تو کیا قابو ہی آنے کا ارادہ ہے؟ |
ابراہیم بن ادہمؒ کے پاس ایک نوجوان آیا اور عرض کی: اپنے نفس پر زیادتی کرنے سے رکنا مشکل ہوا جاتا ہے۔ خود کو رہا کروانے کی کوئی صورت ہے؟
فرمایا: پانچ باتیں قبول کرلو، بشرطیکہ ان پہ قدرت رکھو، اس کے بعد کوئی معصیت تمہارا کچھ بگاڑ سکے گی اور نہ خدا کی حدیں توڑنا کچھ نقصان پہنچائے گا!
عرض کی: وضاحت فرمائیے؟
ابراہیمؒ: پہلی بات یہ ہے کہ خدا کی معصیت کا ہی ارادہ بنے تو اُس کا رزق کھانا چھوڑ دو!
نوجوان: تو پھر کہاں سے کھاؤں؟ زمین پر جو بھی ہے سب اُسی کا رزق تو ہے!
ابراہیمؒ: بھلے مانس! تو کیا اُس سے لے لے کر کھاؤ اور اُس کی نافرمانی کرتے جاؤ، یہ درست ہے؟ اور آخر یہ چلے گا کب تک؟
دوسری صورت یہ ہے کہ اگر اُس کی معصیت پہ تلے رہنا ہی منظور ہے تو اُس کے ملک سے کہیں باہر جا کر یہ کام کرلو!
نوجوان: یہ تو اس سے بھی مشکل ہوا۔ سارا اُسی کا ملک تو ہے، آخر میں کہاں جاسکتا ہوں؟
ابراہیمؒ: بندۂ خدا! تو کیا خیال ہے اُس کا دیا کھاؤ، اُس کے ملک میں رہو، اور پھر اُس کے احکامات کے بخیے ادھیڑو!
اچھا تو پھر تیسری صورت یہ ہے کہ اُس کا رزق کھائے بغیر بھی چارہ نہیں اور اُس کا ملک چھوڑنا بھی ممکن نہیں، تو کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ لو جہاں تمہاری یہ دیدہ دلیری اُس کو نظر نہ آئے۔ معصیت جب کرنی ہو بس وہیں چلے جاؤ!
نوجوان: وہ تو ہر جگہ دیکھتا ہے!
ابراہیمؒ: اچھا تو اُس کا رزق کھا کر، اور اُس کی زمین پہ بیٹھ کر، اور اُس کی نگاہ کے سامنے، گناہ اور بدکاری کی جائے گی؟
ہاں تو پھر چوتھی صورت دیکھ لو! موت کا فرشتہ خدا کا بلاوا لے کر آئے تو اس کے ساتھ جانے سے انکار کردو اور کہو، نہیں جاتا! زیادہ زور دیں تو کہو، توبہ کرلوں اور نیک عمل کرنے لگ جاؤں پھر جان قبض کرنے آجانا!
نوجوان: وہ نہیں مانے گا!
ابراہیمؒ: اچھا، تو یہ بھی پتہ ہے! برخوردار! موت کو تم نہیں روک سکتے،فرشتہ تمہیں چھوڑ کر جانے والا نہیں، وقت آگیا تو توبہ تمہیں کوئی کرنے نہیں دے گا، آخر کیا جہنم میں جلنے کا ارادہ ہے؟
چلو پھر پانچویں صورت رہ جاتی ہے، دیکھ لو اگر یہ تمہارے بس کی ہے۔ جہنم کے داروغے تمہیں آگ میں ڈالنے لگیں تو ان کے ہاتھ سے چھوٹ جانا اور جہنم میں کودنے سے انکار کردینا!
نوجوان: بھلا وہ چھوڑتے ہیں؟
ابراہیمؒ: تو پھر ان کے قابو ہی آنے کا ارادہ ہے؟؟؟ اُس دن وہ تمہیں نہیں چھوڑیں گے تو آج اپنا آپ چھڑا لو! یہ ’آج‘ اس مصیبت سے چھوٹنے کیلئے ہی تو تمہیں ملا ہے!
نوجوان نے عرض کی: حضرت! یہ پانچ باتیں میرے لئے بہت کافی ہیں۔
کہا جاتا ہے، اس کے بعد نوجوان نے استغفار اور توبہ کی راہ اختیار کی اور مرتے دم تک اسی پر قائم رہا۔