکر کرناکہ وہ انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا رکھے۔ ربنا ما خلقت ہذا باطلا، فقنا عذاب النار ۔ ”اے ہمارے رب تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا رکھ“

اور نبی ﷺ کا ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے یہ فرمانا: ”تو اگر اللہ سے یہ سوال کرتی کہ وہ تجھے آگ کے عذاب سے پناہ دے دے تو یہ تیرے لئے بہتر ہوتا“۔

اور نبی ﷺ کا اس بات کو اپنا معمول بنا رکھنا کہ وہ آگ کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے خدا کی پناہ مانگتے رہیں۔ بلکہ مسلمانوں کو آپ کا یہ حکم دے رکھنا کہ وہ اپنے تشہد میں پناہ مانگا کریں عذابِ قبر سے، اور عذابِ دوزخ سے، اور زندگی کے فتنے سے اور مرتے دم کے فتنے سے، اور مسیح دجال کے فتنے سے۔ یہاں تک کہ بعض اہل علم کا قول ہے کہ یہ دعا کرنا نماز میں واجب ہے، اور اس کے بغیر نماز ہی صحیح نہیں۔

غرض رجاءاور خوف کے بیچ رہتے ہوئے، جوکہ بندگی کا اصل جوہر ہے، خدا سے التجائیں کرنا اور دنیا وآخرت کی خیر اور عافیت مانگنا، دین میں اس قدر واضح ہے اور نبی ﷺ کے معمولات سے اس قدر عیاں کہ یہ قیدِ بیان میں آنے کا نہیں۔

ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ایک بیمار کے ہاں تیمار داری کیلئے تشریف لے گئے تو اس کو چوزے کی طرح (سوکھا سمٹا ہوا) پایا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا: تم کیا دعا کیا کرتے تھے؟ اس شخص نے جواب دیا: میں کہا کرتا تھا: خدایا تو مجھے آخرت میں جو بھی عذاب دینے والا ہے یہیں دنیا میں دے لے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سبحان اللہ! تو اس بات کی طاقت نہیں رکھتا۔ (اللہ کے بندے) تو نے خدا سے عفو اور عافیت کا سوال کر لیا ہوتا!

مسند میں حدیث آتی ہے: ”خدا سے کبھی کوئی چیز نہیں مانگی گئی جس کا مانگا جانا خدا کو عفو اور عافیت کے سوال سے بڑھ کر عزیز ہو“۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحابؓ میں سے ایک (اعرابی) شخص سے پوچھا: جب تم نماز پڑھتے ہو تو (اس میں) کیا کہتے ہو؟ اس نے جواب دیا: میں بس اللہ سے جنت مانگتا ہوں اور آگ سے اُس کی پناہ طلب کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ وہ لمبے لمبے بول (اذکارِ نماز) مجھے نہ تو آپ کی طرح آتے ہیں اور نہ معاذؓ کی طرح۔ تب آپ نے فرمایا: ہمارے ’لمبے لمبے بول‘ بھی بس اسی بات کے گرد ہیں!

صوفیاءکا یہ قول بھی درست نہیں کہ: ’رجاء‘ شریعت میں ان لوگوں کی رعایت کیلئے آئی ہے جنہیں ’خوف‘ کی حرارت کم کرنے کی ضرورت لاحق رہتی ہے۔

جیسا کہ ہم نے کہا: رجاء، بندگی کا نہایت اعلیٰ مقام ہے۔ خدا سے آس لگانا، اُس کی طمع کرنا، اُس سے بار بار مانگنا اور سب کچھ مانگنا اور اُس کی دین پر آدمی کی نظر ٹک جانا.... یہ عبدیت کا نہایت بلند مرتبہ ہے۔ یہ کسی ’تدبیر‘ کے طور پر شریعت میں مشروع نہیں ٹھہرائی گئی بلکہ یہ آپ اپنی ذات میں شریعت کے اندر مطلوب ہے۔

اب ہم نہایت اختصار سے رجاءسے متعلق کچھ فوائد بیان کریں گے:

- ’رجاء‘ انسان کی عبدیت کا اظہار ہے۔ یہ خدا کے آگے انسان کے فاقے کا بیان ہے۔ ’رجاء‘ انسان کی حاجتمندی کا ایک خاموش پیرایہ ہے۔ ’رجاء‘ خدا کے التفات، خدا کے احسان، خدا کے بے پایاں فضل وکرم اور جود وسخا کیلئے انسان کے چاؤ کی ایک بے ساختہ زبان ہے۔ ’رجاء‘ اس بات کا اظہار ہے کہ بندہ مالک کی عنایت کے بغیر ایک لحظہ بھی رہنے کا روادار نہیں۔

- پھر ’رجاء‘ بندے سے خدا کا اپنا تقاضا ہے۔ سب سے پہلے، اور سب سے اہم، خدا کو ہی یہ پسند ہے کہ اُس کے بندے اُس سے اپنی سب امیدیں رکھیں۔ اُس سے خیر پانے کی خوب خوب آس رکھیں۔ اُس کے فضل کا اُس سے سوال کریں۔ کیونکہ وہ بادشاہِ حق ہے۔ سخاوت اُس کی شان ہے۔ سوال کرنے والے کو دینے میں کوئی اُس سے بڑھ کر نہیں۔ نوازش میں کوئی اُس جیسا نہیں۔ اُس کی شانِ سخاوت کو یہ پسند ہے کہ سب امیدیں اُس کی عنایت سے وابستہ رہیں۔ وہ تو اتنا سخی ہے کہ جو اُس سے نہ مانگے وہ اُس سے ناراض ہوجاتا ہے!!! حدیث میں آتا ہے: من لم یس ألاللہ یغضب علیہ ”جو اللہ سے سوال نہیں کرتا اللہ کا اس پر غصہ ہوتا ہے“!!!

اگر اُس سے ’مانگنے‘ کا یہ معاملہ ہے کہ جو اُس سے نہ مانگے اس پر اُس کا غصہ ہوتا ہے.... تو پھر یہ تو واضح ہے کہ ’مانگنے‘ کے پیچھے دراصل ایک ’آس‘ ہوتی ہے۔ ’ہاتھ پھیلانے‘ کے پیچھے ایک ’امید‘ اور ’رجاء‘ ہی کارفرما ہوتی ہے۔ خیر پڑنے کی ’آس‘ نہ ہو تو ’سوال‘ کیسا؟!!! پس یہ بات تو بالاولیٰ واضح ہوئی کہ جس کی اللہ سے امید اور رجاءنہیں اللہ کا اس پر غصہ ہو۔

- عرب راتوں کے وقت اونٹوں پر سفر کرتے تو کسی خوش الحان شخص کو خاص ایسے سروں میں نغمہ چھیڑ دینے پر مامور کرتے جن کی تاثیر سے اونٹ نہایت تیز چلتے اور پورے قافلے کا سفر بھی نہایت خوب گزرتا۔ اس کو عرب ’حُدی‘ کہتے ہیں۔ ’رجاء‘ قلوب کیلئے دراصل وہ نغمہ اور وہ ’حدی‘ ہے جو خدا کی جانب زیادہ سے زیادہ اور تیز سے تیز چلنے میں ان کی مددگار ہوتی ہے۔ ’امیدوں‘ کی منزل نہ ہو تو اس دشت کو پار کرنے کا حوصلہ کون کرے!!!؟ ’خوف‘ اکیلا وہ محرک نہیں جو اس سفر کو خوش گوار بنائے اور اس برگزیدہ قافلے کی رونق بحال رکھے۔ اس صحرا کو پار کر جانے کیلئے قلوب کو جس تحریک کی ضرورت ہے درحقیقت وہ خدا کی چاہت اور محبت سے وجود میں آتی ہے اور پھر اس راہ میں اِس کو تیز سے تیز تر بگھانے کیلئے جو نغمے چھیڑ دیے جانا ضروری ہیں وہ ہیں اِس کی امیدیں جو اِس کو منزل کی جانب کشاں کشاں لئے جاتی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ خوف کا کوڑا بھی ساتھ ساتھ استعمال کرنا ہوتا ہے، کہ اس سفر میں منزل کی کشش و خوبصورتی کے باوجود ایسی ایسی مشکل چڑھائیاں ہیں اور دائیں بائیں ایسے ایسے ’لہلہاتے‘ سراب ہیں کہ سفر جاری رکھنے کے معاملہ میں ہمتوں کا جواب دینا ہر وقت ممکن نظر آتا ہے!

