دعوتی عمل کے ان مراحل میں سے ایک مرحلہ پھر ’توسیعِ جمعیت‘ بھی ہے، جس میں کہ دعوت کا رخ ’عوام‘ کی طرف پھیر دیا جاتا ہے۔
جہاں تک اسلام کی اولین جماعت کی زندگی میں اس مرحلہ کا تعلق ہے (ہماری مراد رسول اللہ ﷺ کی جماعت سے ہے) تو یہ ہمیں اہل مدینہ اور اس کے گرد ونواح کے اعراب کے ایک بڑی تعداد میں داخل اسلام ہونے کے واقعے میں نظر آتا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے اس اصل جمعیت کی تشکیل کر لی گئی تھی جو کہ خواص مہاجرین اور انصار سے مل کر بنی تھی۔ یہ ’مابعد توسیع‘ کا عنصر ہے جس کی بابت قرآن مجید کی اس آیت کا اشارہ ہے:
مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُواْ عَن رَّسُولِ اللّهِ وَلاَ يَرْغَبُواْ بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ (التوبۃ:120) | مدینہ کے باشندوں اور گرد ونواح کے دیہاتیوں کو یہ ہرگز زیبا نہ تھا کہ رسول اللہ کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہیں اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمجھیں |
چنانچہ یہ لوگ سپاہی اور رضاکار تھے۔ دعوت سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہوئے تھے۔ دلوں میں خلوص تھا۔ دشمن سے اس دعوت کے تحفظ کیلئے آگے بڑھے تھے اور اس کی کامیابی کیلئے سنجیدگی سے کوشاں تھے۔ یہ کوئی ’عوام کا بے قابو مجمع‘ ہرگز نہ تھا۔ یہ کوئی معاشرہ کا وہ طبقہ نہ تھا جسے آج کی جاہلیت ’سڑکوں پہ نکل آنے والی خلقت‘ کے حوالے سے جانتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی جاہلیت معاشرے کی ایک بڑی تعداد کو اس حوالے سے جاننے میں واقعتاً حق بجانب ہے۔ ’سڑکوں پہ نکل آنے والی خلقت‘ وہ خلقت ہے جس کی نہ اپنی کوئی شخصیت ہوتی ہے نہ اپنی سوچ اور نہ خود اپنا کوئی موقف۔ نہ ہی اس کی کوئی اپنی فکری روش ہوتی ہے جس میں استقلال اور استقرار پایا جائے۔ یہ وہ ’ردعمل‘ کی پیداوار ’عوامی رو‘ میں بہنے والی خلقت ہوتی ہے جس کو کہ حدیث میں اِمّعۃ کہا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: لا تکونوا اِمعۃ، تقولوا: اِن أحسن الناس أحسنا، و اِن أساؤوا أسأنا۔ ولکن وطنوا أنفسکم ان أحسن الناس أو أساؤا ألا تظالموا (رواہ الترمذی) ”امّعہ (بے شخصیت) نہ بنو کہ کہنے لگو لوگ بھلائی کریں تو ہم بھی بھلے آدمی ہوں گے۔ لوگ بُرائی کرنے پر آئیں تو ہم بھی بُرا بن کر دکھائیں گے۔ بلکہ (ہونا یہ چاہیے) کہ لوگ بھلے ہوں یا بُرے تم اپنا نفس مار کر باہم ظلم وزیادتی سے دستکش ہی رہو“ چنانچہ یہ وہ ’خلقت‘ ہوتی ہے جو ذرائع ابلاغ کی پیداوار ہوتی ہے۔ ذرائع ابلاغ پہلے اس کو بناتے ہیں۔ پھر اس ’رائے عامہ‘ سے رجوع کرتے ہیں اور اس کا ’موقف‘ جاننے کیلئے سروے کرتے ہیں جو کہ عین وہی ہوتا ہے جو کہ خود اسی نے اپنے ہاتھوں بنایا ہوتا ہے!
چنانچہ یہ وہ لوگ نہ تھے جن کے بل پر اسلام کی اس اولین جمعیت کی توسیع ہوئی تھی۔ اس دعوت کے کسی بھی مرحلہ میں ایسے لوگ نہیں تھے۔ یہ مخلص رضاکار تھے جن کے ذریعے یہ توسیع ہوئی تھی۔ یہ اپنا آپ اس دعوت کیلئے وقف کررہے تھے اور اس کو ایک باقاعدہ پروگرام اور زندگی کی ایک باقاعدہ روش کے طور پر اپنا کر اس دعوت کے خدمت گار اور مددگار بنتے تھے۔
یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ: اس ’توسیع شدہ جمعیت‘ اور اس ’اولین جمعیت‘ میں پھر کیا فرق ہوا جسے ہم نے پیچھے ’مضبوط ایمانی جتھا‘ کے نام سے ذکر کیا؟ مختصراً ہم یہ کہیں گے کہ وہ ’اولین جمعیت‘ اس لئے تھی کہ اس عمارت میں بنیادوں اور ستونوں کا کام دے۔ ایک طرح سے یہ ’قیادت‘ تھی۔ یہ قیادت کی ایک پوری کھیپ تھی۔ ایک ایسی مضبوط قیادت جو پیچھے لگنے والوں کا خودبخود ایک رخ بنا دیتی تھی۔ اور انہی پہلے والی بنیادوں پر بعد میں آملنے والوں کی تربیت کر سکتی تھی۔ رہی یہ ’توسیع شدہ جمعیت‘ تو یہ وہ لوگ تھے جو اس اولین جمعیت کی صدا پر لبیک کہہ چکے تھے، ان کی دعوت کا پابند ہونا قبول کر چکے تھے اور اسی کے عَلَم کے نیچے آجانا اور اسی کے وجود میں اپنا وجود گم کر دینا قبول کر چکے تھے اور اسی کے ساتھ اور اسی کے دیے ہوئے رخ پر چلنے پہ آمادہ تھے۔ نہ کہ محض تماشائی جو معاشرے کی رو میں بہنے والے ہوں اور بس اس بات میں دلچسپی رکھتے ہوں کہ دیکھیںیہاں جیت کس کی ہونے والی ہے۔
ایک بار پھر، یہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ ’تربیت کے منہج‘ کے لحاظ سے یہاں کیا فرق ہے؟ وہ محنت جو ’اولین جمعیت‘ کی تیاری پہ کی جانا ہے اور وہ محنت جو ’توسیعِ جمعیت‘ کی صورت اس دوسرے مرحلہ میں کی جانا ہے، ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ محتصراً اس کے جواب میں ہم کہیں گے: یہ فرق درجہ کا ہے نہ کہ نوع کا۔ ایک معلم جب تعلیم دیتا ہے تو ’بطورِ تعلیم‘ وہ اپنے طالبعلموں کو ایک ہی چیز دیتا ہے۔ علم وہی علم ہے۔ البتہ کچھ خاص ہونہار شاگردوں کو وہ اس علم کے ایک خاص درجہ پر لے جاتا ہے اور ان کو ایک خاص درجہ کی توجہ دیتا ہے کیونکہ انکی استعداد دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ اور ان سے اس کا تقاضا دوسرے طالب علموں کی بہ نسبت کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔ استاد ان سے اس درجہ کی کارکردگی قبول نہیں کرتا جسے وہ کچھ ایسے شاگردوں سے قبول کر لیتا ہے جن کی استعداد اس سے بڑھ کر اجازت نہیں دیتی۔ اگرچہ اپنی اہلیت کے بقدر پاس ہونا ہر کسی سے مطلوب رہتا ہے۔
کوئی اگر یہ پوچھنا چاہے کہ کیا ان دونوں میں کوئی فیصلہ کن انداز کی حدِ فاصل ہے؟ اور یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ ’توسیع شدہ جمعیت‘ میں کچھ ایسے لوگ پائے جائیں جو قیادت اور رخ دینے کی استعداد رکھتے ہوں جبکہ ’اولین جمعیت‘ میں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جائیں جن کی ہمت یا استعداد اس درجہ تک پہنچنے میں ناکافی ثابت ہو جائے؟ تو ہم کہیں گے کہ واقعتاً ایسا ممکن ہے اور اس صورت میں حق بنتا ہے کہ ایک بااستعداد آدمی اس صف میں شامل ہو جو دعوت اور تربیت کے عمل کو ایک رخ اور ایک جہت دیتی ہے اور یہ کہ جس آدمی کی اہلیت یا استعداد کسی وقت جواب دے جائے وہ اسی کے بقدر پیچھے آجائے، جس کا کہ صحیح تعین کرنا انہی لوگوں کا کام اور اجتہاد ہوگا جو اس امر کے مسؤول ہوں، اگرچہ انکا اجتہاد کسی وقت درست بھی ہو سکتا ہے اور کسی وقت غلط بھی .... البتہ ہماری یہ گفتگو عمومی طور پر اس حوالہ سے ہے کہ دعوت کیلئے کھڑی کی جانے والی ’بنیادی جمعیت‘ اصولاً ایک خاص درجہ کی محنت چاہتی ہے اور اس کی تیاری پر ایک بہت ہی خاص انداز کی توجہ مرکوز کر دی جانا لازم ہوتی ہے۔ دیوار کے اندر بنیادی ستون اٹھانا بہرحال ایک مختلف اور خاص نوعیت کا کام ہے بہ نسبت دیوار کے باقی ماندہ حصہ کے، اگرچہ ’اینٹ‘ کا استعمال دیوار کے دونوں حصوں میں کیوں نہ ہوتا ہو۔ یہ بات ہر قسم کی ’دیوار‘ اٹھانے کے معاملہ میں ہی سچ آتی ہے اور یہ ایک بدیہی حقیقت ہے۔
معاملہ صرف اتنا ہے کہ یہاں ہم ایک امر پر توجہ مرکوز کرا دینا چاہتے ہیں اور وہ واقعتاً اس قدر اہم ہے کہ اس پر تمام تر توجہ مرکوز ہو جائے اور وہ یہ کہ نئے مددگاروں کو صلائے عام دینا اور ان کے بل پر توسیعِ جمعیت کا عمل سرانجام دینا ایک بنیادی جمعیت کو وجود میں لے آنے کے بعد ہی ہونا چاہیے۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ تعلیم پانے والوں سے پہلے تعلیم دینے والوں کا پایا جانا یقینی بنایا جائے۔ ’رخ دینے‘ والے پہلے ہونے چاہئیں اور پھر لوگوں کو کہا جائے کہ وہ ’رخ لینے‘ کیلئے آگے بڑھیں۔ البتہ اگر اس سے پہلے ہی ہم صلائے عام دے دیں اور لوگ ہماری آواز پہ لبیک کہتے ہوئے آجائیں، جبکہ وہ کھیپ موجود ہی نہ ہو جو ان کو عین وہ رخ دے دے جس کا کہ اسلام اس وقت اور زمانے میں تقاضا کرتا ہے تو لوگوں کا لبیک کہہ لینا اس کھیپ کے بغیر کس کام کا؟
دوسری بات جس پر ہم توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں یہ کہ: قدرتی طور پر وہ ذریعہ جو ’توسیعِ جمعیت‘ کے عمل میں ___ جب بھی اس کا وقت آئے ___ اختیار کیا جائے گا وہ ذریعہ ہے دعوتِ عام جو کہ سب لوگوں کو دی جائے گی۔ یعنی معاشرہ کا وہ طبقہ جسے آج کی اصطلاح میں ’عوام‘ کہا جاتا ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ دعوت پہ لبیک کہنے کے معاملہ میں عوام سب کے سب ایک ہی درجہ پر نہ ہوں گے۔ ’عوام‘ میں ایسے بھی ہوں گے کہ جن کو جب دعوت صاف شفاف اور اجلے نکھرے انداز میں دے دی جائے تو وہ ایمانِ صادق کے ساتھ اس کی جانب بڑھیں گے اور دعوت کی کامیابی کی راہ میں جانباز سپاہی بن کر آئیں گے اور اپنے اس عمل سے محض اور محض خدا کی خوشنودی کے ہی خواستگار ہوں گے .... ’عوام‘ میں ایسے بھی ہوں گے جو دعوت کی جانب آئیں گے مگر ’نفع نقصان‘ کا خیال رکھتے ہوئے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ دعوت میں شامل ہونے کے کیا فوائد ہیں اور اس کے کیا کیا ’نقصانات‘ ہو سکتے ہیں .... ’عوام‘ میں ایسے بھی ہوں گے جن کو سوائے اس بات کے کسی امر سے غرض نہ ہو کہ ’غلبہ‘ کون پاتا ہے۔ یہ فریق ہر قسم کی کشمکش سے دستکش رہے گا نہ اِس جانب اپنا وزن ڈالے گا اور نہ اُس جانب۔ یہ ’تیل دیکھو اور تیل کی دھار‘ پہ یقین رکھنے والا گروہ جو بسا اوقات ’خبروں‘ سے ’محظوظ‘ ہونا اور بے پروائی سے تبصرے کرنا تک روا جانتا ہے یہاں تک کہ معاملہ آخرکار پھر کسی کروٹ بیٹھ جائے تو تب جا کر ان کی ’طرف داری‘ کے ظہور میں آنے کا وقت آتا ہے جس کے پیچھے کوئی ایسا عامل کارفرما نہیں ہوتا کہ یہ کسی بات کی تائید ونصرت اس کے اصولوں کی حقانیت کو دیکھ کر اور اس کی جانب ایک قوی اندرونی میلان کے باعث کرتے ہوں۔ یہ وہ فریق ہے جو حالات کی زبان پڑھنا اور سننا جانتا ہے اور نفسیاتی طور پر صرف یہ بات قبول کرنے پر ہی تیار ہوتا ہے کہ ’حالات‘ کیا کہتے ہیں۔ جو چیز ابھی وجود میں نہیں آئی اور جس کے وجود میں آنے کیلئے ڈھیروں وقت اور محنت درکار ہو وہ ان کیلئے قابل توجہ نہیں ہو سکتی قطع نظر اس کے کہ وہ کتنا صحیح ہے اور کتنا غلط۔ البتہ وہ چیز جو بالفعل پائی جاتی ہے اور جو کہ حالات کا رخ ہے وہ خودبخود ان لوگوں کو اپنے ساتھ چلاتی ہے جبکہ یہ فریق کسی تبدیلی کیلئے محنت کرنے کا روادار ہی نہیں خاص طور پر اس وقت جب ایسی کوئی محنت آدمی کیلئے خطرات کا پیش خیمہ بھی ہو .... چنانچہ معاشرے کا یہ فریق دعوت کا ساتھ دینے پر اس وقت تک تیار نہ ہوگا جب تک کہ دعوت کو لبیک کہنا ’حالات کا تقاضا‘ نہ بنا دیا جائے اور جس کا ساتھ دینا کوئی خاص ’محنت طلب‘ کام نہ رہے اور نہ ہی اس راستے میں آدمی کو خطرات نظر آرہے ہوں۔
یہ تینوں قسم کے فریق ہر معاشرے میں ہی پائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں کے تینوں خود رسول اﷲ ﷺ کے معاشرہ میں بھی پائے جاتے تھے:
پہلا فریق __رسول اللہ ﷺ کے دورِ مدنی میں __وہ طبقہ بنتا ہے جو دعوت پر ایمانِ صادق لے کر آیا تھا اور جانفروشی کے ساتھ اس دعوت کی کامیابی کیلئے اپنے آپ کو پیش کر رہا تھا۔ معاشرہ کا یہ طبقہ ہدایت لینے اور اتباع و اقتدا کرنے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ مہاجرین وانصار کی قیادت قبول کر چکا تھا۔ یہ معاشرہ کا وہ طبقہ ہے جن کا ذکر ’پیچھے آنے والوں‘ کے حوالہ سے آیت (التوبہ: 100)میں ملتا ہے:
”وہ مہاجر وانصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اﷲ ان سے راضی ہوا اور وہ اﷲ سے راضی ہوئے۔ اﷲ نے ان کیلئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی عظیم الشان کامیابی ہے“
اسی طبقہ میں ’اعراب‘ کا وہ فریق بھی آتا ہے جو صدق دل سے ایمان لایا تھا اور ایمانی رحجانات کو سنجیدگی سے قبول کر چکا تھا۔ اسی کی جانب اس سے اگلی آیت میں اشارہ ملتا ہے:
”انہی اعراب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اﷲ کے ہاں تقرب کا اور رسول کی طرف سے رحمت کی دُعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ہاں وہ ضرور ان کیلئے تقرب کا ذریعہ ہے اور اﷲ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ یقیناً اﷲ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے“
دوسرا فریق وہ نظر آتا ہے جن کی رسول اﷲ ﷺ تالیفِ قلب فرمایا کرتے تھے اورا ن کو کچھ دے دلا کر اور تعلقات اور سماجی بندھنوں کو کام میں لا کر ان کو ایمانی دھارے کے ساتھ چلا لیتے تھے۔ مصارفِ زکات کے حوالے سے اسی طبقہ کی طرف اس آیت کا اشارہ ملتا ہے: إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ(التوبۃ: 60) ”یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کیلئے ہیں اور ان لوگوں کیلئے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں، اور ان کیلئے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو“۔
