نقب زن ابلیس | |
(استفادہ از الجواب الکافی، مؤلفہ ابن القیم) |
خدا جو جانتا تھا کہ آدمؑ اور اس کی اولاد کا کس دشمن کے ساتھ واسطہ ہے، اور یہ کہ کہاں تک اِس دشمن کو اُس نے اِن پر مسلط ہوجانے کی آزادی دے رکھی ہے.... اُس نے ذریتِ آدم کی کمک کیلئے ایک پورا لشکر اِن کے ساتھ کردیا، کہ یہ چاہیں تو اس سے مدد لے کر دشمن کے مقابلے پر اتریں ۔ دوسری طرف اِنکے دشمن کو بھی ایک لشکر دے دیا اور کیل کانٹے سے بھی لیس ہوجانے دیا، کہ ایک معرکہ فریقین کے مابین ہو ہی جائے۔ یوں یہ دنیا ہمیشہ سے جہاد کا میدان ہے، گو ہے یہ میدان چند گھڑیوں کیلئے۔ بلکہ تو یہ پوری دنیا، آخرت کے مقابلے میں ایک سانس لینے کی مدت سے بڑھ کر نہیں ۔
جس کسی نے بھی دنیا کی اِس فطرت اور مزاج کو نہ جانا وہ یہاں سے بدترین ہزیمت اٹھا کر گیا۔
اس نہایت عظیم معرکہ کے پیش نظر، خدا نے پیشگی مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال خرید کرلئے اور اس کی قیمت بہشت ٹھہرا دی کہ وہ پوری بے پروائی سے اس معرکہ میں اتریں ۔يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ خدا کی راہ میں دیوانہ وار لڑیں ، ماریں اور مریں ، کہ یہ دنیا اس کہانی کا انجام نہیں آغاز ہے۔ پھر، مومنوں کے ساتھ یہ سودا ہوجانے کی بابت اُس نے واضح کر دیا کہ اِس سودے کی توثیق اور یقین دہانی اُس کی تین برگزیدہ ترین کتب میں بڑی صراحت کے ساتھ کرائی گئی ہے؛ تورۃ، انجیل اور قرآن۔ یہاں تک کہ مزید تاکید کیلئے کہا کہ: من اَوفیٰ بعہدہ من اللہ.... خدا سے بڑھ کر اپنے عہد کا پابند بھلا کون ہوسکتا ہے؟ اور پھر انہیں ہر طرح کے تردد سے منع کرتے ہوئے فرمایا: فاستبشروا ببیعکم یعنی بس تم یہ سودا ہوجانے پر خوشیاں مناؤ اور مسرتیں بانٹو۔ کہ کسی سودے کی شان دیکھنی ہو تو آدمی یہ دیکھے سودا کرنے والا کون ہے، چیز کا مول کیا لگا ہے اور سودے کا وثیقہ کہاں تیار ہوا ہے۔ یہ تو ابن آدم کی شان ہے، ورنہ اتنا بڑا سودا بھی کیا اس کائنات میں کبھی ہوا ہوگا؟!! خدا کسی سودے میں خریدار ہو، کیا ایسا کاروبار بھی کبھی دیکھا گیا ہے؟!!!
پھر اسی سودے کو ایک اور سیاق میں بیان کیا: ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے، کیا میں تمہیں پتہ دوں ایک ایسی تجارت کا جو ایک دردناک عذاب سے تمہارے لئے ڈھال بن جائے؟ یہ کہ تم ایمان لاؤ اللہ کے ساتھ اور اُس کے رسول کے ساتھ، اور جہاد کرو اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اوراپنی جانوں کے ساتھ۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر کہیں تم جانو۔ (اس کے بدلے میں ) وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں داخل کرے گا جنتوں میں کہ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور (بسائے گا تمہیں ) نہایت عمدہ مسکنوں میں کہ جناتِ عدن میں ہیں ۔ یہ ہے عظیم کامیابی“۔
مومن، خدا کو اپنی مخلوقات میں سب سے عزیز ہے۔ خدا نے اپنے مومن بندے پر اِس دشمن کو مسلط ہوجانے دیا تو اِسکی وجہ صرف یہ ہے کہ جہاد کی بندگی خدا کو سب سے زیادہ عزیز ہے۔ جہاد کی صورت میں خدا کی بندگی کرنے والے، خدا کی نظر میں سب سے برتر ہیں ۔ یہی اُس کے ہاں سب سے بلند درجے پانے والے ہیں اور یہی ہیں جو اُس کے تقرب کا سب سے برگزیدہ وسیلہ پاس رکھتے ہیں ۔
اِس برگزیدہ جنگ کا عَلم خدا نے اپنی خاص الخاص مخلوق کو تھمایا، جوکہ مومن کا قلب ہے۔ قلب جوکہ اصل محل ہے خدا کی معرفت کا، خدا کی محبت کا، خدا کی عبودیت کا، خدا کیلئے عبد کے ہاں پائے جانے والے اخلاص، توکل اور انابت کا.... خاص اپنی اِس مخلوق کو اُس نے اِس جنگ کی سرکردگی سونپ دی!!!
اِس کے ساتھ اُس نے فرشتوں کا ایک لشکر کر دیا، جو کبھی اِس کو چھوڑ کر نہیں جاتے۔ لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللّهِ”اُس کے آگے اور پیچھے اللہ کے چوکیدار ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں “۔ یہ اِس کی ہمت بندھاتے ہیں ۔ اِس کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اِس کو نیکی کی بات سجھاتے ہیں اور خیر پر اس کو آمادہ کرتے ہیں ۔ اِس کو خدا کے ہاں ملنے والے اجر وثواب کی یقین دہانی کراتے ہیں ۔ صبر کی تلقین کرتے ہیں ۔ اِس کو بار بار دلاسہ دیتے ہیں کہ یہ سب تکلیف بس ایک ہی گھڑی کی تو بات ہے اور یہ تو ختم ہوئی کہ ہوئی پھر تو ابد کا آرام ہے!
