عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
AmericanAmpaire آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
عالم اسلام.. صلیبی چیر پھاڑ کا دیرینہ ہدف
:عنوان

عالم اسلام پر یکے بعد دیگرے چڑھ آنے والی صلیبی مہمات "کروسیڈرز" کی ایک مختصر تاریخ یہاں بیان کی گئی ہے۔ بسلسلہ ہماری کتاب: روبزوال امیریکن ایمپائر

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

صلیبی حملوں

کی مختصر تاریخ

عالم اسلام..
صلیبی چیر پھاڑ کا دیرینہ ہدف

 

یہاں ہم ان صلیبی مہمات کا ذکر نہیں کریں گے، جو اندلس میں اسلامی وجود کو ختم کردینے کیلئے کئی صدیاں عمل میں لائی جاتی رہیں۔ نہ ہی ہم خطۂ بلقان کی صلیبی مہموں کا ذکر کریں گے اور نہ ہی ان مہمات کا جو کلیسا خود اپنے باغیوں اور ’زندیقوں‘ کے خلاف وقتاً فوقتاً برپا کرتا رہا۔ہم صرف ان صلیبی مہمات کا ایک اچٹتا ذکر کریں گے جو عالم اسلام کے قلب کو ہدف بنا کر سمندر پار سے ہم پر یورش کرتی رہیں۔

 

پہلی صلیبی مہم:

1095ء تا 1099ء

بائزنٹین کی رومن ایمپائر جوکہ حضرت عمرؓ کے دور میں ہی پورے ایشیا اور افریقہ سے بے دخل ہوگئی تھی اور ایشیا میں اس کے پاس صرف ایشیائے کوچک باقی رہ گیا تھا اور اس میں بھی وہ بدستور پیچھے سرکتی جارہی تھی.. پانچویں صدی ہجری کے وسط تک، سلجوقی مسلم ترکوں کے ہاتھوں ایشیائے کوچک کا ایک بڑا حصہ کھو چکی تھی، اور خطرہ پڑ چکا تھا کہ روم کے ہاتھ سے ایشیا کا یہ آخری خطہ بھی ہمیشہ کیلئے نکل جائے، خصوصا تاریخ اسلام کے مشہور معرکہ ’ملاذکرد‘ Manzikert (واقعہ 1071ء) کے بعد، جس میں الپ ارسلان کی قیادت میں سنی سلجوقوں نے اہل روم کو بدترین شکست سے دو چار کیا تھا۔

اس خطرے اور نقصان کو بھانپتے ہوئے، 1074ء میں رومن ایمپرر میکائیل ہفتم نے، جوکہ اب آرتھوڈکس مذہب اختیار کرچکا تھا، یورپ کے وسط میں بیٹھے کیتھولک پوپ گریگوری ہفتم کو مدد کی دہائی دی، جسے کیتھولک پوپ نے ’مسلک‘ کے فرق کے باعث نظر انداز کردیا۔ چند ہی سالوں بعد، مدد کیلئے دوسری دہائی رومن ایمپرر الیکسی اس اول Alexius I نے گریگوری کے جانشین پوپ اربن دوئم کو دی، جس نے ’مذہبی اختلافات‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے آرتھوڈکس سلطنتِ روم کی مدد کا فیصلہ کیا۔ تب تک مشرقی یورپ کے وحشی قبائل عیسائی بنائے جاچکے تھے جن کی جنگجوئی کو یورپ سے باہر کی راہ دکھانا ویسے بھی ضروری ہوگیا تھا!

1095ء میں، پوپ اربن دوئم نے صلیبی دنیا میں ’مقدس جنگ‘ کی کھلی منادی کروائی۔ ارض مقدس کو لینے کی مہم میں شرکت کرنے والوں کو مغفرت اور بہشت کی ضمانتیں دیں۔ کلیرمن کی کانفرنس (منععدہ فرانس) میں اپنا تاریخی خطبہ دیا۔ پوپ کا یہ جملہ بھی نقل کیا گیا ہے: ’فرانس انسانی آبادی سے تنگ پڑگیا ہے اور ارضِ کنعان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں‘۔ہر طرف سے امڈ آنے والے صلیبی جتھے اگلے سال، 1096ء میں، رومن پایۂ تخت قسطنطنیہ میں اکٹھے ہوئے۔ جہاں سے پھر وہ عالم اسلام پر حملہ آور ہوئے۔ تب تلک سلجوقیوں کی مرکزی قوت کچھ اندرونی عوامل کے باعث ویسے ہی کمزور پڑ چکی تھی، خصوصاً ملکشاہ اول کی موت کے بعد سلاجقہ کی اندرونی خانہ جنگی اور پھر سلجوقی امرا کے مابین چھوٹی چھوٹی متحارب ریاستوں کی تقسیم اس صلیبی حملے کی راہ آسان کرچکی تھی۔ ضورلیمDorylaeum اور انطاکیہ میں سلجوقیوں کو پسپا ہونا پڑا۔ ملوکِ طوائف میں سے کسی اور کو تو سامنے آنے کی ہمت ہی کیسے ہوتی!؟جس کے بعد بیت المقدس تک صلیبیوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آئی۔کچھ دیر محاصرہ رکھنے کے بعد، شوال 496ہجری 1099عیسوی، صلیبی بیت المقدس پر قابض ہوگئے۔ شہر میں تاریخ کا بدترین قتل عام کیا گیا، ساٹھ سے اسی ہزار انسان تہ تیغ ہوئے۔ اس دن پورا شہر خون سے لت پت تھا۔ خطے میں کئی صلیبی راجواڑے قائم کئے گئے جن میں سب سے قابلِ ذکر، مملکتِ یروشلم، مملکت اڈیسا، انطاکیہ اور طرابلس تھی۔

اس کامیابی کے بعد ایک اور صلیبی مہم 1101ء میں یورپ سے روانہ کی گئی، مگر تاریخ میں یہ الگ سے ذکر نہیں ہوتی بلکہ پہلی صلیبی مہم ہی کے ساتھ ملحق سمجھی جاتی ہے۔

 

دوسری صلیبی مہم:

1147ء تا 1149ء

یہ پہلی صلیبی مہم تھی جس میں یورپ کے دو بادشاہ بنفس نفیس شریک ہوئے، فرانس کا بادشاہ لویس ہفتم اور جرمنی کا بادشاہ کونراڈ سوئم۔

1144ء میں موصل کے امیر عماد الدین زنکی نے موصل اور حلب کو یکجا کرلینے کے بعد، اپنے جہادی مشن میں کامیاب پیش قدمی کرتے ہوئے، اڈیسا (اسلامی نام رَہَا)کی صلیبی مملکت کا خاتمہ کردیا۔ یہ سب سے پہلی صلیبی مملکت تھی جو قدیم سے چلی آنے والی مسلم سرزمین میں قائم کرلی گئی تھی اور سب سے دور شمال میں واقع ہونے کے باوجود یہی سب سے پہلے گری۔ بڑے عرصے کے بعد مسلمانوں کو پہلی بار صلیبیوں کے مقابلے میں ’فتح‘ کا لفظ سننا نصیب ہوا۔ مسلمانوں کے حوصلے ازسر نو بلند کرنے کا یہ سہرا عماد الدین اتابک زنکی کو جاتا ہے۔ تب کیا تھا، یورپ میں فوراً خطرے کی گھنٹیاں بجا دی گئیں۔اگلے سال، 1145ء میں، پوپ کے نمائندوں کی تحریک پر یورپ کے دو بادشاہ اور لا تعداد نواب کیل کانٹے سے لیس اپنی فوجوں کے ساتھ عالم اسلام پر حملہ آور ہوئے اور ’شام‘ کا قصہ ہمیشہ کیلئے پاک کردینے کی ٹھانی۔ دونوں یورپی بادشاہ بائزنٹائن سے آگے گزرے تو اناطولیا میں سلجوقیوں کے ہاتھوں الگ الگ معرکوں میں شکست فاش کھائی اور ڈھیر سارا نقصان کرا لینے کے بعد بیت المقدس پہنچے۔

خدا کا کرنا، یہاں اس موقعہ پر صلیبوں نے دمشق کا محاصرہ کرکے ایک فاش غلطی کی۔ دمشق کی مسلم امارت صلیبیوں کی حلیف رہی تھی اور حلب کے مجاہد زنکیوں کی حریف۔ البتہ صلیبیوں کی اس حرکت نے دمشق اور حلب کی مسلم امارتوں کے مابین قربت بڑھا دی، خصوصاً اس لئے بھی کہ تب تک حلب کی امارت عماد الدین کے بیٹے نور الدین محمود کے پاس آچکی تھی جو کہ نیکی و تقویٰ اور عدل و انصاف میں عمر بن عبد العزیز کے بعد ذکر ہونے والے مسلم حکمرانوں میں شمار ہوتا ہے، اور جوکہ مسلم شیرازہ کو ہر قیمت پر اور ہر قربانی دے کر مجتمع رکھنے کے مشن پر گامزن تھا۔ حلب و دمشق کی دیرینہ مخاصمت کو بھلا کر، نور الدین کی سپاہ دمشق میں گھرے ہوئے معین الدین انر کی مدد کو بر وقت پہنچی اور ایک نہایت کامیاب حکمت عملی سے صلیبیوں کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا گیا۔

مسلمانوں کی اس یکجہتی کے آگے، یورپ سے آئی ہوئی سپاہ اپنے بادشاہوں اور نوابوں سمیت ناکام ونامراد لوٹی۔ اتنی بڑی مہم کے یوں اکارت چلے جانے کے بعد پھر بڑی دیر تک یورپیوں کو کسی بڑی مہم کے تیار کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ادھر مسلمانوں کے پاس ایک صالح قیادت آچکی تھی، جس کیلئے میدان بڑی حد تک خالی تھا، باوجود اس کے کہ شام کے اطراف واکناف میں قائم صلیبی ریاستوں کی بے تحاشا قوت تھی اور ضمیر فروشی کا پورا ایک جال نصب تھا۔

