بعض دین کا شوق رکھنے والے، خصوصاً مبتدی، ایسے پر فضیلت اعمال کا ارادہ باندھتے ہیں یا کچھ ایسے دقیق امور کی پابندی اختیار کر لیتے ہیں جو عمومی طور پر نہ تو ان کی علمی سطح سے کوئی طبعی نسبت رکھتے ہوں اور نہ ان کی مجموعی حالتِ ایمانی کے ساتھ۔ حالانکہ آدمی کو ’زہد‘ اور ’ورع‘ اور ’ترکِ مباحات‘ اسی درجے کا اختیار کرنا چاہیے جس درجے کا وہ ’ایمان‘ رکھتا ہو۔
کئی لوگوں کا معاملہ ایسا ہے کہ سیرت کا کوئی واقعہ پڑھا، سلف کا کوئی عمل سنا، عظیم زاہدوں اور عبادت گزاروں کا کوئی معمول دیکھا، تو اپنی عمومی حالت اور کیفیت کو دیکھے بغیر اور کسی مربی سے راہنمائی لئے بغیر اس عمل یا اس رویے کو اختیار کر لینے کا عزم باندھ لیا بلکہ اس پر عمل کرنے بھی چل کھڑے ہوئے! حالانکہ بے شمار کام ابھی ایسے ہوں گے جو اس سے پہلے اختیار کئے جانا لازم ہوں گے۔ اس سلسلے میں آئیے دیکھتے ہیں امام ابن رجب حنبلیؒ جامع العلوم والحکم میں سلف کے کچھ اقوال لاتے ہیں، جن سے ہمیں نہایت خوب راہنمائی مل سکتی ہے:
- ایک شخص نے بشر بن حارثؒ سے دریافت کیا: ایک آدمی کو ماں حکم دیتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے، اسے کیا کرنا چاہیے؟
بشر بن حارثؒ نے جواب دیا:
اگر تو ہر ہر معاملے میں وہ ماں کے ساتھ نیکی کرنے میں کمال کو پہنچ چکا ہے اور ماں کے ساتھ نیکی اور اچھائی کرنے میں بس اسی بات کی کمی رہ گئی ہے کہ وہ اس کے کہنے پر اپنی بیوی کو طلاق دے ڈالے، پھر تو اس کو طلاق دے ہی دینی چاہیے۔ لیکن اگر وہ ماں کے کہنے پر بیوی کو تو طلاق لکھ دیتا ہے اور کچھ ہی دیر بعد ماں کے ساتھ اس کی گالی گلوچ ہونے لگتی ہے، پھر اس کیلئے محض ’اس‘ بات میں ماں کا فرماں بردار بن کر دکھانا درست نہیں!
- امام احمدؒ سے پوچھا گیا: کیا خیال ہے ایک آدمی سبزی کا گٹھا خریدتا ہے اور جس رسی سے وہ باندھا گیا ہے اس کی بابت الگ سے دکاندار کے ساتھ طے کرتا ہے کہ یہ بھی ان پیسوں میں سبزی کے ساتھ آئے گی!
امام احمدؒ ناگواری سے بولے: یہ کن مسئلوں میں پڑ گئے ہو؟
سائل نے جواب دیا: ابراہیم بن ابی نعیمؒ (ایک نہایت عظیم عبادت گزار محدث) ایسا ہی کرتے ہیں۔
’ہاں، ابراہیم بن ابی نعیم ایسا کریں تو ان کے لئے یہ صحیح ہے!‘ امام احمدؒ نے جواب دیا۔
- اس کے بعد ابن رجبؒ لکھتے ہیں:
یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ شبہات سے بچنے کے معاملہ میں باریکیوں کے اندر جانا صرف اسی آدمی کو زیب دیتا ہے جس کے احوال سب کے سب درستی اور استقامت پر ہوں اور تقویٰ اور ورع کے معاملہ میں جس کے باقی اعمال ایک سی سطح کے ہوں۔ رہا وہ شخص جس سے کھلے کھلے حرام کاموں سے بچ کر تو رہا نہیں جاتا مگر وہ ’ورع‘ کی راہ چلنے پر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کسی نہایت دقیق شبہ سے بچنے کے معمول پر گامزن ہوجانے پر مائل ہے، تو اس کے معاملہ میں یہ بات درست نہ مانی جائے گی، بلکہ اس کو اس پر ٹوکا جائے گا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ تھا کہ اہل عراق کو جو مچھر مار بیٹھنے کا کفارہ دریافت کرنے آئے تھے، عبد اللہ بن عمرؓ نے جواب دیا تھا: مچھر کا خون ہوجانے پر مجھ سے فتویٰ دریافت کرنے پہنچے ہیں، جبکہ حسینؓ کا خون کر کے آئے ہیں!! حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسنؓ اور حسینؓ کے بارے میں فرماتے سنا: دنیا میں یہ دو میرے جگر گوشے ہیں!