عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
AmericanAmpaire آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
نیا اسلامی دور..عالمی بساط سے ظالموں کا پسپا ہونااب ٹھہر گیا ہے
:عنوان

اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں کہ ایک بے حد بھاری چٹان اس امت کی راہ سے، اور در حقیقت انسانیت کی راہ سے، ہٹنے والی ہے اور عنقریب زمانہ ایک نئی خوبصورت گھاٹی چڑھنے والا ہے۔

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

گزشتہ فصل


ان مع العسر یسرا

نیا اسلامی دور..

عالمی بساط سے ظالموں کا پسپا ہونااب ٹھہر گیا ہے!

 

امریکہ کے معروف مفکر فرانسس فوکویاما نے کمیونزم کے سقوط پر بغلیں بجاتے ہوئے کچھ عرصہ پہلے ایک تصنیف شائع کی تھی: The End of History یعنی ’تاریخ کا اختتام‘۔ سیموئیل ہنٹگٹن کی کتاب Clash of Civilizations یعنی ’تہذیبوں کا تصادم‘ کے بعد شاید یہ دوسری کتاب ہے جو مغرب میں اس موضوع پر ایک غیر معمولی مقبولیت پا چکی ہے۔ فرانسس فوکویاما نے سوویت یونین کے بالمقابل امریکی جیت پر جو شیخی بگھاری، اس کا لب لباب ہم اپنے الفاظ میں کریں توکچھ یوں تھا:

” مغربی ڈیموکریسی جیت چکی ہے۔ اس کی جیت کے ساتھ دراصل امریکہ اور مغرب کی جیت ہوئی ہے۔ دنیا کے پاس مزید انتظار کےلئے اب اور کچھ نہیں رہ گیا۔ دنیا کو جو کچھ ‘نیا‘ دیکھنا تھا وہ دیکھ چکی یعنی مارکسزم کا خاتمہ ، سوویت یونین کا ٹوٹ کر بکھرنا ، اور آزاد لبرل ڈیموکریسی کا دنیا میں چہار و انگ شہرہ۔ یعنی یہ ڈیموکریسی اب مشرقی بلاک کے ان ملکوں میں بھی اپنا لو ہا منوار ہی ہے جو کمیونزم کے نظام میں جکڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ اب تاریخ کا دروازہ بند ہوتا ہے آج کے بعد اب اور کچھ ’نیا‘ نہیں ہونے والا۔ اگر کچھ ہوگاتو یہی کہ اسی نظام میں کہیں کہیں معمولی اصلاحات اور تبدیلیاں کی جاتی رہیں“!

فوکویاما کی اس تصنیف کے جواب میں، آج سے کوئی ایک عشرہ پیشتر، ڈاکٹر سلمان العودۃ نے اسی عنوان سے ایک رسالہ قلمبند کیا تھا۔ یہاں ہم اس رسالہ کے چند اقتباسات نقل کریں گے، جوکہ ہم دیکھیں گے کہ ایک عشرہ گزر جانے کے بعد اب اور بھی کس قدر حقیقت بنتا نظر آرہے ہیں۔ (1)

٭ کمیونزم کو ستر سال سے زیادہ عمر بھی نصیب نہ ہوئی۔ ستر سال، جو کہ ایک عام انسان کےلئے تو مناسب عمر ہے مگر ایک ملک یا ایک امت یا ایک نظریے کےلئے ہرگز نہیں! ویسے ہی شفلنجر کی مغرب کے انحطاط کی پیشین گوئی ہے ....

امریکہ نے عالمی منظر نامے پر ایک غیر معمولی سرعت سے ظہور کیا ہے۔ بطور عالمی طاقت اورعالمی قیادت، امریکہ صرف دوسری عالمی جنگ کے بعد جانا جانے لگاہے۔ یعنی اس لحاظ سے اس کی عمر ابھی پچاس ساٹھ سال سے زیادہ نہیں بنتی جس کے دوران یہ عالمی پولیس مین بن بیٹھا ہے....

چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ امریکہ ایک غیر معمولی تیزی سے اوپرآیا ہے۔اس لیے یہ حیرت انگیز نہ ہوگا کہ امریکہ نیچے بھی اسی تیزی سے جائے.. جیسا کہ بعض تحقیقات اور تجزیے یہ امکان ظاہر کر بھی رہے ہیں....

مزید برآں، کمیونزم کے دریا بر د ہوجانے کے ساتھ ہی عالم اسلام میں کمیونزم کی دم چھلہ حکومتیں بھی دھڑام سے گر گئی تھیں۔ کمیونسٹ پاریٹاں ، کمیونسٹ مفکر ، کمیونسٹ عناصر سب روپوش ہوئے اور اکثر تو مغرب کی جھولی میں جا گرے تھے۔ چنانچہ آج ان سب لوگوں کو خبردار کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے اپنا وجود مغرب کے وجود سے وابستہ کرلیا ہے، جن کی سیاست کی سب گرہیں اب مغرب سے کھلتی ہیں، جن کی اقتصاد کی سب تاریں اب مغرب سے ہلتی ہیں، جن کے سب فیصلے مغرب کے فیصلوں کے زیر نگیں بلکہ مغرب کے زیر فرمائش ہوتے ہیں اور جو کہ مغرب سے بھی بڑھ کر مغربی ہیں اور جو کہ عالم اسلام اور اقوام اسلام پر خود مغرب سے بھی بڑھ کر بوجھ بن چکے ہیں.. ان سب کو ہم اللہ تعالی کا یہ فرمان سنا کر خبردار کردینا چاہتے ہیں:

فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَةٌ فَعَسَى اللّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُواْ عَلَى مَا أَسَرُّواْ فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ ( المائدۃ: 52)

”پس تم دیکھتے ہو وہ لوگ جن کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے آج وہ اُن (یہود و نصاریٰ) سے (تعلقات بنانے) میں دوڑ دوپ کرتے پھرتے ہیں، کہتے ہیں ہمیں خدشہ ہے ہم پر کوئی برا وقت نہ آن پڑے۔ مگر بعید نہیں کہ اللہ جب (مسلمانوں کو) فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنی اس (ساز باز) پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں، نادم ہونگے“

ان سبھی لوگوں کو ،بلکہ سب مسلمانوں کو، خبردار کردینے کی ضرورت ہے کہ انسانیت کے سامنے اللہ کی پناہ میں آجانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا اور یہ کہ انسانیت کے سامنے اس ’اسلامی حل‘ اور ’اسلامی متبادل‘ میں پناہ پالینے کے سوا کوئی جائے فرار نہیں جو رب العالمین نے واجب ٹھہرایا ہے اور یہ کہ اس سے افراد کےلئے کوئی جائے رفتن ہے اور نہ حکومتوں کےلئے۔

 

............

 

٭ روئے زمین پر ایک مسلمان ہی ہیں جو دنیا کو متبادل دینے پر قدرت رکھتے ہیں.. اور وہ اس دین اورمنہج کی صورت میں جو اللہ کے ہاں سے نازل شدہ ہے..

چنانچہ ایک مسلمان ہی ہیں جو اسلامی عدل کی بنیاد پر اقوام عالم کا ایک نظام قائم کر سکتے ہیں، اقتصاد کی الجھی گتھیاں صرف مسلمان سلجھا سکتے ہیں ، سود کا شرعی متبادل صرف انہی کے پاس ہے، مشرق اور مغرب کے سب معاشرے جس ہولناک فساد اور انحطاط کا شکار ہوچکے ہیں اسلام کے پیروکار ہی انہیں اس سے نجات دلاسکتے ہیں، خانگی نظام کی تباہی کا حل صرف ان کے پاس ہے، نوجوان جس طرح تباہ ہورہے ہیں ان کو راہ راست پر لے آنا صرف اہل اسلام کےلئے ممکن ہے، اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے پاس وہ نظریہ ہے جوانسان کے قلب و ذہن اور فکر و شعور کو یقین اور اطمینان سے سرشارکرتا ہے اور جس سے انحراف اختیار کرلینے پر انسانی ذہن کرب و اندیشہ اور سرگردانی کا شکار ہوجاتا ہے....

مسلمان اِن سبھی خزانوں کے مالک ہیں اور انہی کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان کو عملی طور پر اور واقعاتی انداز میں بھی دنیا کو پیش کرکے دکھائیں اور نظریاتی تحقیقات کی صورت میں بھی ۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اپنے عیوب نے اسلام کے ان سب حسین پہلوؤں کو چھپا رکھا ہے ۔ مسلمانوں کی علمی پسماندگی، دینی غفلت، دعوت الی اللہ کے فریضہ کو طاق نسیاں میں رکھ دینا، آپس میں تفرقہ، اختلاف اورپھر مغرب کے پیچھے چل پڑنا.. ان سب باتوں نے مغرب کو یہ باورکرادیا ہے کہ مسلمانوں کے پاس دنیا کو دینے کےلئے واقعی کچھ نہیں۔ کیونکہ اگر ان کے اپنے پاس کچھ ہوتا تو آج یہ خود فکر مغرب کے ٹکروں پر نہ پل رہے ہوتے اور نہ ہی یہ سر تا پیر مغرب کے مقلد اور مغربی تہذیب کے خوشہ چین ہوتے۔

 

............

 

٭ ہم یہ موضوع اس لیے بھی اٹھانا چاہتے ہیں کہ ان اسلامی مفادات کا تحفظ ممکن ہوسکے جو کسی وجہ سے مغرب کے ساتھ وابستہ کرا دئیے گئے ہیں چاہے وہ مسلمانوں کے اقتصادی مفادات ہوں یا سیاسی یا انتظامی یا ابلاغی یا تعلیمی۔ مسلمانوں کو پور ی طرح اس گڑھے کا ادراک ہو جانا چاہیے جس میں گرنے کےلئے مغرب سر پٹ بھاگ رہا ہے۔ یہ ادراک ہوگا تو ہی وہ مغرب کے ساتھ بھاگتے رہنے یا اس کے نرغے میں آئے رہنے سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔

 

............

 

٭ اور پھر آخر میں ہم اس مضمون کواس لیے بھی چھورہے ہیں کہ ہمارے خیال میں یہ اللہ کے اس فرمان کاتقاضا ہے:

وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا (الاحزاب :22)

”اور سچے مومنوں(کا حال اس وقت یہ تھاکہ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور ا س کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اسکے رسول کی بات بالکل سچی تھی“

غزوۂ احزاب میں سچے مسلمانوں نے اپنے دین کی حقانیت اور اپنے روشن مستقبل پر یقین کا اظہار یونہی خطرات کی آندھیوں اور اندیشوں کے طوفان کے مد مقابل کھڑے ہوکر کیا تھا۔

ہم بھی پور ے وثوق کے ساتھ یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ: امریکہ بھی خدائی قانون کے نرغے میں اسی طرح آئے گا بلکہ یورپ اور مغرب بھی اسی طرح اللہ کے فطری قانون کی زد میں آئے گا جس طرح اور لوگ اس کی زد میں آتے رہے ہیں اور ایسا بہت جلد ہونے والا ہے۔

اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ’ ایسا جلد ہونے والا ہے’ تواس سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ مغرب کے اوندھا ہو کر گر پڑنے کی خبر سننے کےلئے آپ اپنے ریڈیو کی سوئی گھمانا شروع کردیں۔ قوموں کی زندگی میں سال لمحوں کی طرح گزر ا کرتے ہیں۔

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ(الحج:47)

” یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچارہے ہیں۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہیں کریگا،مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہار ے شمار کے ہزار برس کے برابر ہو اکرتا ہے“

 

............

 

٭ آج جو سقوطِ مغرب کی بات کرتا ہے وہ ایسا ہی ہے جو کسی بت کے حصے بخرے کرکے اس کی پوجا کرنے والوں پر اس بت کی حقیقت واضح کرتا ہے کہ یہ تو محض بے حس و حرکت بت ہے جو نفع یا نقصان پہچانے کی سکت سے عاری ہے۔ جبکہ مسلمانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد ابھی تک مغرب کے طلسم میں گرفتار ہے اور مغرب سے منفرد رہنے کی سکت سے عاری۔

 

............

 

ایک وقت تھا جب مغربی طرز زندگی کی جانب دیکھ کر لوگوں کی نظریں خیرہ ہوجایا کرتی تھیں۔ اس کی تہذیب کی طرف یوں دیکھا جاتا تھا جیسے یہ دنیا کی سب سے اعلیٰ تہذیب ہے ۔ اسکی قوت کی جانب یوں دیکھا جاتا تھا جیسے ہمیشہ اسی کو غالب رہنا ہے۔ اور اس کی ترقی یوں لگتی تھی گویا یہ لا زوال ہو۔

یہ وہ وقت تھا جب اس کے سقوط اور انحطاط کی بات تک کی کہیں گنجائش نہ تھی۔ بہت ہی تھوڑے اہل بصیرت تھے جنکی نگاہیں اس کی چکا چوند سے آگے گزر کر اور اس کے فکری حصار سے آزاد ہوکر اس کے پیچھے چھپی حقیقت صاف دیکھ سکتی تھیں۔

سیدقطبؒ کا شما ر بھی انہی اہل بصیرت میں ہوتا ہے جنہوں نے ایک زمانہ پیشتر اپنا مشہو ر عام مقالہ انتہیٰ دورُالرجل الأبیض یعنی ’ گور ے انسان کا دور ختم ہوا‘ تحریر کیا تھا اور اس وقت مغربی تہذیب کے قربِ انہدام ہونے کااعلان کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش تھی کہ اب آئندہ متبادل وہ بنیں اور اسلام کی صورت میں دنیا کو اس بد بختی سے نجات کےلئے حل پیش کریں۔

 

............

 

٭ اور تو اور مغربی ڈیموکریسی کی بعض اشکال ہی بعض ماہرین سیاست کو امریکہ کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ بنتا دکھائی دے رہی ہیں۔ چنانچہ امریکہ کے قومی سلامتی کے ایک سابقہ مشیر برزنسکی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ’برتری کے دائرے سے پرے‘، برزنسکی اپنی اس کتاب میں لکھتا ہے :

” کمیونزم کے بعد وجود میں آنے والی دنیا ایک خطرناک دنیا ہے ۔یہ ایک پریشان اور کشیدہ دنیا ہے۔ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان خطرات کا ادراک کرلیں جو مغربی ڈیموکریسی سے جنم لے سکتے ہیں۔ کیونکہ امریکہ میں اس سے ایک طرح کی بے قید اور مادر پدر آزاد روش پیدا ہوگی۔ جہاں ہر بات جائز ہوگی اور ہر چیز کی اجازت۔جس کے نتیجے میں افراد کے مفادات آپس میں ٹکرا ئیں گے اور یہ صورتحال شخصی انانیت میں بہت بڑے اضافے کا باعث بنے گی اور اس سے معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی بڑھے گا اور ایک بڑے خطرے کی گنجائش بھی“

برزنسکی کے الفاظ میں یہ ایک ایسی دنیا ہے جو کمیونزم کے فلاپ ہوجانے کے بعد، اپنے رونما ہونے کیلئے، بری طرح جوش کھارہی ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس شخض یعنی برزنسکی نے لگ بھگ1987ہی میں کمیونزم کے سقوط کی پیشین گوئی کردی تھی جیسا کہ اس کی کتاب ”سقوط عظیم“ سے ظاہر ہوتا ہے۔

چنانچہ اس انداز کی سیاسی اور اقتصادی تحقیقات یہ توقع ظاہر کررہی ہیں کہ برطانیہ کی طرح امریکہ کو بھی عالمی بساط سے سمٹ آنا ہوگا۔ کیونکہ کچھ ہی دیر پہلے برطانیہ پر ایسا وقت ہو گزرا ہے جب لوگوں کے بقول اس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔ مگر کچھ عرصے میں اپنی سب کالونیاں اور اپنے زیر نگین ملکوں کو چھوڑ چھاڑ کر اپنے گھر آبیٹھنا پڑا۔ اگرچہ برطانیہ اپنی سائنسی اور فوجی طاقت کو بچا رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب ہی رہا، اور دنیا میں اپنی سیاسی برتری بھی اس نے پوری طرح نہیں کھودی۔ ایسا ہی امریکہ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور فی الحال اتنا بھی کافی ہے۔ کیونکہ اس سے مسلمانوں کو اپنے کارڈ کھیلنے کا موقعہ تو کم از کم مل سکتا ہے۔ وہ اپنے معاملات کو ایک نئے سرے سے ترتیب دینے کا وقت پاسکتے ہیں۔ اپنے مفادات کا تعین کرسکتے ہیں اور یہ بھی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ کس کے ساتھ کیسا معاملہ کریں توان کے استحکام کےلئے اور ان کی معاشی اور سماجی ترقی کےلئے بہتر رہ سکتا ہے۔

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

ہم اپنی بعض گزشتہ تحریروں میں کہہ چکے ہیں۔ (2)

بظاہر کئی ایک المیے اور سانحے ہیں مگر وہ ایک ایسے اسٹیج کی راہ ہموار کر رہے ہیں جو دنیا کے لئے بے حد حیران کن ہے۔ قریب ہے کہ زمین کے سینے پر چڑھ بیٹھنے والی کئی ایک جابر قوتوں کے اب کسی بھی وقت گھٹنے لگ جائیں، جس کے ساتھ ہی ظلم اور نظامِ سرمایہ داری کے پنجوں میں سسکتا عالمی توازن ایک نیا رخ اختیار کر لے۔ استحصالی نظام کی جس چٹان سے ٹکرا کر سوشلزم اور کمیونزم پاش پاش ہو چکے،اور جس کی جکڑ میں عالمِ انسان کا قریب قریب ہر فرد کراہ رہا ہے.... الرَّاكِعُونَ السَّاجِدونَ الآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللّهِ (3) کے صبر آزماو خدا آشنا عمل کے اثر سے، قریب ہے اب ظلم کی وہ سنگلاخ چٹان زائل ہوتی دیکھی جائے۔

عالمی دریوزہ گروں کی ڈالی ہوئی بیڑیاں آج اگر ٹوٹتی ہیں، اُن کے بے بس ہوجانے کے نتیجے میں معاملات ایک بار اگر اُن کے ہاتھ سے نکلتے ہیں اور آزاد ہواؤں میں سانس لینے کیلئے بے چین دنیا اپنا آپ چھڑا لینے کا ایک موقعہ اگر پا لیتی ہے .... تو بلا شبہ یہ پچھلی کئی صدیوں میں ہونے والا سب سے بڑا واقعہ ہوگا، خصوصاً عالمِ اسلام کے حق میں۔ اِسکے نتیجے میں ہمارا اور شاید پوری دنیا کا ہی معاملہ کچھ دیر بڑے بڑے ہچکولے لے گالیکن ایک ظالم کی جگہ لینے کیلئے کوئی دوسرا ظالم اگر چوکس و تیار نہیں بیٹھا تو ایک حادثاتی کیفیت سے گزرنے کے بعد یہ بالآخر خود اپنا توازن قائم کر لے گا، خصوصاً اگر ایشیا کی کئی دیگر محنتی اقوام کی طرح مسلمان بھی اِس مرحلے کےلئے اپنی تیاریاں آج ہی شروع کر لیتے ہیں۔

البتہ اِس صبح کے آثار ضرور نمایاں ہونے لگے ہیں، جس کی روشنی خونِ مسلم ہی کی مرہونِ منت ہے.... ظالموں کی پسپائی اب کوئی دیر کی بات رہ گئی ہے۔ افغانستان اور عراق سے نکلنے کے لئے وہ کوئی آبرو مند راہ تک اب باقی نہیں پاتے۔ پیچھے ہٹنے کا عمل کب کا شروع ہو چکا ہوتا اگر یہ واضح نہ ہوتا کہ ایک بار یہ سلسلہ چل نکلا تو وہ فلسطین و ہند و بلقان سے کم کہیں رکنے کا نہیں۔ ایک بار کا اٹھا ہوا قدم کم از کم بھی ایشیا، افریقہ اور آدھے یورپ سے دستبرداری ہے!

آخر تو یہ ہونا ہے!!!

اتنا ہی نہیں کہ عالمی واقعات کا دھارا اپنا رخ بدلنے جا رہا ہے، ان واقعات کی تیز رفتاری خود اپنی جگہ ایک ششدر کر دینے والی حقیقت ہے۔ وہ باتیں جو کبھی خواب نظر آتی تھیں نہ صرف معرضِ وجود میں آ رہی ہیں بلکہ وہ ہمارے اپنے ہی اس دور کے اندر دیکھنے میں آنے لگی ہیں اور عنقریب انشاءاللہ ہم مشاہدہ کرنے والے ہیں کہ عالمی پانسہ اس امت کے حق میں کس خوبصورتی کے ساتھ پلٹ گیا ہے۔

مساجد کی روز بروز بڑھتی رونق، بازاروں میں نمایاں تر ہوتے جانے والے حجاب کے باحیا مناظر،نوجوانوں میں پابندیِ دین کے رو بہ ترقی مظاہر، جوق در جوق جہاد کی جانب رخ.... گراف جیسے جیسے بڑھ رہاہے، ویسے ویسے امت کی سرزمین پر خدائی مدد اترتی دیکھی جارہی ہے۔ امت کے اندر ایمان کی ترقی اور توحید اور کتاب وسنت کی طرف واپسی ایک ایسا بیج ہے جو اپنا ثمر یہاں دنیا کے اندر بھی دکھانے لگا ہے۔ ایک بیج کا پیدآور ہونا حتمی اور یقینی ہو وہ تو پھر جتنا ڈال دیا جائے کم ہے، خصوصاً جبکہ دستیاب زمین کا بھی کوئی حد و حساب نہ ہو! کاشتکاروں کے لئے موسم اور فضائیں ہر طرف ہریالی کر دینے کا اس سے بہتر شاید ہی کبھی کوئی موقعہ لے کر آئی ہوں! گھٹائیں اور بجلیاں ہمیشہ خوفزدہ کرنے کیلئے نہیں ہوا کرتیں!

واقعات کی یہ تیزی جہاں امید افزا ہے وہاں فکر طلب ہے کہ آنے والے دنو ں کے اندر کارکنانِ اسلام کی ذمہ داریاں بے حد وسیع اور متنوع ہو جانے والی ہیں۔ اسلام اگر دنیا کا ایک مرکزی واقعہ بننے جا رہا ہے تو اس سے ہمیں خود بخود اندازہ ہو سکتا ہے کہ آنے والے دن ہمارے لئے کیسے کیسے چیلنج لانے والے ہیں۔

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

آپ دیکھتے ہیں جہاں ایک بد مست ’ہاتھی‘ کئی ایک بر اعظموں میں بیک وقت اودھم مچاتا پھر رہا ہے وہاں اپنے گھروں کی حفاظت پر مستعد ’چیونٹیاں‘ اس کو کچھ کاری زخم لگانے میں بھی کامیاب ہوچکی ہیں۔ یہ ’چیونٹیاں‘ افغانستان میں روپوش ہوتی ہیں تو عراق میں نکل آتی ہیں۔ وہاں گم ہوتی ہیں تو فلسطین میں اس کے سونڈ کے اندر گھسی ہوئی ملتی ہیں۔ کسی وقت لبنان کے اندر ’محسوس‘ ہوتی ہیں تو کسی وقت یمن اور سوڈان اور کشمیر میں۔ اور پھر اب صومالیہ کا حال سنو تو بارہ پندرہ سال کی خاموش محنت کے ایسے زبردست نتائج ہیں کہ یقین ہی نہ آئے۔ اور اس سے بھی شاید آپ کو انکار نہ ہو کہ ہر جگہ پورا اترنے میں ہاتھی کیلئے اچھی خاصی مشکل پیش آرہی ہے۔ إِن تَكُونُواْ تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللّهِ مَا لاَ يَرْجُونَ (4)....

چیونٹیوں کی خوراک بھی ایک مسئلہ ہے مگر ہاتھی کا کھاجا تو روز بروز اس کے لئے ایک پریشان کن مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اس سے پہلا جو ہاتھی مرا تھا وہ بھی کوئی طیارے اور توپیں کم پڑ جانے کے باعث تھوڑی مرا تھا، جیسا کہ کچھ لوگ آج ہمیں ’طاقت کے توازن‘ پر لیکچر دیتے ہیں! اُس کا بھی تو کھاجا ہی کم ہوا تھا اور اس کا بھاری بھر کم وجود اسی وار کی تاب نہ لاتے ہوئے ہی زمیں بوس ہو گیا تھا! اور اب ذرا دیکھئے تو سہی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بڑے بڑے بزنس کس طرح آئے روز اس کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں اور کہا جانے لگا ہے کہ ’سرمایہ کسی کا سگا نہیں ہوتا، صرف محفوظ کشتی ڈھونڈتا ہے‘.... أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ ؟!

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

اس معاملے کی ساری دلچسپی اس سوال سے وابستہ ہوجاتی ہے کہ یہ لڑکھڑاتا ہاتھی جب ڈھ جائے گا، اور جوکہ اب بہت قریب دکھائی دینے لگا ہے، تو دنیا کا سارا سیناریو کیونکر اپنی صورت بدلے گا؟ خصوصاً اس سیناریو کا وہ حصہ جو ”عالم اسلام“ سے متعلق ہے؟!!

صورت حال اس قدر دلچسپ ہو چکی ہے کہ کوئی دوسرا ہاتھی اِس کی فوری جگہ لینے کیلئے اول تو موجود نہیں، اور یہ وہ اہم ترین بات ہے جوکہ جذبۂ عمل سے جوش مارتے عالم اسلام کو آزادی کے ساتھ اپنی صفیں ترتیب دے لینے کیلئے ایک بڑا موقعہ دلانے والا نہایت اہم عامل ہوگا، جبکہ عالم اسلام کو ایک نئے منظر نامے کیلئے تیار ہونے کیلئے یکسوئی کے ساتھ کوئی عشرہ بھر بھی مل جائے تو کچھ ایسا برا نہیں، خصوصاً اگر کچھ زمانہ شناس اسلامی قیادتیں اس کو رخ اور تربیت دینے کیلئے میسر آجاتی ہیں اور جوکہ عالم اسلام کے کچھ خطوں میں تو بالفعل پائی جانے لگی ہیں....

پھر اگر اِس ہاتھی کے، اسلام کی زمین اور وسائل سے بے دخل کردیا جانے کے بعد، کوئی اور ’ہاتھی‘ یہاں پایا بھی جاتا ہے، جیساکہ بعض لوگوں کا اندیشہ ہے، تو پہلے دو ہاتھیوں کا حشر دیکھ لینے کے بعد اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی قوتِ مزاحمت کا نظارہ کرلینے کے بعد، یہ بہرحال بعید ہے کہ اُس کی پہلی ترجیح بھی مسلمانوں کے ساتھ دشمنی مول لینا ہو! انسان بن کر رہنا اس کی ایک بڑی ضرورت ہوگی! کم از کم بھی اس کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ’معاملہ‘ کرے نہ کہ دھونس۔ فی الحال یہ بھی بہت ہے۔

بلکہ خود امریکہ ہی اگر اس کیلئے تیار ہو کہ وہ ہم پر پولیس مینی نہ کرے اور اپنے گھر تک محدود رہتے ہوئے ہم سے برابری کی بنیاد پر ’معاملہ‘ کرے ، ہم پر اپنی تہذیب مسلط کرنے کیلئے ہمارے سب تعلیمی و تربیتی نظام اور ہمارے ثقافتی سیٹ اپ میں مداخلت و فوجداری کرنا اور ہمارے تہذیبی خدوخال مسخ کرنے کے کثیر لاگت پروگراموں اور منصوبوں کی سر پرستی و پشت پناہی کرنا چھوڑ دے، ہماری اسلامی تحریکوں کی راہ میں روڑے اٹکانے اور ہر جگہ اور ہر طریقے سے ان کے خاتمہ کے گھناؤنے ایجنڈے کو لے کر چلنے سے باز رہے اور یہاں جو صالح تبدیلیاں آیا چاہتی ہیں ان کے ساتھ جنگ سے دستکش ہوجائے، فلسطین، سوڈان، صومالیہ، کشمیر اور دیگر مسلم خطوں میں ہمارے دشمن کا ساتھ دینے سے تائب ہوجائے اور ہم پرافغانستان و عراق ایسی مہم جوئی سے ہٹ کر ہمارے نقصانات کا تاوان دینے پر آمادہ ہو.... تو ہمیں ہرگز کوئی ضرورت نہیں کہ پوری دنیا میں ہم اپنی جنگ کیلئے خاص امریکی طاغوت ہی کا انتخاب کریں!

پورے جہان کو چھوڑ کر اور کوئی ڈیڑھ دو سو ملکوں کو بیچ سے نظر انداز کرتے ہوئے، سات سمندر پار بیٹھے ایک ’دور دراز ملک‘ ہی کے خلاف مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک آج اسلامی جذبہ ایک لاوے کی طرح کھول رہا ہے، تو کیا اس کی کوئی بھی ’وجہ‘ نہیں؟!!

یہ ساری جنگ اور مزاحمت جو اسلامی دنیا کا آج کا قابل ذکر ترین واقعہ بن چکی بلکہ زمانے بھر کا موضوع بن گئی ہے، اسی وجہ سے تو ہے کہ ملتِ روم کا یہ بے قابو سینگ تاریخ کی ایک بدترین ہڑبونگ مچاتے ہوئے ہمارے گھروں میں گھس آیا اور ہمارے فکری و مادی وجودہی کے در پے ہوا ہے۔ امریکی کار پرداز اگر اپنے آپ کو ملتِ روم کی اس خدمت سے سبکدوش کرلیتے ہیں جس کی رو سے ان کو ایک چودہ صدیاں پرانی دشمنی نبھانا اور اسلام کے خلاف ’بنی الاصفر‘ کی قدیم سے جاری اس جنگ میں قیادت کا باقاعدہ علم اٹھاکر چلنا ہے.... تو ہماری بھی اولین ترجیح ان کو اپنا ہدف بنا رکھنا نہیں ہوگا۔ ہم اپنے کام سے کام رکھیں، اسی بات سے مشروط ہو سکتا ہے کہ اٹلانٹک پار کے ایک ملک کی انتظامیہ بھی اپنے ہی کام سے کام رکھے اور اپنے ہی خطے سے اپنا کل سروکار۔

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

نیا اسلامی دور!!!

اس لحاظ سے، عالم اسلام کا یہ حالیہ جہاد اپنے مضمرات میں ایک بے حد منفرد جنگ ہے۔ یہ ایک طویل تاریک دور کا اختتام ہے اور ایک بالکل نئے روشن مرحلے کا آغاز۔ نیا اسلامی دور!!! یہ ایک اس قدر جدید دنیا ہے کہ زمانہ پچھلی پانچ صدیوں سے اب تک جس کو ’جدید‘ جانتا آیا ہے، اس کی نظر میں اب قدیم اور دقیانوسی ہو رہے گا۔ اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں کہ ایک بے حد بھاری چٹان اس امت کی راہ سے، اور در حقیقت انسانیت کی راہ سے، ہٹنے والی ہے اور عنقریب زمانہ ایک نئی خوبصورت گھاٹی چڑھنے والا ہے۔

اس نئے منظر نامے میں، جہاں ہر امت، ہر معاشرہ اور ہر نظریہ دیوالیہ ہو جانے کی آخری حد کو چھو چکا اور باطل کے بیشتر زنگ آلود ڈھانچے ڈھ جانے کو آپ سے آپ تیار بیٹھے ہیں، اور جہاں دنیا بڑی ہونے کے باوجود سمٹ کر ایک بستی بن گئی ہے.... اس نئے منظر نامے میں اسلام کی پیش قدمی کیلئے کون کون سے افق سامنے آنے والے ہیں کہ جن کا تصور بھی ابھی لوگوں کیلئے شاید ممکن نہیں، آنے والے اس مرحلے کی بابت جاننے کی سب سے دلچسپ اور سب سے خوبصورت بات در اصل یہی ہے، اور ہمارے اس سارے صبر اور محنت اور استقامت کو مہمیز دیے رکھنے کا اصل باعث بھی بس یہی ہے! گو آخرت کا ثواب، انشاءاللہ، اس سے بھی سوا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر دل آویز اور یقینی..!!!

فَآتَاهُمُ اللّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الآخِرَةِ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ!!! (آل عمران: 148)

”تب (اس جہاد پر) اس نے انہیں دنیا کا ثواب دیا تو آخرت کا حسنِ ثواب۔ اور اللہ تو عمل میں حسن پیدا کرنے والوں کو ہی عزیز رکھتا ہے!!!“

 

٭٭٭٭٭٭٭

وصلیٰ اللہ علیٰ النبی وآلہ

 


(1) از رسالہ (نہایۃ التاریخ) ”تاریخ کا اختتام“، مؤلفہ شیخ سلمان العودۃ، رسالہ کی اردو تلخیص سہ ماہی ایقاظ کے شمارہ نمبر 5، جون 2002ء میں دی جا چکی ہے۔

(2) عرضِ مترجم، کتاب: روزِ غضب ، زوالِ اسرائیل پر انبیاءکی بشارتیں، توراتی صحیفوں کی اپنی شہادت، جبکہ آخری پیرا ایقاظ کے ایک سابقہ مضمون ”مسلم حکمرانوں کی غیر موجودگی میں قتال کے شرعی ضوابط“ سے لیا گیا ہے۔

(3) التوبہ: 112: ”رکوع کرنے والے، سجدے کرنے والے، امر بالمعروف کرنے والے، نہی عن المنکر کرنے والے، اور اللہ کی حدوں کے محافظ“

(4) النساء: 104 ”تم اگر (قتال کے اندر) دکھ اٹھاتے ہو، تو دکھ ان کو بھی ویسے ہی ہوتا ہے جیسے تم کو، البتہ تم اللہ سے اس بات کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں“

Print Article
  روبزوال امیریکن ایمپائر
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز