عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Sunday, November 24,2024 | 1446, جُمادى الأولى 21
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
EmanKaSabaq آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
قلوب کی دنیا
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

قلوب کی دنیا!

 

 

 

ظاہری حسن پر جانا، ایک عام انسانی رویہ ہے۔ ایک کثیر تعداد ’مظاہر‘ سے ہی وابستہ ہوتی ہے، متاثر ’ہونے‘ کے معاملہ میں بھی، اور متاثر ’کرنے‘ کے معاملہ میں بھی۔ تھوڑے ہیں جو ’ظاہر‘ سے آگے گزر جانا لازم رکھیں۔ ابھی یہ دنیوی معاملات میں ہے۔ عجیب یہ ہے کہ ’دین‘ میں بھی ایک بڑی تعداد کی توجہ ’مظاہر‘ پر رہتی ہے!

دین میں ’مظاہر‘ یقینا مطلوب ہیں اور دین کا باقاعدہ حصہ ہیں، اور ان کی اہمیت کا انکار کرنے والا ایک گمراہ اور زندیق ہی ہوسکتا ہے.... پھر بھی ”دین“ میں اصل چیز ’مظاہر‘ نہیں۔ جس طرح ’درخت‘ سطحِ زمین پر ’چپکائے‘ نہیں جاتے؛ ان کے لئے زمین کے اندر، بہت نیچے تک، بڑی ہی مضبوط تناور جڑیں رکھنا ضروری ہوتا ہے.... عین اسی طرح ’اعمال‘ بھی ’قلوب‘ کی سرزمین میں جڑیں گاڑے ہوتے ہیں اور اپنے وجود، اپنی غذا، اپنی بقاءاور اپنی نمو کیلئے وہیں پر سہارا کرتے ہیں۔ مگر بہت کم ہیں جن کا زور ’ظاہری اعمال‘ سے بڑھ کر ’قلوب کی تعمیر‘ پر ہو۔

جس قدر کوئی کام انسان کے حق میں زیادہ فائدہ مند اور خدا کو زیادہ پسند ہوگا، اسی قدر شیطان اس میں رکاوٹ بن کر آئے گا۔ آدمی کا مطلوب جس قدر عظیم ہو، اتنی ہی دشواریاں اس کی راہ میں لائی جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے مشکل اور سب سے نادر، یہاں جنت کی مانگ ہے؛ جس کی راہ مشکلات سے سجا دی گئی ہے، کہ ہزار میں سے کوئی ایک ہو جو اِنہیں پار کر کے اپنی اُس منزلِ مراد پہ جا پہنچے!

چنانچہ شیطان انسان کے جس راستے میں سب سے زیادہ جم کر بیٹھتا ہے اور اس کو یہاں سے راستہ دینے پر کسی صورت تیار نہیں، سوائے یہ کہ انسان یہاں خدا کو آواز دے اور اُس کی مدد سے یہ راہ پار کرے.... یہ ’قلب کی ترقی و اصلاح‘ ہی ہے؛ جو اگر حاصل ہونے لگے تو ’اعمال‘ کے پھر کیا کہنے! انسان کی مساعیِ آخرت تب ایک ایسا حسن پاتی ہے کہ ’قبولیت‘ کے دروازے کھل جاتے ہیں!

خدا نے بھی تخلیقِ کائنات اور پھر اس کے اندر موت وحیات کا یہ سلسلہ قائم کر رکھا ہے تو وہ کچھ اسی مقصد سے کہ انسان سے یہ جوہر برآمد ہو:

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَۃ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ(الملک: 2)

”اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون حسنِ عمل میں سب سے بہتر رہتا ہے اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے“

تو پھر ہم خدا سے اُس کی توفیق مانگتے ہوئے، اس موضوع کو ذرا تفصیل سے جاننے کی کوشش کریں گے..

خدا کی نگاہ پڑنے کی اصل جگہ ’قلوب‘ ہی ہیں:

ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں، کہا: فرمایا رسول اللہ ﷺ نے:

اِن اللہ تعالیٰ لا ینظر اِلیٰ صورکم و اَموالکم، ولکن ینظر اِلیٰ قلوبکم و اَعمالکم ”اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے اور نہ تمہارے مالوں کو؛ وہ دیکھتا ہے تو تمہارے دلوں کو اور تمہارے عملوں کو“ (صحیح مسلم)

انسان کے پاس جو سب سے برگزیدہ چیز ہے وہ اس کا ’دل‘ ہے۔ یہ انسان کے اندر وہ مقام ہے جو خدا کی نگاہ پڑنے کا خاص محل ہے۔ ’ایمان‘ کو پڑاؤ کرنے کی اِس کے یہاں کوئی جگہ ملتی ہے تو وہ عین یہی ہے۔ یہیں پر ایمان اپنا عمل کرتا ہے اور یہیں سے اپنے نتائج برآمد کراتا ہے۔ ایمان ہوتا ہے تو ’یہاں‘ ہوتا ہے، نہیں ہوتا تو ’یہاں‘ نہیں ہوتا!!! کہ اس کا گھر یہی ہے!!! کسی کو یہ احساس نصیب ہو کہ خدا اس کو دیکھے تو وہ خدا کی نگاہ میں خوب جچے.. کسی کو خدا کو ’پسند‘ آنے کی فکر دامن گیر ہو، تو اس کو اپنا آپ سب سے زیادہ ’یہیں‘ سنوارنا ہوگا۔ جس طرح کسی آئے گئے کا سامنا کرنے سے پہلے انسان اپنا آپ ’درست‘ کرتا ہے، ویسے ہی خدا کی نظر پانے کیلئے آدمی کو یہیں پر سب سے زیادہ صفائی ستھرائی کر کے رکھنا ہوتی ہے۔ حسن، جمال، زینت، خوشبو.... سب کا بندوبست یہیں پر سب سے بڑھ کر ضروری ہے!اِس کو توبہ سے دھوئے۔ استغفار سے مانجھے۔ انابت کی ردا پہنائے۔ توحید سے آراستہ کرے۔ جہاد و عزم الامور کی عبا، خشیت کا سنگار اور محبت کا عطر .... غرض وہ ڈھونڈنے بیٹھے، اور اس جانب اس کی توجہ ہوجائے، تو زینت اور جمال کے ایسے ایسے اسباب اس کے ہاتھ آئیں گے کہ یہ رشکِ خلائق ہو جائے اور عرش پر المل اَ ال اَعلی کے مابین اس کا ذکر ہو۔ یہ کام کچھ بھی مشکل نہیں اگر خدا کی توفیق حاصل ہو!