اب نور الدین محمودؒ کی تگ وتاز روز بروز بڑھنے لگی۔ چند ہی سالوں بعد دمشق بھی نور الدین کے زیر امارت آگیا، جس کے ساتھ پورا شام اس کی قیادت تلے مجتمع ہوگیا۔ تب نور الدین مصر کی جانب متوجہ ہوا کیونکہ مصر اور شام کو اکٹھا کئے بغیر صلیبی یورپ کے ساتھ اس دور رس جنگ میں پورا نہ اترا جاسکتا تھا۔ مصر کا ایک متحدہ مسلم قیادت تلے آنے کا مشن بھی صلیبیوںکی کچھ اپنی ہی غلطیوں نے نور الدین کیلئے آسان کردیا۔ ورنہ مصر میں رافضیوں کی فاطمی دولت اتنی آسانی سے راستہ دینے والی نہ تھی۔ نور الدین کے کمانڈر اسد الدین شیر کوہ نے مصر میں صلیبیوں کو پچھاڑ کر اپنی وزارت قائم کی، جس پر بعد ازاں، اسد الدین کا ہونہار بھتیجا صلاح الدین یوسف فائز ہوا۔ اب وقت آگیا تھا کہ نور الدین کی قیادت میں اسلام کے لشکر بیت المقدس کی جانب بڑھیں، مگر اسکے لئے نور الدین کی زندگی نے وفا نہ کی۔ نور الدین کی موت کے ساتھ ہی شام میں طوائف الملوکی کا پھر دور دورہ ہوا ، اور خطے میں صلیبی استحکام کو واپس آنے کا ایک اور موقعہ ملا۔ مگر صلاح الدین نے، جو کہ نور الدین کا لگایا ہوا ایک صالح پودا تھا، کچھ سالوں کے اندر مصر میں فاطمیوں کی باطنی خلافت ختم اور بغداد کی عباسی سنی خلافت کا خطبہ جاری کرنے کے بعد مصر کو ازسر نو سنت پر کھڑا کردیا اور وہاں سے ایک مضبوط جہادی لشکر تیار کیا۔ پھر شام کو طوائف الملوکی سے نکال کر اپنی قیادت کے تحت از سر نو مجتمع کیا۔ ایک مختصر عرصے میں شام اور مصر پھر ایک صالح قیادت تلے مجتمع ہوچکے تھے، بلکہ کئی اور مسلم خطے بھی ایوبی اقتدار کے زیر نگیں آگئے تھے۔ 583ھ بموافق 1187ء تک، حطین کے تاریخی معرکے میں فتح اسلام کے بعد، بیت المقدس مسلمانوں کو واپس مل چکا تھا!

 

تیسری صلیبی مہم:

1189ء تا 1192ء

حطین ایک ایسا کامیاب معرکہ تھا گویا اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھا۔ اس میں، عرب خطوں میں قائم نصرانی سلطنتوں کے سات صلیبی بادشاہ گرفتار ہوکر صلاح الدین کے سامنے لائے گئے تھے، جس سے صلیبی وجود کی کمر ٹوٹ چکی تھی۔ عالم صلیب پر یہ ایک ایسی چوٹ تھی جو صدیوں بھولنے والی نہ تھی۔’حطین کی شکست‘ اور ’بیت المقدس کا سقوط‘، پوپ اربن ہشتم پر یہ خبر قیامت بن کر ٹوٹی، اور وہ اسی صدمے سے چل بسا۔ بوقت موت وہ اپنے جانشین گریگوری ہشتم کو ایک عظیم صلیبی مہم کی تیاری کی وصیت کرگیا۔ دو ماہ بعد گریگوری کی جگہ نیا پوپ کلیمنٹ سوئم فائز ہوا، جس نے اپنے کارڈینیل پورے یورپ میں دوڑائے۔ یہ کیتھولک اساقفہ پیدل چلتے اور فرانس، انگلستان اور جرمنی میں ہر طرف بیت المقدس کی دہائی دیتے۔

تب جرمنی کا بادشاہ فریڈرک اول، فرانس کا بادشاہ فلپ دوئم اور انگلینڈ کا بادشاہ رچرڈ شیر دل کلیسا کی اپیل پر اس ’مقدس‘ مشن پر نکلے۔ جرمن پہلے، یعنی 1189ء میں ہی، نکل پڑے۔ جرمن بادشاہ فریڈرک، بائزنٹائن کے راستے آگے بڑھتے ہوئے دریا میں غرق ہوگیا۔ اس کا تیس ہزار کا لشکر موسم کے ہاتھوں تباہ وبرباد ہوتا ہوا کچھ واپس چلا گیا اور کچھ اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے بالآخر عکہ، فلسطین پہنچا۔فرانس کا فلپ اور انگلستان کا رچرڈ سال بھر تیاری کرتے رہے اور 1190ء کی موسم گرما میں عازم سفر ہوئے۔ سال راستے میں گزارا، اس دوران صقلیہ اور قبرص کے سٹرٹیجک جزیرے صلیبی اقتدار میں شامل کئے۔اگلے سال یعنی 1191ء میں، یہ شام کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوئے۔ فلسطین میں عکہ فتح کیا اور اس میں دو ہزارمسلمانوں کو ذبح کیا۔ اس کے بعد صلاح الدین کو شام کے ساحلوں پر پسپا کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ، مگر اللہ نے ان کو ناکام رہنے دیا۔ سال بھر زور لگا لینے کے بعد، ایک عہدنامہ کرکے اور ساحلی پٹی کو اپنے پاس رکھ کر اور باقی بلاد الشام پر، سمیت بیت المقدس، صلاح الدین کا حق حکمرانی تسلیم کرتے ہوئے، ستمبر 1192ء میں یہ یورپی لشکر واپس ہوئے۔

 

چوتھی صلیبی مہم:

1202ء تا 1204ء

یہ پوپ انو سینٹ سوئم Innocent III کی تحریک پر اٹھی تھی، جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ تیسری صلیبی مہم کی ناکامی کے بعد بیت المقدس واپس لینے کیلئے پہلے مصر پر قبضہ کیا جائے اور وہاں پیر مضبوط کرلیے جائیں، اس کے بعد پھر بیت المقدس کی جانب آگے بڑھا جائے۔

مگر یہ مہم اسلامی ساحلوں پر پہنچ ہی نہ پائی اور آپس کی پھوٹ کا شکار ہوکر اپنے ہی ملکوں میں ایک دوسرے کو تاراج کرتی قسطنطنیہ جا پہنچی، جہاں یہ آرتھوڈکس اور کیتھولک کی چشمک میں بدل گئی۔ کیتھولک کی فتح کے باوجود، کیتھولک پوپ نے اس پر ناخوشی کا اظہار کیا۔

 

پانچویں صلیبی مہم:

1217ء تا 1221ء

بیت المقدس کی ’واپسی‘ کیلئے کلیسا کی دعائیں اور التجائیں مسلسل جاری رہیں۔ اب کے ہنگری اور آسٹریا نے ’مقدس مشن‘ کیلئے کلیسا کو اپنی فوجیں دینا قبول کیں، جو بیت القدس کے (تخت سے محروم) صلیبی بادشاہ اور انطاکیہ کے صلیبی شہزادے کی سرکردگی میں ارض اسلام پر حملہ آور ہوئیں۔یہ مصر میں ایک بڑے قتل عام کے بعد دمیاط کے خطے پر قابض ہوئیں جوکہ بقیہ مصر پر قابض ہوجانے کیلئے ایک اسٹرٹیجک پوائنٹ ہے۔ تب مصر کا سلطان،صلاح الدین کا بھتیجا اور الملک العادل کا بیٹا، الملک الکامل تھا۔ دمیاط فتح کرلینے کے بعد مصر میں صلیبیوں نے منصورہ کی چھاؤنی پر چڑھائی کی۔

مصر پر یہ ایک نازک ترین وقت تھا، مگرعین اس موقعہ پر نیل پورے زور سے بہہ نکلا۔ مسلم فوج نے ایک کامیاب حکمت عملی کے تحت اور ایک منظم انداز میں، نیل کے بند توڑ دیے اور صلیبیوں کی پیش قدمی کیلئے خطے کو دلدل بنا ڈالا، تب الملک الکامل کے لشکروں نے شبخون مار کر صلیبی حملہ آوروں کا بھاری جانی نقصان کیا۔ مصر کی اسلامی فوج صلیبیوں کا اور بھی جی بھر کر نقصان کرتی مگر تاتاریوں کے ممکنہ حملے کے پیش نظر الملک الکامل نے آٹھ سال کیلئے صلیبیوں کے ساتھ متارکۂ جنگ کا معاہدہ کیا۔ الغرض، یہ صلیبی مہم بھی دوسری، تیسری اور چوتھی مہم کی طرح، ناکام و نامراد یورپ لوٹی۔

 

چھٹی صلیبی مہم:

1228ء تا 1229ء

پانچویں صلیبی مہم کی ناکامی پر ایک عشرے سے بھی کم گزرا تھا کہ یورپ ایک نئی صلیبی مہم نکال لایا۔ اس بار مہم کی قیادت جرمنوں کے پاس آئی۔ جرمن بادشاہ فریڈرک دوئم نے پانچویں صلیبی مہم میں شمولیت کیلئے نذر مانی تھی مگر کسی وجہ سے شامل نہ ہوسکا تھا۔ اس پانچویں مہم کی ناکامی کے ساتھ ہی پوپ نے جرمن بادشاہ سے اس ’قرض‘ کا تقاضا کرنا شروع کردیا تھا۔فریڈرک منصوبہ بندی کا ماہر تھا اور اپنی اس مہم کی بھر پور تیاری کرتامگر مہم کو مؤخر کرتا رہا۔ انتطار سے تنگ آکر پوپ نے فریڈرک کو کلیسا کی برکت سے محروم کردیا، جس کے پیچھے گو کئی عوامل اور بھی کارفرما تھے۔ فریڈرک کی عالم اسلام پر مہم کا تمام تر عرصہ، کلیسا اس سے ناراض رہا۔ چنانچہ یہ پہلی مہم ہے جو کلیسا کے ’برکت‘ دیئے بغیر ہوئی جبکہ پہلی صلیبی مہم کے بعد یہ پہلی مہم ہے جس میں یورپ نے ایک زبردست کامیابی پائی!

فریڈرک نے شام اور مصر کے مابین اختلافات، جوکہ جنگ کی نوبت کو پہنچے ہوئے تھے، کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے جوڑ توڑ اور ساز باز کا راستہ اپنایااور بالآخر وہ الملک الکامل کو ایک معاہدے پر مجبور کردینے میں کامیاب ہوا، جس کی رو سے بیت المقدس کا شہر (مسجد اقصیٰ کے احاطے کو چھوڑ کر) صلیبیوں کو واپس ملا بلکہ ناصرہ، بیت لحم اور کچھ دیگر شہر جو یورپیوں کو بیت المقدس آنے کیلئے راستے میں پڑتے تھے، صلیبیوں کے پاس چلے گئے۔ یوں بغیر کسی بھی جنگ کے یروشلم میں پھر سے نصرانی سلطنت قائم ہوئی، البتہ اس بار کوئی عشرہ بھر ہی قائم رہ سکی (اسی لئے بیت المقدس پر اس صلیبی قبضہ کا عام طور پر ذکر نہیں ہوتا)۔ کلیسا کی ناراضی کے باعث فریڈرک نے شاہِ یروشلم کے طور پر خود ہی اپنی تاج پوشی کی۔ واپسی پر یورپ میں فریڈرک اور پوپ کے اپنے مابین جنگ چھڑی، جس میں فریڈرک کامیاب رہا۔ مفتوح ہوجانے کے بعد پوپ نے شاہ جرمنی کی کلیسائی نسبت بحال کی اور اس کے وہ کامیاب معاہدے جو وہ مسلم سلطان کے ساتھ کر آیا تھا، ان پر بھی صاد کردیا!

1239ء میں، مصر کے ایوبی سلطان، نجم الدین ایوب نے صلیبی افواج کو عسقلان میں شکست فاش دی۔ پوپ کے واویلے پر کچھ یورپی فوجیں نیم دلی کے ساتھ پھر آئیں۔ ایک بار پھر جوڑ توڑ کا تجربہ کیا گیا۔ اب کے مصر کے خلاف شام کے ساتھ ساز باز کی گئی، مگر یہ صلیبیوں کو راس نہ آئی۔ قبل اس کے کہ ان کی شیطانی چالیں مزید آگے بڑھتیں، 1244ء میں، تاریخ اسلام کے مشہور کمانڈر رکن الدین بیبرس نے مصر سے دس ہزار خوارزمی اسپ سواروں کے ساتھ، طوفانی پیش قدمی کرتے ہوئے، چڑھائی کی اور بیت المقدس میں صلیبیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ بیت المقدس ایک بار پھر اذانوں سے گونج رہا تھا!

 

ساتویں صلیبی مہم:

1245ء تا 1272ء

بیت المقدس کے دوبارہ سقوط پر کلیسا نے یورپ میں پھر دہائی مچائی، جس کا کچھ دیر تک کوئی خاص اثر دیکھنے میں نہ آیا۔ تا آنکہ فرانس کے بادشاہ لویس نہم نے کلیسا کی صدا پر لبیک کہی، اور پھر اس کی پوری زندگی ’مقدس مشن‘ میں گزر گئی۔ ادھر عالم اسلام میں اس وقت امام عز الدین بن عبد السلامؒ ایمان کی روح پھونک رہے تھے۔

1245ء میں لویس نہم Louis IX نے مصر پر حملہ کیا۔ دمیاط لیا۔ منصورہ پر قابض ہوا، جوکہ مسلمانوں کی ایک مضبوط ترین چھاؤنی تھی۔ عین اس موقعہ پر مسلم بادشاہ نجم الدین ایوبی فوت ہوگیا۔ مگر سیف الدین قطز اور رکن الدین بیبرس، تاریخ اسلام کے دو مایہ ناز مصری سپہ سالار، صلیبیوں کا منصورہ میں محاصرہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ قلعہ میں محصور ہونے تک صلیبی سپاہ کا ایک بڑا حصہ تہ تیغ ہوچکا تھا۔ ممالیک سپاہ نے منصورہ تک پہنچا ہوا صلیبیوں کا بہت بڑا بحری بیڑہ بھی غرقاب کردیا۔ پیچھے دمیاط میں صلیبی کمک کے سب رابطے بقیہ لشکر کے ساتھ کاٹ دیئے گئے۔ قلعے میں صلیبی بھوک سے مرنے لگے تو ہر قیمت پر پسپا ہوجانے کے سوا کوئی چارہ نہ پایا۔ عین اسی وقت صلیبی افواج میں خطرناک وبائیں پھوٹ نکلیں۔ عجیب وغریب امراض ان پر حملہ آور ہوئیں۔ خود فرانسیسی بادشاہ لویس کے دانت جھڑنے لگے۔ فرار ہونے کے دوران صلیبی ہزاروں کے ہزار مسلم سپاہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئے، جن میں خود فرانس کا بادشاہ بھی تھا۔ ایوبی خاندان کے آخری بادشاہ توران شاہ کی ہدایت پر ایک مسلم طبیب نے، علاج کرکے، مرض سے بے حال بادشاہ کی جان بچائی۔ فرانس سے چار لاکھ بھاری طلائی سکوں کا تاوان بھیجا گیا اور باقی چار لاکھ طلائی سکوں کا ادھار کیا گیا اور آئندہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کیلئے نہ نکلنے کا عہد کیا گیا تو تب جا کر فرانس کے اس بادشاہ کو مسلمانوں کی قید سے رہائی نصیب ہوئی۔ رہا ہونے کے بعد صلیبی بادشاہ نے عکہ میں، جو کہ شام و فلسطین میں واحد صلیبی مملکت رہ گئی تھی، قیام کیا او راپنے عہد کو توڑتے ہوئے چار سال تک صلیبی جنگوں کی آگ ازسر نو بھڑکانے کی کوشش کرتا رہا۔ بالآخر، ناکام ونامراد، 1250ء میں فرانس لوٹ گیا۔

بیس سال تک لویس نہم پھر تیاریاں کرتا رہا اور 1270ء میں ایک اور صلیبی مہم تیار کر لایا۔ مگر ممالیک کی قوت دیکھ کر مصر یا شام آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ تب یہ شمالی افریقہ میں تیونس کے ساحلوں پر اترا۔ تیونس میں پھر لویس پر بیماریاں پھوٹیں، دو ماہ بعد ہی لویس کو اجل نے آلیا۔ ایک کو چھوڑ کر لویس کے سب بیٹے بھی انہی وباؤں سے ہلاک ہوئے۔ یہ ایک بڑی مہم تھی اور تیونس ایک کمزور اسلامی مملکت تھی۔ لویس کے بیٹے اور بھائی نے تیونس کے سلطان المستنصر کو اپنا باج گزرا بنالینے پر اکتفا کیا اور مصر کی جانب آگے بڑھے بغیر، یورپ واپسی کی راہ لی۔ البتہ انگلستان کے ایڈورڈ اول نے، جوکہ تیونس کی مہم میں فرانس کے لویس کا ساتھ دے چکا تھا، اگلے سال یعنی 1271ء میں ایک اور مہم نکالی اور شام میں کوئی خاص کامیابی حاصل کئے بغیر، ایک سال بعد لوٹ گیا۔

لویس کی اس سعی بیکار پر ایک تیونسی شاعر نے فقرہ چست کیا تھا: مصر نے اپنے یہاں آئے اس ڈکیت کو قید دی مگر اس کی تسلی نہ ہوئی تو تیونس نے اسکے لئے قبر کا انتظام کردیا!

بیشتر مؤرخین لویس نہم کی پہلی اور دوسری اور پھر ایڈورڈ اول کی مہم کو بالترتیب آٹھویں، نویں اور دسویں صلیبی مہم شمار کرتے ہیں، گو ہم نے ان سب کو ساتویں مہم کے تحت ہی ذکر کر دیا ہے۔

فرانس کے بادشاہ لویس نہم کی عظیم خدمات اور قربانیوں کے اعتراف میں، کلیسا نے اس کو سینٹ یعنی ’ولی‘ کا رتبہ دیا۔ مغربی تاریخ میں یہ ایک عظیم شخصیت مانی جاتی ہے۔ امریکہ کا مشہور شہر سینٹ لویس مزوری St. Louis, Missouri اسی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

لویس نہم کی ان مہمات کے بعد، دولتِ ممالیک کی قوت نے کسی کو ادھر کا رخ کرنے کی اجازت نہ دی۔ رکن الدین بیبرس نے، جو بعد ازاں سلطان ظاہر کے لقب سے حکمران ہوا، شام سے صلیبی بقایا جات کا صفایا کرکے رکھ دیااور قیساریہ، وارسف اور یافا سے لے کر انطاکیہ تک کو اسلامی قلمروکے ناقابل تسخیر حصے بنا دیا۔ اس کے بعد عثمانی منصہ شہود پر آئے، جس سے صلیبی یورپ کئی صدیوں کیلئے یہاں سے پسپا ہوگیا....

تا آنکہ 1798ء میں فرانس کا نپولین بونا پارٹ مصر پر قابض ہوا۔ اس سے اگلے سال یعنی 1799ء میں انگریز فوج ٹیپو سلطان کی سلطنتِ میسور لے رہی تھی، جبکہ اس سے کچھ عشرے پیشتر، یعنی 1757ء میں، انگریز جنوبی ہند میں سراج الدولہ کی ریاست بنگال لے چکے تھے۔ عالم اسلام پر اب یہ ’استعماری‘ یورش تھی، جس کو کہ آٹھویں صلیبی مہم کہا جاسکتا ہے اور جوکہ دو صدی سے زائد عرصہ جاری رہی۔ جبکہ نویں صلیبی مہم کا آغاز آپ پچھلی صدی کی آخری دہائی (1991ء)سے شمار کر سکتے ہیں جب ’امیریکن ایمپائر‘ نے، بش سینئر کی سر کردگی میں عراق پر کارروائی کی، اور بعد ازاں اس کے جانشین بش جونیئر نے 2002ء میں افغانستان پر اور پھر تھوڑے وقفے سے عراق پر قبضہ کیا اور یہاں اسلحہ بارود کی تباہ کاریوں کی نئی مثالیں اور نئے ریکارڈ قائم کئے، اور آگے نہ جانے ابھی وہ کیا کیا عزائم لئے بیٹھے ہیں۔

 

صلیبی جنگیں ’مذہبی‘ یا ’معاشی‘؟

یہاں یہ ذکر کرتے چلیں کہ وہ صلیبی بغض و کینہ جو ابتدا کے اندر ان کی جنگوں کا محرک رہا ہے وہ آج بھی پوری طرح زندہ ہے اور برطانیہ، فرانس، اٹلی، سپین، پرتگال اور اب امریکہ کی اس یورش میں جو پچھلی چار صدیوں سے ایک تسلسل کے ساتھ عالم اسلام پر کی جارہی ہے، عین وہی روح کارفرما ہے جس کی دہائی ان کے پوپ اربن دوئم نے اس وقت دی تھی جب پہلے پہل صلیبیوں کو عالم اسلام پر چڑھا لانے کیلئے اس کی نظر میں انجیل اور مسیح کے واسطے دئیے جانا ضروری ہوگیا تھا۔

ہم اپنے ان تجزیہ نگاروں سے اختلاف نہیں کرتے جو ان استعماری حملوں کا محرک ’وسائل پر قبضہ و دسترس‘ بیان کرتے ہیں۔ بلا شبہہ عالم اسلام کے ’وسائل‘ پر تسلط پانا اور یہاں پائے جانے انسانوں کو ’مزدوروں‘ ، ’کان کنوں‘ اور ’ٹیکس کلکٹروں‘ کی صورت میں دیکھناان کی اس تگ ودو کا ایک بڑا محرک رہا ہے اور آج تک ہے۔ صرف ان آخری صدیوں کے صلیبی حملوں کی ہی بات نہیں پہلی صلیبی جنگوں کے پیچھے بھی یقینا بہت بڑی حد تک، خصوصا صلیبی راجواڑوں کے ذہن میں، اقتصادی عوامل ہی کارفرما تھے، جن کو بروئے کار لانے کیلئے ’عوام‘ کے ’مذہبی جذبہ‘ کو پہلے مہمیز دی گئی اور پھر اس کو بڑی شیطنت کے ساتھ استعمال کیا گیا۔

یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ عباسی دور کے اندر عالم اسلام میں زندگی کی جو آسائشیں پائی گئی تھیں اور یہاں ضروریاتِ زیست کی جو فراوانی تھی، یورپ کے پسماندہ ملکوں میں اس کا ذکر حیرت و استعجاب کے ساتھ ہوتا اور ایک ناقابل یقین انداز میں سنا جاتا تھا، یوں یہاں دولت کی ریل پیل کا سن کر وہاں ان کی رال بہنے لگتی تھی، جوکہ بالآخر ان کی اس مہم جوئی کا ایک محرک بنی۔ یہ بات درست ہے مگر یہ اس بات سے متعارض نہیں کہ اس یورش کے پیچھے مذہبی عصبیت بھی قوی طور پر کار فرما ہو، خصوصا وہ کینہ اور حسد جو یہ امتِ اسلام کے ساتھ رکھتے ہیں بلکہ سب سے بڑھ کر وہ حسد جو یہ نبی آخر الزمان ﷺ کے ساتھ رکھتے ہیں ، یہاں تک کہ پوپ اربن دوئم جس وقت عیسائی دنیا میں عالم اسلام کے خلاف صلیبی جنگوں کی آگ بھڑکا رہا تھا اس وقت وہ نبی رحمة للعالمین کو مسیح ؑ کا سب سے بڑا حریف، بلکہ بعض روایات کی رو سے، وہ آپ ﷺ کو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ Anti- Christ قرار دیتا رہا ہے۔ (1)

یعنی یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی عمل کے پیچھے مذہبی، نسلی، عصبیتی اور معاشی و استعماری محرکات بیک وقت کارفرما ہوں۔ جب ایسا ہے تو اس جدلیات میں پڑنا فضول ہے کہ یہ ’تیل پر قبضہ اور اجارہ داری کی دوڑ‘ ہے یا ’اسلام کے ساتھ جنگ‘؟ خباثت کے یہ دونوں عنصر آخر بیک وقت کیوں نہیں پائے جاسکتے؟!!

’عمل‘ کے اندر ’معاشی محرکات‘ سے تجرد اور بے لوثی پیدا کرنا تو اہلِ ایمان کیلئے ایک مشکل کام ہے ، تبھی قرآنی آیات ”جہاد“ کے سیاق میں بار بار اس کی یاد دہانی کراتی ہیں۔ جب ایسا ہے تو پھر بے ایمانوں میں ’اقتصادی محرکات‘ کے ناپید ہونے کا مفروضہ ہم کیوں قائم کریں؟! اُحد کے موقعہ پر نازل ہونے والی آیت مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الآخِرَةَ  یعنی ”تم میں سے کوئی دنیا کا طلبگار ہے اور کوئی آخرت کا“کی بابت عبد اللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں: اُحد کے روز تک مجھے معلوم نہ تھا کہ ہم میں کوئی ایسا بھی شخص ہے جو دنیا کا طلبگار ہے!“(2) چنانچہ اگر موحدین کے ہاں اخلاصِ نیت پر اس قدر زور دینا پڑتا ہے، جبکہ اِن کا مقصود سوائے ایک ذات کے کوئی ہے ہی نہیں، تو پھر مشرکوں میں تو خیر مانع ہی کیا کہ نیتوں کے اندر کئی سارے فتور بیک وقت جمع ہوں اور ’پیٹ کے الٰہ‘ سمیت کئی خداؤں کی بیک وقت پرستش کی جارہی ہو ؟!

سو یہ جنگیں استعماری اور استحصالی ہونے کے ساتھ ساتھ، بلا شبہہ، صلیبی جنگیں ہیں۔ صرف آج سے نہیں، صلیبی جنگیں ہمیشہ سے ایسی رہی ہیں۔ بغضِ اسلام کے ساتھ ساتھ، لوٹ، ڈکیتی، دھونس، قبضہ اور استحصال ایسے گھناؤنے مقاصد، ان کے عالم اسلام پر چڑھ آنے کا باعث ہمیشہ سے رہے ہیں، اور یہ ہرگز ان کی نسبت کوئی نئی بات نہیں۔

 

صلیبی جنگیں اب بھی جاری ہیں

پس یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ’صلیبی جنگوں‘ کی یہ طویل کہانی جو مرحلہ در مرحلہ اب تک جاری ہے، صرف ہمارے ’سالاروں‘ کو بھولی ہے نہ کہ ان کے ’کمان داروں‘ کو ،کیونکہ دو صدیوں سے ہمارے تمغہ بردار افسرانِ سپاہ انہی کی دی ہوئی تربیت لیتے اور انہی کو ’سر‘ کہتے آئے ہیں، الا ماشاءاللہ، لہٰذا کوئی فرق اگر پڑاہے تو وہ ہمارے ہاں پڑا ہے نہ کہ ان کے ہاں..

اس کے بھی اب ذرا چند شواہد دیکھئے:

1917ء میں برطانیہ کا جنرل ایڈمنڈ ایلن بی Edmund Allenby مصر اور شام میں کامیاب ایکشن کرتا ہوا بیت المقد س، جس کو یہ یروشلم کہتے ہیں، میں داخل ہوتا ہے تو اس کا اپنا کہنا ہے: ’میں شہر مقدس میں سواری سے اتر آیا، میرے سب رفقائے کار نے میرا ساتھ دیا۔ ہم نے اپنے جوتے بھی اتار دیئے اور ننگے پاؤں شہر مقدس Holy City میں داخل ہوئے‘۔ بیت المقدس کے وسط میں پہنچ کر اس برطانوی جرنیل نے البتہ جو جملہ کہا وہ یہ تھا:

’صلیبی جنگیں آج ختم ہوئیں، نہ کہ اُس دن جس دن صلاح الدین نے ہمیں یہاں سے پسپا کیا تھا‘!

یہ بھی معروف ہے کہ برطانیہ کے ُاس وقت کے وزیر خارجہ لوئڈ جارج Lloyd George نے اپنے اس بہادر جرنیل کے نام ’فتحِ یروشلم‘ کی خوشی پر ایک مراسلہ لکھا، جس میں کہا گیا تھا:

’مبارک ہو، ’آٹھویں صلیبی مہم‘ کامیاب ہوئی!!!‘

یہ وہی بد بخت برطانوی وزیر خارجہ (لویڈ جارج) ہے جو بلفور ڈیکلیریشن، جس کی رو سے سرزمین قدس پر یہودی تسلط کی بنیاد رکھی گئی، کو صادر کرانے کے مرکزی کرداروں میں سے ایک کردار تھا۔

بیان کیا جاتا ہے کہ جس روز برطانوی افواج کے ہاتھوں ’یروشلم‘ فتح ہوجانے کی خبر برطانیہ کے اندر شائع کی گئی، اس روز وہاں کے اخبار The Punch نے ایک خاکہ شائع کیا جس میں رچرڈ شیر دل (3)کو فخر کے ساتھ بیت المقدس پر نظریں گاڑے اور یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا: ’میرا وہ خواب آخر شرمندۂ تعبیر ہوا‘۔

اس سے تین سال بعد، 1920ء میں، فرانسیسی جنرل ہنری گوروڈHenri Gouraud ، خلافتِ عثمانی کے خلاف اعلانِ بغاوت کردینے والے عرب موقعہ پرستوں کی ’مدد‘ کیلئے عرب خطوں کو روندتا ہوا شام میں وارد ہوتا ہے، تب وہ دمشق میں فاتحانہ شان کے ساتھ داخل ہوتا ہے تو جامع مسجد اموی کے قریب سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی قبر پر جانا نہیں بھولتا۔ عالم اسلام کے اس عظیم سپوت کی موت کے پورے ساڑھے سات سو سال بعد، اس کی تربت پر کھڑا ہوکر تب صلیب کا یہ پجاری کہتا ہے: ’آنکھ کھول کر دیکھو، صلاح الدین، ہم پھر آچکے‘!

اس سے پہلے، 1911ء میں، فرانس مراکش فتح کرتا ہے تو فرانسیسی جنرل لویس ہیوبرٹ لیوٹے Louis Hubert Lyautey، سلطان دولتِ مرابطین یوسف بن تاشفینؒ کی قبر کی ’زیارت‘ کرنا نہیں بھولتا، جہاں کھڑا ہوکر ، اور بعض روایات کی رو سے تو قبر کو ٹھوکر مار کر، کہتا ہے: ’اٹھو، تاشفین کے بچے، ہم نے آناتھا اور آکر رہے‘!

اور اب جب ’صلاح الدین اور تاشفین کے بچے‘ اسی مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک اٹھ رہے ہیں تو اُن کو، حتیٰ کہ ہمارے بہت سے ’حقیت نگاروں‘ کو، حیرانی ہوتی ہے کہ تین سو سال تک مسلسل مار کھانے کے بعد بھی ’جاگ جانے‘ کی آخر کیا جلدی تھی!

اور پھر ابھی حال ہی میں، 2002ء کی مہم پر روانہ ہونے سے پہلے، ملتِ روم کا اپنے وقت کا سب سے بااثر او ر طاقتور حکمران جارج ڈبلیو بش جونیئر، اپنی قوم کو مژدہ سناتا ہے کہ یہ ایک صلیبی مشن ہے! دوسرے لفظوں میں آپ کہنا چاہیں تو ’عالم اسلام پر نویں صلیبی مہم‘!!!

ان کی یہ نویں صلیبی مہم، جس کا آغاز افغانستان اور عراق سے ہوا ہے، جبکہ سرزمین بیت المقدس بہت پہلے سے مقوضہ ہو کر ان کے صہیونی کارندوں کے ہاتھوں عذاب سہہ رہی ہے، اب ہماری کتاب کی ایک دوسری فصل کا موضوع ہوگا۔

 


(1) Anti-Christ کا لفظ عیسائیوں کے ہاں ’جھوٹے مسیح‘ کیلئے مستعمل ہے، جو کہ مسیح کے خلاف جنگ کیلئے نکلے گا اور پوری دنیا میں پہنچے گا، بالفاظِ دیگر ’مسیح دجال‘۔ اب کیونکہ نبی ﷺ کی دعوت کے زیر اثر دنیا میں مسیح ؑ کی خدائی کا انکار ہونے لگا اور جوکہ کلیسا کے ہاں ایک ’مسلمہ‘ کی حیثیت رکھتی رہی ہے، اس بنا پر ان میں سے بعض بد بخت نبی ﷺ کے لئے ایسے گھناؤنے لقب تک استعمال کرنے سے باز نہ آئے، العیاذ باللہ۔ جبکہ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ نبیﷺ نے مسیح ؑکی خدائی کا انکار ضرور کرایا، کیونکہ خدائی ہے ہی صرف ایک خدا کو سزاوار، مگر سب جانتے ہیں آپ مسیح ؑکی رسالت اور مادرِ مسیح ؑ کی برائت کو چہار وانگ دنیا میں نشر کرنے آئے تھے اور آج اگر عالم اسلام کی صورت میں دنیا کی ایک چوتھائی مسیح علیہ السلام کے احترام کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتی ہے تو وہ محمد ﷺ کی تعلیم کے نتیجے میں ہے۔

(2) دیکھئے تفسیر طبری بابت آیت 152 سورة آل عمران

(3) رچرڈ شیر دل Richard, the Lion Heart انگلستان کا بادشاہ جو صلاح الدین ایوبی کی فتح اور ’شہرِ مقدس‘ کے صلیبیوں سے ’چھن جانے‘ کی خبر سن کر بیٹھا نہ رہ سکا اور ایک بھاری فوج لے کر بنفس نفیس 'Holy City' کو صلیبی قلمرو میں واپس دلانے آیا اور یہاں آکر یورپ کی ’اتحادی افواج‘ کی قیادت سنبھالی۔ مگر کئی سال کوشش کرچکنے کے بعد، صلاح الدینؒ کے عزم و استقلال سے شکست کھاکر، اور کچھ اپنے ملک کے داخلی مسائل کے ہاتھوں مجبور ہوکر، پھر آنے کا عندیہ دے کر، ناکام و نامراد انگلستان لوٹ گیا، مگر راستے میں اپنے ایک یورپی حریف کے ہاتھوں قید ہوگیا۔

 

 اگلی فصل


Print Article
  روبزوال امیریکن ایمپائر
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز