اُمت کو جو عارضے لاحق ہوئے ان میں ایک روگ اس کا بے ہنگم ہو جانا بھی تھا۔ بدنظمی، پریشان حالی، کسی ترتیب اور پیش بندی سے کام نہ لینا، سب کچھ ہنگامی بنیادوں پر کرنا اور سر پر ہی آپڑے تو کسی چیز کی بابت سوچنا۔ بے صبری، کم ہمتی اور لمبا نہ چل پانے کی نفسیات۔ یہ سب امراض میں سمجھتا ہوں ان اقوام میں اسلام آنے سے پہلے بھی پائے جاتے تھے مگر اسلام آیا تو اس نے ان اقوام کی حالت بدل کر رکھ دی اور ان کو ایک جیتی جاگتی چوکنا ہوشیار قوم بنا ڈالا۔ اسلام نے آکر ان بے ہنگم قبیلوں اور راجواڑوں کو ایک ترتیبِ نو دے ڈالی تھی۔ اسلام ہی وہ نئی قوت تھی جو ان صدیوں سے پریشان حال اقوام کو ایک ’نئے ڈھنگ‘ پر لے آئی تھی۔ ہر کام ان کو ایک ترتیب اور سلیقے سے کرنا سکھایا تھا۔ تفکر اور تدبر کا شعور دیا تھا۔ بولنے سے پہلے تولنا ان کو اسلام ہی کی ہدایت تھی۔ قبل از عمل، دوران عمل اور پس از عمل عواقب پر نگاہ رکھنا ان کو اسلام ہی کی تعلیم تھی۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے ان کو ایک جوشیلے پن سے نکال کر ایک گہرا شعور اور پیہم عمل رکھنے والی قوم بنا دیا تھا جس کی بدولت ان کو ایک ٹھوس پن اور ایک عالی ہمتی نصیب ہوئی تھی اور جس کی بدولت یہ وہ قوم نہ رہی تھی جو ہر کام جذبات میں آکر کرے اور کچھ ہی دیر بعد اس کو ادھورا چھوڑ کر یا تو بیٹھ جایا کرے اور یا پھر کسی اور سمت کا رخ کرلیا کرے۔
رسول اللہ ﷺ اپنے زیرتربیت افراد کو ان پہلوؤں سے تربیت دینے کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ ان معاملات کو آپ نہ تو سرسری نظر سے دیکھتے تھے اور نہ ہرگز کم اہم جانتے کہ ہو جائیں تب ٹھیک ہے نہ ہوں تب کوئی بڑی بات نہیں! نبی ﷺ بخوبی جانتے تھے، کیونکہ آپ پر الہام ہوتا تھا، کہ جس قوم کو اس طرح کے روگ لگے ہوئے ہوں اس کی زندگی میں کوئی مضبوط اور بلند وبالا عمارت اٹھائی ہی نہیں جا سکتی۔
صحابہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنا حال یوں بیان کرتے ہیں ”کان رسول اللہ یَصِفُّنا للصلاۃ کما یَصِفُّنا للقتال ....“”رسول اللہ ﷺ نماز میں ہماری یوں صفیں بنواتے جیسے میدان جنگ میں بناتے ہوں“ یہ ترتیب وتنظیم کا معاملہ نماز میں خشوع وخضوع اور روحانی تسکین حاصل کرنے کے علاوہ تھا۔ نماز انسان کا خدا کے ساتھ ایک خصوصی تعلق ہے۔ اس میں اصل چیز انسان کا خشوع ہے جوکہ اس کی روح کو خدا کے ساتھ وصال کرواتی ہے۔ خشوع اور حضورِ قلب کی جانب توجہ کرانا پس ایک طبعی بات ہے۔ مگر نبی ﷺ جو کہ خدا سے الہام لیتے تھے، خوب جانتے تھے کہ اس خشوع اور روحانیت اور خدا کے ساتھ تعلق کی پختگی کے علاوہ اُمت کی تعمیر کیلئے ایک اور عنصر درکار ہے اور وہ ہے نظم۔ نظم دراصل ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے اور ایک محسوس ہو سکنے والے رویہ کا۔ یہ چیز مسلسل سدھائے اور سکھائے رہنے سے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ایک ایک شخص کو اپنے دستِ مبارک سے سیدھا کرتے اور نماز شروع کرانے سے پہلے ان کو ایک نفسیاتی کیفیت میں لے کر آتے۔ نماز تک شروع نہ کرتے جب تک ان کی صف درست نہ ہو جاتی.... یہ بتانے کیلئے کہ عبادت گزاروں کا نظم خدا کو کس قدر پسند ہے۔
واضح امر ہے کہ نظم اور ترتیب اس دین کا جزو لاینفک ہے۔ نماز ہے تو وہ خدا سے تعلق کے ساتھ ساتھ ایک نظم اور ترتیب کا نام بھی ہے خواہ وہ بروقت ادائیگی کا معاملہ ہو یا صف درست کرنے کا معاملہ یا نمازیوں کا ایک ساتھ مل کر رکوع وسجود اور قیام وقعدہ میں امام کی متابعت کرنا۔ اسی طرح روزہ ہے، بندگی اور بیک وقت اوقات کی پابندی اور نظم وضبط۔ زکوٰۃ ہے تو تب، حج ہے تو تب۔ سب کچھ ایک وقت پر اور ایک خاص ترتیب اور متعین انداز میں ہو تو قبول ہوتا ہے .... رہا خدا کی راہ میں قتال تو وہ تو ہے ہی نظم اور ضبط۔
رہا ایک من موجی انداز، جدھر کی سوچ آئی ادھر کو ہو لینے کی نفسیات، آناً فاناً کی ذہنیت اور سر پہ آپڑے تو فوری موقف اپنانے اور فیصلے کرنے کا انداز.... تو یہ آفت ماحول کی ایک دین ہو سکتی ہے۔ مگر اسلام نے ماحول میں پائے جانے والے اس انداز کی شدید مزاحمت کی تھی اور نفوس سے اس کا اثر دور کرنے کے بے شمار اقدامات کئے تھے۔ اسلام نے اس بے ہنگم ماحول میں پائے جانے والے انسان کو خدا کی سنتوں اور خدا کے طبعی قوانین کی جانب متوجہ کروایا تھا کہ وہ دیکھے کہ خدا کے یہ قوانین اس کی کائنات میں کس ضبط اور تسلسل کے ساتھ کام کرتے ہیں جو نہ کبھی بدلیں اور نہ کبھی ٹلیں۔ اسلام نے عرب کے ایک بے نظم انسان کو تفکر اور تدبر کی راہ پر ڈالا تھا اور اس بات پر اس کی تربیت کی تھی کہ وہ صرف یہی دیکھنے پر اکتفا نہ کر لیا کرے کہ وہ جو کام کرنے جا رہا ہے آیا وہ جائز ہے یا ناجائز بلکہ وہ اشیاءکو ان کے نتائج اور انجام کے لحاظ سے بھی جانچے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے ایک کام اپنی عمومی حیثیت میں جائز ہو یا حتی کہ مستحب ہو مگر اس سے کسی وقت جو نتائج برآمد ہوتے ہوں ان نتائج کے پیش نظر وہ ممنوع ٹھہرے۔ مشرکین اگر کسی وقت ردعمل میں آکر خدا کے ساتھ گستاخی پہ اتر آتے ہوں تو قرآن مجید کی رو سے ایسی حالت میں بتوں کو بُرا بھلا کہنا تک ممنوع ہو جاتا ہے:
وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام: 108) | یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو۔ کہیں ایسے نہ ہو یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں |
اسی ضمن میں رسول اللہ ﷺکا عبداللہ بن ابی کے قتل سے احتراز برتنا آتا ہے جبکہ وہ ایک کھلم کھلا منافق تھا۔ اس کا باعث بھی یہی تھا کہ لوگوں میں یہ بات نہ ہونے لگے کہ محمد ﷺ اپنے اصحاب کو قتل کروا دیتے ہیں جبکہ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ لوگ یا تو اسلام میں داخل ہو گئے تھے مگر اسلام ان کے نفوس میں ابھی گہرا نہ اتر پایا تھا اور یا پھر وہ ابھی اسلام کی دہلیز پر کھڑے ابھی جائزہ لے رہے تھے کہ وہ اسلام میں داخل ہوں یا نہ۔ ایسے وقت میں ایسی چہ میگوئیاں ہونے لگنا دعوت کو سست کر سکتا تھا اور اسلام کی بابت ابھی جو لوگ شش وپنج کا شکار تھے ان کو اسلام کی جانب سے بددل کر سکتا تھا۔
رہی لمبا نہ چل پانے کی ذہنیت اور جوشیلے پن کے باعث مستقل مزاجی کا فقدان تو یہ بھی ماحول کی دین ہو سکتی ہے۔ مگر اسلام نے اس ذہنیت کا ہر ہر پہلو سے علاج کیا تھا۔
ایک طرف اسلام نے اس کوتاہ نظر ماحول میں پائے جانے والے لوگوں کو ایک ایسے مقصد اور ایسی غایت کی جانب دیکھنا سکھایا تھا جو کہ اس جہان سے گزر کر آتا ہے۔ جس کے انتظار میں انسان کو پوری زندگی گزار دینا ہوتی ہے.... یہ یوم آخرت کی امید ہے اور اس روز کی تیاری جو اگلے جہان میں پیش آنے والا ہے اور جس دن بعث و نشور اور حساب وکتاب اور جنت و دوزخ کا سامنا ہونا ہے۔ یوں مسلمان کی نفسیات کے اندر اسلام نے عاجلہ کو آجلہ کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ یہ ایک ایسی نفسیات تھی کہ جس کی رو سے عمل آج کرنا ہے تو اس کے نتائج کی اُمید اگلے جہان میں رکھنی ہے۔ عمل کا اس سے وسیع تر افق کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ نفس میں اتنا دور تک دیکھنے کی سکت پیدا ہو جائے۔ حد نگاہ کا اس حد تک دراز ہو جانا کہیں اورممکن ہی نہیں کہ انسان اس قدر دور اندیش مقاصد رکھنے لگے۔راستے کے دوران بے ہمتی آجانے کا امکان رہے تو راستہ طے ہوتے رہنے کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہتی!
دوسری طرف رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے عمل اور اسوہ سے صبر واستقلال اور پیہم عمل اور مسلسل جہاد کی ایک بہترین مثال قائم کرکے دکھائی تھی۔ بدترین حالات میں بھی آپ کا پایہ استقلال ہرگز نہ ڈگمگایا۔ بری سے بری صورت حال میں بھی آپ نے ناامیدی اور بددلی کو پاس نہ آنے دیا جبکہ حالات پلٹ پلٹ کر آپ کو مجبور کر رہے تھے کہ آپ ہمت چھوڑ بیٹھیں اور ’راستہ‘ بدل لیں۔
تیسری جانب آپ نے صحابۂ کرامؓ اور پھر ان کے ذریعے اس اُمت میں مستقل مزاجی اور دور اندیشی کی بطور خاص جوت جگائی تھی۔ عمل کا ثمر آدمی کو خواہ کتنا دور لگے مگر اچھا اور اعلیٰ اورمفید کام ہر حال میں جاری رکھنے کی ایک باقاعدہ نفسیات تھی جو آپ نے اس اُمت کے اندر پیدا فرمائی تھی: ان قامت الساعة وبید أحدکم فسیلة فلیغرسھا (مسند احمد) اگر قیامت آئے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کی قلم ہو تو وہ اس کو ضرور ہی (کھیت میں) بولے“۔ ’تھوڑا مگر مسلسل‘ کی آپ بار بار تاکید فرماتے۔ عجز وکسل یعنی کم ہمتی اور سستی سے ہمیشہ خدا کی پناہ مانگتے۔
کتاب اور سنت میں پائی جانے والی ان ہدایات ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ اس اُمت کی زندگی میں صدیوں تک دعوت کا تسلسل جاری رہا۔ صدیوں تک جہاد کا عمل باقی رہا۔ ایک مسلسل محنت اور عمل کے راستے پر چل پڑنے والی اس اُمت نے ایک شاندار تہذیب برپا کی اور ایک ایسے علمی وسائنسی انقلاب کی بنیاد رکھی جو نہ صرف صدیوں تک چلا بلکہ اس نے کرۂ ارض کا نقشہ بھی بدل ڈالا۔
گزشتہ چند صدیوں میں اس صورتحال کے نیچے آجانے کے خواہ کوئی بھی اسباب ہوں اور آج یہ صورتحال کہ ہر چیز بے ہنگم، ہر کام ادھورا، نظم وضبط ندارد، بے سوچے چل پڑنے اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے کام انجام دینے کی ذہنیت زوروں پر ہے، لمبا چلنے کی بجائے جوشیلے پن کا انداز زیادہ مقبول ہے اور قدم قدم پر رستہ بدلنے کی ضرورت پیش آتی ہے.... اس صورتحال کے خواہ کوئی سے بھی عوامل ہوں مگر ان امراض نے اُمت کے جسم کو کھوکھلا کرکے بہرحال رکھ دیا ہے۔ اُمت کا تہذیبی وسائنسی میدان میں پسماندہ رہنا، بڑے اچھے اچھے اور نفع بخش منصوبوں کا پھل آنے سے پہلے ہی اپنی طبعی موت مرجانا، بہت سے عقائدی، فکری، سیاسی، سماجی اور اخلاقی مصائب کو اپنے گرد پا کر ایک معمول کی صورتحال جاننا بلکہ اس پر ٹس سے مس نہ ہونا اور اس میں تبدیلی لانے کیلئے کوئی ٹھوس سنجیدہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر تیار نہ ہونا.... یہ اس نفسیات کے چند ایک نتائج ہیں جبکہ یہ سب وہ منکرات ہیں جن کے خاتمہ کی اللہ اور رسول نے ہدایت فرمائی ہے اور جس کے خاتمہ کیلئے اٹھ کھڑا نہ ہونے کی صورت میں اس اُمت کو ایک ایسی سزا سے خبردار کیا ہے جس کی زد ہر شخص پہ پڑنے والی ہے....
٭٭٭٭٭٭٭
یہ سب روگ جب مل کر اُمت کے وجود کو لاحق ہوئے تو دو بہت بڑے بڑے واقعات اُمت کی زندگی میں رونما ہوئے جبکہ ان دونوں کی ہی رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی: ایک اسلام کا یہاں غریب الدیار ہو جانا اور دوسرا قوموں کا اس اُمت پہ چڑھ دوڑنا۔
اسلام یہاں ویسے ہی اجنبی اور غریب الدیار نظر آنے لگا جب یہ اپنی ابتدا کے وقت کبھی ہوا کرتا تھا۔ اس کے سب مفہوم یہاں اجنبی ہو گئے۔ اسلام کے وہ اصل مفاہیم جو خدا کے ہاں سے نازل ہوئے تھے گویا روپوش ہی ہو گئے....
’لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللہ‘ اب الفاظ کا ایک مجموعہ بن کر رہ گیا جس کو صرف زبان سے ادا کردیا جانا تھا چاہے دل اس کی دلالت سے کتنا ہی غافل اور کردار اس کے تقاضوں سے کتنا ہی ناآشنا کیوں نہ ہو۔
’عبادت‘ کچھ شعائر میں محدود ہو کر رہ گئی۔ اور وہ شعائر بھی پھر ایک روایتی انداز اختیار کر گئے جس کے اندر شعور کی کوئی روح تک نہ تھی۔ پھر شعائر کی یہ روایتی ادائیگی بھی ایک تھوڑی تعداد کا معمول ہو کر رہ گیا۔ زیادہ لوگ اتنی تکلیف کے بھی روادار نہ رہے۔ ’نماز روزہ اور چندہ خیرات‘ کا دل میں احترام ہونا بھی کافی مان لیا گیا!
’عقیدۂ قضا وقدر‘ لمبی تان کر سو رہنے کی دلیل بنا۔ ایک حد درجہ قنوطیت، یبوست اور عدم فاعلیت روگ کی صورت میں ان مسلم اقوام کو لاحق ہوئی۔ جبکہ یہ عقیدہ ان کو خدا پر بھروسہ کرنا سکھانے اور ان کے عزم وہمت کو جواں کرنے اور اسباب کو مسخر کرنے کا سبق دینے آیا تھا۔ یہ عقیدہ آخرکار اس بات کی بنیاد بنا کہ یہ اپنی سب نااہلی اور نامردی اور اپنی سب غلطیوں کو خدا کے کھاتے میں ڈال آیا کریں اور اس کو ’خدا کا کرنا‘ سمجھ کر قبول کئے رہنا ’ایمان‘ کا تقاضا جانیں۔ نتیجتاً اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت تک محسوس نہ کریں۔
’دُنیا اور آخرت‘ لوگوں کے خیال میں دو الگ الگ راستوں کے نام بن کر رہ گئے جو کہیں آپس میں نہیں ملتے۔ دُنیا کیلئے کام کرنا آخرت کو نظرانداز کرنا قرار پایا اور آخرت کی محنت دُنیا اور بہبودِ ارض کے منافی سمجھی گئی۔
’جہاد‘ کا مفہوم سکڑ سکڑ کر ’دفاع‘ تک آگیا۔ پھر یہ ’دفاع‘ بھی ان سے نہ ہو پایا اور یہ بھی ان کے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس کے تقاضے ادا کرنے سے بھی ان کی جان جانے لگی۔
’تربیت‘ کا مفہوم مسخ ہو کر ایک خاص ’حلیہ‘ اپنا رکھنے اور ایک خاص مذہبی جکڑبندی کی صورت اختیار کر گیا جس کے پیچھے نہ کوئی تخلیقی روح کارفرما رہ گئی تھی اور نہ فکری رفعت کا کوئی تصور۔
’صبر‘ کا مطلب ’حِس‘ کا ختم ہو جانا اور ’ذلت‘ کو قبول کئے رہنا ہو گیا۔ ’تقویٰ‘ و ’پرہیز گاری‘ سے یہ مراد ٹھہری کہ انسان میں کوئی جذبات رہ جائیں اور نہ کوئی ولولہ وامنگ۔
اسلام کے بنیادی مفہومات میں جب اتنا بڑا خلل آیا .... دوسرے لفظوں میں اسلام جب یہاں غربت کا شکار ہوا تو پھر ”پسماندگی“ کا دور دورہ ہوا۔ یہ ’پسماندگی‘ پھر ہر میدان میں آئی: عسکری پسماندگی، سیاسی پسماندگی، سماجی پسماندگی، معاشرتی پسماندگی.... پسماندگی کی ہر وہ صورت جو آپ کے ذہن میں آسکتی ہے یہاں ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تمام تر عرصۂ عروج اس اُمت میں جو ترقی وکمال پایا گیا اس کا دراصل ایک ہی منبع تھا اور وہ تھا اللہ اور یوم آخرت کی بابت اس اُمت کا صحیح عقیدہ و تصور۔
مگر جب قلب وذہن میں اس ترقی وکمال کے سوتے خشک ہوگئے ___ الا ماشاءاللہ ___ تو پھر کوئی چیز ایسی نہ رہی جو اس عظیم الشان عمل کو قوت اور غذا فراہم کرتی۔
ألاَ وانَّ فی الجسد مضعفةٌ اذا صلحت صلح الجسد کله واذا فسدت فسد الجَسَدُ کله، الا وھی القلب (صحیحین) | خبردار جسم کے اندر ایک لوتھڑا پایا جاتا ہے جو اگر صحیح کام کرے تو سارا جسم صحیح کام کرتا ہے۔ اگر وہ خرابی کرے تو سارا جسم خرابی کرتا ہے۔ خبردار یہ لوتھڑا دل ہے |
معاملہ جب اس نوبت تک پہنچ چکا تو دُنیا کی قومیں اس اُمت پر ٹوٹ پڑیں جبکہ اس کی اپنی حالت وہ تھی جو خس وخاشاک کی ہوا کرتی ہے۔
دشمن جو صدیوں سے اسی موقعہ کی تلاش میں تھے اور جن کی بابت خدا نے ہمیں خبردار کر رکھا تھا، اب چڑھ آئے:
وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ (البقرۃ: 120) | یہودو نصاریٰ تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو |
وَلاَ يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىَ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُواْ (البقرۃ: 217) | وہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ ___ اگر ان کا بس چلے ___ تو تمہارے دین سے تم کو پھیر لے جائیں |
اب وہ آئے اور یہ تان کر آئے کہ اس بار وہ اس دین کا کام تمام کر دیں گے۔ محض اس دین کا ’اقتدار‘ ختم کردینا اور اُمت پر ’غلبہ‘ پا لینا ان کے پیش نظر نہ تھا۔
بے شک ان کا یہ مقصد اپنی ذات میں نیا نہ تھا.... کہ یہی وہ مقصد تھا جس نے ہرقل کو ابتدائے تاریخ میں اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ وہ اس دین کو تاریخ کا کوئی بڑا واقعہ بننے سے پہلے ہی کچل کر رکھ دے.... اور یہی وہ مقصد تھا جس نے یورپ کے قرون وسطیٰ میں صلیبی جنگوں کو مہمیز دی تھی.... اور یہی وہ مقصد ہے جو آج ان کو متحرک کئے ہوئے ہے.... البتہ اس بار کی صلیبی یلغار میں جو کہ اس دور جدید میں جاکر ہوئی اور جو کہ دراصل مسلمانوں کو اسپین سے دیس نکالا دینے کے ساتھ ہی شروع کردی گئی.... اس بار کی صلیبی یلغار میں نئی بات یہ تھی کہ ان کو بہت اعتماد تھا کہ جس مقصد کو لے کر یہ اس امت پر چڑھائی کرنے آئے ہیں ان کا یہ مقصد اس بار پورا ہوکر رہے گا۔ کیونکہ اس بار یہ دیکھ رہے تھے کہ اب کچھ جان لیوا روگ اس اُمت کے وجود کو کھا چکے ہیں اور یہ کہ اب ان کے پاس کچھ ایسے ہتھیار آچکے ہیں جن کے مقابلے کیلئے یہ اُمت اب ہتھیار تیار نہیں کر پاتی۔ خواہ وہ جنگی ہتھیار ہوں یا سیاسی یا معاشی اور جن میں سب سے مہلک ہتھیار وہ ہے جسے ہم فکری یلغار کا نام دیتے ہیں اور جس کا ہدف یہ ہے کہ دلوں میں پائے جانے والے عقیدہ کے درخت کو جڑ سے ہی اکھاڑ ڈالا جائے.... جبکہ یہ وہ یادگار نصیحت ہے جو ان کو ان کا بادشاہ لویس نہم (Luis IX) منصورہ (مصر) کی قید (دور ایوبی) سے چھوٹنے کے بعد ان کو دے کر گیا، جس نے اس وقت یہ یادگار مقولہ کہا تھاکہ: ”اگر تم مسلمانوں پر غلبہ پانا چاہتے ہو تو محض ہتھیاروں پہ سہارا نہ کرو۔ ہتھیاروں پہ سہارے کا نتیجہ تم دیکھ ہی چکے ہو۔ جنگ کرنا چاہتے ہو تو کسی طرح ان کے عقیدے کے خلاف کرو ان کی ساری قوت یہیں پر پوشیدہ ہے اور ہمیں سارا خطرہ یہیں سے ہے“.... اگرچہ اس بار یہودی کید ومکر بھی ان کے ہمرکاب تھا اور جس کا مقصد دولت اسرائیل کا قیام تھا۔
واقعتا یہ فکری یلغار وہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہی جس کے حصول میں آج تک ان کے سب ہتھیار ناکام رہے تھے....
جہاں تک شکست کا معاملہ ہے تو شکست مسلمانوں کو بہر صورت کوئی ایک ہی بار پیش نہیں آئی۔ تاریخ میں کئی بار مسلمانوں کو شکست ہو چکی ہے۔ مگر عسکری ہزیمت مسلمانوں کو کبھی اس حد تک متاثر نہ کر سکی اور نہ ہی ان کو ان کے عقیدہ سے دستبردار ہو جانے اور اس کو چھوڑ کر دوسرے نظریات تلاش کرنے پر آمادہ کرسکی۔
مسلمانوں کو صلیبیوں کے مدمقابل شکست ہوئی۔ تاتاریوں کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ مگر ان کو اس خدائی آوازہ پر کبھی بے یقینی لاحق نہ ہوئی:
وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمرن:139) | دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو |
وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُواْ لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَمَا ضَعُفُواْ وَمَا اسْتَكَانُواْ وَاللّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ۔وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلاَّ أَن قَالُواْ ربَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ۔فَآتَاهُمُ اللّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الآخِرَةِ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران:146۔ 148) | کتنے ہی نبی ایسے گزرچکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جومصیبتیں ان پر پڑیں ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے کوئی کمزوری نہ دکھائی۔ وہ (باطل کے آگے) سرنگوں نہ ہوئے۔ ایسے ہی صابروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔ ان کی دُعا تو بس یہ تھی کہ ”اے ہمارے رب، ہماری غلطیوں اورکوتاہیوں سے درگزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو تجاوز ہو گیا ہو اسے معاف کردے۔ ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر۔ آخرکار اللہ نے ان کو دُنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کا حسن ثواب بھی۔ اللہ کو ایسے ہی نیک عمل لوگ پسند ہیں“۔ |
تب تک یہ اس دین کی حقانیت پر ایمان سے دستبردار نہ ہوئے تھے۔ جانتے تھے کہ یہ معرکہ جہاد کامعرکہ ہے اور یہ راستہ خدا کا راستہ ہے.... چنانچہ کچھ ہی دیر میں یہ صف آرائی کرلینے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ خلفشار ہو جانے کے بعد ان کو پھر مجتمع ہو جانے میں دیر نہ لگتی۔ پستی چھوڑ کر پرعزم ہونے میں بہت وقت درکار نہ ہوتا۔ سستی وبے عملی چھوڑ کر تیاری کرنے میں ان کو ایسی دشواری پیش نہ آتی جو ناممکنات میں ہو۔ تب خدا اُن کو دُنیا کا اجر بھی دیتا اور آخرت کا حسن ثواب بھی۔
حتی کہ دورِ ہزیمت کے بدترین لمحات میں بھی کبھی ان پر یہ خیال نہ گزرا کہ ان کے دشمن ان سے بہتر ہیں! ان کے دشمن ان کی نگاہ میں خدا کے کافر تھے اور خود یہ مومن۔ اپنے برتر ہونے کی دلیل یہ اپنے ایمان کے اندر پاتے تھے چاہے میدان میں پانسہ ان کے حق میں پلٹے یا دشمن کی حق میں اور دشمن کی کمتری کی دلیل اس کے کفر میں پاتے تھے قطع نظر اس کے کہ مادی فتح ان کو نصیب ہوتی ہے یا دشمن کو۔
البتہ اس بار معاملے میں بہت فرق آگیا تھا۔ اپنے ایمان کے بل بوتے پر اپنے آپ کو برتر جاننے کا احساس (ایک بڑی سطح پر) اس بار کہیں روپوش ہو گیا تھا۔ دشمن کے بالمقابل یہاں ایک ذہنی شکست خوردگی تھی۔ چنانچہ دشمن کی فکری یلغار ایسی کامیاب رہی کہ کوئی اس کا تصور تک نہ کر سکتا تھا۔
صرف ایک ہی صدی کے اندر، بلکہ بعض خطوں میں تو صرف آدھی صدی کے اندر ہی، یہ اُمت مکمل طو رپر تبدیل کرکے رکھ دی گئی۔ دیکھنے والے کو گویا اپنی نظروں پہ یقین بھی نہ آئے کہ کیا یہ وہی اُمت ہے جو کبھی اُمت اسلام کہلاتی تھی!
مصدرِ تلقی تبدیل ہوا۔ ذہن وشعور کو غذا کہاں سے ملے، اس کا مصدر اسلام نہ رہا۔ اس کا منبع اب خدا رہا اور نہ رسول۔ شعور کو غذا اب یورپی تہذیب سے ملنے لگی تھی۔ آئیڈیل اب وہ ہو گیا تھا جس کو جس حد تک ہو سکے ذہنوں میں اتارا جانا تھا اور جہاں تک ممکن ہو اسی کا روپ دھارنا تھا۔ اب نفوس کے اندر خدا کا یہ فرمان کوئی بازگشت تک پیدا نہ کرتا تھا:
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ(المائدۃ:50) | تو کیا یہ جاہلیت کا دستور وفیصلہ چاہتے ہیں۔ جن لوگوں کا یقین اللہ پر ہے ان کیلئے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے |
اور تو اور یورپ کی ’تہذیب‘ کیلئے ’جاہلیت‘ کا لفظ استعمال کیا جانا حیران وششدر کر دینے والی بات جانا گیا۔ جن لوگوں نے اپنی شناخت تک مغرب کے حوالے کر دی تھی ان کو یہ ایک گردن زدنی بات دکھائی دینے لگی۔ الٹا اسلام ان کی نگاہ میں رجعت، پسماندگی اور بربریت نظر آنے لگا۔ مسلمان عورت کا حجاب ان کو قید اور ظلمت دکھائی دینے لگا اور اس کا برہنہ ہو کر بازاروں میں پھرنا ترقی اور آزادی! کفر اور الحاد بکنا اور خدا کی کتاب اور رسول کی سنت کا استہزاءکرنا’آزادی فکر‘ کا معیار ٹھہرا۔ اسلام کو شعوری اور عملی طور پر خیرباد کہہ دینا اور اپنے فکر وعمل کے وجود کومغرب سے وابستہ کر لینا غلاموں کے اس معاشرے میں ایک ایسی اعلیٰ بات اور ایک ایسی زبردست شناخت قرار پائی کہ اس پر صرف رشک ہی کیا جا سکے۔
اس کے بعد پھر نئے سے نئے سکول آف تھاٹ آنے لگے: وطنیت، قومیت، سیکولرزم، سوشلزم، ڈیموکریسی.... اور نامعلوم کیا کیا۔ سب اس لئے کہ یہ نظریات ایک ایک کرکے اسلام کا متبادل بنیں اور جس کو اسلام کا جو متبادل پسند آئے وہ اس کو اختیار کرلے.... اور پھر اس لئے بھی کہ اس اُمت کے جتنے چیتھڑے کئے جا سکیں کر دیئے جائیں اور دشمن اس اُمت کو، جو کبھی اسلام کے فکری ونظریاتی پرچم تلے متحد تھی اور دشمن کے راستے میں ناقابل تسخیر دیوار تھی، اب ایک ایک نوالہ کرکے کھائی جائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے لقمے بآسانی ہضم ہوں۔ اندازہ کر لیجئے حالت گمراہی میں بھی اس کا ایک ہونا ان کو گوارا نہ تھا!
پستی کی یہ وہ حد تھی جس تک پہنچ رہنے کی اس اُمت کی تاریخ میں کبھی نوبت نہ آئی تھی۔ مگر حدیث میں جس چیز کو ’خس وخاشاک‘ کہا گیا جب وہ روپذیر ہو گئی تو پھر یہ تو ہونا ہی تھا۔ اس کے سوا آپ توقع کر ہی کیا سکتے تھے!؟
٭٭٭٭٭٭٭
یہ ہے وہ منظر نامہ جس کا آج کی اس اسلامی بیداری کو سامنا تھا اور ہے....
رہی خود یہ اسلامی بیداری اور یہ تحریکی اٹھان تو یہ خدا کی جانب سے ایک مقرر شدہ واقعہ ہے جو ہر دشمن کے نہ چاہتے ہوئے بلکہ دشمن کے پورا زور لگا لینے اور تمام تر مکرو تدبیر کرلینے کے باوجود ہو کر رہا۔ حالانکہ دشمن نے ’اسلام‘ کو موت کی نیند سلا دینے کی اپنی طرف سے کوئی بھی کسر نہ چھوڑی تھی۔ وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ (یوسف: 21) ”اللہ اپنا کام کرکے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں“۔
اس تحریکی بیداری کی توقع کوئی بھی تو نہ کر سکتا تھا ،دشمن تو دشمن خود مسلمان ہی نہ کر سکتے تھے!
جہاں تک دشمنوں کا تعلق ہے تو وہ تو صرف ’مرد بیمار‘ کے وفات پاجانے کی ہی پیش بینی کر رہے تھے، جیسا کہ خلافت عثمانیہ کیلئے ان کے ہاں یہ بطور لقب مستعمل تھا۔ وہ بھی یہی سہانے خواب دیکھ رہے تھے کہ اس مرد بیمار کو دفنانے کی دیر ہے وہ اس کا ترکہ آپس میں تقسیم کریں گے۔ اس کے حصے بخرے ہضم کریں گے اور اس کے ساتھ ہی یہ کھیل ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا اور اسلام کا قصہ تمام ہو جائے گا!
اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو مایوسی اور شکست خوردگی کی ایک ایسی کیفیت ان پر حاوی ہو چکی تھی اور ایک ایسی بھیانک صورتحال میں وہ اپنے آپ کو گھرا ہوا دیکھ رہے تھے کم از کم ان میں سے اکثر کی یہی حالت تھی کہ ان کی سوچ کی انتہا بھی اس سے آگے نہ جاتی تھی کہ دشمن کی یہ آہنی گرفت جو ان کی گردن پہ آن پڑی ہے ذرا اگر کچھ نرم ہی ہو جائے اور اگر کچھ تھوڑے بہت ’حقوق‘ ہی مل جائیں اور بس اب زندہ ہی رہ لینے دیا جائے تو بڑی بات ہو چاہے یہ زندہ رہنا کیسی ہی رسوا کن شرطوں پر ہو....
مگر خدا کا یہ مقدر کیا ہوا وقوعہ جسے غالب آکر رہنا تھا، اور اس کا وہ دائمی وعدہ کہ وہ اس اُمت میں ایسے افراد کھڑے کرتا رہے گا جن کے دم سے اس دین کی روح پھر سے زندہ اور تازہ ہو جایا کرے.... خدا کی یہ تقدیر اور خدا کا یہ وعدہ آج کی اِس اسلامی بیداری کو ایک ناقابل یقین انداز میں پھر بھی نکال لایا اور دشمن کے سب مکروہ تدبیر اور منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے!
٭٭٭٭٭٭٭
بعض موجودہ مناہج کا جائزہ:
آج ہم خدا کی اس تقدیر کا نظارہ کرتے ہوئے مستقبل کے افق پر امیدوں کی زبردست گھٹائیں دیکھ رہے ہیں اور خدا کے اس وعدۂ حق کو عمل پذیر ہوتا دیکھ کر اطمینان پا رہے ہیں کہ وہ اس دین کو ہر دین پر غالب رکھے گا۔ ہمارا یقین ہے کہ مستقبل اسلام کا ہے۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (الصف: 9) ”وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو“۔
مگر ہماری بحث یہاں جس چیز سے ہے وہ ہے منہج عمل جو کہ آج کے اس تحریکی بیداری کے عمل کی اصل ضرورت ہے۔ انسانی زندگی میں خدائی تقدیر کے روپذیر ہونے کیلئے انسانوں کو ہی ’عمل‘ کرنا ہوتا ہے، اس وجہ سے نہیں کہ خدا اپنی تقدیر کو کسی اور انداز میں روپذیر کرانے سے عاجز ہے بلکہ اس وجہ سے خدا کی سنت کا کچھ یہی تقاضا ہے کہ انسانی دُنیا کے اندر انسان ہی برسرعمل ہوں اور ’انسانوں‘ ہی کے پردے میں ’خدا کی تقدیر‘ روپذیر ہو۔ ذَلِكَ وَلَوْ يَشَاء اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ (محمد: 4) ”اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا، مگر (یہ طریقہ اس نے اس لئے اختیار نہیں کیا ہے) تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ آزمائے“۔ إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد: 11) ”کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ خود اپنے نفوس کی حالت نہ بدلیں“۔
تو پھر یہ منہج عمل کیا ہے؟
دین کا کام کرنے والوں کے ہاں کئی سارے طریقے اور اسلوب پائے جاتے ہیں۔ ہم ان میں سے ایک ایک کو اختصار کے ساتھ یہاں زیربحث لائیں گے اور اس کے مالہ وما علیہ پر نظر ڈالیں گے۔ آئیے مل کر دیکھیں ان میں سے کون سا طریقہ زیادہ مؤثر وفائدہ مند ہے اور اس وقت کی صورتحال کے پس منظر میں جس کی ہم نے یہاں کچھ تشخیص کی ہے، ان میں سے کونسا اسلوب اُمت کے زیادہ مناسب حال ہے، آیا وعظ یا روحانی تربیت یا پھر جذبہ ابھارنے کا اسلوب یا پھر فکری پختگی پیدا کرنا اور یا جہادی تیاری؟
ایک بات ہم ابتداءمیں کہتے چلیں کہ یہ سب مذکورہ بالا وسائل ہی اپنی اپنی جگہ مطلوب ہیں اور ان میں سے کسی ایک سے بھی استغنا ممکن نہیں۔ ہم جو گفتگو یہاں کریں گے وہ یہ نہیں کہ ان میں سے کس چیز کو چھوڑا جائے اور کس چیز کو اختیار کیا جائے؟ بلکہ ہم یہ جائزہ لیں گے کہ ان میں سے ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ کتنی افادیت ہے اور یہ کہ کسی طبقے کے ہاں اگر یہ سب کے سب وسائل کماحقہ استعمال ہوتے ہیں پھر تو الگ بات ہے، لیکن اگر ان میں سے کسی ایک پر ہی زور ہے.... یوں وہ ایک ہی اسلوب اس کے ہاں منہج اور طریق کار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور اس کے ماسوا اسالیب اس کے ہاں بڑی حد تک فروتر ہیں تو تبدیلی لے آنے کے معاملہ میں، یہ منہج تنہا کہاں تک موثر ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
سب سے پہلے ہم ’وعظ‘ پہ بات کرتے ہیں یعنی تقریریں، خطاب، جلسے اور اجتماعات وغیرہ۔ کیونکہ بہت سے لوگوں کے ہاں دین کے کام کی یہ صورت بہت زیادہ پسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔ ’واعظ‘ سمجھتا ہے کہ جس قدر جذبے سے وہ خطاب کرے گا جس قدر اس کو اپنی بات پر یقین ہوگا اور جس قدر زبردست الفاظ وہ اپنی تقریر میں استعمال کرے گا اور جس قدر علمی بیان ہوگا اسی قدر سننے والوں پر اس کی تاثیر ہوگی۔ ’مقرر‘ کے اس وہم کو واقعہ خود ہی غلط ثابت کرتا ہے....
ہر جمعہ کو عالم اسلام میں براعظم تا براعظم تک کتنے ٹن وعظ القا کیا جاتا ہے!؟ اتنے خطبوں نے عالم اسلام کے اندر براعظم تا براعظم مسلمانوں کی حالت کو کہاں تک بدل دیا ہے؟!
اگر میں کہوں: ذرہ بھر بھی نہیں، تو کیا یہ خلاف واقعہ ہوگا؟
دعوت میں ”وعظ“ کا استعمال خدائی حکم ہے: ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (النحل: 125) ”اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور موعظۂ حسنہ کے ساتھ“۔
مگر خدا نے یہ نہیں کہا کہ تنہا وعظ ہی دعوت کا طریقہ واسلوب ہے۔ نہ ہی خدا نے یہ کہا ہے کہ اگر تنہا یہی اسلوب اختیار کیا جائے تو سب مطلوبہ ثمرات حاصل ہو جائیں گے! خدائی منہج تو یہ ہے کہ ’وعظ کے ساتھ‘ دراصل ایک عدد ”رسول“ بھی آیا کرتا ہے جس کو نمونہ کی صورت دیکھنے کیلئے لوگوں کی نگاہیں اس پرمرکوز ہو جایا کریں۔ تب جا کر وہ ’اس‘ سے اس ’وعظ‘ کو سمجھیں اور پھر اس کے بعد اپنی دُنیا میں اس کے مضمون پر عمل پیرا ہوں:
کان خلقه القرآن ”آپ کا خلق قرآن تھا“۔
یا یہ کہ ”آپ چلتا پھرتا قرآن تھے“۔ یہ ہے وہ وصف رسول اللہ ﷺ کا جو عائشہؓ نے آپ کے طرز عمل کی بابت ہمیں بیان کرکے دیا ہے....
پس رسول اللہ ﷺ خالی خطیب نہ تھے جو منبر یا سٹیج پر سے بس خطبہ دے دیا کریں! اس سے پہلے آپ ایک مربی تھے اور حقیقتِ دین کا ایک چلتا پھرتا نمونہ۔ اس سے پہلے آپ ایک دعوت اور ایک پیغام رکھتے تھے اور ’وعظ‘ صرف اس ’پیغام‘ کو لوگوں تک پہنچانے کے ’ذرائع‘ میں سے محض ایک ’ذریعہ‘ تھا.... اور تو اور صحابۂ کرامؓ کو یہ تشنگی محسوس ہوتی ہے کہ یتخولھم بالموعظة آپ ان کو وقفوں کے بعد ہی جا کر وعظ کرتے ہیں ادھر آپ کو خدشہ لاحق ہے کہ انہیں اس سے اکتاہٹ نہ ہو جائے! اُکتاہٹ بھلا کس شے سے؟ رسول اللہ ﷺ کے وعظ سے! اور کن کو؟ صحابہ کرامؓ کو! ان نفوس کو جو اس دہن مبارک سے نکلنے والے ایک ایک لفظ کیلئے بے تاب ہیں اور اس کیلئے رغبت اور عقیدت اور توجہ کی آخری حد تک چلے جانے پہ تیار۔ کیونکہ لسان نبوت سے عطا ہونے والا ہر لفظ ان کی نگاہ میں جنت کا یقینی راستہ ہے.... پھر ہم جیسے انسانوں کیلئے کیونکر اس بات کی گنجائش ہے کہ دعوت میں ہماری کل پونجی ہی بس وعظ اور تلقین اور ارشاد ہو!
حتی کہ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ وعظ اور ارشاد کا لوگوں پر بہت اچھا اثر ہو رہا ہے اور اس سے وہ ’اکتاہٹ‘ بھی نہیں ہو رہی، جو کہ ویسے ایک غلط مفروضہ ہے، تو بھی کیا وعظ اور ارشاد تنہا وہ سب گہرے اور دیرینہ روگ دور کر سکتا ہے جن کا اس سے پہلے ہم کچھ ذکر کر آئے ہیں اور جو کہ اُمت کے وجود کے اندر بُری طرح سے سرایت کر چکے ہیں اور مغربی یورش سے ماقبل زمانے سے لیکر آج تک چلے آرہے ہیں؟
خطبوں سے کیا اس ارجائی فکر کا خاتمہ ہو جائے گا جو عمل کو ایمان کے مفہوم سے ہی خارج کئے بیٹھا ہے اور جس نے کئی صدیوں سے لوگوں کو اس وہم میں مبتلا کر رکھا ہے کہ اگر وہ اسلام کے کسی ایک بھی حکم پر عمل پیرا نہ ہوں پھر بھی رہیں گے وہ ’ایمان والے‘ ہی! کیا اکیلا ’وعظ‘ ان کی حالت بدل دے گا اور ان کو ایمان کے تقاضوں پر عمل پیرا کرا دے گا.... عمل کے ان سب تقاضوں سمیت جن میں دین کیلئے محنت بھی آتی ہے جدوجہد بھی، مشقت سہنا بھی، ذمہ داریاں اٹھانا بھی، اجتماعی اُمور کی پابندی بھی اور ڈسپلن بھی!؟
’وعظ‘ سے اگر یہ سب کچھ ہوسکتا ہے تو پھر ہو کیوں نہیں رہا؟ ہم ہر جمعہ ’وعظ‘ میں کوئی کسر تھوڑی چھوڑتے ہیں۔ وعظ کے دیگر مواقع اس کے علاوہ اور ریڈیو اور ٹی وی کا وعظ اس پر مستزاد!
اکیلا وعظ کیا صوفیت میں ڈوبے ہوؤں کو نکال لائے گا اور وہ لوگ جو درگاہوں اور آستانوں سے تبرک پاتے ہیں اور اولیاءکے کشف غیب پر قدرت رکھنے کے معتقد ہیں اور کرامات کے نام پر عجیب وغریب کہانیوںکودین سمجھتے ہیں.... اکیلا وعظ کیا ان سب انحرافات کا شکار ہو جانے والوں کو بدل ڈالے گا؟!
لوگ آج جس بدنظمی اور بے ہنگم طرز عمل پہ زندگی گزار رہے ہیں ڈسپلن سے کوسوں دور تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے پر کبھی تیار نہ ہونا جو بھی کریں عین وقت آپڑنے پر کریں۔ یہ آناً فاناً کی ذہنیت اور پھر لمبا نہ چلنے کی وہ نفسیات جو پل میں مشتعل ہو کر سب کچھ کرگزرنے پہ تیار ہو جائے تو پل میں بجھ کر رہ جائے.... یہ سب روگ کیا ’وعظ‘ سے دور ہو جائیں گے؟
ملازم دفتروں میں جس کاہلی اور کام چوری کے عادی ہیں، معاملات کو دیانت کے ساتھ اور وقت پہ انجام دینے پہ تیار نہیں، صرف تنخواہ حلال کرنا جانتے ہیں کہ بس وقت پہ حاضری لگوا لیں اور وقت پہ چھٹی کر جائیں بلکہ تو حاضری اور چھٹی بھی وقت پہ ضروری نہیں! ابھی اس غبن اور خردبرد اور رشوت ستانی کا تو ذکر ہی نہیں جو حد سے بڑھی ہوئی ہے.... کوئی سر پر نہ ہو تو خود ذرہ بھر ہاتھ ہلاکر راضی نہیں اور کام میں اخلاص اور دل لگی کا تو خیر تصور ہی کیا، البتہ تنخواہ پوری لینے پہ ملال تک نہیں بلکہ تنخواہیں بڑھانے کے مطالبات ہی ہر وقت زبان پر ہوں گے.... علاوہ ازیں لوگوں کے یہ معمولات کہ وعدے کا پاس نہیں حتی کہ اس پر دل میں کوئی خلش یا قصور واری کا احساس تک نہیں، کسی کو وقت دیا اور منٹوں کے حساب سے نہیں گھنٹوں کے حساب سے تاخیر کی بلکہ معاملہ دنوں اور ہفتوں تک پہ چلا گیا یا پوری زندگی ہی وعدہ وفا نہ ہوا، افسوس یا ندامت کا ذرہ بھر دِل میں نہ آئے.... کیا یہ سب بیماریاں ’وعظ‘ کرنے سے چلی جائیں گی؟
وغیرہ وغیرہ وغیرہ....
٭٭٭٭٭٭٭
واعظ حضرات فرمائیں گے: وعظ کے سوا اور آخر ہم کر کیا سکتے ہیں؟ ہمارے حصہ کا کام تھا وہ ہم نے کردیا۔ اب کسی کو ہدایت نہیں آتی تو ہم کیا کریں ہدایت ہمارے ہاتھ میں تھوڑی ہے وہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے؟
ہدایت بالکل خدا کے ہاتھ میں ہے۔ مگر خدا نے دعوت کا اور معاشرے کو تبدیل کرنے کیلئے محنت اور جدوجہد کا ایک منہج بھی تو رکھا ہے جس کی اساس اسوہ اور تربیت ہے۔ اس کے وسائل میں سے ایک ’وعظ‘ بھی یقینا ہے مگر وعظ جب اس کی پشت پر اسوہ اور تربیت ہو۔ تب خدا کے فضل سے وعظ ثمرآور بھی ہوگا۔
ان سب باتوں کے باوجود ہم یہ نہیں کہتے کہ معاملہ اگر صرف وعظ تک محدود ہو تو اس کا ذرہ بھر فائدہ نہیں۔ حاشا وکلاّ۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ وعظ اکیلا زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہوسکتا ہے تو وہ اس حد تک کہ بس کچھ ’افراد‘ کی اصلاح کر دے، رہا یہ کہ وعظ وخطاب کا یہ اسلوب معاشرہ بدل ڈالے اور اُمت کی کایا پلٹ دے جبکہ خرابی معاشرے میں اس سطح کو پہنچ چکی ہو جس پر ہم اُسے اس وقت دیکھ رہے ہیں، یہ ممکن نہیں۔ یہ اسلوب ایک ایسی دعوت کھڑ ی کر دینے سے بہرحال عاجز رہے گا جس کا مشن یہ ہو کہ یہ اُمت جس کی نوبت حدیث کے الفاظ میں ’خس وخاشاک‘ تک آچکی ہے اس کی اب ایک باقاعدہ تعمیر نو کردی جائے!
٭٭٭٭٭٭٭
’روحانی تربیت‘ ایک اہم ترین ضرورت ہے اور تعمیر کے اس عمل میں اس سے ہرگز کوئی استغنا نہیں.... بلکہ یہ تصور کیا ہی نہیں جا سکتا کہ کوئی دعوتی عمل اس کے بغیر پروان چڑھ لے۔ یہاں روحانی تربیت سے ہماری مراد ہے خدا کے ساتھ تعلق مضبوط کرانا۔ دِل میں خدا کیلئے رقت اور اخلاص پیدا کرنا۔ یوم آخرت کو ذہن اور شعور کے اندر بٹھا رکھنے کی محنت کرانا اور اس لمحے کو آدمی کے خیالات و احساسات کا محور بنا دینا جب وہ خدا کے سامنے کھڑا ہوگا.... یہ بات رسول اللہ ﷺ کی اس تربیت میں جو آپ نے اپنے اصحاب کو دی، بے انتہا نمایاں نظر آتی ہے، خصوصاً مکہ میں جب ان پر قیام اللیل فرض تھا کہ وہ خدا کے ساتھ اس تعلق کو پختہ سے پختہ تر کرلیں۔ مگر یہ سب کچھ دراصل کسی اور بات کی تیاری تھا۔ یہ فی ذاتہ ’آخری منزل‘ نہ تھی!
آپ سورۂ مزمل پہ غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ جہاں قیام اللیل کی ہدایت کی جا رہی ہے عین وہیں پر واضح انداز میں ایک اور اشارہ بھی کردیا جاتا ہے.... ان ’بھاری ذمہ داریوں‘ کی طرف جو عنقریب آپڑنے والی ہیں۔ قیام اللیل کو دراصل اس کی ایک مضبوط بنیاد بنایا جا رہا تھا اور اس مرحلہ میں پورا اترنے کیلئے اہلیت پیدا کرنے کی ایک صورت:
يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ۔قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا۔نِصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا۔أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا۔إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا۔(المزمل: 1-5) | اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کرلو، یا اس سے کچھ بڑھا دو اور قرآن کو خوب ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ یقینا ہم تم پر بہت بھاری بات عنقریب نازل کرنے والے ہیں |
تب غور کرنے پر خدا کی وہ حکمت بھی آپ پر کھلتی ہے جو قیام اللیل کو نفس مومن کے اندر اس خاص اہلیت کے پیدا کردینے کا ایک ذریعہ بناتی ہے جو کہ زمین میں مومن کا کردار ادا کرنے کیلئے مطلوب ہے:
إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْءًا وَأَقْوَمُ قِيلًا(المزمل: 6) | درحقیقت رات کا اٹھنا (نفس کو) دبا لینے میں شدید تر ہے اور بات کو بہت درست کردینے والا ہے |
أشد وطئاً یعنی یہ نفس کو کوٹ کوٹ کر ایک خاص چیز بنا دینے اور ایک ایسی زمین تیار کردینے والا ہے جس پر ذمہ داریاں اور فرائض ’دھرے‘ جا سکیں۔
غرض خدا کے ساتھ تعلق کے اندر یہ پختگی اور گہرائی بطور خاص مطلوب ہے تاکہ انسان وہ چیز بن سکے جس پر دین کے وہ سب بھاری بھر کم فرائض شریعت جب چاہے ’لاد‘ سکے اور وہ ذمہ داریاں باحسن اسلوب اس کو اٹھوائی جا سکیں جو اس راستے کا لازمہ ہیں۔ خصوصاً وہ فرائض اور ذمہ داریاں جو جہاد اور آزمائشوں میں صبر واستقامت سے متعلق ہیں۔
رہی وہ روحانیت جو خود ہی اس راستے کی آخری منزل بن جائے.... رہی وہ ’قلبی‘ ترقی جو اس گاڑی کا ’آخری سٹیشن‘ ہو اور تربیت کے عمل میں نفوس کو دینے کیلئے اس کے ماسوا کچھ نہ رہ گیا ہو تو اس صورت میں کیا یہ روحانیت وہی روحانیت ہوگی جو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کے نفوس کے اندر پھونکی تھی؟ گو تشبیہ میں کچھ فرق ہے مگر یہ گویا ایسے ہی ہے کہ آپ ایک سپاہی کو عسکری تربیت تو خوب دیں مگر اسے کسی معرکہ میں بھیجنا کسی پروگرام کا حصہ ہی نہ ہو! یا پھر کسی بنیاد کو آپ کوٹ کوٹ کر پختہ کردیں مگر اس پر کوئی عمارت اٹھانا سرے سے پیش نظر نہ ہو!
اس دین کامعاملہ بے حد عظیم الشان ہے۔ یہ وہ خدائی منہج ہے جو زندگی کے پورے کے پورے دھارے کو بدل دینے اور اصلاح کردینے کیلئے آیا ہے اور اس پائے کا ایک صالح انسان پیدا کرنے جس کے بل پر زمین میں خلافت راشدہ کی سطح کا اجتماعی انتظام ممکن ہو.... یہ محض کوئی روحانی پرواز نہیں۔ یہ محض کوئی ’اشراقات‘ نہیں۔ یہ محض پرکیف، احساسات اور پرجذب مقامات کا لطف نہیں چاہے یہ احساسات اور مقامات کتنے ہی اعلیٰ پائے کے کیوں نہ ہوں.... یہ تو ایک سرتوڑ محنت اور جہد کا نام ہے۔ یہ تو جہاد کا راستہ ہے۔ باطل کے ساتھ جنگ اور کشمکش میں آخری حد تک جان لڑا دینے کا مشن ہے۔ عمل اور جہاد کی ایک ایسی ڈائینامک جہت ہے جو باطل کے انہدام اور معاشرے میں حق کے ناقابل تسخیر قلعے کھڑا کرنے سے کم کسی چیز پہ قانع ہی نہ ہو.... ’روحانی تربیت‘ اس عمل کی اساس اور غذا ہے نہ کہ اس راستے کی سب سے آخری منزل۔
باطل کے ساتھ جنگ میں انسان کتنی ہی بار لڑکھڑاتا ہے۔ شکستہ حال ہو جاتا ہے۔ ہمت ساتھ چھوڑنے لگتی ہے۔ اس کو اس سہارے کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے گرنے سے پہلے سنبھال لے اور بیٹھتے ہوئے کو اٹھا دے۔ بے ہمتی کے حملوں سے اس کا تحفظ کرے.... یہاں، وہ روحانی قوت اور توانائی ہمارے سامنے آتی ہے جو ہر بار اس کے ایمانی وجود میں زندگی کی رمق بن کر دوڑ جایا کرے۔ جو اس کو ایمان پر ڈٹ جانے اور جم جانے میں مدد دے اور حق پر استقامت میں اس کی مددگار ہو.... اور اس کیلئے راستے کے اندر چلتے ہوئے قلب کی دُنیا میں روشنیاں کئے رکھے۔
باطل کے ساتھ جنگ میں انسان کسی وقت خوف اور اندیشوں کا شکار ہو جاتا ہے، خصوصاً جب دُنیا دشمنوں سے بھری ہو اور وہ خود کو ان کے مقابلے میں تنہا پائے یا پھر اپنے ساتھ کھڑے ہوؤں کو اپنے ہی جیسا مستضعف اور بے بس پائے جو اسے نصرت دینے سے عاجز ہوں.... یہاں وہ روحانی قوت اور توانائی ہمارے سامنے آتی ہے جس کی بدولت یہ خدا کا اُنس پاتا ہے تو پھر اس کا سب خوف اور وحشت چلی جاتی ہے.... جس کی بدولت یہ آخرت کے وہ پکے ہوئے ثمر اسی دُنیا میں دیکھنے لگتا ہے جو اس کی سعی کو ایک نئی مہمیز دے دیں۔
باطل کے ساتھ جنگ میں انسان دنیوی آسائشوں کا فقدان پاتا ہے۔ قبیلہ وخاندان اور دوستوں مددگاروں کی چہل پہل نہیں دیکھتا۔ آرام دہ بستر اور کام و دہن کی لذت کی اس راستے میں چلنے والے کیلئے کوئی ضمانت ہی نہیں۔ انسان کو یہاں یہ سب کمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں یا مل سکتی ہیں۔ زمینی لطف اور مفاد اپنی ایک کشش رکھتے ہیں اور اس کے پاؤں کی زنجیر بننا چاہتے ہیں.... یہاں وہ روحانی توانائی ہمارے سامنے آتی ہے جو زمین کی اس کشش ثقل کے مخالف سمت میں ایک کشش پیدا کرکے اس کے وجود کو ایک خاص توازن دیتی ہے۔ مادی محرومیتوں کے عوض اسے ایک نہایت اعلیٰ جنس کی دولت بخشتی ہے اور اس کے ذریعے یہ سب نقصانات پورے کروا دیتی ہے۔ یہ خدا کی معیت ہے اور خدا کا اس سے خوش ہوجانے کا احساس اور خدا کا وعدۂ جنت۔
یہ دراصل ایک ایسا زاد راہ ہے جسے لے کر انسان صحیح سالم راستے کی سب مسافت طے کرلے.... لیکن اگر انسان کو ’بیٹھا‘ ہی رہنا ہے اور راستے کی’مسافت‘ طے ہی نہیں کرنی تو پھر اس ’زاد‘ کی بھی کیا حقیقت!؟
تو کیا یہ روحانی ترقی تنہا اس بات کیلئے کافی ہے کہ اُمت کو اس تبدیلی سے ہمکنار کردے جو اس کو انحطاط کے اس درجہ اور اس کیفیت سے نکال لائے؟
بلاشبہ یہ کچھ افراد کو ضرور آج کی اس تباہ کن سرگردانی سے رہائی دلا سکتی ہے اور ان کے گرد کچھ ایسی شعوری فصیلیں کھڑی کر سکتی ہے جو ان کو کھلی کھلی بربادیوں سے تحفظ دے سکیں مگر اُمت کی سطح پر جو سرگردانی آج پائی جاتی ہے اور معاشرے کی سطح پر جو انحراف اس وقت دیکھا جا سکتا ہے اس کے مقابلے میں یہ بے اثر ہی رہے گی۔ یہ وہ سپاہ تیار نہیں کر رہی جسے یہ جنگ کے میدان میں لے کر اترے اور اپنے جانبازوں کو اس ’تدافع‘ میں شریک کرائے جو کہ ازروائے قرآن فساد سے زمین کے تحفظ کیلئے ایک خدائی سنت ہے:
وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَـكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ(البقرۃ: 251) | اگر ایسا نہ ہوتا کہ اللہ بعض انسانوں کو بعض انسانوں سے دفع کروایا کرے تو زمین کا نظام بگڑ جاتا مگر اللہ دُنیا والوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے |
٭٭٭٭٭٭٭
’جذبات جگانا‘ دعوتی عمل کے اندر بلاشبہ مطلوب ہے۔ ضرورت ہے کہ لوگ جس چیز پر ایمان رکھتے ہوں، اس کیلئے جوش اور غیرت کھائیں اور کاٹھ کی بے جان مورت نہ ہوں جو غضبناک ہونا جانیں اور نہ کسی بڑے سے بڑے واقعے پر ٹس سے مس ہونا۔ ایسے لوگوں کے بل پر ہرگز دعوت نہ پھیل پائے گی چاہے وہ کتنے ہی دیندار اور’ باشرع‘ کیوں نہ ہوں.... مگر جذبہ وحمیت تنہا وہ چیز نہیں جو آپ کو کسی کنارے پہنچا دے۔ حتی کہ بعید نہیں یہ فائدے سے زیادہ نقصان دہ ہو۔ کیونکہ جوش عموماً ہوش کی قیمت پہ ہوتا ہے۔ جذبات عموماً وہاں دیکھے گئے ہیں جہاں علمِ صحیح وراسخ روپوش ہو۔ ’زور‘ عموماً وہاں دیکھنے میں آیا ہے جہاں تجربہ کاری کا فقدان ہو۔ پس جہاں یہ صورتحال ہو وہاں ’جوش وجذبہ‘ اپنے وہ بہت سے خوبصورت امتیاز کھو دیتا ہے جن سے کہ دراصل اس کو مزین رہنا ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ’جوش وجذبہ‘ کی خوبیاں باقی نہیں رہتیں بلکہ اس کے نقصان دہ اثرات سامنے آنے لگتے ہیں خصوصاً اگر یہ ’جوش وجذبہ‘ ایک عصبیت اور حزبیت کی صورت دھارنے لگے۔ خواہ یہ عصبیت ایک خاص شخص کیلئے ہو یا خاص جماعت کیلئے یا خاص طبقے اور حزب کیلئے یا کسی خاص نظریے کیلئے یا کسی خاص مسلک یا مذہب کیلئے۔ تب یہ ’جوش وجذبہ‘ آدمی پر وہ سب راستے بند کر دیتا ہے جن سے کوئی نفع بخش دانائی کبھی اس کے در تک راہ پا سکتی ہو۔ تب ضد اور جھگڑے کی نوبت آتی ہے اور بات بات پر الجھنے کی اور اس بحث وجدال کی جو دین کے اندر حد درجہ مذموم ہے۔
اس وقت دینی کام کے میدان میں جو تفرقہ وانتشار اور سلسلہ ہائے مخاصمت دیکھنے میں آرہے ہیں اور چھوٹی چھوٹی جماعتیں بن رہنے کا جو رجحان ملاحظہ کیا جا رہا ہے اور ایک دوسرے ہی کے خلاف تنقید اور تنقیص کے محاذ سرگرم دیکھے جا رہے ہیں.... زیادہ تر اس کی تہہ میں ہمیں جوش وجذبہ کی وہ صورت نظر آتی ہے جو اپنی اصل جگہ چھوڑ بیٹھتی ہے اور اپنی حد سے تجاوز کر جاتی ہے، جس کے تحت آدمی سمجھتا ہے کہ جس چیز پر اس کا اعتقاد ہے وہ مطلق حق ہے اور اس کے ماسوا ہر چیز مطلق باطل!
٭٭٭٭٭٭٭
’فکری پختگی‘ ہر دور کے اندر ہی دعوت کے اخص الخاص لوازم میں سے ایک ہے۔ البتہ ہمارے اس دور میں تو یہ کسی بھی دور سے بڑھ کر ضروری ہے کیونکہ غموض اور ابہام اور جہالت کی جس دھند نے اسلام کی صورت آج ڈھانپ رکھی ہے اور لوگوں کے نفوس میں اسلام کے اصل حقائق کو روپوش کرا دیا ہے اور جس کے باعث اسلام کو آج اس غربت ثانیہ کے دور کا سامنا ہے.... دھندلاہٹ کی نہ صرف یہ ایک ایسی دبیز اور کثیف تہہ ہے جس کو ہٹانا آسان نہیں بلکہ یہ اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ اس نے اسلام کے ’بعض‘ نقوش نہیں قریب قریب ’سب‘ نقوش چھپا دیے ہیں۔ جس کے باعث آج یہ ضرورت آن ٹھہری ہے کہ اسلام کے اصل حقائق اور مفہومات کی ایک وسیع اور مکمل محیط تفہیم ہی ازسرنو کرائی جائے۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللہ کے مفہوم سے لے کر لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللہ کے تقاضوں تک پر لوگوں کے اذہان کو مرکوز کرا کر رکھ دیا جائے۔
لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللہ کے سب نواقض پھر سے ایک ایک کرکے پڑھائے جائیں اور یہ سب اسباق بار بار دہرائے جائیں۔ کیونکہ اس اوجھل پن کی زد میں جس قدر لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللہ کا مفہوم آیا ہے اور لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللہ کے تقاضے اور لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللہ کے نواقض اس کی زد میں آئے ہیں مفاہیمِ اسلام کا کوئی اور پہلو اس اوجھل پن کا اس شدت کے ساتھ شکار نہ ہوا ہوگا۔ گو اسلام کے سب کے سب مفہومات ہی برابرکے ضرورت مند ہیں کہ ان کو ذہنوں میں پختہ و راسخ کردیا جائے۔ خواہ وہ عبادت کا درست مفہوم ہو خواہ وہ قضا وقدر کا، خواہ دنیا وآخرت کی سعی کا، خواہ تعمیر ارض کا، خواہ تربیت کامفہوم ہو اور خواہ جہاد کا مفہوم....
ایک طرف اسلام کے یہ مفہومات ہیں جو ذہن وفکر کی پختگی کا ایک زبردست میدان ہیں تو دوسری طرف اُمت کی حالت موجودہ کی تشخیص کا علم ہے اور ان اسباب کا احاطہ جو اسے اس حالت کو پہنچا دینے کا باعث بنے۔ فہم وفکر کے اس پہلو میں پختگی پیداکئے بغیر بھی ہم قاصر ہی رہیں گے کہ آج دعوتی عمل کیلئے کوئی لائحۂ عمل وضع کر سکیں۔ مرض کی گہرائی سے ناواقف رہیں گے تو سطحی تدبیریں ہی کرتے رہیں گے اور علاج کے صحیح ذرائع تک رسائی نہ کر پائیں گے۔ اُمت کا معاملہ آج جس صورتحال سے دوچار ہے بہت کم لوگ ہیں جو اس کی اصل حقیقت کا ادراک رکھتے ہوں۔ بیشتر لوگ اس کے ادراک سے قاصر ہیں بے شک وہ اجمالی طور پر جانتے ہوں کہ اُمت آج اس حالت پر نہیں جس پر اسے ہونا چاہیے اور بے شک وہ یہ بھی مانتے ہوں کہ اس صورتحال کا باعث اُمت کے ایک بڑے طبقے کا اسلام کی حقیقت سے ناآشنا رہنا ہے مگر یہ کہ یہ ’ناآشنائی‘ کس سطح کی ہے اور اس کی گہرائی کہاں تک جاتی ہے، یہ بات چارہ گروں کی اکثریت پر آج مخفی ہے۔ اُمت کا ’اس حالت پر نہ ہونا جس پر اسے دراصل ہونا چاہئے ‘ آج کس درجے اور کس نوعیت کا ہے اور اس مسئلے کی نزاکت اور سنگینی کی کیا کیا جہتیں ہیں، اصل سوال یہ ہے اور اس کا جواب دینے پر یہاں کے اکثر معالج قدر ت نہیں رکھتے!
پھر اس ذہنی وفکری پختگی کا ایک تیسرا پہلو ہے اور وہ ہے دشمن کی پہچان۔ اعداءکا وہ کیدومکر اور ان کے وہ منصوبے جو وہ اسلام کو روئے زمین سے مٹا دینے کیلئے اپنائے ہوئے ہیں.... اس کید و مکر کے حجم اور نوعیت اور انکے طریقہ واردات کی بابت بصیرت۔ آج لوگوںکی اکثریت بلکہ داعیوں کی اکثریت واقعات کی ان سب کڑیوں کو ملانے سے قاصر ہے جو اس عالمی اور علاقائی منظرنامے کی اصل تصویر دکھانے کیلئے ملائی جانا ضروری ہیں۔ سازشیں جو نئے سے نئے پینترے بدلتی ہیں اور حیلے ہتھکنڈے ہاتھ کی جس صفائی سے پیش آتے ہیں اکثر لوگ بلکہ اکثر داعی ان کی نوعیت جاننے سے قاصر ہیں بے شک وہ عمومی طور پر یہ جانتے ہی ہوں کہ ’یہود ونصاریٰ ہمارے دشمن ہیں‘، اور یہ کہ ’وہ اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں سے کبھی نہ رکیں گے‘! صرف یہ جاننا کافی نہیں! بہت سے پھندے جن میں اسلامی جماعتوں کو دھیرے دھیرے غیر محسوس انداز میں کھینچ لایا جاتا ہے اور وہ بہت سے مواقف جن کو اپنانے کی جانب دینی جماعتوں کو ’راہ‘ دکھائی جاتی ہے اور جو کہ دعوت کیلئے بعد ازاں بے حد ضرر رساں ثابت ہوتے ہیں اس کا سبب داعیوں اور قیادتوں کی وہ لاعلمی ہے جو ان کو دشمن کے حیلہ ومکر کی حقیقت اور نوعیت کی بابت لاحق ہے۔ جبکہ اعدائے اسلام اپنے ذرائع اور وسائل سے کام لے کر اسلام پسندوں کی سب سرگرمیوں سے مطلع رہتے ہیں اور مسلسل پوری دقت کے ساتھ اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ عالم اسلام میں کس کس قسم کی پیش رفت ہو رہی ہے اور کس کس طرح کے افکار اور تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ وہ بڑی ہوشمندی کے ساتھ منصوبے بناتے ہیں اور ہمیں تب پتہ چلتا ہے جب ’چوٹ‘ پڑتی ہے!
درست ہے کہ اس فکری پختگی کا پیدا کیا جانا آج اس وقت دعوت کے اخص الخاص لوازم میں سے ایک ہے۔ لیکن یہ ’فکری پختگی“ اکیلی کافی نہیں کہ تحریک کی دُنیا میں کوئی حقیقی تبدیلی لے آئے۔ اس فکری پختگی کا جو کردار ہوگا وہ یہ کہ یہ راسخ عقیدہ کے ہمراہ میدان میں اترے اور ایک ہوشمند تحریک کا زاد راہ بنے۔
’تحریک‘ کی ضرورت اپنی جگہ برقرار ہے۔ اسے جو کام کرنا ہے وہ یہ کہ یہ تحریک کا راستہ روشن کرے، اس میں بصیرت کی جوت جگائے اور راستے کی رکاوٹوں کو اس پر واضح کرے۔ رہا یہ کہ جب یہ ’فکر‘ محض ایک ’ذہنی عمل‘ بن کر رہ جائے اور معلومات کا انبار بن جائے تو پھر یہ ایک ذہنی عیاشی ہے جس کو نفوس کے اندر کوئی ہلچل مچانا ہے اور نہ دُنیائے واقع کے اندر کوئی انقلاب برپا کرنا۔
٭٭٭٭٭٭٭
’جہادی تربیت‘ بلاشبہ تحریک کے لوازم میں سے ایک ہے۔ سہل مزاج طبعتیں جو مجاہدانہ جفاکشی کی خوگر نہ ہوں دعوت کا بار نہیں اُٹھا سکتیں۔ ان کانٹوں کے بیچ سے نہیں گزر سکتیں جو دعوت کی راہ میں بچھا دیے جاتے ہیں۔ ان وحشی درندوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکتیں جو داعیوں پر خونخوار انداز میں غراتے ہیں اور جب بھی موقعہ ملے ان پر بے دردی سے جھپٹتے ہیں اور ہزار انداز سے ان پر ستم ڈھاتے ہیں۔
مگر یہ مجاہدہ اور جفاکشی کی یہ تربیت اور یہ سخت کوشی اور یہ جرات اقدام تنہا اس بات کیلئے کافی نہیں کہ یہ ایک دعوت کھڑی کردے۔ بلکہ یہ تنہا اس امر کیلئے بھی کافی نہیں کہ یہ دشمنوں سے دعوت کا تحفظ کردے۔ بسا اوقات تو یہ دشمن کو ایک زیادہ بڑی اور زیادہ بہیمانہ کارروائی کرنے پر ابھارتی ہے خصوصاً اس وقت جب اس مجاہدہ اور جرات اقدام میں سیاسی بصیرت اور تحریکی پختگی کی کمی ہو اور جب اس چیز کا فہم نہ پا یا جائے کہ اس کشمکش میں پورا اترنے کیلئے جہد کی نوعیت دراصل ہے کیا۔
سب سے خطرناک بات جو ان تحریکوں سے کسی نہ کسی وقت سرزد ہو جاتی ہے جن کا کل زور جہادی تربیت پر ہی ہوتا ہے یا پھر یہ کہ وہ تربیت کے اس پہلو پر توجہ کچھ اس قدر زیادہ مرکوز کراتی ہیں کہ تربیت کے باقی سب پہلو حاشیائی ہو جاتے ہیں.... وہ سب سے خطرناک بات جو ان تحریکوں سے سرزد ہو جاتی ہے یا ہو سکتی ہے وہ یہ کہ معاشرے کے اندر یہ ’تصادم‘ کا راستہ جا اختیار کریں یا پھر یہ کہ ایک غیر محسوس طریقے سے ان کو ’تصادم‘ کی جانب کھینچ لایا جائے جبکہ ’باعثِ نزاع‘ اور ’موضوعِ کشمکش‘ ابھی عین نکھر کر سامنے آیا ہی نہ ہو اور جو کہ لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا بنیادی قضیہ ہے اور جبکہ سبیل المجرمین ابھی واضح ہی نہ ہوا ہو جیسا کہ کتاب اللہ میں بات کی گئی ہے۔(2) تب اس بات کا موقعہ اٹھا کر دعوت پر ایک کاری ضرب لگائی جاتی ہے اور لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں کہ ’ہوا کیا ہے‘ جبکہ ضروری یہ ہے کہ کشمکش کا عنوان ہرکس وناکس کو معلوم ہو اور کسی کیلئے یہ ’سمجھ سے باہر‘ نہ ہو کہ دو فریقوں میں کس بات پر ٹھنی ہوئی ہے۔ تب ہی طاغوتوں کو ’عوام‘ کو بے وقوف بنانے کا موقعہ ملتا ہے کہ ’ہم اسلام کے خلاف نہیں ’دہشت گردی‘ کے خلاف برسر جنگ ہیں‘!
٭٭٭٭٭٭٭
یہ وہ سب وجوہات ہیں جن کے باعث ہمیں اصرار ہے کہ یہاں ایک ایسے تربیتی عمل کی ضرورت ہے جو اپنی ایک مدھم رفتار میں آگے بڑھے مگر ہو وہ اس قدر وسیع کہ تربیت کے ان سب جوانب پر محیط ہو.... جو سب سے پہلے وہ ’بنیادی ایمانی جمعیت‘ پیدا کرے جوکہ اس عمل کا نقطۂ اساس ہے اور پھر آہستگی مگر پوری جان کے ساتھ ’توسیعِ جمعیت‘ کرنے پہ لگ جائے۔ اس پورے عمل میں کئی نسلیں بھی لگ جائیں تو کوئی بڑی بات نہیں!
اصل بات دیکھنے کی یہ ہوگی کہ ’چیز‘ کیسی تیار کی جا رہی ہے اور وہ ہے کتنی ضروری۔
بیماریوں کا وہ پورا مجموعہ جو اس اُمت کے وجود کو لاحق ہو چکا ہے اور جس نے اس کو ’سیل آب کے خس وخاشاک‘ کی نوبت کو پہنچا دیا ہے، اور پھر اس نوبت کو پہنچا دینے کے بعد صدیوں کے دشمن کو ’کھانے کے اس تھال‘ پر ٹوٹ پڑنے کی دعوت دی ہے.... بیماریوں اور روگوں کا یہ پورا مجموعہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے کہ اس کا کچھ سطحی سا علاج کردیا جائے۔ نرا وعظ، محض روحانی تربیت، محض جذبہ جگا دینا، محض فکری پختگی پیدا کرتے رہنا، صرف جہادی تربیت.... ان میں سے کوئی ایک علاج ایسا نہیں جو تنہا اس مریض کو شفایاب کرا لائے۔ ان میں سے جس چیز کو بھی آپ اس انداز میں اختیار کریں گے کہ بس اسی پر زیادہ زور ہو اور اس ڈر سے کہ ’پورا کام‘ تو بہت وقت لے لے گا بس اسی ایک علاج کو ہی فوری نسخہ جان کہ جلد کوئی نتیجہ برآمد کرنے کی کوشش کریں گے.... ہوتا یہی رہے گا کہ آپ ایک مسئلہ سے نکلیں گے تو کسی دوسرے مسئلے سے دوچار ہو جائیں گے!
اس وقت جو کام ہمارے سامنے ہے وہ ہرگز یہ نہیں کہ ایک ٹھیک ٹھیک عمارت کی کہیں کہیں سے بس کچھ مرمت کر لی جائے.... ہمیں جس چیز کا سامنا ہے وہ یہ کہ ایسی عمارت جو قریب تھا کہ ڈھ جائے اس کی بنیاد کو ازسرنو پختہ کردیا جائے۔ ایک ایسی عمارت جس کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہوں اس پر اوپر اوپر سے مرمت کا آپ جتنا بھی کام کریں گے وہ بڑی حد تک بے فائدہ رہے گا۔
بات بہت سیدھی ہے....
اس دین کی بنیاد اور اساس لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللہ ہے:
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء۔تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ۔(ابراہیم: 24- 25) | کیا تم نے نہیں دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان کی کلمۂ طیبہ کی۔ مانند ایک شجرۂ طیبہ کے، جس کا تنا جما ہوا ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچتی ہیں۔ وہ اپنا پھل اپنے رب کے حکم سے ہر وقت دیتا ہے۔ ایسے ہی اللہ لوگوں کیلئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ اسباق لیں۔ |
سوال صرف ایک ہے۔ بس اسی کا جواب دے لیجئے مگر جواب بہت واضح اور صریح اور بے لاگ ہونا چاہیے جس میں آپ نے کوئی التباس نہ رہنے دیا ہو۔ سوال صرف اتنا ہے کہ آپ کا یہ معاشرہ ___ الاماشاءاللہ ___ لا ٓاِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی حقیقت کا فہم اور ادراک بھی آیا رکھتا ہے.... یا نہیں؟؟
اس کا جواب میری نظر میں تو واضح ہے....
عام ’معاشرے‘ اور ’لوگوں‘ کی تو بات چھوڑیں داعیوں کی ایک کثیر تعداد آج ایسی ہے جن پر لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے مفاہیم اور لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے تقاضے واضح نہیں اور گرد کی ایک دبیز تہہ نے ان مفہومات اور ان تقاضوں کو ان سے ڈھانپ رکھا ہے۔ خاص طور پر جہاں تک لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے نواقض کا تعلق ہے کیونکہ یہ داعی خود بھی ارجائی فکر، جس نے کہ عمل کو مسمائے ایمان سے خارج کر رکھا ہے، کے اثرات سے ابھی آزاد نہیں ہو سکے۔
داعیوں کی کثیر تعداد آج ایسی ہے جو ابھی یہ تعین نہیں کر پائی کہ یہ جسے ’معاشرہ‘ یا ’عوام‘ کہتے ہیں اس کو راہ راست پہ لے آنے کا چیلنج آج ہے کس نوعیت اور حجم کا اور یہ کہ اسلام سے اس معاشرہ کی دوری ہے کس سطح کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان تحریکوں نے ’مجمع‘ اکٹھا کرنے کی جلدی کی اور ان کو لے کر ’جادہ پیما‘ ہو جانے میں عجلت سے کام لیا جبکہ ابھی ان داعیوں اور تحریکوں پر وہ مسئلہ اور اس مسئلہ کی نوعیت واضح ہی نہ ہوئی تھی جس کی بنیاد پر ان معاشروں کو دعوت دی جانا تھی اور جس پر ان کو اکٹھا کیا جانا اور ساتھ چلایا جانا تھا!
یہ وجہ ہے جو ہمیں اصرار ہے کہ اس معاملہ کا نقطۂ ابتداء’بنیادی ایمانی جمعیت‘ کی تیاری ہے عین اس نہج پر جس پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی وہ ٹھوس بنیادی جمعیت ابتدا کے اندر تیار کی تھی، بے شک ہم یہ جانتے ہیں یہ ناممکن ہے کہ آج تیار کی جانے والی ایسی کوئی جمعیت اس معیار کو پہنچے جس کو رسول اللہ ﷺ کی تیار کردہ اولین جمعیت پہنچی تھی! بلکہ یہ تو مطلوب بھی نہیں کہ بعد کی کوئی نسل اسلام کی اس اولین نسل کے معیار کو پہنچے۔ معیار وہی ہو، یہ شرط نہیں، البتہ نہج کی بات اور ہے۔ نہج وہی ہو، یہ البتہ شرط ہے۔ ’معیار‘ بدلتا رہنے والی چیز ہے مگر ’منہج‘ ایک آفاقی چیز ہے۔ اس کو بہرحال نہیں بدلنا۔ اس ’منہج‘ کی بنیاد پر ’تربیت‘ دی جانا ایک آفاقی ضرورت ہے اس کو بہرحال نہیں بدلنا، چاہے اس ’نہج‘ پر تربیت دینے اور تربیت لینے والے پھر جس بھی ’معیار‘ کو پہنچیں ”اور ہر ایک ہی کیلئے ان کے عمل کے بقدر درجات ہیں“۔ (3)
اب جب اس ٹھوس بنیادی جمعیت کی تیاری ہوگی تو اس کا پہلا سبق لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللہ ہوگا.... علم میں، عمل میں اور اس کے تقاضوں کی بنیاد پر تربیت پانے میں۔ یہ سبق پڑھی ہوئی اور اس کی بنیاد پر تیاری پانے والی ’اساسی جمعیت‘ پھر ’توسیع شدہ‘ جمعیت کو وجود میں لائے گی اور اس کو ساتھ لے کر چلے گی.... اُس وقت جب ’عوام‘ کو دعوت کے گردا گرد اکٹھا کرکے ’چل پڑنے‘ کا وقت آئے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