اب جب ہم ’ملتِ روم‘ سے ذرا تفصیل کے ساتھ واقف ہو آئے ہیں اور اس جنگ کی حقیقت، پسِ منظر اور مضمرات سے بھی آگاہ ہو آئے ہیں جو ملتِ روم کی جانب سے ملتِ توحید کے خلاف چودہ صدیوں سے کھڑی کی جاتی رہی ہے.... اور حدیث کے اندر یہ بھی پڑھ آئے ہیں کہ روم کے ایک نہیں کئی سینگ ہوں گے جو ایک کے بعد ایک نمودار ہوں گے، نہ صرف نمودار ہوں گے بلکہ انشاءاللہ ہلاک بھی ہوتے رہیں گے....
تو پھر اب ہم ذرا یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ ملتِ روم کا وہ کونسا سینگ ہے جو آج اس وقت ہم پر حملہ آور ہے اور جس کی جانب ہمیں اپنی توجہ خاص طور پر مرکوز کردینا ہوگی؟
علاوہ ازیں، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا روم کے اس حالیہ ’سینگ‘ کے ساتھ ہمارا معرکہ اب کس مرحلہ میں داخل ہوگیا ہے اور اس کو ایک فیصلہ کن مقام پر جلد از جلد پہنچانے کیلئے اور اس کو اپنے طبعی انجام سے قریب تر کردینے کیلئے ہمیں کن امور پر سب سے زیادہ زور دینا ہے....
اور اب
’امیریکن ایمپائر‘!
وہ سب کینہ و بغض جو تاریخی طور پر ملتِ روم ہمارے ساتھ رکھے رہی ہے اور جس کو کہ وہ اپنا مقدس ترین ورثہ جانتی ہے اور اس کے نام پر اپنی ’مقدس جنگیں‘ کھڑی کرتی آئی ہے.... مغرب کی سیادت کا پرچم یورپ سے امریکہ منتقل ہوا تو اس کے ساتھ ہی وہ سب کا سب کینہ وبغض بھی ’یورپ‘ سے ’قیادت ہائے متحدہ امریکہ‘ کو منتقل ہو گیا جو مغرب کے ہاں نسل درنسل چلا آتا رہا تھا....
ریاست ہائے متحدہ امریکہ.. ملتِ روم کا یہ وہ فرزند ہے جس سے کوئی اور چوک ہو یا نہ ہو، مسلمانوں کے ہر دشمن کو دوست اور ہر دوست کو دشمن سمجھنے میں کبھی ایک بار بھی چوک نہیں ہو پاتی۔ مسلمانوں کا کوئی ایک مفاد ایسا نہ ہوگا جس کو زک پہنچانا مغرب کے اس ’پرچم بردار‘ کو کبھی بھول گیا ہو۔جنرل اسمبلی سے لے کر سلامتی کونسل تک اور نیٹو سے لے کر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف تک، ہر جگہ اور ہر فورم پر مسلمانوں کی تباہی کا ہر منصوبہ اور ہر سارش اس کی کھلی تائید اور حمایت پاتی ہے۔
اسرائیل سے لے کر بھارت تک اور اتھیوپیا و جنوبی سوڈان سے لے کر فلپائن کے صلیبیوں اور مشرقی تیمور کے باغیوں تک مسلمانوں سے بر سرِ پیکار ہر سرکش اور ہر غاصب اس کو ’مظلومیت‘ کی داستان نظر آتا رہا اور فلسطین سے کشمیر تک اور ارٹریا و صومالیہ سے چیچنیا، مسلم تھائی لینڈ اور مسلم فلپائن تک ہر نہتی مسلم قوم اس کو ’دہشت گرد‘ اور ’عالمی امن کیلئے شدید خطرہ‘ دکھائی دیتی رہی۔
ملتِ روم کے اس حالیہ ’نقیب‘ (1)کی حقیقتِ حال ہماری آنکھوں سے اوجھل رہی تو کچھ اس لئے بھی کہ اس کی اصل حقیقت پر ’کمیونزم کے خلاف جنگ‘ نے ایک وقتی سا پردہ تان دیا تھا۔ البتہ اس کا اصل چہرہ کوئی ہے تو وہی جس سے دنیا ’کمیونزم کے سقوط کے بعد‘ اب واقف ہو رہی ہے، اور جس میں، سوائے اسلام کے خلاف اندھی نفرت اور بغض کے، کوئی دوسرا نقش نظر تک نہیں آتا!
بے شک کمیونزم ایک بڑا اور فوری خطرہ تھا اور اس کے خلاف عالم اسلام نے جو اقدام کیا وہ بے حد ضروری تھا، اور بے شک ’روس‘ بھی اصل میں تو ملتِ روم کے ہاں سے ہی ابھر آنے والا ایک ’سینگ‘ رہا ہے، اس کے باوجود ’بنی الاصفر‘ (گوری اقوام) کا تاریخی ورثہ سارے کا سارا بلا کم وکاست’امیریکن ایمپائر‘ ہی کو منتقل ہوا ہے اور ملتِ روم کے سب تاریخی خصائص بدرجۂ اتم اسی عالمی طاقت کے حصے میں آئے ہیں، جوکہ جغرافیائی طور پر ضرور بحر اوقیانوس کے پار بیٹھی ہے مگر عملاً اس کی فوجیں اور طیارہ و میزائل بردار بحری بیڑے اس وقت سات سمندروں اور سات براعظموں کا گشت کرتے پھر رہے ہیں اور پوری دنیا خصوصاً عالم اسلام کو اپنی جکڑ میں رکھنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔
چنانچہ یہ ایک طبعی بات تھی کہ کمیونزم سے نمٹنے کا ’عبوری دور‘ گزارتے ہی یہ معاملہ وہیں پر آرہتا جہاں پر یہ پچھلے چودہ سو سال سے ہے اور یہ کہ جس جگہ پر یہ لوگ ’عالمی جنگوں‘ کے چھڑ جانے کے باعث ہمیں چھوڑ کر گھر جانے پر مجبور ہوئے تھے اور اس کے ساتھ ہی پھر روس کے ساتھ چھڑ جانے والی ان کی سرد جنگ نے ہمارے کچھ عشرے نکلوا دئیے تھے، جس سے ہمیں اپنی صفیں درست کرلینے کا کچھ تھوڑا سا موقعہ ہاتھ آگیا تھا...طبعی بات تھی کہ ’روس‘ وغیرہ سے فارغ ہوتے ہی یہ ہمیں وہیں سے آکر پھر دبوچ لیں اور عالم اسلام کے اندر اپنے اسی ایجنڈے کی تکمیل پر از سر نو جت جائیں جس میں کچھ ’مجبوریوں‘ (2) کے باعث کوئی صدی بھر کا تعطل آگیا تھا اور جس میں سر فہرست اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارے تہذیبی خدوخال مسخ ہوکر رہ جائیں، اپنی فکری اور تاریخی بنیادوں کے ساتھ ہمارا رشتہ نام کو بھی باقی نہ رہے اور پھر خصوصاً یہ کہ ”خلافت“ کا امکان اس امت کے اندر اب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے کیونکہ ’خلافت‘ ایک ’ڈراؤنا خواب‘ ہے جو آج اگر قائم ہوجاتی ہے تو ان کو ڈر ہے کہ کمزور قوموں کے وسائل ہڑپ کرنے اور ’تیسری دنیا‘ کے اندر لوٹ مچانے کی آزادیاں تو رہ گئیں ایک طرف، یہ (خلافت) ان کو بحر اوقیانوس Atlantic Ocean کے دوسرے پار چھوڑ کر آئے گی، وہ بھی اگریہ ان کے ساتھ ’پورا پورا حساب‘ کرنے پر نہ آئی ورنہ ’خطرہ‘ اس سے بھی کہیں بڑا ہے!
”خلافت“ چونکہ ایک ایسا ادارہ ہے جو ایمان اور جہاد کی ایک خاص فضا میں قائم ہوتا ہے اور مسلم معاشروں کے، اسلامی تربیت اور تہذیبی پختگی کی ایک خاص سطح کو پہنچا ہونے کی عکاسی کرتا ہے، لہٰذا ”خلافت“ کے قیام کا امکان ختم کردینے کا راستہ صرف اور صرف یہاں سے گزرتا ہے کہ اس امت کے اندر ایمان، عقیدہ، علم اور تربیت کے سب سوتے خشک کردئیے جائیں، اس امت کو قرآن کا نام تک بھول جائے اور ”جہاد“ کا لفظ تو مسلمانوں کی قاموس سے ہی خارج کر دیا جائے کیونکہ جب بھی ”ایمان، عقیدہ، علم اور تربیت“ کے عمل نے ”جہاد“ کو جنم دیا اور یہ واقعہ امت میں کسی بڑی سطح پر رونما ہونے لگا ”خلافت“ کے سوا اس کی طبعی منزل تب کوئی ہو سکتی ہے اور نہ کسی مسلمان کے ذہن میں اس کے سوا کوئی بات فٹ بیٹھتی ہے۔ کیا یہ بات ان کے لئے پریشان کن نہیں کہ دین کی طرف آنے والا ایک معمولی فہم کا مالک مسلمان بھی ”خلافت“ کے سوال پر بہت جلد پہنچ جاتا ہے اور ”تاریخ“ پڑھنے والا تو ہر شخض یہ پوچھنے بیٹھ جاتا ہے کہ آخر یہ ”خلافت“ کیا چیز تھی؟!
آج ہمارے مدرسوں اور تعلیمی نظاموں کی بابت اس قدر گہری تشویش اسی ’خوف‘ کی علامت ہے اور اس کو کسی چھوٹے سیاق minor context میں لینا ہماری ایک بڑی غلطی ہوگی ۔ بعید نہیں ہمارے ’تعلیمی نصاب‘ کسی وقت ان کی جنگوں یا کم از کم ان کی پابندیوں sanctionsکی بنیاد بن جائیں۔ علاوہ ازیں میڈیا خصوصا ٹی وی کے نجی چینل اپنی تہذیبی جہتوں کے لحاظ سے قریب قریب آج یہاں یہودی ایجنڈے کا ہی دوسرا نام ہیں، جس پر ان کی محنت اس وقت دیدنی ہے۔ یہاں تک کہ یہاں کے زیادہ مقبول چینلوں پر ’اسلام‘ کے نام پر دی جانے والی تفیہم بڑی حد تک انہی کے مقاصد پورے کرتی ہے، خواہ وہ حقیقتِ دین کو مسخ کرنے اور اس امت کو اس کے علمی وفکری مسلمات سے محروم اور قرونِ سلف سے برگشتہ کرنے کے معاملہ میں ہو، خواہ بے دینی کو اسلام کے ’دلائل‘ سے لیس کرنے کے معاملے میں،خواہ مسلمانوں کے اندر ”امت“ کا تصور ختم کرنے کے موضوع پر، خواہ ’رواداری‘ کے باطل مفہومات پڑھانے، ولاءو براءکے عقیدہ کا خاتمہ کروانے بلکہ وحدتِ ادیان کی راہ ہموار کرنے کے معاملہ میں، اور خواہ ”جہاد“ کو ’اسلام سے انحراف‘ ثابت کرنے کے ’شرعی دلائل‘ دلوانے کے معاملہ میں.. اسلام کا یہ جدید ’ایڈیشن‘ عین وہ مقاصد پورے کرتا ہے جو مسلمانوں کو اپنی ایک اجتماعی قوت وجود میں لانے سے ہر قیمت پر روک دینے کا عمل یقینی بنائیں۔ سب جانتے ہیں مسلمانوں کی ایک اجتماعی قوت کے وجود میں آنے کا ہی دوسرا نام ”خلافت“ ہے۔
چند اچھی کوششوں کو چھوڑ کر، باقی سب کچھ جو ’میڈیا‘ کے نرسنگے میں اس وقت پھونکا جا رہا ہے وہ اسی ایجنڈے کا حصہ ہے جو ایک خاص شیطانی منصوبہ بندی اور کمال تیز رفتاری کے ساتھ یہاں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ جتنا ان لوگوں کے پاس وقت کم ہے ، اس کے پیشِ نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عنقریب یہاں بڑے انقلابی revolutionary steps لئے جائیں گے۔ اب وہ وقت نہیں کہ مسلمانوں کے ’جذبات‘ کا خیال کرتے ہوئے اپنے کام کو یہ بلا ضرورت مؤخر کرتے جائیں اور عشروں کے حساب سے وقت مزید ’ضائع‘ کریں!
