جس سے کہ مغرب کا اصل خمیر اٹھا ہے۔ یونانی فلسفہ و افکار کے ساتھ یہ بنی الاصفر (گوری اقوام) ایک خاص تہذیبی نسبت رکھتی ہیں بلکہ اس پر کچھ اس انداز کا فخر کرتی ہیں کہ گویا عقل و شعور اور فکر و دانائی کا استعمال تاریخِ انسانی کے اندر فلاسفۂ یونان ہی کی چھوڑی ہوئی یادگار ہے اور پوری انسانی دنیا ذہن کی غذا کے معاملہ میں صرف اور صرف اسی پہ انحصار کرنے کیلئے آخری حد تک محتاج ہے! چند صدیاں قبل مسیحؑ کے یونان کی بابت یہ تاثر دے کر کہ عقل و دانائی کا اولین گہوارہ وہی ہے، ایک طرف یہ دھاک بٹھالی جاتی ہے کہ عقل و منطق کا استعمال مغرب کے بڑوں کے سوا دنیا کے اندر آج تک کسی کے آبا نے گویا کیا ہی نہیں تو دوسری جانب جدید انسان کے تحت الشعور میں یہ بات بٹھا لی جاتی ہے کہ انسانی ترقی کی تاریخ دراصل یورپ کی تاریخ ہے!
چونکہ یونان کے فکری اثاثہ جات بعد ازاں آپ سے آپ ’رومیا‘ لئے گئے، لہٰذا اس کے ساتھ اپنا نسب جوڑنے میں ان کو کوئی بھی دقت پیش نہیں آتی، خصوصا جبکہ جغرافیائی طور پر فرزندانِ یورپ کو آبائے یونان پر ناز کرنے کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ رومن ایمپائر کے عالیشان نشاناتِ شان و شوکت پر۔
جہاں تک انکی تہذیب کے اس پہلے عنصر کا تعلق ہے، اور جوکہ اسکے چوتھے عنصر کیلئے بنیاد فراہم کرتا ہے، جیسا کہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے، تو وہ در اصل دینِ انبیا کے ساتھ تعارض کی اصل اساس ہے۔ خصوصاً تنزیلِ خداوندی کو ذہنِ انسانی کے معیار سے فروتر جاننااور حقائق کے تعین کیلئے عقلی ٹامک ٹوئیوں کو صائب تر طریق ماننا۔پھر یہ کہ اسی جہالت کو تقاضائے دانش جاننا اور عالمِ غیب کو اپنے ہی محدود سے اندازوں کے اندر محصور جاننا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ فلاسفۂ یونان کے ہاتھوں قوائے عقل کو ایک شدید قسم کے جمود سے آزادی ملی ہے تو یہ واقعہ یورپ کی حد تک ہی صحیح مانا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہؒ کی توضیحات سے عیاں ہے: یونانی فلسفہ کی ترقی و افزودگی، جس پر مغرب اتراتا ہے، اس زمانہ سے تھوڑی بعد ہوتی ہے جب ارضِ شام و بیت المقدس کے اندر نبوتوں کا تانتا بندھ گیا تھا، یعنی پیدائشِ مسیحؑ سے چند صدیاں پیشتر کا زمانہ، جوکہ موسیٰ علیہ السلام کے بہت بعد آتا ہے ، جبکہ قرآن میں واضح کیا گیا ہے کہ ارض شام و فلسطین میں اس دور کے اندر انبیاءکی ایک بہت بڑی تعداد مبعوث کی گئی تھی۔وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِِ (البقرۃ: 87)یونان کے فلاسفہ کی ایک تعداد ایسی رہی ہے جو بحر ابیض کا حوض پار کر کے ارضِ انبیا میں آتی اور یہاں سے حکمت اور دانش کی خبر پاتی رہی۔ ان میں ایسے لوگوں کا پایا جانا بعید از قیاس نہیں جو انبیا پر ایمان سے مالا مال ہو کر یونان لوٹتے رہے، جس سے علم و دانش کی کچھ روشنی ان کے ساتھ یورپ کے اس تاریک جزیرہ نما تک بھی پہنچ جاتی رہی۔ اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ بحر ابیض کے مشرقی و جنوبی کناروں پر کئی صدیاں مسلسل نبوت کی قندیلیں جلیں اور تھوڑی بھی روشنی اس کے دوسرے پار نہ پہنچے، جبکہ تہذیب میں وہ نقطہ بہت دیر پہلے آچکا تھا جہاں قوموں کے مابین خوب آمد ورفت ہونے لگی تھی اور تبادلۂ علوم و تجارب بھی بکثرت ہونے لگا تھا؟
البتہ اس روشنی کے اندر یہ اپنی جہالت کی آمیزش بھی بہر حال کرتے رہے۔ چنانچہ جہاں تک یونانی علوم وفلسفہ جات میں کوئی ایجابی پہلو ہے اور خصوصا اگر یورپ میں عقل کے استعمال اور قوائے استدلال و استنباط کو ’پہلی بار‘ کارآمد بنانے کی ایک سنجیدہ کوشش کا معاملہ ہے تو اس کا سہرا انتقالِ علم و حکمت کے اس عمل کو جاتا ہے جس کا مصدر ارضِ انبیا رہی ہے۔ البتہ جہاں تک ان فلاسفہ کا عقل کو مستقل بالذات بنا کر حدودِ انسانی سے تجاوز کر جانا ہے اور جو کہ فلاسفۂ یونان کا بالآخر امتیاز ٹھہرا ، تو یہ خدائی ہدایت کے بالمقابل وہ انسانی سرکشی ہے اور ’عقل و دانش‘ کے نام پر دینِ انبیا سے انسان کا وہ جاہلانہ تصادم ہے جو آج بھی مغربی تہذیب کا عنصر اولین مانا جاتا ہے۔
اگلی فصل