جبکہ تیسرا فریق (ایک بڑی سطح پر) ہمیں وہ نظر آتا ہے جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوتا ہے۔ فتح کی صورت میں جب یہ معاملہ اپنی آخری کروٹ بیٹھ جاتا ہے اور ’حالات‘ کا فیصلہ اسلام کے حق میں ہوجاتا ہے تو یہ فریق اسلام میں آجاتا ہے جبکہ رسول اﷲ ﷺ کا صاف صاف حق پر ہونا یہ تمام تر عرصہ ان پر واضح ہی تھا۔ مگر اس وقت ___ جیسا کہ قرآن نے ان کی اپنی زبانی بات کی ___ ان کو یہ فکر دامن گیر تھی کہ وَقَالُوا إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا (القصص: 57) ”کہنے لگے اگر ہم آپ کے ساتھ ہو کر ہدایت کے متبع ہو جائیں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں گے“) مگر اب جب خود یہ ’ہدایت‘ ہی ملک میں تمکین پا چکی تھی تو یہ اس کی اتباع پر تیار ہو گئے اور خدا کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگے۔ جیسا کہ سورۃ النصر میں آتا ہے إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ۔وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا۔فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا۔ ”جب اﷲ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہوجائے اور (اے نبی) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج درفوج اﷲ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اس سے مغفرت کی دُعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے“۔
ابھی منافقین کا طبقہ الگ ہے جو کہ مسلم معاشرے کے ان تینوں فریق میں شمار نہیں ہوتا اور جو کہ معاشرہ کے اندر اسلام کا اقتدار قائم ہو جانے کے بعد نمودار ہوا کرتا ہے اور جو کہ اسلام کا اقتدار مستحکم ہو جانے سے ماقبل مرحلہ کو تماشائی بن کر گزارتے ہیں اور اسلام کی مضبوطی کے خلاف دل میں جلتے ہیں اور جو کہ اسلام کو قبول کرنے کے دعویٰ میں ہی جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں یا وہ لوگ جو اتنی ہمت اور جرات نہیں پاتے کہ منہ پر انکار کردیں اور یوں وہ اپنے کفر کو دلوں میں چھپا کر رکھنا ہی اپنے لئے مناسب تدبیر جانتے ہیں۔
اب اگر یہ درست ہے کہ ہر معاشرہ کے اندر ہی یہ سب طبقے پائے جاتے ہیں تو پھر ’توسیعِ جمعیت‘ کے مرحلہ میں (دعوت کو عوام میں لے آنے کے مرحلہ میں) یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ دعوت کا رخ سب سے پہلے معاشرہ کے کس طبقہ کی طرف کیا جائے؟ نظری طور پر theoratically ہم دعوت کا رخ سبھی لوگوں کی ہی جانب رکھیں گے مگر درحقیقت دعوت پہ لبیک کہے جانے کی توقع ہم لوگوں کے ایک خاص طبقہ سے ہی کریں گے۔ سو عملاً دعوت کا رخ اسی طبقہ کی جانب مرکوز ہو جائے گا۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس دعوت کو قوت اور تمکنت ’عوام‘ کے ایک خاص طبقہ کے ہاتھوں ہی ملے گی لہٰذا عملاً دعوت زیادہ اسی طبقہ پر ہی مرکوز ہو جائےگی۔
چنانچہ اگر ہم اسلام کی اولین جماعت (رسول اﷲ ﷺ کی تیار کردہ جماعت) کے عملی مراحل کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جب سے (”فاصدع بما تؤمر“ کی صورت) رسول اﷲ ﷺ کو کھل کھلا کر اعلانِ توحید کا حکم دیا گیا تب سے دعوت کا رخ گو عرب کے تمام تر لوگوں کی طرف رہا مگر ہجرت کے بعد کا مرحلہ دیکھیں تو دعوتی عمل زیادہ تر اہل مدینہ پر ہی مرکوز کردیا جاتا ہے جو کہ وہ فریق تھا جو دعوت کے قبول کرنے میں ___ معاشرتی سطح پر ___ سب سے آگے تھا اور جو کہ رسول اﷲ ﷺ اور آپ کے خاص تربیت یافتہ مہاجرین وانصار سے تربیت لینے اور ان کے پیچھے کھڑا ہونے پر تیار ہو چکا تھا۔ یہ اہل مدینہ جو رسول اﷲ ﷺ کے تربیت یافتہ مہاجرین وانصار کی سرکردگی میں چلنے پر آمادہ تھے اور جہاد اور صبر وثبات کے قدم قدم پر ثبوت دے رہے تھے .... یہی معاشرہ کا وہ اہم ترین طبقہ تھا جو پھر دعوت میں مابعد کے مراحل کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کر گیا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر دونوں طبقوں پر توجہ مرکوز کی جانے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ دعوتی عمل کی یہی ایک منطقی ترتیب بنتی ہے اور یہی بات حق وباطل کے اس معرکہ اور اس کشمکش کے مزاج کے عین مطابق نظر آتی ہے۔
حق اور باطل کے مابین کشمکش تو ہر دور میں ہو کر رہنی ہے۔ یہ خدا کی سنت ہے۔ یہ کشمکش عین اسی لمحے کھڑی ہوجائے گی جب حق کو کسی جگہ پر کچھ مرد صفت لوگ مل جائیں گے جو اس پر دل وجان سے ایمان لے آنے اور اس کو لے کر معاشرے میں آگے بڑھنے اور زمین میں اس کو تمکین دلانے کا مشن اپنا لیں۔ ہو نہیں سکتا کہ جاہلیت ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہے۔ ہو نہیں سکتا کہ جاہلیت اس دعوت کو اپنے حال پر چھوڑ دے۔ بے شک دعوت اس کے ساتھ ہرگز بھی کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔
”اور اگر تم میں سے کچھ لوگ اس (دعوت) پر، جس کو دے کر مجھ کو بھیجا گیا، ایمان لے آتے ہیں اور کچھ ایمان نہیں لاتے ہیں تو ذرا ٹھہر جاؤ! یہاں تک کہ ہمارے درمیان اﷲ فیصلہ کردے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ اس کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب، ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال کر رہیں گے۔ ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا“ (الاعراف:87- 88)
صاف صاف! متارکۂ جنگ کا کوئی سوال ہی نہیں۔ دو فریق اپنے اپنے حال پر رہیں تاآنکہ خدا ان کے مابین کوئی فیصلہ کردے اور تب تک جاہلیت ’صبر‘ سے کام لئے رہے .... جیسا کہ شعیبؑ کے مطالبہ سے ظاہر ہوتا ہے، اس بات کا کوئی امکان نہیں۔ جبر اور زبردستی جاہلیت کو کرنی ہی ہے۔ اہل ایمان کو نکال کر رہنا ہے۔ ان کے پیچھے تک آنا ہے۔ جہاں تک ہو سکے ایذا دینی ہے۔ یہ اس کشمکش کا مزاج ہے۔ اب ایسے میں کون ہے جو دعوت کے ان ابتدائی مراحل میں دعوت کے ساتھ ہولے؟ کیا وہ لوگ جو زمینی معیاروں کے مطابق ’نفع اور نقصان‘ کا حساب کرنے کے بعد کسی کام کو ہاتھ ڈالنے کے روادار ہوا کرتے ہیں؟ کیا وہ لوگ جو حالات کی زبان پڑھنا جانتے ہیں اور جس سمت کی فضا ہو اسی سمت کو چل پڑنا مناسب خیال کرتے ہیں قطع نظر اس امر کے تعین کے کہ اس سمت کو چلنا کس قدر غلط اور ناروا ہے؟ کیا وہ لوگ جو ایک بات کے صحیح اور حق ہونے کے باوجود محض اس لئے اس سے کنارہ کش رہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کو وجود میں لانے کیلئے ڈھیروں محنت اور قربانی کی ضرورت ہے اور خطرات کو مول لینا اس پر مستزاد؟
طبعی امر ہے کہ دعوت کی جانب ان ابتدائی مراحل میں وہی لوگ آگے بڑھیں گے جو اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں .... جو ’نفع اور نقصان‘ کو خدا کی میزان میں اور آخرت کے ترازو سے تول سکتے ہوں نہ کہ ان تکڑیوں سے جو جاہلیت کے ہاں چلتی ہیں اور جن کے سواجاہلیت کسی پیمانہ سے واقف نہیں۔
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید: 25) | ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں |
یہاں اشیاءکو ان پیمانوں سے ماپنے والے لوگ چاہئیں جو دُنیا کی متاع کو اس کے اپنے حجم میں دکھائیں اور آخرت کی سرخروئی کو اس کے اصل رنگ میں:
قُلْ مَتَاعُ الدَّنْيَا قَلِيلٌ وَالآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَى وَلاَ تُظْلَمُونَ فَتِيلاً (النساء: 77) | ”ان سے کہو، دُنیا کا سرمایۂ زندگی تھوڑا ہے اور آخرت ایک خدا ترس انسان کیلئے زیادہ بہتر ہے اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا“۔ |
وہ پیمانے جن میں زمین کے تمام تر فائدے، تمام تر مفادات اور تمام تر رشتے خدا اور رسول ﷺ اور جہاد کی محبت کے آگے بے وقعت ہو جایا کریں:
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبہ:24) | اے نبی، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز واقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اﷲ اور اُس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا |
وہ میزان جن میں باقیات صالحات، حیات فانی کی تمام تر زینت پر فوقیت پا جائیں:
الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا (الکہف: 46) | مال اور اولاد تو دنیا ہی کی زینت ہے اور (ہاں) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ازروئے ثواب اور ازروئے امید مندی بہت بہتر ہیں |
وہ میزان جو یہ بتائے کہ نفع بخش تجارت جو کہ آدمی کو خدا کے عذاب سے بچانے والی ہے وہ اﷲ اور رسول پر ایمان ہے اور جہاد فی سبیل اﷲ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ۔تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (الصف:۔ 10-13) | اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اﷲ اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اﷲ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جان لو۔ اﷲ تمہارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا، اﷲ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہونے والی فتح۔ اے نبی، اہل ایمان کو اس کی بشارت دو |
چنانچہ دعوت کے ابتدائی مراحل دراصل محنت اور قربانی سے ہی عبارت ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ لوگ جو زمینی فوائد کی زبان جانتے ہیں چاہے وہ دولت وآسائش ہو، یا شخصیت کی نمائش یا پیروکاروں کے جمگھٹے دیکھنے کی آرزو .... ایسے لوگ خالص اسلام کی دعوت کے ان ابتدائی مرحلوں میں کسی کام کے نہیں۔ خواہ یہ ’اولین جمعیت‘ کی تیاری کا مرحلہ ہو یا حتی کہ ’توسیع جمعیت‘ کا مرحلہ۔
٭٭٭٭٭٭٭
اپنے حالات اور زمانے پر نگاہ ڈالیں تو کچھ امور ہمارے ذہن میں حد درجہ واضح رہنا چاہئیں چاہے وہ ’بنیادی جمعیت‘ کی تیاری کے حوالے سے ہو، یا ’توسیع جمعیت‘ کے حوالے سے یا حتی کہ معاشرے کے اس بہت بڑے طبقے کے حوالے سے بھی کیوں نہ ہو جو کہ اس کشمکش کے آخری مراحل میں ___ فوج در فوج ___ دعوت کے ساتھ آملتا ہے۔ چنانچہ معاشرہ کا یہ وسیع طبقہ یا عمومی طبقہ تک بھی اس بات کے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا کہ ان کا اسلام باقاعدہ طور پر درست کرایا جائے۔ معاشرہ کے اس طبقہ تک کو باقاعدہ طور پر تبدیل ہوئے بغیر نہ رہنے دیا جائے گا اور ان کو بھی تربیت کے ایک خاص درجہ پر پہنچائے بغیر اطمینان نہ کیا جائے گا۔ معاشرہ کے اس طبقہ کے ساتھ بھی وہ معاملہ نہ کیا جائے گا جو جاہلیت ’عوام الناس‘ کے ساتھ کرتی ہے۔ نہ ان کی کوئی اپنی شخصیت رہنے دیتی ہے اور نہ ان کی کوئی اپنی سوچ اور اپنی رائے۔ یہ میڈیا کی پھونک سے چلنے والی خلقت جانی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف جاہلیت اس ’خلقت‘ کو یہ بھی باور کرائے رکھتی ہے کہ سلطنت کا سارا نظام بس اسی کے اوپر مستوی ہے اور اسی کے آراءاور اسی کے ووٹوں پر قائم!
اسلام میں اس انداز کی ’خلقت‘ ہرگز نہ پائی جائے گی۔ نہ کوئی مرد نہ کوئی عورت۔ معاشرہ کا ہر شخص ___ کم از کم حد تک ___ اسلام کی حقیقت کو جانتا اور سمجھتا ہوگا اور کم از کم حد تک اسلام کا پابند بھی ہوگا۔ اس بات کو یقینی بنانا ایک اسلامی مملکت میں اولی الامر کی ایک باقاعدہ ذمہ داری ہوگی۔ معاشرہ میں جو شخص آپ اپنی چاہت سے خدا کے تقاضوں کا پابند ہوگا وہ خدا کے ساتھ اپنا معاملہ آپ ہی درست رکھے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص اسلام کے تقاضوں کا ___ کم از کم حد تک ___ پابند نہیں ہوتا تو اس پر عثمانؓ کا یہ قول لاگو ہوگا:
یزع اﷲ بالسلطان مالا یزع بالقرآن
”اﷲ تعالیٰ جس چیز کو قرآن کے ذریعہ زیرنگین نہیں لاتا (مسلم) اقتدار کے ذریعہ اس کو بھی زیرنگین لے آتا ہے“۔
بنا بریں سب کے سب لوگ اور پورے کا پورا معاشرہ ہی دعوت کی زد میں لایا جائے گا۔ ہاں البتہ یہ کام مرحلہ بہ مرحلہ ہوگا، جیسا کہ اولین مسلم جماعت کی تاریخ میں ہوا۔ اس عمل میں وہ سب خدائی سنتیں پیش نظر رکھی جائیں گی جو ___ جب بھی ان کے حالات اور اسباب پیدا کئے جائیں ___ ہر بار اپنا اعادہ کراتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
آج اگر ہم اپنے گرد وپیش پہ نگاہ ڈالیں تو الا ماشاءاللہ اُمت کو ہم ’خس وخاشاک‘ کی اسی حالت میں پاتے ہیں جو کہ چودہ صدیاں پیشتر رسول اللہ ﷺ بیان فرما گئے ہیں:
”یوشک أن تداعی علیکم الأمم کما تداعی الأکلة علی قصعتہا“ قالوا: أمن قلة نحن یومئِذِ یا رسول اﷲ؟ قال: ”بل اَنتم یومئذٍ کثیر، ولکنکم غثاءکغثاءالسیل، ولینزعن اﷲ المہابة من صدور أعدائکم، ولیقذفن فی قلوبکم الوھن“ قالوا: وما الوھن یا رسول اﷲ؟ قال: ”حب الدنیا وکراھیة الموت“ ( أخرجہ أحمد و أبوداود) | قریب ہے کہ دُنیا کی قومیں تم پر یوں ٹوٹ پڑیں جیسے بھوکے کھانے کے تھال پر ٹوٹ پڑتے ہیں“ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول کیا اس لئے کہ تب ہم بہت تھوڑے ہوں گے؟ فرمایا ”نہیں نہیں! اس روز تعداد میں تو تم بہت زیادہ ہو گے۔ مگر تم خس وخاشاک ہو گے جیسے خس وخاشاک سیلاب (کی سطح) پر ہوا کرتے ہیں۔ خدا تمہارے دشمنوں کے سینوں سے تمہاری ہیبت ختم کردے گا اور تمہارے دلوں میں وَھَن (کمزوری) ڈال دے گا صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول یہ وَھَن کیا ہوگا؟ فرمایا: ”دُنیا پہ ریچھ جانا اور موت سے جی چرانا |
اب یہ اُمت جس کو اس دعوت کا مخاطب بنایا جانا ہے، چاہے وہ بنیادی جمعیت کی تیاری کے معاملہ میں ہو، چاہے توسیع جمعیت کے معاملہ میں، یا پھر عوام الناس کو ساتھ چلانے کے معاملہ میں.... یہ اُمت جس کو اس دعوت کا مخاطب بنایا جانا ہے اگر اس حال کو پہنچ چکی ہے جو اس حدیث میں بیان ہوئی تو پھرہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان محرکات کا جائزہ لیں جو اُمت کے اس نوبت کو جا پہنچنے کا سبب بنے ہیں، تاکہ ہم کوئی مناسب علاج تجویز کرنے کی پوزیشن میں ہوں، بالکل ویسے ہی جیسے آپ کسی معالج کو طلب کرتے ہیں تو سب سے پہلے وہ مریض کی تشخیص کرتا ہے، پھر وہ مرض کا تعین کرتا ہے اور تب جا کر دوا تجویز کرتا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ فرض کر لینا ہی درست نہیں کہ وہ بنیادی جمعیت جس پر دعوت اصل انحصار کرے گی اس کا آسمان سے کہیں نزول ہو چکا ہے اور وہ ہر عیب سے پاک صاف مثالی حالت میں موجود و دستیاب ہے! یہ جمعیت اپنی مطلوبہ حالت وکیفیت میں اگر کہیں موجود ہوتی تو پھر دُکھ ہی کس بات کا تھا۔ یہ ’بنیادی جمعیت‘ خود بھی تو اسی اُمت کا ہی حصہ ہے۔ جن حالات نے اس اُمت پر افتاد کر رکھی ہے، ان سے یہ بھی کیسے محفوظ رہ سکتی تھی۔ جن امراض سے اس اُمت کو واسطہ پڑا ہے وہی اس کو بھی کسی نہ کسی انداز میں لاحق ہیں۔ البتہ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: خیارکم فی الجاھلیة خیارکم فی الاسلام اذا فقھوا ( أخرجہ البخاری) ”تم میں جو لوگ جاہلیت میں چنیدہ ہوں گے وہی اسلام میں چنیدہ ہوں گے بشرطیکہ وہ (اسلام کا) فہم پالیں“ تو اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی اس جزوی جاہلیت میں جس کی بابت امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ یہ اسلام کے کئی ایک خطوں میں آج بھی پائی جا سکتی ہے.... آج کی اس جاہلیت میں کچھ ’چنیدہ‘ لوگ پائے جا سکتے ہیں جو کچھ مطلوبہ محنت کرلینے اور اپنے آپ کو ایک بھرپور تبدیلی سے گزار لینے کے نتیجے میں اس تحریکی عمل کا بنیادی بیج بن سکتے ہیں جس کو آج کے اس دور میں برپا کیا جانا ہے پھر یہاں کچھ اور ’چنیدہ‘ عناصر پائے جا سکتے ہیں جو کچھ مطلوبہ محنت کر لینے کے نتیجے میں ’توسیع شدہ جمعیت‘ کی صورت دھار سکتے ہیں جس کو اس ابتدائی جمعیت کے گردا گرد اکٹھا ہونا اور اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے، پھر اس کے بعد عوام الناس کی تحریکی وسماجی شمولیت ہوگی اور ان میں سے ’چنیدہ‘ لوگ اس دعوت کے پیچھے کھڑے ہوں گے اور دل وجان سے اس کا ساتھ دیں گے۔ رہے وہ لوگ جو عوام الناس میں سے ایسا نہ کریں گے تو ان کی بابت یہی ہوگا جو عثمانؓ کے قول میں بیان ہوا: یزعھم السلطان اذا لم یزعھم القرآن.... جو قرآن کے زیرنگین نہ ہوں گے وہ سلطان (اسلام کا اقتدار وسماجی دباؤ) کے زیرنگین آئیں گے۔
تو پھر اب دیکھتے ہیں کہ آج کی یہ موجودہ نسل جس کو اس دعوت کا مخاطب بنایا جانا ہے وہ کس حال میں ہے اور اس کو اس ’خس وخاشاک‘ والی کیفیت تک کس چیز نے پہنچایا ہے، تاکہ ہم یہ فیصلہ کر سکیں کہ علاج کہاں سے شروع ہو اور علاج کے معاملہ میں ہم کو کیا کیا اقدامات کرنا ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں بیشمار امراض ایسے ہیں جو صدیوں کے اس تاریخی سفر کے درمیان اس اُمت کو لاحق ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ مرض ایسے ہیں جو اس کے اپنے ہی اندر سے پھوٹتے رہے ہیں اور کچھ مرض ایسے ہیں جو دشمنوں کے ہاں سے اس کو منتقل ہوئے۔ ان امراض کا تفصیلاً شمار کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ البتہ ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ امراض تو اس حد تک نمایاں ہیں کہ ’چیک اپ‘ کرنے والے کسی بھی شخص کی نگاہ سے اوجھل نہیں رہ سکتے۔
ان امراض میں ایک نمایاں ترین مرض ارجائی فکر ہے، جس کی رو سے ایمان دل سے تصدیق کر دینے اور زبان سے اقرار کر لینے کا نام ہے اور یہ کہ ’عمل‘ ایمان کے مفہوم میں سرے سے شامل نہیں!
یہ بات کہ دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کیا جانا ایمان کا اعتبار کیا جانے کیلئے لازم ومطلوب ہے تو اس پر ہرگز کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ یہ بات کہ ’عمل‘ ایمان کی تعریف میں داخل نہیں تو یہ ایک خطرناک بدعت ہے اور اس دین کی حقیقت سے ایک شدید ترین انحراف.... اُس دین کی حقیقت سے انحراف جو کہ عمل اور محنت اور جہاد کے بغیر دُنیا میں نہ کبھی قائم ہوا اور نہ کبھی ہو سکتا ہے.... جو ایک ایسی عظیم جدوجہد کے بغیر جو زمین کے اندر زندگی کا دھارا بدل کر رکھ دے کوئی قابل ذکر واقعہ کبھی بن سکا ہے اور نہ کبھی بن سکے گا۔ وہ غربت وکس مپرسی جو اسلام کو پہلی بار لاحق تھی(1) وہ محض ’دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار‘ کے بل پر زائل نہیں ہو گئی تھی! دُنیا کا کوئی بھی نظام، کجا یہ کہ وہ دُنیا کا بہترین نظام ہو، محض دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کے سہارے قائم نہیں ہوتا جب تک کہ اس ’دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار‘ کو دُنیا کا جیتا جاگتا عملی واقعہ بنا دینے پر ڈھیروں ’محنت‘ اور ’عمل‘ نہیں کر لیا جاتا۔
اس ارجائی فکر کے پھیل جانے کے خواہ کوئی بھی اسباب ہوں یہ فکر بہرحال اُمت کی ساخت کو بدل کر رکھ دینے میں بے پناہ مہلک ثابت ہوا ہے۔ تب سے اس اُمت کے اندر فرائض سے جان چھڑانے کا ایک شدید رحجان در آیا ہے۔ یہ فکر ارجائی ہی ہے جو اس اُمت کو جب وہ فرائض سے جی چرانے لگی ایک باقاعدہ فکری اور علمی انداز میں تھپکیاں دیتا رہا کہ جب تک اس کے دِل میں ایمان ’باقی‘ ہے تب تک اسے کس بات کی فکر! تاآنکہ فرائض سے جان چھڑاتے چھڑاتے شرکِ صریح میں جا پڑنے کی نوبت آئی خواہ وہ شرکِ اعتقاد ہو یا شرکِ عبادت یا شرکِ حاکمیت۔ فکرِ ارجاءتب بھی لوگوں کو تسلی دلاتا رہا کہ اب بھی وہ خیر خیریت سے ہیں اور یہ کہ اب بھی وہ پورے پورے مومن ہیں!
آپ ایک لمحہ کیلئے کسی ایسے مکتب کا تصور کریں جہاں طالب علموں کو داخلہ دیا جا رہا ہو اور وہ داخل ہوتے ہی وہاں اسباق یاد کرنے کی پابندی سے آزاد ہونے لگیں! پھر یہاں تک کہ مکتب کے دروس میں حاضر ہونے سے ہی اپنے آپ کو آزاد کر لیں! تب بھی ان کو پورے ’مدلل‘ انداز میں بتا دیا جائے کہ ”خیر ہے۔ جب تک تمہاری ’نیت‘ غیر حاضری کی نہ تھی اور جب تک مکتب حاضری پر تمہارا ’اعتقاد‘ ہے تب تک فکر کی کوئی بات نہیں! تم غیر حاضر ہوئے یا سبق یاد کرکے سنانے پر آمادہ نہیں ہوئے تو اس کا سبب یہ تھوڑی ہے کہ تم ’جُحود‘ کے مرتکب ہو اور مکتب آنے یا سبق سنانے کے ’منکر‘ ہو۔ تم تو محض ’سستی‘ کے باعث ایسا کرتے ہو! اور یہ کہ جب تک تمہارا نام مکتب کے رجسٹروں میں درج ہے اور جب تک تم اپنے نام مکتب کے رجسٹروں سے خارج کرنے کا ازخود مطالبہ نہیں کرتے تب تک تمہارے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی!“۔
کیا ایک ایسی کم ہمت، بے عمل اور ہر زیاں کو ’خدا کے کھاتے میں‘ ڈال آنے والی خواب آور ذہنیت کے بل پر ___ جس کو ہزاروں ’شرعی دلائل‘ کا سہارا حاصل ہو ___ دُنیائے واقع کے اندر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے؟
ایسی ذہنیت اور کیفیت کے بل پر اگر دُنیا میں کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تو کیا پھر اسلام ہی ہے جو اس پست ذہنیت کے سہارے دُنیا میں قائم ہو جائے گا جبکہ وہ نازل ہی اس لئے ہوا ہے کہ انسانی زندگی کو اس کے تمام تر جوانب اور تمام تر میدانوں سمیت ایک منفرد جہت دے اور اپنے رخ پر اس انسانی زندگی کو ایک بھرپور حرکت دے اور جو کہ بڑھتے بڑھتے پوری زمین کو اپنی زد میں لے آئے اور پوری انسانیت تک اپنا دائرہ پھیلا دے۔ اس ’اپنی زد میں لانے‘ اور ’اپنے دائرہ کو پھیلانے‘ کا انحصارآخر اسی بات پر تو ہے کہ ’انسانوں‘ کی کتنی محنت اس پر صرف ہوئی۔ ’خدا کی تقدیر‘ بھی تو آخر ’انسانی جدوجہد‘ کے ذریعے ہی انسانی دُنیا میں روپذیر ہوتی ہے۔
کیا یہ فتنہ جو فاسد عقائد ونظریات اور فاسد نظاموں کے ایک انبار کی صورت میں آج ہمیں درپیش ہے اور پھر ان فاسد نظریات اور فاسد نظاموں کو تحفظ دینے کیلئے منظم لشکروں کی ایک فوج ظفر موج یہاں موجود ہے .... کیا اس فتنۂ عظیم کا خاتمہ محض ’دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار‘ سے کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ فتنہ و فساد جو جاہلیت انسانیت پر مسلط کئے بیٹھی ہے، اور جو کہ ازل سے جاہلیت کی سرشت ہے، ایک باقاعدہ جہاد کے بغیر روئے زمین سے ختم کیا جا سکتا ہے؟
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه (الانفال: 39) | ان سے قتال کرتے رہو جب تک فتنہ ختم نہیں ہو جاتا اور جب تک دین سارے کا سارا اللہ کیلئے نہیں ہو جاتا |
کوئی اور مرض ہو تو ہو، اور کسی اور اُمت میں ہو تو ہو، مگر یہ مرض یعنی ارجائی ذہنیت ایسا عارضہ ہے جو اُمت اسلام کو تو ہرگز لاحق نہ ہونا چاہئے تھا جبکہ یہ اُمت برپا ہی اس لئے کی گئی ہے کہ انسانیت کی رہبری کرے اور دُنیا پر شہادت قائم کرے:
وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ (الحج: 78) | اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں اپنے کام کیلئے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی، تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ |
٭٭٭٭٭٭٭
اس کے بعد صوفی فکر آیا اور اس اُمت کی فکری زمین پر فکرِ ارجاءکے شانہ بشانہ چلنے لگا.... گوکہ یہ افتاد کچھ اپنی ہی نوعیت کی تھی....
فکر ارجائی نے جنسِ عمل کو ایمان کی تعریف سے خارج کر دیا تھا۔ صوفی فکر آیا تو اس نے ’عمل‘ کی صرف ایک خاص قسم پر ترکیز کرائی البتہ عمل کے باقی سب انواع اور سب جوانب کو مستلزماتِ ایمان سے بدستور خارج رکھا۔ صوفی فکر کی ترکیز عبادت کی کچھ صورتوں پر رہی جن میں ذکر و و رد نمایاں ترین تھا۔ البتہ خدائی منہج پر زمین کی تعمیر، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ ایسے سب فرائض جو کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں بالنص وارد ہوئے ہیں نظرانداز کر دیئے گئے۔
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (الحج: 41) | یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے |
فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالآخِرَةِ (النساء: 74) | ”اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے ان لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دُنیا کی زندگی کو فروخت کردیں“۔ |
وَلِيُمَحِّصَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ۔أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّهُ الَّذِينَ جَاهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ۔ (آل عمران: 141۔ 142) | اور تاکہ وہ مومنوں کو چھانٹ کر الگ کرلے اور کافروں کی سرکوبی کردے۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں |
هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ (الملک: 15) | ”وہ ذات جس نے تمہارے لئے زمین کو پست ومطیع کر دیا۔چلو پھرو اس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق۔ اسی کی طرف تم کو زندہ ہو اٹھنا ہے“۔ |
هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا (ھود: 61) | ”اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے“۔ |
ذکر یقینا مطلوب ہے۔ ذکر کے بغیر عبادت ہی کیسی؟ مگر وہ ذکر جس کا وصف اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے اور جس کے حوالے سے صحابہ کی تعریف کی ہے: الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ (آل عمران: 191) ”وہ جو اٹھتے بیٹھتے اور کروٹوں پر لیٹے خدا کو یاد کرتے ہیں“۔ تو یہ ذکر ایک اور چیز ہے اور اس ذکر سے بہت مختلف ہے جس کی بدعت صوفیہ نے ایجاد کی اور عبادت کو اسی میں محصور کردیا اور اپنے تئیں یہ سمجھا کہ یہی وہ چیز ہے جو انسان کو خدا تک پہنچاتی ہے۔ رہا عقیدۂ اتحاد و حلول اور وحدۃ الوجود ایسا صریح شرک تو وہ اس کے سوا ہے۔
صوفی فکر کے امت میں پھیل جانے کے خواہ کوئی سے بھی اسباب ہوں ___ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عوام الناس کیلئے دین کی جانب رجوع کرنے کیلئے بڑی سطح پر ایک ہی دہلیز پائی گئی اور جو کہ صوفی دہلیز تھی ___ اس بات کے خواہ کچھ بھی محرکات ہوں یہ فکر بہرحال اُمت کی بنیادی ساخت کو بدل کر رکھ دینے میں بے پناہ مہلک ثابت ہوا۔ ہر معاملے ہر سانحے کو خدا کے کھاتے میں ڈال دینا، اسباب اختیار کرنے کو یقین کا ضعف جاننا، زمین کو خدائی منہج پر تعمیر کرنے کا فرض سرے سے نظرانداز کر دیا جانا، عقیدۂ قضا وقدر میں انحراف کا شکار ہو جانا، اپنی خطاؤں کی ذمہ داری اٹھانے میں تاویل سے کام لینا، جہاد اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے منہ موڑ لینا، دُنیا اور آخرت کے راستے جدا ہو جانا، مسلمان کے شعور میں یہ احساس بیٹھ جانا کہ دُنیا کا کام آخرت کے کام سے اور آخرت کا کام دُنیا کے کام سے متصادم ہے، نفس انسانی کے اندر اسلام کے پیدا کردہ خوبصورت اور دقیق توازن کا خلل زدہ ہو جانا جس کی رو سے انسان دنیا کی دوڑ میں ’مسلمان‘ کی حیثیت سے شریک ہوتا ہے تو انسانی زندگی کا رخ خدا کی جانب کر دیتا ہے اور دُنیا کے ہنگاموں میں اس شرکت کے دوران اس کا دل برابر خدا کی جانب متوجہ رہتا ہے.... بالفاظ دیگر اس توازن میں بگاڑ آجانا جو اسلام ایک دقیق انداز میں عالم غیب اور عالم شہادت کے مابین لے کر آتا ہے .... یہ اس فکر کے پھیل جانے کے چند ایک آثار ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