پھر ایک اور لشکر اس کی مدد کو اس کے ساتھ کر دیا۔ یہ اُس کی وحی ہے۔ اُس کا کلام ہے۔ اُس کے رسول، اُس کی کتابیں ، اُس کے کلمات۔ یہاں سے اِس کو وہ قوت ملتی ہے اور اس جنگ میں پورا اترنے کیلئے ایسے ایسے ہتھیار ہاتھ آتے ہیں کہ یہ جنگ اس کے لئے کامیابی کی بہترین سیڑھی بن جاتی ہے۔
پھر اس کیلئے اُس نے ’عقل‘ ساتھ کر دی، جو اس کیلئے ایک بہترین وزیر اور منتظم کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کیلئے ’معرفت‘ ساتھ کر دی جو اس کو پل پل پر نہایت خوب راہ دکھاتی ہے اور اس میدان کا سارا نقشہ اس کیلئے روشن کئے رکھتی ہے۔ پھر اس کو ’ایمان‘ کی کمک دی، جو اس کو ثابت قدم رکھتا ہے اور اس کیلئے نصرت و تائید لانے کا سبب بنتا ہے۔ پھر ’یقین‘ سے اس کو تقویت دی، جوکہ اس پر ’حقیقت‘ کو یوں کھول کر رکھ دیتا ہے گویا وہ سب کچھ یہ اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے جوکہ اپنے دشمنوں کے خلاف اس جہاد میں خدا کا اپنے اولیاءسے وعدہ ہے ۔
چنانچہ ’عقل‘ ’قلب‘ کے اس جیش کا تدبیر و انتظام کرتی ہے۔ ’معرفت‘ جنگ کے اسباب اور حکمت عملی وضع کرتی ہے اور ہر ناگہانی صورتحال میں پورا اترتی ہے۔ ’ایمان‘ اس کو ثابت قدم رکھتا ہے اور اس کیلئے صبر واستقامت کا ذریعہ بنتا ہے۔ ’یقین‘ اس میں اقدام کی طاقت لاتا ہے ، جس سے یہ دشمن پر اس دیوانہ وار انداز سے حملہ آور ہوتا ہے کہ اس کے صدق اور وفاءمیں پھر کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔
پھر ان نظر نہ آنے والے لشکروں کے ساتھ ساتھ، کچھ اور لشکر بھی اُس نے اِس کے ساتھ کر دیے۔ آنکھ کو اِس کا ہراول بنا دیا۔ کان کو اِس کا مخبر بنا دیا۔ زبان کو اس کا ایلچی اور ترجمان ٹھہرایا اور ہاتھ پاؤں اِس کے معاون مددگار اور اس کی لڑاکا سپاہ۔
پھر اُس نے اپنے ملائکہ اور اپنے عرش برداروں کو تعینات کردیا کہ وہ اِس کی لغزشوں پر اِس کیلئے استغفار کرتے رہیں ، اِنکے لئے دعائیں کرتے رہیں وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ کہ یہ غلطیوں سے بچے رہیں ، اور یہ کہ پسِ جنگ یہ باغاتِ عدن میں داخل ہوں .... اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر یہ خدا کی مشروع ٹھہرائی ہوئی اس جنگ میں پیٹھ نہیں دکھاتے تو اِن کا دفاع خدا نے پھر اپنے ذمہ لے لیا۔
اور پھر اُس نے اِن کو اپنا حزب کہا اور فرمایا کہ میرا حزب ہی غالب رہے گا۔
پھر اُس نے اپنے اِن بندوں کو اِس جنگ اور جہاد میں پورا اترنے کا طریقہ بھی بتا دیا اور اس کو چار لفظوں میں بیان کردیا:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(آل عمران: 200) ”اے لوگو جو ایمان لائے، صابر رہو، ثابت قدم رہو، محاذ مت چھوڑو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کئے رہو، تاکہ تم فلاح پاؤ“۔
صبر اور ثبات دونوں منحصر ہیں کہ قلب اپنا محاذ نہ چھوڑے، یعنی اپنا رباط برقرار رکھے۔ وہ سب رخنے جہاں سے دشمن در آسکتا ہے ’محاذ‘ کے حکم میں ہیں ۔ دشمن ’نگاہ‘ کی راہ سے در آسکتا ہے۔ ’کان‘ کی راہ سے نقب لگا سکتا ہے۔ ’زبان‘ کی راہ سے حملہ آور ہوسکتا ہے۔ ’شکم‘ کو اپنی واردات کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔ ’ہاتھ‘، ’پیر‘، سب اس کے در آنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔ یہ سب رخنے ہیں جہاں سے موقعہ پا کر وہ فصیل پار کر سکتا ہے اور اگر اسے یہاں گھس کر کھل کھیل کا موقعہ مل گیا تو ممکن ہے پھر وہ یہاں کی ہر چیز تہہ و بالا کر دے۔ چنانچہ ’رباط‘ یہ ہے کہ ’محاذ‘ پر جم کر رہا جائے اور کوئی بھی رخنہ دشمن کی کارروائی کیلئے خالی نہ چھوڑا جائے۔
پھر ان تینوں چیزوں ؛ یعنی صبر، ثبات اور محاذ سنبھال رکھنا.... ان تینوں چیزوں کا انحصار ایک چیز پر ہے اور وہ ہے خدا کا تقویٰ اختیار کر رکھنا۔ چنانچہ نہ تو صبر فائدہ دینے والا ہے اور نہ ثابت قدمی اور نہ محاذ کی پہریداری جب تک تقویٰ اختیار نہ کیا جائے۔پس یہ معاملہ صبر سے چل کر تقویٰ تک جاتا ہے تو تقویٰ سے لوٹ کر پھر صبر تک چلا آتا ہے اور وہ جھڑپیں جو فریقین کے مابین یہاں ہر دم جاری رہتی ہیں جیت ہار کے معاملہ میں انہی چار عوامل پہ سہارا کرتی ہیں ۔
ذرا اپنے اندر نگاہ دوڑاؤ، دو لشکروں کے مابین مڈ بھیڑ ہوتی ہے، ذرا دیکھو کیسے معاملہ کسی بار تمہارے حق میں جاتا ہے اور کسی بار تمہارے خلاف:
کفر کا سرغنہ اپنے جنود اور عساکر کو لے کر حملہ آور ہونے آیا۔ مقابلے میں ’قلب‘ کو اپنے قلعہ میں تخت پر رونق افروز اور اپنی سلطنت کے دفاع پر مستعد پایا جس نے اپنی سپاہ کو ہر محاذ پر پھیلا رکھا ہے اور ہر رخنہ پر چوکس کر رکھا ہے اور اسکے سب سوار اور پیادے بڑے اخلاص اور وفاداری کے ساتھ مملکت کا دفاع کرنے میں فرض شناسی کا پورا ثبوت دے رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر وہ حملہ نہیں کر پایا مگر پلٹ جانے کیلئے بھی تیار نہیں ۔ لازم ہے کہ اب وہ کوئی سازش کرے اور ’مملکت‘ کے کچھ امراءکو توڑ کر اپنے ساتھ ملائے۔
اب وہ کہتا ہے مجھے پتہ کر کے دو، سلطانِ مملکت کا سب سے بااثر عہدہ دار یہاں کون ہے؟ اسے بتایا گیا کہ یہ ’نفس‘ ہے۔ وہ اپنے لوگوں سے کہتا ہے کہ اس ’نفس‘ کو کسی طریقے سے رجھاؤ اور پتہ کرو اس کو کیا پسند ہے۔ اس کو جو چیز سب سے پسند ہے اس کو اسی چیز کا جھانسہ دو، اور اگر وہ اس پر توجہ نہ دے تو اس کے آگے اس چیز کی ایسی تصویر بناؤ کہ سوتے جاگتے وہ اس کی آنکھوں سے پرے نہ ہونے پائے۔
اگر یہ نفس تمہارے اس جھانسے میں آجائے اور تمہیں کچھ توجہ دینے پر آمادہ ہوجائے تو پھر اس پر خواہشوں اور شہوتوں کے ڈورے ڈال دو، یہاں تک کہ وہ تمہارے لئے راستہ بنا کر دینے کی حامی بھر لے۔
چنانچہ جب تم دیکھو کہ نفس، قلب کے ساتھ غدر کرنے کے معاملہ میں تمہارا طرفدار ہو گیا ہے تو پھر وہ چپکے سے آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پیر، ایسے رخنوں پہ تمہارا کام آسان کرا دے گا۔ لہٰذا جب تمہارا اس کا گٹھ جوڑ ہوجائے تو پھر ان رخنوں پر اپنا پورا زور صرف کردو کیونکہ کہیں نہ کہیں سے وہ گھر کا بھیدی تمہیں راستہ دے دینے کا اتنظام کسی بھی وقت کرا سکتاہے۔ جتنا جتنا وہ تمہیں موقعہ مہیا کرے ویسے ویسے راستہ بناتے جاؤ، اور جتنا وہاں کانقصان کر سکو کر دو۔ البتہ اگر کسی وقت تمہیں وہ قلعہ میں گھس جانے کا ہی موقعہ دے دے پھر تو کوشش کرناکہ قلب یا تو مارا جائے یا پھر تمہارا اسیر ہوجائے، اور نہیں تو لہولہان تو ضرور ہوکے رہے۔
اور ہاں کارروائی میں کامیابی کے بعد بھی ہرگز غافل نہ ہونا۔ نہ ان رخنوں کو چھوڑنا اور نہ جنودِ قلب کو ہرگز ہرگز سنبھلنے دینا۔ سب سے زیادہ اس بات کا خیال رکھنا کہ باہر سے اس کو کوئی کمک نہ پہنچ پائے۔ کوئی نصیحت، کوئی وعظ، کوئی تذکیر، ہرگز اندر آنے کا راستہ نہ پائے۔ قلب کو پسِ ہزیمت ہرگز موقعہ مت دینا کہ وہ خدا کو آواز دے یا فرشتوں کی نصرت کا استحقاق پیدا کرے اور پھر تمہارا بنا بنایا کام ختم ہوکر رہ جائے۔ اور اگر تمہارا بس ہی نہ چلے اور باہر سے آنے والی کمک کا راستہ تم روک ہی نہ پاؤ تو بھی کوشش کرو کہ اتنے مؤثر انداز میں وہ اس کی فریاد رسی کو نہ پہنچے اور کوئی نہ کوئی کمزوری اور رخنہ وہاں پھر بھی چھوٹا رہ جائے، تاکہ تمہارے اگلے حملے کیلئے کچھ گنجائش موجود رہے۔
اور ہاں جب تم یہاں پر پوری طرح غلبہ پالو تو پھر تم ہر ہر رخنے پر اپنے انداز کی صورت پیدا کر دو۔ نگاہ کو ’عبرت‘ سے ہٹا کر ’تماشے‘ کی شیدائی بنا دو۔ پھر بھی اگر کسی وقت نظر بچا کر وہ ’عبرت‘ کی جانب مائل ہو جائے تو اس نگاہ کو ’غفلت‘ میں بدل ڈالنے پہ پورا زور لگا دو۔ اس کو فارغ تو رہنے ہی نہ دو۔ اس نظر کو لذت اور شہوت میں مگن رکھو تاکہ یہ اس طرف کو جا ہی نہ سکے جہاں سے تمہارے لئے درآنا مشکل ہوجائے۔
اور ہاں یاد رکھو، سب سے اہم یہ ’نگاہ‘ کا رخنہ ہی ہے۔ یہاں سے گزر کر تم جو واردات کرسکتے ہو وہ کہیں اور سے ممکن نہیں ، کیونکہ میں نے بنی آدم کا جتنا نقصان ’نگاہ‘ کے راستے سے کیا ہے اتنا کسی اور راستے سے نہیں کر سکا۔ مجھے یہاں سے ایسا راستہ ملتا ہے کہ میں وہاں سے گزر کر سیدھا ’دل‘ تک جا پہنچتا ہوں یہاں تک کہ چپکے سے وہاں ’شہوت‘ کا بیج بو آتا ہوں ۔ پھر میں اس کو ’آرزو‘ کا پانی دیتا ہوں ۔ پھر میں آتے جاتے اس کو ’سوچوں ‘ اور ’خیالوں ‘ کی کھاد دیتا ہوں ۔ یہاں تک کہ وہ نحیف سا پودا ’عزم‘ کا ایک مضبوط پیڑ بن جاتا ہے اور آخر کار اپنی ’پیداوار‘ دینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ جبکہ میں برابر اس کوشش میں رہتا ہوں کہ خیر کی کوئی ایسی آندھی وہاں نہ چلنے پائے جو اس درخت کو جڑ سے اکھاڑ دے اور وہ پھر سے صاف ستھرا ہو کر خدا کی پناہ میں چلا جائے۔
تو پھر سب سے زیادہ زور اسی رخنے پر لگا دواور جس قدر ہوسکے یہاں فساد مچا دو۔ اس کو رجھاؤ کہ چلو بس اتنی سی نگاہ ڈال لو جس سے تم خالق کی تخلیق کی داد دے سکو اور جس سے تمہارے اندر خالق کی تسبیح کا داعیہ پیدا ہو۔ اس کو وہ فلسفے پڑھاؤ جس سے یہ قائل ہو کہ حسن کے یہ شاہکار خدا نے بے مقصد تو پیدا نہیں کئے اور یہ آنکھیں بھی عبث نہیں بنائیں ، بلکہ یہ اسی لئے تو ہیں کہ تم اُس کی صناعی کی داد دو!
پھر اس کے بعد ’کان‘ کے رخنے پر زور لگا دو ۔ خبردار جو یہاں کوئی ایسی چیز گزر کر اندر جانے پائے جو تمہارا کام بگاڑ کر رکھ دے۔ کوشش کرو اس میں صرف باطل کا گزر ہو، اور باطل بھی وہ جو اس کے نفس کو بھلا لگے اور وہ اس پر آسانی سے ریجھ سکے۔ خوب خیال رکھنا، جب کوئی باطل اس کی سماعت میں پڑے تو اس کو ایسے ایسے خوبصورت پیرایوں میں سجایا گیا ہو اور اس کیلئے ایسی ایسی ادبی تعبیرات اختیار کی گئی ہوں اور ایسی زبردست اصطلاحات برتی گئی ہوں کہ وہ اس پر سحر طاری کر دیں ۔ اور یہ کبھی نہ بھولنا کہ باطل کی ایک غلط بات حق کے اس مواد کے ساتھ ہی گوندھ دی گئی ہو جو اس کے نفس کو مستحسن لگے۔ اور جب تم دیکھو کہ تمہاری ایک بات اس کی سماعت کے اندر پزیرائی پانے میں کامیاب ہوگئی تو ساتھ ہی اس سے ملتی جلتی ایک اور بات ڈال دواور یوں جتنا باطل اس کے اندر بھرا جا سکتا ہو بھرتے جاؤ۔ پھر جب تم دیکھو کہ تمہاری ایک بات اس کو نہایت پسند آئی ہے تو پھر یہ کوشش کرو کہ اسی بات کو ہزار انداز میں اس پر وارد کرو۔
اور خبردار جو یہاں سے کوئی ایسی بات گزر کر اندر جانے پائے جو خدا کے کلام یا اس کے رسول کے کلام یا کسی اچھی نصیحت پر مشتمل ہو۔ اور اگر ایسی کسی بات کواس کی سماعت میں جانے سے روکنے میں کبھی تم ناکام ہی ہو جاؤ، تو پھر اس کے سمجھ آنے میں رکاوٹ بن جاؤ۔ یہ بھی نہ روک سکو تو اس کو اس پر تدبر اور غور وفکر نہ کرنے دو۔ یہ بھی نہ روک سکو تو اس کو اس سے فائدہ نہ لینے دو۔ اس کیلئے یا تو یہ کرو کہ ایک اچھی چیز اس کے ہاں پزیرائی پاتی ہے تو ساتھ ہی کئی ساری باطل چیزیں اس میں ٹھونس دو اور یا پھر اس اچھی چیز کو اس کیلئے متروک الرواج اور ناقابل عمل بنا کر پیش کرو اور اس پر ثابت کردو کہ اس کا تو زمانہ ہی نہیں اور یہ کہ ایسی کسی بات کو لے کر چلنے سے لوگ تمہارے بارے میں عجیب وغریب تاثر رکھیں گے۔ پھر بھی وہ بضد ہو تو اس کے سامنے دینداری کے وہ نقشے پیش کرو جو ایک بری مثال ہوں اور اس سے کہو کیا تم ایسا بننا چاہتے ہو؟ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے متنفر کرنے کیلئے اس کو وہ عملی نمونے دکھاؤ جو دراصل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی غلط تعبیر ہیں مثلا تنگ نظری، لٹھ ماری، لوگوں کے معاملہ میں دخل در معقولات، اپنی اوقات سے بڑھ کر آزمائش مول لینا، حق کے نام پر لوگوں میں تفرقہ اور فتنہ پھیلانا، وغیرہ وغیرہ۔
مختصر یہ کہ ابن آدم کے کان میں اچھی بات مت پڑنے دو البتہ بری اور منحرف باتیں اس کی سماعت تک پہنچانے کیلئے معاشرے کے سب سپیکر کھول دو اور سب فورم متحرک کر دو۔ پھر بھی کوئی اچھی بات اس کی سماعت تک پہنچ جائے تو اس کے مفہوم اور اس کی تاثیر کو اس کیلئے فاسد بنا دو۔
پھر وہ کہتا ہے: ایک اور رخنہ اس کی زبان ہے۔ اس پر زور بڑھا دو۔ یہ سلطانِ مملکت کا تعبیر کنندہ اور ترجمان ہے۔ اس سے وہ کچھ بلواؤ جو اس کو تباہی کے گڑھے میں پھنکوائے۔ اس زبان پر کوئی ایسی بات نہ آنے دو جو اس کے لئے باعثِ نفع ہو۔ اور ایسے کلمات تو اس کی زبان پر ہرگز مت آنے دو جو اس کے گناہ دھو ڈالیں اور میزان اعمال میں اس کی نیکیوں کا وزن بڑھائیں ۔ خبردار جو اس کی زبان پر خدا کا ذکر جاری ہو۔ اس کی زبان استغفار کرنے لگے اور خدا سے اپنے گناہوں اور زیادتیوں پہ معافیاں مانگنے لگے، کیونکہ خدا کے اس کو معاف کرنے اور تمہارے خلاف اس کی مدد کو آنے میں صرف اسی بات کی دیر ہے کہ یہ خدا کو آواز دے اور اپنے قصوروں پہ بخشش کا سوال کرلے اور پھر تمہارا سب کیا کرایا ضائع چلا جائے۔ خبردار جو تم نے اس کو کتاب اللہ کی تلاوت کیلئے آزاد چھوڑ دیا یا لوگوں کو بتانے کیلئے اچھی باتیں اس کی زبان پر آنے دیں یا نفع بخش علم کو پھیلانے دیا۔
زبان کے اس محاذ پر تمہاری کامیابی کی بس دو ہی صورتیں ہیں :
- یا یہ کہ یہ باطل بولے۔ اگر یہ باطل کی زبان بولے تو پھر یہ تمہارا ہی بھائی بند ہے اور تمہارے ہی جنود کی رونق۔
- اور یا یہ حق سے سکوت اختیار کرے۔ حق بیان کرنے سے خاموشی اختیار کررکھنے والا بھی تمہارا ہی بھائی ہے۔ ’یہ‘ تمہارا گونگا بھائی ہے اور ’وہ‘ زبان رکھنے والا بھائی۔ بلکہ کئی لحاظ سے تمہارے یہ گونگے بھائی بند تمہارے زیادہ بڑے مددگار ثابت ہوتے ہیں اور تمہارے مشن کو کامیاب کرانے میں کہیں زیادہ مؤثر۔
ہاں اگر وہ اس بات پر قائم رہتا ہے کہ بولے تو حق کی بات بولے اور زبان کو روک کر رکھے تو باطل سے روک کر رکھے، یعنی نہ وہ حق سے خاموش ہو اور نہ باطل کو زبان پر آنے دے تو پھر تم ناکام ہو۔ پس باطل کی بات بولنا اس کیلئے حد درجہ مزین کردو۔ حق کی بات بولنے سے اس کو حد درجہ خائف کردو۔ میرے بچو یہ یاد رکھو کہ بنی آدم کے ہاں یہ جو ’زبان‘ والا رخنہ پایا جاتا ہے یہ ایک ایسا کام کا رخنہ ہے کہ میں نے اپنے بڑے بڑے کارنامے یہیں سے انجام دیے ہیں ۔ بڑوں کو میں جہنم میں نتھنوں کے بل گرانے میں کامیاب ہوا ہوں تو وہ یہیں سے۔ کتنے میرے قتیل ہیں اور کتنے میرے اسیر ہوئے اور کتنوں کو میں نے لہولہان کیا تو بس یہیں سے۔
اور دیکھو تم میں سے کچھ ہی ہیں جو انسان کی دنیا میں باطل کا قول رائج کرسکتے ہیں ۔ تم میں سے زیادہ کا کام بس یہی رہے گا کہ ان کے معاشرے میں جو چند سر برآوردہ لوگ باطل بولنے میں تمہارے ترجمان بنیں گے تو بس تم ہر جگہ ان کیلئے واہ واہ کرواؤ۔ تم یہ یقینی بناؤ کہ تمہارے کچھ ساتھی ایک بڑی محنت کے بعد کہیں سے باطل کی ایک صدا بلند کروائیں تو ہر جگہ لوگ اس پر سر دھنیں ۔ کوئی اس کو سمجھے یا نہ سمجھے یہ ضرور کہے کہ واہ کیا بات کی ہے۔ ہر آدمی تمہارے بلوائے ہوئے بول اس فصاحت سے نہیں بول سکتا اس پر تالیاں تو بجا سکتا ہے۔ اس کا تو گلی گلی انتظام ہونا چاہیے۔ میرے ہاں یہ نہایت آسان اور کارگر تدبیر ہے۔ اب جاؤ اور ان کی دنیا میں طوفان مچا دو۔
کیا تم نے میری وہ قسمیں نہیں سنیں جو میں نے ان کے پروردگار کے سامنے کھڑے ہو کر کھائیں : قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ۔ثُمَّ لآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (الاعراف:16-17) ”مجھے تو تو نے ملعون کیا ہی ہے میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان (کو گمراہ کرنے) کےلئے بیٹھوں گا۔ پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے (غرض ہر طرف سے) آؤں گا (اور ان کی راہ ماروں گا) اور تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا “(ترجمہ فتح محمد جالندھری) تو پھر مجھے ابن آدم کے ہر راستے پر بیٹھنا ہے اور کوئی ایک بھی رخنہ جھانکے بغیر نہیں چھوڑنا۔ میں سب کچھ نہیں کرسکتا تو جو کرسکتا ہوں وہ تو کرکے رہوں گا۔
خود ان کے رسول نے میری اس واردات کا ذکر کیا ہے: ان الشیطان قد قعد لابن آدم بطرقہ کلہا، وقعد بطریق الاسلام۔ فقال: اَتسلم وتذر دینک ودین آبائک، فخالفہ و اَسلم۔ فقعد بطریق الہجرۃ، فقال: اَتہاجر وتذر اَرضک وسماءک، فخالفہ وہاجر۔ فقعد لہ بطریق الجہاد، فقال: اَتجاہد فتقتل فیقسم المال وتنکح الزوجۃ۔ ”شیطان ابن آدم کے ہر راستے میں بیٹھتا ہے۔ یہ اس کے اسلام لانے کے راستے میں بیٹھتا ہے اور اسے کہتا ہے: کیا تو خدا کا فرماں بردار ہوجائے گا اور اپنا اور اپنے باپ دادا کا راستہ چھوڑ دے گا؟ پھر جب وہ اس کو ٹھکرا دیتا ہے اور اسلام قبول کرلیتا ہے تو وہ ہجرت کے راستے میں آبیٹھتا ہے اور اسے کہتا ہے: کیا تو نقل مکانی کرجائے گا اور اپنی اس زمین اور اپنی ان فضاؤں کو خیر باد کہہ دے گا؟ پھر جب وہ اس کو ٹھکرا دیتا ہے اور ہجرت کرجاتا ہے تو وہ جہاد کے راستے میں آ بیٹھتا ہے اور اسے کہتا ہے: کیا تو جہاد کرے گا؟ پتہ ہے مارا گیا تو تیرا مال ترکہ بنے گا اور تیری بیوی کسی اور سے بیاہی جائے گی؟“
تو جب یہ ہمارا کام ہے تو کیوں نہ کریں ؟ تو پھر پوری زمین میں پھیل جاؤ اور خیر کے ہر راستے میں جم کر بیٹھ جاؤ۔ کوئی صدقہ کرنے چل دے تو اس کو پکڑ کر بیٹھ جایا کرو اور اس کو سمجھاؤ کہ یہ جو سوالی ہے کیا تو چاہتا ہے کہ تیرا بھی حال اسی جیسا ہوجائے اور دولت لٹاتے لٹاتے تو بھی ایک دن اسی کی طرح مانگنے پہ آجائے؟ اس کا حج کا راستہ روک کر بیٹھ جاؤ اور اس کو سجھاؤ راستے میں ہزار خطرے ہیں ۔ اچھا خاصا مال لگ جاتا ہے اور کیا بعید جان بھی چلی جائے۔ یوں اس کے ہر راستے میں پوزیشن لے کر بیٹھ جاؤ اور نیکی کا ہرکام اس کو اس قدر پر صعوبت اور غیر ضروری اور بے کار بنا کر دکھاؤ کہ یہ اس کی جانب لپک کر جانے سے احتراز کرے۔
البتہ اس مخلوق کیلئے برائیوں اور خدا کی نافرمانیوں کے راستے میں ایک خاص ادا کے ساتھ بیٹھو۔ گناہوں کو نہایت خوب پہناوے پہناؤ اور ان کے نفوس کیلئے نہایت مزین کر کے پیش کرو۔ یہاں بہت زیادہ مدد تمہیں عورتوں کی راہ سے ملے گی۔ عورتوں کی راہ سے تم ان کے ہاں بڑے بڑے نقب لگا سکتے ہو اور اگر اس ہتھیار کا خوب استعمال کرو تو بس یہیں سے تم ان کو تباہ وبرباد کرکے رکھ سکتے ہو۔
پھر ہاتھوں اور پیروں کے رخنوں پر آجاؤ۔ خبردار ابن آدم کا ہاتھ کسی ایسی چیز پر نہ پڑنے دینا جو تمہارا بیڑہ غرق کردے۔ ڈرو اس وقت سے جب اس کے قدم کسی عزیمت کی راہ میں اٹھ جائیں اور زمین پر خیر اور حق کے قیام کی سمت میں گامزن ہو جائیں ۔اور یہ بھی یاد رکھو اس کے یہ ہاتھ پیر اگر تم نے اپنے مقاصد میں مصروف نہ کئے تو پھر بعید نہیں یہ خیر کی راہوں میں چلنے لگیں ۔
اور یہ تو ہر وقت یاد رکھو مومن کی اس مملکتِ دل میں تمہیں اگر کوئی مددگار یا حلیف ملے گا تو وہ اس کے اندر پائی جانے والی نفسِ امارہ ہے۔ اس کے بڑھنے پلنے کا خوب انتظام کرو اور پھر اس سے خوب کام لو۔ یہ تم سے بہت کچھ لے سکتی ہے اور تمہیں بہت کچھ دے سکتی ہے۔ اس کی نفسِ مطمئنہ سے جو ہمیشہ جنگ رہتی ہے تم اس میں اس کے طرف دار ہوکر اس مملکت کے بہت سے قلعے ڈھا سکتے ہو۔ اور سب سے کارگر تدبیر امارہ اور مطمئنہ کی اس جنگ میں تمہارے لئے یہ ہوگی کہ تم مطمئنہ کی سپلائی کے سب راستے کاٹ دو اور امارہ کو اس کی ضرورت کا سب سازوسامان بروقت مہیا کرتے رہو۔
یاد رکھو، مملکت ِ دل میں تمہارے راستے کی اصل رکاوٹ یہ نفس مطمئنہ ہی ہے۔ تو پھر جب اس مطمئنہ کی سپلائی کے سب راستے کاٹ ڈالے جائیں اور نفس امارہ کو اس کی ضرورت کا سب مواد اور سب کمک فراہم ہورہے، اس کی کارکردگی خوب بڑھنے لگے اور ’مملکت‘ میں امارہ کی اچھی خاصی چلنے لگے تو پھر اگلا کام یہ کرو کہ قلب کو اس کے تختِ مملکت سے گرا دو اورمنصبِ ریاست سے معزول کرادو۔ یہ تختہ الٹ دینے کے بعداس منصبِ ریاست پر بھی پھر نفسِ امارہ ہی کو فائز کرادو۔ ایسا ہوجائے تو پھر تو تمہارے وارے نیارے۔ پھر تو جو تم کہو گے وہی ہوگا اور جو تم چاہو گے وہی انجام پائے گا۔
اور اگر کسی وقت ایسا ہو کہ قلب اپنی اس کھوئی ہوئی سیادت کو واپس لینے کیلئے پر تولے تو اس کو کہو کہ صدارت تمہیں واپس مل سکتی ہے بشرطیکہ تم برائے نام اقتدار پہ راضی ہوجاؤ اور محض ایک علامتی بادشاہ بن کر رہنا گوارا کرلو۔ رہے اس مملکت کے اندر عملی اختیارات، تو اس نفسِ امارہ کو آج سے اپنی ملکہ سمجھو اور یہ سب کارِ ریاست اب اسی کو نمٹانے دو۔ دل کو خبردار کرو کہ کہ اس کا کھویا ہوا اقتدار اس کو واپس مل جانا ایک بڑی جنگ کے بغیر اب ممکن نہیں ۔ دل کو ’عافیت‘ کی قدر و اہمیت بتاؤ اور ’جنگ‘ کے نقصانات اس پر واضح کرو۔ اس کو قائل کرو کہ وہ اپنی مملکت کا تن تنہا فرماں روا ہونے کے خواب دیکھنا اب چھوڑ دے، کیونکہ نفسِ امارہ کے ہاتھ اب بڑے لمبے ہیں اور مملکت کے بہت سے کارکن اب اسی کے ہاتھ کے ہیں ۔دل کو اس کی اس ضد کے مضمرات بتاؤ اور اس پر واضح کردو کہ یہ جنگ کوئی دن دو دن کی تو بات نہیں ۔ بہتر ہے فیصلے کے اختیارات تم نفس امارہ ہی کو سونپ رکھو بے شک نام تمہارا ہی چلے اور تم اپنے خوش رہنے کیلئے جو بھی دعوے یا القابات اختیار کر رکھنا چاہو کر رکھو۔ لیکن ’اصل‘ معاملہ اپنے سوا اب کسی اور پر چھوڑ دو۔ اور یہ کہ اگر تم بات بات پر تکرار کا وتیرہ اپنا رکھنا چاہتے ہو اور اپنی اس ’ملکہ‘ کے اختیارات محدود کر دینے پر ہی مصر ہو تو پھر دیکھو یہاں بات بات پر ٹھنے گی۔ اپنے ہی گھر میں دنگا بھلا کسے پسند ہے؟ لہٰذا اس ضد پر رہو گے تو پل پل پر تمہارا یہ گھر میدانِ جنگ بنے گا۔ یہاں ہر وقت خونیں جھڑپیں ہوں گی۔ یہ مار دھاڑ کب تک سہو گے۔ خدا کے بندے امن سے زندگی گزارواور آرام کے ساتھ یہاں دن کاٹو۔ ’راحت‘ کا بھی بھلا کیا کوئی مول ہے؟؟؟!!! غرض ”جہاد“ چھڑا کر اس کو ’مصالحت‘ پر کسی طرح لے آؤ۔ ایک بار وہ اس پر حامی بھر لے تو پھر اس کے ساتھ معاملہ کرنے کی تمہارے پاس ہزار صورتیں ہیں ! ’مصالحت‘ کیلئے میرے پاس آیا کبھی مار کھائے بغیر نہیں گیا!!!!!!!
اور دیکھو دو لشکر تمہیں ایسے میسر ہیں کہ اگر تم ان کو کام میں لے آؤ تو کبھی شکست نہ کھاؤ:
- ایک لشکر ’غفلت‘ کا ہے۔ کوشش کرو کہ بنی آدم کے قلوب پر اللہ اور یومِ آخرت کے معاملہ میں غفلت طاری کرا دو۔ اس کیلئے ہر ہر تدبیر اختیار کرو۔ دل کے اوپر غفلت کی ایک تہہ چڑھا دو تو فوراً ہی اس پر دوسری تہہ چڑھانے کیلئے سرگرم ہوجاؤ کیونکہ خدا کا ذکر اس کو کسی بھی وقت پگھلا سکتا ہے۔ پس غفلت کا ملبہ اس پر جتنا ڈال سکتے ہو ڈالتے جاؤ۔ یاد رکھو اس سے بڑھ کر تمہارے لئے کامیابی کا کوئی نسخہ نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ اور یوم آخرت کے معاملہ میں دل کی دنیا کے اندر غفلت کا اندھیرا نہ ہوا تو تمہاری واردات وہاں کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔
- اور دوسرا لشکر ’خواہشات و شہوات‘ کا ہے۔ اِن کو تم اُن کے دلوں میں جتنا مزین کر سکو کر دو۔ اِن کو تم اُن کی نگاہوں میں جتنا حسن دے سکو دے ڈالو۔ان کے ذریعے سے میں جو وار کرتا ہوں اس سے کوئی کوئی ہی بچتا ہے۔
تو پھر ان دو لشکروں کو میدان میں لاؤاور ان کے ذریعے سے ان پر حملہ آور ہو۔ تم اپنے آپ کو تھوڑی ہی دیر میں دیکھو گے کہ اس مملکت میں دندناتے پھرتے ہو اور تمہارے راستے میں کوئی رکاوٹ ہی باقی نہیں رہی۔ ان دونوں سے بڑھ کر تمہاری کارروائی کیلئے آج تک کوئی ہتھیار نہیں بنا۔
اور ہاں دیکھو، قلوب پر ’غفلت‘ طاری کر چکو تو عین اس وقت ان پر ’شہوات‘ سے چڑھائی کراؤ۔ ’شہوات‘ کا حملہ ہوچکے تو ’غفلت‘ سے حملہ کرا دو۔ غرض یہ دونوں لشکر ساتھ ساتھ بڑھیں اور ان کی ’مشترکہ کارروائیاں ‘ کسی وقت نہ تھمیں تو تم دیکھو گے اہداف کس تیزی کے ساتھ حاصل ہونے لگے ہیں ۔ اپنی کامیابی کو اور بھی بڑھانا چاہو تو ’غافلوں ‘ کو ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا کردو۔ پھر تو تم دیکھو گے کہ وہ رنگ بندھتا ہے جو سب کو حیران کرجائے!!!
اور جس طرح تم دیکھوگے کہ غافلوں کو اکٹھا کر دینے سے تمہارا زبردست کام بنتا ہے ویسے ہی تم دیکھو گے کہ خدا کا مقام جاننے والوں کے اکٹھ سے تمہارا کام بگڑتا ہے۔ پس جہاں کہیں تم کچھ لوگوں کو خدا کو یاد کرنے کیلئے اکٹھے ہوتا دیکھو، یا خدا کے امر ونہی کے تذکرے کرنے کیلئے ان کو مجتمع دیکھو تو ان کا اکٹھ توڑنے پر پورا زور لگادو۔ کچھ بھی نہ ہوسکے تو اپنی پسند کے کچھ لوگوں کو ان میں گھسا دو جو ان میں اتنا شورشرابہ ڈال دیں اور ایسے ایسے فتنے ان کے مابین کھڑے کر دیں کہ وہ اپنے بیشتر اہم کام بھول جائیں ۔
اور جب تم خواہشات وشہوات کے لشکروں سے قلوبِ بنی آدم کی بستیاں تاراج کراؤ گے تو یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنا کہ ’خواہشات‘ کا لشکر کوئی چھوٹا لشکر نہیں ۔تو پھر ہر ایک شخص کیلئے انہی جنود کا چناؤ کرو جو اس شخص کے مناسب حال ہوں ۔ کسی کیلئے شہوتِ اقتدار کارگر ہوگی۔ کسی کیلئے شہوتِ مال۔ کسی کیلئے شہرت تو کسی کیلئے عزت اور مقبولیت۔ خواہشات کے ساتھ پھر اگر جذبات کا ہتھیار بھی برتو تو وہ اور بھی مؤثر ہو۔ کسی پر طیش اور غضب کا ہتھیار کاری ہوگا تو کسی پر حسد اور بغض کا۔کسی پر بخل کا تو کسی پر حرص اور طمع کا۔
یاد رکھو میں نے بنی آدم کے خلاف جتنے ہتھیار برتے ان دونوں سے زیادہ کاری کوئی نہ پایا۔ میں نے ان کے ماں باپ دونوں کو جنت سے نکالا تو ’خواہش‘ کا ہتھیار برت کر۔ اور پھر ان کے وہاں سے نکلنے کے بعد ان پر ’طیش اور غضب‘ کو برتا، جس کے ذریعے سے میں نے ان کے ارحام اور ان کے رشتوں کو تارتار کرایا اور ان کے مابین ایسی ایسی خون ریزی کرائی کہ بھائی بھائی کی جان لینے کو اپنی سب سے بڑی کامیابی جانے۔ جان رکھو کہ غصہ ایک انگارہ ہے جو ابن آدم کے قلب میں بھڑکتا ہے اور شہوت و خواہش ایک آگ ہے جو اس کے پورے تن بدن کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ تمہارا کام ہے ان دونوں کو ہوا دو۔ اور یاد رکھنا ان دونوں کو بجھانے والی کوئی چیز ہے تو وہ وضو کا پانی ہے جو عبادت گزاروں کے یہاں ہر وقت دیکھنے میں آتا ہے اور نماز ہے اور خدا کا ذکر ہے اور اُس کی تعظیم اور اس کی تکبیر۔
پس جب تم ابن آدم کے یہاں طیش یا شہوت کی آگ بڑھکا چکو تو ہرگز ہرگز اسے وضو کے پانی پاس جانے نہ دینا اور ہرگز ہرگز نماز کا سہارا لینے نہ دینا۔ ایسا ہوجانے دیا تو وہ سب شعلے سرد پڑ جائیں گے جنہیں تم نے بڑی محنت سے پھونکیں مار مار کر بڑھکایا ہوگا۔ اور یہی بات تو ان کے نبی نے ان کو بتا رکھی ہے: ان الغضب جمرۃ فی قلب ابن آدم۔ اَما ر اَیتہ من احمرار عینیہ وانتفاخ اَوداجہ۔ فمن اَحس بذلک فلیتوض اَ ”بے شک غصہ ایک انگارہ ہے جو ابن آدم کے قلب میں پایا جاتا ہے۔ کیا (اس حالت میں ) تم نے اس کی آنکھوں کا سرخ ہونا اور رگیں پھولنا نہیں دیکھا؟ پس جو شخص ایسا محسوس کرے اسے چاہیے کہ وضو کا سہارا لے“۔ اور یہ بھی ان کو ان کے نبی ہی کی ہدایت ہے: انما تطف اَ النار بالماء۔ ”آگ تو پانی سے ہی بجھانے کی ہے“۔
کبھی مت بھولو کہ ان کو تمہاری کارروائیوں کے مقابلے میں صبر اور صلوٰۃ کا دامن تھام رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ تمہارے خلاف ان کے سب سے موثر ہتھیار ہیں ۔ وہ تمہارے خلاف صبر اور صلوٰۃ سے مدد لیں گے۔ تم ان کے خلاف شہوت اور طیش کے ہتھیاروں سے مدد لو۔ تمہاری ان کے خلاف سب سے کار گرتدبیر یہ ہوگی کہ کہیں تم ان کو گھیر کر ’غفلت‘ اور ’اتباعِ ہویٰ‘ کی گھاٹی میں لے آؤ پھر جیسے چاہو ان کا قلع قمع کرو۔ ان کی تمہارے خلاف سب سے کارگر تدبیر یہ ہوگی کہ یہ ’خدا کی پہنچان‘ اور ’خدا کی یاد‘ میں قلعہ بند ہوجائیں اور ’اہواءکے خلاف جہاد‘ کی تلواریں سونت لیں ۔ تو جب تم دیکھو ان میں سے کوئی شخص خدا کی عظمت کا ورد کرتا ہے اور اہواءکے خلاف تلوار نکال کر کھڑا ہے تو ایسے شخص کے البتہ قریب مت جانا، اس کے تو سائے سے بھی بھاگنا۔ اس کے ساتھ الجھے تو تمہاری تباہی ہے۔
٭٭٭٭٭
مقصد یہ کہ گناہ اور نافرمانیاں وہ ہتھیار ہیں جنہیں آدمی اپنے قتل ہونے کیلئے خود اپنے ہاتھ سے اپنے دشمن کو تھماتا ہے۔ تم اگر ایسا شخص دیکھنا چاہو جو اپنے خلاف اپنے دشمنوں کے ساتھ مل کر جنگ میں نہایت سرگرمی کے ساتھ مگن ہو تو یہ وہ شخص ہے جو خدا کی نافرمانیوں کو اپنی زندگی کا معمول بنا چکا ہے۔ اور یہ بات جہالت کی انتہا ہے۔
سچ ہے جاہل آپ ہی اپنا سب سے بڑا دشمن ہے.... وہ جاہل جو اپنی ہدایت اور نجات کیلئے آسمان سے اتری ہدایت ہی سے نابلد رہنے پر بضد ہے!!!
من یہدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ہادی لہ....
(استفادہ: ازالجواب الکافی، مؤلفہ ابن القیمؒ، ص 66-71)