’ذَنْب‘ یعنی گناہ سے مراد کیا ہے؟ |
’ذَنْب‘ کا لفظ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے، جس کی جمع ’ذُنُوب‘ ہے۔ زیادہ تر لوگ ’ذُنُوب‘ کو ایک غلط اور ناقص مفہوم میں لیتے ہیں اور اس وجہ سے ان پر دین کی کئی ایک اصطلاحات مانند استغفار، توبہ، مغفرت، بخشش، تقویٰ اور پرہیزگاری وغیرہ اپنے معانی اور مفہومات کے لحاظ سے روپوش رہتی ہیں۔
آگے چلنے سے پہلے ہم پر دو چیزوں کا فرق واضح ہوجانا ضروری ہے: ایک ہے ’ادائے مطلوب‘ اور دوسری ہے ’اجتنابِ ممنوع‘۔
اگر آپ ’ادائے مطلوب‘ نہیں کرتے تو ’ذنب‘ (گناہ) کرتے ہیں اور اگر ’اجتنابِ ممنوع‘ نہیں کرتے تو ذنب کے مرتکب ہوتے ہیں۔ البتہ لفظ ’ذنب‘ کا تعلق اہل علم کے نزدیک اول الذکر سے زیادہ ہے۔ جبکہ عوام الناس اس کا تعلق ثانی الذکر سے زیادہ جوڑتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایک عامی جب ’توبہ‘ کرتا ہے یا ’استغفار‘ کرتے ہوئے اپنے ’گناہوں‘ کی بخشش مانگتا ہے تو اس کے ذہن میں اس وقت ’گناہ‘ سے مراد ’ارتکابِ ممنوع‘ ہی ہوتاہے! بلکہ بسا اوقات تو اس کے لئے یہ تصور کرنا دشوار ہورہا ہوتا ہے کہ کئی دنوں یا مہینوں سے اس نے خدا کے حق میں کیا ’گناہ‘ کیا ہے!
ایک آدمی صبح سے شام تک گھر میں بیٹھا ہے۔ نہ اُس کی ’نظر‘ کہیں اِدھر اُدھر گئی۔ صبح سے لے کر نہ وہ کسی کے ساتھ ’بولا‘۔ نہ کوئی بات ’سنی‘۔ نہ ’ہاتھ‘ سے کسی کے ساتھ زیادتی کی اور نہ ’پیروں‘ سے چل کر کہیں غلط جگہ گیا۔ اب اس کیلئے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ صبح سے لے کر اب تک اِس سے آخر ’گناہ‘ کونسا ہوا ہے!
وجہ یہی کہ وہ سمجھتا ہے ’غلط کام‘ کرنا ہی ’گناہ‘ ہے۔ البتہ ’صحیح کام‘ نہ کرنا اس کے ہاں ’گناہ‘ شمار نہیں ہوتا۔
’ادائے مطلوب‘ اور ’اجتنابِ ممنوع‘.. ہر دو کا چھوٹ جانا ’ذنب‘ ہے۔ البتہ اول الذکر کے چھوٹ جانے پر لفظِ ’ذنب‘ یعنی گناہ کا اطلاق علمائے اہلسنت کے ہاں زیادہ ہوتا ہے اور سنگینی میں بھی یہی زیادہ شدید جانا جاتا ہے۔
بندے پر خدا کے اتنے حقوق ہیں کہ ان کا شمار میں آنا مشکل ہے۔ خدا نے مخلوقات کے جتنے حقوق رکھے ہیں ان میں بھی درحقیقت خدا کا حق ہے اور مومن ان کیلئے بھی دراصل تو خدا کے سامنے ہی جواب دہ ہے۔ مخلوق معاف کردے، خدا کا معاف کرنا پھر باقی ہے۔ خدا کے اتنے فرائض ہیں کہ گننے میں نہ آئیں۔ حتیٰ کہ ایک فرض کی ادائیگی کے دوران کئی فرض ادا ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ ایک نماز ہی کو درست طور پر ادا کر لینا ہم میں سے بیشتر کو میسر نہیں۔ پھر جہاد اور اجتماعی فرائض الگ پڑے ہیں۔ یہاں دیکھیں تو انسان سے قصور ہی قصور سرزد ہوتے ہیں۔ علمائے اہلسنت کا استعمال دیکھیں تو ’ذنب‘ کا اطلاق ’قصور‘ کے اِس پہلو پر زیادہ ہوتا ہے۔ اللہم اغفرلی ذنبی کہتے ہوئے یہ پہلے مقصود ہوتا ہے، بہ نسبت ’ارتکابِ ممنوع‘ کے۔
پس یہ شخص جو صبح سے گھر بیٹھا ہے، اور اِس کو خیال ہوا ہے کہ ’بیٹھے بٹھائے‘ اِس نے کونسا ’گناہ‘ کر لیا، کیونکہ کسی ’غلط کام‘ کا ارتکاب اِس نے نہیں کیا!.... کیا بعید اِس کا ’گھر بیٹھنا‘ بذات خود ایک ’ذنب‘ ہو! گھر میں رہتے ہوئے نہ معلوم خدا کے کتنے مطلوب ادا ہونے سے چھوٹے ہوں گے۔ خدا نے اِس سے اتنا کچھ طلب کر رکھا ہوگا جسے یہ ادا نہیں کر پایا۔ خدا کے اوامر واحکامات کی انجام دہی نہ کرنا بھی اُسی طرح ’ذنوب‘ ہیں جس طرح خدا کی منع کردہ اشیاءکا ارتکاب، بلکہ بلحاظِ سنگینی اس سے بھی بڑھ کر۔
پس جب ’ذنب‘ کا مفہوم ناقص رہا تو ’استغفار‘ کا مفہوم آپ سے آپ ناقص رہا۔ ’توبہ‘ کا مطلب بھی پھر غیر واضح رہے گا۔ ان اللہ یحب التوابین وغیرہ ایسی نصوص سے بھی تب آدمی کے ذہن میں یہی آئے گا کہ آدمی بے حیائی کے کام کر بیٹھے، یا آدمی سے چوری چکاری ہوجائے، یا زبان جھوٹ اور غیبت وغیرہ ایسی بات کرلے، یا ہاتھ سے کوئی زیادتی ہوجائے، یا پیروں سے چل کر آدمی برائی کی جگہ جائے، یا کوئی گانا بجانا اور نافرمانی کی باتیں سننے لگے، یا آنکھوں سے کسی غلط طرف کو دیکھ لے.. وغیرہ وغیرہ، تو توبہ کر لیا کرے۔ حالانکہ صالحین ہر دم توبہ کرتے ہیں چاہے ان سے ’برائی‘ کا ایسا کوئی کام نہ بھی ہوا ہو۔ وجہ یہی کہ ’ذنب‘ کا تعلق ان کے نزدیک ’ادائے مطلوب‘ والے پہلو کے ساتھ ہی زیادہ ہے بہ نسبت ’اجتنابِ ممنوع‘ کے۔
یہ مفہومات جو اوپر بیان ہوئے، اِن کی توثیق کیلئے آئیے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے چند اقوال دیکھتے ہیں:
# کثیر لوگ توبہ کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں بس ایسی ہی چیزیں آئیں گی جو بے حیائی کے زمرے میں آتی ہوں.. جبکہ ہوسکتا ہے جس چیز کا اس شخص کو (شریعت میں) حکم ملا ہوا ہے اُس میں سے اِس نے جو جو کچھ چھوڑ رکھا ہے وہ اپنے ضرر اور سنگینی میں ان بعض فواحش سے کہیں بڑھ کر ہو جنکا اس سے ارتکاب ہوا ہے۔
(مجموع فتاویٰ: 10: 329)
# ترکِ حسنات فعلِ سیئات سے بڑھ کر نقصان دہ ہے۔
(مجموع فتاویٰ: 20: 11)
# ’امر‘ کی صورت میں جو چیز (شریعت کو) مطلوب ہے وہ کامل تر اور برگزیدہ تر ہونے میں اس چیز سے بڑھ کر ہے جو ’نہی‘ کی صورت میں (شریعت کا) مطلوب ہے۔
(مجموع فتاویٰ: 20: 117)
# ترکِ واجبات بطورِ جنس، فعلِ محرمات سے بطورِ جنس، سنگین تر ہے۔
(ابن تیمیہ کا قول بحوالہ کلام ابن قیم: مدارج السالکین: 2: 156)
# ’ذنوب‘ کی اصل یہ ہے کہ واجبات ادا کرنے سے سرتابی ہو نہ کہ محرمات کا ارتکاب ہوجانا۔
(ابن تیمیہ کا قول بحوالہ کلام ابن قیم: مدارج السالکین: 2: 156)
# (شریعت میں) جن حسنات کا حکم آگیا ہے آدمی اگر ان کو ترک کرتا ہے تو اس سے تائب ہونا زیادہ اہم ہے بہ نسبت اس بات سے تائب ہونے کے کہ وہ ان سیئات کا ارتکاب کر بیٹھا ہے جن سے (شریعت میں) ممانعت ہوئی ہے۔
(ابن تیمیہ کا قول بحوالہ کلام ابن قیم: مدارج السالکین: 2: 156)