الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْب-1 |
”کیا کرے گا اللہ تمہیں عذاب دے کر اگر تم شکر گزار بن کر رہو اور ایمان کی روش پر چلو؟ ! اور اللہ تو ہے ہی قدردان، مطلق علم والی ذات!!!“
(النساء:147)
”کہو! میرے رب کو تمہاری کیا پروا تھی اگر تم پکارتے نہ ہوتے اُس کو!!!“
(القرقان:77)
٭٭٭٭٭
بھلا وہ شخص کہ کھول دیا ہو اللہ نے اس کا سینہ اسلام کے لئے، پھر وہ ہوجاتا ہے اپنے رب کی جانب سے ایک خاص نور پر!!! پس بربادی تو ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ کے ذکر کے معاملہ میں سخت دل ہیں۔ یہی ہیں پڑے ہوئے کھلی گمراہی میں!!!
”اللہ نے نازل کیا ہے بہترین بیان؛ جو اول تا آخر ایک سا ہے، اور جس کے مضامین دہرائے جاتے ہیں.... اسے سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ان لوگوں کے جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔ پھر (اس سے) ان کے تن اور ان کے من اللہ کی یاد کے لئے پسیج جاتے ہیں۔ یہ ہے اللہ کی ہدایت، جس سے وہ جسے چاہتا ہے راہ دکھاتا ہے۔ اور جسے گمراہ کردے اللہ، تو نہیں ہے اسے کوئی ہدایت دینے والا!“
(الزمر: 22-23)
”اللہ؛ کہ نہیں ہے کوئی عبادت کے لائق سوائے اس کے۔ الحی القیوم!!! نہیں آتی اس کو اونگھ اور نہ نیند۔ اُسی کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں۔ کون ہے جو سفارش کر سکے اس کے حضور، اُس کی اپنی اجازت کے بغیر؟ اُس کے علم میں ہے جو کچھ مخلوقات کے روبرو ہوتا ہے اور جو کچھ اُن کے پیچھے ہو چکا ہے۔ وہ نہیں دسترس پاسکتے اُس کے علم میں سے ذرہ بھر پر، ہاں مگر جس قدر وہ خود چاہے۔ وسیع ہے اس کی کرسی سب آسمانوں اور زمین پر۔ نہیں دشوار اس کیلئے ان کا نگہبان رہنا۔وہ ہے عالی مرتبت، عظمت کا مالک!!!
”نہیں کوئی دھونس زبردستی ایمان لانے میں؛ راستی واضح اور الگ تھلگ ہوچکی ضلالت سے۔ سو اب جو کفر کر لیتا ہے طاغوت سے اور ایمان لے آتا ہے اللہ پر؛ تو وہی ہے جس نے تھام لیا (ایمان کا) مضبوط ترین سہارا، جو کبھی ٹوٹنے کا نہیں۔ اور اللہ تو ہے ہی سمیع اور بصیر!!!
”اللہ حامی ومددگار ہے ان لوگوں کا جو ایمان لاتے ہیں؛ نکال لاتا ہے ان کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف۔ رہے وہ جو کفر اختیار کرتے ہیں، تو ان کے حامی و مددگار طاغوت ہیں؛ وہ نکال لے جاتے ہیں ان کو روشنی سے تاریکیوں کی جانب۔ یہی ہیں آگ کے ساتھی؛ ہمیشہ رہنے والے ہیں یہ اس میں!!!“
(البقرۃ:255-257)
”اُسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی۔ کوئی نہیں جانتا انہیں سوائے اُسی کے۔ وہی جانتا ہے جو کچھ بحر وبر میں ہے۔ کوئی پتہ نہیں جھڑتا مگر اُس کے علم میں ہوتا ہے۔ کوئی دانہ نہیں جو زمین کے اندھیروں میں روپوش ہو اور نہ کوئی خشک اور نہ تر جو اس کے ہاں ایک بین کتاب میں درج نہ ہو!!!
”وہی تو ہے جو تمہیں رات کو قبض کر لیتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم دن میں کرتے رہے تھے۔ پھر اٹھا کھڑا کرتا ہے تمہیں (دوسرے) دن میں، کہ پوری کردی جائے ایک مدتِ مقرر۔ پھر اُسی کی طرف ہے تمہارا لوٹنا۔ پھر وہ تمہیں بتائے گا کیا کچھ کرتے رہے تھے تم....!
”وہی ہے قوت اور سطوت کا مالک اپنے بندوں پر۔ اور وہ (اپنی رحمت سے) بھیج رکھتا ہے تم پر نگہبان۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے تو ہمارے ہی بھیجے ہوئے اس کو قبض کر لیتے ہیں اور وہ نام کو بھی کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔
”پھر لوٹائے جاتے ہیں سب اللہ کی طرف جو مالک ہے ان کا درحقیقت۔ خبردار! اسی کو حاصل ہے فیصلے کا سب اختیار۔ اور وہ بہت تیز ہے حساب لینے میں۔
”کہو! کون ہے جو بچاتا ہے تمہیں صحرا اور سمندر کے تاریک (خطرات) سے؟ جب تم پکارتے ہو اس کو گڑگڑا کر اور زیر لب ’اگر وہ بچا لے ہم کو اس آفت سے تو ہم ضرور ہی اس کے احسان مند ہوں گے‘؟
”کہو! وہ اللہ ہی تو ہے جو نجات دے لاتا ہے تم کو اس سے اور ہر کرب سے، پھر یہ تم ہو جو (اس کے ساتھ اوروں کو) شریک کرتے ہو!
”کہو! وہ قدرت رکھتا ہے اس پر کہ بھیج دے تم پر عذاب تمہارے اوپر سے اور تمہارے پیروں تلے سے، یا تم کو ٹکڑے ٹولے کر کے رکھ دے اور چکھا دے مزہ ایک گروہ کو دوسرے کی طاقت کا۔ دیکھ کس طرح ہم پھیر پھیر کر آیتوں کو بیان کرتے ہیں کہ یہ بات سمجھ لیں!“
(الاَنعام: 59-65)
”تو پھر پکارو اللہ کو، نرے اُس کے بندے ہوکر، چاہے کتنا ہی برا مانیں اس پر کافر!!!
”اُس اللہ کو جو ہے درجے بلند کرنے والا، عرش کا مالک!!! وہ (ایمان کی) روح القاءکرتا ہے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، کہ خبردار کردے ’ملاقات کے دن‘ سے....!
”وہ دن کہ ہو رہیں گے سب کے سب بے پردہ!!! نہ چھپی ہوگی اللہ پر ان کی کوئی بات!!! ’کس کی ہے بادشاہت آج؟؟؟‘ .. اللہ واحد قہار کی!!!
”آج دیا جائے گا بدلہ ہر نفس کواس کی کمائی کا!ہرگز نہ کوئی ظلم ہوگا آج!!! بے شک اللہ بہت جلد حساب کر دینے والا ہے!!!
”ڈرا دے اِن کو اس دن سے، جس کی آفت قریب آلگی ہے؛ جب غم سے گھٹے، کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے!!! نہ ظالموں کا (اس دن) کوئی دوست اور نہ سفارشی جس کی مان لی جائے!!!
”وہ جان لیتا ہے نگاہوں کی چوری کو اور اسے بھی جو چھپائے ہوئے ہیں سینے۔“
(المؤمن: 14-19)
”کہو: تو کیا پھر تم مجھے تلقین کرتے ہو کہ اللہ کے غیر کو پوجوں، ارے اے جاہلو!
”جبکہ وحی کر دی گئی تیری طرف اور تجھ سے پہلوں کی طرف: کہ اگر کبھی کرلیا تو نے شرک، تو اکارت ہو کر رہے گا تیرا سب عمل اور ہوکر رہے گا تو خسارہ اٹھانے والوں میں۔
”بلکہ پوج تو اللہ ہی کو، اور ہو جا شکر گزاروں میں!!!
”نہ پہچانی ان (نادانوں) نے شان اللہ کی، جیسا کہ حق تھا اُس کی شان پہچاننے کا، حال یہ ہوگا کہ روزِ قیامت زمین ساری کی ساری اُس کی ایک مٹھی میں ہوگی اور سب آسمان لپٹ کر اُس کے دست راست میں ہوں گے!!! پاک ہے وہ اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ (اللہ کے ساتھ) کرنے میں لگے ہیں!!!
”اور صور پھونکا جائے گا، تو غش کھا گریں گے سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، مگر جسے اللہ چاہے۔ پھر صور دوبارہ پھونکا جائے گا، تو یکایک وہ اٹھ کھڑے ہوں گے، دیکھتے!!!
”اور (اس دن) تابندہ ہو اٹھے گی زمین اپنے رب کے نور سے۔ تب کتاب لا کر رکھ دی جائے گی۔ نبیوں اور گواہوں کو حاضر کر لیا جائے گا۔ لوگوں کے سب فیصلے کر ڈالے جائیں گے، حق کے ساتھ، اور ان پر کوئی ظلم نہ ہوگا!!!
”ہر نفس کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا، اور اُسے خوب معلوم ہے جو وہ کرتے تھے!“
(الزمر:64-70)
(سورۃ زمر کی انہی آیات کے ضمن میں)، روایت عبد اللہ بن عمرؓ سے، کہا:
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ”نہ پہنچانی اِنہوں نے شان اللہ کی، جیسا کہ حق تھا اُس کی شان پہنچاننے کا، حال یہ ہوگا کہ روزِ قیامت زمین ساری کی ساری اُس کی ایک مٹھی میں ہوگی اور سب آسمان لپٹ کر اُس کے دست راست میں ہوں گے!!! پاک ہے وہ اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ (اللہ کے ساتھ) کرنے میں لگے ہیں!!!.... جبکہ رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھ کے ساتھ اس طرح اشارہ کر رہے تھے؛ کبھی ہاتھ آگے تک لے آتے تو کبھی پیچھے تک لے جاتے۔ (ساتھ آپ کہہ رہے تھے) پروردگار اپنی عظمت اور کبریائی بتاتے ہوئے کہے گا: ”میں ہوں جبار۔ میں ہوں متکبر۔ میں ہوں بادشاہ۔ میں ہوں غالب۔ میں ہوں عزت والا“۔ تب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منبر بھی لرز رہا تھا، یہاں تک کہ ہم نے کہا کہیں یہ آپ کو لے کر گر نہ پڑے!!!
(مسند احمد)
روایت عبد اللہ بن عمرؓ سے، کہا:
میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر خطبہ دیتے سنا، فرما رہے تھے:
”جبار جل شانہ (قیامت کے روز) اپنے آسمانوں اور اپنی زمینوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لے گا __ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے اپنی مٹھی بند کی، پھر کبھی اس کو کھولتے اور کبھی بند کرتے __ اور پھر فرمائے گا: ”میں ہوں بادشاہ!!! کہاں ہیں (دنیا کے) جبار؟؟؟ کہاں ہیں متکبر؟؟؟
کہا: تب رسول اللہ ﷺ کبھی دائیں جانب جھکنے کو آتے تو کبھی بائیں جانب۔ یہاں تک کہ میری نظر منبر پر پڑی تو دیکھا وہ نیچے تک دہل رہا ہے۔ یہاں تک کہ میں دل میں کہنے لگا: کیا یہ رسول اللہ ﷺ کو لے کر کہیں گر تو نہ پڑے گا!!!
(ابن ماجہ، اسی حدیث کا ایک حصہ مسلم میں آیا ہے، الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہ ابو داود میں بھی آئی ہے، حدیث صحیح ہے)
٭٭٭٭٭
”کہیں اگر تم اس وقت دیکھو، جب ظالم لوگ سکرات ِ موت میں ڈبکیاں کھانے لگتے ہیں۔ فرشتے ان کی جانب ہاتھ بڑھائے ہوتے ہیں ’لاؤ نکالو اپنی جانیں، آج ملے گا تمہیں عذاب ذلت کا۔ اس لئے کہ تم خدائے کائنات کی بابت باطل بات کہتے تھے اور اُس کی آیتوں کے آگے سرکشی کیا کرتے تھے‘
”آج حاضر ہوگئے تم ہمارے پاس، ہر شخص اکیلا اکیلا، اسی حالت میں جس میں ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، اور جو کچھ ہم نے تمہاری مِلک میں دے رکھا تھا وہ اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو! (آج) تمہارے ساتھ ہم تمہارے وہ سفارشی نہیں دیکھتے جن کی بابت تمہارے دعوے تھے کہ یہ تمہارے معاملات میں (خدا کے) شریک ہیں! ٹوٹ گئیں وہ وابستگیاں جو تم میں (کبھی ہوا کرتی تھیں) اور جاتے رہے وہ سب زعم جو تم نے پال رکھے تھے!!!
”اللہ ہی تو ہے وہ ذات جو پھاڑ کر اگا لیتا ہے دانے اور گٹھلی کو۔(اُسی کی شان ہے) جو نکال لاتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالنے والا ہے مردہ کو زندہ سے۔ یہ ہے اللہ!!!!!! تو پھر تم کدھر بہکے جارہے ہو؟!
”(پردۂ شب) چاک کرکے وہ نکال لانے والا ہے سپیدۂ صبح کو! اسی نے بنایا رات کو سکون اور آرام، اور سورج اور چاند کو حساب اور پیمائش! یہ ہیں اندازے مقرر کئے ہوئے اُس غالب علیم ذات کے!
”وہی ہے جس نے تمہارے لئے تارے بنائے کہ راستہ پاؤ ان کے ذریعے بحروبر کی تاریکیوں میں۔ یقینا کھول کر بیان کرچکے اپنی نشانیاں ہم علم والوں کے لئے!
”وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ پھر کہیں (تمہیں) ٹھہرنا ہے تو کہیں امانت رہنا! یقینا کھول کر بیان کر چکے ہم اپنی نشانیاں سمجھ والوں کے لئے!
”وہی ہے جس نے اتارا آسمان سے پانی۔ پھر اگائی اس سے ہم نے ہر نوع کی ہریالی۔ پھر پیدا کئے ہم نے اس سے سر سبز کھیت۔ جن سے ہم برآمد کرتے ہیں دانے جو ایک دوسرے پر چڑھے ہوتے ہیں۔ اور کھجور کے گابھے سے نیچے تک جھکے ہوئے گچھے، اور باغات انگور کے اور زیتون کے اور انار کے، کہ ایک دوسرے کی مانند لگتے ہیں مگر خصوصیات میں جدا جدا۔ کبھی غور سے دیکھو اس کے پھل کو جب وہ پھل لائے اور اس کے پکنے اور رسیلے ہونے کو۔اسی میں بڑی نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لئے!
”یہ جنوں کو اللہ کا شریک بنا کر بیٹھے ہیں، جبکہ اِن کو پیدا اُس ذات نے کیا! انہوں نے خدا کے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لیں، نری جہالت سے۔ پاک اور برتر ہے وہ ذات اس وصف سے جو یہ کرتے ہیں!
”بے کسی نمونہ کے آسمانوں اور زمین کو بنانے والا!!! اُس کی اولاد کہاں سے ہونے لگی حالانکہ نہیں اُس کے کوئی ساتھ کی؟!! وہ ہر چیز ہی کا خالق تو ہے!!! اور وہ عین باخبر ہر چیز سے!!!
”یہ ہے اللہ!!! تمہارا پروردگار!!! کوئی ہے ہی نہیں جو بندگی کے لائق ہو، سوائے اُس ایک کے!!! ہر چیز کا خالق!!! تو پھر پوجو اُسے ہی !!! وہی تو کارساز ہے ہر چیز کا!!!
”نگاہیں اُسے پا نہ سکیں، مگر وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے!!! وہی ہے نہایت باریک بین اور باخبر!!!
”یقینا آچکیں تمہارے پاس بصیرت کی روشنیاں تمہارے مالک کی طرف سے۔ اب جس نے دیکھا تو اپنے بھلے کو اور جو اندھا ہوا وہ اپنے برے کو، اور نہیں ہوں میں تم پر نگہبان!!!“
(الاَنعام: 93-104)
”اللہ ہی جانتا ہے جو کچھ اٹھائے پھرتی ہے ہر مادہ (اپنے پیٹ میں) اور جو گھٹتا ہے رحموں کے اندر اور جو بڑھتا ہے۔اور ہے ہر چیز ہی اس کے ہاں ایک مقدار سے۔
”پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا! بڑائی والا! بالاتر رہنے والا!
یکساں ہے اس کے لئے تم میں سے وہ جو بات چپکے سے کرے اور وہ جو بلند آواز سے کرے ؛ اور وہ جو رات کو چھپنے والا ہے اور وہ جو دن کو چلنے والا ہے!
”وہ نگہبان رکھتا ہے جو بدل بدل کر (ڈیوٹیاں) دیتے ہیں اور حفاظت کرتے ہیں اس (انسان) کی، آگے اور پیچھے سے، اسی کے حکم سے۔ بے شک نہیں بدلتا اللہ حالت کسی قوم کی تاآنکہ نہ بدل لے وہ اپنے نفوس کی حالت خود ہی۔ اور جب اللہ ارادہ کر لے کسی قوم کی شامت لے آنے کا تو نہیں ہے پھر کوئی ٹالنے والا اس کا۔ اور نہیں ہوتا خود اسی کے سوا پھر ان کا کوئی حمایتی!
”وہی ہے جو دکھلاتا ہے تم کو بجلیاں، ڈرانے کو اور امید دلانے کو؛ اور اٹھاتا ہے بھاری بادل کو!
”اُسی کی تسبیح کرتی ہے بجلی کی گرج، ساتھ اس کی حمد کے، اور فرشتے بھی، اُس کے ڈر کے مارے،اور وہ کڑک بھیجتا ہے تو اسے ڈالتا ہے جس پر وہ چاہے، جبکہ وہ بحثیں کر رہے ہوتے ہیں اللہ کے بارے میں۔ اور وہ سخت پکڑ والا ہے!!!
”اُسی کو پکارنا حق ہے!!! رہے وہ جن کو یہ پکارتے ہیں اُس کو چھوڑ کر، وہ اِن کی کچھ بھی تو نہیں سنتے، مگر اس کی مانند جو پانی کے سامنے اپنی ہتھیلیاں پھیلائے بیٹھا ہے تاکہ وہ اس کے منہ میں آپہنچے!!! اور نہیں ہے کبھی بھی وہ اس تک پہنچنے والا!!! اور نہیں ہے پکارنا کافروں کا مگر ضائع و بے کار!!!
”اور اللہ ہی کے آگے سجدہ ریز ہے صبح شام ہر ذی نفس کہ آسمانوں میں ہو یا زمین میں، خوشی سے خواہ مجبوری سے، اور (سجدہ ریز ہیں) ان کے سائے بھی!!!
”پوچھو! کون ہے مالک ان آسمانوں کا اور زمین کا؟ خود ہی کہو: اللہ!!! کہو: تو کیا پھر ٹھہرا رکھے ہیں اُس ایک کو چھوڑ کر تم نے ’صاحبانِ حق‘، جو نہیں اختیار رکھتے خود اپنے نفع نقصان کا؟؟؟ کہو: تو کیا برابر ہوسکتا ہے اندھا اور انکھیارا؟؟؟ یا کبھی برابر ہوسکتے ہیں اندھیرے اور اجالا؟؟؟ یا کیا انہوں نے اللہ کے ایسے شریک ٹھہرا لئے جنہوں نے اللہ کی تخلیق ایسی تخلیق کرلی تو انہیں ان کا اور اللہ کا تخلیق کرنا ایک سا لگا؟؟؟؟؟ کہو: ایک اللہ ہی تو ہے خالق ہر چیز کا، واحد، قہار!!!!!
”آسمان سے اُس نے ایک مینہ اتارا۔ تب ندی نالے اپنے اپنے ظرف کے بقدر بہہ نکلے۔ تب پانی کی رو اس پر ابھرے ہوئے جھاگ اٹھا لائی۔ اور ان (دھاتوں) میں بھی جن کو آگ میں تپاتے ہیں، زیور اور ساز وسامان بنانے کے لئے، ویسا ہی ایک جھاگ اٹھتا ہے۔ یونہی بیان کرتا ہے اللہ حق اور باطل کی کہاوت!!! پس جو تو جھاگ ہے وہ پھُک کر چلا جاتا ہے۔ اور وہ جو فائدہ دے سکے انسانوں کو، وہ ٹھہر جاتا ہے زمین میں!!! یونہی بیان کرتا ہے اللہ مثالیں....!!!
”اُن لوگوں کے لئے، جنہوں نے لبیک کہی اپنے رب کی صدا پر، بدلہ حسین ترین ہے۔ پر وہ جنہوں نے نہ قبول کی اُس کی دعوت، وہ اگر زمین کی تمام تر دولت کے مالک ہوں اور ساتھ اتنی ہی اور دولت کے، تو وہ اپنی جان چھڑانے کو وہ سب کا سب دے ڈالیں۔ یہی ہیں کہ جنکا بڑا ہی برا حساب ہوگا، اور ٹھکانا ان کا جہنم؛ اور کیا ہی برا ٹھکانہ ہے!!!
”تو پھر کیا وہ شخص جسے یہ جاننا نصیب ہوا کہ جو کچھ تجھ پہ نازل ہوا وہی عین حق ہے، اس جیسا ہوسکتا ہے جو نرا اندھا ہے؟؟؟ نصیحت تو وہی لیتے ہیں جو عقل والے ہیں!!!“
(الرعد: 8-19)
”جب ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا لطف چکھاتے ہیں، جبکہ اس سے پہلے ان کو کوئی تکلیف پہنچ چکی ہو، تو پھر وہ ہمارے آیات واحکام کی بابت داؤ چلانے لگتے ہیں۔ کہہ دو اللہ کی چال تیز تر ہے۔ یقینا ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) لکھنے میں لگے ہیں وہ سب چالبازیاں جو تم کرتے ہو۔
”وہی تو ہے جو چلاتا ہے تمہیں خشکی اور تری میں۔ یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو، اور وہ لے چلتی ہیں انکو خوشگوار ہواؤں کے سنگ، جس سے وہ نہایت خوشی میں ہوتے ہیں، کہ یکایک انہیں تند ہوا آلیتی ہے اور موجیں ان پر ہر طرف سے آنے لگتی ہیں، اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ گھِر گئے، تو پکارتے ہیں اللہ کو، سب بندگی اور نیاز کو تب اسی ایک کے لئے خالص کرتے ہوئے ’اگر تو ہمیں اس سے بچا لے تو ہم ضرور ہی تیرے احسان مند ہوں‘!
”پھر جب وہ بچا لاتا ہے انہیں، تو لگتے ہیں بغاوت کرنے زمین میں نا حق۔ ارے اے انسانو! تمہاری یہ بغاوت سب تمہارے اپنے ہی جانوں کا وبال ہے۔ اٹھالو فائدہ دنیا کے جیتے جی۔ پھر تو تمہیں ہمارے ہی جانب لوٹنا ہے، پھر ہم تمہیں بتائیں گے کیا کچھ کرتے رہے تم!
”دنیا کی زندگی کی کہاوت تو یوں ہے جیسے وہ پانی جو ہم نے آسمان سے برسایا، پھر خوب گھنی ہوئی اس سے روئیدگی زمین کی، جسے کھاتے ہیں انسان اور چوپائے۔ یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگار لے لیااور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ تو ہمارے ہاتھ کی ہے، تو اس پر ہمارا حکم اتر آیا رات یا دن کے کسی پہر، تو بنا ڈالا ہم نے اس کو اجاڑ، ایسے گویا کل یہ فصل یہاں تھی ہی نہیں!!! ہم یونہی آیتیں مفصل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لئے!!!
”(دیکھو) اللہ بلاتا ہے سلامتی کے گھر کی طرف....!!! اور وہ ہدایت دیتا ہے اسے ہی جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی!
”(وہاں) ان لوگوں کے لئے جنہوں نے حسین عمل کئے بدلہ حسین ہے، اور پھر اس پر ’مزید‘!!! نہ چھائے گی ان کے چہروں پر سیاہی اور نہ ذلت!!! یہی ہیں بہشت کے مالک!!! کہ خلد پائیں گے اس میں!!!
”اور وہ جنہوں نے کمائیں برائیاں، بدلہ ہے برائی کا ویسے ہی (برا)، اور چھا کر رہے گی ان پر ذلت! کوئی نہ ہوگا انکو بچانے والا اللہ سے! وہ یوں ہوں گے گویا انکے چہروں پر اندھیری رات کے قطعے ڈال دیے گئے ہیں! یہ ہیں دوزخ کے ساتھی، جس میں یہ ہمیشگی پائیں گے!
”اور جس دن حشر کیلئے اٹھائیں گے ہم ان سب کو، پھر کہیں گے ہم مشرکوں سے: رک جاؤ یہاں تم بھی اور تمہارے شریک بھی۔ پھر ہم ان کو علیحدہ علیحدہ کردیں گے، تو ان کے شریک کہیں گے: ’نہیں کرتے تھے تم ہماری عبادت
”تو پھر کافی ہے اللہ گواہ ہمارے اور تمہارے درمیان، ہم تو تھے ہی تمہاری عبادت سے بالکل بے خبر‘!!!
”یہاں جانچے گی ہر نفس کہ کیا اس نے آگے بھیجا تھا!!!!!!! جبکہ وہ لوٹا لائے جا چکے ہوں گے اللہ کی طرف، جوکہ مالک ہے ان کا درحقیقت، اور گم ہوجائیں گے ان کے وہ (جھوٹے شریک) جو انہوں نے گھڑ لئے تھے۔
”کہو! کون ہے جو رزق لاکر دیتا ہے تم کو آسمان سے اور زمین سے؟ یا کون مالک ہے سماعت اور بینائی کی قوتوں کا؟ اور کون ہے جو نکال لاتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے؟ اور کون ہے جو انتظام کرتا ہے یہاں سب امر کا؟ تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ! سو کہو: تو کیا پھر ڈرتے نہیں ہو؟؟؟
”تو پھر یہ ہے اللہ!!! تمہارا پروردگارِ حق!!! پھر حق کے بعد کیا ہے سوائے گمراہی؟؟؟ تو پھر کدھر پھرے جاتے ہو؟؟؟
”یونہی ثابت ہو چکی ہے تیرے رب کی بات فاسقوں پر۔ تو وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
”کہو! کیا تمہارے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو اول بنائے ، پھر فنا کے بعد دوبارہ بنائے؟ کہو! اللہ اول بناتا ہے پھر فنا کے بعد دوبارہ بنائے گا، تو کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہو؟!!
”کہو! تمہارے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو حق کی راہ دکھائے؟ کہو! اللہ ہے جو حق کی راہ دکھاتا ہے۔ تو کیا جو حق راہ دکھائے وہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ پیروی اس کی ہو یا وہ جو خود ہی راہ نہ پائے جب تک کہ اسے راہ دکھائی نہ جائے؟؟؟!! تو کیا ہوا ہے تمہیں، کیسا حکم لگاتے ہو؟
”اور ان میں سے اکثر تو نہیں چلتے مگر گمان پر۔ بے شک گمان حق کے مقابلے میں کسی کام کا نہیں۔ اللہ علم رکھنے والا ہے ان کے سب کاموں کا۔
”اِس قرآن کی یہ شان نہیں کہ کوئی اسے اپنی طرف سے بنا لے بے اتارے اللہ کے!!! ہاں یہ تصدیق ہے اگلی کتابوں کی، اور تفصیل ہے الکتاب کی، لاریب ہے، رب العالمین کی طرف سے۔
”کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے قرآن اپنے پاس سے گھڑ لیا ہے؟ کہو! تو تم لے آؤ اس جیسی ایک ہی سورت اور اللہ کو چھوڑ کر جو جو مل سکیں سب کو بلا لاؤ، اگر تم سچے ہو۔
”بات یہ ہے کہ یہ اس بات کو جھٹلا بیٹھے ہیں جو ان کے علم کی گرفت میں ہی نہ آپائے، جبکہ اس کی حقیقت ابھی ان کے سامنے نہیں آئی!!!ایسے ہی ان سے اگلوں نے جھٹلایا تھا۔ پھر دیکھ لو ظالموں کا کیسا انجام ہوا؟!!
”(کچھ بھی کرلو) ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو ایمان لائیں گے اس پر اور کچھ ایسے ہیں جو ایمان نہیں لائیں گے اس پر۔ اور مفسدوں کو تیرا رب خوب جانتا ہے۔
”اور اگر یہ تمہیں جھٹلانے پر ہی رہیں تو کہو! میرے لئے میری کرنی اور تمہارے لئے تمہاری کرنی۔ تم میرے کئے سے بری اور میں تمہارے کئے سے بری۔
”ان میں کوئی وہ ہیں جو تمہاری جانب کان لگاتے ہیں۔ توکیا تم بہروں کو سنا دو گے، بے شک وہ عقل بھی نہ رکھیں؟!
”ان میں کوئی وہ ہے جو تمہاری طرف تکتا ہے۔ کیا تم اندھوں کو راہ دکھا دو گے، بے شک وہ سوجھ بھی نہ رکھیں؟!
”بے شک اللہ لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا، ہاں لوگ ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔
جس دن وہ ان کو حشر کیلئے اٹھائے گا؛ تو یوں ہوگا گویا وہ دنیا میں نہ رہے تھے مگر دن کی کوئی ایک گھڑی، (جس میں) وہ جان پہچان کرتے رہے تھے آپس میں۔ (خبردار!) بڑے ہی گھاٹے میں ہیں وہ لوگ جو جھٹلائے بیٹھے ہیں اللہ کی ملاقات کو اور ہدایت یافتہ نہ ہو پائے!!!“
(یونس: 21-45)
٭٭٭٭٭
”تسبیح کرتی ہے اللہ کی، ہر چیز کہ آسمانوں میں ہے یا زمین میں۔ وہی ہے غالب، حکمت کی مالک ذات۔
”آسمانوں اور زمین کی سب بادشاہت اُس کی۔ وہی زندگی دے، وہی موت دے۔ اور وہی ہے ہر چیز پر قدرتِ کامل رکھنے والی ذات۔
”وہی اول، وہی آخر، وہی ظاہر، وہی باطن۔ اور وہی ہے ہر چیز کا علم رکھنے والی ذات۔
”وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں کے اندر تخلیق کیا، پھر اُس نے عرش کے اوپر استوا فرمایا، وہ جانتا ہے ہر چیز کہ زمین کے اندر جاتی ہے اور ہر چیز کہ زمین سے باہر آتی ہے، اور ہر چیز کہ آسمان سے اترتی ہے اور ہر چیز کہ آسمان میں چڑھتی ہے، وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو، اور تم جو کرو مسلسل اس کی نظر میں ہے۔
”آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ایک اُسی کو سزاوار! سب امور لوٹیں تو اُسی کی طرف!
”وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ اور دلوں کے بھید جانتا ہے۔“
(الحدید: 1-6)
٭٭٭٭٭
”مجھے اجازت دی گئی ہے کہ خدا کے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں، اور جو کہ خدا کا عرش اٹھا رکھنے والوں میں سے ایک ہے: اس کے کان کے نچلے حصے اور اس کے کندھے کے مابین سات سو سال کا فاصلہ ہے“!!!
(ابو داود، حدیث صحیح ہے)
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک اعرابی نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور (قحط کی شکایت کرتے ہوئے) کہنے لگا: اے اللہ کے رسول جانوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ گھر والے بھوکے ہیں۔ مملوک خراب اور جانور مر رہے ہیں۔ ہمارے لئے بارش طلب کیجئے۔ ہم آپ سے اللہ کی سفارش کرواتے ہیں اور اللہ سے آپ کی سفارش کرواتے ہیں۔ تب رسول اللہ ﷺ گویا ہوئے:
سبحان اللہ! سبحان اللہ!! آپ سبحان اللہ کہتے ہی جا رہے تھے۔یہاں تک کہ اصحابؓ کے چہروں کی حالت بھی غیر ہونے لگی۔ تب آپ فرمانے لگے: تمہارا بُرا ہو۔ جانتے ہو اللہ کون ذات ہے!؟ کسی کی کیا حیثیت کہ اس سے اللہ کی سفارش کروائی جائے، بھلے آدمی اللہ کی شان اس سے کہیں بلند ہے!!!
(ابو داود، ابن تیمیہؒ نے اس حدیث کا اعتبار کیا ہے)
جعفر بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں، کہا:
ایک شخص امام مالکؒ کے پاس آیا اور سوال گو ہوا: ابو عبد اللہ! (قرآن میں آتا ہے:) الرحمن علی العرش استویٰ، خدا نے کیسے استوا کیا؟ میں نے امام مالکؒ کی اتنی حالت بدلتی کبھی نہ دیکھی تھی جتنی کہ اس وقت دیکھی۔ امامؒ پر پسینہ امڈ آیا۔ یہ دیکھا تو جتنے وہاں بیٹھے تھے سب نے سر گرا لیا اور انتظار کرنے لگے کہ امام مالکؒ اب کیا بولتے ہیں۔ کچھ دیر بعد امامؒ کی حالت بحال ہوئی تو بولے:الکیف غیر معقول، والاستواءمنه غیر مجہول، والاِیمان به واجب، والسؤال عنه بدعة، فاِنی اَخاف اَن تکون ضالاً’اس کی ”کیفیت“ عقل میں سمانے والی نہیں۔ خدا کا ”استوا“ فرمانا البتہ مجہول نہیں۔ اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ اس کی بابت پوچھنا بدعت ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تو گم راہ ہے‘۔ پھر حاضرین سے کہا کہ اس کو نکال دیں۔ (اعتقاد اہل السنة، مؤلفہ امام لالکائی، ج3 ص 398)
امام احمد بن حنبل کے بیٹے عبد اللہ روایت کرتے ہیں، کہا:
میں اور میرے والد (امام احمد) مسجد میں چل رہے تھے، کہ آپؒ نے ایک واعظ کو سنا، جو ذات خداوندی کی بابت ”نزول“ سے متعلق حدیث بیان کر رہا تھا: ’جب نصف شعبان کی شب ہوتی ہے تو اللہ جل شانہ آسمانِ دنیا کی جانب نزول فرماتا ہے، بغیر اس کے کہ وہ اپنی جگہ چھوڑے، بغیر اس کے کہ وہ منتقل ہو، بغیر اس کے کہ وہ حالت بدلے....‘ میرے والد نے یہ سنا تو اس پر جھرجھری لی۔ آپؒ کا رنگ زرد پڑ گیا۔ میرا ہاتھ دبایا۔ میں نے آپؒ کا ہاتھ دبا کر رکھا، یہاں تک کہ حالت درست ہوئی۔ تب میرے والد کہنے لگے: ٹھہرو، اس عقل دوڑانے والے سے بات کرتے ہیں۔ جب آپؒ اس واعظ کے بالکل سامنے چلے گئے تو بولے: ابے اے شخص! رسول اللہ ﷺ اپنے پروردگار عزوجل کی بابت تجھ سے زیادہ غیور تھے۔ وہی کہو جو رسول اللہ ﷺ نے کہا۔
(تذکرة المؤتسی شرح عقیدة الحافظ عبد الغنی المقدسی، مولفہ عبد الرزاق بن عبد المحسن البدرص 121، مؤلف نے اس واقعہ کا حوالہ امام الکرمی الحنبلی کی کتاب ”اقاویل الثقات فی احادیث الصفات“ ص 62-63 سے دیا ہے۔)
٭٭٭٭٭