ایک جنگ جو کبھی نہیں تھمی! |
ایک محاذ جو ہمیشہ گرم رہا! |
بلاشبہہ ملتِ روم کا پرچم پچھلے چودہ سو سال سے اُن کی ایک قوم سے دوسری اور دوسری سے تیسری کو منتقل ہوتا آیا ہے۔ ان کے کتنے ہی ’سینگ‘ ٹوٹے اور کتنے ہی نئے آئے۔ کچھ نظر ہم اس حوالے سے بھی یہاں اپنی اور انکی تاریخ پر ڈالتے چلیں گے..
رسول اللہ ﷺ کے دور میں بائزنٹینی ریاست Byzentine اسلام کے مد مقابل آئی تھی، جس کو خلافتِ عمرؓ میں شام، مصر اور افریقہ کے سب خطوں سے بے دخل کرکے یورپ اور ایشیائے کوچک کی جانب دھکیل دیا گیا تھا۔ مگر یہ اسلام سے برابر برسر پیکار رہی۔ عباسی دور تک یہ حال رہا کہ ہر سر بر آوردہ خلیفہ اسکے خلاف جہاد کیلئے نکلتا یا مہمات روانہ کرتا۔
بعد ازاں، سلجوقی مجاہدوں کی کامیاب پیش قدمی اور کچھ دیگر تاریخی عوامل کے زیر اثر یہ بائزنٹینی ریاست کسی حد تک پس منظر میں چلی گئی تو ’صلیبیوں‘ کے روپ میں ’فرنگی‘ نمودار ہوئے، جوکہ وسطِ یورپ سے سمندری جہاز بھر بھر کر بحر ابیض کی راہ سے آتے، اور بائزنٹینی خطوں کے بری راستے بھی استعمال کرتے۔ان کی مہمات زیادہ تر فرانس سے تیار ہوکر آتیں۔ بیت المقدس پر ان کا قبضہ ہوجانے کے بعد اس صلیبی تسلط کو جب بھی کوئی خطرہ پڑا دیگر یورپی اقوام اپنی باہمی دشمنی بھلا کر ان کی مدد کو پہنچتی رہیں، گو نور الدین زنگی بائزنٹین کے ساتھ ان فرانسیسیوں کے اختلافات کا کسی حد تک فائدہ بھی اٹھاتا رہا۔ کئی بار جرمن ان صلیبی حملہ آوروں کی نصرت کو آئے۔ بالآخر صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں جب بیت المقدس اسلام کو واپس ملا تو پورا یورپ بلادِ اسلام پر حملے کیلئے امڈ آیا۔ صلاح الدین ایوبی کا اصل کردار اتنا شاید بیت المقدس لینا نہیں جتنا فتحِ بیت المقدس کے بعد اس کا پورے یورپ کے مدمقابل تنِ تنہا عالم اسلام کا پوری کامیابی کے ساتھ دفاع کرلینا اور اپنی مٹھی بھر افواج سے کام لیتے ہوئے یورپ سے آنے والی ان سب افواج کو، جوکہ لاکھوں کی تعداد میں تھیں، ایک طویل جنگ کے بعد واپسی پر مجبور کردینا۔اب اس موقعہ پر، یعنی بیت المقدس صلاح الدین کے ہاتھوں ’کھو‘ دینے کے بعد، ان کی قیادت کا علم فرانس کے بجائے انگلستان کے رچرڈ شیر دل نے اٹھا رکھا تھا۔
بعد کے ایوبی سلاطین نے کئی بار حملہ آور صلیب بردار یورپیوں کو تتر بتر کیا بلکہ فرانس کا بادشاہ زندہ گرفتا ر کیا اور بھاری زرِ رہائی لے کر چھوڑا۔ ممالیک کے ساتھ بھی صلیبیوں کی یہی پلٹ جھپٹ رہی، مگر ممالیک بھی ان کے ساتھ خوب پورا اترتے رہے اور صلیبیوں کے ساتھ اپنے اس طویل جنگی سلسلہ میں اسلامی تاریخ کی کچھ عظیم الشان یادگاریں رقم کرنے میں کامیاب رہے، بلکہ یہ ایک واقعہ ہے کہ ممالیکِ مصر کے بحری بیڑے یورپیوں کے ساتھ اوقیانوس تک آکر جھپٹتے رہے اور بحر ہند تک آمدورفت رکھی، کہ مبادا یہ یورپی یہاں اپنا اثر ورسوخ بڑھالیں اور پیچھے سے دولت اسلام کیلئے خطرہ بن جائیں، مگر مصر پر ممالیک کا اقتدار ختم اور عثمانیوں کا اقتدار قائم ہونے کے بعد، اسلامی دولت کی توجہ بحر ہند کی جانب زیادہ نہ رہ سکی، جوکہ بعد ازاں عالم اسلام کے حق میں ایک بڑا رخنہ ثابت ہوا۔
