بندہ خدا کی جانب عازم سفر ہوتا ہے اور اُس تک پہنچنے کا قصد کر کے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، تو بہت سے فریب راہ میں اس کی گھات لگا کر بیٹھتے ہیں۔ ’رہزنی‘ کی متعدد وارداتیں اس کے ساتھ پیش آنا ہوتی ہیں، ہر بار اِس کو خدا ہی بچائے تو بچائے..
پہلے خواہشات اور شہوات ہزار روپ بھر کر اسکے راستے میں آتی ہیں۔ سیادت، عہدے، مناصب اس سے ’محض خدا کا قصد‘ چھڑوانے میں سب اپنی اپنی صلاحیت آزماتے ہیں۔ آسائشیں، بہتر سے بہتر مواقع، اونچے اونچے گھرانوں سے رشتے، اسکے ذہن پر حاوی ہونے کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ سواریاں، محلات، پوشاکیں باقاعدہ ایک کھینچ رکھتی ہیں۔یہ سب چیزیں اسکے دامن سے لپٹتی ہیں تو اسکو آگے جانے کا چھوڑتی ہی نہیں۔ وہ یہیں رہ بسے تو اسکا سفر ختم، آگے بڑھتا چلا جانے پر ہی مصر ہے تو دامن کھینچ کر چھڑانا پڑتا ہے۔
اسکی طلب صادق ہے اور وہ یہیں بیٹھ رہنا گوارا نہیں کرتا تو اگلی گھاٹی آتی ہے۔ یہاں آزمائش نے عقیدت کا روپ دھار لیا ہے۔ اب دست بوسی ہونے لگتی ہے۔ ارادتمندوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مجلس میں وارد ہوں تو ہر آدمی حضرت کیلئے اپنی نشست چھوڑتا ہے۔ ’دعاؤں کی درخواستیں‘ ہونے لگتی ہیں۔ برکت کیلئے یہیں کا رخ ہوتا ہے، اور اپنے ہاں قدم رنجہ فرمانے کی درخواست بھی۔ یہ سب، اسکو گرا لینے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ کوئی قسمت والا ہی اسکی تاب لائے تو لائے۔ وہ یہاں رک جائے تو یہی اس کا نصیب ہوتا ہے اور یہی اس کا حظ۔
یہاں سے آگے بڑھے تو کرامات کی آزمائش آتی ہے۔ وہ ان میں الجھ جائے تو خدا کا قصد چلا جاتا ہے اور بس یہی اس کا حظ ٹھہرتا ہے۔
یہاں بھی نہیں رکتا تو ’اخلاص‘ اور ’تجرد‘ ہی، جوکہ اس کو یہ سب راستہ چلاتا آیا، اب اس کے حق میں ایک آفت کی صورت دھارتا ہے۔ ’تنہائی‘ کی کچھ ایسی لت پڑ جاتی ہے کہ شریعت اور جہاد کے بہت سے مصالح معطل ہوجاتے ہیں۔ ’خلوت‘ کی طلب حد سے بڑھ جاتی ہے اور خدا کی جانب توجہ کی ’دلجمعی‘ اور اس میں ’لذت‘ پانے کے عمل میں وقت کے نہایت اہم فرائض قربان ہونے لگتے ہیں۔
وہ یہاں رک جائے تو خدا کی جانب سفر ختم اور تسکینِ نفس کا عمل شروع۔ اور اگر راستے کی کسی منزل پہ رکنے کا روادار نہیں اور خدا کی جانب مسلسل بڑھتا چلا جانے کا عزم برقرار رکھتا ہے، یوں کہ اسکی نظر اس بات پر جا ٹکے کہ خدا اس سے عین اس لمحے کیا چاہتا ہے، وہ خدا کے در پہ چاک و چوبند نوکر کی طرح حکم لینے کیلئے کھڑا ہوجاتا ہے کہ خدا ایک بار اشارہ کردے کہ اُس کی مرضی اور خوشنودی فلاں چیز یا فلاں ادا میں پائی جاتی ہے وہ اپنی پسند نا پسند کو پس پشت ڈال کر اُس کے اشارے کی سمت میں ہی بھاگ کھڑا ہوگا، خدا کا اس سے عین اس وقت جو تقاضا ہے اس کی نگاہ اس پر سے ہٹ جانا ایک لمحے کیلئے بھی اِسکو گوارا نہیں، خواہ وہ اس کے نفس کو بھائے یا اس کیلئے باعث تکلیف ہو، اس کی خلوت کو برقرار رکھے یا لوگوں کے ہجوم میں اِس کو دھکیل دے، اِس کا اپنا کوئی اختیار ہے ہی نہیں سوائے جو اِس کا آقا اور اِس کا مالک ہی اس کیلئے اختیار کرے، یہ اُس کا بندۂ محض کہ جس کا نفس اس کیلئے اتنا بے وقعت ہوچکا کہ مالک کی مرضی اور خوشنودی کے سامنے اس کی اپنی پسند کوئی سوال ہی نہیں رہ گیا بلکہ تو ایک بڑی جسارت ہے.... غرض آدمی خدا کے اشارے کی سمت بھاگ اٹھنے کا شیوہ چھوڑنے پر تیار نہیں تو یہ ہے وہ شخص جو خدا کو اپنا نصب العین بنا رکھنے اور اس کا قصد کرنے سے دستبردار نہیں۔ ’پہنچا ہوا‘ کوئی ہے تو دراصل یہی شخص!
جس کا ’سفر‘ جاری، ’عاجزی‘ برقرار، ’توحید‘ سلامت اور ’قصد‘ زندہ ہے ’پہنچا ہوا‘ وہ ہے.... نہ کہ تھک کر بیٹھ رہنے والا اور اپنی کمائی یہیں بیٹھ کر کھانے والا!
(استفادہ از: الفوائد، مؤلفہ ابن القیمؒ، ص 172)