’یہیں‘ پر آدمی کے ہاں اگر خدا کو ناپسند آنے والی چیزیں ہر طرف بکھیر رکھی گئی ہوں، اور ’پاکیزگی‘ کا ایک خاص اہتمام ’یہیں‘ پر نہ کر رکھا گیا ہو، تو خدا کی نگاہ میں جچ پانا آدمی کا خیال ہوسکتا ہے، حقیقت نہیں۔ ظاہر کی آرائش، باطن کو سنوارے کئے بغیر خدا کے ہاں کام دینے والی نہیں۔ خدا نے قرآن میں جہاں ’پوشاک‘ کا ذکر کیا، وہاں ظاہر اور باطن دونوں کے لبادے بیان کردیے:

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَىَ ذَلِكَ خَيْرٌ (الاَعراف:26)

”اے بنی آدم! ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے) اور (جو) پرہیزگاری کا لباس (ہے) وہ سب سے اچھا ہے!“

اسی طرح فرمایا: وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ (الاحزاب: 51) ”اللہ جان لیتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے“....

یہ اسی لئے تو فرمایاکہ دلوں میں کوئی چیز ہے جو خاص طور پر دیکھنے کی ہے!

تو پھر لازم ہے کہ ہر وقت آدمی کے خیال میں رہے کہ اس میں جو دیکھنے کی چیز ہے وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔

’جوارح‘ کا درست رہنا ’قلوب‘ کے درست رہنے پر منحصر ہے:

یا عبادی! لو اَن اَولکم وآخرکم، و اِنسکم وجنکم، کانوا علیٰ اَتقیٰ قلب رجل منکم، ما زاد ذلک فی مُلکی شیئاً!!! یا عبادی! لو اَن اَولکم وآخرکم، وآنسکم وجنکم، کانوا علیٰ اَفجر قلب رجل واحد منکم، ما نقص ذلک من مُلکی شیئاً!!! (صحیح مسلم)

”اے میرے بندو! تم اول تا آخر، انسان تا جن، سب کے سب کبھی دنیا کے پارسا ترین شخص جتنے نیک دل ہو جاؤ، تو اس سے میری بادشاہت ذرہ نہ بڑھے گی!!! اے میرے بندو! تم اول تا آخر، انسان تا جن، سب کے سب کبھی دنیا کے بدکار ترین شخص جتنے کوڑھ دل ہو جاؤ، تو اس سے میری بادشاہت ذرہ نہ گھٹے گی!!!

حدیث کے لفظ ہیں: کانوا علیٰ اَتقیٰ قلب رجل منکم۔۔ کانوا علیٰ اَفجر قلب رجل منکم۔۔ یہ دلیل ہوئی اس بات کی کہ پارسائی اور بدکاری کا اصل محل قلوب ہی ہیں۔ دل کو پارسائی سکھادی گئی ہو تو جوارح میں وہ آپ سے آپ جھلکنے لگے گی۔ دل میں بدکاری بیٹھی ہو تو جوارح میں وہ آپ سے آپ آئے گی۔

(استدلال از ابن رجب، جامع العلوم والحکم، ص 511- 512)

اَلا اِن فی الجسد مضغۃ، اِذا صلحت صلح الجسد کلہ، و اِذا فسدت فسد الجسد کلہ، اَلا وہی القلب۔ (متفق علیہ)

”خبردار رہو، بے شک جسم میں ایک لوتھڑا ہے جو اگر صالح ہو تو پورا جسم صالح ہوتا ہے، اور اگر وہ فاسد ہو تو پورا جسم فاسد ہوتا ہے، خبردار رہو، یہ دل ہے“۔

سو دل میں اگر خدا کی بندگی گھر کر لے۔ یہاں اگر خدا کی تعظیم ہونے لگے۔ یہاں خدا کے ساتھ ایک خاص رشتہ استوار ہوجائے.. تو آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پیر، سبھی خداکی جانب اپنا رخ کرلیں گے اور خدا کی جانب بڑھنے میں اس کے مددگار ہوں گے۔ البتہ یہاں بندگی اگر خدا کی قائم نہیں ہوتی تو اکیلے ’اعضائ‘ خدا کی کیا بندگی کریں گے!؟

من اَحب للہ، و اَبغض للہ، و اَعطیٰ للہ، ومنع للہ، فقد استکمل الاِیمان

(ابو داود، البانی نے صحیح کہا ہے)

”جو شخص اللہ کی خاطر محبت کرے، اللہ کی خاطر بغض رکھے، اللہ کی خاطر دے ، اور اللہ کی خاطر دینے سے رکے، تو اس نے ایمان پورا پا لیا“

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ: جب اِس کی محبت خدا واسطے کی ہوجائے اور اِس کا بغض خدا واسطے کا ہو جائے، جبکہ یہ دونوں دل کا عمل ہیں، اور پھر اِس کا دینا خدا واسطے کا ہوجائے اور اِس کا دینے سے رکا رہنا خدا واسطے کا ہوجائے، جبکہ یہ دونوں بدن کا عمل ہیں، تو یہ ظاہر اور باطن میں انسان کا ایمان مکمل ہونے پر دلیل ہوتی ہے!!!

(استدلال ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ، ج10 ص 754)

خدا واسطے کی محبت کیا ہے؟ یہ کہ نہ صرف خدا محبوب ہو، بلکہ خدا کو جو محبوب ہو وہ آدمی کو محبوب ہونے لگے۔ اس میں توحید آتی ہے اور موحدین بھی۔ شریعت آتی ہے اور اہل شریعت بھی۔ شریعت کے عالم، شریعت کے پیروکار ، سنت اور اہل سنت، خدا کے احکام، خدا کے ٹھہرائے ہوئے فرائض، خدا کے مستحبات، خدا کے اولیائ، خدا کے طلبگار.. غرض یہ سب انسان کے محبوب ٹھہریں!

خدا واسطے کا بغض کیا ہے؟ یہ کہ خدا کے ہاں جو مبغوض ہے وہ انسان کے ہاں مبغوض ٹھہرے۔ کفر، فسوق، عصیان.. شرک، بدعت، فساد.. اور پھر جو جو ان اوصاف سے متصف ہو اور ان کا داعی ہو، وہ آدمی کے یہاں پائے جانے والے بغض میں اپنا حصہ لئے بغیر نہ رہے!

البتہ وہ شخص جس کے محبوبات اور مبغوضات، اور جس کا دینا اور دینے سے رکا رہنا اپنے نفس کی پیروی ہو، تو یہ ایمانِ واجب کے اندر نقص شمار ہوگا۔ اِس سے بچنا بہت مشکل ہے تو اِس سے تائب ہوتے رہنا نہایت لازم۔

(استدلال ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم ج 2 ص 389)

تو بھائی! کوئی ایک لوتھڑا یہاں اگر ایسا ہے کہ اسی میں یہ سب کرشمے پائے جاتے ہیں، اور پھر انسان کی قسمت میں تیرگی آئے تو وہ بھی یہیں سے اٹھتی ہے.... تو اس ’لوتھڑے‘ کو روز ٹٹولنا اور اس کو نہایت خوب حالت میں رکھنا تو پھر بے حد ضروری ہوجاتا ہے!!!

سب سے زیادہ تغیرات یہیں پر واقع ہوتے ہیں:

مقداد بن الاسودؓ کا قول ہے: جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک بات سنی تو اب میں کسی آدمی کے بارے میں اچھا یا برا کبھی نہ کہوں جب تک یہ نہ دیکھ لوں کہ اس کا خاتمہ کس چیز پر ہوتا ہے۔ پوچھا گیا: آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کیا سنا؟ کہا: آپ ﷺ نے فرمایا: لقلب ابن آدم اَشد انقلابا من القِدر اِذا اجتمعت غلیاً ”بخدا، ابن آدم کا دل اس سے کہیں زیادہ شدت سے حالتیں بدلتا ہے جتنا کہ ہنڈیا کا ابال جب وہ پورے جوبن پر ہو“۔ (مسند احمد، البانی نے حدیث کو صحیح کہا)

ابن قیمؒ کہتے ہیں: اس حدیث میں جو مثال بیان کی گئی، معاملہ کی سنگینی کو سمجھا دینے اور صورت حال کو ذہن سے قریب تر کر دینے میں نہایت موثر اور بلیغ ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ’قلب‘ کا لفظ ہی اپنی حقیقت پر آپ دلیل ہے۔ عربی میں اس کا مطلب ہے الٹ پلٹ ہونا اور ایک حال سے دوسرے حال میں چلے جانا۔یہاں ہر دم طوفان آتے ہیں اور کہیں کی چیز کہیں لے جاتے ہیں.... خدایا خیر!!!

روایت ابو موسیٰ اشعریؓ سے، کہا: فرمایا رسول اللہ ﷺ نے:

اِن ہذا القلب کریشۃ بفلۃ من ال اَرض، یقیمہا الریح ظہرا لبطن ”یہ جو دل ہے اس کی مثال ایک پر کی ہے جو بیابان میں پڑا ہو اور ہوا اس کو الٹ پلٹ کرتی پھرے“

(مسند احمد، ابن ماجہ، البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)

ایک پر بھلا کیا وزن رکھتا ہے؟ عام سی ہوا بھی اس کو اپنی حالت پہ رہنے نہیں دیتی۔ فتنوں کی آندھیاں ہوں تو ان کے آگے بھلا وہ کیا ٹکے گا، جب تک خدا فضل نہ کرے!

فتنوں کی آماجگاہ بھی ’قلوب‘ کی سرزمین بنتی ہے:

حذیفہؓ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

تعرض الفتن علی القلوب کعرض الحصیر عودا عودا، فاَی قلب اَشربہا نکتت فیہ نکتۃ سوداء، واَی قلب اَنکرہا نکتت فیہ نکتۃ بیضاء، حتیٰ تعود القلوب علی قلبین: قلب اَسود مربادا کالکوز مجخیا لا یعرف معروفا ولا ینکر منکرا، اِلا ما اَشرب من ہواہ، وقلب اَبیض، فلا تضرہ فتنۃ ما دامت السماوات وال اَرض۔ (صحیح مسلم)

”قلوب کا فتنوں کی زد میں آنااس طرح ہے جس طرح کھجور کی چٹائی ایک ایک تنکا کر کے بنی جائے۔ جو دل فتنے کو جذب کر جائے اس میں ایک سیاہ نشان لگ جاتا ہے۔ جو دل فتنے کو پاس نہ آنے دے اس پر ایک سفید نشان لگ جاتا ہے۔ ہوتے ہوتے قلوب کا معاملہ دو طرح کا ہورہتا ہے: یا تو ایک بالکل کالا سیاہ دل، اس کوزے کی طرح جو الٹا کر دھراگیا ہو، نہ معروف اس کو معروف لگے اور نہ منکر اسے منکر لگے، سوائے انہی اہواءوافکار کے جو اس نے جذب کر رکھے ہوں.. اور یا پھر ایک نہایت سفید کورا دل، جس کا رہتی دنیا تک کوئی فتنہ کچھ نہ بگاڑ سکے“

چنانچہ فتنوں کے دلوں پر وارد ہونے کے معاملہ میں آپ نے قلوب کی دو صنفیں بیان فرمائیں:

اَلف۔۔ وہ دل کہ بدعت، باطل رجحان، عقل کی پھسلن، حق سے انحراف یا شہوت و خواہش وغیرہ کا فتنہ اس پر وارد ہو تو وہ اس فتنہ کو یوں جذب کرنے لگے جس طرح اسفنج کو میلے پانی میں ڈالیں تو وہ اس کو چوس جائے۔ ایسا دل جب اپنا آپ بتا دیتا ہے کہ وہ کس خراب چیز کو اپنے اندر راستہ دینے کیلئے تیار ہے تو اس پر ایک سیاہ نشان آپ سے آپ آلگتا ہے۔

ایک عرب شاعر نے کیا خوب بات کہی: دل کے پینے کو اس کی پسند کا گھاٹ مل جائے تو پھر واپس آنے کا بھلا وہ کب نام لیتا ہے!

تب یہ دل فتنوں کو ’پینے‘ لگتا ہے۔ ایک فتنہ، پھر دوسرا، پھر تیسرا.... راستہ ملتا جاتا ہے، ’رنگ‘ چڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ کالا سیاہ ہو جاتا ہے۔مگر رسول اللہ ﷺ نے جو بات بتائی وہ یہ کہ آخر میں یہ دل سیاہ ہی نہیں، اوندھا بھی ہو رہتا ہے۔فرمایا: کالکوز مجخیا ”جیسے وہ کوزا جو الٹا کر رکھ دیا گیا ہو“۔ برتن اوندھا کر رکھا گیا ہو تو اس میں جو چیز ڈالیں وہ بہہ کر نیچے تو جا گرے گی مگر اس کے اندر نہ جائے گی۔ کیسی خوفناک تمثیل بیان فرمائی رسول اللہ ﷺ نے! یعنی اِس میں جو مرضی اور جتنا مرضی ڈالنے کی کوشش کرو، سب زمین پر جائے گا مگر اس کی قسمت میں نہ ہوگا! برتن اوندھا ہو تو اس میں تو پہلے سے اگر کچھ ہو، وہ بھی نیچے جا رہے گا! حسبی اللہ ونعم الوکیل! اب جب یہ سیاہ بھی ہو چکا اور اوندھا بھی ہو چکا، تو اس کو دو صورتیں پیش آتی ہیں:

پہلی: یہ کہ اس کو منکر اب منکر نہیں لگتا۔ معروف، معروف نظر نہیں آتا۔ حق، اس کے لئے حق نہیں رہتا باطل، باطل نہیں۔بلکہ تو معاملہ کسی وقت بدبختی کی اس حد کو پہنچتا ہے کہ ایک معروف اس کو منکر نظر آنے لگے اور ایک منکر، معروف۔ سنت اس کو بدعت لگنے لگے اور بدعت، سنت۔ جو حق ہے بدقسمت کو وہ باطل نظر آئے اور باطل، عین حق اور لائقِ عمل۔ کتنے ہیں جو انبیاءکی راہ پر چلنے والوں کو نہایت قابل ترس اور بے چارہ جانتے ہیں اور شیطان کے دیے ہوئے کسی فیشن یا نظریے کو پورے زمانے کے لئے واحد معیار! عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے: ”برباد ہوا وہ شخص جس نے وہ دل نہ پایا جو اسکو معروف، معروف دکھائے اور منکر، منکر“۔ یہی ہے وہ دل جو مردہ ہو جاتا ہے ۔ اس کی زندگی جواب دے جاتی ہے اور جس کام کیلئے یہ تخلیق کیا گیاوہ کام کرنا آخری حد تک بند کر دیتا ہے۔ درحقیقت یہ منافق کے دل کی تصویر ہے، جوکہ قلوب کی دنیا کی بدترین مخلوق ہے۔یہ دل اس قدر الٹا ہوچکا ہوتا ہے کہ یہ باطل کو حق اور حق کو باطل بنانے کے لئے سرگرم ہو اٹھتا ہے، قرآن نے ایسے ہی دل کے بارے میں فرمایا:

الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُواْ اللّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (التوبۃ: 67)

”منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے جیسے ہیں؛ کہ منکر کا حکم کرتے ہیں اور معروف سے منع کرتے اور (خرچ کرنے سے) ہاتھ بند کئے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی اُن کو بھلا دیا بیشک منافق نافرمان ہیں“۔

دوسری: بجائے اس کے کہ اپنی ہویٰ کو یہ رسول کی لائی ہوئی ہدایت کے تابع کرکے اپنے لئے جنت کھری کرے، الٹا یہ ہوائے نفس کا بندہ بن جاتا ہے۔

ب۔۔ دوسرا، سفید براق دل۔ یہ حق کو پہنچانتا ہے۔ حق سے محبت کرنا جانتا ہے۔ حق کو اپنے اندر راستہ دے سکتا ہے۔ حق کو دوسری ہر چیز پر ترجیح دے سکتا ہے۔ یہ وہ اجلا دل ہے کہ یہاں ایمان کی روشنی جلاؤ تو خوب جلتی ہے۔ ایمان کا چراغ دھرو تو جگمگ کرنے لگتا ہے۔ فتنہ پاس آئے تو یہ اسے رد کردیتا ہے!

یہاں بھائیو رسول اللہ ﷺ نے کیا عظیم الشان بات بتائی؛ یعنی فتنوں کا اِس پر وارد ہونا اس کی لو بڑھاتا ہے اور اس کی سفیدی اور اجلاپن میں اضافہ کرتا ہے! سبحان اللہ!!!!! قلوب کی زندگی باطل کے خلاف شمشیر بکف رہنے میں ہے!

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا!!!

درجات میں فرق آنا، قلوب کی حالت پر منحصر ہے:

دو آدمی ایک ہی عمل کرتے ہیں، ایک کا عمل فضیلت میں نہایت بڑھا ہوتا ہے اور دوسرے کا عمل بہت ہلکا رہ جاتا ہے۔ اکٹھے، ایک ہی جگہ، ایک سا عمل، ایک سا وقت صرف ہوا، ایک ہی چھت تلے، ایک ساتھ، ایک امام کے پیچھے، دونوں نے نماز ادا کی یا عبادت کا کوئی اور عمل انجام دیا مگر اجر اور فضیلت میں دونوں کے مابین زمین آسمان کا فرق! سبب یہ کہ اعمال کا خدا کے ہاں مول پانا کچھ ان کی ہیئت پر نہیں۔ مسئلہ تعداد اور شمار کا بھی نہیں۔ اعمال وزن پاتے ہیں قلوب کی حالت کے دم سے۔ یہاں کتنا ایمان تھا؟ کتنی محبت تھی؟ کتنی تعظیم تھی۔ خدا کے جلال اور ہیبت کا شعور کتنا تھا؟ خدا کی جانب دل کی توجہ کتنی تھی؟ یہ ہیں وہ اشیاءجن کے دم سے کوئی عمل اتنا وزن پاتا ہے کہ پہاڑ بھی اس کے مقابلے میں کچھ نہ ہوں۔ جبکہ کوئی عمل ہوسکتا ہے ذرہ وزن نہ رکھے۔

ما من مسلم یتوض اَ فیحسن وضوئہ، ثم یقوم فیصلی رکعتین مقبل علیہما بقلبہ ووجہہ، اِلا وجبت لہ الجنۃ۔(رواہ مسلم)

”جو مسلمان وضو کرے اور نہایت خوب وضو کرے، پھر کھڑا ہو کر دو رکعتیں ایسی پڑھے کہ دل بھی خدا کے روبرو ہو اور چہرہ بھی، تو اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے“۔

(وضوءاور ثوابِ وضوءکے ذکر کے بعد، فرمایا:).... فاِن ہو قام فصلیٰ، فحمد اللہ و اَثنیٰ علیہ، ومجدہ بالذی ہو لہ اَہل، وفرغ قلبہ للہ، اِلا انصرف من خطیئتہ کہیئۃ یوم ولدتہ اَمہ۔ (صحیح مسلم)

”تو پھر اگر وہ نماز میں کھڑا ہوجائے، خدا کی حمد کرے، اُس کی ثناءکرے، اور اس کے شایان اس کی کبریائی کرے، خدا کے (ساتھ محو ہونے کے) لئے دل کو سب (خواطر) سے خالی کر لے، تو گناہ سے پاک ہونے میں اس کی عین اس دن کی سی حالت ہوتی ہے جب اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا“!!!

اسی طرح، قرآن کی ایک چھوٹی سورت کی نہایت غور، اور تدبر، اور فہم، اور دل کی پوری لگن، اور توجہ کے ساتھ، اور لطف لے کر تلاوت کی ہونا.. اجر میں، اس بات پر سبقت لے جائے گا کہ آدمی شروع سے آخر تک پورا قرآن ختم کر لے نہ اس میں وہ کوئی تدبر کر پایا ہو، نہ فہم، اور نہ دل کی توجہ۔ یوں، کسی شخص کی چند گھڑیوں کی عبادت میں ہوسکتا ہے ایمان کی ایسی افزائش ہو جاتی ہو اور اس کے اندر قرآن کا ذوق یوں چھلکتا ہو، کہ وہ خدا کے ہاں پسندیدگی پانے میں ایک دوسرے شخص کی مہینوں کی ریاضت پہ بھاری ہو!

(مفتاح دار السعادۃ، مؤلفہ ابن القیمؒ د 1 ص 553)

قرآن کے اندر سورۃ ہود (آیت 7)، سورۃ الکہف (آیت 7) اورسورۃ الملک (آیت 2)میں تنوعِ اسلوب کےساتھ ایک ہی بات کہی گئی ہے کہ تخلیق کائنات، زمین کی یہ سب زینت اور آبادی اور موت اور حیات کا یہ سب سلسلہ یہ آزمانے کیلئے ہے کہ انسان کے ہاں حسنِ عمل کس قدر پایا جاتا ہے۔ تینوں آیتوں میں ’حسنِ عمل‘ کی بات کی گئی ہے نہ کہ ’کثرتِ عمل‘ کی، جوکہ نہایت توجہ طلب ہے۔

انہی جلیل القدر مطالب کی تکمیل کے پیش نظر.... صالحین کی محنت کا اصل میدان ’اعمال کی کثرت‘ نہیں بلکہ ’اعمال کا حسن‘ ہوتا ہے، جوکہ درحقیقت قلوب سے پھوٹتا ہے۔ اربابِ ذوق کو فکر اس بات کی اتنی نہیں کہ ’چیز کتنی ہے‘، جتنی فکر ان کو اس بات کی کہ چیز ’معیاری کتنی ہے‘!

رہے دوسرے لوگ جو اس علم اور اس ذوق کی نعمت سے محروم رہے.... تو وہ عملوں کی ’تعداد‘ گننے پر لگے رہے اور ’کثرت‘ پر خوش ہوتے رہے! اونچی چھتیں کیا کریں گی جب بنیادیں بہت کام کی نہ ہوں!!!

دل کی عبودیت، جوارح کی عبودیت سے عظیم تر اور دائم تر ہے:

قلب، مرتبہ میں، سب اعضاءوجوارح پر فوقیت رکھتا ہے۔ لازم ہے کہ قلب کا عمل بھی پھر سب اعضاءوجوارح پر فوقیت رکھے۔جو شخص شریعت کے حقائق پر غور کرتا ہے وہ اندازہ کرسکتا ہے کہ ’جوارح کا عمل‘ ’قلوب کے عمل‘ کے ساتھ کس انداز میں مربوط ہے، اور یہ کہ قلوب کے اعمال کے بغیر وہ سرے سے فائدہ مند نہیں، اور یہ کہ فرضیت میں قلوب کے اعمال جوارح کے اعمال سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ ’مومن‘ اور ’منافق‘ کے مابین پایا جانے والا وہ عظیم الشان فرق جو ہم سب جانتے ہیں، اسی ’اعمالِ قلوب‘ کے ساتھ ہی تو متعلق ہے، ورنہ ’جوارح کا عمل‘ تو مومن اور منافق دونوں کرتے ہیں!

آدمی اسلام میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کا دل داخلِ اسلام ہوتا ہے۔ پس دل کا عمل پہلے ہوتا ہے اور جوارح کا اس کے بعد یا اس سے متصل۔

قلب کی عبودیت، جوارح کی عبودیت کی نسبت عظیم تر ہی نہیں دائم تر بھی ہے۔ بلکہ یوں کہیے، قلب کی عبادت ہر وقت فرض ہے اور اس میں کسی ایک لمحہ کا بھی تعطل نہیں، جبکہ اعضاءکی عبادت کچھ خاص اوقات میں فرض ہوگی تو کچھ دیگر اوقات میں فرض نہ ہوگی۔ قلب کی عبادت کیا ہے؟ اللہ کے لئے محبت و وارفتگی، توکل، انابت، اخلاص، شکر مندی، خدا کے فیصلے اور حکم پر صبر اور تسلیم، خدا کا خوف، امید اور رجاءاور اسی طرح کے دیگر اعمال جو صرف قلب ہی کے انجام دینے کے ہیں۔ جوارح کے فرائض مانند صوم، صلوۃ، زکوۃ وحج وغیرہ۔

چنانچہ ’ایمان‘ قلب کا فرض ٹھہرا، جوکہ مسلسل ہے اور اس میں کوئی انقطاع نہیں۔ جبکہ ’اسلام‘ جوارح کا فرض ٹھہرا جوکہ کچھ متعین اوقات میں ہوگا۔ پس ’ایمان‘ سے مومن کا قلب تشکیل پاتا ہے اور ’اسلام‘ سے مومن کے جوارح!

(استدلال ابن تیمیہؒ، مجموع فتاویٰ ج 10 ص 5.... وابن قیمؒ، بدائع الفوائد ج3 ص 1148)

ابلیس کا اصل نشانہ مومن کا دل ہی ہے:

دشمنِ خدا جو واقف ہے کہ ابن آدم کی اصل دولت کہاں ہے، تو اس کا اصل ہدف بھی مومن کا قلب ہی بنتا ہے۔ سب امور کا دارو مدار جب دل ہے، تو پھر اس کی ورادات یہیں پر سب سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ چنانچہ وسوسوں کا محل دل ہی بنتا ہے۔خواہشوں اور شہوتوں کا حملہ یہیں پر ہوتا ہے۔ شیطان کو کچھ بھی گنجائش نظر آئے تو وہ گمراہیاں، ٹیڑھ پن، بدعت، انحراف ، ضلالت، شرک، الحاد، طغیانی، سرکشی ایسا بہت سا اپنی ضرورت کا سامان یہیں پر لا دھرتا ہے۔ کتنے ہی دل ہیں جو شیطان کے نہایت بڑے بڑے گودام ہیں اور خلق خدا کو سپلائی کا سب کام وہیں سے انجام پاتا ہے۔

’دولت‘ والوں نے پس جب یہ دیکھا کہ ’چور‘ سب سے زیادہ یہیں پر آنیکا موقعہ تکتا ہے اور یہاں اسکا داؤ چل جائے تو وہ کچھ چھوڑتا ہی نہیں، اور یہ کہ یہیں پر قابض ہوجانا دراصل اسکے پیش نظر ہے.. تو انہوں نے بھی اپنا یہ شیوہ اختیار کیا کہ سب سے بڑھ کر وہ یہیں پر پہرہ رکھیں گے اور ہردم انکا دھیان بس اسی جانب رہیگا۔ اس کوچے میں ’دولتمندی‘ کی جانچ کرنی ہو تو، جتنا کوئی بڑا دولتمند ہوگا اتنا ہی وہ اس جانب فکر مند دیکھا جائیگا!

قلوب کے ’طبیب‘ نادر ہی کہیں ملتے ہیں!

سب سے پوشیدہ مرض وہ ہیں جو قلوب کو لاحق ہوسکتے ہوں۔ دوسرے تو دوسرے، خود مریض کو بیشتر اوقات ان کا ادراک نہیں ہوتا۔ خدا سے غفلت، نا امیدی، بے خوفی، ریائ، خود پسندی، تکبر، شہرت پسندی، جاہ پرستی، غضب، بغض، کدورت، حسد، غرور، بے حیائی، دیوثی، گناہوں کا رسیا پن، حبِ بدعت، صورت پرستی، غیر اللہ کے آگے ذلت اور عاجزی .. غرض ایسے ایسے مرض ہیںجو اندر ہی اندر پلتے ہوں اور کسی کو ان کی خبر نہ ہو، حتیٰ کہ مریض کو بھی نہیں!

پیچھے، ہم قلوب کی اہمیت سے اگر واقف ہو آئے ہیں تو یہ خود بخود واضح ہے کہ دنیا میں امراض کی کوئی سب سے خطرناک اور جان لیوا قسم ہوسکتی ہے تو وہ قلوب ہی کی بیماریاں ہیں؛ یعنی خطرناک بھی سب سے بڑھ کر اور پوشیدہ بھی سب سے زیادہ۔ اکثر کو ان کا پتہ ہی تب چلا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت! کوئی اور بیماری ہو، اس کا معاملہ موت سے پہلے بہرحال کھل جاتا ہے۔ پر یہ بیماریوں کی وہ قسم ٹھہری جن کا اندازہ بیمار کو عموما تب ہوتا ہے جب اس کی آنکھ بند ہوجائے!

انبیاءدراصل تو ’قلوب‘ ہی کے طبیب تھے۔ نہایت خوب دوا جو لاعلاج سے لاعلاج بیماروں کو شفایاب کردے، انبیاءہی کے دینے کی رہی ہے۔ بڑوں کو یہ زعم رہا کہ یہ مسیحائی ان کے کر لینے کی ہے، مگر وہ ہستی جس نے ’قلوب‘ کو نہایت خوب ’فطرت‘ پر پیدا کیا.... اُسی کے ہاں سے آنے والے اور اُسی کے ’سند یافتہ‘ معالج اس مریض کو اُس کے حکم سے صحت یاب کر سکے۔ اوروں نے تو اپنے ’علاج‘ سے اس کے روگ ہی بڑھائے! بلکہ تو صحت مندوں کو بیمار کرنے کے درپے رہے! وہ ’نسخۂ کیمیا‘ جس میں اس مریض کی ایک ایک علت کا نہایت مفصل علاج ہے اور اس کی صحت اور تن درستی کے کمال شرطیہ اکسیر بوضاحت درج ہیں، وہ نسخۂ کیمیا کسی اور پر اترا ہی نہیں، سوائے انبیاءو مرسلین کے!!! صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَسَلَامُہ عَلَیہِم!!!

انبیاءکے علاوہ جس جس نے یہاں ’معالج‘ ہونے کا دعویٰ یا کوشش کی، وہ دراصل انسانوں پر ’تجربات‘ کرتے اور ’اٹکل‘ آزماتے رہے! انسانی مخلوق کی اس سے بڑی دشمنی کوئی نہ ہوسکتی تھی!

پس انسانی دنیا پر خدا کی سب سے بڑی کوئی عنایت ہوسکتی تھی تو وہ ’بعثتِ انبیائ‘ ہے!

لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ  (آل عمران 164)

”اللہ نے مومنوں پر درحقیقت یہ احسان کیا کہ اُن میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو اُن کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی سکھاتا ہے، جبکہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح حالتِ گمراہی میں تھے“

یہاں تک آنے میں شاید بہت لوگ ہمارا ساتھ دیں۔ مگر ہماری بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی، سمجھئے شروع ہوتی ہے....

وہ نسخۂ نایاب جو قلوب کی شفایابی کیلئے خدا انبیاءکے ہمراہ بھیجتا رہا اور انبیاءکے سوا وہ کسی کے ہاں پایا نہ جاسکتا تھا.. خدا انسانوں پر اس قدر مہربان رہا کہ وقت آنے پر جب وہ انبیاءکو اٹھا لیتا، تو ان کے ساتھ آیا ہوا وہ نسخۂ کیمیا البتہ نہیں اٹھ جاتا رہا۔ انبیاءکو تو وہ بس اس لئے بھیجتا رہا کہ وہ اِسے خدا سے وصول کرکے انسانوں کو بہ امانت پہنچا کر اور اِس کا طریقۂ استعمال انکو عملاً سکھا کر یہاں سے جائیں۔ انبیاءاِس نسخۂ شفا کو اپنے پیچھے چھوڑ جانے کے لئے ہی اتنی ساری جدوجہد کرتے رہے، نہ کہ ساتھ واپس لے جانے کے لئے!

انبیاءکے ساتھ اترنے والا یہ نسخہ، جسے انبیاءاپنے پیچھے نہایت امین ہاتھوں میں دے کر جاتے اور ’اِس‘ کی حفاظت کی انکو خاص تلقین کر جاتے اور ’اِس‘ میں کوئی کمی بیشی ہوجانے کی بابت حد درجہ خبردار کرتے، اور لوگوں کو اپنے سب روگ دور کرنے کیلئے ’اِسی‘ کی جانب رجوع کی تاکید میں ’حد‘ کردیتے.... انبیاءکے ساتھ اترنے والا یہ نسخۂ نایاب ’وحی‘ کہلاتا ہے!!!

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ (یونس: 57-58)

”لوگو! تحقیق آ پہنچا تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے: ایک پند، ایک شفا ان (بیماریوں) کے لئے جو سینوں میں پائی جائیں، ایک ہدایت، اور ایک رحمت؛ مومنوں کے لئے.. کہہ دو! یہ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہے۔ تو چاہئے کہ خوب خوش ہوں اسٍ سے؛ یہ اُس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں“

یہ نسخہ جو صدور کی تسکین اور قلوب کی شفایابی کیلئے آیا ہے؛ اس کا نام ہے ’خدا کی وحی‘۔ انبیاءاپنے پیچھے درماندہ انسانوں کی مسیحائی کیلئے کچھ چھوڑ گئے تو وہ یہی ہے۔ پس یہ دولتِ دل پائی جاسکتی تھی تو انہی طبقوں کے ہاں جو اس وحی کے امین وحفاظ رہے ہوں۔منطقی بات ہے، خدا نے ’وحی‘ کے سوا قلوب کی کوئی شفا اور کوئی غذا اگر نہیں اتاری تو وہ خاتم المرسلینﷺ کے رحلت فرما جانے کے بعد ’اصحابِ قرآن‘ اور ’اصحابِ حدیث‘ کے سوا کسی کے ہاں پائی ہی نہ جاسکتی تھی۔دورِ سلف کی صدیوں میں یہی نسخہ نہایت کامیابی سے برتا گیا اور آدھی دنیا یہاں جھولیاں بھر بھر کر اپنے من کی مراد پاتی رہی۔دھرتی پر خیر کی اتنی بارش کبھی نہ ہوئی ہوگی جتنی کہ دورِ سلف کی ان صدیوں میں!!!

مگر پھر کیا ہوا، ایسے لوگ آئے جنہوں نے شفائے قلوب کے معاملہ میں ’وحی‘ پر انحصار کم کر دیا اور کچھ دیگر ’مجرب‘ اشیاءآزمانا شروع کردیں۔ بلکہ کئی ایسے ہوئے جنہوں نے ’وحی‘ پر انحصار سرے سے ختم کردیا اور اپنی ہی پراگندہ خیالی کو اس باب میں نہایت ’قابل اعتماد‘ اور ’قابل ترجیح‘ جانا۔ اف!!! کس قدر نادان ہے انسان اور کس قدر حد سے گزر جانے والا! اِنہ کان ظلوما جہولا۔ ایک زیادتی اور دوسری نادانی، ”وحی“ ہاتھ سے چھوٹے تو یہی چیز ہاتھ آتی ہے اور یہ اِس کو کمال کی چیز لگتی ہے....!

یہ لگے اپنے وہی ’اٹکل‘ آزمانے جن سے انسان کو کفایت کردینے کیلئے ہی انبیاءکے جلو میں ایک صاف شفاف ”وحی“ اترتی رہی تھی۔ آپ یہ ترتیبِ زمانی دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ ادھر دورِ سلف یعنی خیر القرون (ازروئے حدیث: اسلام کی پہلی تین نسلیں: صحابہ، تابعین، تبع تابعین) کا زمانہ ختم ہوتا ہے، ادھر امت کے اندر جگہ جگہ ’سلسلے‘ نکل آتے ہیں! ’شفائے قلوب‘ کا دعویٰ لے کر نئے سے نئے ’طریقے‘ متعارف ہونے لگتے ہیں۔ سلف کا طریقہ جاتا رہا۔ بات بات پر ’حَدَّثَنَا‘ کا حسن اب کہاں ملے!!!؟ ایک ایک مسئلہ کے ثبوت پر، نہایت اعتماد کے ساتھ اور پوری دیانت سے، خاتم المرسلین ﷺ تک سند پہنچا کر آنا.. اور اپنی ایک ایک چیز کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مستند ذخیروں سے ثابت کر سکنا، بلکہ سلف کی طرح پیر پیر پر حوالہ ہی اپنی ہر ہر بات کا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے دینا اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ثبوت کے بغیر کوئی بات ہی سرے سے نہ کرنا.. یہ اِنکا شیوہ تھا، نہ اِنکے بس کی بات، اور نہ اِنکے وارے کی!!! خیر سے کبھی کوئی چیز اِنکے ہاں اگر ایسی ملتی جو ’اخبار‘ یا ’احادیث‘ یا ’آثار‘ کے زمرے میں شمار ہوسکے، تو وہ مرویاتِ ’ضعفائ‘ و ’متروکین‘ہوتیں، بلکہ تو ’موضوعات‘ کے پلندے!!!

نصیب کی بات ہے، کسی کی زبان پر آیات اور مستند آثار و سنن کے حوالے رکنے کا نام نہ لیں.... اور کسی کی زبان پر ’حدیث‘ کا ذکر بھی اوپرا لگے سوائے یہ کہ وہ نہایت ضعیف بلکہ موضوع ہو!!! کُل مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ!!!(1)

ان میں سے کچھ اچھے لوگوں نے ”ترکت فیکم اَمرین لن تضلوا ما اِن تمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنتی(2)“ پر مشتمل نبوی منشور کو قابل اعتناءجانا بھی تو وہ ’شریعت‘ کے ساتھ تمسک کی حد تک! رہا یہ کہ وہ اپنی ’طریقت‘ بھی براہِ راست کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ ﷺ سے ہی برآمد کریں اور کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کی نصوص ہی یہاں بھی پیر پیر پر ان کا مرجع اور حوالہ ہوں.... رہا یہ کہ ان کا ’مشرب‘ بھی براہ راست کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کا وہ گھاٹ ہو جس سے خلقِ خدا ’خیر القرون‘ میں سیراب ہوتی رہی اور جسکے سوا ان کا کوئی گھاٹ نہ تھا.... تو ”لن تضلوا ما اِن تمسکتم بہما“ سے یہ مراد لینا اِن خردمندوں کے ہاں بھی بڑی حد تک متروک ہی ٹھہرا، سوائے بہت تھوڑوں کے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں، خیر القرون کے ختم ہوتے ہی دھڑا دھڑ ’اصلاحِ قلوب‘ کے نئے سلسلے سامنے آتے ہیں، وہ بھی زیادہ تر عجمیوں کے زیر اثر اور عجمی خطوں میں۔ یہ سلسلے یہاں ہر طرف پھیل جاتے ہیں اور ان کی مسلسل افزائش ہونے لگتی ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں جوں جوں ان کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے توں توں عالمِ اسلام کا معاملہ نیچے جاتا ہے۔ مجالسِ تفسیر اور مسند ہائے حدیث متروک، اب یہاں ’خانقاہیں‘ اور ’آستانے‘ متعارف ہوتے ہیں، اور قسما قسم ’خلفائ‘ اور ’سلسلہ ہائے فیضِ عام‘، جنکا نعرہ ہی ’دوائے قلوب‘ ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے امت میں ہر جگہ یہ نئی طرز کے ’شفاخانے‘ کھل جاتے ہیں جو اس سے پہلے، خصوصا ادوارِ سلف کے اندر، کبھی دیکھنے میں آئے اور نہ کبھی سننے میں۔ مگر امت کے گراف پر نگاہ رکھنے والا دیکھتا ہے، ادھر ’شفاخانے‘ بڑھتے ہیں ادھر امت کے ’روگ‘ بڑھتے ہیں۔ یوں ’بیمار‘ کی صحت مسلسل نیچے ہی جاتی ہے۔ ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘!

’شفا‘ تو رکھی گئی تھی خدا کی ’وحی‘ میں:

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاء وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا(بنی اسرائیل: 82)

”اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کےلئے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے حق میں تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے“ (ترجمہ جالندھری)

’وحی‘ کے سوا ’شفا‘ کہاں سے ملتی؟!! اور اگر مل جاتی تو ’وحی‘ کی پھر کیا خصوصیت رہ جاتی؟! یعنی ’غیر دوا‘ بھی وہی کام کرے جو ’دوا‘ کرتی ہے؟!!! شفائ µ لما فی الصدور خدا نے اپنی تنزیل کو کہا ہے۔ ’بدعت‘ میں اُس نے شفا کب رکھی ہے؟!

وہ ’سلسلے‘ اور وہ ’طریقے‘ جن میں قال اللہ و قال الرسول کی گونج صبح شام نہ سنی جاتی ہو اور جن میں ایک ایک بات کیلئے سند کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ سے پیش کرنے کا شدید اہتمام نہ ہوتا ہو.... وہ ’طریقے‘ خود ایک ’آشوب‘ ہوسکتے تھے ’علاج‘ کیونکر ہوتے! ایک آشوب کو بغیر علاج چھوڑ دیا جانا ہی باعث ہلاکت ہے کجا یہ کہ آشوب کو ہی ’علاج‘ سمجھ لیا جائے!!! ایسا مریض بھلا کب بچ سکتا تھا؟! آخر دین بھی گیا اور دنیا بھی!

ہاں یہ ہم مانتے ہیں کہ قلوب کے طبیب بہت کم ہیں۔ کتاب اور سنت کی بات کرنے والے کئی ایک طبقے بھی، ضروری نہیں، اس میدان میں لوگوں کی تشفی کریں۔ چیز جتنی بیش مایہ، اتنی نایاب! ’طلبگاروں‘ کا یہ بھی تو امتحان ہے!!!

(اس مضمون میں بعض علمی حوالوں اور آثارِ سلف کی نقول کے سلسلہ

میں عربی رسالہ ’اصلاح القلوب‘ مؤلفہ عبد الہادی بن حسن وہبی

یکے از مشائخ لبنان، پر انحصار کیا گیا ہے)


(1) ”ہر ایک کے لئے وہ چیز آسان کردی جاتی ہے جس کیلئے وہ پیدا کیا گیا“ (متفق علیہ، لفظ صحیح بخاری: کتاب التوحید، باب: قول اللہ تعالیٰ ولقد یسرنا القرآن للذکر فہل من مدکر)

(2) ”میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، کہ تم کبھی نہ بھٹکو گے اگر ان دونوں کو مضبوط تھام کر رکھو: اللہ کی کتاب اور میری سنت“ (یہ حدیث الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ حدیث کی متعدد کتابوں میں آئی ہے، اور مشہور اور صحیح ہے)

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز