# نماز میں ایک دفعِ مکروہ ہے، یعنی بے حیائی اور برائی سے روکنا۔ اور ایک تحصیلِ محبوب ہے، یعنی اللہ کی یاد۔ جبکہ تحصیلِ محبوب، بلحاظِ درجہ و فضیلت دفعِ مکروہ سے بڑھ کر ہے! (العبودیۃ: 99)
# ’علم‘ وہ ہے جس پر دلیل ملتی ہو۔ اور ’نافع‘ وہ جسے رسول اللہ ﷺ لیکر آئے ہوں!
(تفسیر سورۃ النور: 174)
# عبادت دراصل قصد اور طلب ہے، اور استعانت اس عبادت کا وسیلہ اور ذریعہ!
(النبوات: 113)
# جتنا کسی کا ایمان قوی ہوتا ہے اتنا ہی مضبوط فرشتوں کا جتھا اس کو ملتا ہے!
(النبوات: 416)
# مخلوق کے ہاں محبت کی بہت صورتیں پائی گئی ہوں گی، مگر اہل ایمان کی اپنے پروردگار کے لئے جو محبت ہے اس سے کامل تر اور حسین تر محبت کسی کی نہ ہوگی!
وجود میں کوئی ایسی ہستی ہے ہی نہیں جو آپ اپنی ذات میں اور ہر ہر پہلو سے لائقِ محبت ہو، سوائے اللہ وحدہ لاشریک کے! (الرد علی البکری: 10: 649)
# معاف کر دینا اللہ کو حد سے بڑھ کر محبوب نہ ہوتا تو وہ اپنی سب سے پسندیدہ مخلوق کو گناہ کی آزمائش نہ ڈالتا! (منہاج السنۃ: 4: 378)
# جو کام اللہ سے مدد لے کر نہ کیا جائے وہ ہوتا نہیں۔ جو اللہ کی خاطر نہ ہو، وہ نہ منفعت بخش ہوتا ہے اور نہ اس کو دوام ملتا ہے! (مجموع الفتاوی: 8:329)
# اللہ جو کرے اس کیلئے جواب دہ نہیں؛ اپنی کمال حکمت ودانائی اور اپنی رحمت اور عدل کی بنا پر، نہ کہ صرف اپنے قہر اور قدرت کی بنا پر! (مجموع الفتاوی: 8: 511)
# عدل اور ظلم کا فرق معلوم نہیں ہوتا مگر علم کے ساتھ۔ چنانچہ دین سب کا سب دو چیزوں میں آرہتا ہے: علم اور عدل۔ جس کی ضد ہے ظلم اور جہل۔ تبھی فرمایا: وحملہا الاِنسان اِنہ کان ظلوماً جہولاً۔ ”یہ بوجھ انسان نے اٹھا لیا، بے شک وہ ہے ہی بہت ظلم کرنے والا اور بہت جہالت میں رہنے والا“ (المستدرک: 5: 125)
# شرائع قلوب کی عذا ہیں! (اقتضاءالصراط المستقیم: 281)
# حج، حنیفیت کا شعار ہے! (اقتضاءالصراط المستقیم: 449)
# ’ہجرِ جمیل‘ ہے: بغیر کسی اذیت کا سبب بنے، پرے ہو رہنا۔ ’صفحِ جمیل‘ ہے: بغیر کسی عتاب کے، درگزر کر جانا۔ ’صبرِ جمیل‘ ہے: مخلوق کے پاس کسی قسم کا شکویٰ کئے بغیر،، برداشت کر جانا! (العبودیۃ: 92)
# ہر وقت شہوت کی نگاہ لئے پھرنا، اور اس سے متصل عشق ومعاشقہ اور قرب ومعانقہ ایسے تعلقات کا طول کھینچ جانا، بسا اوقات اس سے زیادہ سنگین گناہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی سے زنا سرزد ہوجائے مگر وہ اس پر دوام اختیار نہ کرے۔ (تفسیر سورۃ النور: 15)
# بڑے بڑے اچھے لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے بلکہ تو اکثر ایسے ہیں کہ منکرات ہوتے ہوں تو اس سے یہ اتنے آزردہ نہیں ہوتے جتنے یہ منکرات کے خلاف جہاد کیا جانے کے عمل سے آزردہ ہوتے ہیں! (تفسیر سورۃ النور: 60)
# جس نے کسی سے محبت کی، اور وہ محبت اللہ کی خاطر نہ تھی، دوستوں کا ضرر اس کے حق میں دشمنوں کے ضرر سے بڑھ کر ہوگا! (مجموع: 10: 605)
# اکثر لوگ دنیا کو دشنام دیتے ہیں، جو کہ دین کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ ان کی اِس مذمتِ دنیا پر ہرگز مت جائیو، کیونکہ یہ دنیا کو گالی اس وقت دیتے ہیں جب دنیا سے ان کے اغراض پورے نہیں ہوتے! (مجموع: 20: 148)
# شیاطینِ جنّ غالب آئیں گے تو وسوسہ لائیں گے۔ شیاطینِ انس غالب آئیں گے تو دروغ گوئی کریں گے! (مجموع: 22: 608)
# اہلِ رحمت، مغضوب علیہم نہیں ہوسکتے۔ اہلِ ہدایت، ضالین نہیں ہوسکتے۔ تبھی تو تم رحمت اور ہدایت کا تذکرہ سورت کے ابتداءمیں کر جاتے ہو! (مجموع: 7: 21)
# لازم نہیں ہر وہ شخص جو پیاسے کتے کو پانی پلائے ضرور ہی بخشا جائے۔
(المستدرک: 2: 200)
# إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلاَّ اللّهَ ....
اللہ کیلئے بننے والی سجدہ گاہوں کو آباد وہ لوگ کرتے ہیں جو اللہ کے ماسوا کسی کا خوف نہ رکھیں۔ قبروں کی سجدہ گاہوں کو آباد کرنے والے وہ ہیں جو غیر اللہ سے ہی ڈریں اور غیر اللہ ہی سے آس رکھیں! (الرد علی البکری: 2: 563)
# خدا کے انبیاءو رسل دین کی جس حقیقت کو لے کر آئے ہیں؛ جو شخص اس کا علم حاصل کرتا ہے اور لوجہ اللہ اوروں کو اس کی تعلیم دیتا ہے، صدّیق ہے۔ جو شخص اس کی خاطر قتال کرتا ہے کہ اللہ ہی کا کلمہ بلند ہوجائے یہاں تک کہ اس جنگ میں مارا جاتا ہے، شہید ہے۔ جو شخص اپنے مال ودولت سے اس کی نصرت وتائید کرتا ہے اور اپنے اس صدقہ سے محض اللہ کا چہرہ پانا چاہتا ہے، صالح ہے۔ پس صدیق، شہید اور صالح کچھ نہ کچھ خرچ کرنے سے بنتا ہے؛ ایک اپنا علم، دوسرا اپنی جان، اور تیسرا اپنا مال۔ (الاستقامۃ: 2: 298)
# سورۂ بقرہ کے آخر میں مالی معاملات کی نسبت سے تین درجے ذکر ہوئے ہیں: محسن، ظالم اور عادل۔ محسن وہ جو اپنا مال صدقہ کر دیتا ہے۔ ظالم وہ جو اپنے پیسے پر سود لیتا ہے اور عادل وہ سوداگر جو دام لے کر چیز دیتا ہے! (مجموع: 30: 368)
# یہود اپنی ذات کیلئے غضب میں آتے ہیں اور اپنی ذات کیلئے انتقام لیتے ہیں۔ نصاریٰ نہ تو اپنے رب کے لئے غضب میں آنے سے آشنا ہیں اور نہ اپنے رب کیلئے انتقام لینے سے۔ اہل اسلام، کہ اِنہیں عدل کی نعمت اور اپنے نبی کی اتباع نصیب ہوئی ہے، اپنے رب کیلئے غضبناک ہوتے ہیں، البتہ اپنے نفوس کا حظ ہو تو معاف کر دیتے ہیں! (الجواب الصحیح : 1: 371)
# آخرت کے بیٹے بنو نہ کہ دنیا کے بیٹے؛ کیونکہ بیٹا اپنے باپ سے ہی منسوب ہوا کرتا ہے! (الجواب الصیحیح لمن بدل دین المسیح: 2: 54)
# اہل سنت مرتے ہیں مگر ان کا نام زندہ رہتا ہے۔ اہل بدعت مرتے ہیں تو ان کا نام بھی ساتھ ہی مر جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ اہل سنت اس چیز کو زندہ کرتے ہیں جس کو لے کر رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے۔ اس لحاظ سے اہل سنت کو بھی ”وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ“ سے ایک حصہ ملتا ہے۔ جبکہ اہل بدعت کی سرگرمی کا مفاد ومآل رسول کی لائی ہوئی چیز کے اندر عیب جوئی کرنا ہے، اس لحاظ سے اہل بدعت کو بھی ” إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ“ سے ایک حصہ ملتا ہے! (مجموع: 16: 528)
# کوئی شک نہیں کہ سب آسمانی امتوں میں امت محمد ہی عقل میں کامل تر، ایمان میں عظیم تر، اور تصدیق اور جہاد میں اعلیٰ تر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس امت کے ہاں پائے جانے والے علوم اور قلبی اعمال اور ایمانی حقائق پہلی امتوں کی نسبت عظیم تر ہیں، جبکہ پہلی امتوں کو جو بدنی عبادات دی گئیں وہ اِس آخری امت کو ملنے والی بدنی عبادات کی نسبت زیادہ بھاری تھیں! (الجواب الصحیح: 5:300)
# دین میں ایک عمل فاضل (زیادہ فضیلت والا) ہوتا ہے اور دوسرا عمل مفضول (کم فضیلت والا)۔ پھر بھی ہوسکتا ہے ایک شخص کو مفضول عمل میں ہی فاضل عمل کی نسبت زیادہ ہمت اور توفیق نصیب ہو جائے۔ (مجموع: 10: 401)
# کسی وجہ سے ہوسکتا ہے ایک کام ایک خاص شخص کے حق میں فاضل تر ہوجائے، جس کی وجہ یہ ہو کہ اس عمل کو اس شخص کے ساتھ کوئی خاص مناسبت ہو، یا اس کے قلب کی اصلاح و ترقی میں وہی زیادہ فائدہ مند ہو، یا یہ کہ اس عمل کو اختیار کرنے کی صورت میں وہ خدا کا زیادہ فرماں بردار بنتا ہو۔ مگر کئی لوگ ایسے ہیں کہ کسی وجہ سے ایک عمل اگر ان کے حق میں فاضل تر ہے تو وہ اس کو سبھی کے حق میں فاضل تر سمجھ لیتے ہیں، اور ہر کسی کو اسی کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں! (مجموع: 10: 428)
# ہوسکتا ہے ایک مفضول عمل، اس شخص کے حق میں جو اس پر قدرت رکھے اور اس سے اس کو فائدہ ہوتا ہو، اُس عمل سے افضل ہوجائے، جو ہے تو فاضل مگر خاص اس شخص کے حق میں اُس عمل کے اندر یہ ہر دو صفت مفقود ہوں۔ (مجموع: 10: 399)
# جب ہم کہتے ہیں مفضول تو مراد ہوتی ہے اپنی عمومی حیثیت میں۔ ورنہ جس شخص کے حق میں ایک فاضل تر عمل کسی وجہ سے مناسب نہیں، اس کے حق میں مفضول ہی افضل ٹھہرتا ہے۔ (مجموع: 19:120)
# ہر وہ چیز جو افضل ہے ضروری نہیں ہر کسی کے حق میں مشروع ٹھہرے۔ بلکہ ہر شخص کے حق میں وہی کام مشروع ٹھہرے گا جو خاص اس کے حق میں افضل ہے۔
(مجموع: 60:23)
# ایک آدمی ہوسکتا ہے افضل کام کرنے سے عاجز ہو۔ پس جس چیز پر اُسے قدرت ہے وہی اس کے حق میں افضل ٹھہرے گا۔ (مجموع: 63:23)
# ہر انسان کے حق میں زمین کا وہی خطہ برگزیدہ ترین ہے جس میں وہ اللہ اور رسول کے احکامت پر سب سے بڑھ کر عمل پیرا ہو سکتا ہو۔ (مجموع: 18: 283)
# برائیوں میں کوئی برائی ایسی نہیں جو سب کے سب نیک اعمال کا صفایا کر دے، سوائے ارتداد (کفر وشرک کا ارتکاب) کے۔ نیکیوں میں کوئی نیکی ایسی نہیں جو سب کے سب بد اعمال کا صفایا کر دے، سوائے توبہ کے۔ (مجموع: 10: 440)
# مومن پر جتنے بھی کفر اور نفاق کی نوع کے وسوسے اور خیالات وارد ہوں اور وہ اس پر اپنی ناگواری محسوس کرنے اور انہیں اپنے قلب سے نکال باہر کرنے کے وتیرہ پر قائم رہے، ویسے ویسے اس کے ایمان اور یقین میں ترقی ہوتی ہے۔ اسی طرح جتنے بھی اس کے نفس میں گناہ اور بدی کرنے کے خیالات آئیں مگر وہ ان پر اپنی ناگواری برقرار رکھے اور ان کو دفع کرنے کی کوشش میں لگا رہے، اور خدا کی خاطر ان کو چھوڑ رکھنے کے عزم کی تجدید کرے ، اتنا ہی اس میں تقویٰ اور نیکو کاری پروان چڑھتی ہے، اور اتنا ہی وہ شخص صالح بنتا جاتا ہے۔ (مجموع: 10: 667)
# آدمی توحید پر آتا ہے تو شرک کی جڑ مٹ جاتی ہے۔ استغفار کرتا ہے تو شرک کی چھوٹی چھوٹی شاخیں بھی جل جاتی ہیں۔ (مجموع: 11: 697)
# دعا کی استجابت اعتقاد کی صحت اور قوت پر انحصار کرتی ہے اور اطاعت کے حسن اور کمال پر۔ (مجموع: 14: 33)
# لذت کی وہ قسم جو موت کے بعد بھی کہیں نہیں جاتی، وہ ہے اِس دنیا میں آدمی کا خدا کو جاننا اور اس کیلئے سرگرمِ عمل رہنا۔ (مجموع: 14: 162)
# دنیا میں سب سے پرلطف چیز اُس ذات کو جاننا ہے۔ آخرت میں سب سے پر لطف چیز اُس ذات کو دیکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت میں تجلی جمعہ کے روز ہوا کرے گی، اور دنیا کی نمازِ جمعہ کے بقدر! (مجموع: 16:14)
# آدمی اپنی طبیعت میں جبار ہے، مگر اکثر اِسکا بس نہیں چلتا! (مجموع: 14: 219)
# ہر نفس کے اندر وہ مادہ ہے جو فرعون کے نفس میں تھا۔ فرعون کو قدرت تھی تو وہ اس کو باہر نکال لایا۔ دوسرے بے بس ہیں، اس کو دبائے رکھتے ہیں! (مجموع: 324:14)
# ایک ہے زہد اور ایک ہے عبادت گزاری۔ زہد ہے اس چیز کو چھوڑنا جو آخرت میں نقصان دہ ہو۔ عبادت ہے اس چیز کو اختیار کرنا جو آخرت میں فائدہ مند ہو۔ یہ ہے زاہد عابد ہونا۔ (مجموع: 458:14)
# نیتِ محض، جس کے ساتھ کوئی عمل نہ ہو پایا ہو، باعثِ ثواب ہوسکتی ہے۔ البتہ عملِ محض، جس کے ساتھ کوئی نیت نہ ہو پائی ہو، باعثِ ثواب نہیں ہوسکتا۔ (مجموع: 22: 243)
# نیت بادشاہ والا کام ہے، برخلاف اعمالِ ظاہرہ کے، جوکہ پیادوں والا کام ہے! (مجموع: 22: 244)
# نفس کی طبیعت میں ہے کہ یہ اس پر بھی ظلم کر گزرے جس نے اِس پر ظلم نہیں کیا۔ جب ایسا ہے تو پھر اُس کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے اِس پر ظلم کیا ہو؟! (مجموع: 54:1)
# جس شخص کے دل پر کوئی خاص نوعیت کا شبہہ حملہ آور ہو، اس کے حق میں خاص وہ عمل اختیار کرنا ہی بہتر اور فائدہ مند تر ہوگا جو دل کے اندر اُس شبہہ کا قلعہ قمعہ کرے۔ (مجموع: 329:3)
# کرامت درحقیقت وہ ہے جو آخرت میں فائدہ دے، یا دنیا میں فائدہ دے بھی تو آخرت میں نقصان نہ کر دے! (اقتضاءالصراط المستقیم: 353)
# عوام کے ہاں کہا جاتا ہے: آدمی کی قیمت اور وقعت جاننا چاہو تو یہ دیکھو کہ اس کے پاس ہنر کیا ہے؟ جبکہ خواص کا کہنا ہے: آدمی کی قیمت اور وقعت جاننا چاہو تو یہ دیکھو کہ اس کی طلب کیا ہے! (مدارج السالکین: 3: 5)
# ابن قیم لکھتے ہیں: ایک بار میں نے شیخ الاسلام (ابن تیمیہ) سے ذکر کیا:ایک عالم سے پوچھا گیا: آدمی کے لئے کونسی چیز زیادہ نفع بخش ہے، تسبیح یا استغفار؟ جواب دیا: کپڑا اجلا ہو تو اس پر عطر اور خوشبو کا چھڑکاؤ فائدہ مند تر ہوگا۔ کپڑا میلا ہو تو صابن اور گرم پانی ہی اس کے حق میں نفع مند تر ہوگا۔ تب ابن تیمیہؒ مجھ سے کہنے لگے: بھلا کپڑے میلے ہونے سے کب رکتے ہیں؟! (الوابل الصیب: 162)
# ابن قیمؒ لکھتے ہیں: مجھے کچھ شبہات پریشان کر رہے تھے۔ ایک بار موقعہ پا کر میں شیخ الاسلام کے سامنے ایک کے بعد ایک شبہہ بیان کرنے لگا تاکہ مجھے تشفی بخش جواب مل جائیں۔ تب آپ نے فرمایا: ان شبہات کے لئے اپنے دل کو اسفنج نہ بناؤ، کہ یہ انہیں چوستا ہی جائے اور پھر اس سے وہی چیز بہ بہ کر نکلے جو اس نے پی رکھی ہے۔ اس کے بجائے ہونا یہ چاہیے کہ تمہارا دل ٹھوس مگر چمکتے آئینے جیسا ہو، جس پر شبہات آئیں تو باہر باہر سے ہی واپس ہوجائیں اور اندر جانے کا راستہ نہ پائیں۔ تمہارا دل ان کو دیکھے ضرور، اور دیکھے بھی اپنی پوری شفافیت کے ساتھ، مگر اپنے ٹھوس پن سے ان کو دفع بھی کر دیا کرے۔ ورنہ اگر شبہات کو دل میں راستہ دینے لگ گئے تو یہ یہیں جم کر بیٹھ جائیں گے۔
امام ابن قیمؒ کہتے ہیں: میں نے کسی نصیحت سے اتنا فائدہ نہیں لیا جتنا کہ شیخ الاسلام کی اس نصیحت سے۔ (مفتاح دار السعادۃ: 140)
# شیطان انسان سے چاہتا ہے کہ یہ اپنے سب امور میں ہی حد سے گزر جائے، یعنی اسراف۔ اگر دیکھے کہ اس کا میلان نرمی کی جانب ہے تو نرمی کو ہی اس کیلئے مزین کر دیتا ہے، یہاں تک کہ نہ تو یہ اُس چیز سے بغض رکھے جس سے اللہ بغض رکھتا ہے اور نہ اس چیز پر غیرت کھائے جو اللہ کی نگاہ میں غیرت میں آنے کی بات ہے۔ اور اگر شیطان اِس کو دیکھے کہ طبیعت میں سختی ہے تو اس سختی کو ہی اس کیلئے مزین کر دیتا ہے۔ اِس کو سختی کی راہ دکھاتا ہے مگر وہ خدا کی ذات کیلئے نہیں ہوتی، یہاں تک کہ دین کے بہت سے ابواب اِس کی زندگی میں متروک کرا دیتا ہے جیسے: احسان، لوگوں کے ساتھ نیکی، نرم روی، صلہ رحمی، اور مخلوق پر ترس وغیرہ ایسے اعمال جوکہ اللہ اور اس کے رسول نے مشروع ٹھہرا رکھے ہیں۔ بس یہ شدت میں ہی بڑھتا چلا جائے گا۔ مذمت، بغض اور سرزنش وغیرہ ایسے امور میں زیادتی کر گزرے گا، گو اللہ اور رسول کو ایک خاص حد میں واقعتا یہ باتیں پسند ہیں۔ یوں یہ شخص اِس راہ سے گناہ اور اسراف میں چلا جاتا ہے۔ اللہ نے شدت کا حکم دیا ہے، مگر یہ اس شدت میں حد سے گزر جاتا ہے۔پہلا شخص مذنب یعنی گناہگار تھا تو یہ مسرف، یعنی حد سے گزر جانے والا۔ واللہ لا یحب المسرفین۔ پس ان ہر دو کو چاہیے کہ یہ دعا پڑھیں: ربنا اغفرلنا ذنوبنا و اِسرافنا فی أمرنا وثبت أقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین (مجموع الفتاوی: 15: 292)
# نماز میں انسان کے سب اعضاءمل کر بندگی کرتے ہیں: دل، زبان، اور سب کے سب جوارح۔ یہ خاصیت کسی اور عبادت کو حاصل نہیں۔ اعمال میں سے: واجب ہونے میں یہ سب سے پہلی چیز ہے اور ساقط ہونے میں سب سے آخری! (العمدۃ: 56)
# جس کا دل ہی مردہ ہو اس کو ’ أنعمتَ علیہم‘ کے زمرے میں آنے والی نبیین اور صدیقین اور شہداءوصالحین ایسی اصناف کی برگزیدگی کی کیا خبر ہو؟ اور ’معضوب علیہم‘ اور ’ضالین‘ کی شناعت کا کیا اندازہ ہو؟! (الجواب الصحیح:1: 20)
# قرآن میں رہبانیت کی ہرگز کوئی ستائش نہیں ہوئی....
اللہ کو خوش کرنے کا ذریعہ دو چیزیں ہیں:
- خدا نے جو طلب کیا اس کو کرنے لگ جانا، اور
- جس چیز سے اُس نے روک دیا اس کو ترک کر دینا....
جبکہ رہبانیت میں آپ اس چیز کو کرنے میں لگ جاتے ہیں جو خدا نے طلب نہیں کی اور اس چیز کو ترک کرتے ہیں جس سے خدا نے روکا نہیں!
(الجواب الصحیح: 1: 233)
(ان حوالہ جات کے لئے بیشتر اعتماد کیا گیا ہے:
عبارات رائقات من مؤلفات شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ پر
جوکہ شیخ راشد بن عبد الرحمن بن ردن البداح کے ترتیب دیے ہوئے افادات ابن تیمیہ پر مشتمل ایک مفید کتاب ہے)