فہرست موضوعات: روبزوال امیریکن ایمپائر
اسلام دشمنی کی وہ آگ جو افغانستان اور عراق کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، اس کی کچھ خطرناک ترین چنگاریاں اب پاکستان سمیت، عالم اسلام کے متعدد خطوں کا رخ کرتی دکھائی دے رہی ہیں....
مکر و دجل کے تہہ در تہہ شیطانی ایجنڈے لئے، ملتِ کفر کے ایلچی ہر طرف بھاگتے دیکھے جا رہے ہیں۔ مکروہ عزائم کا پتہ دیتی ڈپلومیسی اور جنگی منصوبوں کی بو، چارٹر طیاروں اور ’بریف کیسوں‘ سے لے کر ’بند کمروں‘ تک، ہر طرف سے آرہی ہے۔
ادھر مغربی ذرائع ابلاغ کو دیکھیں تو وہ چیخ چیخ کر صرف اور صرف ایک بات سے خبر دار کر رہے ہیں اور وہ یہ کہ عالم اسلام کی بیداری اس وقت قابو سے باہر ہورہی ہے اور یہ کہ خطے میں موجود ان کی فوجوں اور بحری بیڑوں کے پاس وقت بے حد کم ہے۔ ان کے بیشتر معرکہ جو اپنی فوجی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کردینے کیلئے ’اب یا کبھی نہیں‘ کی دہائی مچا رہے ہیں۔
جبکہ ان کے کئی تھنک ٹینکس کا کہنا ہے وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے اور یہ کہ جن اہداف کی پریشانی اب اٹھ کھڑی ہوئی ہے، خصوصاً پاکستان کے اندر پائی جانے والی اسلامی قوت اور اس قوت کے ہاتھ آجانے والے ممکنہ اسباب و امکانات، بشمول یہاں کے ایٹمی ہتھیار.. ان سب اہداف کا صفایا ان کے نزدیک اسی پہلے ہلے میں ہوجانا چاہیے تھا جب، نائن الیون کے بعد، عالمی رائے عامہ کے ایک بڑے حصے نے امریکہ کو پوری دنیا کے اندر ہر قسم کی کارروائی کرنے کا بلینک چیک دے دیا تھا۔ اس ’بے جا‘ تاخیر کے باوجود، ان کا خیال ہے، جو کچھ ممکن ہو فی الفور کر گزرا جائے۔
اُن کا نیا صدر، خطۂ خراسان کی بابت اپنے ناپاک عزائم کا متعدد بار اظہار کر چکا ہے۔ اس خطہ میں بڑھتی ہوئی اسلامی سنی قوت، جس کی پشت پر آجانے کیلئے وسط ایشیا سے لے کر برصغیر تک کے مسلم امکانات شدت کے ساتھ بے چین ہیں، اور جوکہ آنے والے عشروں میں بحر ہند کی سب سے بڑی قوت کے طور پر سامنے آسکتی ہے اور شرق اوسط تا قرن افریقی ہر مسلم قوم کا سہارا بن سکتی ہے، اس وقت واشنگٹن، تل ابیب اور نئی دہلی کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہی ہے۔ یہ چیختی حقیقت اگر ہماری نظر میں ہے تو ممکن ہی نہیں کہ ہمارا دشمن اپنی سرگرمیاں افغانستان کے پہاڑوں کی خاک چھاننے تک محدود رکھے۔ تعجب ہونا چاہیے تو اس اندازِ تفکیر پر کہ شر کی یہ مثلث (واشنگٹن، تل ابیب اور نئی دہلی) اِس بحر ہند تا ہمالیہ اور فرغانہ تا برما پیر جماتی اسلامی قوت کو بڑھتا دیکھتی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی!
چنانچہ یہ ہنگامی حالات جو شمالی علاقوں میں ایک چیختی صورت دھار چکے ہیں، اور جوکہ ہو سکتا ہے کسی بہت بڑے دھماکے کا پبش خیمہ ثابت ہوں، عین وہ چیز ہیں جن کی ہمیں دشمن سے توقع ہونی ہی چاہیے۔ ایران کے خلاف کارروائی ہونے کا امکان ہمیشہ سے نہ ہونے کے برابر رہا ہے البتہ ان تیاریوں کے پردے میں شایداب ’اور‘ بہت کچھ ہونے والا ہے۔
مگر چونکہ دشمن کے آپشن بے انتہا محدود ہیں اور وہ ہرگز کسی قابل رشک حالت میں نہیں، اور اس کے زخم پہلے سے خوب رِس رہے ہیں.. لہٰذا ایک مناسب حکمت عملی اختیار کرکے، خصوصاً دشمن کو ا س پوزیشن میں نہ آنے دے کر، جہاں وہ کسی دوسرے یا تیسرے فریق کو ہی اس موقعہ پر نمایاں اور ’توجہ کا مرکز‘ بنا دے اور اسی کے پردے میں چھپ کر، بلکہ پس منظر میں جا کر، ہم پر وار کرتا رہے .... دشمن کو اس پر مجبور کرکے کہ ’کچھ‘ بھی کرنے کیلئے وہ خود ہی سامنے آئے اور برہنہ ہوجانے کے سوا اس کے پاس یہاں کوئی چارہ نہ رہے، تاکہ اپنی ہر خباثت کا جواب وہ براہ راست پائے اور کسی اور کو اس مشکل وقت میں اپنا بوجھ اٹھوا سکے اورنہ اپنی اوٹ بنا سکے....
ایسا کرکے نہ صرف دشمن کو بے اثر کیا جاسکتا ہے، اور اس کا وہ بوجھ جس نے پہلے سے اس کی کمر دہری کردی ہے اور بھی بڑھایا جاسکتا ہے، بلکہ اس کی ہر نئی چال کو اسی کے خلاف پلٹا جاسکتا ہے۔
لہٰذا ڈر اِس سے نہیں کہ امریکہ اس جنگ کا دائرہ بڑھا دے گا، ایسا کرکے تو وہ اپنے دشمن کو پھنسانے کی بجائے خود پھنسے گا اور جس دلدل سے نکلنے کی کوئی صورت وہ پہلے ہی نہیں پاتا اپنا بوجھ بڑھا کر اسی میں اور بری طرح دھنسے گا۔ ڈر البتہ ہمیں جس بات سے ہونا چاہیے وہ یہ کہ اس موقعہ پر امریکہ کو یہاں مقامی طور پر کچھ ’بار بردار‘ ہاتھ آجائیں، جس کی کہ وہ اس وقت کئی طریقوں سے کوشش کر رہا ہے۔ ہاں اگر امریکہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر اس جنگ کا دائرہ بڑھا کر وہ اپنا کام آسان اور ہمارا کام مشکل کردے گا۔ لہٰذا اس پر چاہے ہمیں آخری درجے کا صبر کرنا پڑے، مگر نادانستگی میں امریکہ کی یہ مدد کر بیٹھنا کہ وہ یہاں کسی اور چہرے کے پیچھے کیموفلاج ہوجائے اور ہمیں اپنی بجائے یہاں کسی اور فریق کے ساتھ الجھا دے، اور اپنا کردار صرف ’مانیٹرنگ‘ تک محدود رکھے، جوکہ اس کا من پسند مشغلہ ہے.... ہماری جانب سے ایک ایسی فاش غلطی ہوگی کہ ہمارا کام عشروں کے حساب سے پیچھے جاسکتا ہے اور ’رو بہ زوال امریکہ‘ کو اسی حساب سے وقت مل سکتا ہے۔
حالیہ مرحلے کی اس نزاکت کو اگر ہم سمجھ لیتے ہیں تو پھر امریکی قبضہ کار اپنا کام بڑھائیں تو پھنستے ہیں اور نہ بڑھائیں تو بدستور مار کھاتے ہیں۔ ایک ایسے دشمن کی کوئی مدد بھلا ہم کیوں کریں جس کے پاس بھاگ جانے کے سوا کوئی آپشن باقی ہی نہیں رہ گیا ہے؟! اس کے، خطے سے نکلتے ہی، البتہ ہمارے آپشن اس قدر زیادہ اور اس قدر زبردست ہوں گے کہ معاملے کی ساری تصویر ہی بدلی جاسکتی ہے.... بس ذرا صبر!
وقت ہے کہ دشمن کی غلطیوں سے اس وقت زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے، جس کیلئے البتہ یہ ضروری ہے کہ خود ان غلطیوں سے اجتناب کیا جائے جو اس وقت دشمن ہم سے کرانا چاہتا ہے!
کچھ بھی ہو، ہم اگر اپنی صفیں درست کرلینے کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں اور صبر و دانشمندی کا دامن تھام رکھتے ہیں، تو آنے والے دن بے حد تشویشناک ہونے کے باوجود بے حد خوش آئند ہوسکتے ہیں، بلکہ ہیں، اور کیا بعید بہت سے بند راستے اس امت کی پیش قدمی کیلئے امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی کچھ ’مزید‘ غلطیوں سے کھلنے والے ہوں:
وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ (البقرۃ:216)
”اور کیا بعید تم کسی چیز کو ناپسند کرو جبکہ وہ تمہارے لئے خیر ہو، اور کیا بعید تم کسی چیز کو پسند کرو جبکہ وہ تمہارے لئے شر ہو“
حقیقت پسندی کا پورا التزام کرنے کے ساتھ ساتھ، اس معاملہ کی ایک خوش آئند تصویر دیکھنا، ہم سمجھتے ہیں، ہمارے نوجوانوں اور عمل کیلئے سرگرم حلقوں کا حق ہے، اور اس موقعہ پر، امت کی ایک بہت بڑی ضرورت۔ زیر نظر کتابچہ یہی تصویر دکھانے کی ایک کوشش ہے، بلکہ صحیح تر الفاظ میں، اس امید افزا تصویر کو اپنے ماضی اور مستقبل کے ایک وسیع تر فریم میں جڑ کر دیکھنے کی ایک کوشش۔
حامد کمال الدین
اگلی فصل