- ’رجاء‘ وہ چیز ہے جو آدمی کو ’محبت‘ کی دہلیز سے اٹھنے ہی نہیں دیتی!!! جیسے جیسے ’رجاء‘ میں انسان کے ہاں ترقی اور افزودگی ہوتی ہے، جیسے جیسے مالک کا التفات پانے کی امید بڑھتی ہے اور اُس کے ہاں باریاب ہونے کی آس لگتی ہے، جیسے جیسے ’خیر‘ پر اس کی نظر ٹکتی ہے ویسے ویسے وہ اُس کی دہلیز پر اور جمتا ہے یہاں تک کہ پھر وہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جوں جوں معبود کی خوشی اور نوازش قریب نظر آتی ہے توں توں انسان معبود پر فریفتہ ہوتا ہے۔ اس کی رغبت بڑھتی ہے اور معبود کیلئے اس کی قدر دانی اور شکرمندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ’رجاء‘ کی بدولت اس کو اپنا انعام قریب دکھائی دیتا ہے تو وہ مالک سے اور بھی خوش ہوتا ہے۔ یوں انسان کا مالک پر راضی رہنا(1) اور مالک سے راضی رہنا ترقی کے بلند ترین زینے طے کرنے لگتا ہے۔

_ پھر یہ کہ ’رجاء‘ انسان کو ’درجۂ شکر‘ تک پہنچانے کا باعث بنتی ہے، جبکہ شکرمندی عبدیت کا اصل لب لباب ہے۔ ’قدردانی‘ اور ’شکرمندی‘ کسی چیز کو ’پانے‘ کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ کچھ پانے کا تصور ہی نہیں تو شکر کس بات کا؟ بندہ خدا سے دنیا میں بہت کچھ پاتا ہے اور آخرت میں بہت کچھ پانے کی امید سے مالامال ہوتا ہے تو اس کے دل میں خدا کیلئے شکرمند اور احسان مند ہونے کے جذبات موجزن ہوجاتے ہیں۔ شکرمندی کے احساسات بذاتِ خود بندگی ہیں جو آگے ہزاروں انداز میں انسان کو خدا کی بندگی پر ابھارتے ہیں۔ یوں ’رجاء‘ انسان کے اندر بندگی در بندگی کا ایک سلسلۂ لا متناہی جاری کردیتی ہے، جس سے انسان صبح شام خدا کی حمد وتسبیح کے اندر اپنی حقیقتِ بندگی کا مدعا بیان کرنے لگتا ہے۔

- جب ہم یہ جان آئے ہیں کہ خدا کو پکارنے اور آواز دینے کے پیچھے جو اصل جذبہ کارفرما ہوتا ہے وہ خدا کے ساتھ بندے کی آس لگی ہونا ہے.... تو پھر یہ ’رجاء‘ ہی ہے جو انسان کو خدا کے اسمائے حسنیٰ سے وابستہ کرے ۔ ’رجاء‘ ہی وہ جذبہ ہے جو انسان کو خدا کے خوبصورت ناموں کو جاننے اور ان کے مفہومات کے اندر غوطہ زن ہونے پر ابھارے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَلِلّهِ الأَسْمَاء الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا (الاعراف:180) ”اللہ کے نہایت حسین نام ہیں۔ پس پکارو اُس کو ان ناموں سے“۔ چنانچہ اگر ’رجاء‘ معطل ہو جائے تو خدا کو اُس کے خوبصورت ناموں کے واسطے دے کر ایک فہم، رغبت اور دلجمعی کے ساتھ پکارا جانا ہی انسان کے ہاں معطل ہو کر رہ جائے۔

