| |
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ 2 |
براءبن عازب سے روایت ہے، کہا:
ہم نبی ﷺ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازہ کیلئے نکلے۔ ہم قبر پر پہنچے تو ابھی لحد نہ بنی تھی۔ نبی ﷺ بیٹھ گئے ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے اور آپ کی جانب یوں متوجہ گویا ہمارے سروں پر پرندے جم کر بیٹھے ہیں۔آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جسے آپ بار بار زمین میں چبھاتے(سوچوں میں گم)۔ آخر آپ نے سر اٹھایا اور فرمانے لگے: ’عذابِ قبر سے اللہ کی پناہ مانگو‘۔ دو یا تین بار کہا۔ پھر فرمایا:
خدا کا مومن بندہ، جب دنیاسے اس کا رشتہ منقطع اور آخرت کا آغاز ہونے لگتا ہے، تو اس کی جانب آسمان سے فرشتے اترتے ہیں؛ سفید براق چہرے گویا آفتاب۔ ساتھ میں کفن ہوتا ہے جو جنت کے کفنوں میں سے ہوتا ہے، اور کافور ہوتی ہے جوکہ جنت کی کافور میں سے ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کی حدِ نگاہ پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر ملک الموت آگے بڑھتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے نفسِ مطمئنہ! نکل پڑ اپنے رب کی مغفرت اور اس کی خوشی کی طرف!!! فرمایا: تو وہ (نفس) یوں انڈیل ہوجاتی ہے جیسے پانی مشکیزے سے انڈیل ہوجاتا ہے۔ فرشتہ اسے تھام لیتا ہے۔ پھر جب وہ اسے لیتا ہے تو ایک لمحہ بھی اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتا کہ فرشتے اسے اس کفن اور اس کافور میں ڈال دیتے ہیں۔ تب اس سے دنیا کی عمدہ ترین مشک ایسی خوشبو نکل نکل کر آرہی ہوتی ہے۔ فرمایا: پھر وہ اسے لے کر اوپر چڑھنے لگتے ہیں۔ فرشتوں کے جس جھرمٹ کے پاس سے بھی ان کا گزر ہوتا ہے تو وہ پوچھے بغیر نہیں رہتے ’یہ پاکیزہ روح کس خوش قسمت کی ہے‘؟ وہ جواب دیتے ہیں ’فلاں بن فلاں‘، دنیا میں اس کے جو سب سے اچھے نام اور القاب رہے تھے ان ناموں کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہیں! یہاں تک کہ وہ اس کو لے کر آسمانِ دنیا تک چلے جاتے ہیں۔ وہاں وہ اس کے لئے آسمان کے دروازے کھلوانے کی استدعا کرتے ہیں۔ ان کیلئے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ پھر یوں ہوتاہے کہ ہر آسمان سے وہاں کے مقرب ترین فرشتے اس کی معیت میں اگلے آسمان تک جاتے ہیں.... یہاں تک کہ اسے ساتویں آسمان تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ تب خدا تعالیٰ فرماتا ہے: میرے اس بندے کا کھاتہ علیین (بلندی پانے والوں) میں لکھ دو۔پر ابھی اس کو زمین میں لوٹا دو؛ میں نے ان کو اسی سے پیدا کیا، اسی میں ان کو لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ اٹھا کھڑا کروں گا۔ فرمایا: تو پھر اس کی روح کو اس کے جسد میں لوٹا دیا جاتا ہے۔ تب دو فرشتے آتے ہیں۔ وہ اس کو بیٹھا کر لیتے ہیں۔ تب وہ اس سے پوچھتے ہیں: کون تیرا رب ہے؟ تو وہ جوا ب دیتا ہے: میرا رب، اللہ! پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ تو وہ بولتا ہے: میرا دین، اسلام! پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں: یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث ہوا تھا؟وہ جواب دیتا ہے: یہ اللہ کے رسول ہیں، اللہ ان پر اپنا درود اور سلامتی بھیجے! تب وہ اس سے پوچھتے ہیں: تجھے کیسے معلوم؟ وہ بولتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی۔ تو میں اس پر ایمان لایا اور میں نے اس کو بالکل سچ جانا!!! تب آسمان میں ایک منادی کرنے والا منادی کرتا ہے: میرا یہ بندہ سچا نکلا، پس بچھادو اس کیلئے بچھونا جنت میں سے، اور پہنادو اس کو پہناوا جنت میں سے، اور کھول دو اس کیلئے ایک دروازہ جنت کی طرف!!!!!!!!! فرمایا: تو اسے جنت کی فرحت بخش ہوائیں اور خوشبوئیں آنے لگتی ہیں۔ اس کے لئے اس کی قبر اس کی حد نگاہ تک وسیع کر دی جاتی ہے!!!!! فرمایا: اور اس کے پاس ایک آدمی آتا ہے؛ کیا حسین چہرہ، کیا خوب پوشاک، کیا زبردست خوشبو! وہ آدمی اس سے گویا ہوتا ہے: خوش خبری ہو ہر اس چیز کی جو تیرے لئے باعثِ مسرت ہو!!! آج ہے تیرا وہ دن، جس کا تجھ سے ذکر ہوا کرتا تھا!!!!! مومن اس سے پوچھتا ہے: تو ہے کون؟ تیرا تو چہرہ ہی خیر کی خبر معلوم ہوتا ہے!!! وہ جواب دیتا ہے: میں تیرا نیک عمل!!!!!!! تب مومن بول اٹھتا ہے: خدایا قیامت لے آ، کہ میں اپنے اہل ومال میں لوٹ جاؤں!!!!!
فرمایا: اور جو خدا کا کافر بندہ ہوتا ہے، جب دنیاسے اس کا رشتہ منقطع اور آخرت کا آغاز ہونے لگتا ہے، تو اس کی جانب آسمان سے فرشتے اترتے ہیں؛ نہایت سیاہ چہرے، ساتھ میں درشت بوریے اٹھائے ہوتے ہیں۔ وہ اس کی حد نگاہ پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر ملک الموت آگے بڑھتا ہے، یہاں تک کہ اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے خبیث نفس چل نکل پڑ اپنے رب کی خفگی اور غضب کی طرف۔ تب اس کی روح جسم کے ایک ایک رونگٹے سے الگ کی جاتی ہے۔ تب اسے جسم سے یوں کھینچا جاتا ہے جیسے ایک خاردار سلاخ گیلی اون سے کھینچ کر نکال لی جائے۔ پھروہ اس کو قابو کرلیتا ہے اور ایک لمحہ بھی ہاتھ میں نہیں رکھتا کہ فرشتے اسے اس درشت بوریے میں ڈال لیتے ہیں۔ اس وقت اس سے دنیا میں جو کوئی بدترین مردار ہوسکتا ہے ویسی بو آرہی ہوتی ہے۔ وہ اس کو لے کر اوپر چڑھنے لگتے ہیں۔ فرشتوں کے جس جھرمٹ کے پاس سے بھی ان کا گزر ہوتا ہے تو وہ پوچھے بغیر نہیں رہتے: ’یہ خبیث روح کون ہے‘؟ وہ جواب دیتے ہیں فلاں بن فلاں۔ دنیا میں اس کے جو سب سے قبیح نام ہوا کرتے تھے ان ناموں کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کو وہ آسمانِ دنیا تک لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ تب وہ اس کیلئے آسمان کے دروازے کھلوانے کی استدعا کرتے۔ آسمان کے دروازے اس کے لئے نہیں کھلتے، تب رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی:
لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ (الاعراف: 40)
”نہیں کھلیں گے ان کے لئے آسمان کے دروازے، اور نہ داخل ہوں گے وہ جنت میں ، جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہ گزر لے“
تب اللہ فرماتا ہے: اس کا کھاتہ لکھ دو سجین (قید والوں) میں، سب سے نیچے کی زمین میں۔تب اس کی روح کو چلا کر پھینک دیا جاتا ہے۔ تب آپ نے یہ آیت پڑھی:
وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاء فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ (الحج: 31)
”اور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گرا، پھر پرندے اسے اچک لے جائیں یا ہوا اسے دور دراز جگہ جا پھینکے“
تب اس کی روح اس کے جسد میں لوٹائی جاتی ہے۔اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں۔ وہ اس کو بیٹھا کر لیتے ہیں۔ وہ اس سے پوچھتے ہیں: کون تیرا رب ہے؟ تو وہ کہتا ہے: ہائے ہائے، مجھے نہیں معلوم۔ تب وہ اس سے پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ تو وہ جواب دیتا ہے: ہائے ہائے، مجھے نہیں معلوم۔ پھر وہ پوچھتے ہیں: یہ کون شخص ہے جو تم میں مبعوث ہوا؟ تو وہ کہتا ہے: ہائے ہائے، مجھے نہیں معلوم۔ تب آسمان میں ایک منادی کرنے والا منادی کرتا ہے: یہ جھوٹا نکلا، پس بچھا دو اس کو دوزخ میں سے ایک بچھونا، اور کھول دو ایک دروازہ اس کیلئے دوزخ کی طرف۔ تب اس کو دوزخ کی تپش اور جھلس دینے والی لو آنے لگتی ہے۔ اس کی قبر اس پر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف کی پسلیوں میں جا گھستی ہیں۔ اور اس کے پاس ایک شخص آتا ہے؛ نہایت قبیح چہرہ، نہایت قبیح لباس، نہایت غلیظ بدبو۔ وہ بولتا ہے: خوش خبری ہو ہر اس چیز کی جو تجھے مصیبت لگے۔ آج ہے تیرا وہ دن، جس کا تجھ سے ذکر ہوا کرتا تھا!!! تب وہ پوچھتا ہے: تو ہے کون، تیرا تو چہرہ ہی بدی کی خبر معلوم ہوتا ہے؟وہ کہتا ہے: میں تیرا برا عمل!!! تب وہ کہتا ہے: خدایا! قیامت برپا نہ کرنا!!!
(مسند احمد ودیگر کتب حدیث، کثیر محدثین نے اسے صحیح کہا ہے)
جنت اور دوزخ کی بحث ہوگئی۔دوزخ نے کہا: مجھے ترجیح ملی کہ جباروں اور متکبروں کا ٹھکانہ بنوں! جنت نے کہا: تو کیا مجھ میں کمزور، رلنے والے اور گمنام لوگ داخل ہوں گے! اللہ نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے، تیری صورت میں میں رحم کرتا ہوں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں!اور دوزخ سے کہا: تو میرا عذاب ہے، تیرے ذریعے میں عذاب دیتا ہوں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں! اور تم دونوں کا یہ حق رہا کہ میں تمہیں بھر کر چھوڑوں‘!!! سو جو دوزخ ہے وہ نہ بھرے گی، یہاں تک کہ اللہ عزوجل اپنا پاؤں رکھ دے گا۔ تب وہ آواز نکالے گی: بس۔ بس۔ بس۔ تب جاکر وہ بھرے گی اور سمٹ کر رہ جائے گی۔ جبکہ (اسے بھرنے میں) اللہ اپنی مخلوق پر کچھ بھی زیادتی نہ کرے گا۔ رہی جنت، تو اس (کو بھرنے) کیلئے اللہ اور مخلوق پیدا کرے گا! (صحیح مسلم)
خدا نے جنت بنائی تو جبریلؑ سے فرمایا: جاؤ اسے دیکھ کر آؤ۔ اس نے جنت کو دیکھا، تو کہا: میرے پروردگار! تیری عزت کی قسم! کوئی نہ ہوگا جو اس کا سنے اور پھر اس میں داخل ہوئے بغیر رہے! تب خدا نے جنت کے اردگرد، نفس پر گراں گزرنے والی اشیاءبکھیر دیں، پھر فرمایا: جبریل! جاؤ پھر اس کو دیکھو۔ جبریلؑ گیا، اسے دیکھ کر آیا تو عرض کی: میرے پروردگار! تیری عزت کی قسم! ڈر گیا ہوں کہ اس میں کوئی نہ جا پائے!!!
پھر، جب دوزخ پیدا کی تو فرمایا: جبریلؑ! جاؤ اسے دیکھ کر آؤ۔ وہ گیا، اسے دیکھ کر آیا تو عرض کی: میرے پروردگار! تیری عزت کی قسم! کوئی نہ ہوگا جو اس کا سنے اور پھر اس میں چلا جائے! تب خدا نے دوزخ کے چاروں طرف خواہشیں اور شہوتیں بکھیر دیں، اور فرمایا: جبریل! جاؤ پھر اس کو دیکھو۔ جبریلؑ گیا، اس کو دیکھ کر آیا تو عرض کی: میرے پروردگار! تیری عزت کی قسم! ڈر گیا ہوں کہ کوئی بھی اس میں داخل ہوئے بغیر نہ رہے!!! (تزمذی، ابوداود، البانی نے حدیث کو حسن صحیح کہا)
٭٭٭٭٭