تعمیرِ اساس! | |
(استفادہ از الوابل الصیب، مؤلفہ ابن القیم) |
عمارت بہت اونچی لے جانا چاہتے ہو تو بنیاد بہت پختہ کر لو....
’اعمال‘ اور ’فضائل ودرجات‘ ایک عمارت ہیں تو ’ایمان‘ اس کی اساس۔ بنیاد مضبوط ہو تو عمارت جتنی مرضی اونچی اٹھا لو! پیروں میں جان ہے تو بوجھ جتنا مرضی لاد دو!
بالائی عمارت کا کوئی حصہ منہدم بھی ہو جائے تو اس کی تلافی اور اس کی بحالی کچھ اتنی دشوار نہیں ۔ البتہ بنیاد کا کوئی کمزور حصہ ڈھ جائے تو پوری عمارت ہی زمین پر آرہتی ہے۔
پس جو شخص درحقیقت عارف ہے اس کی کل توجہ بنیاد مضبوط کرنے پر رہتی ہے اور اس کی ہمت اور محنت کا بڑا حصہ ’عمارت‘ کے اسی زیریں حصہ پر صرف ہوتا ہے۔ تب جوں جوں اوپر کے حصہ کا ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے، نہایت شاندار شکل سامنے آنے لگتی ہے!
البتہ ایک جاہل شخص دیواریں اونچی کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ بنیادوں پر عرصے لگا دینا اس کو بڑا ہی عجیب لگتا ہے! اس کی عمارت آئے دن کہیں نہ کہیں سے گری ہوتی ہے، پھر بھی یہ اس کو اوپر سے اوپر اٹھانے ہی کیلئے پریشان رہتا ہے!
عمارت کی بنیاد ایک پوری ریجھ کے ساتھ اٹھانا، غور کیا جائے تو قرآنی ہدایت ہے، نبوی طریقِ عمل اور ایک کارِ حکیمانہ:
أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَم مَّنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىَ شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ(التوبۃ: 109)
”بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے تقویٰ اور اُس کی رضا مندی پر رکھی وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد، گر جانے والی کھائی کے کنارے پر رکھی کہ وہ اُس کو دوزخ کی آگ میں لے گری؟“
’بنیاد‘ اور ’عمارت‘ کا ایک لحاظ سے وہی تعلق ہے جو ’قوت‘ اور ’بدن‘ کا۔ زیادہ قوت ہو تو وہ ایک بدن کو پھرتی کے ساتھ اٹھائے پھرتی ہے۔ صرف یہی نہیں ، وہ بدن سے ہزار آفتیں بھی دفع کر رکھتی ہے۔ ناتوانی ہو تو بھاری جسم نرا عذاب ہے۔ پھر،ہر آفت جب آتی ہے تو ایسے ہی جسم کو اپنے لئے بہترین آماج گاہ پاتی ہے!
پس لازم ہے کہ تم اپنی ساری عمارت ’ایمان‘ کی بنیاد پر ہی اٹھاؤ۔ عمارت کی توسیعات میں کوئی خرابی نکل بھی آئے، یا کوئی چیز بس سے باہر بھی ہونے لگے تو بالائی حصہ میں اس کا تدارک کر لینا ’بنیاد‘ کی مرمت کرانے کی نسبت کہیں آسان ہوگا!
بنیاد ڈالنے کا کام دو حصوں پر مشتمل ہے:
پہلا: صحیح معرفت اور واقفیت پانا: اللہ کی، اللہ کے دین اور مشن کی، اور اُس کے اسماءاور صفات کی،
دوسرا: اخلاص اور یکسوئی پانا اللہ اور اس کے رسول کیلئے انقیاد اور تابعداری کے اندر، اس کے ماسوا ہر چیز سے مکمل دامن کش رہتے ہوئے۔
یہ دونوں خوب محنت کے کام ہیں ، جو اگر ہوجائیں تو سمجھو تمہاری بنیاد تیار ہے اور تم اس پر جتنی اونچی چاہو اپنے عمل کی بنیاد اٹھا لو۔
ابتداءکے اندر بھی، اور پھر آگے چل کر بھی جیسے جیسے کام بڑھے، سب سے زیادہ توجہ اسی پر دینا ہوگی کہ جس قدر توسیع ہورہی ہے اس کا ’بنیاد‘ سے رشتہ کتنا مضبوط ہے؟ اس میں قوت اور مضبوطی کا کیا معیار رکھا گیا ہے؟ اور اگر کوئی ایسے عوامل پائے جارہے ہیں جو کہیں کمزوری اور بودا پن لے آنے کا باعث بنیں گے اور عمارت کے کسی حصے کی، بنیاد سے پیوستگی کو یقینی نہ رہنے دیں گے، تو ان کے ازالے کی کیا صورت ہے؟ بے شک کہیں پر بوجھ ہلکا کرنا پڑے، مگر اس بات کا روادار کبھی مت ہونا کہ ایک ایسی عمارت کے مالک کہلاؤ جس کا کوئی بھروسہ نہیں !
بعینہ ویسے ہی جیسے قوت اور بدن کا معاملہ ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آدمی کی ’صحت کیسی ہے‘ نہ کہ ’جثہ کتنا ہے‘! چستی، پھرتی اور حصولِ مقاصد جسم کا اصل مطلوب ہے نہ کہ وزن کا بھاری بھرکم ہونا! خون سے بڑھ کر جسم کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے، مگر وہ بھی صاف ستھرا اور صالح مواد پہ مشتمل ہو تو ہی۔ خون پورے جسم میں زندگی بن کر دوڑتا ہے تو خون ہی سب سے بڑھ کر مرض بردار خاصیت بھی رکھتا ہے۔
کوئی جسم اگر دن بدن بے جان ہوتا جارہا ہے، مگر ’وزن‘ تیزی سے بڑھنے لگ گیا ہے، ’فاسد مادے‘ نہایت تیزی کے ساتھ سرایت کرنے لگے ہیں اور ان کے اخراج کی کوئی صورت اختیار نہیں کی جارہی، تو وجود کا یہ پھیلاؤ امید افزا ہرگز نہیں بلکہ خوفناک اور تشویش ناک ہے!
کسی وقت جسم کو غذا چاہیے تو کسی وقت فصد اور استفراغ تو کسی وقت فاقہ اور بھوک تو کسی وقت ریاضت! اصل مطلوب جسم کا کارآمد ہونا ہے نہ کہ سیر اور فربہ ہونا!
دھیما چلو مگر کہیں پہنچو سہی! میانہ روی ہی دور دراز کی مسافتوں کو طے کر لینے کی کامیاب ترین حکمت عملی ہے!
٭٭٭٭٭
جیسے جیسے ’عمارت‘ بنتی جائے، ویسے ویسے مکارمِ اخلاق اور مخلوق کے ساتھ حسنِ معاملہ کا خوش نظر رنگ بھی اِس پر کرتے جاؤ۔ پرہیزگاری کی ایک فصیل بھی ساتھ ہی اس کے ارد گرد کھڑی کرنا ہوگی، دشمن بہت ہیں اور روز نقب لگانے آئیں گے! باہر سے نظر اندر نہ پڑے، اس کا بھی انتظام کرنا ہوگا، دروازوں کھڑکیوں پر کئی طرح کے ’پردے‘ درکار ہوں گے! سب سے اہم ’مرکزی پھاٹک‘ ہے، اس پر بڑا سا ’خاموشی‘ کاتالہ لگا رکھنا ہوگا، جو ضرورت کے وقت ہی کھلے! ہر اس چیز سے جس کے انجام کے معاملے میں تم مطمئن نہیں ، اس کا گزر یہاں سے بند رکھنا ہوگا۔ اس قفل کیلئے ایک کنجی بنوا کر پاس رکھنا ہوگی جو ذکر اللہ سے کھلے اور ذکر اللہ سے بند ہو!
اب تمہارا پورا ایک قلعہ تیار ہے۔ قلعہ بغیر پہرے اور سپاہ کے نہیں ہوتا۔ فصیل بھی ہے تو وہ اس لئے کہ دشمن بغیر کسی رکاوٹ کے اندر گھستا چلا نہ آئے۔ البتہ یہاں کماندار کھڑے نہ کر رکھے جائیں تو دشمن کی راہ میں اکیلی فصیل بڑی دیر رکاوٹ بنی نہیں رہ سکتی! دشمن کو ہر حال میں فصیل سے پرے رکھنا ہر اہم کام سے بڑھ کر اہم ہے۔
خدانخواستہ، کسی کوتاہی کے باعث دشمن کو اندر آنے کا موقعہ دے دیا گیا تو اس کو دھکیل باہر کرنا پھر بے حد مشکل ہوگا۔ اس صورت میں یا وہ کوشش کرے گا کہ تم پر قابو پاکر رہے اور یہاں اسی کی مطلق العنانی چلے۔ یا پھر، اگر وہ اتنی قوت نہیں پاتا تو اختیارات میں یہاں تمہارا حصہ دار بن کر رہے۔ یا پھر وہ تمہیں ہر وقت کی جھڑپوں میں یوں الجھا کر رکھے کہ تم اپنے بہت سے مصالح کیلئے وقت، گنجائش اور یکسوئی نہ پاسکو۔
پس ہر دم خبردار رہو، کسی ایک وقت کی کوتاہی نہایت دور رس اثرات کے حامل واقعات کے ایک پورے سلسلے کو جنم دے سکتی ہے! یہاں تک کہ ایک بنی بنائی عمارت ملیامیٹ بھی ہوسکتی ہے!
(استفادہ: از الفوائد، مؤلفہ ابن القیمؒ، ص 156)