- ’خوف‘ اور ’رجاء‘ در اصل لازم و ملزوم ہیں۔ امید، ڈر کے بغیر اور ڈر، امید کے بغیر نفس پر کوئی مثبت اثر نہیں رکھتا۔ چنانچہ ہر ’امیدوار‘ ، ’خائف‘ ہوتا ہے اور ہر ’خائف‘، ’امیدوار‘۔ یہی وجہ ہے کہ ’خوف‘ کے سیاق میں ’امید‘ کا تذکرہ اور ’امید‘ کے سیاق میں ’خوف‘ کا تذکرہ نہایت برمحل ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن کی آیت: مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا (نوح: 13) کی بابت کثیر مفسرین کا قول ہے کہ یہاں رجاءسے مراد ہے خوف۔ یعنی تمہیں اللہ کا عظمت کا پاس کیوں نہیں؟ چنانچہ ہر ’امید‘ کرنے والا ’خائف‘ ہوتا ہے کہ جس چیز کی وہ امید رکھتا ہے کہیں وہ حاصل ہونے سے رہ نہ جائے۔ جبکہ ’خوف‘ بلا ’امید‘، دراصل یاس کہلاتا ہے یعنی قنوطیت اور نا امیدی۔

- قیامت کے روز جب کسی کو نجات کا پروانہ ملے گا تو اس کی خوشی اس کو اسی بقدر حاصل ہوگی ہے جس قدر وہ آخرت کے متعلق اپنے دل میں خوف اور رجاءرکھتا رہا تھا۔ چنانچہ مختلف انسانوں کا حال اس لحاظ سے مختلف ہوگا، اور یہ لحظہ ذرا تصور کرنے کا ہے!!!

 

٭٭٭٭٭
 

(استفادہ از: مدارج السالکین مؤلفہ امام ابن قیمؒ، ج: 2 ص: 36

فصل: ومن منازل إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ  منزلۃ الرجاء)

 


(1) مراد ہے اللہ کے مالک اور رب ہونے پر، جیساکہ اذان کے اذکار میں آتا ہے رضیت باللہ ربا۔۔ یعنی ”میں راضی ہوا اللہ کے رب ہونے پر“۔ ابن القیمؒ کی کلام میں لفظ آئے ہیں رضی بہ ورضی عنہ۔

 

Print Article
  ایمان کا سبق
  رجاء
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
قنوتِ وتر۔ مسنون دعاؤں کے متن
رقائق- اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
قنوتِ وتر مسنون دعاؤں کے متن ترتیب: حامد کمال الدین نوٹ: دعاء یا اس کے ترجمہ میں جس جملے کی شرح ۔۔۔
قنوت میں دشمنان دین پر تبرا، اہل دین کےلیے دعائےخیر اور نبیﷺ پر درود
رقائق- اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
شرح دعائے قنوت تحریر: حامد کمال الدین 23 رمضانی قنوتِ وتر میں دشمنانِ دین پر تبرا، اہل دین کےلیے د۔۔۔
لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ (شرح قنوت 22
رقائق- اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
شرح دعائے قنوت تحریر: حامد کمال الدین 22 لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَل۔۔۔
وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ (شرح قنوت 21
رقائق- اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
شرح دعائے قنوت تحریر: حامد کمال الدین 21 وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ "میں تیری پناہ میں آتا ہوں تجھ ۔۔۔
وَبِمُعَافَاتِكَ مِنۡ عُقُوبَتِك (شرح قنوت 20
رقائق- اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
شرح دعائے قنوت تحریر: حامد کمال الدین 20 وَبِمُعَافَاتِكَ مِنۡ عُقُوبَتِك "تیرے درگزر کی پناہ ۔۔۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ (شرح قنوت 19
رقائق- اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
شرح دعائے قنوت تحریر: حامد کمال الدین 19 اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ "ال۔۔۔
وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ (شرح قنوت 18
رقائق- اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
شرح دعائے قنوت تحریر: حامد کمال الدین 18 وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ "امیدوار&nb۔۔۔
وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ (شرح قنوت 17
رقائق- اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
شرح دعائے قنوت تحریر: حامد کمال الدین 17 وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ "ہماری سب سعی تیری طرف ۔۔۔
اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي، وَنَسْجُدُ (شرح قنوت 16
رقائق- اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
شرح دعائے قنوت تحریر: حامد کمال الدین 16 اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي، وَنَسْجُدُ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز