# اپنے نفس کا تاوان دے کر، اِس کو آج چھڑا لو۔ اپنی جان بچانے کا سودا آج ہی کر لو۔ ابھی بازار کھلا ہے۔ قیمت پاس ہے۔ نرخ ارزاں ہیں۔ ابھی کچھ دیر میں بازار بند ہوجانے والا ہے۔ چیز سستی نہ مہنگی، ملے گی ہی نہیں۔ وہ ’سودا ہاتھ سے نکل جانے کا دن‘ ہے: ’جس دن ظالم (حسرت سے) اپنے ہاتھ چبائے گا‘....!!!
# ’غایت‘ ایک ایسی چیز ہے جس کا وجود ذہن کی ترتیب میں سب سے پہلے ہوتا ہے مگر واقعات کی ترتیب میں سب سے آخر۔ قلب ونظر کیلئے ابتدا یہی ہے، اگرچہ سفر کی منازل میں اِس کو اُس وقت آنا ہو جب مسافر ’وصل‘ کی دہلیز پہ پہنچے!
یہی وہ فرق ہے جو اِس راہ میں اُس شخص کے ساتھ پیش آتا ہے جو ’قلب‘ کو ساتھ لے کر چلتا ہے، بہ نسبت اُس شخص کے جو شاہراہِ دین پر محض ’ڈگ‘ بھرتا ہے!
’معمولات‘ نگاہ کی تازگی اور شگفتگی کو متاثر کرکے رکھ دیتے ہیں۔ پس اس ’غایت‘ پہ نظر جما کر رکھنا تم سے ہر روز نئے سرے سے ایک ’تجدید‘ چاہے گا۔ بہشت کے چوبارے اور خدا کاقرب جس کو روز نظر آئیں وہ مٹی کی ان رکاوٹوں کو کب کسی خاطر میں لاتا ہے!
صاحبو! رتبوں کا یہ فرق ’نگاہ‘ اور ’ہمت‘ کے دم سے ہے نہ کہ ’ہیئت‘ کے بل پر!
# اس دنیا سے جاؤ گے، تو یہ ایک عجیب واقعہ ہوگا۔ یا تو تم ایک قید خانے سے چھوٹو گے اور اپنے سامنے کھلی فضائیں پاؤ گے۔ یا پھر تم ابھی آزاد پھرتے ہو اور یہاں سے نکلتے ہی ایک قید خانے میں چلے جاؤ گے....!
ایک قید ضروری ہے خواہ یہاں کاٹ لو یا وہاں! یہاں عمل اور بندگی کی قید ہے اور چند دنوں کی ہے۔ وہاں بے بسی اور جہنم کی قید ہے، البتہ وہاں کے دن بہت لمبے ہیں! چاہو تو یہاں کاٹ جاؤ اور چاہو تو وہاں جہاں کٹے گی نہیں!
# ”توحید“ خدا کی وہ پناہ گاہ ہے کہ جس کو بھی پناہ لینی ہو یہیں جا کر پناہ لیتا ہے، خواہ اُس کا دوست اور خواہ اُس کا دشمن!
’دشمن‘ کے پناہ لینے کا ذکر قرآن میں ہوا۔ کہ مشرکوں پر دنیا میں جب کوئی برا وقت آتا ہے، اور جب ان کی کشتی ڈولنے لگتی ہے تو وہ خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں اور اُس کے سوا ہر کہیں سے امید ختم کر لیتے ہیں۔ ہاں جب وہ پار لگ جاتے ہیں تو پھر اُس کے ساتھ اوروں کو شریک کرنے لگتے ہیں۔
جہاں تک ’دوست‘ کا تعلق ہے تو اس کی تو پناہ گاہ ہے ہی یہی؛ دنیا کی سختیاں ہوں تو، اور آخرت کے مصائب ہوں تب۔
اِسی توحید کا سہارا لے کر یونس علیہ السلام نے اندھیروں کے اندر سے اپنے کارساز کو آواز دی تھی، جو ان سب اندھیروں کو چیرتی ہوئی اُس تک جا پہنچی اور اُس نے مدد کو پہنچنے میں کوئی دیر نہ لگائی!
اسی توحید کا سہارا لے کر اُس کے سب رسول اور رسولوں کے پیروکار اُس کو آواز دیتے رہے اور وہ ان کی مدد کو پہنچ جاتا رہا اور بدترین سے بدترین حالات میں سے ان کو نکال لاتا رہا!
اندازہ کرو، یہ راز فرعون کو بھی معلوم تھا! پھنسا تو اسی توحید کا واسطہ دے کر بچنے کی فریاد کرنے لگا: آمنت أنہ لا اِلہ اِلا الذی آمنت بہ بنو اِسرائیل.... !!! مگر یہاں اِس نے فرعون کو کام نہ دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ جب آنکھوں ہی دیکھ لیا تو پھر اِس کو مان کر دینا خدا کے ہاں قبول نہیں، یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ ورنہ ’آگے‘ جا پہنچنے والے سبھی اِس سے کام لے لیا کرتے!
شدائد میں مالک کو پکارنے کیلئے توحید کا واسطہ دینے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ کرب میں اس سے بڑھ کر کوئی سہارا نہیں۔ حفاظت کیلئے اس سے بہتر کوئی قلعہ نہیں۔
# بے علم کی گوشہ نشینی کوئی مصیبت ہی لے کر آئے گی۔ رہ گئی عالم کی گوشہ نشینی، تو اسے کس چیز کی پروا؟ ’اُس کے جوتے اُس کے پاس، اُس کا راشن پانی اُس کے ساتھ ‘!(1)
# ’لطف‘ کا زیادہ یا کم ہونا جس چیز پر منحصر ہے وہ یہ کہ: ’محبت‘ کس قدر پائی گئی....؟
محبوب کیلئے جس قدر رغبت اورشوق پایا جائے گا وصل میں لذت ولطف اُسی کے بقدر ملے گا۔ پس ’وصل‘ جو چیز ہے اِس کا لطف اور حظ سب کے حق میں یکساں نہیں! البتہ اس فرق کے پیچھے جو راز پوشیدہ ہے وہ یہی کہ رغبت اور شوق کس پائے کا تھا، یعنی ’محبت‘ کس قدر تھی؟!
اب یہ ’شوق‘ اور ’محبت‘ جس چیز پر انحصار کرتی ہے وہ ہے معرفت اور علم۔ یعنی آدمی کا اپنے محبوب کو جاننا اور اپنے مطلوب سے واقف ہونا۔ جتنا آدمی اپنے محبوب سے واقف اور اپنے مطلوب سے آگاہ ہوگا، اتنے ہی اس کے اندر اس کی محبت اور طلب کے دواعی پیدا ہوں گے۔ پس جوں جوں اس کا علم کامل تر ہوتا ہے توں توں اس کا شوق کامل تر ہوتا ہے! جوں جوں اس کی معرفت افزوں ہوتی ہے توں توں اس کی محبت جواں ہوتی ہے!.... اور یہیں سے درحقیقت ’وصل‘ کی لذت کیلئے ایک نہایت اعلیٰ بنیاد تیار ہونے لگتی ہے!
سو صاحبو! سب کا سب معاملہ ’علم‘ پر آرہتا ہے!
اُس کو ’پانے‘ کا لطف تو کمال کا ہے، مگر کوئی اُس کو ’جانے‘ تو!
پس جس شخص کا ایمان اور علم اللہ، اور اس کے اسماء، اور اُس کے صفات، اور اُس کے دین اور بندگی کے حقائق کی بابت کامل تر ہو گا، اللہ کے لئے اُس کی محبت اتنی ہی کامل تر ہوگی۔ اور جتنی اُس کی محبت کامل تر ہوگی اتنی ہی اُس کی وہ لذت کامل تر ہوگی جو اللہ سے جاملنے، اُس کی مجاورت میں جا بسنے، اُس کی تجلیِ دیدار پانے، اور اُس سے ہم کلام ہونے میں ایک مومن کو ملنے والی ہے۔ یہ وہ دن ہوگا کہ لوگ سرور میں سر تا سر ڈوبے ہوں گے، مگر پھر بھی اپنا اپنا حظ ہوگا اور اپنا اپنا سرور۔ سیرابیِ وصل میں کوئی کہیں پہنچا ہوگا تو کوئی کہیں! کسی کو قطرہ تو کسی کو سمندر!!! خوش نصیبی میں سبھی لوٹ پوٹ ہوں گے، مگر کچھ نصیب تو لذتِ دیدار میں کمال ہی کو پہنچ جائیں گے!
پس یہ سب کرشمے جس چیز کے دم سے ہوں گے وہ ہوا: خدا کو جاننا!!!
# وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا....
یہاں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا معاملہ جہاد سے معلق کر دیا۔ پس ہدایت پانے میں کامل تر شخص وہی ہو گا جو خدا کی راہوں میں جہاد کے اندر کامل تر ہو۔ نفس کے خلاف جہاد، ہویٰ کے خلاف جہاد، شیطان اور اولیائے شیطان کے خلاف جہاد اور دنیا کے تقاضوں کے روبرو جہاد۔ جو ان چار دشمنوں کے روبرو برسر جہاد رہا اس کے آگے اللہ کی خوشنودی اور محبت کی راہیں کھلتی چلی جائیں گی۔ جو یہاں جہاد ترک کر بیٹھا؛ تو جس قدر کمی اس کے جہاد کے اندر رہی اتنی ہی کمی اس کے ہدایت پانے کے اندر رہ جائے گی!
# عمل، جس میں نہ قلب کا اخلاص ہو اور نہ سنت کی اقتداء.... اگلے جہان لے کر جانا ایسا ہی ہے: جیسے کوئی مسافر سفر پر روانہ ہو تو ریت کا ایک بے کار تھیلا بھر کر ساتھ اٹھا لے! تمام راستہ یہ اس کا بوجھ اٹھائے گا مگر فائدہ ذرہ بھر نہیں!
# جب تم اپنے دل کو دنیا کے ہم وغم اٹھوادیتے ہو، مگر اس کو ذکر وشکر وفکر اور عبادت کی وہ غذا دینے میں کمی رکھتے ہو جو کہ اِس کی زندگی اور توانائی کا راز ہے، تو اس وقت تم اس مسافر کی طرح ہوتے ہو جو اپنی سواری پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ لاد دیتا ہے مگر اس کو چارہ دینے میں بخل کرتا ہے۔ ایسی سواری بھلا کب تک چلے گی؟!
# ’دنیا‘ بن سنور کر آئی، مگر علی رضی اللہ عنہ نے اس کو تین طلاقیں اکٹھی دے ڈالیں۔ حالانکہ سنت کے مطابق، ایک بھی دے دیتے تو کافی تھی!
علی رضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو ’رجعی‘ رہنے ہی نہ دیا کہ مبادا قاصدانِ نفس کسی دن موقعہ تکا کر ’رجوع‘ کے قصے لے کر بیٹھ جائیں! ہاں یہ وہ جانتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے جو دینِ صحیح اور جو طبعِ سلیم پائی ہے، اس میں ’حلالہ‘ خارج از سوال ہے۔ ہو بھی کیسے، ’لَعَنَ اللّٰہُ الْمُحَلِّلَ‘ والی حدیث کے ایک راوی علی رضی اللہ عنہ ہی تو ہیں!
# ’خواہشات‘ بن سنور کر ’طبیعتوں‘ کی راہ میں بیٹھیں....
’ایمان بالغیب‘ والے، غضِ بصر کئے وہاں سے گزر گئے اور اپنا ’راستہ‘ چھوڑ دینے پر تیار نہ ہوئے۔ دیکھنے والے نے کہا:أُوْلَـئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ”یہ ہیں اپنے رب کی جانب سے ایک ہدایت پر، اور یہ کامیابی کو پہنچ کر رہیں گے“!!!
کچھ جلد باز جنہیں بس ’یہی‘ نظر آتا تھا اور ’غیب‘ سے کچھ خبر رکھی تھی اور نہ سروکار، راستہ چھوڑ کر ان برگشتہ ’حسیناؤں‘ کے پیچھے بھاگ لئے؛ وہ آگے اور یہ پیچھے، ’مزے‘ کے تعاقب میں ’بربادیوں‘ کی مسافت تیزی سے طے ہونے لگی۔ دیکھنے والے نے کہا: كُلُوا وَتَمَتَّعُوا قَلِيلًا إِنَّكُم مُّجْرِمُونَ ”کھا لو اور ذرا سے مزے کر لو، تم مجرم ثابت ہو چکے ہو“۔
طائرِ طبع کی نظر ’دانے‘ پر ہے۔ چشمِ ہوش ’جال‘ کو دیکھتی ہے۔ برا ہو ہویٰ کا، اِس کو دِکھنا ہی بند ہوجاتا ہے۔ یہ جان بوجھ کر اندھی ہوتی ہے؛ ریجھ جائے تو ’ہرا ہی ہرا‘ دیکھتی ہے۔ بگڑ جائے تو ہر ’خوب‘ اس کو ’بد‘ نظر آتا ہے! پھر مان کر نہیں دیتی کہ اِسے کور چشمی لاحق ہے۔اور سب سے برا اِس کی نظر میں وہ جو اِسے اِس ’اندھے پن‘ کا نقصان بتائے! اِس کا سب سے بڑا دشمن وہ جو اِسے ’مرنے‘ سے روکے!
# بندے کو مالک الملک کے روبرو دو قیام درپیش ہیں۔ ایک، اس کا مالک کے روبرو نماز میں کھڑا ہونا۔ اور دوسر،ا یومِ ملاقات اس کے روبرو پیش ہونا۔ جس نے پہلا قیام درست کر لیا، اس کا دوسرا قیام بھی نہایت بخیر وخوبی گزرے گا۔ جس نے اِس قیام میں لاپرواہی برتی اور اِس کا حق ادا کرنے میں کم دلی دکھائی، اُس پر اگلا قیام بہت ہی گراں اور دشوار ہو سکتاہے:
وَمِنَ اللَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهُ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيلًا۔ إِنَّ هَؤُلَاء يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا۔ (الدہر: 26-27)
”اور رات کا ایک حصہ اُس کیلئے سجدہ ریز رہ، اور طویل رات اُس کی پاکی بیان کر۔ یہ جو لوگ ہیں اِن کی تو محبت عاجلہ سے ہے اور یہ تو ایک بڑے ہی بھاری دن کو پس پشت ڈالے جارہے ہیں“
(استفادہ از الفوائد، مؤلفہ امام ابن القیمؒ)
(1) اشارہ ہے اس حدیث کی جانب جس میں نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ ’اگر مجھے کسی کی گمشدہ بکری ملے تو کیا کروں؟‘ فرمایا: وہ یا تو تیری ہے یا تیرے بھائی (اصل مالک) کی اور یا پھر بھیڑیے کی‘۔ دریافت کیا: ’اور اگر گمشدہ اونٹ پاؤں؟’ فرمایا: تجھے اُس سے کیا لگے۔ اُس کے جوتے اُس کے پاس، اُس کا راشن پانی اُس کے ساتھ!‘ (مراد ہے وہ آرام سے چل پھر سکتا ہے اور جہاں سے چاہے چگ چر سکتا ہے)۔ یہ حدیث زید بن خالد خالد جہنی سے مروی ہے اور صحیح مسلم کے علاوہ متعدد کتب میں آئی ہے۔
امام ابن قیمؒ نے یہاں ’گوشہ نشینی‘ کے معاملہ میں بے علم اور عالم کا موازنہ مذکورہ بالا حدیث کے سیاق میں بکری اور اونٹ کی تمثیل سے کیا ہے۔