”میرے بندے، |
میرے بارے میں پوچھیں....!!!“ |
”ابن آدم! جب تک کہ تو مجھ کو پکارنے والا رہے اور مجھ سے امید وابستہ رکھے، میں تجھے معاف کرتا ہی رہوں گا، چاہے تجھ سے جو بھی ہوتا رہا ہو، اور (تجھے بخشتے ہوئے) پروا تک نہ کروں گا..ابن آدم! تیری خطائیں اگر کبھی آسمان کی بلندیوں کو بھی پہنچ جائیں، پھر تو مجھ سے معافی مانگ لے تو میں تجھے معاف کردوں اور پروا تک نہ کروں۔ ابن آدم! اگر تو زمین برابر خطائیں لے کر بھی میرے پاس آئے اور مجھ سے ملے اس حالت میں کہ تو نے میرے ساتھ کچھ شرک نہ کیا ہو، تو میں اتنی ہی مغفرت کے ساتھ تیرا سامنا کروں“
(ترمذی، مسند احمد، صححہ الالبانی)
”اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں پوچھیں، تو میں بہت ہی قریب ہوتا ہوں؛ میں جواب دیتا ہوں پکارنے والے کی پکار کا، جب بھی وہ مجھے پکارے!!! تو چاہیے کہ وہ میری پکار سنیں اور مجھ پر ایمان رکھیں؛ تاکہ راہِ راست پائیں“
(البقرة: 186)
”ایک بندہ گناہ کر بیٹھا۔ کہنے لگا: ’پروردگارا! میں نے گناہ کر لیا ہے، تو مجھے معاف کردے‘۔ اس کا پروردگار بولا: ”تو کیا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی پروردگار ہے جو گناہ پر معافی دے اور چاہے تو پکڑ لے؟ میں نے اپنے بندے کو معاف کیا“۔ پھر جتنی دیر خدا کو منظور ہو، ایسے ہی رہتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ گناہ کر بیٹھتا ہے، تو پھر کہنے لگتا ہے: ’مالکا! پھر گناہ کر بیٹھا ہوں، مالکا! معاف کردے‘۔ مالک نے فرمایا: ”تو کیا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی مالک ہے جو گناہ پر معافی دے یا پکڑ لے؟ میں نے اپنے بندے کو معاف کیا“۔ پھر جتنی دیر خدا کو منطور ہو، ایسے ہی رہتا ہے۔ وہ پھر گناہ کر بیٹھتا ہے، تو پھر کہنے لگتا ہے: مالکا! پھر گناہ کر بیٹھا ہوں، معافی دے دے‘! مالک نے فرمایا: ”تو کیا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہ پر معاف کرے یا پکڑ لے؟ میں نے اپنے بندے کو معاف کیا۔ تو پھر جتنی دیر وہ چاہے (ایسا) کرتا رہے“!!!!!
(صحیح بخاری)
”اور تمہارے رب نے تو کہہ دیا ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری سنوں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبدیت سے سرکشی کریں وہ ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے“
(المؤمن: 60)
”کیا برکت والا ہے اللہ، سارے جہاں کا آقا....
”پکارا کرو اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے، بے شک وہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا....
”اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد پیدا نہ کرو، اور پکارا کرو اُسے ڈر سے اور لالچ سے، اللہ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب ہی رہتی ہے“۔
(ال أعراف: 54-56)
’سید الاستغفار یہ ہے کہ تم کہو:
الٰہا! تو ہی میرا پروردگار! نہیں کوئی پوجا کے لائق، سوائے تو! تو میرا خالق! میں تیرا بندہ! جہاں تک میرا بس چلے، میں تیرے عہد اور تیرے وعدے کا بابند رہوں! اپنے کرتوتوں کے شر سے تیری پناہ چاہوں! اقرار کرتا ہوں کہ تیری مجھ پر نعمتیں ہی نعمتیں ہیں! اقرار کرتا ہوں کہ میرے دامن میں خطائیں ہی خطائیں ہیں! الہٰا! مجھے بخش دے، جانتا ہوں تیرے سوا کوئی بخشتا ہی نہیں“
جو شخص سویر وقت یہ کلمات کہے، دل کے پورے یقین کے ساتھ، وہ اگر شام آنے سے پہلے فوت ہوجائے؛ تو وہ جنتی ہے۔ جو شخص شام وقت یہ کلمات کہے، دل کے پورے یقین کے ساتھ ، اگر صبح چڑھنے سے پہلے فوت ہوجائے؛ تو وہ جنتی ہے‘
(صحیح بخاری)
”خدا نے مخلوق بنانے سے پہلے ایک دستاویز لکھی ”بے شک میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی“ اور وہ دستاویز اس کے پاس عرش پر رکھی ہے“
(صحیح بخاری)
”خدا نے جب تخلیق کا کام کرلیا، تو اپنے یہاں دستاویز لکھی، اور وہ اُس کے پاس عرش کے اوپر رکھی ہے: ”بے شک میری رحمت میرے غضب پر بھاری ہے“
(متفق علیہ)
رسول اللہﷺ کے یہاں قیدی لائے گئے۔ کیا دیکھتے ہیں قیدیوں میں سے ایک عورت کچھ ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ جب اس کو ایک بچہ مل جاتا ہے تو اسے اپنے پیٹ کے ساتھ لگا لیتی ہے اور دودھ پلانے لگتی ہے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مخاطب کیا: کیا خیال کرتے ہو یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک دینے والی ہے؟ ہم نے عرض کی نہیں، اللہ کی قسم، جب تک کہ یہ اسے آگ میں نہ پھینکنے پر قدرت پاتی ہو(ایسا کبھی نہ کرے)۔ فرمایا: تو اللہ یقینا اس اپنے عباد پر اس سے زیادہ ترس کرنے والا ہے جتنی کہ یہ عورت اپنے بچے پر“۔
(متفق علیہ، بروایت عمر بن الخطابؓ)
”اللہ (قیامت کے روز) مومن کو اپنے قریب کرے گا۔ اس پر اپنا پردہ ڈال کر اس کو چھپا لے گا، اور پھر پوچھے گا: کیا فلاں گناہ مانتے ہو؟ کیا فلاں گناہ مانتے ہو؟ وہ کہے گا: ہاں میرے پروردگار۔ یہاں تک کہ جب وہ اس سے اسکے گناہوں کا اقرار کرالے گا اور وہ اپنے دل میں سمجھ بیٹھا ہوگا کہ وہ تو مارا ہی گیا، اللہ فرمائے گا: ”میں نے ان گناہوں پر دنیا میں تیرا پردہ رکھا، آج میں تجھے یہ گناہ معاف کرتا ہوں“۔ تب اسے اس کی نیکیوں کی دستاویز تھمادی جائے گی۔ رہا کافر اور منافق، تو گواہ بولیں گے ’یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھوٹ بولا‘، خبردار، ظالموں پر اللہ کی لعنت“
(متفق علیہ، یہ لفظ بخاری کے ہیں)
”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم گناہ کرنے والے نہ ہو تو اللہ تمہیں یہاں سے لے جائے اور (تمہاری جگہ) ایسے لوگ لے آئے جو گناہ کریں اور پھر اللہ سے گناہوں کی بخشش مانگیں اور اللہ (اس پر) انہیں معاف فرمایا کرے“
(صحیح مسلم)
روایت ابو رزینؓ سے، فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: ”ہمارا پروردگار اپنے بندوں کے حالتِ مایوسی کو پہنچ جانے سے ہنستا ہے جبکہ عنقریب ان کی حالت بہتر ہوجانے والی ہو“! میں نے عرض کی: ’کیا پروردگار عزوجل ہنستا بھی ہے‘؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: ”ہاں“۔ تو میں نے کہا: ”ہم ایسے رب کے ہاں تو خیر سے خالی نہ رہیں گے جو ہنستا ہے“!!!
(ابن ماجہ، مسند احمد۔ البانی نے اسے حسن کہا ہے: سلسلہ صحیحہ حدیث نمبر 2810)