ایک خیال ہمارے بعض دینی طبقوں کے یہاں غیر معمولی حد تک پزیرائی پا چکا ہے اور وہ یہ کہ قیامت کی علاماتِ کبریٰ (1)کے سوا کسی چیز کا آنا اب باقی نہیں رہا۔ خصوصاً یہ کہ اس امت کے حق میں کسی بڑی خیر کا امکان تو اب باقی ہی نہیں رہا جب تک کہ دجال کی گھاٹی سے گزر کر مہدی اور مسیحؑ تک نہ پہنچ لیں!
فتنۂ دجال سے ہم ہر تشہد میں خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ نزولِ مسیحؑ پر ہمارا ایمان ہے۔ اور مہدی کے حوالے سے احادیث کو بھی ہم صحیح سمجھتے ہیں، مگر دلیل تو اس بات کی چاہیے کہ مہدی اور مسیحؑ کے آنے تک اور بیچ میں دجال کا مرحلہ پار ہونے تک اس امت کے حق میں کسی بھی عروج کا امکان تسلیم کرنا شریعت کی کسی نص کے خلاف جاتا ہے!!!
کچھ لوگوں کے ہاں بس یہ ایک خیال سا بن گیا ہے کہ ’احادیث‘ کی رو سے بس اب دجال ہی کا آنا باقی رہ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک رائجِ عام تاثر ہے نہ کہ نصوصِ شریعت کا اقتضاء۔
کوئی صدی ڈیڑھ صدی پیشتر معاملہ دراصل جس حد تک نیچے چلا گیا تھا اور بہت سے نیک طبقے اس اتنے بڑے فتنے کے سامنے گویا بے بس سے ہونے لگے تھے اور کوئی بھی تو راستہ سجھائی نہ دے پا رہا تھا، تو مایوسیوں کی اس اندھیری رات کو دیکھ کر بعض لوگ جن میں یقینا کچھ اہل علم اصحاب بھی تھے یہ رائے اختیار کر گئے کہ اب وہ وقت ہے جب اس ناؤ کو پار لگانا سوائے مہدی اور مسیحؑ کسی کے بس کا کام نہیں!
کچھ اہل علم کے ہاں ایک ایسی رائے قائم ہوجانا عجیب وغریب نہ سمجھا جانا چاہیے۔ اس سے پہلے، امت کی تاریخ میں کچھ غیر معمولی بحرانات کے وقت بھی کئی اہل علم اس سے ملتی جلتی آراءکی طرف گئے ہیں، خصوصاً صلیبیوں اور تاتاریوں کے ہاتھوں عالم اسلام کے تاراج ہوجانے کے وقت اور بالخصوص تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا سقوط ہوجانے کے بعد۔ کیونکہ خلافت کا سقوط ہوجانے ایسا عظیم سانحہ امت کی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا، اور اس کے بعد لگتا تھا قیامت کے سوا کچھ باقی نہیں۔ خلافت کا مسلمانوں کے دلوں میں ایسا مقام ہونا ویسے عجب بھی نہیں۔
اب اس بار جو خلافت کا سقوط ہوا اور اس سے پیشتر و بعد کے حالات نے جس طرح اس امت کو اپنے گھیرے میں لیا وہ یقیناً اس سے پہلے کے کسی بھی دھچکے سے ایک بڑا دھچکہ تھا۔ پس اِس بار بھی اگر ایسی کوئی رائے کچھ دینی طبقوں کے ہاں بن گئی ہو تو یہ کوئی ایسا انہونا واقعہ نہیں۔
یقینا اس بار امت پر جو بحران آیا تھا، صدیوں کی زبوں حالی کاخمیازہ اس بار جو ہمیں اٹھانا پڑا اور ابھی تک اسی کا سامنا ہے، تو اِس بار بھی ایک بے بسی کے سے احساس نے ہم میں سے کئی ایک کے تحت الشعور میں یہ خیال راسخ کردیا کہ ہو نہ ہو یہ علاماتِ کبریٰ (خروجِ دجال، نزولِ مسیحؑ اور خروجِ یاجوج وماجوج وغیرہ) کا وقت ہے اور یہ کہ دجال اور مسیحؑ کے سوا کوئی اور نقشہ اس دنیا کے تبدیل ہونے کا اور اس میں قائم ہوچکے شر کے قبضہ واقتدار کے خاتمہ کا اب ممکن نہیں!
مگر جیسا کہ ہم نے کہا، کوئی واضح شرعی دلیل اس خیال کی تائید کے لئے موجود نہیں، باوجود اس کے کہ علاماتِ کبریٰ پر ہمارا ایمان ہے اور ان کے ظہور کا اپنا ایک وقت اللہ کے ہاں مقرر ہے۔ پس ہمارے اس مقدمہ کی اصل بنیاد تو یہی ہے کہ شرعی نصوص سے ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی جس سے ثابت ہو کہ علااماتِ کبری سے پہلے کوئی عظیم الشان پیش رفت اس امت کے حق میں اب باقی نہیں رہ گئی۔ البتہ کچھ شواہد احادیث سے ہمیں اس بات کے ملتے ہیں کہ مسیح بن مریمؑ سے پہلے بھی اس امت کو ایک بھر پور عروج کا ملنا ابھی باقی ہے....
اس سے پہلے، صفحہ 17 پر، ہم حضرت جابرؓ والی حدیث نقل کر آئے ہیں جس سے حضرت جابرؓ خود ہی استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: دجال نہیں نکلے گا جب تک روم (اٹلی کا پایہ تخت بشمول ویٹی کن، جس سے کہ پورے عالم مغرب یا عالم عیسائیت کی تسخیر بھی لازم آسکتی ہے) فتح نہ ہو لے۔
اس کے علاوہ دو حدیثیں ہم یہاں اور بیان کریں گے، ایک مقداد بن الاسودؓ سے اور دوسری تمیم داریؓ سے:
عن المقداد بن الأسود: سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول: لا یبقیٰ علیٰ ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر الا أدخلهاﷲ کلمة الاسلام بعز عزیزأوذل ذلیل، اما یعزہم اﷲ عزوجل فیجعلہم من أہلہا، أو یذلہم فیدینون لہا
(مسند أحمد، باقی مسند الأنصار، حدیث المقداد، البانی نے مشکۃ کی تخریج کتاب الایمان فصل اول میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے)
مقدادؓ بن الاسود سے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: روئے زمین پر کوئی گھر یا جھونپڑا ایسا نہ رہے گا جس میں اللہ اسلام کا بول (بالا کراکے) داخل نہ کردے گا، عزت والوں (کیلئے اس کو) عزت بنا کر اور ذلت والوں کیلئے ذلت۔ یا تو اللہ انہیں عزت دے گا یوں کہ وہ انہیں اہل اسلام میں سے کردے، یا پھر ان کو ذلت دے گا یوں کہ وہ اسلام کے زیر نگین آجائیں گے“
عن تمیم الداری: سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول:لیبلغن ہذاالأمرما بلغ اللیل والنہار،ولا یترک اﷲ بیت مدرولاوبرالاأدخله اللہ ہذا الدین بعزعزیزأوبذل ذلیل،عزا یعزاﷲ به الاسلام، وذلا یذل به الکفر
(مسند الشامیین، حدیث تمیم الداری، البانی نے اسے صحیح کہا ہے، السلسلۃ الصحیحۃ، 1: 3)
روایت تمیم داری سے، ”میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: یہ امر (اسلام کا شوکت وغلبہ) لازماً وہاں تک پہنچ کر رہے گا جہاں تک دن اور رات کی پہنچ ہے۔ اور اللہ کوئی گھر اور جھونپڑا ایسا نہ چھوڑے گا جہاں وہ اس دین کو داخل نہ کردے، کوئی عزت کا حق رکھتا ہے تو اس کو عزت دے کر، اور کوئی ذلت کا حقدار ہے تو اس کو ذلت دے کر۔ عزت جوکہ اللہ اسلام کو دے گا اور ذلت جوکہ اللہ کفر کو دے گا“
البانیؒ، سلسلہ صحیحہ کے مذکورہ بالا مقام پر تمیم داریؓ والی حدیث لانے کے بعد کہتے ہیں:
بلاشبہہ، اسلام کے اس (چہار وانگ) پھیلنے کی بابت یہ جو خوشخبری ہے، اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ مسلمانوں کے حوصلے ایک بار پھر سے بلند ہوں گے اور وہ مادی سازو سامان اور ہتھیاروں میں بھی ایک بار پھر کمال حاصل کریں گے یہاں تک کہ کفر وسرکشی کی قوتوں پر غلبہ پائیں۔ ایک اور حدیث بھی ہمیں یہ خوشخبری دیتی ہے۔ (یہاں شیخ البانیؒ عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کی صحیح حدیث لاتے ہیں کہ پہلے قسطنطنیہ فتح ہوگا اور پھر روم (اٹلی کا پایہ تخت)، اس کے بعد لکھتے ہیں): یہ پہلی فتح (قسطنطنیہ) عثمانی سلطان محمد الفاتح کے ہاتھ پر ہوئی جبکہ رسول اللہ ﷺ کے اِس پیشین گوئی فرمائے پر پورے آٹھ سو سال گزر گئے تھے۔ اب یہ دوسری فتح (اٹلی) بھی اللہ کے حکم سے ہو کر رہنی ہے اور وقت آئے گا کہ دنیا یہ بھی دیکھ لے گی۔
محدث البانیؒ مزید لکھتے ہیں:
اور یہ بھی شک نہیں کہ یہ دوسری فتح (کی پیش گوئی بھی) متقاضی ہے کہ امت مسلمہ کے ہاں خلافت راشدہ لوٹ کر آچکی ہو، یہ بھی ایک خوشبخری ہے جو رسول اللہ ﷺ ہمیں دیتے ہیں، (یہاں البانیؒ رسول اللہﷺ کی وہ حدیث لاتے ہیں جس میں آپ نبوت و خلافت راشدہ اور پھر ملوکیت کے دو دور گزر جانے کے بعد جا کر ایک بار پھر خلافت علی منہاج النبوہ کے لوٹ آنے کی پیش گوئی فرماتے ہیں)۔
علاوہ ازیں مہدی کے سلسلہ میں جو ایک حدیث سنن ابی داود (کتاب المہدی)، اور مسند احمد (26731) میں آتی ہے اور جوکہ ویسے ضعیف ہے (دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ، مؤلفہ البانی: 4: 435)، مگر ہمارے یہاں بہت احباب اس ضعیف حدیث کا حوالہ دیتے ہیں، اس میں بھی لفظ آتے ہیں: یکون اختلاف عند موت خلیفة یعنی ”ایک خلیفہ کی موت پر کوئی تنازعہ اٹھ کھڑا ہو گا“ (جس کے بعد بنو ہاشم کا یہ شخص مدینہ سے نکل کر مکہ جائے گا اور وہاں رکن حجر اور مقام ابراہیم کے مابین اس کی بیعت ہوگی)۔ جو لوگ اس حدیث کو کسی وجہ سے قبول کرتے ہیں، وہ تو اِس کی رو سے بھی یہ ماننے کے پابند ہوئے کہ: خلافت، مہدی سے پہلے ہی چلتی آرہی ہوگی، اور یہ کہ مہدی اسی پہلے سے موجود خلافت کو سرے چڑھائیں گے۔
رہی مقدادؓ کی حدیث، تو اس میں اما یعزہم اللہ عز وجل فیجعلہم من أہلہا، أو یذلہم فیدینون لہا کے الفاظ غلبۂ اسلام کے اس آنے والے دور میں انسانوں کی دو اصناف بیان کرتے ہیں، ایک وہ جو اہل اسلام میں سے ہو جائیں گے اور دوسری صنف وہ جو محض اسلام کے زیر نگین ہوجائیں گے، لفظ أو سے بہرحال اس جانب اشارہ ہوتا ہے۔ جس سے واضح ہے کہ ابھی یہ وہ زمانہ ہوگا جب لوگ کفرپر برقرار رہنے کی آزادی، جوکہ ان کو اسلام نے دے رکھی ہے، بدستور استعمال کررہے ہوں گے۔
پس حدیثِ مقداد(2) سے جو اشارہ ملتا ہے وہ یہ کہ اسلام کا یہ وہ غلبہ نہیں جو نزولِ عیسیٰ ؑ کے بعد ہوگا اور جب سب اہلِ کتاب، جو بچ جائیں گے، حلقہ بگوشِ اسلام ہوجائیں گے، یعنی یہود اور نصاریٰ بطورِ دین ہی ختم extinct ہوجائیں گے اور بقیہ زمانے کیلئے عیسیٰ علیہ السلام پر اکٹھے ہو کر شریعتِ محمدی کے تابع ہورہیں گے۔ رسول اللہﷺ کی صحیح احادیث سے واضح ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام جزیہ موقوف کردیں گے، مراد ہے ’غیر مسلم‘ رہنے کی آزادی جاتی رہے گی، یعنی انسانوں کی ایک ہی صنف باقی رہ جائے گی نہ کہ دو۔
چنانچہ مقداد بن الاسودؓ اور تمیم داریؓ وغیرہ کی ان احادیث سے اس غلبۂ اسلام کا پتہ ملتا ہے جو نزولِ عیسیٰ ؑ کے بعد ہونے والے غلبۂ اسلام کے علاوہ ایک واقعہ ہے، اور جس کا ہونا ظاہر ہے کہ ابھی باقی ہے، کیونکہ ’روئے زمین کے ہر گھر کے اندر شوکتِ اسلام کا داخل ہوجانا، یوں کہ کچھ لوگ اسلام میں داخل ہو چکے ہوں اور کچھ لوگ اپنے ہی دین پر برقرار رہتے ہوئے محض مسلم اقتدار کے زیر نگین آگئے ہوں، مگر اس کا دائرہ پورے کرۂ ارض تک پھیل گیا ہو، ابھی رونما نہیں ہوا۔ جب ایسا ہے تو اسلام کا یہ غلبہ کہ جہاں تک دن رات کی پہنچ ہے وہاں تک اسلام کا اقتدار پہنچے گا بغیر اس کے کہ کفر پر رہنے کی آزادی ختم اور جزیہ ساقط ہوجائے، ایسا دور ہوگا جو خروجِ دجال اور نزولِ عیسیٰ ؑ سے پیشتر ہوگا۔ اگر یہ درست ہے تو پھر مقدادؓ و تمیم داریؓ کی ان احادیث سے یہ خود بخود واضح ہے کہ اللہ اسی امت کے اندر اتنا دم خم از سر نو پیدا کرے گا کہ یہ پورے عالم میں اسلام کا پرچم بلند کر لے گی، اور اگر آپ کہنا چاہیں تو ”اسلامک گلوبلائزیشن“!!!.... انشاءاللہ وبفضلہ تعالیٰ
لہٰذااس امت کے دن پھر جانے کے معاملہ میں ’نزولِ عیسیٰ‘ کے سوا سب امکانات کو ختم جاننا کسی شرعی نص سے تائید نہیں پاتا۔ ابھی ایک غلبۂ اسلام، مذکورہ بالا احادیث سے نظر آتا ہے، کہ انشاءاللہ بجا طور پر باقی ہے، اور جوکہ خروجِ دجال اور نزولِ عیسیٰ ؑ سے پہلے ہے! .... ....واللہ اعلم بالصواب۔
(1) قیامت کی علامات جو احادیث میں بیان ہوئی ہیں دو طرح کی ہیں:
- علاماتِ صغریٰ جوکہ سینکڑوں میں بیان ہوئی ہیں مثلاً لونڈی کا اپنی مالکہ کو جننا، بے حال گڈریوں اور چرواہوں کا اونچی اونچی بلڈنگیں کھڑی کرنے میں مقابلے کرنا، علم کا اٹھ جانا او رعلماءکا کم پڑ جانا، تجارت کا عام ہونا، قلم کا بکثرت استعمال ہونے لگنا، اختیارات نا اہل لوگوں کے سپرد کر دیے جانا،جھوٹ اور خیانت، قتل و غارت اور مار دھاڑ عام ہوجانا، عورتوں میں پہناوے کے اندر برہنگی عام دیکھی جانا وغیرہ وغیرہ ایسی علامات.. جوکہ احادیث میں دیکھیں تو بے شمار ہیں اور اکثر واقع ہوچکی ہیں اور اپنے ظہور میں مسلسل بڑھ رہی ہیں....
- البتہ علاماتِ کبریٰ صرف دس ہیں، جیسا کہ صحیح مسلم میں بیان ہوئی ہیں: دھواں، دجال، دابہ، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، نزولِ عیسیٰؑ، یاجوج وماجوج،، تین خسف ایک مشرق میں ایک مغرب میں اور ایک جزیرۂ عرب میں، اور آخری ایک آگ جو یمن سے نکلے گی اور ہانک کر لوگوں کو محشر کی جانب لے چلے گی۔
(2) حضرت مقدادؓ کی حدیث میں لفظ آتے ہیں: الا أدخله اﷲ کلمة الاسلام۔ جس کا ترجمہ ہم نے کیا ہے ”(کوئی گھر ایسا نہ رہے گا) جس میں اللہ اسلام کا بول (بالا کراکے) داخل نہ کردے گا“ البتہ ہمارے بعض شکست خوردہ طبقوں کے ہاں اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے ”دعوتِ اسلام“۔ اس حدیث کے الفاظ پر غور کریں تو کلمۃ الاسلام سے مراد محض ’اسلام کا پیغام‘ نہیں بلکہ ’اسلام بول بالا ہونا‘ ہے۔ الا أدخله اﷲ کلمة الاسلام کے الفاظ اس حدیث کے سیاق کے اندر اپنی اس دلالت پر بے حد واضح ہیں....
’کلمہ‘ کے عربی کے اندر کئی سارے استعمالات ہیں جس سے مراد یہاں بہرحال اسلام کا غلبہ و اقتدار ہی ہے (لفظ ’کلمہ‘ کا یہ استعمال قرآن میں بھی ہوا ہے: وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا- التوبہ: 40 ، یعنی ”اللہ نے کفار کا بول پست کردیا اور اللہ کا بول بالا ہے“) حدیثِ مقدادؓ میں بھی اس لفظ سے عین یہی مراد ہونے کیلئے قرینہ اسی حدیث کے اندر موجود ہے، فرمایا: أو یذلہم فیدینون لہا۔ یدینون کا مطلب ہے ”ذلیل اور محکوم ہو جانا“، جبکہ لہا میں ها کی ضمیر کلمة الاسلام کی طرف جاتی ہے۔ جو کہ اپنے اس مفہوم میں واضح ہے کہ اس سے مرادکچھ لوگوں کا اسلام قبول کرکے ملت اسلام میں داخل ہوجانا ہے اور کچھ لوگوں کا دین کے معاملے میں اپنے کفر پر ہی رہنا مگر اسلامی اقتدار کے تابع و زیر نگین ہوجانا، جیساکہ قرون اولیٰ میں ہوا، نہ یہ کہ سب کے سب لوگوں کو ’اسلام کی دعوت پہنچ جانا‘، جیسا کہ ہمارے یہ حضرات، جو کہتے ہیں کہ اب قیامت تک کیلئے صرف ’دعوت‘ ہی مشروع ہے نہ کہ ’قتال‘، اس طرح کی احادیث کے ضمن میں فرمانے لگتے کہ’ ایک وقت آئے گا جب ’دعوت‘ ہی اتنی پھیل جائے گی کہ سب کے سب لوگ اسلام کی دعوت قبول کرلیں گے‘!
اگلی فصل