اس کے بعد جو مرض آیا وہ ہے اسلام کا ’فرد کی دُنیا‘ میں سمٹ آنا اور دین کے ’انفرادی امور‘ میں محصور ہو کر رہ جانا اور ان اجتماعی اُمور کا ترک کر دیا جانا جن کا خدا نے ’جماعت مسلمہ‘ کو باقاعدہ طور پر مکلف ٹھہرایا ہے۔
یہ دین محض افراد کی فرداً فرداً اصلاح کیلئے نازل نہیں ہوا۔ گو کہ فرد ہی دین کی اصل اساس ہے اور اس کے بغیر دین کی بنیاد نہیں اٹھائی جا سکتی مگر یہ خیال بھی بہت غلط ہے کہ لوگوں کی فرداً فرداً اصلاح کا عمل بذات خود ایک صالح معاشرہ وجود میں لے آئے گا، گو کہ انسان کو بادیِ امر یہی خیال درست لگتا ہو۔ اگر آپ ایک ایسی عمارت کا خیال تصور میں لائیں جس کی ایک ایک اینٹ اپنی جگہ صحیح سالم ہو مگر ان اینٹوں کو ایک خاص انداز میں نہ جوڑا گیا ہو اور نہ ہی ان کو جوڑ رکھنے کیلئے کوئی ’مسالہ‘ استعمال کیا گیا ہو تو وہ ظاہر ہے ایک خیالی عمارت تو ہو سکتی ہے عالم واقع میں اس کا قیام ممکن نہیں۔ پھر ایسی عمارت کسی زمینی بھونچال یا کسی فضائی طوفان کے آگے بھی کیونکر کھڑی رہ سکتی ہے جبکہ قوموں کی زندگی میں بھونچال اور طوفان آتے ہی رہتے ہیں۔
بلاشبہ اس دین نے ’جماعت مسلمہ‘ بلکہ ’اُمت مسلمہ‘ کے وجود اور بہبود پر بے حد زور دیا ہے۔ ایک ایسی اُمت جو اپنی ساخت میں ٹھوس اور مضبوط ہو۔ اس کا یہ ٹھوس پن اورمضبوطی محض جوش اور جذبات کی حد تک نہ رہے بلکہ عمل کے ہر پہلو میں ہو یہاں تک کہ یہ اُمت مجموعی طور پر خدا کے عائد کردہ سب کے سب فرائض کی انجام دہی یقینی بنائے۔ شریعت میں کتنے ہی مقامات ایسے ہیں جہاں مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے یاایہا الذین آمنوا کہہ کر احکامات وہدایات دی جاتی ہیں تو وہاں مقصد افراد کو محض ان کی انفرادی حیثیت میں خطاب کرنا نہیں بلکہ مقصد ایک جماعت سے بطورِ جماعت خطاب کرنا ہے.... ایک پوری جماعت جس کو مل کر خدا کی عائد کردہ ایک ذمہ داری اٹھانا ہے اور باہمی اشتراک سے شریعت کے مقاصد کو بروئے کار لانا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء (المائدہ:51) | اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ |
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لآئِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ۔إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ۔وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ۔(المائدہ:54۔56) | اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے تو (پھر جائے) اللہ ایسے لوگوں کو بلائے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کا محبوب ہوگا، جو مومنوں پرنرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اللہ وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ تمہارا رفیق تو درحقیقت صرف اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان جو نماز قائم کرتے، زکوٰۃ دیتے اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں |
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاء لِلّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقَيرًا فَاللّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْهَوَى أَن تَعْدِلُواْ وَإِن تَلْوُواْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَإِنَّ اللّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا(النساء:135) | اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے |
لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ (آل عمران:28) | مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یارومددگار ہرگز نہ بنائیں |
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران:104) | تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور بُرائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے |
وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ (الشوریٰ:38) | اور ان کے باہمی معاملات آپس کے مشوروں سے ہوتے ہیں |
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ (التوبۃ:71) | مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ومددگار ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں، بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں |
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنيَانٌ مَّرْصُوصٌ (الصف:4) | ”اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں“۔ |
مثل القائم فی حدود اﷲ والواقع فیہا کمثل قوم استہوا ھموا علی سفینة، فصاربعضہم أعلاھا وبعضہم أسفلہا، فکان الذین فی أسفلہا اذا استقوا یروا علی من فوقہم فقالوا: لو أنا خرقنا فی مکاننا خرقا ولم نؤذ من فوقنا، فلو ترکوھم وما أرادواھلکوا جمیعا، واِن أخذوا علی أیدیہم نجوا ونجوا جمیعاً | وہ لوگ جو خدا کی حدوں کی رکھوالی کرتے ہیں اور وہ لوگ جو خدا کی حدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان دونوں کی مثال ایسی ہے: جیسے ایک ہی کشتی کے سوار کشتی کے حصے آپس میں بانٹ لیں۔ کچھ لوگ اوپر کی منزل میں جا بیٹھیں اور کچھ نیچے۔ نیچے کی منزل کے لوگ جب بھی پانی لینا چاہیں تو ان کو اوپر والوں کے ہاں سے گزرنا پڑے۔ تب یہ (نیچے والے) کہتے ہیں کیوں نہ ہم اپنے والے حصے میں ایک سوراخ کرلیں اور اوپر والوں کو زحمت نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے ان کو جو وہ کرنا چاہتے ہیں کرنے دیں توسب کے سب ہی مارے جائیں اور اگر وہ ان کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ بھی بچیں اور ان کے ساتھ باقی سب لوگ بھی |
کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعيته (أخرجہ الشیخان) | تم میں سے ہر کوئی راعی ہے اور تم سب سے اپنی اپنی رعیت کی بابت باز پرس ہونے والی ہے |
یہ اور اس طرح کی بے شمار نصوص ہیں جو اس اُمت کی اجتماعی مسؤلیت کی اہمیت کا اندازہ کرواتی ہیں۔ یہ ایک ایسی مسؤلیت ہے جس میں ہر فرد کا خدا کے معاملہ میں اپنا ’انفرادی فرض‘ پورا کر دینا ہی کافی نہیں مثلاً یہ کہ وہ خداکا ذکر کرے، تقویٰ وپارسائی اپنائے، خشوع وخضوع پیدا کرنے پر محنت کرے۔ اداءِ نماز، زکوٰۃ، صیام وحج وغیرہ کا التزام کرے۔ اگرچہ یہ سب کچھ لازم ہے اور اس سے ہرگز مستغنی نہیں ہوا جا سکتا لیکن ___ جیسا کہ ہم نے کہا ___ یہ سب کچھ آپ سے آپ ایک ٹھوس مربوط مضبوط اُمت کو کھڑی کر دینے والا نہیں۔ چنانچہ یہ دین اپنی اس مکمل صورت میں جو کہ خدا کے ہاں سے نازل ہوئی اور اپنے ان سب کے سب اہداف کے معاملہ میں جو کہ خدا کو مطلوب ہیں، مومنوں کی ایک تعداد کے دُنیا میں’ فرداً فرداً‘ پائے جانے سے قائم ہو جانے والا نہیں چاہے ان میں کا ہر فرد ذاتی پاکیزگی میں قدوسیوں کے مرتبہ کو کیوں نہ پہنچا ہوا ہو.... جبکہ ہر فرد کا اس مرتبہ کو پہنچا ہونا ویسے ہی ایک ایسا مفروضہ ہے جس کا عملاً وقوع ممکن نہیں جب تک کہ انسان انسان ہیں اور خواہشات اور ضروریات ساتھ رکھتے ہیں اور جب تک کہ ان کے درون میں رغبات و تاثرات اور خیالات کے طوفان اٹھتے ہیں اور جب تک کہ خدا کی اس دُنیا کے ہر قریہ اور بستی کے اندر( اکابر مجرمین) کچھ چھٹے ہوئے مجرم پائے جاتے ہیں جو حق کے خلاف مکر وتدبیر میں ہر دم مصروف رہتے ہیں.... الا یہ کہ ان کو لگام دینے کو یہاں حق کی کوئی قوت مہیا ہو
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجَرِمِيهَا لِيَمْكُرُواْ فِيهَا وَمَا يَمْكُرُونَ إِلاَّ بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (الأنعام:123) | اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے مکر وفریب کا جال پھیلائیں۔ دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں، مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے |
حتیٰ کہ اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ اکابر مجرمین کا وجود صرف جاہلیت میں ممکن ہے اور مسلم معاشرے میں یہ نہیں پائے جائیں گے تو بھی وہ جو ’گلوبل ولیج‘ ہے اور جس کا آج بڑا چرچا ہے کہ ذرائع مواصلات نے دُنیا کو آج اس زبردست مقام تک پہنچا دیا ہے .... یہ ’عالمی بستی‘ تو پھر بھی ان اکابر مجرمین سے بھری ہوئی ہے جو صبح شام حق کے خلاف مکر وتدبیر کرتے ہیں اور بے صبری سے اہل حق کی زندگی کے دن گنتے ہیں۔ کیا یہاں نیک افراد کا محض ’پایا جانا‘ اور ان کا نماز، زکوٰۃ، صیام اور حج وغیرہ کا علی وجہ الکمال ادا کر لینا اور فرداً فرداً ان میں خشوع اور تقویٰ کی ایک اعلیٰ کیفیت کا پایا جانا بذات خود ایک ایسی چیز ہے جو اکابر مجرمین کو لگام دے ڈالے گی اور ان کے کید ومکر کا منہ توڑ کر رکھ دے گی اور جاہلیت سے جو فتنہ مسلمانوں کیلئے برآمد کیا جاتا ہے اس کا خاتمہ کردے گی؟ یا پھر اس کیلئے ایک ایسی اُمت کی ضرورت ہوگی جو اس شر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکے، اپنے سب اجزاءکو مربوط کرکے اس کے مدمقابل ایک بہترین جہت دے سکے اور اپنی اجتماعی مسؤلیت کا بہترین قیام عمل میں لاسکے، جس میں ہر فرد اپنے اپنے حصے کا بوجھ بھی اٹھائے مگر مجموعی طور پر جماعت اس بوجھ کے اٹھائے جانے کو یقینی بنائے۔ یہ اجتماعی بوجھ یقینا کچھ ایسی نوعیت کا ہے کہ اس میں اگر ہر فرد ’اپنی اپنی ’نبیڑنے‘ لگے اور اجتماعی مسؤلیت کے اٹھانے میں پس وپیش کرے تو جماعت کی صفوں میں یہ مطلوبہ یکجہتی کبھی نہ آسکے گی۔
اور کیا رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کو اس’انفرادی‘ معنی میں ہی تیار کرتے تھے کہ ہر آدمی اپنی اپنی انفرادی دُنیا میں ہی عبادت کے اندر مگن ہو جائے یا پھر رسول اللہ ﷺ جس صحابی کو بھی تیار کرتے تھے اس کو ایک ایسی اینٹ بناتے تھے جو بہترین انداز میں ایک عمارت کے اندر چنی جا سکے اور وہ اپنے ساتھ کی ہر اینٹ کے ساتھ بہترین انداز میں جڑ کر حق کی اس عمارت یا اس دیوار کو ایک زبردست قوت فراہم کرسکے؟ یہ ’فرد‘ کی ایک ایسی تیاری تھی جو بیک وقت حق کی حامل ایک مضبوط جماعت اورمعاشرے کے اندر ایک بھاری قوت کی تشکیل کر رہی تھی۔
اجتماعی احساسات اور اجتماعی ذمہ داری بھی اس ”فرد“ کی ایک اہم خصوصیت تھی۔
اجتماعی ذمہ داری میں اپنے اپنے حصے کا بھار اٹھانا ایک فرض ہے جو کہ ہر فرد پر عائد ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک ’انفرادی‘ عمل ہے۔ البتہ اس سے جو نتیجہ برآمد ہوتاہے وہ پوری اُمت کو متاثر کرتا ہے، خواہ مثبت معنی میں اور خواہ منفی معنی میں۔ افراد کی ایک معتدبہ تعداد اس فرض کو پوراکر پاتی ہو تو ایک ایسی اُمت پائی جائے گی جو مستحکم اورمربوط ہوگی اور جس کی صفوں میں محبت، اخوت اور یگانگت پائی جائے گی۔ بصورت دیگر ’امت‘ کچھ متحارب دھڑوں کی صورت میں پائی جائے گی جو ایک دوسرے کے خلاف کینہ وبغض پالیں گے۔
جہاد اپنے حصے کاہر صاحب استطاعت فرد پر فرض ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک ’انفرادی‘ عمل ہے۔ البتہ اس سے جو نتیجہ برآمد ہوگا وہ پوری اُمت کو متاثر کرے گا۔ خواہ مثبت معنی میں خواہ منفی معنی میں۔ افراد کی ایک معتدبہ تعداد اس فرض کو پورا کر پائی ہو تو اس اُمت کا وجود محفوظ رہے گا اور قوت وتمکین پائے گا بصورت دیگر اس کا یہ وجود بطورِ مجموعی دشمنوں کی خوراک بنے گا۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر اپنے اپنے حصے کا ہر صاحب استطاعت فرد پر فرض ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک ’انفرادی‘ فریضہہے۔ مگر اس کا نتیجہ ایجاباً یا سلباً پوری اُمت کو متاثر کرے گا۔ اس کے نتیجہ میں یا تو ایک ’امتِ خیر ‘ پائی جائے گی اور وہ اس صورت میں جب اس کے اندر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہو رہا ہوگا۔ بصورت دیگر ایک ایسی اُمت ہوگی جو بطورِ مجموعی لعنت کی مستحق ہو یہ دونوں وصف قرآن ہی کے بیان کردہ ہیں:
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ(آل عمران:110) | اب دُنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کیلئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو |
لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُواْ يَعْتَدُونَ ۔كَانُواْ لاَ يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ ۔(المائدہ: 78۔79) | بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داؤد ؑ اور عیسیٰ بن مریم ؑکی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کے منکر افعال سے روکنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ بُرا طرز عمل تھا جو انہوں نے اختیار کیا |
بہرحال اُمت میں ایک بڑے طبقہ کے ہاں ایک ’ذاتی معنی‘ میں نیک اور صالح بننے کا یہ جو تصور پروان چڑھا اور اپنے کام سے کام رکھنے کی یہ جو روش عام ہوئی اور جس میں کہ ”اجتماعی طور پر“ مکلف اور ذمہ دار ہونے کا شعور نہ ہونے کے برابر رہا.... اس روش کے مقبول عام ہونے کے خواہ جو کوئی بھی اسباب رہے ہوں مگر یہ ذہنیت اُمت کے وجود کے اندر بہت بڑے مفاسد لانے پر منتج ہوئی۔ حکمرانوں کو نصیحت کرنے کے فرض سے اُمت کی ایک بڑی تعداد کا دستبردار ہو جانا، امورِ سیاست سے صرف نظر کر لینا، ’حکومت کا معاملہ حکومت پر چھوڑ دینا‘.... ’حکمران عادل ہے تو وہ خدا کی رحمت وبرکت ہے، ظالم ومستبد ہے تو آپ اپنے کئے کا جواب دہ ہے، اُمت کے صالح طبقے اس کے ظلم واستبداد کو روکنے کیلئے کسی انداز کا کوئی اقدام کرنے کے مکلف نہیں‘! حکمران کے گرد منافقوں کا جھمگٹا لگا رہے اور وہ اس کی سب بداعمالیوں کو اعلیٰ ترین کارنامے بنا کر پیش کرتے رہیں حتی کہ اس کے کان تک حق کی تنبیہ ہی نہ پہنچ پائے اور اگر کسی اِکادُکا دیندار کی آواز اس تک پہنچے بھی تو اس کے گرد حلقہ زن منافقین اس دیندار کی جیسی چاہیں صورت بنا کر پیش کریں اور الٹا حق کی اس کمزور آواز کے خلاف ہی اس کے کان بھریں کہ جہاں سب دیندار اپنے کام سے کام رکھے ہوئے ہیں وہاں یہ کوئی نرالا ہی دیندار آیا ہے جو ’حکمرانوں کے معاملات‘ میں دخل دینے کو دینِ اسلام کی خدمت جانتا ہے! اُمت کے اندر یہ ایک بڑی سطح پر ہر ایسا پروگرام ہر ایسا منصوبہ ناکامی کا شکار ہونے لگنا جس میں کہ اُمت کے افراد کا ہاتھوں میں ہاتھ دے کر چلنا ضروری ہو ا کرتا ہے اور جس میں کہ ہر فرد کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوتا ہے.... پبلک پراپرٹی کا نہایت بے رحمی کے ساتھ تیاپانچہ ہونے لگنا اور جس کا اس پر جو جی چاہے کر گزرنا، جس کے ہاتھ جو لگے اسی کا، اُسے لے اڑنا اور اس منکرکا اجتماعی انکار ایک انہونی بات سمجھی جانا، اجتماعی فرائض اور دفتری و سرکاری معاملات میں بے ایمانی اور بددیانتی کا راج ہو جانا اور بیت المال کو ذاتی جاگیر جان لیا جانا.... یہ اس ذہنیت کے عام ہوجانے کے چند ایک نقصانات ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات پر اس قدر تاکید کی تھی کہ گویا دین ہی یہ ہے:
”الدین النصیحۃ“ قیل: لمن یا رسول اﷲ؟ قال: ”ﷲ ولرسوله ولکتابه ولعامة المسلمین وخاصتھم“ (متفق علیہ)
”دین ہے ہمدردی اور خدا لگتی بات کرنا۔ عرض کی گئی: کس کی خاطر اے اللہ کے رسول؟ فرمایا: خدا کی خاطر، اس کے رسول کی خاطر، اس کی کتاب کی خاطر، عامۃ المسلمین کی خاطر اور خواص المسلمین کی خاطر“
٭٭٭٭٭٭٭