مغرب کے فکری وجود کا چوتھا عنصر جدید الحاد ہے....
یقینا دنیا کے اندر ایسی ملتیں موجود ہیں جن کو نبوتوں کی ہوا تک نہ لگی ہو اور نہ ہی وہ آسمانی ہدایت سے آشنا ہوں۔ یہاں چین، جاپان اور ہندو ایسی کئی ایک امتیں ہیں جو اصولاً مغرب کی نسبت ہم سے فکری و نظریاتی طور پر کہیں زیادہ دور ہیں، کیونکہ اپنے عیسائی ہونے اور بائبل پر ایمان رکھنے کی بدولت کئی ایک حوالے یہ فرزندانِ مغرب ایسے رکھتے ہیں جنہیں یہ ہمارے اور اپنے مابین قدرِ مشترک پاتے ہیں، جبکہ دوسری اقوام کے ساتھ ہمیں ایسی کوئی مشترک زمین سرے سے دستیاب نہیں۔
اس کے باوجود پچھلی کئی صدیوں سے دنیا کے اندر الحاد پھیلانے کا مصدر نہ تو چین رہا ہے اور نہ جاپان، نہ کوریا اور نہ ہندوستان۔ بدبختی کی انتہا دیکھئے یہ روسیاہی یہاں کی دو اہل کتاب ملتوں کے نصیب میں آئی: ایک یہود اور دوسرے نصرانی معاشرے! غیبیات کے ساتھ جنگ کا علم انہوں نے ہی اٹھا رکھا ہے۔
وہ سب کی سب قدریں جو دنیا کی مختلف ملتوں کے مابین ہزاروں سال متفق علیہ چلی آئی ہیں اور انسانیت کی بقا کی ضمانت رہی ہیں، جبکہ شرم وحیا پر مبنی یہ وہ قدریں ہیں جو دنیا کے اندر انبیا کی باقیاتِ صالحات رہی ہیں.. پوری ڈھٹائی اور بے دردی کے ساتھ ان اقدار کے بخیے ادھیڑنے کا عمل یہاں کی اہل کتاب قوموں کے ہاں ہی پروان چڑھا ہے۔ لادینینت کی پوری دنیا کو برآمد ان کے ہاں سے ہی ہوتی رہی اور آج تک برابر ہورہی ہے۔ ”ایمان“ کے خلاف ’دلائل‘ لے کر آنے کا اس سے بڑھ کر زعم شاید ہی کسی کو ہوا ہو۔ الحاد کا اس سے بڑا مظاہرہ تاریخ میں شاید کبھی کہیں نہیں ہوا۔ تاریخ کے بدترین ملحد آج کے مغرب نے ہی پیدا کئے ہیں۔ ڈارونزم، مارکسزم، کمیونزم، کیپیٹل زم، ریلیٹوزم، لبرلزم، فیمنزم، سلطانیِ جمہوراور نجانے کیا کیا کفر انہی کی سوغات ہیں، جوکہ ایسے بڑے بڑے کفر تھے کہ کرۂ ارض کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچے اور یہاں بسنے والے ہر انسان کو متاثر کرنے کی برابر کوشش میں رہے۔
چنانچہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ صرف ایک محمد ﷺ نہیں بلکہ سب کے سب انبیاءکے دین کے خلاف جنگ کا علم آج اگر کسی نے اٹھا رکھا ہے تو وہ یہی ’وارثانِ یونان و روم‘ ہیں۔ باقی سب دنیا اگر ان کفریات کی متبع ہے تو وہ ایک حاشیائی حیثیت اور ایک پیروکارانہ انداز میں ہی۔ رسولوں کے دین کے خلاف جنگ کے باقاعدہ علم بردار البتہ یہی ہیں۔ خدائی شریعتوں کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی مہم انہی کی برپا کردہ ہے۔ رسولوں کے ساتھ ٹھٹھہ اور مذاق انہی کا دیا ہوا فیشن ہے۔ ”دین“ پر لطیفے گھڑنے، ”ایمانیات“ پر فقرے چست کرنے اور ”دینی مظاہر“ پر قہقہے لگانے کے رجحانات دنیا میں اگر اور کہیں ہیں بھی تو وہ انہی کے ہاں سے درآمد ہوئے ہیں۔
