اسمائے حسنیٰ | |
(استفادہ از الوابل الصیب، مؤلفہ ابن القیم) |
’صفات‘ کا مسئلہ، ’علم کلام‘ حتیٰ کہ ’عقیدہ‘ کے نام پر پائی جانے والی بعض ’جدلیاتی کتب‘ نے ایک خشک موضوع بنا دیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ’اسماءوصفات‘ کا درجہ ’ربوبیت‘ اور ’الوہیت‘ کے بعد آتا ہے۔ مگر ایک لحاظ سے یہ سب سے پہلے ہے۔ اللہ کا صحیح تعارف ہی اُس کو رب اور الہ ماننے کا داعیہ بنتا ہے۔ اس ہستی کی پہچان کا بہترین ذریعہ قرآن ہے۔ جس میں ڈوبنا اور ڈوب کر پڑھنا دنیا کی پرلطف ترین نعمت ہے۔
حبیب بن عبداللہ البجلیؓ اور عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں:
”ہم ایمان سیکھتے، پھر قرآن سیکھتے، تو ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا“ (مختصر الصواعق المرسلہ)
قرآن سے ایمان کا سبق لینے کیلئے۔۔۔۔ سب سے پہلے آئیے امام ابن قیم کی ایک مجلس میں شرکت کریں!!
انسان پیدا ہوا تو اِس کی سرشت میں ایک نور بھرا گیا۔ یہی زمین پر زندگی اور ہدایت کا اصل سبب ہے۔ اس نور کی امانت انسان کی فطرت کو سونپی گئی۔ مگر چونکہ یہ انسان کی درماندگی کا تنہا علاج نہ تھا، سو اِسے جلا دینے کو آسمان سے ایک اور نور اور ایک روح انبیاءکے جلو میں اتری، جسے فطرت اپنے سابقہ نور کی مدد سے پالیتی رہی۔ تب نبوت کی ضوفشانی سے فطرت کی مشعلیں جل اٹھیں۔ فطرت کے نور پر وحی کا نور! نُورٌ عَلٰی نُور۔۔۔۔!!!
پھر کیا تھا!؟ دل روشن ہوئے۔ چہرے دمکنے لگے۔ پثرمردہ روحوں کو زیست کی تازگی ملی۔ جبینِ نیاز میں تڑپتے سجدے حقیقتِ بندگی سے آشنا ہوئے۔ آسمان کی روشنی سے دل خیرہ ہوئے تو پھر زمین کے قمقمے جلنے نہ پائے۔ ایک بصیرت تھی کہ دل کی آنکھ چشم ظاہر سے آگے دیکھنے لگی۔ یقین کا نور ایمان کے سب حقائق منکشف کرنے لگا۔ پھر دل تھے گویا رحمن کے عرش کو پورے جہان سے اوپر دیکھتے ہیں۔ اُس عرش کے اوپر انکے رب نے استوا فرما رکھا ہے۔ ہو بہو جیسے اسکی کتاب اور اسکے رسول نے خبر دی ہے۔
وہ اُس عرشِ عظیم کے اوپر سے اپنے رب کو آسمان و زمین میں فرماں روا پاتے ہیں۔ جو وہیں سے حکم صادر فرماتا ہے۔ مخلوق کو چلاتا ہے۔ روکتا اور ٹوکتا ہے۔ بے حد و حساب خلقت کو وجود دئیے جاتا ہے۔ پھر ہر ایک کو کھلاتا اور رزق دیتا ہے۔ مارتا اور جلاتا ہے۔ فیصلے کرتا ہے جنکا کوئی حساب نہیں۔
کوئی فیصلہ نہیں جو اس عرش کے اوپر سے صادر ہو پھر دنیا میں لاگو نہ ہو پائے۔ وہ کسی کو عزت و تمکنت دے۔ تو کسی کو ذلت و رسوائی۔ رات پلٹتا ہے تو دن الٹتا ہے۔ گردش ایام میں بندوں کے دن بدلتا ہے۔ تخت الٹتا ہے‘ سلطنتیں زیر و زبر کرتا ہے ایک کو لاتا ہے تو دوسرے کو گراتا ہے۔ فرشتے، پروں کے پرے، حکم لینے کو اسکے حضور چڑھتے ہیں۔ قطار اندر قطار حکم لے لے کر نازل ہوئے جاتے ہیں۔ احکامات ہیں کہ تانتا بندھا ہے۔ آیات اور نشانیوں کی بارش ہوئی جاتی ہے۔ اُس کے فرمان کو اُس کی مرضی کی دیر ہے کہ نافذ ہوا جاتا ہے۔ وہ جو چاہے‘ وہ جیسے چاہے، وہ جس وقت چاہے، جس رخ سے چاہے، ہو جاتا ہے۔ نہ کوئی کمی ممکن ہے نہ بیشی‘ تاخیر ہو سکتی ہے نہ تقدیم۔
اُسی کا حکم چلتا ہے آسمانوں کی پنہائیوں میں، زمین کی تنہائیوں میں۔ روئے زمین سے پا تال تک، وہ ہر لمحہ ہر نفس کا فیصلہ کرتا ہے۔ ہر سانس کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ہر لقمے ہر نوالے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ہر نیا دن، ہر نئی صبح اور نئی شام، وہ چاہے تو دیکھنا نصیب ہوتی ہے۔ بحرو بر کا ہر ذی روح اُس کا رہینِ التفات ہے۔ جہان کے ہر کونے ہر ذرے کی قسمت ہر لمحہ طے ہوتی ہے۔ پورے جہان کو وہ جیسے چاہے الٹتا اور پلٹتا ہے۔ پھیرتا اور بدلتا ہے۔ ہر چیز کو علم سے محیط ہے۔ ہر چیز کو گن گن کے شمار رکھتا ہے۔ اسکی رحمت اور حکمت کو ہر چیز پہ وسعت ہے۔
وہ جہان بھر کی آوازیں بآسانی سن لیتا ہے۔ کیسی کیسی زبانیں ہونگی؟ کیسی کیسی فریادیں ہونگی؟ مگر وہ زمین و آسمان کے ہر کونے سے ہر لمحہ اٹھنے والا یہ مسلسل شور سنتا جاتا ہے۔ اس آہ وفغاں میں ہر ایک کی الگ الگ سنتا اور صاف پہچان جاتا ہے۔ ان سب کی بیک وقت سنتا ہے اور کسی ایک سے غافل نہیں!! پاک ہے وہ اس سے کہ التجاؤں کے ازدحام میں اُس کی سماعت کبھی چوک جائے، یا حاجتمندوں کی آہ و فریاد میں کبھی جواب دینا اُس کو مشکل پڑ جائے۔
اُس کی نگاہِ محیط ہر چیز دیکھتی ہے۔ وہ رات کی تاریکی میں‘ اندھیری چٹان پر، سیاہ چیونٹی کے قدموں کی آہٹ پا لیتا ہے۔ ہر غیب اسکے لئے شہادت ہے۔ کوئی راز اس کے لئے راز نہیں۔ وہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر کو جان لیتا ہے۔ اسے وہ ہر راز معلوم ہے جو لبوں سے کوسوں دور ہو۔ جو دل کے گہرے کنویں میں دفن ہو یا خیال کی آہٹ سے بھی پرے ہو۔ بلکہ وہ راز وجود پانے سے پہلے اسے معلوم ہوتا ہے کہ کب اور کیسے وہ اس دل میں وجود پائے گا۔
تخلیق اُس کی، حکم اسکا۔ ملک اُس کا، حمد اُس کی۔ دنیا اُس کی‘ آخرت اُس کی۔ نعمت اُس کی‘ فضل اُس کا۔ تعریف اُس کی، شکر اسکا۔ بادشاہی اُس کی، فرمانروائی اُس کی۔ حمد و ستائش اُس کی، اقتدار اُس کا۔ ہر خیر اُس کے ہاتھ میں۔ ہر چیز پلٹے تو اُسی کی طرف، اُس کی قدرت ہر چیز پر محیط۔۔۔۔ کہ کچھ اس سے ماورا نہیں۔ اُس کی رحمت ہر چیز سے اور ہر چیز پر وسیع ہے۔ ہر نفس اُس کی نعمت کے بار سے دبی ہے، پر شکر سے یوں عاجز کہ اِس عاجزی کے اظہار کو بندگی کی معراج جانے!!!
يَسْأَلُهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن: 29)
” زمین اور آسمانوں کی ہر مخلوق ایک اُسی سے مانگتی ہے۔ ہر آن وہ نئی شان میں ہے“
وہی گناہگاروں کو معاف کرے۔ غمزدوں کو آسودہ کرے۔ اضطراب کو چین میں بدلے۔ وہ چاہے تو چتا میں چنتا نہ رہے اور وہ اسی کو ٹھنڈک کا سامان کر دے اور سراسر سلامتی۔
درماندوں کو وہی فیض بخشے‘ فقیروں کو تونگری دے تو امیروں کو فاقے دکھا دے۔ جاہلوں کو سکھائے تو بے علموں کو پڑھائے۔ گمراہوں کو سدھائے تو بھٹکے ہوؤں کو سجھائے!
دکھی کو سکھ دے تو وہ۔ اسیروں کو قید کی ظلمت سے چھڑائے تووہ۔ عرش پر سے وہ زمین کے بھوکوں کو کھلائے۔ پیاسوں کو پلائے۔ ننگوں کو پہنائے۔ بیماروں کو شفا یاب کرے۔ آفت زدوں کو نجات دے۔ تائب کو باریاب کرے۔ نیکی اور پارسائی کا جواب نوازشوں کی بارش سے دے۔ وہی مظلوم کی نصرت کرے۔ ظالم کی کمر توڑے۔ ناتوانوں کا بوجھ سہارے۔ اپنے بندوں کے عیب بندوں سے چھپالے۔ دلوں کے خوف دور کرے اور اپنے بندوں کا بھرم رکھے۔ امتوں اور جماعتوں میں سے کسی کو بلند کرے تو کسی کو پست!
وہ کبھی نہیں سویا‘ نہ سونا اُس کو لائق ہے! وہ اپنی رعیت کا ہمہ وقت نگران ہے۔ وہ کسی کو عزت و رفعت دے تو کسی کو ذلت۔ رات کے اعمال دن سے پہلے اُس کی جانب بلند ہوئے جاتے ہیں اور دن کے اعمال رات سے پہلے۔
اُس کا حجاب ایک نور بیکراں ہے، جسے وہ ہٹا دے تو اُس کے رخ کا نور ہر چیز بھسم کر دے۔ اُس کا دست کشادہ اور فراخ ہے ، جو خرچ کرنے اور لٹانے سے کبھی تنگ ہونے کا نہیں! وہ صبح شام لٹاتا ہے۔ جب سے مخلوق پیدا ہوئی وہ لٹائے جاتا ہے، پر اُس کے ہاں کمی آنے کا سوال نہیں!
بندوں کے دل اور پیشانیاں اُس کی گرفت میں ہیں۔ جہان بھر کی زمام اُس کے قضاو قدر سے بندھی ہے۔ روزِ قیامت پوری زمین اُس کی ایک مٹھی ہو گی تو سارے کے سارے آسمان لپٹ کر اُس کے دست راست میں آ رہیں گے۔ وہ اپنے ایک ہاتھ میں سب آسمانوں اور زمین کو پکڑ لے گا۔ پھر اُن کو لرزائے گا۔ پھر فرمائے گا: ” میں ہوں بادشاہ! میں ہوں شہنشاہ! دنیا کہیں نہ تھی تو میں نے بنائی۔ میں ہی اب اِس کو دوبارہ تخلیق کرتا ہوں“!
کوئی گناہ اتنا بڑا نہیں کہ وہ معاف نہ کر پائے، بس دیر ہے تو پشیمانی کی! کوئی حاجت نہیں جسے پورا کرنا اُس کے بس سے باہر ہو جائے، بس دیر ہے تو سوال کی!
زمین و آسمان کی اول و آخر سب مخلوقات، سب انس و جن، کبھی دنیا کے پارسا ترین شخص جتنے نیک دل ہو جائیں، اُس کی بادشاہت اور فرمانروائی اتنی بڑی ہے کہ اُس سے ذرہ بھر بھی نہ بڑھے۔ اور اگر یہ سب مخلوقات، سب انس و جن، دنیا کے کسی بدکار ترین شخص جتنے کوڑھ دل ہو جائیں، تب اُس کی فرمانروائی میں ذرہ بھر فرق نہ آئے! اگر زمین و آسمان کی اول و آخر سب مخلوقات، سب انس و جن، سب زندہ و مردہ کسی میدان عظیم میں مجمع لگا کر اس سے سوال کرنے لگیں، پھر ایک ایک اُس کے در سے من کی مراد پاتا جائے، تب اُس کے خزانوں میں ذرہ بھر کمی آنے کا تصور نہیں!
روئے زمین کا ہر شجر جو کرۂ ارض پہ آج تک پایا گیا یا رہتے دم تک وجود پائے، اقلام کی صورت اختیار کرے۔۔ سمندر، جسکے ساتھ سات سمندر اور ہوں روشنائی بنیں، پھر لکھائی شروع ہو۔۔۔۔ تو یہ قلمیں فنا ہو جائیں، یہ روشنائی ختم ہو جائے، مگر خالق کے کلمات ختم ہونے میں نہ آئیں! اُس کے کلمات ختم بھی کیسے ہوں جنکی کوئی ابتدا ہے نہ انتہا! جبکہ سب مخلوقات ابتدا اور انتہا کی اسیر ہیں۔ سو ختم ہو گی تو مخلوق! فنا ہو گی تو مخلوق! خالق کو کو ئی فنا ہے نہ زوال!!
وہ اول ہے جس سے پیشتر کچھ نہیں! وہ آخر ہے جس کے بعد کچھ نہیں! وہ ظاہر ہے جس سے اوپر کچھ نہیں! وہ باطن ہے جس سے پرے کچھ نہیں!
وہ بلند ہے! وہ پاک ہے! ذکر ہو تو بس اُسی کا! عبادت ہو تو ایک اُسی کی ! حمد ہو تو اُسی کی! شکر ہو تو اُسی کا!
فریاد رسی ایک اُسی کی شان ہے۔ وہ شہنشاہِ مہربان ہے! سوال پورا کرنے میں کوئی اُس سے بڑھ کر فیاض نہیں! قدرتِ انتقام رکھ کر بے پروائی سے بخش دینا اُس کو انتقام لینے سے عزیز تر ہے۔ اک وہی ہے جس کے در سے تہی دست لوٹ آنا محال و مستحیل ہے۔ وہی ہے جو انتقام بھی لے تو عادل ترین ہو۔ اُس کا حلم و بردباری کبھی لاعلمی کا نتیجہ نہیں! اُس کا عفو و مغفرت کسی بے بسی پر مبنی نہیں! وہ بخشش کرے تو اپنے عِز و جلال اور تمکنت کی بنا پر ۔ کسی کو دینے سے انکار کرے تو اپنی حکمت و دانائی کی بنا پر۔ وہ کسی کو دوست رکھے تو محض اپنے احسان سے، اور عزیز جانے تو صرف اپنی رحمت سے!!
بندوں کا اُس پر کوئی حق ہے نہ زور۔ پر وہ خود ہی بے پایاں مہربان ہے! کوئی محنت اُس کے حضور اکارت نہ ہو پائے۔ وہ کسی کو عذاب دے تو اُس کے عدل کا تقاضا ہو۔ کسی پر مہربان ہو تو محض اپنے فضل سے! اُس کا نام کریم ہے۔ اُس کا کرم وسیع ہے، اور اُس کی رحمت اُس کے غضب پہ بھاری ہے!!!
وہ بادشاہِ مطلق ہے، کوئی اُس کا شریک نہیں ۔ وہ تنہا و یکتا ہے، کوئی اُس کا ہمسر نہیں! وہ غنی و لازوال ہے۔ کوئی اُس کا پشتبان اور سہارا نہیں! وہ صمد اور بے نیاز ہے۔ کوئی اُس کی اولاد نہیں، کوئی شریکِ حیات نہیں! وہ بلند و عظیم ہے، کوئی اُس کا شبیہ نہیں، کوئی ہم نام و ہم صفت نہیں!
اُس کے رخِ انور کے سوا ہر چیز ہلاک ہو جانے والی ہے۔ اُس کی بادشاہت کے سوا ہر ملک کو زوال آنا ہے۔ اُس کے سائے کے سوا ہر سائے کو سمٹ جانا ہے۔ اُس کے فضل کے سوا ہر فضل کو فنا ہے۔
اُس کی اطاعت بھی اُس کے اذن اور اُس کے فضل کے بنا ممکن نہیں! اُس کی اطاعت ہو تو وہ قدر دان ہوتا ہے! نافرمانی ہو تو درگزر اور بخشش سے مہربان ہوتا ہے۔ وہ کبھی پکڑلے تو عدل ہو گا۔ وہ بخش دے تو فضل ہو گا۔ وہ انعام میں خلد بریں سے نواز دے تو احسان ہو گا!!
وہ سب سے قریب گواہ ہے۔ وہ سب سے نزدیک محافظ ہے۔ چاہے تو دل کے ارادوں میں حائل ہو جائے! پیشانیوں سے پکڑ لیتا ہے۔ ایک ایک بات لکھتا ہے۔ قدم کا ہر نشان محفوظ کئے جاتا ہے۔ ہر نفس کی اجل لکھتا ہے۔ ہر چیز کی میعاد رکھتا ہے۔ سینوں میں چھپے دل اُس کے لئے کھلی کتاب ہیں۔ کوئی راز اُس کے لئے راز نہیں۔ کوئی غیب اُس سے روپوش نہیں۔ بڑی سے بڑی بخشیش بس اُس کے کہہ دینے پر موقوف ہے۔ اُس کا عذاب اُس کے قول کے اشارے کا منتظر ہے۔ کائنات میں ہر امر کو اُس کے ’کُن ´‘ کی دیر ہے۔ پھر وہ جو کہہ دے سو ہو جاتا ہے!
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (یس:82)
سو جس دل پر اسکے معبود کی صفات یوں جلوہ گر ہوں،جس قلب میں قرآن کا یہ نور یوں جلوہ افروز ہو، اسکی دنیا میں کسی اور کا دیا کیونکر جلتا رہے؟ اسے امید کی کرن کسی اور روزن سے کیونکر ملے!؟ پھر مخلوق اس کی نگاہ میں کیونکر جچے!؟ بھروسہ اُس ایک کے سوا کس پر ہو اور بھلا کیوں ہو! !!
ایمان کی یہ حقیقت لفظوں سے کہیں بلند ہے۔ خیال کی پہنچ سے کہیں اوپر ہے۔ بس اس کا ذکر ہی اس دل کو بقعۂ نور کرتا ہے۔ چہروں کی تمازت اِسی کے دم سے ہے۔ پیشانیاں روشن ہونگی تو اِس کی بدولت! دنیا میں یہی نور اُس بندے کی متاع عزیز ہے جو بندگی کا خوگر ہو۔ یہی روشنی اسکی برزخ اور حشر کا توشہ ہے۔
جس دل میں قرآن کا یہ چراغ جلے‘ اور جس قدر جلے‘ اسکی زبان اور سیرت دنیا کو اتنا ہی روشن کرے اور اس کا وجود اس کارخانۂ ہستی میں اسی قدر بامعنیٰ ہو۔ ظلمتوں کی رو سیاہی ایسی ہی روشنی سے دھلے گی۔ دنیا میں یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ یہی روشنی پھر آخرت میں دلیل و برہان ہو گی۔ ایسے مومن بھی ہیں جنکے اعمال سوئے عرش بلند ہوں تو سورج کی مانند روشن ہوں۔ پھر جب روح اپنا جسد چھوڑ کر اس کے حضور باریاب ہونے کو آسمانوں میں چڑھے تو فضائیں اسکی راہ میں روشن ہوتی جائیں۔ اور جو قیامت کے روز اس روشن چہرے کو روپ ملے گا وہ تو پھر نظارئہ خلائق ہو گا۔۔۔۔!!!
اے اللہ ! بس تجھی سے امید ہے اور تجھی پر بھروسہ!
(اردو استفادہ از :الوابل الصیب من الکلم الطیب۔ مؤلفہ ابن القیم
طبع دارالبیان للتراث ص 87-91)