اب آئیے بنی الاصفر کے فکری وجود کے تیسرے عنصر کی طرف...
دین اور تہذیب کی تاریخ سے باخبر لوگوں کیلئے ’رومنز‘ ایک مذہبی شب خون کا بھی عنوان رہا ہے اور یہ ہے دینِ مسیح ؑکا، جو کہ توحید کا ایک خوبصورت درس تھا، بت پرستی کے ہاتھوں یرغمال کر لیا جانا۔ دینِ توحید میں فاتحانہ بلکہ شہنشاہانہ داخل ہونا بلکہ شرک کے پلید جوتوں سمیت داخل ہونا اور پھر اس پر بھی ’تیسری دنیا‘ سمجھ کر قابض ہو جانا .... یہاں تک کہ دینِ توحید سے توحید اور موحدین ہی کو بے دخل کر دینا اور شرک کو بالآخر ایک آسمانی شریعت کا باقاعدہ عنوان ٹھہرا دینا .... ’رومنز‘ کی تاریخ کا یہ بھی ایک بے حد تاریک مگر نمایاں پہلو ہے۔
عیسائیت کا یورپ میں غلغلہ ہونا چنانچہ دین مسیح ؑسے اتنا تعلق نہیں رکھتا جتنا کہ سینٹ پال کے دین سے جو کہ یہودی پس منظر اور رومی اثر ورسوخ رکھنے والی ایک پراسرار تاریخی شخصیت ہے۔ رہا سہا کام پھر رومی شہنشاہ قسطنطین کے قبولِ عیسائیت نے کیا جس نے عیسائی عقائد کے اندر ’بحقِ سرکار‘ مداخلت کی کمال مثالیں قائم کیں۔ یہاں تک کہ عیسائیت کا عقیدہ تو کیا زبان تک اپنی نہ رہی۔ سب کچھ ’رومیا‘ لیا گیا۔ آج جب آپ دیکھتے ہیں تو گویا یہ دین نازل ہی کہیں یورپ میں ہوا تھا۔ بت پرست رومی تہواروں کو ہی بڑے آرام کے ساتھ عیسائی تقدس دے دیا گیا!
عیسائیت کی یورپی پہچان اور یورپ کی عیسائی پہچان چنانچہ آج سیکولرزم کے دور میں بھی قریب قریب ایک مسلمہ جانی جاتی ہے۔ نومنتخب پاپائے روم جوزف ریٹزنگر بینی ڈکٹ آج اسی وجہ سے یورپی یونین کے آئین پر معترض ہیں کہ یونین کا باقاعدہ مذہب اس میں عیسائیت کیوں درج نہیں کر دیا گیا۔ ترکی کے یورپی یونین کی رکنیت پانے کے بھی وہ اسی وجہ سے خلاف رہے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ ’یورپ‘ اور ’نصرانیت‘ آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ یعنی یورپ میں سینٹ پال کے دین کے سوا کسی کیلئے کوئی گنجائش نہ ہونی چاہیے!
بوسنیا اور کوسووا میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے بھی شاید یہی سمجھتے ہیں کہ براعظم یورپ میں عیسائیت کے سوا کسی مذہب کی کوئی گنجائش نہیں!
بہرحال عیسوی شریعت کا رومیا لیا جانا تاریخ کا ایک معروف واقعہ ہے۔ یہاں تک کہ بعض مورخین کو یہ کہے بغیر چارہ نہ رہا: ”رومن دراصل عیسائی نہیں ہوئے بلکہ عیسائیت کو رومن کیا گیا“۔ پاپائے روم کا ادارہ اسی واردات کا ایک تاریخی تسلسل ہے۔
رومنز کا سرخ ارغوانی رنگ آپ پوپ کے چغے اور کلاہ میں دیکھ سکتے ہیں اور یہی سرخ رنگ کسی نہ کسی ڈیزائن کے ساتھ ہر مغربی ملک کے پرچم میں!
٭٭٭٭٭
طبعی بات تھی کہ محمد ﷺ کی لائی ہوئی آخری آسمانی رسالت کے ساتھ سب سے گھمبیر اور کانٹے دار مقابلے کیلئے وہی قوم اور وہی تہذیب پیش پیش ہوتی جو اس سے پہلے دینِ مسیح ؑکی صورت مسخ کر چکی تھی اور قریب قریب ایک پوری آسمانی اُمت کا گھونٹ بھر چکی تھی .... اور جس کے ہاتھوں مسیح ؑکا نام، جو کہ خدا کا بندہ خدا کا رسول اور خدا کا کلمہ تھا، شرک کا عنوان بنا دیا گیا اور رومی دیوتاؤں کا ’شرعی‘ متبادل۔
رسول اللہ ﷺ اپنی وفات کے وقت جس جہادی مہم کی تیاری کروا رہے تھے اور جس کی تاخیر پر آپ بیماریِ مرگ میں بھی برہم ہوئے تھے اور جس کو روانہ کرنے میں خلیفۂ اول ابو بکرؓ نے بھی بے حد مستعدی سے کام لیا، یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نبوت کی جانب سے بھجی جانے والی آخری فوجی مہم تھی تو خلافت کی جانب سے روانہ کی جانے والی پہلی فوجی مہم، یعنی جیشِ اسامہؓ.... یہ ’ملتِ روم‘ کی جانب سے اٹھنے والے خطرات کے سد باب کیلئے ہی بھیجی جانے والی ایک مہم تھی۔
علاوہ ازیں، نبی آخر الزمان کی زندگی کی سب سے بڑی اور بلحاظِ مسافت سب سے طویل و پرمشقت فوجی مہم جو کہ آپ نے وفات سے تھوڑی دیر پہلے ایک عظیم الشان اور عدیم المثال تیاری کے ساتھ برپا کی تھی اور بنفسِ نفیس اس کی قیادت فرمائی تھی، اور جس میں امکان تھا کہ قیصرِ روم خود آپ کے مقابلہ میں آئے گا یوں دنیا شاید یہ موقعہ پاتی کہ ایک نبی اور ایک قیصر کو اس رزمِ جہاد کے اندر آمنے سامنے دیکھے، لیکن آسمانی صحیفوں کا علم رکھنے والا یہ رومن ایمپرر جو کہ فارس پر فتح پانے کی عظیم شہرت رکھتا تھا مگر جانتا تھا کہ نبی سے مقابلہ کی صورت میں اس کا ابرہہ سے بھی برا حشر ہو سکتا تھا، لاکھوں کی فوج رکھنے کے باوجود اپنے بالکل قریب آئے ہوئے اس تیس ہزار کے لشکر کو بڑی بزدلی کے ساتھ طرح دے گیا .... رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا یہ سب سے بھاری بھرکم غزوہ، جو تبوک کے نام سے جانا جاتا ہے اور جوکہ آپ کی زندگی کے بالکل آخر میں جا کر لڑا گیا، ’ملتِ روم‘ ہی کے خلاف تھا۔
اس لحاظ سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کے کسی بھی نبی کا سب سے آخری معرکہ اسی شرک کے خلاف لڑا گیا جسے ہم ’ملتِ روم‘ کہتے ہیں اور یہ کہ نبوت کی تلوار کا رخ عین آخری دم اسی ’مغربی‘ خطرے کی سمت تھا۔
اس امر نے پیروانِ رُسُل اور مخالفینِ رُسُل کی اس لامتناہی کشمکش کو قیامت تک کیلئے شاید اب یہی جہت دے دی ہے کہ حق اور باطل کا معرکہ اب زمانۂ آخر تک انہی دو کیمپوں کے مابین لڑا جاتا رہے۔ پچھلی چودہ صدیوں کا واقعہ بہر حال اسی بات کی توثیق کر رہا ہے۔
چنانچہ جتنی طویل جنگ ہمارے خلاف ”ملتِ روم“ نے کھڑی کی ہے بلکہ آج تک یہ ہمارے خلاف بر سر جنگ ہے ویسی جنگ ہمارے خلاف دنیا کی کسی قوم نے کھڑی نہیں کی اور نہ ہی اس کا کہیں امکان نظر آتا ہے۔ ”اقوامِ روم“ جنہیں اب ہم ”مغرب“ بھی کہنے لگے ہیں اور جوکہ کئی بر اعظموں کے اندر اب بیک وقت پائی جاتی ہیں.. پچھلے چودہ سو سال سے ہمیں ہی اپنی جنگ کا سب سے بڑا محاذ جانے ہوئے ہیں۔
کمیونزم وغیرہ کے خلاف برسرِ عمل رہنے کے دوران بے شک اس جنگ کی شدت میں قابلِ لحاظ حد تک کمی آئی رہی مگر یہ جنگ اس سے کہیں بڑی ہے کہ یہ کسی چھوٹے موٹے عمل کے نتیجے میں ماضی کا ایک واقعہ بن رہے اور حال سے روپوش ہو جائے۔ پس آج جو ہم دیکھ رہے ہیں ہرگز کوئی حیران کن واقعہ نہ ہونا چاہیے!
اگلی فصل