عبدیتِ تام | |
(استفادہ از مدارج السالکین، مؤلفہ ابن القیم) |
مقامِ ”ایاک نعبد“ کو پانے کیلئے کوشاں حضرات اس سوال کا جواب تجویز کرنے کے معاملہ میں متعدد اصناف کے اندر منقسم ہوتے ہیں کہ:
’عبادت یا عبدیت کی کونسی صورت سب سے برگزیدہ اور سب سے نفع بخش ہے اور سب سے بڑھ کر اس لائق کہ عبدیت کی باقی سب صورتوں پر اسی کو ترجیح دی جائے اور اسی پر خصوصی توجہ؟‘
مختصراً، عبدیت کی برگزیدہ ترین صورت کے تعین میں لوگوں کی چار اصناف پائی جاتی ہیں:
1) ایک صنف کے ہاں سب سے برگزیدہ اور سب سے نفع بخش عبادت وہ ہے جو نفس پر سب سے بڑھ کر شاق ہو اور اس کی بجا آوری سب سے زیادہ مشکل ہو۔ اس کی توجیہ کرتے ہوئے یہ حضرات کہتے ہیں: ایسی عبادت کا ہوائے نفس سے سب سے زیادہ دور ہونا آپ سے آپ عیاں ہے، جبکہ ہوائے نفس سے دوری اختیار کرنا __ بقول انکے __ عبادت کی اصل روح ہے۔ مزید یہ کہ: اجر بقدرِ مشقت۔ اس پر یہ ایک بے بنیاد حدیث بھی لاتے ہیں کہ اَفضل ال اَعمال اَحمرہا یعنی ’افضل ترین اعمال وہ ہیں جو سب سے زیادہ پر مشقت ہوں‘۔
یہ اصحاب ’مجاہدے‘ کرنے اور ’نفس کو مارنے‘ کی ریاضتوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے: نفس کو استقامت اسی چیز سے ملتی ہے۔ کیونکہ نفس کی طبیعت میں کاہلی پائی گئی ہے۔ نامرادی اور دنیا میں دل لگا بیٹھنا اس کے مزاج میں ہے۔ پس اس کو سیدھا کرنے کی صرف یہی صورت ہے کہ اس پر ہول طاری کر کے رکھا جائے اور اس کو مسلسل مشقتیں کروا ئی جائیں۔
2) دوسری صنف یہ رائے اختیار کرتی ہے کہ عبدیت کی افضل ترین صورت یہ ہے کہ آدمی دنیا میں زہد اختیار کرے۔ نہایت تھوڑے پر گزارا کرنا اپنا معمول بنا لے۔ دنیا کی ضرورتیں اور حاجتیں کم سے کم کر لے۔ دنیا کا خیال دل سے نکال دے۔ لطف ولذت کا پیچھا تو بالکل ہی چھوڑ دے۔ یہاں تک کہ دنیاکی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی اس کیلئے گراں ہونے لگے۔
یہ صنف آگے مزید دو صنفوں میں تقسیم ہوتی ہے:
الف) ایک ’عوام‘ کی صنف ہے۔ عبادت گزاروں کی یہ صنف سمجھتی ہے کہ تقویٰ اور دینداری کی یہی اصل غایت ہے۔ چنانچہ اس کو پانے کیلئے یہ نہایت محنت میں لگے ہوتے ہیں۔ ہر وقت اس چیز پر زور رہتا ہے۔ لوگوں کو بھی دعوت دیں گے تو دین کے اسی تصور کی۔ یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ اصل نیکی تو یہ ہے اور یہ کہ علم پڑھنے اور عبادتیں کرنے سے بھی یہ مرتبے میں بڑھ کر ہے۔ ہمیشہ ان کی بات اسی چیز پر ختم ہوتی ہے کہ زہد اختیار کرنا اور دنیاسے دل اچاٹ کر لینا ہی عبادت کی اصل غایت ہے اور نیکی کا اصل سرا۔