بہر حال میڈیا کے اندر اگر ہماری اسلامی قوتیں ایک بھر پور ایجنڈا لے کر آگے آتی ہیں تو یہ ایک زبردست اور بر وقت کام ہوگا، خصوصا جبکہ ان کو سننے کیلئے زمین آج جس قدر تیار ہے اتنی اس سے پہلے شاید کبھی نہ تھی۔ حقیقت تو یہ ہے دنیا آج امریکہ کو سننے کیلئے نہیں بیٹھی بلکہ اسلام کو سننے کی منتظر ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
بلاشبہہ ان کو احساس ہے کہ وہ بہت لیٹ ہوگئے ہیں اور گھڑیوں کو 1860ء تا 1890ءکی دہائیوں تک پیچھے نہیں لایا جا سکتا، جب مسلمان اس خوابِ غفلت سے ابھی اٹھ ہی نہ پائے تھے اور ہمارے پڑھے لکھے ہونے کی علامت صرف یہ مانی جاتی تھی کہ ہم ان کی انگلی پکڑ کر چلیں اور قدم قدم پر ان سے پوچھیں کہ آگے کدھر کو چلنا ہے۔ وہ ’سہانا‘ وقت یاد کر کر کے ان کو کچوکے لگتے ہیں جب ابھی عالمی جنگوں کی وہ آندھیاں افق پر نہ دیکھی جانے لگی تھیں اور جنکے امڈ آنے کے باعث وہ یہاں اپنے صدیوں پرانے خواب پورے نہ کرسکے تھے اور بالآخر ہمیں (کسی حد تک) اپنے حال پر چھوڑ کر انہیں اپنے گھر جانا پڑ گیا تھا، اور جس کے باعث ان کے کئی دور رس پروگرام بیچ میں رہ گئے تھے، اور پھر سرد جنگ نے ان کی گھڑیاں پون صدی مزید آگے کرا دیں، جبکہ اسلام کی پو پھٹنے کا عمل اس دوران برابر جاری رہا .... اب سورج قریب قریب چڑھ آیا ہے اور ’ہوش‘ میں آنے کی ضرورت ہم سے زیادہ شاید ان کو ہونے لگی ہے!
کسی نے اگر ان قوموں کے مابین رہ کر دیکھا ہے تو وہ اندازہ کرسکتا ہے کہ مغرب کے گرگوں کو اپنی قوموں کو جوش اور حمیت دلانے کیلئے آج کتنے پاپڑ بیلنا پڑ رہے ہیں اور صلیبی جنگوں کے طبل بجانے کیلئے منافقت اور لفاظی کے کیسے کیسے اسلوب اور میڈیا کے کیسے کیسے ہتھکنڈے استعمال کرنا پڑ رہے ہیں؟ آج ان کی الجھن یہ ہے کہ یہ چاہتے ہیں اِن کے بجائے ہوئے صلیبی جنگوں کے نقارے عالم اسلام کو بھی نہ سنیں مگر ان کی اپنی قوموں کو پوری طرح ’سمجھ‘ بھی آجائیں!
اس جلد بازی میں بلاشبہہ وہ کچھ ایسی فاش غلطیاں کر بیٹھے ہیں جو ان کے کام کو اور بھی الجھا دیں اور جس چیز سے وہ ڈر رہے ہیں اسے اور بھی قریب کر دیں..
بہتوں نے ان کو مشورہ دیا تھاکہ وہ افغانستان اور عراق کے اندر مہم جوئی نہ کریںکیونکہ جہاد اور اسلامی بیداری کی جس لہر کا خاتمہ کرنا اس عمل سے ان کا مقصود ہے وہ اس سے اور بھی توانا اور جوان ہوسکتی ہے اور یہ کہ اس سے مسلم امت کے وہ طبقے بھی جو اس جنگ میں نسبتاً غیر جانبدار ہیں جانبدار ی پر مجبور ہوجائیں گے بلکہ تو وہ طبقے جو ان مغربی طاقتوں کے مفادات کیلئے یہاں عالم اسلام کے اندر کام کررہے ہیں خود ان کا کام اس صورت میں حد درجہ مشکل ہوجائے گا۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اس خطرے کو پلتا ہوا آخر چھوڑ کیسے دیں۔خصوصا افغانستان میں اگر اہل اسلام کی قوت ہر طرف سے آ آ کر اکٹھی ہونے لگ جاتی ہے اور مختلف صلاحیتوں اور شعبوں کے مسلم ماہرین، جن کی دنیا بھر کے اندر اب کوئی کمی نہیں، اگر یہاں مسلمانوں کے کچھ بنیادی منصوبوں اور فنی وتربیتی لحاظ سے امت کے کچھ بہت ہی اسٹرٹیجک انفراسٹرکچر پروگراموں پر کام شروع کردیتے ہیں، جبکہ اس کی نصرت کیلئے ساتھ میں برصغیر کے مسلمانوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے اور اس کے پبچھے پورے عالم اسلام کا ایک لامتناہی سلسلہ، تو یہ کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے؟ اس کے برعکس، ان کا خیال تھا کہ افغانستان میں فتح کے جھنڈے گاڑتے ہی یہ پڑوس کے دیگر خطوں کی جانب متوجہ ہوں گے، خصوصاً اس ’خطے‘ کی جانب جس کے اندر، بقول نیوزویک، ’جہاد‘ دراصل پل رہا ہے اور جہاں سے بیٹھ کر مجاہدین در اصل تقویت پارہے ہیں!
وہ یہاں ہمیں تہس نہس کرنے آئے تھے اور اپنی نسلوں کیلئے یہاں پائے جانے والے صدیوں تک کے خطرات کا آخری حد تک قلع قمع کردینے۔ اس بار کسی ترس کھانے کی ان کے پاس گنجائش تھی اور نہ کسی نرمی کی۔اس مشن میں صرف افغانستان اور عراق نہیں ہم سب کی باری آنی تھی۔ مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں نکلا جتنا کہ وہ سمجھ رہے تھے۔اس مشن کا پہلا ہی مرحلہ سر نہ ہوسکا۔ B52 اور ڈیزی کٹر کا کام بہت جلد پورا ہوگیامگر یہ ’فتح‘ ایک دلدل تھی جس میں وہ مسلسل دھنستے جارہے ہیں۔ وہ سب خدشات جو اس مہم سے ان کو لاحق ہوسکتے تھے سچ ثابت ہورہے ہیں البتہ وہ سب فوائد جو اس سے وہ حاصل کرنا چاہتے تھے عنقا ہیں۔ یہ ایک اتنا بڑا جوا ثابت ہوا جو ایک ’بوڑھے جواری‘ کے کھیلنے کا ہرگز نہ تھا! جوا قریب قریب ہارا جا چکا ہے اور بس اب چند چالیں باقی ہیں، جو اگر فریقِ مخالف کی جانب سے سمجھ لی جاتی ہیں تو یقینی ہے کہ ناکارہ چلی جائیں، جس کے بعد اس فریقِ مخالف کا حق بنتا ہے کہ اس کھیل کی اگلی بازی اب وہ اپنی شروط پر کھیلے اور ان شروط کے ذریعے پہلے سے بڑھ کر اپنے زیرک ہونے کا ثبوت دے۔ یہاں ہوشمندی کی آخری حد درکار ہے اور جذبات کی دخل اندازی کیلئے ہرگز کوئی گنجائش نہیں۔
بہر حال ’امیریکن ایمپائر‘ کی اس غلطی نے کہ وہ اپنے لاؤ لشکر سمیت یہاں اتر آئے اور بندوق کی نوک پر ہمیں اپنی مرضی کی جہت دیتے ہوئے عالم اسلام میں مغربی مفادات کا تحفظ یقینی بنائے بلکہ قوت کے استعمال کے ذریعے ہم سے اپنے اہداف سے چھڑوا کر وہ ہمیں اپنی مرضی کے اہداف دے کر جائے.. ’امیریکن ایمپائر‘ کی اس غلطی نے حالات کو ناقابل اندازہ تیز کردیا ہے اور عین اسی سمت میں معاملے کو کمال سرعت کے ساتھ بڑھا دیا ہے جو بصورتِ دیگر شاید ابھی کئی عشرے لیتی۔ ملتِ روم جس چیز کو دور سے دیکھ کر ڈرتی تھی اس کے امریکی ’چارہ گروں‘ نے اسے ان کے لئے بے حد قریب کردیا ہے۔ مغرب چاہے تو اب اپنی گھڑیوں کی سوئیاں آدھ پون صدی اور آگے کرلے!
٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ ’لال مسجد‘ میں جو کچھ اسٹیج کیا گیا __ اور جس میں بلاشبہہ خونِ مسلم کی ایک بڑی ہولی کھیلی گئی __ اور اس کے متصل بعد شمالی و قبائلی علاقہ جات میں حالات و واقعات کا جو ایک سلسلہ چل نکلا ہے، بیرونی حملہ آوروں کی طرف سے یہ ’لائف سپورٹ‘ لینے کی ایک کوشش ہے۔یہ ایک ایسے مریض کو بچانے کی ہنگامی کوشش ہے جو آخری دموں پہ پہنچ چکا ہو، البتہ اگر اسے چند سانسیں ایک بار دلا دی جائیں تو امکان ہو کہ معاملہ شاید کچھ سنبھل جائے اور پھر کچھ نگہداشت کے نتیجے میں وہ پوری طرح پاؤں پر کھڑا ہو جائے.. جبکہ دنیا امید پر زندہ ہے!
اس سے پہلے عراق کے اندر اس بات کا تجربہ کیا جا چکا ہے کہ مجاہدین کے محاذ بڑھا دیئے جائیں تاکہ ان کے عمل کی وہ ترکیز جو وہ اپنی ہر چوٹ ایک ہی محاذ پر لگانے کی صورت میں برآمد کر رہے تھے، کم از کم اپنی شدت ضرور کھو دے.. جس سے فائدہ اٹھا کر بیرونی حملہ آور کم از کم ایک بار سنبھل جانے کا موقعہ پا لیں اور اپنے کارڈ کچھ زیادہ بہتر انداز میں کھیلنے کی پوزیشن میں آئیں۔ رافضیوں کی بابت خواہ جو بھی کہہ لیا جائے، لیکن ان کے ساتھ اہلسنت کا محاذ کھل جانا، خواہ اس کے جو بھی اسباب ہوں، اہلسنت کے عمل کو کوتاہ کردینے کا باعث بنا اور بیرونی قبضہ کاروں کو پیر جمانے کے کچھ نہ کچھ مواقع دے گیا۔
عراق کے اندر یہی ہو سکتا تھا کہ اہلسنت کو رافضیوں کے ساتھ قبل از وقت الجھا دیا جائے، امریکیوں کو وہاں پیر جمانے کا راستہ صرف یہیں سے مل سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عالم عرب کے کثیر علمائے اہلسنت، جنکی منہجِ اہلسنت کی ترویج وترجمانی ایک جانی مانی حقیقت ہے، عراق کے سنی طبقوں کو بے حد خبر دار کرتے رہے ہیں کہ وہ عین اس موقعہ پر جب عراق میں امریکہ کے گھٹنے لگنا قریب ہو چکا تھا، رافضیوں کے ساتھ جنگ کے اس جال میں ہرگز نہ آئیں جوکہ اس وقت ان کیلئے بڑے طریقے سے پھینکا جارہا ہے اور جس کا فائدہ امریکیوں کے بعد سب سے زیادہ ایران کو ہے جوکہ اس عمل سے ایک طرف عراق کے رافضیوں کی وفاداریاں اپنے لئے زیادہ یقینی بنائے گا تو دوسری طرف امریکہ کے عراق سے نکلنے کی صورت میں عراق کے اندر کارروائی کرنے کیلئے ایک زبردست وجہِ جواز پائے گا کیونکہ اس بات کا تو کوئی امکان ہی نہیں کہ اہلسنت کی مدد کو کوئی عرب ملک عراق کے اندر آئے البتہ رافضہ کی مدد کیلئے ایران ضرور عراق کے اندر یا دنیا میں کہیں بھی یہ کام کرسکتا ہے۔
عراق کے اندر مسلمانوں کی ترکیزِ عمل ختم کرانے کی یہی صورت تھی جس پر بیرونی قوتوں کی جانب سے بھر پور کام ہو تا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں جہاں بیرونی قبضہ کار بیٹھے ہیں اور جن کی تمام تر توجہ اس وقت اس بات پر ہے کہ خود پاکستان کے اندر کارروائیوں کی کوئی صورت نکالی جائے.. اور جوکہ پچھلے چھ سال سے جاری جہادی عمل سے، جوکہ مغربی ذرائع ابلاغ کے خیال میں پاکستان میں سے غذا پا رہا ہے، بے انتہا زک اٹھا چکے ہیں.. ان کے پاس اس کی کیا صورت ہے کہ یہاں مجاہدین کو کئی محاذوں پر تقسیم کردیا جائے؟
ہم سمجھتے ہیں لال مسجد کا خونیں واقعہ کرکے دراصل ایک ایسے ہی سلسلے کیلئے زمین ہموار کی گئی ہے۔جہادی عمل کو یہاں بھی اس جال میں ہرگز نہیں آنا چاہیے کہ وہ اپنے محاذ بڑھ جانے کی اجازت دے۔ مجاہدین جس محاذ پر پچھلے سات سال سے لگاتار چوٹ لگا رہے ہیں اس سے اگر ان کی توجہ پھر جاتی ہے تو یہ ایک کام کو بہت پیچھے لے جانے کے مترادف ہوگا بلکہ دشمن سنبھل کر اپنی اس پہلی پوزیشن پر واپس بھی جا سکتا ہے جو اسے ابتدا کے اندر حاصل تھی، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ اگر مجاہدین ڈٹے رہتے ہیں تو ان کا دشمن اس محاذ سے بھاگ جانے کے بے حد قریب پہنچ چکا ہے۔
امریکیوں کے لئے اس سے مثالی صورت آخر کیا ہوسکتی ہے کہ مجاہدین کو مارنے کا ’فرض‘ امریکیوں کی بجائے پاکستانی فوج اور پیراملٹری فورسز ادا کریں اور امریکیوں کو اس منظر سے محظوظ ہونے دیں۔ اور اس کے جواب میں مجاہدین کو بھی اگر قتال کرنا ہے تو اس کا رخ امریکی افواج کی بجائے پاکستانی افواج ہو جائیں۔ یوں دونوں جانب سے امریکیوں کی جان چھوٹی، پاکستانی فوج اگر مجاہدین کو مارتی ہے تو یہ تو امریکیوں کی نظر میں کیا ہی اچھا ہے اور اگر مجاہدین بھی پاکستانی فوج کو مارتے ہیں تو بھی یہ امریکیوں کی نظر میں اس سے تو کہیں اچھا ہے کہ مجاہدین کی وہی گولیاں امریکی فوج کو لگتیں! یعنی اگر مارنے اور مرنے والے ہر دو صورت میں امریکیوں کے علاوہ کوئی ہوں اور امریکی یہاں ہر دو جھنجٹ سے بچ جائیں، البتہ خطہ میں ان کی موجودگی پوری طرح برقرا ر رہے، تو اس سے بہتر ان کیلئے کیا صورتحال ہوسکتی ہے؟!
بلاشبہہ پاکستانی حکمرانوں نے یہ صورتحال پیدا ہوجانے میں ایک بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اسلامی مفاد کے تحفظ کی توقع پھر بھی ہمیں صرف مجاہدین سے ہی ہوسکتی ہے نہ کہ پاکستانی حکمرانوں سے۔ اس وقت جس درجہ کا صبر و برداشت اور ہوشمندی ضروری ہے بلاشبہہ وہ ایک غیر معمولی حوصلہ چاہتا ہے مگر اس کے سوا اس وقت کوئی چارہ نہیں کہ ایسے کسی جال میں نہ آیا جائے جس کو پھینک کر یہ مجاہدین کے محاذ بڑھا دینا چاہتے ہیں۔ وہ خوشخبری جو عالم اسلام کو ان کے جہاد کے نتیجے میں انشاءاللہ عنقریب ملنے والی ہے اسی بات میں مضمر ہے کہ ان کی یہ محنت ترکیزِ عمل سے محروم نہ ہونے دی جائے۔
اسلام کے فدائیوں کیلئے صورت حال کو کتنا بھی طیش آور کیوں نہ بنادیا جائے، امریکہ کو وہ چیز اس وقت کسی قیمت پر نہ دی جائے ، جو وہ اس صورت حال کو پیدا کرکے حاصل کرنا چاہتا ہے، یعنی یہ کہ مجاہدین بعض مسلمان ملکوں کے اندرونی محاذوں پر الجھ پڑیں، جس سے اس پورے منظر نامے کو ہی امریکہ کے حق میں ایک پلٹا دلوا دیا جائے۔ یہ تجزیہ چاہے لاکھ درست ہو کہ آنے والے دن اسلام کے حق میں بے حد سازگار ہیں،غیر دانشمندانہ اقدامات کی قیمت ہمیں بہرحال ادا کرنا پڑے گی اور ان کے باعث ہمارا عمل مؤخر بھی بہرحال ہوگا، اور کیا بعید معطل بھی ہورہے اور تب یہ ضروری ہوجائے کہ کئی عشروں کے عمل سے کچھ اور لوگ ہمارے مابین قیادت کا خلا پر کرنے کیلئے آگے آئیں اور اپنی اس ناؤ کو پار لگانے میں تب وہ اس مطلوبہ فہم وفراست کا مظاہرہ کریں جس سے حالیہ قیادتیں قاصر رہیں.. امکان اس بات کا بھی بہر حال ہے۔
بے شک امریکی قبضہ کار افغانستان میں زچ ہوچکے ہیں، عین اسی طرح جس طرح یہ عراق کے اندر روہانسے ہوچکے تھے۔ اس لحاظ سے لوگوں کا تجزیہ ہے کہ شاید امریکہ اب خطے میں کوئی اور مہم جوئی کرنے کا متحمل نہیں رہ گیا ہے اور یہ کہ جس پروگرام پر امریکہ خطے میں آیا تھا یعنی یہ کہ افغانستان کو لے لینے کے بعد وہ پاکستان کے اندر ’اسلامی خطرہ‘ کے خاتمہ کے مشن پر روانہ ہوگا اور عراق پر قبضہ کے بعد وہ عرب ممالک کے اندر تیزی سے بڑھنے والے ’اسلامی خطرے‘ کو نابود کرنے کیلئے فوجی کارروائیاں کرے گا اور یہ کہ پاکستان تا عالم عرب اب وہ ہر جگہ اپنی مرضی کا سیاسی اور تہذیبی انتظام کروائے گا، جس میں یہاں کی حکومتوں اور قوم پرستوں سمیت ہر کسی کو اس کے ساتھ ’سیدھا‘ ہوکر چلنا پڑے گا، کیونکہ ’ناں‘ سننے کی اسکے پاس اس بار گنجائش ہی نہیں تھی بلکہ واضح کردیا گیا تھا کہ ’ناں‘ کہنے والا سیدھا ’پتھر‘ کے دور میں پہنچایا جائے گا!.. اپنے اس مشن کے پہلے ہی مرحلے میں، یعنی افغانستان اور عراق کے اندر، ناکام ہوجانے کے بعد، امریکہ اگلے کسی مرحلے پر روانہ نہیں ہوگا۔
مگر ہم سمجھتے ہیں یہ تجزیہ کچھ بہت صحیح نہیں۔بے شک اگلے مرحلوں پر خصوصاً پاکستان کی جانب وہ اس طرح روانہ نہیں ہوگا جس طرح ابتدائی طور پر اس کا پروگرام رہا ہوگا مگر یہ بعید از قیاس ہے کہ اس ’اسلامی خطرے‘ کو کوئی بھی نقصان پہنچائے بغیر وہ واپس چلا جائے گا، خصوصا جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ امریکہ کی نظر میں اس کی اپنی جو صلاحیت مشکوک ہوئی ہے وہ صرف یہ کہ امریکہ کیلئے کسی ملک پر فوجی کنٹرول قائم رکھنا آسان نہیں (یا تو اس کے پاس ’برطانیہ عظمیٰ‘ جیسی صلاحیت نہیں کہ قوموں پر اپنا ایک طویل اقتدار قائم کرلے اور یا پھر، جو کہ صحیح تر ہے، قوموں پر کنٹرول رکھنے کا زمانہ لد گیا ہے!) البتہ یہ کہ امریکہ کسی کا کچھ بگاڑ لینے سے ہی قاصر ہوگیا ہے اور یہ کہ خطے کے اندر پائے جانے والے ’اسلامی خطرے‘ کا یہ کوئی بھی نقصان نہیں کرسکتا یا یہ کہ ممکنہ حد تک اپنے مقاصد کے حصول کیلئے یہ اور بہت سی شیطانی چالیں نہیں چل سکتا، یہ بات بہرحال درست نہیں۔ پھر خاص طور پر جبکہ پچھلے کئی سالوں سے یہاں مار کھاتے ہوئے وہ یہ بھی نظر میں کرچکا ہے کہ اس جہادی عمل کو خوراک کہاں کہاں سے مل رہی ہے اور فکری و نظریاتی طور پر اس کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں اور کہاں کہاں سے مستقبل کے اندر بھی ایسے ’خطرات‘ ابل سکتے ہیں جن کی ابھی چند صورتوں سے ہی افغانستان وعراق کے اندر اسے سابقہ پڑا ہے اور جن کو ابھی اور چھوڑ دیا گیا تو نہ جانے خطرات کی اور کون کونسی قسمیں مستقبل قریب میں ان کا سامنا کریں (کیونکہ ہم نہیں تو وہ جانتے ہیں کہ اسلام اور ’ملتِ روم‘ کا یہ معاملہ کوئی سالوں اور عشروں کا نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے لہٰذا اس کیلئے اتنا ہی لمبا چلنا ضروری ہے!)
پس امریکہ خطے سے واپس جاتا ہے یا مار کھانے کیلئے ابھی کچھ دیر اور یہاں رہتا ہے، یہ طے ہے کہ وہ ایک بِس گھولنے والے سانپ کی طرح یہاں ہمارا ایک بھاری بھر کم نقصان کردینے کی ہر ممکن کوشش کرے گا، جس کے اس کو مواقع نہ دینے کی ہر ممکن کوشش ہمیں بہرحال کرنی ہے۔
جو خدشہ اس وقت نظر آرہا ہے وہ یہ کہ عالم اسلام کے دو ملکوں کی باری کسی نہ کسی انداز میں عنقریب آنے والی ہے: ایک پاکستان اور دوسرا شام۔کیونکہ دونوں ’ان‘ کی نظر میں ”ارضِ رباط“ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں افغانستان میں ان کے پیر جمانے کیلئے یہ بات لازمی ہو گئی ہے کہ پاکستان کے اندر جہاد کے خیر خواہوں کو اپنی ہی بپتا پڑ جائے، اس کے بعد افغانستان میں جہاد سے نمٹنا ان کیلئے کوئی مسئلہ ہی نہ رہے گا، جبکہ شام Syria جہاد کے دو اہم ترین محاذوں کی جانب قافلہ ہائے مجاہدین کی گزرگاہ بن چکا ہے، ایک عراق اور دوسرا فلسطین، جہاد کے یہ دونوں عرب محاذ ان کی رائے میں ارضِ شام سے تقویت پاتے ہیں۔ لہٰذا ان دو سرزمینوں کو اور ان کے جہاد دوست باشندوں کو ناکارہ کرکے رکھ دیا جانا، ان کے مالی سوتوں کو خشک کر کے رکھ دیا جانا، اور عین یہاں پر ہی جہاد کے پشت بانوں کو بری طرح الجھا کر رکھ دیا جانا ان کے خیال میں ناگزیر ہوگیا ہے۔
(جہاد کے ’مالی سوتوں‘ کے حوالے سے، خدشہ ہے کہ ’سعودیہ‘ کی بھی بہت جلد باری آجائے)
اس عمل سے وہ دو فائدے لیں گے:
ایک یہ کہ مجاہدین کے محاذ بڑھ جائیں اور وہ ترکیزِ عمل سے محروم ہو جائیں خصوصا وہ ترکیزِ عمل جس کا اصل محل ہیں ہی امریکی افواج اور جس کی سب چوٹ پڑتی ہی ان کے اپنے سروں پر ہے، اور جہاں پر مجاہدین کی کامیابیوں کی ہر کوئی گواہی دے چکا ہے۔
دوسرا یہ کہ مجاہدین کی کمک کی راہیں تباہ اور کمک کے مصدر تتر بتر کرکے رکھ دیئے جائیں۔
ضروری نہیں یہ ایک باقاعدہ فوجی قبضہ ہو کیونکہ، جیسا ہم نے کہا، فوجی قبضہ کا تجربہ مزید شاید اب نہ کیا جائے، البتہ ایک شدید تباہی اور ایک بدترین انارکی لانے کی کئی اور صورتیں زبردست طور پر آزمائی جائیں گی۔
ان کارروائیوں کی جو بھی صورتیں ہوں، ان میں دو باتوں کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی:
1) یہ کہ ان سب طبقوں کو شدید طور پر الجھا دیا جائے جو جہاد کی خیر خواہی اور نصرت کے ’جرم‘ میں کسی نہ کسی انداز میں یہاں شریک رہے ہیں اور جن سے کہ مستقبل میں اس سے بھی کسی بڑی سطح پر جہاد کی پشت بانی کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ ان جہاد دوست طبقوں کو اس حد تک اپنی پڑ جائے کہ یہ ’پڑوس‘ میں ہونے والے جہاد کیلئے زیادہ سے زیادہ ’اچھے جذبات‘ ہی رکھ سکیں مگر عملًا اس کیلئے کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں۔ یوں پہلے جہاد کو عملًا تنہا کردیا جائے اور پھر اس سے تسلی کے ساتھ نمٹا جائے۔ یا پھر یوں کہئے مجاہدین اور مجاہدین کے نصرت کنندگان، دونوں کو الگ الگ کرکے اور مختلف محاذوں میں بانٹ کر مارا جائے۔
2) یہ کہ ان ’نئے‘ محاذوں پر امریکی خود سامنے نہ آئیں بلکہ مکر و تدبیر سے کام لے کر اس کیلئے اور قوتوں کو آگے کریں۔ یہ مقامی قوتیں ہوں، آس پڑوس کی کچھ حکومتیں ہوں، سب ممکن ہے۔ پاکستانی فوج کو زیادہ سے زیادہ اس اندرون ملک مرنے مرانے کی راہ پر ڈالا جائے۔ عرب حکومتوں اور افواج کو عین یہی راہ دکھائی جائے۔ ساتھ میں، انڈیا کو پاکستان وافغانستان میں اور اسرائیل اور ایران کو عرب خطوں میں الگ سے کچھ اہداف مل سکتے ہیں۔ غرض ایک بار یہ انتظام کرلیا جائے کہ مرنے اور مارنے والے دونوں ’امریکی‘ نہ ہوں (مارنے والے امریکی ہوں بھی تو بہت پیچھے رہ کر!) تو پھر عالم اسلام کے ایسے کئی خطوں میں جنگ کی آگ بھڑکا دی جائے جہاں ’اسلامی خطرہ‘ مزید پختہ mature ہو رہا ہے۔ امریکہ کیلئے کوئی آبرومندانہ راستہ اس بند گلی کو پہنچ لینے کے بعد نکل سکتا ہے تو اس کی اب یہی صورت ہے۔ یعنی اس وقت جاری جہاد بھی بے دست و پا ہوا اور ’مستقبل کے چیلنج‘ کو بھی بڑا ہونے سے روک دیا گیا!
اس دوران وہ اپنی قوموں کو ذرا اور جگا لیں، جو ابھی تک ’جنگ مخالف ریلیوں‘ پر نکل کھڑی ہوتی ہیں اور ’حالات کی نزاکت‘ کو سمجھ ہی نہیں پا رہیں! علاوہ ازیں، امریکی انتظامیہ یہ ثابت کرلے کہ وہ کتنے بڑے خطرے کے پیش نظر یہاں آکر بیٹھ گئی تھی۔ اس کے بعد، وقت آنے پر دیکھا جائے گا کہ مغرب مستقل بنیادوں پر یہاں کیا پالیسی اختیار کرے!
اس تناظر میں.. آنے والے دنوں کے اندر جو ’بہت کچھ‘ ہونے والا ہے عالم اسلام کے جنوب مشرقی محاذ پر اس کا ’امیدوار‘ خطہ پاکستان ہے اور مغربی محاذ پر شام اور سعودیہ۔
البتہ صبر و حوصلہ اور سمجھداری سے کام لیا جائے تو اللہ کے فضل سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ وار خالی جائے۔ امید ہے ’امیریکن ایمپائر‘ کے ترکش میں اب بہت تیر نہیں رہ گئے!
یہاں کی اسلامی قوتیں اس کے اس جال میں اگر نہیں آتیں اور اپنے کچھ مخلص جذباتی عناصر کو قابو میں رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو بہت امید ہے دشمن کی یہ تدبیر سرے نہیں چڑھے گی۔ اسلامی قوتوں کے ہاں اس بات کا ادراک اگر قوت پکڑ لیتا ہے کہ ان کو کسی قیمت پر اس وقت اپنے محاذ نہیں بڑھانے، تو بہت ممکن ہے ’را‘، (سابقہ) ’خاد‘ اور ’موساد‘ وغیرہ بھی یہاں برہنہ ہو کر رہ جائیں او ر موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے معاملہ میں ان کی اکثر چالیں ناکام جائیں۔ خدشہ یہ ہے کہ بغضِ اسلام سے بھری بعض عالمی ایجنسیاں مکر و حیلہ سے کام لے کر ہمارے کچھ سطحی وجذباتی طبقوں کے ہاں کچھ ایسی نرم و گداز زمین پانے میں کامیاب ہو جائیں کہ جہاں پیر رکھ کر یہ ہمارے مابین اپنے مفادات کی خاصی جگہ بنا لیں بلکہ ایک بے یقینی کی کیفییت پیدا کرکے اور واقعات کا ایک ایسا ’تسلسل‘ پیدا کرکے جس میں پھر واپسی کی راہیں مشکل ہو جائیں اور اس کے ساتھ چلتے جانا پھر ہر کسی کی ’مجبوری‘ سی بن جائے، یہ ہمیں کوئی بھاری زک پہنچا لیں۔
صبر، ہوشمندی اور اہل علم و بصیرت سے مسلسل رابطہ و رجوع کر رکھے بغیر ہرگز کوئی چارہ نہیں۔
(1) مراد ہے امریکی انتظامیہ
(2) ’مجبوریوں سے مراد ہے: مغربی قوتوں کے اپنے مابین پہلے دو عالمی جنگوں کا ہونا، جن کی تیاری اور پھر ان جنگوں کے دوران ان کی سرگرمی اور ان کی خوفناک تباہی ان کی نصف صدی سے زیادہ لے گئی اور جس کے باعث وہ عالم اسلام کو مسل کر رکھ دینے میں اپنے ارمان پورے نہ کر سکے، پھر دو عالمی جنگوں کے متصل بعد شروع ہوجانے والی سرد جنگ کا چھڑ جانا، جوکہ ان کی مزید کوئی پون صدی گل کر گئی.. اس دوران یہ عالم اسلام میں وہ کچھ نہیں کرسکے جو اس صورت میں ہوتا اگر ان کو اپنی یہ بپتا نہ پڑتی۔ یوں عالم اسلام جو پوری طرح ان کے نرغے میں آچکا تھا پھر اپنا کچھ نہ کچھ بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
عالم اسلام کی حالت ان لوگوں کے ہاتھوں جتنی بھی دگر گوں ہوئی اور اس کے سب تہذیبی خدوخال جتنے بھی مسخ ہوئے، یہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہ ہوتا اگر دو عالمی جنگیں اور پھر سرد جنگ نہ ہونے کی صورت میں ان کو دل کی حسرتیں پوری کرنے کا موقعہ ہمارے یہاں پوری طرح مل گیا ہوتا۔ البتہ اب ہمارے کچھ لوگ ، خصوصا تعلیم وتربیت اور میڈیا کے میدانوں میں، ان کے ایجنڈے کامیاب کرانے کے مشن پر ہیں اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار۔ مگر ہم سمجھتے ہیں ان سب کے ہی ہاتھ سے وقت نکل گیا ہے، اور یہ ’ضعیفوں‘ پر اللہ کا ایک خاص فضل ہے!
اگلی فصل