- احمد بن داود حربیؒ بیان کرتے ہیں: یزید بن ہارونؒ نے عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث انما الاعمال بالنیات روایت کی۔ پاس احمد بن حنبلؒ تشریف فرما تھے۔ احمد یزید کو مخاطب کر کے بولے: ابو خالد! ہم پھنس گئے!
- فضیل بن عیاض کہتے ہیں: میں نے حدیثِ نیت ذکر کرنے کے بعد امام احمد سے دریافت کیا: نیت کیسے ہو؟ فرمایا: نفس کے ساتھ مسلسل جنگ، جب بھی ’عمل‘ کرے لوگوں کے خیال کو احاطۂ قلب سے باہر نکال کر آئے اور ہر وقت ہی خدا کے لئے اس کو جھاڑ مانجھ کر رکھے!
- یحییٰ بن کثیر: عمل سیکھتے ہو۔ نیت بھی تو سیکھو۔ نیت کی پہنچ تو عمل سے بھی دور تر ہے!
- سفیان ثوریؒ: جتنی مشکل مجھے نیت کی درستی میں پیش آئی اتنی کسی چیز میں کبھی پیش نہیں آئی۔ ابھی ٹھیک کر کے ہٹے نہیں کہ معاملہ پھر خراب ہوا پڑا ہوتا ہے!
- یوسف بن الحسین رازیؒ: ’اخلاص‘ دنیا کی کم یاب ترین جنس ہے۔ میں کتنی ہی محنت کر کے ریاءکو دل سے نکالتا ہوں مگر وہ کسی اور رنگ میں پلنا شروع ہوئی ہوتی ہے!
- عبد اللہ بن مبارکؒ: کتنے ہی چھوٹے چھوٹے عمل ایسے ہیں جن کو ’نیت‘ پہاڑوں سے بڑا کر دیتی ہے۔ کتنے ہی عظیم عمل ہیں جنہیں ’نیت‘ رائی سے چھوٹا کر چھوڑتی ہے!
- فضیل بن عیاضؒ: اللہ کو اصل میں تو تمہارا ارادہ اور تمہاری نیت مطلوب ہے!
- سہل بن عبد اللہ تستریؒ: ’اخلاص‘ سے بڑھ کر نفس پر کوئی چیز شاق نہیں۔ وجہ یہ کہ نفس کا اس میں کوئی حصہ ہوتا ہی نہیں!
- یوسف بن اسباطؒ: طویل طویل عبادتیں کر لینا ابھی پھر آسان ہے، مگر نیت کو فساد سے بچانا اور نہایت خالص حالت میں رکھنا تو ایک بہت ہی مشکل کام!
- سفیان بن عیینہؒ: مطرف بن عبد اللہؒ کی دعا ہوتی تھی:
خدایا! میں استغفار کرتا ہوں ہر اس چیز سے جس سے میں توبہ کر کے تیری طرف آیا اور پھر اس کی جانب رخ کر بیٹھا۔ میں استغفار کرتا ہوں ہر اس چیز سے جس کا میں نے اپنے نفس کو تیری خاطر پابند کیا اور پھر اس میں وفا نہ کر پایا۔ خدایا! میں استغفار کرتا ہوں ہر اس چیز سے جس کی بابت مجھے زعم رہا کہ اسے میں نے تیرا چہرہ پانے کیلئے خالص کر رکھا ہے مگر میرا دل اس کو خالص نہ رکھ پایا!
(استفادہ از: جامع العلوم والحکم شرح اربعین نووی، مؤلفہ امام ابن رجب الحنبلیؒ، حدیث رقم 1)