ب) دوسری ’خواص‘ کی صنف ہے۔ ان کے نزدیک: یہ چیز مقصود ہے مگر لذاتہِ نہیں بلکہ لغیرہِ۔ ان کے نزدیک دنیا سے دل اچاٹ کرلینے سے اصل مقصود یہ ہے کہ قلب کی کل توجہ خدا کی جانب ہوجائے۔ انسان کی سب کی سب سوچ اسی پر مرکوز ہو جائے۔ دل کو صرف خدا کی محبت کیلئے خالی کر لیا جائے تاکہ سب کی سب انابت، توکل اور رضاجوئی خدا کے ساتھ وابستہ ہوجائے۔ اس فریق کے نزدیک سب سے افضل عبادت ’خدا کی جانب توجہ میں دلجمعی‘ ہے اور قلب اور لسان کی وساطت ہر وقت اُس کے ذکر میں مشغول ہونا اور ہر ہر لمحہ اپنے اوپر یہ حالت طاری کر رکھنا کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے، یعنی مراقبہ۔ ان کے نزدیک ہر وہ چیز جو خدا کی جانب آدمی کی توجہ میں دلجمعی کم کردے او راس کے دل کو کسی اور جانب مشغول کرے اس سے بچنا اور زیادہ سے زیادہ اس سے دامن کش رہنا عبادت کا نہایت افضل مرتبہ اور بندگی کی برگزیدہ ترین صورت ہے۔ ان کو عارف بھی کہا جاتا ہے۔
ان کے یہ خواص آگے مزید دو صنفوں میں تقسیم ہوتے ہیں:
اول: جو بیک وقت، عارف ہیں تو متبعِ شریعت بھی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خدا کا امر ونہی آجائے تو اس کی تعمیل کرتے ہیں، بے شک یہ انکی اس قلبی کیفیت میں تعطل لانے کا باعث بنے اور ان کی ’خدا توجہی میں دلجمعی‘ کو ختم کرنے کا باعث کیوں نہ ہو۔
دوم: ان کے خواص کی دوسری صنف وہ ہے جو منحرف اور بہکے ہوئے لوگ ہیں: ان کے نزدیک عبادت کا مقصود ہی چونکہ ’خدا توجہی میں دلجمعی‘ ہے، اس لئے جو چیز بھی دل کی اس کیفیت کو متاثر کرے اور آدمی کو خدا کی جانب متوجہ نہ رہنے دے، وہ ہرگز ہرگز قابل التفات نہیں۔ ان میں سے بعض بہکے ہوئے یہ تک کہہ گئے کہ: پانچ وقتہ عبادات وغیرہ تو ہیں ہی ان کے لئے جس کا دل خدا سے غفلت کا شکار ہے۔ جبکہ اس دل کا تو معاملہ ہی اور ہے جو ہر وقت حالتِ عبادت میں ہے!
’عارفوں‘ کا یہ منحرف گروہ آگے مزید دو صنفوں میں تقسیم ہوتا ہے:
ایک: ان میں سے وہ بہکے ہوئے جو اپنی ’خدا توجہی میں دلجمعی‘ سے اس حد تک بھی ’دستبردار‘ ہونے کیلئے تیار نہیں کہ یہ شرعی فرائض وواجبات تک کو ادا کرنے کے روادار ہوں۔
دوسری: وہ جو فرائض تو ادا کرتے ہیں البتہ سنتیں، نوافل، دین میں مستحب اعمال اور حصولِ علم ونشرِ خیر ایسے امور انجام دینے کے روادار نہیں، کیونکہ یہ ان کے نزدیک ان کی ’دلجمعی‘ پر اثرانداز ہوتی ہے!
ایسے ہی کسی بہکے ہوئے شخص نے ایک بار کسی حق پرست شیخِ عارف سے دریافت کیا: حضرت! جب مؤذن اذان دیتا ہے اور میں ’خدا توجہی میں دلجمعی‘کی حالت میں ہوتا ہوں، تو اگر میں اسی وقت اٹھ کھڑا ہوں اور اپنی وہ مجلس چھوڑ کر نکل پڑوں، تو میری توجہ بٹ جاتی ہے اور دل کی وہ حالت باقی نہیں رہ پاتی۔ اسی حالت میں بیٹھا رہوں تو میری وہ دلجمعی باقی رہتی ہے۔ فرمائیے میرے حق میں کیا چیز افضل ہے؟ شیخ نے جواب دیا: سنو، جب مؤذن اذان دے دے تو اس وقت اگر تم عرش کے نیچے بھی جا پہنچے ہوئے ہو، اٹھو اور خدا کی جانب سے دلوائی گئی اس صدا پر لبیک کہو۔ بعد میں بے شک وہیں پر جا بیٹھنا!
یہ اس لئے کہ یہ ’دلجمعی‘ روح اور قلب کا اپنا حظ ہے۔ جبکہ اذان کی آواز پر لبیک کہنا اور نماز کی تیاری میں مصروف ہوجانا خدا کا حق۔ پس جو شخص اپنی روح کے حظ کو اپنے رب کے حق پر ترجیح دے وہ اہلِ ”ایاک نعبد“ میں سے نہیں۔
3) ایک اپروچ یہ ہے کہ عبادت اور نیکی سب سے بہتر وہ ہے جس کا فائدہ متعدی ہو۔ یعنی جس کا اوروں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ ان لوگوں کے ہاں عبادت کی یہ صورتیں ان صورتوں سے افضل ہیں جن کا فائدہ انسان کی اپنی ذات تک محدود رہتا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں کے نزدیک غریبوں کی مدد واعانت، رفاہ عامہ کے کام، خدمتِ خلق، اور آدمی کا اپنے مال یا اپنے اسٹیٹس اور اثر ورسوخ سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا سب سے برگزیدہ عمل ہے۔ چنانچہ یہ اسی کو نیکی کا سب سے اہم کام سمجھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اسی کو اپنا معمول بناتے ہیں۔
اس پر یہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں: الخلق عیال اللہ، و اَحبہم الیہ اَنفعہم لعیالہ۔ رواہ اَبو یعلیٰ (1) ”خلق سب کی سب خدا کی عیال ہے اور خد کو سب سے زیادہ پسند وہ شخص ہے جو خدا کی عیال کے لئے سب سے زیادہ نفع بخش ہو“۔
ان کی توجیہ یہ ہے کہ ایک عابد اپنے ہی آپ تک محدود رہتا ہے۔ جبکہ ایک سماجی خدمتگار کے کام کا فائدہ دوسروں تک جاتا ہے لہٰذا یہ دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں؟ ان کے نزدیک یہی وجہ ہے کہ ایک عالم کی فضیلت ایک عابد پر ویسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت تاروں پر۔
خلق کو فائدہ پہنچانے کے برتر ہونے پر یہ اس حدیث کو بھی بطور حجت لاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ”یقینا اگر اللہ تیرے ذریعے ایک آدمی کو ہدایت دے دے تو وہ تیرے لئے سرخ اونٹوں (سب سے مرغوب دولت) سے بھی بہتر ہے“ ۔ اس عمل کی یہ فضیلت اسی لئے ہوئی کہ اس کا فائدہ متعدی ہے، یعنی اس کا فائدہ اوروں تک پہنچتا ہے۔
علاوہ ازیں اس حدیث سے دلیل لیتے ہیں: من دعا الیٰ ہدیً کان لہ من ال اَجر مثل اَجور من اتبعہ من غیر اَن ینقص من اَجورہم شیء ”جو شخص کسی ہدایت کی بات کی دعوت دے تو جو جو اس پر چلے ان سب جتنا اس اکیلے شخص کو اجر ملتا ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا اپنا اجر کچھ بھی کم ہو“۔
علاوہ ازیں یہ حدیث: ان اللہ وملائکتہ یصلون علیٰ معلمی الناس الخیر ”بے شک اللہ اور اس کے فرشتے لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والوں پر درود بھیجتے ہیں“۔
علاوہ ازیں یہ حدیث: ان العالم لیستغفر لہ من فی السمٰوات ومن فی ال اَرض، حتی الحیتان فی البحر، والنملة فی جحرہا ”ہر ذی نفس جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں، ایک عالم کیلئے استغفار کرتا ہے، یہاں تک سمندر کے اندر پائی جانے والی مچھلیاں اور اپنے بل میں پائی جانے والی ایک چیونٹی بھی“۔
علاوہ ازیں، یہ حقیقت کہ ابن آدم جب مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے ۔ جبکہ جو عمل دوسروں کیلئے فائدہ کا ذریعہ بنا وہ منقطع نہیں ہوتا بلکہ اس کا اجر برابر جاری رہتا ہے۔
اور پھر یہ کہ انبیاءبھی مبعوث ہوئے تو وہ مخلوق کی بھلائی کیلئے اور ان کی ہدایت اور ان کی دنیا وآخرت کے فائدہ و نفع کا ذریعہ بننے کیلئے، نہ کہ اپنی خلوتیں سجانے کیلئے اور لوگوں سے کٹ کر عبادتیں کرنے کیلئے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے ان اشخاص پر نکیر فرمائی جو الگ تھلگ ہوکر اور لوگوں سے دور، عبادت گزاری کے خواہشمند تھے۔
یہ فریق اس رائے پر ہے کہ ’خدا توجہی میں دلجمعی‘ سے افضل عمل یہ ہے کہ خدا کے دین کیلئے آدمی کو اپنی اس کیفیت کی قربانی دینی پڑے تو دے ڈالے اور ہر حال میں خلقِ خدا کے فائدہ اور بھلائی کا ہی ذریعہ بنا رہے۔
4) چوتھی صنف کا کہنا یہ ہے کہ عبدیت کی برگزیدہ ترین حالت یہ ہے کہ آدمی یہ دیکھے کہ کس لمحے خدا کی خوشنودی کس چیز میں اور کس انداز میں زیادہ ہے، اور پھر اسی کے مطابق آدمی خدا کو خوش کرنے میں لگ جائے....
چنانچہ اگر کہیں پر جہاد کا وقت آن کھڑا ہوا ہے تو سب سے برگزیدہ عبادت اس لمحے جہاد ہی ہے، بے شک اس کیلئے آدمی کو اپنی عبادت کے معمولات چھوڑنے کیوں نہ پڑ جائیں۔ بے شک رات کا قیام اور دن کے روزے رکھنا اس سے کیوں نہ متاثر ہوتا ہو۔بلکہ فرض نماز جس طرح حالت امن میں بصورتِ تمام ادا کی جاتی ہے، فرض نماز کی وہ بدرجۂ اتم ادائیگی اس سے کیوں نہ متاثر ہوتی ہواور آدمی کو قیام وغیرہ کی قربانی دے کر گھوڑے کی پیٹھ پر نماز کیوں نہ پڑھنی پڑے۔
گھر میں مثلاً مہمان آگیا ہے تو اس وقت سب سے افضل کام یہی ہے کہ آدمی اس کا حق ادا کرنے میں لگ جائے بے شک اس سے آدمی کے مستحبات کا کوئی معمول کیوں نہ متاثر ہوتا ہو۔
ایک وقت میں بیوی کا حق ادا کرنا سب سے افضل عمل ہوگا اور ایک وقت میں اہل وعیال اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنا۔
سحر کا وقت ہو تو سب سے افضل عمل یہ ہوگا کہ آدمی قیام کے اندر خدا کے ساتھ مناجات کرے۔ اُس کا کلام پڑھنے میں مگن ہو۔ اُس کے ساتھ دعا اور پکار کا رشتہ بحال کرے اور بکثرت استغفار کرے۔
جس وقت ایک طالبِ علم اور ایک ملتمسِ ارشاد تمہارے پاس آ کھڑا ہو یا کسی بے علم کو کچھ بتانے سمجھانے کا تقاضا پیش آچکا ہو تو اپنی کل توجہ اس کی تعلیم کی جانب کر دینا اور علم اور بھلائی سے اس کی جھولی بھر دینے کیلئے کوشاں ہوجانا اس لمحے کیلئے بہترین عمل ہوگا۔
اذان ہوگئی ہے تو اس وقت ’سب سے افضل‘ عمل یہ ہے کہ نیکی کے دوسرے سب معمولات چھوڑ کر آدمی اس صدا پہ لبیک کہتے ہوئے پیر سے پیر ملائے عبادت گزاروں کی صف میں آ کھڑا ہو۔
پنجوقتہ نمازوں کے اوقات میں، سب سے افضل عمل یہ ہے کہ آدمی کی تمام تر توجہ اور سنجیدگی اس بات پر مرکوز ہو جائے کہ یہ نماز بہترین سے بہترین انداز میں کیونکر ادا کی جائے۔ اول وقت کو پانا کیونکر یقینی بنایا جائے اور مسجد دور بھی ہو تو بھی پہلی صف کو کیونکر پایا جائے۔
جس وقت ایک غریب محتاج کی مدد کرنا ضروری ہو اور آدمی کا اپنے مال سے یا اپنی جسمانی صلاحیت سے یا اپنے اثر ورسوخ یا اپنی سماجی حیثیت سے کام لیتے ہوئے ایک حاجتمند کے کام آنا اس لمحے کا تقاضا ہو، جس وقت کسی کی فریاد رسی کرنا آدمی سے مطلوب ہو.... تو اس وقت یہی کام سب سے افضل کہلائے گا، چاہے اس کیلئے تمہیں اپنے نیکی کے معمولات اور اپنے مسنون ورد وظیفے کیوں نہ چھوڑنے پڑیں اور اپنی خلوت کو کیوں نہ سمیٹنا پڑے۔
جس وقت قرأتِ قرآن کیلئے بیٹھو تو سب سے افضل عمل اس وقت یہی ہے کہ اس کے معانی میں ڈوب جاؤ، اپنے دل کی پوری توانائی کے ساتھ اور آخری درجے کی دلجمعی اختیار کرتے ہوئے تدبر اور غور وفکر کی راہ سے اس کے حقائق میں غوطہ زن ہوجاؤ، یوں سمجھو اس وقت گویا خدا خاص تمہی سے ہم کلام ہے۔ اپنے دل کا ایک ایک گوشہ مجتمع کر کے خدا کی بات سننے کی جانب متوجہ ہوجاؤ اور اس کے معانی سے اپنی روح کو خوب خوب سیراب کرو۔ اس کے کلام میں اس کے جو جو احکام گزریں ان پر عمل پیرا ہونے کا ساتھ ساتھ عزم کرتے جاؤ۔ ویسے تم جانتے ہو ایک آدمی کو بادشاہ کی جانب سے کوئی مراسلہ موصول ہو تو اس کو بغور پڑھنا اور مراسلہ میں لکھے گئے اس کے احکامات کی تعمیل کا عزم کرتے جانا اس سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ اس لمحے تم بادشاہ کی تعظیم ایسے احساسات میں دلجمعی پیدا کررکھنے پر ہی اکتفاءکئے رہو!
9 ذوالحجہ کو اگر تم عرفہ میں کھڑے ہو تو اس وقت ’افضل ترین عمل‘ یہی ہے کہ خدا کے آگے خوب گریہ کرو۔ دعا میں اپنا دل ڈال دو۔ خوب مناجات کرو۔ خشوع وخضوع اور رقت کے ساتھ خدا کا ذکر کرو۔ جبکہ روزے سے، جوکہ اس عمل کی بدرجۂ اتم ادائیگی کے معاملہ میں تمہاری کارکردگی کم کرسکتا ہے، اس دن احتراز کرو۔
ذوالحجہ کے پہلے دس دن ہیں تو افضل ترین عمل عبادت گزاری ہے، خصوصاً تکبیر، تہلیل اور تحمید وغیرہ، جوکہ ان دنوں میں غیر فرضِ عین جہاد سے بھی افضل ہے۔
رمضان کی آخری دس راتیں ہیں تو افضل ترین عمل خدا کے گھروں میں ڈیرے ڈال دینا ہے اور مسجد کا کوئی کونہ سنبھال کر خدا کے ساتھ خلوت اختیار کر لینا اور پورا ایک عشرہ خدا کا مجاور بنا رہنا۔ اس وقت افضل عمل یہ نہیں کہ لوگوں کے ساتھ گھلو ملو اور ان کو بھلائی پہنچانے میں مصروف ہوجاؤ۔ حتیٰ کہ اس وقت اعتکاف اور لوگوں سے کنارہ کشی کئے رکھنا علماءکی ایک بڑی تعداد کے نزدیک لوگوں کو تعلیم دینے اور قرآن پڑھانے سے بھی افضل ہے۔
تمہارا بھائی بیمار، صاحب فراش ہوا پڑا ہے، یا بستر مرگ پہ چلا جانے کی نوبت آگئی ہے، اس وقت سب سے افضل عمل اس کی عیادت کرنا ہے۔ تمہارا بھائی فوت ہوگیا ہے تو اس لمحے افضل ترین عمل اس کے جنازے میں شرکت کرنا ہے اور اس کی میت کو کندھا دینے کیلئے نکلنا۔ اس وقت اس عمل کو ہی ترجیح دی جائے گی نہ کہ خدا کے ساتھ خلوت اختیار کر رکھنے کو اور مراقبے اور اس کی جانب توجہ کی دلجمعی کو۔
کوئی بڑا واقعہ ہوگیا ہے، لوگوں پر کوئی آفت ٹوٹ پڑی ہے، تو اس وقت ہنگامی صورتحال پر قابو پانے میں جو کچھ کر سکتے ہو وہ کرنا اور لوگوں کو اس آفت سے نکالنا سب سے برگزیدہ عمل ہوگا۔
لوگوں کو حق بات بتانا اور کسی باطل سے روکنے کا فرض درپیش ہے تو اس محاذ پر ڈٹ جانا ہی اس لمحے کا برگزیدہ ترین عمل ہے۔ لوگ اس پر تمہیں برا بھلا کہتے ہیں تو بدستور لوگوں کے مابین رہنااور ان کو حق بتانا اور اس پر ان کی ایذا رسانی برداشت کرتے چلے جانا، مگر ہرگز میدان نہ چھوڑنا افضل ترین عمل ہے۔ (از روئے حدیث) مومن جو لوگوں کے ساتھ گھلتا ملتا اور ان کی ایذا پر صبر کرتا ہے اس مومن سے افضل ہے جو نہ ان کے ساتھ گھلتا ملتا ہے اور نہ اسے ان کی ایذا رسانی پر صبر کی ہی اسکو ضرورت لاحق ہوتی ہے۔
لوگ خیر پر ہوں تو ان کے ساتھ گھل مل کر رہنا، ان سے دور رہنے کی نسبت افضل ہے۔ معاملہ شر کا ہو، تو ان سے دور رہنا ان میں گھلنے سے افضل ہے۔ ہاں آدمی یہ دیکھے کہ وہ ان کے ساتھ گھلے گا تو اس شر کا ازالہ کر سکے گا یا اس کو کم کر سکے گا، تو اس صورت میں شر کے باوجود ان کے ساتھ گھلنا، ان سے دور رہنے کی نسبت افضل ہوگا۔
پس مطلق طور پر کوئی چیز افضل ترین اور برگزیدہ ترین ہے تو وہ ہے یہ دیکھنا کہ عین اس لمحے اور اس صورتحال میں خدا کو سب سے بڑھ کر خوش کرنے والی کیا بات ہے۔ اس سوال کا جو جواب آئے آدمی اسی کو ترجیح دے۔ پس افضل ترین عمل یہ ہوا کہ آدمی ہر لمحے کے فرض کا تعین کرے اور پھر اسی میں جت جائے۔
یہ ہے ’تعبدِ مطلق‘۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو ’عبدیتِ تام‘ کے درجے پر فائز ہوتے ہیں۔
جبکہ اس سے پہلے جن اصناف کا ذکر گزرا وہ ’مقید تعبد‘ کی مثالیں ہیں۔ ایسا شخص جب بھی عبادت کی اس ’شکل‘ سے باہر آتا ہے جس سے وہ مانوس ہے اور جس کو وہ ’اصل‘ عبادت سمجھتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اوپرا محسوس کرتا ہے اور گویا اس کے یہاں کوئی نقص واقع ہوگیا ہے اور وہ ’اصل‘ عبادت سے دور ہوگیا ہے! وجہ یہ کہ وہ خدا کو کسی ایک ہی خاص صورت میں پوجنے سے واقف ہے، نہ کہ خدا کو ہر ہر انداز میں پوجنے سے۔
جبکہ وہ شخص جو ’تعبدِ مطلق‘ یا ’عبدیتِ تام‘ کے منہج پر ہے، عبادت کی کسی بھی خاص شکل کے ساتھ اس کی اپنی کوئی بھی غرض وابستہ نہیں ہوتی کہ وہ بس اسی کو عبادت کی دوسری ہر صورت پر فوقیت دینے پہ مصر ہو۔ اس کو تو غرض صرف ایک بات سے ہے اور وہ یہ کہ عین اِس لمحے اس کے مالک کی خوشنودی کہاں پائی جاتی ہے۔ جہاں وہ پائی جائے گی وہاں یہ پایا جائے گا اور جیسے جیسے وہ ایک صورت سے نکل کر دوسری صورت اختیار کرے گی عین اسی اخلاص اور تجرد کے ساتھ یہ اس کے ساتھ چلتا جائے گا۔ پس اِس کے تعبد کا سب انحصار اسی پر ہے کہ اِس کے مالک کامطلوب کہاں ہے۔ پس یہ شخص عبودیت کی ایک منزل سے دوسری منزل پہ جاتا ہے تو دوسری سے تیسری پر۔ جونہی اس وفا شعار کے سامنے عبدیت کی ایک صورت لائی جاتی ہے یہ پوری دلجمعی کے ساتھ اس کو اختیار کر لینے کی جانب لپکتا ہے۔ یہ عبادت کی ہر ہر شکل میں خوب سے خوب رنگ بھرتا ہے اور بندگی کی ہر ہر صورت پر کمال کی محنت کرتا ہے، تا آنکہ اس کے سامنے عبدیت کی کوئی اگلی منزل اور بندگی کی کوئی دوسری صورت لے آئی جاتی ہے۔ یوں، اس کا کام مالک کی منشا اور رضا کے پیچھے چلتے جانا ہے۔ وہ اس کو جب تک چلائے، جدھر کو چلائے، جیسے چلائے، یہ چلتا ہے!!! اس کے سوا اسے کسی بات سے غرض نہیں!!!
پس جہاں تم علماءاور علم کی مجلسیں دیکھو، اِس کو بھی وہاں ان کے ساتھ دیکھو گے!!!
جہاں عبادت گزاروں کے جمگھٹے ہوں، تم اِس کو وہاں ان کے ساتھ پاؤ گے!!!
جہاں تم مجاہدین کو دیکھو گے، اِس کو وہاں ساتھ دیکھو گے!!!
ذکر کرنے والوں کی مجلسوں میں تم اسے باقاعدہ موجود پاؤ گے!!!
اور وہ لوگ جو خدا کو اپنی توجہ کا مرکز بنانے پر خوب خوب محنت کرتے ہیں اور اس باب میں دلجمعی کی نعمت پانے کیلئے کوشاں دیکھے جاتے، اور جو قلب کو خدا کا اعتکاف کرواتے ہیں، اس کو تم وہاں ان کے ساتھ دیکھو گے!!!
لوگوں کی خوشیوں غمیوں میں تم اسے غائب نہ پاؤ گے۔ فقیروں جاجتمندوں کی خدمت، مظلوموں کی فریاد رسی اوردردمندوں کے غم بانٹنے کی سرگرمیوں سے تم اس کو مفقود نہ پاؤ گے!!!
پس یہ ہے مطلق خدا کا عبد۔ نہ یہ کسی خاص صورت کا پابند۔ نہ کسی خاص شکل کا اسیر۔ نہ کسی خاص ہیئت میں محدود۔ نہ رسمیات سے مانوس۔ اس کی سعیِ عمل اپنے نفس کے مطلوب کا پیچھا کرنا نہیں اور نہ ہی اپنی پسند کی عبادت کا چناؤ کرنا۔ یہ اپنے رب کے منشا ومطلوب کا متلاشی رہتا ہے، خواہ اِس کے اپنے نفس کی لذت اور راحت خاص اُس چیز میں ہو یا کہیں اور۔
یہ ہے وہ خوش قسمت جس نے مقامِ ’ایاک نعبد وایاک نستعین‘ کو درحقیقت پا لیا ہے۔ اور جوکہ اس کی حقیقت پر واقعتا قائم ہے!!!
اس کی پوشاک، جیسی اس کو میسر آگئی،
کھانا، جیسا مل گیا،
اس کی مصروفیت، ہر لمحے خدا نے جو مامور ٹھہر ا رکھا ہے،
اس کی نشست گاہ، جہاں اس کو بیٹھنے کی جگہ مل گئی، یا جہاں اس کیلئے گنجائش نکل آئی، یا جہاں اس کا پایا جانا ضروری ہوا،
نہ اس پر کوئی خاص لیبل،
نہ اس کے سوچنے اور عمل کرنے کا کوئی خاص دائرہ،
اور نہ اس پر کوئی خاص ٹھپہ،
اور نہ کوئی بہت ہی خاص حلیہ،
نہ دست بوسی، نہ رسومِ آستانہ،
مطلق آزاد!!! مطلق عبد!!! کسی چیز، کسی صورت، کسی ہیئت کا پابند نہیں سوائے خدا کے حکم کا تتبع کرنے کے۔ جہاں خدا کی فرمائش، وہاں یہ۔ اس کا قافلہ مسلسل سفر میں رہتا ہے اور کوئی مقام اس کا نقطۂ اختتام نہیں۔ اس مسافر کا پڑاؤ وہیں جہاں اس کو کچھ دیر رک جانے کا حکم ہو۔ خدا کے سوا کوئی اس کی آخری منزل نہیں!!!
ہر حق پرست اِس سے اُنس پائے،
ہر باطل پرست اِس سے وحشت کھائے،
وہ باران جو جہاں برسے وہاں ہریالی کر دے،
وہ نخلستان جس کا پت جھڑ نہیں(2)،
یہ پورے کا پورا فائدہ مند ہے، حتیٰ کہ اس کے کانٹے بھی!!!
خدا کے دشمنوں اور نافرمانوں کیلئے چبھتا ہوا کانٹا،
خدا کی حرمتوں کی پامالی ہو تو یہ ننگی تلوار،
خدا شناسوں کیلئے بریشم کی طرح نرم!!!
پس یہ خدا کا ہے، خدا کے دم سے ہے، خدا کے ساتھ ہے!!!
خدا کے ساتھ ہوتا ہے تو مخلوق سے ماوراءہو کر،
مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے تو نفس سے ماوراءہو کر،
خدا کے ساتھ اس کا معاملہ ہوتاہے تو سب خلائق بیچ سے روپوش ہوجاتی ہیں اور یہ بھری دنیا میں رہتا ہوا دنیا سے نکل آتا ہے! یہ خدا کے ساتھ ہوتاہے تو گویا کوئی دوسرا نہیں ہوتا!!!
اِس کا معاملہ خلق ِ خدا کے ساتھ ہوتا ہے تو نفس بیچ سے روپوش ہوجاتا ہے۔ اور یہ ان کیلئے مجسم خلوص ہوتا ہے!
زہے خوش نصیبی! یہ بھری دنیا میں کس قدر اجنبی ہے!!!
بسی دنیا میں اِس کیلئے کس قدر اداسی ہے!!!
خدا کے ساتھ اِس کا کیسا دل لگتا ہے!!!
معبود کے ہاں یہ کیسی خوشی، کیسی طمانینت اور کیسا گہرا سکون پاتا ہے!!!
خدایا! تیری مدد اور تیرا بھروسہ!!!!!
(استفادہ از: مدارج السالکین، مؤلفہ امام ابن القیم ج1 ص85-90)
(1) امام ابن قیم نے یہاں اس حدیث کی صحت پر کوئی بات نہیں کی۔ ہم اس حدیث کی بابت امام البانیؒ کی تخریج سے کچھ نقل کریں گے:
البانیؒ سلسلہ ضعیفہ میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد ا س حدیث کی صحت کی بابت کہتے ہیں: ضغیف جداً یعنی ”بہت کمزور“۔ (دیکھئے السلسلة الضعیفة، روایت نمبر3590، جلد 8 ص 85)۔ تاہم محدث البانیؒ اسی حدیث کا ضعف بیان کرتے ہوئے ایک اور جگہ (دیکھئے السلسلة الضعیفة روایت نمبر 1900، جلد 4 ص 372) لکھتے ہیں: اس حدیث کا دوسرا جملہ الفاظ کے فرق کے ساتھ پایۂ ثبوت کو پہنچتا ہے اور (اس صحیح حدیث کے) یہ الفاظ ہیں: خیر الناس اَنفعہم للناس یعنی ”انسانوں میں سے سب سے بہتر وہ ہیں جو انسانوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہوں“۔
(2) بخاری میں عبدا اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے، نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: درختوں میں سے ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے، اور وہ مومن کی مثال ہے، بتاؤ وہ کونسا درخت ہے؟ عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں: لوگوں نے طرح طرح کے خیال ظاہر کئے۔ میرے دل میں آیا یہ کھجور ہے۔ مگر میں (چھوٹی عمر کے باعث) شرم سے کہہ نہ سکا۔ تب صحابہ نے آنحضور سے عرض کی: آپ ہی بتائیے۔ فرمایا: کھجور۔