’مغرب‘، جیسا کہ ہم نے کہا، ابھی ’یورپ‘ میں محصور تھا اور تب تک اپنا سارا آمنا سامنا ’یورپ‘ سے تھا، بلکہ پچھلی صدی تک ایسا ہی رہا۔ مغرب کی سیادت کا ’یورپ‘ سے نکل کر امریکہ پہنچنے کا واقعہ صرف بیسویں صدی میں ہوا اور وہ بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد۔ لہذا یہ کہانی زیادہ تر ’یورپ‘ ہی کے حوالے سے بیان ہوگی۔
’یورپ‘ پر مسلمانوں کی پہلی چڑھائی امیر معاویہؓ کے زمانہ میں ہوئی، جس کا ذکر ابتدا میں ام حرامؓ والی حدیث اور ابو ایوب انصاریؓ کے واقعہ کے ضمن میں گزر چکا۔ یہ صحابہ وتابعین کی سپاہ تھی جو قیصر کے پایہ تخت قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوئی اور کچھ دیر محاصرہ رکھنے اور اپنے وجود کا پتہ دے لینے کے بعد واپس ہوئی۔ جزیرہ قبرص اسلام کا باج گزار، اور سسلی مسلمانوں کا مفتوح تو امیر معاویہ ہی کے دور میں ہوچکے تھے، کیونکہ مسلمان تب تک ایک عظیم الشان بحری قوت فراہم کرچکے تھے۔ یوں بحر ابیض، جسے ’بحرِروم‘ بھی کہا جاتا رہا ہے، صحابہ کے دور میں ہی پوری طرح دولتِ اسلام کے ہاتھ میں آچکا تھا۔
یورپ کے اندر مسلمانوں کی باقاعدہ ”فتوحات“ کا سلسلہ البتہ اس سے کچھ دیر بعد، یعنی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے زمانے میں شروع ہوا، جب شمالی افریقہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے ایک بربر کمانڈر طارق بن زیاد کے زیر قیادت، لشکر اسلام نے ’سپین‘ فتح کرلیا۔ یہ ابھی تابعین کا زمانہ تھا اور کچھ صحابہ بھی ابھی موجود تھے۔ یوں ’مغرب کی وادیوں میں‘ پہلی صدی ہجری کے اندر ہی ”اذان“ کی صدا گونجنے لگی۔’مسلم سپین ‘ جسے ہم ”اندلس“کے نام سے جانتے ہیں اور جوکہ آج تک پورے یورپ کیلئے تعلیم، تہذیب اور ترقی کے ایک عظیم الشان حوالہ کی حیثیت رکھتا ہے اور جہاں کی جامعات میں پڑھنے کیلئے یورپی وڈیروں کے بچے اسی احساسِ کمتری ومحرومی کے ساتھ آیا کرتے تھے جس طرح ہمارے یہاں سے اب اکسفورڈ اور ہارورڈ جایا کرتے ہیں... یہ ”اندلس“ ہماری تاریخ کا ایک درخشاں باب رہا ہے جو اب ہمارے ہر تاریخ پڑھنے والے کو رُلا کر جاتا ہے۔
ایک وقت تھا جب اندلس کی جانب سے مسلمان افواج پیش قدمی کرتے ہوئے فرانس پر حملہ آور ہو رہی تھیں اور فرانس کا اسلام کے زیر نگیں آنا لگتا تھا کہ کچھ ہی دیر کی بات ہے۔ پھر وہ وقت تھا کہ اندلس میں اپنے وجود کے آٹھ سو سال پورے کر کے مسلمان، فرڈیننڈ اور ازابیلا کی صلیبی افواج کے ہاتھوں وہاں سے بے دخل ہورہے تھے اور کلیسا کی ’تفتیشی عدالتوں‘ Acquisition Courts سے ’جرمِ ایماں‘ پر بدترین سزائیں پا رہے تھے۔ تب سب سے خوش قسمت مسلمان وہ سمجھا گیا جس کو اسلامی تہذیب کے اس گہوارے ”اندلس“ سے جان بچا کر کسی جانب بھاگ جانا نصیب ہوگیا!
گو اندلس، جوکہ یورپ کا مغرب بنتا ہے، میں شوکتِ اسلام کا سورج جس وقت غروب ہورہا تھا عین اس وقت وہ پوری آب و تاب کے ساتھ یورپ کے مشرق میں طلوع بھی ہورہا تھا۔ یہ عثمانی ترکوں کی پیش قدمی تھی جو تھوڑی ہی دیر میں یورپ کے قلب __آسٹریا کے پایہ تخت ’ویانا‘ __ تک جا پہنچی۔
یوں ملتِ روم کے ساتھ ہماری اس جنگ کا ایک خوبصورت باب ”سلطنتِ عثمانیہ“ سے شروع ہوتا ہے۔ جس کی زیادہ تر فتوحات یورپ ہی کی جانب رہیں۔ دولتِ عثمانیہ نے چھوٹتے ہی ایشیائے کوچک کے بچے کھچے حصوں سے پسماندگانِ روم کو یورپ کی طرف مار بھگایا، اور ایشیا کے اس خطہ کو جو کہ اتنی صدیاں اسلام کی قلمرو میں نہ آیا تھا، گو ان سے پہلے سلجوقی یہاں خاصی پیش قدمی کرچکے تھے، ہمیشہ کیلئے سرزمین اسلام میں بدل ڈالا.. جس سے بحر خزر سے لے کر آذربیجان و آرمینیا اور جارجیا سے چلتے ہوئے بحر اسود تک شوکت اسلام کو زبردست عروج ملا اور آگے چلتے ہوئے یہ اسلامی بیلٹ بحر ابیض سے آملی۔ پھر رفتہ رفتہ قسطنطنیہ پر اپنا دباؤ بڑھایا اور بالآخر سلطان محمد کے دور اقتدار (1453ء، 857ھ)میں یہ ’قیصر کی شہرپناہ‘ جس پر ایشیا اور یورپ ملتے ہیں، اہل اسلام کیلئے مسخر ہوئی اور ’یورپ‘ کا یہ سب سے اسٹرٹیجک خطہ ”اسلام بول“ کے نام سے خلافت کے زیر نگیں آیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک طرف بحر اسود کے پار، یورپی سائڈ پر، اسلامی قوت بڑھنے لگی اور ہنگری، بلغاریا اور روس تک پہنچی، دوسری جانب خطۂ بلقان کی کئی ایک ’یورپی‘ اقوام حلقہ بگوش اسلام ہوئیں۔ البانیا، بوسنیااور کوسووا وغیرہ ہمارے اسی دورِ خلافت کی’یورپی‘ یادگاریں ہیں، جو کہ آج تک ’ملتِ روم‘ کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلقان کے یہ خطے آج خلافت کی غیر موجودگی کی سب سے بڑھ کر قیمت ادا کر رہے ہیں۔
تیسری جانب عثمانی بحری بیڑوں نے بحر ابیض پر اپنا کنٹرول قائم کیا، جس سے صلیبی حملوں کا وہ دور صدیوں کیلئے ختم ہوگیاجو سلاجقہ اور زنگیوں سے لے کر ایوبیوں اور ممالیک تک کا بیشتر دور، بلادِ شام ومصر کیلئے ایک مسلسل دردِ سر بنے رہے تھے۔
یوں ممالیک اور پھر خاص طور پر عثمانی خلافت کی بدولت، مسلمانوں کے مغربی اور شمالی ساحل کئی صدیاں صلیبیوں کی لوٹ مار سے محفوظ رہے۔ صرف یہی نہیں، عثمانیوں کی یورش کے آگے شاید پہلی بار یورپ کو خطرہ لاحق ہوا کہ انکا یہ چھوٹا سا براعظم مسلم افواج کے سامنے اب بہت دیر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ خلافت کی افواج یورپ کے مرکز تک پہنچیں یہاں تک کہ ایک وقت ایسا تھا کہ یہ ویانا (آسٹریا کا دار الحکومت) کا محاصرہ کئے کھڑی تھیں اور اس وقت اگر پیچھے رافضی خطرہ نہ ہوتا تو اسلام کا یہ بے قابو سیلاب ویانا سے گزر کر پورے یورپ کو تہِ آب لے آچکا ہوتا۔
تاریخ کے ’اگر کہیں ایسا نہ ہوتا‘ 'IF's of the History' میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس وقت عثمانیوں کی شہ زور افواج یورپ پہ یورش کر رہی تھیں اور یورپ ان کے سامنے پوری طرح بے بس تھا عین اس وقت اگر صفویوں کی رافضی دولت اس قدر مضبوط نہ ہوتی جو ہمیشہ خلافت کو پیٹھ میں چھرا گھونپتی رہی اور جب بھی خلافت کی افواج مغرب کی جانب دور دراز کی پیش قدمی کی پوزیشن میں آتیں ایران کی صفوی افواج مشرقی جانب سے خلافت کے لئے خطرہ بن کر کھڑی ہوجاتیں اور خلافت کی افواج کو اس خطرے کے پیش نظر مغرب میں اپنی پیش قدمی مختصر کردینا پڑتی.. یوں خلافت کی ”یورپی فتوحات“ کے دوران اگر ایران میں صفوی دولت پشت سے اس کیلئے خطرہ بن کر کھڑی نہ ہوتی، تو بعض مغربی تاریخ دانوں کا خیال ہے، آج وہ اٹلی اور فرانس میں اسی طرح ”قرآن“ پڑھتے جس طرح تیونس اور مراکش میں صبح سویرے قرآن تلاوت ہوتاہے!
اس کے بعد ایک طرف خلافت پر زوال آیا تو دوسری طرف مغرب نے اپنی ایک تنظیمِ نو کی اور مشینوں اور ہتھیاروں کی ایک نئی دنیا پیدا کر ڈالی۔ یہ البتہ عین وہ وقت تھا جب ہم پوری طرح سو رہے تھے۔ پھر بھی عالم اسلام کی جانب رخ کرنے کیلئے فرزندانِ یورپ نے وہ تاریخی روٹ استعمال نہیں کیا جو اس سے پہلے کرتے آئے تھے، یعنی بلاد عرب کے مغربی و شمالی ساحل۔ کیونکہ شام ومصر کے ان ساحلوں کی رکھوالی کیلئے عثمانیوں کے طاقتور بیڑے بدستور بحر ابیض میں پہرے دے رہے تھے۔
البتہ اب وہ بحری قوت فراہم کر چکے تھے اور اس بار وہ تاجروں کا بھیس بھرے گویا چیونٹی کی رفتار سے چلتے اور بحر ہند میں اپنے راستے بناتے ہوئے بڑی خاموشی کے ساتھ ”مسلم انڈیا“ کے جنوبی ساحلوں پر لنگر انداز ہوئے۔ مغل کیا جانیں یہ فرنگی ’مصالحہ فروش‘ کس ایجنڈے پہ آئے ہیں!آگ لینے آئی گھر کی مالکن ہو بیٹھی!کئی سو سال کی اس محنت کے بعد یوں ہوا کہ وہ خلافتِ اسلامیہ کو دو طرف سے گھیرا ڈال چکے تھے!
گو یہ سچ ہے کہ خلافت خود ہی ضعف کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی اور اس کے زوال کے ان گنت اندرونی عوامل نے ہی بیرونی عناصر کیلئے ان کا کام آسان کیا۔
خلافت کا خاتمہ چنانچہ اسی دشمن کے ہاتھوں ہوا جس کا اس خلافت نے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اس دوران ملتِ روم کی سیادت کا پرچم ’برطانیہ عظمیٰ‘ British Empire کے ہاتھ میں تھا اور اس کی کچھ جھنڈیاں فرانس کے پاس۔ البتہ خلافت کے ترکہ جات، جن کیلئے عرصہ سے ان کر رال ٹپکتی تھی، ان کو ہضم ہونے والے نہ تھے۔ دراصل ان کو یقین ہی نہ آتا تھا کہ دنیا ان کی چیر پھاڑ کے لئے ہر رکاوٹ سے پاک ہوچکی ہے اور ان کی لوٹ مار کیلئے جہان بھر میں اب انکا راستہ پوری طرح صاف ہے! ابھی خلافت کے خاتمہ کا رسمی اعلان نہ ہو پایا تھا کہ بھیڑیے شکار چھوڑ کر آپس میں لڑ پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے مابین تاریخِ انسانی کی دو تباہ کن ترین جنگیں پیش آگئیں، جن کو دنیا آج ’عالمی جنگوں‘ یا ’جنگِ عظیم‘ کے نام سے جانتی ہے! وہ سارا ایجنڈا بیچ میں دھرا کا دھرا رہ گیاجس کے، یہاں عالمِ اسلام کے معاملہ میں، بڑی دیر سے خواب دیکھے جارہے تھے!
سلطنتِ عثمانیہ بے شک ختم ہوئی مگر ساتھ ہی برطانیہ اور فرانس کی بھی کمر ٹوٹ چکی تھی! اب ملتِ روم کے ’بڑوں‘ نے یہ پرچم ’اٹلانٹک کے پار‘ منتقل کر دینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ملتِ روم کا وہ سینگ جس سے کوئی پون صدی سے اب عالم اسلام کو بری طرح سابقہ پڑا رہا ہے، یا یوں کہیے عالم اسلام کی زندگی اجیرن کردینے کی ’ذمہ داری‘ ان میں سے جس کے کاندھوں پر اب ڈال دی گئی ہے، وہ ہے ’امیریکن ایمپائر‘۔ ’تیسری دنیا‘ میں دخل اندازی کیلئے اب اس کی باری تھی!
٭٭٭٭٭
ملتِ روم کے ساتھ اپنی کشمکش کے اس ’امریکی مرحلہ‘ پر کچھ بات ہم ایک فصل آگے چل کر کریں گے۔ ابھی آئندہ فصل میں، اس بات کا جائزہ لینے کیلئے کہ ’یورپی خانوادہ‘ آج سے نہیں بلکہ پچھلے ہزار سال سے ہی مسلم دنیا کی کمزوریوں اور رخنوں کی مسلسل تلاش میں رہا ہے، یعنی اسلام کے پہلے تین ادوار (خیر القرون) گزرجانے، اور مسلم معاشروں میں ایمانی و اجتماعی ضعف آجانے کے ساتھ ہی ، یہ کیونکر ہماری جان اور ہماری زمین کے درپے ہوئے، اور یہ کہ اس کشمکش کی داستان کس قدر طویل ہے، اور یہ کہ صلیب کی عصبیت کس طرح اس قوم کی گھٹی میں پڑی ہے، اور یہ بھی کہ امتِ اسلام اس ظلم وعدوان کا کیونکر جواب دیتی رہی اور ان کے ان برے عزائم کو ہمارے اسلاف کیونکر خاک میں ملاتے رہے.... ہم ان صلیبی حملوں کی ایک مختصر روداد پڑھیں گے جن کاکہ عالم اسلام کو ایک شدید ہدف بن کر رہنا پڑا۔
اگلی فصل