اس لحاظ سے یہ کہنا ہرگز خلافِ واقعہ نہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ جنگ کرنے والے، خصوصا اس جنگ میں آگے لگنے والے، آج یہی لوگ ہیں۔
دوسری جانب یہ بھی اتنا ہی واضح ہے کہ انبیا کی وارث، اور سب کی سب آسمانی شریعتوں اور رسالتوں کی امین، قیامت تک کیلئے اب کوئی ہے تو وہ ہماری ہی یہ امتِ بیضا، جو روز پانچ بار دنیا میں بآوازِ بلند وحدانیتِ خداوندی کی شہادت دیتی ہے۔ خدا کے مرتبہ و مقام کیلئے یہی امت ہمیشہ غیرت میں آتی دیکھی گئی ہے اور ایک نہیں سب کے سب انبیا کی ناموس کیلئے بے چینی بھی ہمیشہ اسی کے ہاں پائی گئی ہے۔
پس لازمی تھا کہ باقی سب اقوام یہاں حاشیائی ہوکر رہیں اور ’میدان‘ کے اندر یہی دو ملتیں باقی رہ جائیں۔ ایک ہم اور ایک وہ۔ داعیانِ ایمان اور داعیانِ الحاد۔ اندازہ کرلیجئے کتنی ہی قومیں ترقی، ٹیکنالوجی اور معیشت وغیرہ میں ہم سے آگے ہیں۔ چین، جاپان اور بھارت وغیرہ سے ہمارا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ پسماندگی میں آج ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ تیل اور ایندھن حاصل کرنے کی دوڑ ضرور ایک سچ ہوگامگر یہ دوڑ ان اقوام کے مابین زیادہ ہونی چاہیے جو اپنے پہیے کوحرکت دینے کیلئے زیادہ ایندھن کی ضرورتمند ہیں۔ اس کے باوجود مغرب اپنی ٹکر کیلئے ہمارا ہی انتخاب کرتا ہے اور سچ یہ ہے کہ ایسا کرنے میں ہرگز کوئی غلطی نہیں کررہا۔ خود ان کے دانشوروں کی زبان سے یہ بات سنی جارہی ہے کہ یہ تہذیبوں کا تصادم ہے۔
سوال جب ’تہذیبوں کی کشمکش‘ کا ہو جائے تو افق پر پھر ”اسلام“ کے سوا کیا کہیں کوئی خطرہ دکھائی دے سکتا ہے؟!! چین اور جاپان کی تب بھلا یہاں کیا حیثیت رہ جاتی ہے، ’موت‘ صرف ایک جگہ سے آتی نظر آرہی ہے اور وہ ہے ’عالمِ اسلام‘!!! اِس ’دشمن‘ کے پاس ہتھیار ہیں یا نہیں، اِس میں جان ہے یا نہیں، اِس کو اٹھنے سے پہلے مار دیا جائے اور جاگنے سے پہلے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سلا دیا جائے!!! تصور کیجئے قرآن پڑھنے والی امت صحیح معنیٰ میں اگر کسی وقت جاگ اٹھے، کیا الحاد کے رونگٹے کھڑے کر دینے کیلئے یہ اتنی سی بات کافی نہیں؟!!
