فوائد از |
جامع العلوم والْحِکَم |
- کسی عارف کا قول ہے: تمہیں دیکھنے والے جتنے ہیں، ہر کسی کا کچھ نہ کچھ خیال تمہارے دل میں ضرور ہوگا کہ وہ تمہیں کس حالت میں دیکھتا ہے۔ خدا سے ڈرو کہ تمہیں دیکھنے والوں میں تمہارے نزدیک سب سے بے وقعت وہی ذات ٹھہرے جو تمہاری جان کی مالک ہے!
- اللہ سے اتنا ہی ڈر کر رہو جتنا تم اس کے قدرت و اختیار میں ہو! اللہ سے اتنی ہی حیا کئے رہو جتنا قریب سے وہ تمہیں دیکھتا ہے!
- سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں: متقین کو متقین یعنی ’بچ بچ کر رہنے والے‘ کا نام کیوں دیا گیا؟ اس لئے کہ جس چیز سے بچنا بظاہر ناممکن ہے یہ اس سے بچ جاتے ہیں!
- میمون بن مہرانؒ: آدمی کیلئے حلال صحیح سالم اس وقت نہیں رہ سکتا جب تک وہ اپنے اور حرام کے درمیان حلال ہی کی ایک اوٹ کھڑی نہ کر لے!
’ورع‘ کی یہ ایک نہایت خوب تعریف ہے!
- فضیل بن عیاضؒ: اس امت میں جو لوگ رتبہ ہائے بلند پا کر گئے، امت میں ان کو یہ رتبہ محض ان کی کثرتِ صلۃ و صیام کے دم سے نہیں ملا۔ یہ تو قلوب کی وسعت کے دم سے تھا، اور بغض و حسد سے سلامت سینوں کی بدولت اور امت کی خیرخواہی کے نتیجے میں۔
- امام شافعیؒ فرماتے ہیں: تین چیزیں سب سے کم یاب ہیں: بے سروسامانی میں سخاوت کر گزرنا، تنہائی کے لمحات میں ورع اختیار کئے رہنا، اور کسی ایسے شخص کے روبرو کلمۂ حق کہنا جس سے آدمی کو کوئی امید ہو یا پھر خوف۔
- حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے گویا یہ اِس پہاڑ کی کھوہ میں کھڑا ہے اور پہاڑ اوپر سے اس پر گرا کہ گرا۔ جبکہ ایک بدکار شخص اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتاہے گویا ناک پہ مکھی بھنبھنا رہی تھی اور اِس نے ہاتھ سے اس کو بس یوں سے یوں کر دیا!
- وابصہ اور ثعلبہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ’اپنے دل سے فتویٰ لو‘ اور یہ کہ ’گناہ وہ ہے جو تمہارے دل کو کھٹکے چاہے تمہیں فتویٰ دینے والوں نے فتویٰ کیوں نہ دے دیا ہو‘.... کی بابت ابن رجبؒ فرماتے ہیں:
یہ اسی آدمی کے حق میں درست ہوگا جس کو ایمان پر شرحِ صدر حاصل ہوگیا ہو، اور فتویٰ دینے والے اس کو واضح شرعی دلیل کی بجائے محض ظن وتخمین یا اتباعِ ہویٰ کی بنیاد پر فتویٰ دے رہے ہوں۔ ہاں اگر فتویٰ واضح شرعی دلیل پر مبنی ہو تو فتویٰ لینے والے پر واجب ہے کہ وہ اُسے ہی قبول کرے چاہے وہ دل کو لگے اور چاہے نہ لگے۔ اب مثلاً سفر میں نمازِ قصر یا افطارِ صیام یا مرض میں تیمم وغیرہ ایسی شرعی رخصت اختیار کرنے پر کسی شخص کا دل نہیں ٹھکتا.... تو ایسے امور اس وجہ سے ’گناہ‘ کی صنف میں نہیں آجائیں گے کہ ایسا کوئی کام کسی جاہل کے دل میں کھٹکتا ہے!
