راستہ معلوم نہ ہو، راستے میں کیا کیا آفتیں بیٹھی ہیں کچھ پتہ نہ ہو، مقصودِ سفر کیا ہے آدمی پر واضح نہ ہو، مگر آدمی چلا جارہا ہو.. تو آدمی تھکتا زیادہ ہے اور فائدہ نہ ہونے کے برابر۔
- ایسا آدمی نفل عبادتوں میں جتا ہوگا، اس حال میں کہ بہت سے فرائض چھوٹ رہے ہوں گے،
- جوارح نہایت سرگرم ہوں گے، تو قلب کا عمل معطل پڑا ہوگا،
- باطن اور ظاہر کو عمل کرنا نصیب بھی ہو گیا، تو اقتدائے سنت مفقود ہوگی،
- کسی عمل کی ہمت کر لی گئی ہوگی، مگر اس سے شارع کا مقصود کیا ہے اس کا رنگ عمل کے اندر آنے سے رہ گیا ہوگا،
- عمل کر لیا گیا ہوگا، مگر عمل کی وہ آفتیں جو دورانِ عمل آتی ہیں اور عمل کو برباد کردیتی ہیں، یا پسِ عمل حملہ آور ہوتی ہیں، ان سے بچاؤ نہ ہو پایا ہوگا،
- عمل نصیب ہونے میں خدا کا احسان روپوش رہ گیا ہوگا، یوں وہ عاجزی جو عمل کرلینے کے بعد ہونی چاہیے اس کا انتظام نہ ہو پایا ہوگا اور یوں عمل میں نفس کے حظ کی آلائش بھی ساتھ آگئی ہوگی،
- یا پھر عمل میں آدمی اپنی تقصیر نظر انداز کر بیٹھا ہوگا، یوں نیکی کے بعد آدمی میں جو ایک اعتذار کی کیفیت پیدا ہونا ہوتی ہے کہ وہ مالک کے لائق چیز پیش نہ کر سکا، وہ کیفیت اس سے چھوٹ گئی ہوگی،
- یا پھر عمل میں جو عمدگی اور دلجمعی آنی چاہیے وہ اس پر واضح نہ ہوگی، یوں عمل کے اندر مقامِ احسان کی طلب اس کا مطمع نظر ہی نہ بن پائی ہوگی۔
جبکہ اس کا خیال ہوگا کہ عمل کر کے اس نے عمل کا حق ادا کردیا ہے! اصل چیز تو صاحبو ’عمل‘ کے اندر ’اعمال‘ کرنا ہے!!!
سچ ہے، جہالت تھکاتی زیادہ ہے اور پہنچاتی کم!
خدایا! توفیق بخشنے والا بس تو ہے!
(استفادہ از: الفوائد، مؤلفہ ابن القیمؒ، ص 171)