مغرب اور ہم.. |
تاریخی وجغرافیائی پسِ منظر |
کوئی اگر سوال کرے کہ وہ کونسی قوم ہے جس کے ساتھ پچھلے چودہ سو سال سے عالمِ اسلام کی مسلسل جنگ ہو رہی ہے، بغیر اس کے کہ اس جنگ میں کوئی ایک دن کا بھی وقفہ آپایا ہو، تو اس کے جواب میں ’روم‘ کے علاوہ شاید آپ کسی بھی قوم کا نام نہ لے سکیں! تو پھر کیا یہ ضروری نہیں کہ اس جنگ کا نقشہ جو آج بھی نہیں رکی بلکہ ہمارے خلاف انکی یہ جنگ آج ایک بھیانک ترین رخ اختیار کر چکی ہے، ملت کے کسی فرد کی نگاہ سے روپوش نہ رہے؟
احادیث کے اندر ’روم‘ کے کئی سینگ بتائے گئے ہیں ، کہ جب ایک سینگ جھڑے تو انکا ایک اور سینگ کہیں سے برآمد ہو جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت اقوامِ روم کا وہ کونسا ’سینگ‘ ہے جو عالمِ اسلام کو پٹخ دینے کے لئے اس وقت ’روم‘ کے سر پر لہرا رہا ہے اور قدسیانِ اسلام کی جان لینے کے در پے ہے؟
بنیادی طور پر یورپ ایک بہت چھوٹا سا بر اعظم ہے، جو کہ بہت صدیاں پہلے وہاں بسنے والی گوری اقوام کیلئے تنگ پڑگیا تھا۔ طبعی بات تھی کہ یہ اقوام اپنے مسکن کیلئے نئے خطوں کی دریافت کیلئے اٹھ کھڑی ہوتیں.. مگر سوال یہ ہے کہ یورپ سے نکل کر وہ جاتیں کہاں؟!
کئی ایک مؤرخین نے سلطنتِ عثمانیہ کے جو محاسن بیان کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ عین اس وقت جب یورپی اقوام اپنے گھروں کی تنگی کے باعث نئے خطوں کی تلاش میں تھیں، جبکہ ان اقوام کو جو قریب ترین ہمسایہ پڑتا تھا وہ سب کی سب مسلم عرب اقوام تھیں جن کی زمینیں ہتھیانے کیلئے ان یورپی اقوام کو صرف بحر ابیض پار کرکے آنا پڑتا.. اور بلا شبہہ یہ توسیع پسند قومیں اپنی بڑھتی ہوئی آبادیوں کیلئے شام، مصر، لیبیا، الجزائر، تیونس، مراکش اور ان کے مابعد پائے جانے والے ان سب زرخیز وسیع وعریض خطوں پر للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی بھی رہیں.. ان زرخیز زمینوں پر چڑھ آنے کیلئے انکو ہمت مگر اسلئے نہیں پڑ رہی تھی کہ انکو مار بگھانے کیلئے ایک مضبوط و توانا خلافت یہاں موجود تھی، جو نہ صرف انکو ’مشرقِ وسطیٰ‘ اور شمالی افریقہ کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے نہ دیتی تھی بلکہ پورا یورپ افواجِ خلافت کی دھمک سے لرز رہا تھا بلکہ آدھا یورپ تو اس کے ہاتھوں تاراج ہو چکا تھا۔
بحر ابیض جس کو مؤرخ ’وہ حوض جس کے گرد تہذیب گھومتی رہی‘ کا نام دیتا ہے، گویا اس وقت خلافت کی جاگیر تھی اور اس میں کوئی اسکی اجازت کے بغیر پر نہ مار سکتا تھا۔ دنیا کے سب آباد خطوں تک یورپ کا راستہ اسی بحر ابیض سے گزرتا تھا یا پھر ایشیائے کوچک کی خشکی (حالیہ ترکی) سے جس پر کہ عثمانیوں کی اپنی خلافت قائم تھی۔ تیسرا راستہ بحر اوقیانوسAtlantic Ocean کا ہوسکتا تھا جس میں جہازرانی کرتے ہوئے پورے بر اعظم افریقہ کے اوپر سے ہزاروں میل کا ایک طویل چکر کاٹنا پڑتا تھا اور جہاں سے فوجی مہمات گزارنا تو قریب قریب ناممکنات میں تھا۔ نتییجتا یورپ اتنی صدیاں پوری دنیا سے کٹ کر اپنے اسی چھوٹے سے خطے میں دبک کر پڑا رہا۔کسی کے ہنستے بستے گھر پر قبضہ کرنا تب بڑے ہی جان جوکھوں کا کام تھا!
آخر کار مغربی اقوام کو ’نئی دنیا‘ کا رخ کرنا پڑا، جوکہ اُس وقت کے بیابان کہلا سکتے تھے۔ آج کا براعظم شمالی امریکہ، بر اعظم آسٹریلیا، جزائر نیو زی لینڈ اور کئی دیگر خطے جن اقوام کا مسکن ہیں وہ یہی یورپی اقوام ہیں جو ہمارے اسلامی مصادر میں ’روم‘ یا ’بنی الاصفر‘ کے نام سے جانی جاتی رہی ہیں اور جوکہ یورپی تاریخ، یورپی نفسیات، یورپی عصبیت اور یورپی روایات لئے، بمع بائبل و صلیب، آج یہاں مالکوں کی طرح براجمان ہیں!
خدا کا شکر کیجئے کہ تب خلافت تھی اور اسی وجہ سے ہمارا ذکر تاریخ کے اندر ’ریڈ انڈین اقوام‘ کی طرز پر نہیں ہوتا۔ البتہ ’تہذیب‘ کی دعویدار ان اقوام کی نظر میں کوئی بھی غیر قوم، جو ایک زرخیز ملک رکھتی ہو اور قدرتی وسائل سے لبریز سرزمین کی مالک ہو، صرف اور صرف ’ریڈ انڈین‘ کے طور پر دیکھی جاتی ہے! اپنے گھروں کے پھاٹک کھولنے والوں کو ’تہذیب‘ کے ان نام لیواؤں کی خیر سگالی بالآخر کتنی مہنگی پڑتی ہے، اس کیلئے ان اقوام کی تاریخ پڑھیے جو بڑی حد تک اب صرف ’تاریخ‘ میں ہی ملتی ہیں اور خاصی حد تک اب صرف ’انتھروپالوجی‘ کا موضوع ہیں!
ایک باعزت تاریخ رکھنے کیلئے آپ کو ایسے آباءسے نسبت چاہیے جو اپنی آئندہ نسلوں کیلئے اپنی میراث کا تحفظ یقینی بنانے کے معاملہ میں آخری حد تک بے لحاظ ہوں اور جو کسی کی ’اؤ بھگت‘ میں فراخدلی کی اس حد تک چلے جانے کے روادار نہ ہوں کہ بالآخر اپنا گھر بھی باہر والوں کے حوالے کر بیٹھیں، جہاں ان کی اپنی نسلیں پھر اگر رہنے کی ’اجازت‘ پائیں بھی تو ’کرایہ دار‘ بن کر!
البتہ آج ہم اپنی آنے والی نسلوں کیلئے کس قسم کے ’آباء‘ ثابت ہورہے ہیں اور اپنی نسلوں تک ان کی امانت بحفاظت پہنچانے کا کیا انتظام کر رہے ہیں، جہاں ہمارے روشن خیال اس حد تک چلے جانے پر تیار ہیں کہ ان بن بلائے مہمانوں کیلئے ملکوں کے نہیں ذہنوں کے پھاٹک تک چوپٹ کھول دیں .... آج کی اس جنگ میں، جس کو تہذیبوں کی جنگ کہا جاتا ہے، ہم اپنے وجود کے تحفظ کیلئے کیا پوزیشن لیتے ہیں، ریڈ انڈینز کی تاریخ خصوصا ریڈ انڈینز کے گورے ’مہمانوں‘ کی تاریخ پڑھتے ہوئے، ایک نظر اس پہلو سے ڈالنا بھی ہرگز نہ بھولئے گا!
پس ”اقوامِ روم“ کو ان کے دین، تاریخ اور تہذیب سمیت شناخت کرنا ہو تو آج وہ ’یورپ‘ تک محدود نہیں۔’ملتِ روم‘ یقینا اس سے بڑھ کر اب ’امریکہ‘ سے ’آسٹریلیا‘ تک جاتی ہے۔
اپنے بہت سے تاریخی خصائص، اپنی تاریخی وابستگی اور اپنی تاریخی دشمنی ان اقوام کو آج تک نہیں بھولی۔ افغانستان میں ہم پر چڑھ آنے والی فوجوں میں ”ملتِ روم“ کی کسی قوم کا جھنڈا آج آپ مفقود نہ پائیں گے۔ چاہے علامتی طور پر چند فوجی بھیجے مگر ’مقدس جنگوں‘ میں شمولیت کے تمغہ سے محروم رہ جانا ’بنی الاصفر‘ کی کسی قوم کو آج اس ’سیکولر‘ دور میں بھی قبول نہیں (’سیکولر زم‘ کی یہ احمقانہ قسم صرف ہمارے لئے ہے!) البتہ انکی ان ’مقدس جنگوں‘، جنکا دوسرا نام صلیبی جنگیں ہیں، کے بالمقابل کتنے ’مسلم ملک‘ ہیں جو ’علامتی طور پر‘ ہی یہاں اپنے پائے جانے کا ثبوت دے لیں؟ ان صلیبی پھریروں کے مد مقابل آنا تو خیر دل گردے کی بات ہے، کتنے مسلم ملک ہیں جو اپنی ”اللہ اکبر“ کی نعرہ بردار افواج کو ان صلیبیوں کے شانہ بشانہ ’مسلم باغیوں‘ کی گوشمالی کیلئے چاک و چوبند رکھے ہوئے نہیں؟
’معزز‘ مہمانوں کا اتنا خیر مقدم تو ہمارے ایمان فروش پہلی صلیبی جنگوں کے موقعہ پر نہ کر پائے تھے!
کہاں خلافت جو ان اچکوں کو دور سے مار بھگایا کرتی تھی اور کہاں آج کے یہ قومی راجواڑے جو ان صلیبی پھریروں کے نیچ پیادوں میں نام درج کروانے کیلئے اور انکے رتھوں کی راہ سے ’رکاوٹیں‘ ہٹانے کیلئے ’کسی بھی قربانی سے ہرگز دریغ نہ کرنے‘ کا عزم بار بار یوں دہراتے ہیں جیسے ایک مخلص عبادت گزار اپنے صبح شام کے اذکار کرتا ہے! دینِ محمد کے خلاف صلیب کی جنگ کو ’اپنی جنگ‘ کہتے ہوئے کیسا یہ ایک ’تحفظ‘ محسوس کرتے ہیں اور ایمان کی سرحدوں کی حفاظت پہ آمادہ مجاہدوں کو برے سے برے القاب دینے میں اپنے آقاؤں تک کو پیچھے چھوڑ دینے کیلئے کس قدر بے چین نظر آتے ہیں!
ابھی ہمارے کچھ نکتہ وروں کو اصرار ہے کہ ان راجواڑوں کو اب ’خلافت‘ اور ’دار الاسلام‘ اور ’الجماعۃ‘ ہی کا قائم مقام جانا جائے اور امتِ اسلام کو بقیہ عمر بس اب اسی ’یو این‘ سے منظوری یافتہ و ’آئی ایم ایف‘ کے باجگزار انتظام پر قناعت کروائی جائے، کہ انکے خیال میں خدا کا اس امت کے ساتھ وعدۂ نصرت (اس شرط پر کہ خود یہ خدا کی نصرت پہ آمادہ ہو) بس ایک ہی بار کیلئے تھا، جس کی میعاد ان کے بقول اب ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی ہے!