- عبد اللہ بن مسعودؓ نے اپنے کچھ اصحاب سے کہا: تم نماز اور روزے اور جہاد میں اصحابِ محمدﷺ سے بھی بڑھ کر ہوگے، مگر وہ تم سے برگزیدہ تر ہی رہیں گے۔ دریافت کیا گیا: کیسے؟ فرمایا: دنیا کو بے وقعت جاننے میں وہ تم سے بڑھ کر تھے اور آخرت کے اندر رغبت رکھنے میں وہ تم سے بہت آگے تھے!
- ابن رجبؒ لکھتے ہیں: ایک نہایت دقیق نکتہ ہے جس کو سمجھ رکھنا اشد ضروری ہے: بہت سے ائمۂ دین ایسے ہوسکتے ہیں جن کا اختیار کردہ قول راجح نہیں بلکہ مرجوح ہو، گو وہ اس قول کے اختیار کرنے میں اجتہاد پر ہو جس میں کہ اجتہاد پر آدمی کو اجر ملتا ہے اور غلطی پر اس کی بخشش ہوتی ہے۔ البتہ یہ درجہ اس شخص کے حصہ میں نہیں آتا جو اس برزگ کے قول کو ثابت کرنے پر زور لگا رہا ہو؛ کیونکہ بسا اوقات وہ اس قول کو ثابت کرنے کی کوشش اس وجہ سے کر رہا ہوتا ہے کہ یہ اس کے پیشوا نے اختیار کیا ہے، یوں کہ یہی قول اگر اس کے پیشوا کی بجائے ائمۂ دین میں سے کسی اور نے کہا ہوتا تو نہ تو وہ اسے قبول کرتا، نہ اس کو ثابت کرنے پر زور لگاتا، نہ اس کی موافقت کرنے والے کو ’اپنا ساتھی‘ سمجھتا اور نہ اس کی مخالفت کرنے والے کو ’اپنا مخالف‘۔ اس کے باوجود وہ سمجھتا ہے کہ وہ حق کو ثابت کر رہا ہے! اور یہ کہ اس قول کے ثبوت دینے سے اس کو بھی وہ ثواب ملنے والا ہے جو اس قول کو اختیار کرنے کے باعث اس کے پیشوا کو ملے گا!حالانکہ اس کے پیشوا کے پیش نظر محض ایک قول کو اختیار کرنا تھا جو اُس کے خیال میں حق کے قریب تر ہوا، بے شک وہ حق کو پانے کی اُس کوشش (اجتہاد) میں غلطی کیوں نہ کر بیٹھا ہو.... مگر اِس پیروکار کا عین اسی قول کی تائید میں زور لگانا مشتبہ ہے کیونکہ ’حق‘ اِس کو جس چیز میں نظر آتا ہے وہ ہے اِس کے پیشوا کا مرتبہ و مقام، اور اِس کی یہ خواہش کہ اِس کے پیشوا کا ہی کلمہ بلند ہو، اور اِس کو یہ بات ناگوار ہونا کہ اِس کے پیشوا سے غلطی ہوگئی! یہ ایک نہایت پوشیدہ خطرہ ہے جو ’حق‘ کا ثبوت دینے کے عمل کے دوران بہت سے لوگوں کے اخلاص نیت کو لاحق ہوجاتا ہے۔ پس اس کو ہمیشہ سامنے رکھو، کیونکہ یہ بے حد اہم بات ہے، اور اللہ جسے چاہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔
- حسن بصریؒ فرماتے ہیں: مصافحہ محبت بڑھاتا ہے۔
- مجاہدؒ فرما رہے تھے: مجھے اہل علم کی یہ بات ملی ہے کہ خدا کی خاطر محبت کرنے والے دو شخص آپس میں ملتے ہوئے ایک دوسرے کیلئے مسکرائیں اور ہاتھ ملائیں تو ان کے گناہ درخت کے پتوں کی طرح جھڑنے لگتے ہیں۔ عرض کی گئی: یہ تو بہت آسان ہوا! فرمایا: تم کہتے ہو آسان ہے؟! اللہ فرماتا ہے: لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ (الانفال: 63)”اگر تم پوری دنیا کی دولت خرچ کر لیتے تو ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتے مگر اللہ نے ان کے دلوں میں الفت ڈال دی!
- حسن بصریؒ نے اپنے کچھ تلامذہ کو ایک شخص کی حاجت پوری کروانے کیلئے روانہ کیا اور ان کو کہا: ثابت بنانیؒ کے ہاں سے گزرتے جانا اور اس کو ساتھ لے جانا۔ حسن بصریؒ کے تلامذہ ثابتؒ کے پاس پہنچے تو ثابت نے جواب دیا: بھئی میں اعتکاف میں ہوں۔ یہ سن کر وہ لوگ حسن بصریؒ کے پاس لوٹ آئے اور صورتحال بتائی۔ حسن بصریؒ نے انہیں دوبارہ جانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اس کم نظر کو کہو: کیا تم جانتے نہیں کہ تمہارا اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لئے چل کر جانا پے در پے حج کرنے سے افضل تر ہے؟ تلامذہ ثابتؒ کے پاس واپس گئے اور حسنؒ کی یہ بات پہنچائی تو ثابت اعتکاف چھوڑ کر اس مسلمان کے کام کیلئے ان کے ساتھ روانہ ہوئے۔
- حسن بصریؒ فرماتے ہیں: علم دو قسم کا ہے: ایک علم جو زبان پر ہوتا ہے، یہ خدا کی حجت ہے جو ابن آدم پر پوری کروائی جاتی ہے۔ اور علم وہ جو دل میں اترا ہوا ہو۔ علمِ نافع درحقیقت یہی ہے!
- حدیث کہ اللہ ’ایک نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا اور اس سے بھی بڑھا دیتا ہے جبکہ بدی کا بدی کا ایک گنا ہی رہنے دیتا ہے‘.... کے ضمن میں:
عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: برا ہو اس شخص کا جس کی اکائیاں اس کی دہائیوں کو مات دے جائیں!
ابن رجبؒ کہتے ہیں: نیکیوں کا بدلہ دس گنا سے زیادہ بڑھنا آدمی کے اسلام اور ایمان کے حسن پر منحصر ہے، جیسا کہ ابوہریرہؓ و دیگر کی احادیث میں صراحت کے ساتھ آتا ہے۔ اسی طرح اس کا انحصار آدمی کے ہاں پائے جانے والے کمالِ اخلاص پر منحصر ہے، اور اس بات پر بھی کہ خود اس عمل کی فضیلت کتنی ہے، اور پھر اس چیز پر بھی کہ اُس عمل کی عین اس لمحے ضرورت کس قدر تھی۔
- ام المؤمنین عائشہؓ فرماتی ہیں: کیا خوش بخت ہے وہ شخص جو اپنے نامۂ اعمال میں جگہ جگہ استغفار لکھا ہوا پائے گا!
- ابو المنہالؒ فرماتے ہیں: آدمی کو قبر میں جتنے ہمدم میسر ہوں گے، استغفار سے بڑھ کر اس کو کوئی عزیز نہ ہوگا۔
- قتادہؒ فرماتے ہیں: اس قرآن نے تو نہ تمہاری بیماری بتائے بغیر چھوڑی اور نہ اس کی دوا۔ تمہاری بیماری گناہ ہیں اور اس کی دوا، استغفار۔
- امیر المؤمنین عمر بن الخطابؓ چھوٹے بچوں سے اپنے لئے استغفار کروایا کرتے تھے اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے: تم نے خدا کے حق میں کوئی قصور نہیں کیا!
- ابو ہریرہؓ مسجد میں پڑھنے کیلئے آئے ہوئے بچوں کے پاس جا کر کہا کرتے: کہو: اے اللہ! ابو ہریرہ کو بخش دے۔ بچے کہتے: ’اے اللہ! ابو ہریرہ کو بخش دے‘، تو ابو ہریرہؓ اس پر آمین کہتے!
- ذو النونؒ کا قول نقل کیا گیا ہے: دنیا بے لطف ہے اگر اِس میں مالک کا ذکر نہ ہو! آخرت بے لطف ہے اگر اُس میں مالک کی طرف سے بخشش نہ ہو! جنت بے لطف ہے اگر اُس میں مالک کا دیدار نہ ہو!
(جامع العلوم والحکم، مؤلفہ ابن رجبؒ)