یہ در اصل ایک خدائی انتظام ہے کہ وہ انسانی دنیا کے اندر تصادم اور کشمکش کا عنوان ہمیشہ کی طرح آج بھی مسئلۂ حق و باطل کو ہی رہنے دے اور ’مسئلۂ ایمان و کفر‘ کو دنیا کے ایجنڈے سے آج بھی محو نہ ہونے دے۔ ورنہ ’شہباز اور ممولے‘ کا بھلا کیا مقابلہ؟؟!وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ!!! (1)
چنانچہ یہ جنگ اگر ہماری چھیڑی ہوئی ہے اور نہ اُن کی __ بلکہ یہ جس چیز کی چھیڑی ہوئی ہے وہ ہے حق کی اپنی ہی اصیل خاصیت جس کا کہ ہمیں امین بنا دیا گیا ہے، اور باطل کی اپنی ہی ازلی سرشت جس کے کہ وہ اس وقت دنیا میں سب سے بڑے علمبردار بنے ہوئے ہیں__ پس یہ جنگ اگر ہمارا اپنا فیصلہ نہیں بلکہ ُاس ذات کا اپنا ہی کوئی منصوبہ ہے جسے اپنی مخلوق کو مؤمن اور کافر میں تقسیم کرکے دیکھنا بے حد پسند ہے اور اسی مقصد کیلئے وہ دنیا کے اندر کتابیں اور رسول بھیجتی ہے اور جسے کہ یہ پسند نہیں کہ انسانوں کے مابین امتیاز کا یہ عنوان، یعنی ”کفر و اسلام“، ناپید یا حتیٰ کہ حاشیائی ہوجائے، جبکہ نظر یہی آتا ہے کہ یہ جنگ ”ایمان و کفر“ کی اپنی ہی ازلی مخاصمت کی انگیخت کردہ ہے نہ کہ ہمارے اپنے کسی منصوبے کا نتیجہ.... تو پھر اس سے بڑھ کر خوشی کی کوئی بھی بات نہ ہونی چاہیے کہ دنیا میں جس وقت ایک ایسی زبردست جنگ کا غبار اٹھا، جوکہ اپنی فطرت اور حقیقت میں عین وہی جنگ ہے جو پیروانِ رُسُل اور معاندینِ رُسُل کے مابین ہوا کرتی ہے، تو اس وقت ہم نبی آخر الزمان ﷺ کے کیمپ میں تھے اور ہمارے گھروں پر چڑھ آنے والے، شرک اور الحاد کے سب سے بڑے داعی اور دنیا کے اندر رسولوں کے خلاف جنگ روا رکھنے کے اپنے اس دور کے سب سے بڑے علمبردار!
ایسی جنگ کا تو ’نتیجہ‘ اس قدر دلچسپ نہ ہونا چاہیے جس قدر کہ خود اس جنگ کے ’دواعی اور محرکات‘! پس اس ’جنگی سلسلہ‘ warfare کا نتیجہ دیکھنے کیلئے ہم زندہ رہتے ہیں یا نہیں، بلکہ تو یوں کہیے اس جنگ کا نتیجہ چاہے کچھ بھی رہے، اس کے تو ’غبار‘ سے کچھ حصہ پا لینا ہی ہمارے لئے کسی سعادت سے کم نہیں! پس آج کا ہر موحد جو اس جنگ میں شعوری طور پر شریک ہے اس جنگ سے وہ بہترین حصہ پورے طور پر پا چکا ہے جس کا دینا کسی جنگ کے بس میں ہو۔ اہل ایمان کا جو کوئی مطلوب ہوسکتا ہے، ہم سمجھیں تو یہ جنگ ہمیں وہ چیز درحقیقت دے چکی ہے!!! اس میں فخر کی کوئی بنیاد ہے تو بس یہی!!!
آج اس وقت، اور تاریخ کے عین اس موڑ پرجب دنیا ایک ہونے جارہی ہے اور نظریات کی حکمرانی دنیا کے اندر ازسر نو بحال ہونے کو ہے، شرک اور الحاد کے بدترین جھکڑوں کے بالمقابل ”ایمان“ کے قلعوں کا پاسبان ہونے سے بڑھ کر کیا نعمت ہوسکتی ہے اور __ بطورِ امت اور بطور کیمپ __ رسالتوں کا امین ہونے سے بڑھ کر فخر و اعزاز کی یہاں کیا بات ہوسکتی ہے؟!!
چنانچہ فکرِ مغرب کا یہ چوتھا عنصر، یعنی مغرب کا فکری و تہذیبی الحاد اور رسولوں کی تکذیب پر مبنی رجحانات صادر کرنے کے معاملہ میں مغرب کا پوری دنیا کے اندر ایک قوی ترین منبع اور ایک مقبول ترین حوالہ کی حیثیت اختیار کر جانا__ کم از کم اپنی اس حالیہ شکل اور اپنے اس بھاری بھر کم حجم میں __ ملتِ روم میں در آنے والا ایک بالکل نیا عنصرہے، جس کی تاریخ چند صدیاں پیچھے تک ہی جاتی ہے۔ گو اس کی بنیاد اپنے وجود کے پہلے عنصر یعنی فکرِ یونان میں یہ بڑی واضح پاتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک اضافی سبب ہوگا کہ مغرب ہمارے ساتھ ایک ایسی مخاصمت محسوس کرے جو اس سے پہلے اسکے ہاں کبھی نہ پائی گئی ہو۔
باطل اپنے اندر بطلان کے جتنے پہلو جمع کرلے گا وہ حق کے ہاتھوں ختم ہونے کے اتنے ہی اسباب اپنے ہاتھوں فراہم کرے گا اور بے شک اہل حق کی جانب سے پہل نہ ہو وہ حق کے اندر اپنے لئے اتنے ہی خطرات بڑھتے ہوئے آپ سے آپ محسوس کرلے گا۔چنانچہ ’جنگ‘ کا پیغام باطل کے اپنے ہی اندر سے اٹھتا ہے، اسلحہ اور ٹیکنالوجی پر گھمنڈ اس کا صرف ایک اضافی پہلو ہے!
البتہ ’بڑھاپا‘ انسانی دنیا کے اندر ایک خدائی سنت ہے، جسکی زد، بقول ابن خلدون، جماعتوں، معاشروں اور تہذیبوں پر بھی اسی طرح پڑتی ہے جس طرح کہ افراد پر۔ بڑھاپے کا، وقت سے ذرا پہلے آجانا یا عام معمول کی نسبت کچھ موخر ہو جانا، گو ایک انسانی واقعہ ہے مگر اسکے آنے سے بہر حال کوئی مفر نہیں۔ گو اس بات کی تفصیل کا یہ مقام نہیں مگر بوجوہ مغرب کے الحادی و مادی وجود پر بڑھاپے کے آثار نمایاں سے نمایاں تر ہوتے جارہے ہیں۔ چہرے پر جھریاں صاف محسوس کی جانے لگی ہیں اور ’آئینے‘ کا استعمال اسکے ہاں کچھ ایسا مفقود نہیں! وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاء فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ !!! (2) ..ایسے میں ’دشمن‘ کے نونہالوں کو گبھرو ہوتے دیکھنا بطور خاص اذیت ناک بلکہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے!
جبکہ عالم اسلام کے حالات سے باخبر ہر شخص آج یہ دیکھ رہا ہے کہ یہاں ”ایمان“ اور ”اللہ کی طرف لوٹنے“ کا عمل ایک زور دار کروٹ لے رہا ہے جس کے پیچھے اُن تحریکوں کی دو سو سالہ محنت پڑی ہے جن کے کام کی بابت لوگوں کا تبصرہ ہوا کرتا تھا کہ ’اس سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا‘!!!حالانکہ اللہ کے ہاں تو اس کے حق میں بولا گیا ایک کلمہ ضائع ہوتا ہے اور نہ اس کے راستے میں چلائی جانے والی کوئی ایک گولی، ’ولکنکم قوم تستعجلون‘!!! (3)
پس یہ ایک زبردست co-incidence ہے کہ ایک ملحد تہذیب بڑھاپے سے دوچار ہے تو عین دوسری طرف خدا آشنائی پر مبنی ایک جاندار اور نوخیز تہذیبی عمل آہستہ مگر تسلسل کے ساتھ رونما اور روز بروز نمایاں تر ہو رہا ہے، یہاں تک کہ خود ان کے اپنے گھروں میں مقبول ہورہا ہے۔ ڈیموگرافی کے کئی سارے بم الگ پھٹنے والے ہیں اور آبادیوں کی کثرت آئندہ سالوں میں ایک بہت بڑا کردار ادا کرنے والی ہے!
یہ حقائق تو اس قدر عظیم الشان اور غیر معمولی ہیں کہ اسلام اور مغرب کی اس کشمکش میں اس سے زیادہ دلچسپ صورتحال اس سے پہلے شاید کبھی بھی پیدا نہیں ہوئی! مغرب زیادہ سے زیادہ اس وقت کچھ اپنے پاس رکھتا ہے تو وہ ہے موت کا سامان، خود اپنے لئے کسی انداز میں تو اوروں کیلئے کسی اور انداز میں۔ البتہ زندگی کا سامان آج صرف ہمارے پاس ہے خود ہمارے لئے اور دنیا بھر میں جو جو زندگی پانے کی خواہش رکھتا ہو اُس کے لئے! دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں روشنی مسلسل بڑھ رہی ہے اور سائے مسلسل سمٹ رہے ہیں۔
یہ نوشتۂ دیوار تو قریب قریب ہر شخص ہی آج پڑھ رہا ہے کہ موجودہ صدی صرف اور صرف اسلام کی صدی ہے، البتہ جو بات اس سے بھی بڑھ کر سوچنے کی ہے وہ یہ کہ اپنے مرنے کا انتظام جس وسیع انداز میں مغرب نے اس دور میں کیا ہے اور خدائی سنتوں کی رو سے اپنے مٹ جانے کے اسباب جس کثرت اور شدت کے ساتھ اس نے اس بار مہیا کئے ہیں، دوسری جانب کئی سو سال بعد اسلام کی حقیقت ایک اجلے نکھرے انداز میں جس طرح اس بار سامنے آنے لگی ہے اور جس بڑے انداز کی کروٹ بیداری کے معاملے میں آج عالم اسلام لینے لگا ہے، تیسری جانب دنیا کا ایک بستی ہو جانے کا وقوعہ جس بے مثال unprecidented انداز میں اب آج رونما ہونے کو ہے... کیا ایسا تو نہیں اس ساری کشمکش کا فیصلہ ہی ہو جانے کو ہو جب ”اللہ روئے زمین پر کوئی گھر اور کوئی جھونپڑا ایسا نہ رہنے دے گا جہاں اسلام کا بول بالا ہو کر داخل نہ ہو، عزت والے کو عزت دے کر اور ذلت والے کو ذلت دے کر ، عزت جو کہ اللہ اسلام کو دے گا اور ذلت جو کہ اللہ کفر کو دے گا“!!! (4)
سب کچھ اللہ کے علم میں ہے، البتہ امکانی اشارات اس حد تک یقینا ہورہے ہیں!
چنانچہ آج ہم تاریخ کے ایک ایسے منفرد موڑ پر کھڑے ہیں جہاں زمانے کی گردش دیکھنے سے تعلق رکھنے لگی ہے۔ ملت کا ہر فردآج جس قدر اہم ہوگیا ہے شاید وہ ہمارے اندازے سے باہر ہو۔ سب سے بڑھ کر گلہ ہمیں اپنے اس فرد سے ہوگا جو ’فیصلے کی اس گھڑی‘ کو قریب لانے میں کوئی بھی کردار ادا نہ کر رہا ہو، جبکہ یہ کردار ادا کرنے کی اس وقت ایک نہیں ہزاروں صورتیں ممکن العمل ہیں۔
عالم اسلام کی ساری ہی مٹی اس وقت بے حد زرخیز ہو چکی ہے، اور ’نم‘ کی بھی اس وقت، خدا کا فضل ہے، کوئی ایسی کمی نہیں!!!
٭٭٭٭٭
(1) یوسف: 21 ”اور اللہ غالب ہے اوپر کام اپنے کے ولیکن بہت لوگ نہیں جانتے“ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
(2) اس کو بڑھاپے نے آ لیا ہو، اولاد (چھوٹی چھوٹی) بے آسرا ہو، (اس کا یہ باغ) طوفانی آندھی کی نذر ہو جائے، جس میں آگ ہو، اور وہ جل کر راکھ ہو جائے“
(3) ”مگر تم لوگ بہت جلدی کرتے ہو“-- اشارہ ہے رسول اللہ ﷺ کے اس جواب کی طرف جو آپ نے اپنے کچھ صحابہ کے اپنی حالتِ زار کہنے پر ارشاد فرمایا تھا۔
(4) اس حدیث کا تفصیل کے ساتھ آگے چل کر ایک الگ فصل ’مبشرات‘ میں ذکر آرہا ہے۔
اگلی فصل