اَفضل الذکر لا اِلٰہَ اِلااﷲ | |
|
اﷲ کے دین کی حقیقت معلوم ہونا انسان کے لیے دنیا میں سب سے بڑی نعمت ہوسکتی ہے !
یہ ’دین‘ کیا ہے جس کی حقیقت معلوم ہونا دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے؟
وہ سب جذبات جو بندگی اور پرستش کے الفاظ سن کر آپ کے تخیل میں سما سکیں! وہ سب احساسات جو کسی بڑی طاقتور ہستی کا شدید خوف آنے سے دل پر کبھی گزر جا ئیں! ایسی وارفتگی جو کسی کی چاہت اور محبت میں سب کچھ بھلا دے! ایسی عاجزی اور حاجتمندی جو انسان کو اپنی ہر سکت سے بے خبر کردے ! وہ کیفیت جو وفا اور رضا جوئی کی انتہا ہو او ر دل میں آپ سے آپ موجزن ہو ۔ ایسا کردار جس میں اطاعت اور فرما نبرداری مجسم ہو کر ’انسان‘ کی شکل دھارلے.... !!!
’دین‘ حقیقت میں خشیت اور محبت کا ایک ایسا ہی بے اختیار جذبہ ہے ۔ بندگی کا ایک لطیف احساس ہے اور کردار کی ٹھوس حقیقت!
اتنی وسعت اور گہرائی تو ابھی لفظِ ’دین‘ کی ہے! !!
مگر جب یہ ’دین‘ اﷲ وحد ہ لاشریک کے لیے ہو جائے پھر تو اس کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ اس کیفیت کی تعبیر کے لیے تب انسان کے پاس تکبیر اور تسبیح کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا ! جتنا بڑا معبود ہوگا اتنا ہی بڑا اس کا تعارف !!! اب اﷲ سے بڑا کون ہے؟ زمین میں یاآسمانوں میں ؟؟ ؟ وہ تمام جہانوں کا رب ہے!!! رب الاولین والآخرین!!!جو کچھ نظر آتا ہے، جو بڑی سے بڑی چیز ذہن کو متاثراور مرعوب کرسکتی ہے ، اسکی ہے!!! جس ہولناک سے ہولناک مخلوق کا دل پر خوف اور لرزہ طاری ہوسکتا ہے، اسکی ہے اور اس کے عذاب سے پناہ مانگتی ہے!!! جو حسین سے حسین چیز کہیں پائی جاسکتی ہے اور لذت و لطف کی انتہا کہلاسکتی ہے، اس کی قدرت کا کمال ہے!!! پھر اس کی قدرت میں صر ف یہی نہیں اس سے بڑھ کر اور بہت کچھ ہے.... اتنا کچھ کہ جو ’نظر‘ آتا ہے اور ’عقل‘ میں سماتا ہے وہ اس کے سامنے کچھ نہیں جو نظر سے اوجھل ہے اور عقل پر بھاری ہے!!! اس کی عظمت کے آگے تو بس سجدہ ہوسکتا ہے!!! صرف ماتھا دھرا جاسکتا ہے!!! تخیل اور عقل کو اس کا ’احاطہ‘ کرنے کے لیے نہیں اس کو ’سجدہ‘ کرنے کے لیے وجود ملتا ہے!!! انسان اسکی کبریائی کو صرف اپنی عاجزی کا واسطہ دے سکتا ہے!!! ایک انسان ہی کیا زمین و آسمان کی ہر مخلوق اس کے لطف و رحمت کو اپنی ذلت اور لاچار ی ہی کا واسطہ دیتی ہے!!!
اتنے بڑے معبود کی تو پہچان ہی کتنی بڑی ہوگی! اس کی صفات کا احاطہ کر ہی کون سکتا ہے! اور اس کی عظمت کا اعتراف تو ہو ہی کیونکر سکتا ہے....!
لوگ تو اپنے چھوٹے چھوٹے اور حقیر معبودوں کی تعظیم سے سیر نہیں ہوتے! ’وطن‘ کے گیت گاتے نہیں تھکتے! ’قوم‘ کی ترقی کا ورد نہیں چھوڑتے ۔ ’ملک‘ کے استحکام پر جان دے دیتے ہیں ۔ ’آزادی‘ پر تو قومیں اپنی نسلیں وار دیتی ہیں ۔ ’انسانی حقوق‘ کی راہ میں قربانیاں ایک انسان کو امر کرجاتی ہیں اور لوگ اس کے فنا ہوجانے کے بعد اس کے مجسمے تک پوجتے ہیں!
لوگ ’جمہوریت‘ کی بحالی کے لیے’ شہید ‘ہوتے ہیں ۔ ’کرکٹ میچ‘ ہارنے یا جیتنے پر لوگوں کو دل کے دورے پڑ جاتے ہیں ۔ سیاسی اور فلمی ’ستاروں ‘ کی موت پر غشیاں پڑنے لگتی ہیں!
قبیلے ، برادری اور ملک کی جنگ میں ، مائیں اپنے سپو ت پیش کردینا ہر دور میں باعث شرف سمجھ لیتی رہی ہیں ۔ قوم کے محسنوں کو ’زندہ و پائندہ باد‘ کے نعروں سے صبح شام عقیدت کا خراج پیش کیا جاتاہے۔ وطن کے پرچم کو ’ایڑی چوٹی‘ کے پورے زرو سے سیلوٹ ہوتا ہے اور قومی تفاخر کے مواقع پر ا س کی مورتی دل کے پاس سینے پر سجائی جاتی ہے! پتھر اور لکڑی جیسی حقیر چیزیں بھی اگر قومی یادگاروں میں استعمال ہو جائیں تو انکے تقدس کا یہ حال ہوتا ہے کہ ایسے پتھر او رلکڑی کے لیے ’توڑنے‘ یا ’گرانے‘ کے لفظ تک حرام ہوجاتے ہیں!
کسی بھی قوم کے ہیرو یا ملک کے بانی کی توہین ہو جائے یا اسکے بت کی بے حرمتی، اس پرجلوس نکل سکتے ہیں ۔ اس کے لیے معمولی نازیبا الفاظ کے استعمال پر قیامت برپا ہوسکتی ہے ، اگرچہ رب العالمین کے ساتھ صبح و شام وہاں کیسا بھی کفر اور بغاوت کیوں نہ ہوتی رہے!
ایک ہاتھ پیر ہلانے سے عاجز بزرگ کی پس مرگ زیارت کے لیے ہزاروں میل کا پیادہ پا سفر کرکے عقیدت کا ’ادنیٰ ‘ سا اظہار کیا جاتا ہے! ایک مردے کی قبر کی توسیع کےلئے یہاں آدھا شہر اٹھادیا جاتا ہے! ایک مٹی میں ملے معبود کی ’خوشی‘ کی خاطر ہزاروں زندوں کا نقصان خوشی خوشی جھیلنا ’سعاد ت‘ سمجھا جاتا ہے !
حیران کن بات تو یہ ہے کہ ان جھوٹے اور حقیر معبودوں کے لیے یہ جو کچھ ہوتا ہے، اس میں ان معبودوں کا کوئی بھی کمال نہیں! دراصل ’عبادت‘ ایک جذبہ ہی ایسا ہے! ’بندگی‘ چیز ہی ایسی پیاری اور خوبصورت بنائی گئی ہے! تبھی تو صرف یہ اﷲ کاحق ہے!! پرستش مرمٹنے کا نام ہے۔ سچ پوچھیں تو مر مٹنے کا اپنا مزہ ہے۔ اس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ تبھی تو لوگ دیوانے ہوجاتے ہیں! مرمٹنے کے لیے ’کوئی بھی‘ چیز ڈھونڈ تے ہیں! مٹی نہ ملی تو پتھر اٹھا لیا۔ پتھر نہ ملا تو لکڑی تراش لی۔ لکڑی سے جی بھر گیا تو پلاسٹک سے بہلا لیا! زندوں سے مایوس ہوا تو مردوں کا رخ کرلیا! کیسی وحشت ناک زندگی ہے یہ ! اصل معبود نہ ملے تو انسان کیسے پاگل ہوجاتا ہے! کیسے کیسے خبط مارتا ہے ! انسان اﷲ سے واقف نہ ہو تو کتنا حقیر ہوجاتا ہے! کیسی گھٹیا حرکتیں کرتا ہے! قوم پر مرتا ہے ۔ عصبیت پہ فدا ہوتا ہے۔ روپے کو خدا بنالیتا ہے۔ پیسے کو خوشی اور غم کا راز سمجھ بیٹھتا ہے۔ لکڑی ، پتھر اور کپڑے کے حضور کبھی مذہبی اور کبھی قومی جوش و خروش کے ساتھ آداب اور کورنش بجالاتا ہے۔ مُردوں کو خوش کرنے کے لیے معصوم بچوں کے منہ کا نوالہ چھین کر ایک بے حس و حرکت معبود کو چڑھاوا دے آتا ہے۔ زندوں اور مردوں کو ہیر و بنا کر پوجتا ہے اور انکی شان میں گستاخی کو برداشت سے باہر سمجھتا ہے۔ حقیر ہستیوں کی عظمت و نامو س کے لیے مرنے مرانے پر اترآتا ہے ۔ملک کی عزت پہ کٹ مرتا ہے اور وطن کی مٹی کو سلام پیش کرتا ہے .... اور وہ مالکِ ارض و سماوات جو حق رکھتا ہے اس جان پر، پرستش کے ان نفیس جذبات پر، اُس ایک کو بھول جاتا ہے! کیسا ظالم ہے وہ انسان جسے عقیدت اور بندگی کا خراج دینے کو جہانوں کا رب نظر نہ آئے تو وہ اسے مٹی پہ ڈھیر کردے !
إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (الصافات85۔87)
(ابراہیم ؑ نے ) جب اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا یہ کیا تم پوجنے بیٹھے ہو؟ نرے بے حقیقت من گھڑت معبود ۔ یہ تم اﷲ کو چھوڑ کر پوجنا چاہتے ہو ؟پھر یہ تو بتلاؤ کہ تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟
مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًاوَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًاأَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا وَاللَّهُ أَنبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا (نوح 13۔20)
(نوح ؑنے کہا) تو کیا تمہیں بس ایک اﷲ ہی کے مرتبے کا پاس نہیں!
وہ تووہ ہے جس نے مرحلہ در مرحلہ تمہاری تخلیق کی ۔
کیا دیکھتے نہیں وہ اﷲ جس نے سات آسمان تہ در تہ بنائے۔
پھر ان میں چاند کا اجالا کردیا اور سورج کا چراغ دھردیا،
او ر تم کو بھی زمین سے کیا عجب طریقے سے اگا یا اور وجود دیا
وہ تو تمہیں پھر اسی مٹی میں ملا ڈالے گا، پھر اس سے یکایک وہ تم کو نکال کھڑا بھی کرلے گا۔
اور زمین کا تمہارے لیے فرش بچھایا۔
تاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں اور وادیوں میں چلو“
پس یہ ’بندگی‘ تو بذات خود کتنی بڑی زبردست اور حیران کن چیز ہے! پھر جب یہ اﷲ کے لیے ہوجائے.. اور ایک اسی کی ہوجائے.. تب تو یہ دنیا کا سب سے بڑا واقعہ کیو ں نہ ہو، نہ صرف سب سے بڑا واقعہ بلکہ خوبصورت ترین اور برحق ترین بھی!
غرض ”اﷲ کے دین“ کا مطلب ہوا کہ آدمی کو بندگی کی اصل حقیقت معلوم ہو اور پھر .... اﷲ کی پہچان ہوجائے! تب اس کی خوشی اور سعادت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہتا!
علم کے پس یہ دو ہی حقیقی میدان ہیں ، اور حقیقت یہ ہے کہ دونوں اشرف العلوم ہیں : ”بندگی کی حقیقت“ اور ”اﷲ کا تعارف“..
پھر انکے ساتھ ایک تیسری چیز اور شامل ہوجاتی ہے جس کی سب کی سب اہمیت ہے تو انہی دو باتوں کے دم سے مگر اہمیت بہت ہے بلکہ اتنی زیادہ کہ لگتا ہے یہی اصل ہے: اس علم کا نام ہے شر ک سے بچنا اور مشرکوں سے براءت رکھنا....
دین دراصل کوئی مصنوعی چیز نہیں ۔ بندگی کا جذبہ انسان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ کسی نہ کسی چیز کو ٹوٹ کر چاہنا انسان کی مجبوری ہے۔ پھر جسے یہ ٹوٹ کر چاہے اسے پا نہ سکنے کا ڈر اور بے یقینی کے اندیشے اس کو سب سے زیادہ بے چین رکھتے ہیں ۔ حتی کہ اُس کو پالے تب بھی اُسے بچا رکھنے کی لگن اور اُس کے چھن جانے کا خوف ہمیشہ اِس پر طاری رہتا ہے۔ مضبوط سے مضبوط انسان بھی ہر دم انجانے خدشوں کا اسیر رہتا ہے ۔ بس چاہت اور ڈر کی یہی حالت اور امید و یاس کی یہی کیفیت ’دین‘ اور ’بندگی ‘ کہلاتی ہے۔ جیسے پانی کا بہاؤ رکتا نہیں کہیں نہ کہیں سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے، اسی طرح ”عبادت“ انسان کے اندر سے باہر آجانے کے راستے ڈھونڈ لیتی ہے۔ اِس کو کہیں نہ کہیں ضرور ’نکلنا‘ ہے! یہاں اگر انسان اپنے اصل معبود کو ٹھیک ٹھیک نہ پہچانتا ہو تو کوئی اور ہستی یا اورچیز اِس کو معبود سے بڑھ کر یا اُس جتنی اچھی لگنے لگے گی، کسی اور چیز کی عظمت اور سطوت ا ِس کو اپنا اسیر کرلے گی اوراﷲ سے بڑھ کر خوفزدہ کرے گی۔ یو ں یہ اﷲ کو چھوڑ کر یا اﷲ کے ساتھ ایک اس کی بھی کچھ بندگی کرنے لگے گا، چاہے وہ اِس بات کا شعور نہ بھی رکھے اور چاہے وہ اِسے بندگی کا نام دینے تک کا روادار نہ ہو، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ رہے گی....
اِس شرک کا سبب پھر یہی تو ہوا کہ یہ خالق کی پہچان سے کورا اور تہی دامن رہا ۔ بس یو ں سمجھو کہ صاف ستھری اور پاکیزہ غذا پا س ہو مگر کورپن کی وجہ سے دکھائی نہ دے تو آدمی کوڑے کے ڈھیر سے بھوک مٹانے لگے ۔ بھوک تو بھوک ہے اور انسان کو ضرور لگتی ہے! پیٹ میں ’کچھ‘ بھی پڑجائے تو ذرا دیر کے لیے سہار ا ہو ہی جاتا ہے !مگر غلاظت کھا کھا کر کوئی اسی کا رسیا ہوجائے تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انسان کی بو کی حس مرجاتی ہے۔ تب گندگی اور پاکیزگی اس کے حساب سے ایک برابر ہوتی ہے ۔ بلکہ کسی دوسرے کی نسبت اس کو اپنا ہی ’ذوق‘ بہتر لگتا ہے! چنانچہ اسلام صرف یہ نہیں کہ آدمی شرک کی غلاظت سے بچے اور توحید کی پاکیزگی اختیار کرلے ۔ بلکہ پورا اسلام یہ ہے کہ آدمی غلیظ لوگوں سے ہی دور رہے اور پاکیزگی پسندوں میں صبح و شام اپنا نام لکھوائے۔ ان میں مل کر ایک ’جتھا‘ بنے، اور پاکیزگی کا ہی ایک ’ماحول‘ اور ایک ’دنیا‘ تعمیر کرنے میں مگن ہو:
إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ(1)
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنيَانٌ مَّرْصُوصٌ(2)
اس’ مشرکوں سے براءت‘ میں ’ شرک سے اجتناب‘ خود بخود آ جاتا ہے۔ اسی لیے قرآن اس پر بے انتہا زور دیتا ہے اور ابراہیمؑ کاتعارف ماکان من المشرکین کہہ کر کراتا ہے ’کہ وہ مشرکوں سے الگ تھلگ رہنے والا تھا‘
چنانچہ شرک یا مشرکوں سے قربت کا باعث یا تو ”خالق کی پہچان“ سے محرومی ہو سکتی ہے اور یا پھر ”بندگی کی حقیقت“ سے نا آشنائی ۔
آدمی اپنے فعل کا مطلب نہ جانتا ہو تو اس کو کیا معلوم کہ وہ کسی کی بندگی کررہاہے یا اپنا کوئی روزمرہ کا کام! خصوصا ’عبادت‘ اگر وہ ’مذہب‘ اور ’دھرم‘ کے چند مخصوص افعال ہی میں محدود سمجھ لے اور عبادت کے بہت سے کام عبادت نہ جان کر غیر اﷲ کے لیے کرتا رہے(3) ....تو چاہے لاکھ وہ اﷲ کی حمد اور تسبیح اور رکوع و سجود کا قائل رہے اس کی بدبختی کے لیے یہ بھی کافی ہے۔ اس صورت میں بھی و ہ شرک کا مرتکب ہوسکتا ہے اور مشرکوں کا ساتھی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس بدبختی سے بچنے کے لیے اور ابدی سعادت کے حصول کی خاطر ”بندگی کا مطلب“ جاننا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ”معبود کا تعارف“!
چنانچہ اب ہمارے پاس تین چیزیں ہوگئیں : اﷲ کا تعارف۔ بندگی کی حقیقت۔ اور شرک و مشرکین سے برأت ۔
یہ تین باتیں اتنی عظیم الشان ہیں کہ بس یہی سکھانے کے لیے آسمان سے کتابیں نازل ہوتی رہیں اور پے درپے رسول مبعوث ہوئے ۔ یہی باتیں ہر دور میں اہل حق کی دعوت کا بنیادی مضمون رہیں اور یہی انکی ساری محنت اور جد و جہد کا اصل محور ۔ یہی انکی بار بار کی تکرار کا موضوع تھا۔ اسی بات پر ہمیشہ انبیاءو صدیقین اور شہداءو صالحین نے دنیا سے جنگ کی اور اسی پر صلح(4)۔ صرف اسی پر انکی دوستی ہوئی اور اسی پر دشمنی ۔ اسی پر جینے کی تمنا ہوئی اور اسی پر مرنے اور جان دینے کی آرزو ۔ ایسا ہو بھی کیوں نہ ، اس پر تو جنت او رجہنم کے فیصلے کا مدار ہے! آیئے ذرا اس پر غور کریں کہ اس مسئلہ پر اتنا زور کیو ں دیا گیا اور رسولوں اور کتابوں کا یہی اصل موضوع کیونکر ہے ....
کہنے کو کہا جاسکتا ہے کہ یہ باتیں جنہیں ہم دینِ توحید کا نام دیتے ہیں گنتی کے چندجملوں میں بیا ن ہوسکتی ہیں ۔ پھر اسکے لیے اتنے لمبے چوڑے بیان کی کیا ضرورت تھی؟ !یہ باتیں تو ایک معمولی ادیب بھی ایک آدھ صفحے پر سمیٹ سکتا ہے پھر اس پر طوالت اختیار کرنے میں رب العالمین کی آخر کیا حکمت ہوسکتی تھی؟! رسولوں اور نبیوں کو برسوں بلکہ صدیوں اس پر جان کھپانے کی کیا احتیاج ہوسکتی ہے؟! ضرور قرآن کا اصل موضوع کوئی اور ہے آسمانی صحیفوں کا مقصد کچھ اس سے بڑھ کر ہے اور رسولوں کی طویل محنت اور جہاد کا موضوع بھی اس سے زیادہ طویل و عریض اور پر مغز و دقیق ہے؟! اور یہ بھی کہ اس توحید کی ضرورت اور اہمیت بجا، مگر اس کے سوا اور بھی تو زمانے میں غم ہوسکتے ہیں جن کا علاج بھی ایک انبیاءہی کا فرض تھا،پھر یہ کےسے ہوسکتا ہے کہ انبیاءنے ایک شرک کے سوا دنیا کے اور کسی غم کا حال نہ پوچھا ہویا انسانیت کا کوئی دکھ مداوا کئے بغیر چھوڑدیا ہو؟!
مگر سوال یہ ہے کہ دنیا میں کونسی دعوت ایسی ہے جو چند لفظوں میں بیان نہ ہوسکتی ہو ؟ انسانیت کاکونسا ’بنیادی‘ مسئلہ ایسا ہے جو ایک صفحے میں عرض نہ کیا جاسکے؟ کونسا ازم کونسا فلسفہ کونسا دین کونسا فرقہ یا کونسی جماعت اور تحریک دنیا میں ایسی ہے جس کا مدعا چند جملوں میں نہ آجاتا ہو؟ پھر اتنا لٹریچر اتنی کتابیں اتنے پرچے اور رسالے اتنی تقریریں کانفرنسیں ، جلسے اور جلوس آخر کس موضوع پر ہوجایا کرتے ہیں ؟ اور کیا اتنا کچھ لکھنے اور بولنے کے لیے اسے ’تبدیلیِ موضوع‘ کی ضرورت پڑجایا کرتی ہے یا پھر یہ ساراجوش اسی ایک ’بنیادی موضوع‘ کا مرہون منت ہوتا ہے ؟؟؟ پھر جن ادیبوں اور شاعروں کی قادرالکلامی پر دنیا کو بڑا ناز ہے انہی کو لے لیجئے، یہ شمع اور پروانے کی کہانی کو بھلا کتنے لفظ چاہئیں!؟ رخِ یا ر کی حکایت کتنی طویل ہونی چاہیے!؟ محبوب کا روٹھ جانا یاروٹھ کر مان جانا کتنا وسیع موضوع ہوسکتا ہے!؟ یہ وصل اور ہجر کی داستان کو کتنے صفحے درکار ہیں!؟ رقیب یا ناصح کے کرتوت بتانے میں کتنا وقت لگتا ہے!؟ پھر یہ شاعری کے طویل و عریض دیوان آخر کن باتوں سے بھر ے ہیں ، جبکہ خیال یہ ہو جو کہ غلط بھی نہیں کہ بڑے بڑے شاعر دریا کو کوزے میں بند کرتے ہیں!؟اور دیکھ لیجئے، یہ ’وطن کے نغمے‘ دنیا میں کبھی ختم کیوں نہیں ہوتے !؟ اخباروں اور رسالوں اور سیاستدانوں کی تقریروں میں ’قومی ترقی‘ کی گردان رکنے میں کیوں نہیں آتی !؟ غربت اور افلاس کا رونا تھم کیوں نہیں جاتا!؟ ظلم اور استحصال کی داستان کا ایک بار خلاصہ کرکے چھوڑ کیوں نہیں دیا جاتا!؟ آزادی کی خوشی کبھی پرانی کیوں نہیں ہوتی! ؟ مٹی میں دفن انسانو ں کے مناقب اور انکے لیے زندہ و پائندہ باد کے نعرے فرسودہ کیوں نہیں ہوجاتے !؟ بر س ہا برس تک قومی تقریبات پر جو کچھ لکھا اور کہا جاتا ہے اور موجودہ دور میں ’قومی نظریے‘ پر کسی ملک کے اندر جو جو کچھ چھپتا اور اداروں میں پڑھایا جاتا ہے اس کی تلخیص کرنے پر آئیں تو آخر کتنے صفحوں کی ضرورت پڑے گی!؟
بات یہ ہے کہ حقائق الفاظ سے بہت بڑے ہوتے ہیں ۔ یو ں کہیں کہ الفاظ حقائق کا احاطہ کرنے کے لیے ہوتے ہی نہیں ۔ وہ صرف حقائق کی جانب انسان کی توجہ مبذول کراتے ہیں ۔ اس لیے انسان جب کسی حقیقت پر ایما ن لے آتا ہے یعنی وہ حقیقت اس کے دل میں اترتی ہے تو پھر ’الفاظ‘ سے اسکی تسلی نہیں ہوتی!تب وہ بار بار وہی الفاظ بولتا اور ’تکرار‘ سے اسکی کمی دور کرتا ہے۔ پیرائے بدل بدل کر وہی ایک بات کرتا ہے۔ کچھ دیر ٹھہر لیتا ہے تو پھر وہی بات کرتا ہے ۔ اِدھر اُدھر کی کوئی بات کرلے تو واپس پھر وہیں لوٹ آتا ہے۔ کسی اور کو اس سے لاکھ بوریت ہو مگر وہ اسی بات میں لطف لیتا ہے۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں ہر آدمی ہر گروہ اور ہر قوم کو غور کرتے رہنا چاہیے کہ وہ کونسی بات ہے جسے بار بار کرنے میں اسے لطف آتا ہے اور جس کی تکرار میں ہی اس کو راحت اور سکون ملتا ہے ۔ یہی چیز دراصل اسکا ’دین‘ ہوا کرتی ہے۔
رب العالمین نے بھی چونکہ اپنے کلام میں انسان سے انسان کی زبان میں خطاب فرمایا ہے اس لیے انسان کی اس ضرورت کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے۔ اس نے پورے قرآن میں اپنی صفات کا تعارف، اپنی بندگی کی حقیقت ،اور اپنی واحدانیت کا ذکر یو ں پھیلا دیا کہ آپ کوئی صفحہ کھولیں یہی با ت آپکو نئے سے نئے اور عمد ہ سے عمدہ پیرائے میں ملے گی اور صبح بہار سے تازہ اور روئے آفتاب سے روشن تر لگے گی! یہ دل نشین بات اس نے قرآن کے ہر قصے ، واقعے اور مسائل واحکام کے ہر حکم ، ہر مسئلے اور آیت میں یوں سمو دی ہے کہ آپ اس کی ہر بات کے پس منظر میں یہی بات دیکھیں گے۔ یو ں آپکو بس قرآن پڑھنے کی ضرورت ہے، آپ سے آپ بندگی کی حقیقت آپ میں رچ بس جائے گی! اﷲ کی عظمت خود بخود آپکے دل میں گھر کرلے گی او ر اسکی ہمسری آپکو دنیا میں سب سے بڑی برائی اور انسانیت کا سب سے سنگین جرم نظر آئے گا! قرآن کی ترجیحات جس بے ساختگی سے آپکی ترجیحات بنیں گی اسی نسبت سے آپکا دین، اسلام ہوتا جائےگا! تب آپ دین کی کوئی بات کریں گے اس کے اندر سے قرآن کی یہی حقیقت صاف جھلکتی دکھائی دے گی۔ مگر یہ نعمت اﷲ سے طلب کرنی پڑتی ہے ورنہ قرآن سے سوائے اس ایک چیزکے سب کچھ ملتا ہے.... خوش قسمت ہے وہ جو قران سے قرآن کا مضمون پڑھ لے!!!
شَهِدَ اللّهُ أَنَّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلاَئِكَةُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ قَآئِمَاً بِالْقِسْطِ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ (آل عمران 18۔19)
”اﷲ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ ایک اس کے سوا کوئی الہ کوئی بندگی کے لائق نہیں __ پوری راستی اور انصا ف کے ساتھ__ اس پر سب فرشتے گواہ ہیں اور علم رکھنے والی تو ہرہر ہستی یہی شہادت دیتی ہے کہ ایک اس زبردست قوت اور حکمت والے اللہ کے سوا فی الواقع کوئی الہ کوئی بندگی کے لائق نہیں ۔ اﷲ کے نزدیک تو دین یہی اسلا م(5) ہے“
اس آیت میں آپ نے"أُوْلُواْ الْعِلْمِ“ کے الفاظ پر غور فرمایا؟! یعنی اصل علم کی بات یہی ہے کہ آدمی اس لاالہ الااﷲ کی شہادت دے ، اور صحیح صحیح شہادت دے، قَآئِمَاً بِالْقِسْطِ۔ اﷲ کے لیے اس کی بندگی اور پرستش کا بار بار اثبات کرے اور غیر اﷲ سے بار بار اسکا نفی و انکار.... ہر انداز ہر پیرائے میں کرے، ’دل‘ سے کرے، ’زبان‘ سے کرے اور ’عمل‘ کے ہر ہر پہلو سے کرے.... یہ اس سے بطورِ فر د بھی مطلوب ہے اور بطور جماعت اورتحریک بھی! بطور کنبہ بھی مطلوب ہے اور بطور قوم، ملک، سلطنت بھی! اس کے سوا کچھ بھی مطلوب ہے تو اِسی کی نسبت اور اِسی کے حوالے سے مطلوب ہے۔ فرشتوں اور علم والی ہستیوں کا بھی یہی مطلوب ومقصودہے۔ وجود میں ہر چیز کا یہی منتہائے علم وسعی ہے .... حقیقی علم ہے ہی صرف یہ، جسے لا الہ الااﷲ کے چند لفظوں میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ باقی سب اس کی تفسیر ہے ! پوراد ین اسی ایک کلمہ کی وضاحت اور اسی کی تفصیل ہے!!!انبیاء آئے تو اسی لئے۔ خلق وجود میں آئی تو اسی کی خاطر۔ میزان نصب ہوں گے تو اسی کی بنیاد پر۔ عملوں میں جان ہوگی تو اسی کے دم سے۔ دوزخ اور بہشت کے دائمی جہان بسیں گے تواسی اساس پر۔ پھر یہ انسان کیا ہے اور یہ ملک اور معاشرے کیا چیز ہیں ، جو اِن کی زندگی اس کلمہ کی تعبیر نہ ہو؟؟؟!!!
اس دین کی روشنی میں .... اﷲ کی کتاب اور رسول کی سنت کی پیروی .... اور سلفِ امت کے انداز میں .... اس لا الہ الااﷲ کی تفسیر ہوتی رہنا ضروری ہے۔ ہر دل کا حال ضرور دوسرے سے مختلف ہے، ہر شخص کی حالت ضرور دوسرے سے جدا ہے، ہر دور کے مسائل مختلف ہوتے ہیں ، ہر ملک ہر زمانے کے بت الگ ہوتے ہیں ، مگر اس لا الہ الااﷲ کی تفسیر ہر جگہ ہر دور ہر ملک میں ہونا ضروری ہے ۔ اﷲ کی بندگی ہر حال میں ہرشکل ہر انداز میں ہونا ضروری ہے ۔ طاغوتوں سے اس حق کی نفی و انکار ہر حال میں ہر شکل ہر انداز میں ہونا ضروری ہے ....
اﷲ کے رسول ﷺ جب بھی نماز سے سلام پھیرتے، ان کلمات کی پکار لگاتے:
لاالہ الا اﷲ وحدہ، لاشریک لہ، لہ الملک، و لہ الحمد ، وھو علی کل شیءقدیر، لا حول ولا قوۃ الاباﷲ، لا الہ الا اﷲ، ولا نعبد الا ایاہ، لہ النعمۃ، ولہ الفضل، ولہ الثناءالحسن، لا الہ الا اللہ، مخلصین لہ الدین، ولوکر ہ الکافرون۔ ( رواہ مسلم عن عبداﷲ بن الزبیر عن النبی، ودیگر)
”نہیں ہرگز کوئی بندگی اور پرستش کے لائق مگر ایک اللہ۔ وہ وحدہ لاشریک ہے۔ بادشاہی ایک اسی کی۔ حمد و تعریف صر ف اسی کی۔ وہی ہے جو ہر چیز پہ قبضۂ قدرت رکھے ہوئے ہے ۔ کوئی زورنہیں کوئی طاقت نہیں اس سے مدد پائے بغیر ۔ خدائی کسی کی ہے نہیں اُس ایک کے سوا۔ ہم پوجیں گے تو صرف اُسی کو۔ نعمتیں صرف اُس کی، فضل صرف اس کا، ستائش کے سب خوبصورت پیرائے اس کے لئے، ’نہیں ہرگز کوئی بندگی اور پرستش کے لائق مگر ایک اللہ، خالص ترین بندگی ہم اسی کیلئے مخصوص کرتے ہیں .... چاہے کافروں کو یہ سب کتنا ہی برالگے “
یہ کام، یعنی لا الہ الا اﷲ کی عملی تفسیر، جو کہ زندگی کا مقصد ہے اور نجات کا آسرا، بہت عظیم ہے اور نہایت بلند مرتبت۔ اس پر آدمی اﷲ ہی سے مدد طلب کر سکتا ہے۔ بلکہ کرتا تو ہے حضور قلب اور شعور کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اہدنا الصراط المستقیم۔ یہ آدمی کا ورد تو ہونا ہی چاہیے مگر اس کی سمجھ اور یاد دہانی کےلئے اور دین کی حقیقت معلوم کرنے اور اسے بار بار ذھنوں میں تازہ کرنے کےلئے مل بےٹھتے رہنا بھی سلف کی سنت ہے....
مل بیٹھنے کو عربی میں مجلس کہا جاتا ہے اور یاد دہانی کو ذکر یا تذکیر۔ مجالسِ ذکر کا تذکرہ آپ اکثر حدیث کی کتب میں پڑھتے ہوں گے۔ جبکہ اﷲ کے رسولﷺ کہتے ہیں کہ افضل الذکر لا الہ الا اﷲ، یعنی وہ حقیقت جس کا تذکرہ واعادہ انسان کے حق میں برگزیدہ ترین ہے اور جس کو قلب وذہن میں تازہ رکھنا اور زبان اور بیان کی زینت بنائے رکھنا مالک کی نگاہ میں اعلیٰ ترین ہے اور جس کے مضمون کی گونج ہر دم سنائی دیتی رہنا انسانی دنیا کے اندر نہایت عظیم سرگرمی ہے اور جس کا واسطہ دے کر اس کائنات کے خالق اور فرماں روا کو آواز دینا مؤثر ترین ہے، وہ ہے یہ ’حقیقت‘ اور یہ ’ورد‘ اور یہ ’مضمون‘ کہ: ”نہیں ہرگز کوئی بندگی اور پرستش کے لائق مگر ایک اللہ“....!!!
خوش نصیب ہے وہ فرد جس کا خلوت و جلوت کا یہی موضوع ہو جائے.... سرخ رو ہے وہ گروہ، وہ تحریک، وہ معاشرہ اور وہ ملک جس کے مضامین میں سرفہرست بات اور اس کا سب سے اہم مقدمہ جو دنیا کو سننے کو ملے وہ یہی ہو: ”نہیں ہرگز کوئی بندگی اور پرستش کے لائق مگر ایک اللہ“....!!!
(1) البقرۃ 222 ”اﷲ کووہ لوگ پسند ہیں جو توبہ کرتے رہنے والے ہوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والے"
(2) الصف4"اﷲ کو وہی لوگ پسند ہیں جو ایک صف بن کر اسکے راستے میں لڑتے ہیں گو یا وہ کوئی سیسہ پلائی عمارت ہیں"
(3) جیسا کہ عدی ؓ بن حاتم کے بیان کے مطابق (مسند احمد) بہت سے نصار یٰ کو معلوم نہ تھا کہ کسی سے حلال اور حرام کے پیما نے لینا اس کی عبادت کرنا ہے جیسا کہ آج بہت سوں کو معلوم نہیں کہ کسی کا قانون تسلیم کرنا دراصل اسکی عبادت ہے
(4) لفظ صلح سے یہاں ہماری مراد ”ھدنہ“ یا دوطرفہ طور پر طے شدہ وقتی جنگ بندی (Temporary Ceasfire)نہیں بلکہ قرب و اپنائیت اور دوستانہ بقائے باہمی ہے ۔
(5) إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ.... آیت میں اسلام پر’ ال‘ اگر استغراق کا لیا جائے تو مفہوم ہو گا ”اﷲ کے نزدےک جو دین ہے وہ تو ہے پورا اسلام“ یا یہ کہ ” اﷲ کے نزدیک جو دین ہے وہ تو ہے پورا پورا جھک جانا“ اور اگر یہ ’ال‘ عہد کےلئے ہو تو مفہوم ہو گا ” اﷲ کے نزدےک دین تو یہی اسلام ہے“ یا یہ کہ ” اﷲ کے نزدیک دین تو ایسا ہی جھک جانا ہے“ اس صورت میں پہلی آیت کو ساتھ ملا کر مراد ہو گی :”اﷲ کے نزدیک تو دین صرف ایسا ہی اسلام ہے یا ایسا ہی جھک جانا ہے جو اس لا الہ الا اﷲ کی عملی شہادت ہو “یا یہ کہ ”یہ لا الہ الا اﷲ ہی اصل اسلام ہے“ کیونکہ پہلی آیت میں یہ کلمہ دو بار پے در پے گزرا ہے۔