عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Dawaat_Ka_Minhaj آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
عرضِ مترجم
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف
عرضِ مترجم

 

”دین کا کام“ ایک خاص اصطلاح بن گئی ہے جس سے یہاں کا ہر طبقہ گو اپنی اپنی مراد لیتا ہے مگر اس کے پسِ منظر میں سقوطِ خلافت کے مابعد پیدا ہو جانے والا خلا اپنی غمازی عموماً کروا لیتا ہے۔

”تحریک“ کا لفظ چاہے مستعار ہو اور اسلامی اصطلاحات میں اس لفظ کی تاریخ سو پچاس سال سے زیادہ پیچھے نہ جاتی ہو، مگر ”دعوت“ سے مراد بھی یہ لے لینا درست نہیں کہ یہ لوگوں کو اسلام کی بات ’بس پہنچا دینا‘ ہے۔ اس کیلئے الگ سے ایک لفظ ہے جوکہ قرآن میں بھی مستعمل ہے، یعنی ”بلاغ“ یا ”تبلیغ“، جوکہ یقینا ”دعوت“ کا ایک پہلو ہے البتہ ”دعوت“ کا لفظ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔

لوگوں کو ”اللہ کی طرف“ اور ”اللہ کے راستے پر“ لے کر آنے کا وہ ”پورا عمل“ جو انسانی معاشروں کے اندر بے شمار مرحلوں سے گزرتا اور متعدد صورتیں اختیار کرتا ہے”دعوت“ ہی کہلاتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے پورے کام کو ”دعوت“ قرار دینا اور قرآن کا آپ کو ”شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا۔ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا(1)کہنا اسی جامع مفہوم کے ساتھ لیا جانا ہی آپ کے اور آپ کے مشن کے شایانِ شان ہو سکتا ہے۔

اس معاملہ میں وقت کے ان بعض ہزیمت پسند رجحانات سے متاثر ہو جانا بے حد نقصان دہ ہو سکتا ہے جنہیں ہم اپنے بعض مضامین میں ”اسلام کے اندر گاندھی کے مذہب کی ترویج“ سے تعبیر کر چکے ہیں۔ ”دعوت“ کو ”بیان“ یا ”تذکیر“ یا ”اپیل“ یا ”ابلاغ“ اور ”نشر و اشاعت“ کے معانی میں محدود کر دینا نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے مشن سے ناواقفیت ہے بلکہ یہ عربی زبان کو عجمی مفہومات پہنانے کی بھی ایک معیوب ترین صورت ہے۔

ان جدت پسند رجحانات کے جواب میں ’دلائل‘ اور ’حجت و برہان‘ کی نوبت کو پہنچنے سے پہلے دراصل یہی ضروری ہے کہ ان کے زیرِ استعمال ”اصطلاحات“ کو ہی مشکوک ٹھہرایا جائے اور جو ’مفہومات‘ ان کی اپنی جانب سے ”اہلِ اسلام کے ہاں مستعمل الفاظ و کلمات“ کی تہہ میں ٹھونس دینے کی آج کوشش ہو رہی ہے ان اجنبی اور رکیک naiive مفہومات کو ہی سب سے پہلے مستر د کردیا جائے۔ ”اصطلاحات“ کا مسئلہ حل ہو جائے تو بہت امکان ہے بحث و آرا کی ضرورت ہی ختم ہو جائے۔

” أَدْعُو إِلَى اللّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي(2).... ایک باقاعدہ وصف اور مشن ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے متبعین کو منجانبِ قرآن دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں کوئی نقطہ ایسا نہیں آیا جہاں آپ نے ”دعوت“ کا کام ختم اور اِس کے ’علاوہ‘ کوئی کام شروع کرلیا ہو۔ ہر مرحلہ ”دعوت“ ہی کا مرحلہ رہا، خواہ وہ ابلاغ ہو، خواہ تذکیر، خواہ حکم اللہ کا قیام، اور خواہ قتال فی سبیل اللہ اور طواغیت کو اسلام کی راہ سے ہٹانے اور زمین کو فتنہ سے پاک کرنے کا مبارک عمل۔

”دعوت“ اور ”جہاد“ کے مابین کوئی ایسی لکیر کھینچ دینا جہاں یہ الگ تھلگ مشن دکھائی دیں، اور ’فریقین‘ اپنے اپنے دعوے ٰکے ثبوت میں دلائل مہیا کریں، خوامخواہ کی ایک مشقت ہے۔ ”جہاد“ اور ”دعوت“ مختلف جہتوں سے ایک ہی حقیقت کا بیان ہے اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کے پیچھے چلنے والوں کی سعی کا اور اس سعی کے مراحل کا ہی ایک تسلسل۔

”ما بعد“ مراحل کی ساری بنیاد در اصل ”دعوت“ ہی کے اندر پڑی ہے بشرطیکہ ”دعوت“ کا مفہوم اپنی پوری جامعیت کے ساتھ واضح ہو جائے اور ”دعوت“ کو محض ’تبلیغ‘ اور ’نشر و اشاعت‘ کے معنی میں نہ لیا جائے۔

حق یہ ہے کہ آج کے بعض جدت پسند شکست خوردہ رجحانات نے صرف ”جہاد“ کا ہی مفہوم سکیڑ دینے کا جرم نہیں کیا۔ جو ظلم ان طبقوں نے ”دعوت“ کے مفہوم کے ساتھ کیا وہ بھی بیان سے باہر ہے۔ بلکہ ”جہاد“ کے مفہوم کا تیا پانچہ کرنے پر تو امت کے کچھ صالح طبقوں نے شاید اس تحریف کا نوٹس لیا ہو جو کبھی ’قانونِ اتمامِ حجت‘ کے تحت ہوتی رہی اور کبھی ’تعبیر کی غلطی‘ کے زیرِ عنوان.... البتہ ”دعوت“ کے مفہوم پر جس طرح ہاتھ صاف کیا گیا اس کا نوٹس لینے کو بھی الا ما شاءاللہ کم ہی کوئی آگے بڑھ پایا۔ یہاں تک کہ ”دعوت“ بطورِ مشن اور بطورِ منہج و طریقِ کار انہی کا امتیاز تسلیم کیا جانے لگا، یعنی دوسرے طبقے کچھ اور عنوانات کے تحت اپنا دینی مشن بیان کرتے رہے تو ان ہزیمت پسند طبقوں کا مشن’ صرف‘ دعوت بتایا گیا! جبکہ در حقیقت ان طبقوں کو ”جہاد“ ہی نہیں ”دعوت“ کے ساتھ بھی کچھ نسبت نہ تھی، نہ ”دعوت“ کے مضمون اور موضوعات کے لحاظ سے ان طبقوں کو انبیا کی دعوت سے کوئی علاقہ، نہ دعوت کے منہج اور طریقِ کار کے حوالے سے ان کے کام کو انبیا کی سعی و جہد سے کوئی واسطہ، نہ ان کی ولاءاور نہ ان کی براء، نہ ان کی دوستی اور نہ ان کی دشمنی، باطل کو ان سے اور نہ ان کو باطل سے کوئی پرخاش، نہ جاہلیت اور جاہلی دستور سے تعرض کا ان کے ہاں کوئی تصور، نہ اہلِ حق کی شیرازہ و صف بندی.... جبکہ یہ سب کچھ انبیا کی زندگی میں ”دعوت“ہی کے تحت انجام پاتا رہا تھا۔

زیر نظر کتاب چونکہ ہمارے دینی حلقوں میں دعوتی عمل کے اندر ایک بہتری اور تصحیح و ترقی لائے جانے سے ہی بحث کرتی ہے، لہٰذاہم نے ___ اپنے بر صغیر کے حوالے سے ___ اس جانب اشارہ کردینا بھی ضروری جانا کہ بعض ذہنوں میں دعوت کے” طریقہ ومنہج“ سے پہلے، جوکہ اس کتاب کا اصل موضوع ہے، خود دعوت کا ”مفہوم“ ہی درست ہو جائے۔ گو اس سلسلے میں الگ سے کچھ لکھا جانے کی ضرورت اپنی جگہ مسلم ہے۔

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

انسانی زندگی میں وہ جامع ترین تبدیلی ایک منظم انداز میں برپا کر دینا جو انسانی نفس کو ہر معنیٰ کے اندر خدا کی بندگی میں دے آئے اور انسانی معاشرے کو خدائی شریعت کے نقشے پر سر تا پیر ڈھال دے.... پھر اس تبدیلی کو معاشرے کی ہر سطح پر لے جانا.... اور اس صالح تبدیلی کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹا دینے کیلئے اپنا پورا زور صرف کردینا، خواہ وہ رکاوٹ نفس کے شرور ہوں یا مجرمینِ ارض کا برپا کیا ہوافتنہ و فساد.... یوں انسانی دنیا کو ہر ہر پہلو سے اور ہر ہر سطح پر خدا کی جانب لے کر چلنا اور خدائی تنزیل کو بنیاد بنا کر انسانی واقعے پر بھر پور طور پہ اثر انداز ہونا ”دعوت“ ہی میں شمار ہوتا ہے۔ وہ بہت سے اجتماعی فرائض اور حالات جو اس عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے ضمن میں فقہاو مفکرینِ اسلام کے زیرِ بحث آتے ہیں، چاہے یہ تربیت ہو یا تعلیم اور تزکیہ، یہ سری (خفیہ) دعوت ہو یا علانیہ اظہارِ حق، یہ ”جادلہم بالتی ہی احسن(3) ہو یا ”واغلظ علیہم(4)، یہ تبشیر ہو یا انذار، ترغیب ہویا زجر و توبیخ، آمنے سامنے آکر باطل کو للکارنے کی بات ہو یا اصحاب کہف کا اسلوب اختیار کرنے کی، ہجرت ہو یا قتال، کفار و منافقین کے ساتھ نمٹنے کا عمل ہو یا اہلِ ایمان کی وحدتِ صف اور تالیف و شیرازہ بندی.... یہ ’دعوت“ کے وسائل ہیں یا پھر ”دعوت“ کی صورتیں اور ”دعوت“ کے مراحل۔

”وسائل“ اور ”مراحل“ کا درست تعین البتہ ایک عظیم الشان علم ہے اور حکمت کا یہ سرا نصیب والوں کو ملتا ہے۔ چونکہ یہ علم کا ایک بڑا شعبہ ہے اور اجتہاد کا ایک زبردست میدان، لہٰذا دعوت کے وسائل اور مراحل کے تعین میں اہلِ اختصاص سے رجوع کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ گو اجتہادات کے اختلاف کیلئے گنجائش رکھنا اور علومِ دین کے دیگر شعبوں ہی کی طرح یہاں پر بھی اجتہاد کے حدود اور قیود کا پابند رہنا اپنی جگہ مطلوب ہے۔

”دعوت“ کے مفہوم کی بابت بات کی جانا تو، جیسا ہم نے کہا، کسی اور مقام پر ہی ممکن ہے مگر دعوت کے وسائل اور مراحل کے کچھ اہم جوانب کی بابت یہ کتاب البتہ ضرورقاری کی راہنمائی کرے گی۔

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

خلافت کے سقوط کے بعد عالمِ اسلام کے مختلف حصوں میں ایک نئے تحریکی عمل نے جنم لیا تھا۔ ابتدا کے چند عشرے اس میں زبردست جوش و خروش پایا گیا۔ مگر اب کوئی دو تین عشروں سے ایک شدید یکسانیت محسوس ہو رہی ہے اور کچھ لگے بندھے معمولات اور محدود سے اہداف ہی بار بار دیکھنے میں آرہے ہیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ ایک بند سے راستے پر پہنچ رہنے کا احساس عام ہو رہا ہے۔ بہت سے طبقے جو اپنی سعی و جہد سے کچھ برآمد کرنا چاہتے ہیں اور اپنی محنت اور تگ و دو کو ’معمولات‘ کی بھینٹ چڑھانے پر تیار نہیں، مایوس بھی ہو رہے ہیں۔ کچھ اور طبقے بے صبری اور جلد بازی کی نذر ہونے لگے ہیں۔ جبکہ بہت سے طبقے یہاں مطلوب دعوتی عمل کی بابت بڑے بڑے سوالیہ نشان رکھتے ہیں۔ حتی کہ کئی ایک طبقے سرے سے ان ہزیمت پسند رجحانات کا شکار ہو رہے ہیں جو یہاں ایک بھاری بھر کم تبدیلی کی صدا بلند کرنے کو ویسے ہی ’تعبیر کی غلطی‘ شمار کرتے ہیں اور اس جانب کو رخ کرنا ایک صریح انحراف....!

دعوتی عمل کی ان پیچیدہ گتھیوں کو اس کتاب نے، جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے، بہت خوبصورتی کے ساتھ سلجھایا ہے ۔

دعوتی اور تحریکی عمل جو پچھلے سات عشروں سے مسلسل جاری ہے بلاشبہہ ضرورت مند ہے کہ اس کا ایک از سرِ نو جائزہ لیا جائے اور اس کو جن نئی جہتوں سے آشنا کرائے جانے کی ضرورت ہے یا جن نقائص سے پاک کیا جانا ضروری ہے ان سب کو پوری دقت اور دیانت داری کے ساتھ سامنے لایا جائے۔ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ کسی تحریکی عمل کے مؤسسین نے اپنی اجتہادی صوابدید سے جو راہ اپنے ہم سفروں کیلئے ایک بار طے کردی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اب وہ پتھر پر لکیر ہے یا یہ کہ جس وقت کسی تحریک کا منہج اور طریقِ کار وضع کیا گیا تھا اُس وقت اس کے وضع کرنے والوں پر کوئی وحی اتری تھی۔ جب ایسا نہیں ہے تو پھر موجودہ تحریکی عمل میں بہتری لائے جانے کیلئے بہت کچھ پڑھا پڑھایا جاناضروری ہو جاتا ہے اور کچھ پختہ تر اہداف کیلئے ذہنوں کے اندر گنجائش پیدا کی جانا بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔

آج کے دور میں جس طبقے کے ہاں بھی اپنے فکری و منہجی اثاثہ جات کو مسلسل اپ ڈیٹ کرنے کا عمل موقوف ہو جائے گا، خدشہ ہے کہ آنے والے کچھ تیز ترین مراحل میں وہ اپنے آپ کو بہت پیچھے رکھ لے گا۔ پس لازم ہے کہ ہماری قیادتیں ان موضوعات کو ہرگز بے توجہی کا مستحق نہ جانیں۔

معاملہ یہ ہے کہ جو باتیں آج سے ساٹھ ستر سال قبل اسلامی قیادتوں کی ایک محدود سی تعداد کو پریشان اور مصروفِ فکرر کرتی تھیں اور ان قیادتوں نے اپنا غور وخوض کرلینے کے بعد اُس وقت اپنے اصحاب کو ایک راہ تجویز کر کے دی تھی.... پچھلے سات عشروں میں ان موضوعات پر سوچ بچار کرنے والے مخلص ذہین صاحبِ علم دماغوں کی تعداد بحمد اللہ بے اندازہ بڑھ چکی ہے اور یوں اس باب میں بہت کچھ نیا سامنے آچکا ہے، جس سے بے رغبتی برتنا کفرانِ نعمت ہی نہیں اپنا تحریکی نقصان کرانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

ایسا بھی نہیں کہ کسی جماعت کو اپنے منہج کے اندر کچھ نہ کچھ مقامات پر ’تبدیلیوں‘ کا خیر مقدم نہ کرنا پڑا ہو۔ ایسا ممکن بھی نہیں۔ ہر طبقہ اور ہر جماعت کو لا محالہ کچھ تبدیلیوں سے گزرنا پڑا ہے اور وقفے وقفے سے اس واقعہ کا اعادہ بھی ہوا ہے، جس میں کہ اصولاً کوئی غلط بات نہیں۔ خود پر آہنی قالب چڑھا رکھنا اپنے عمل میں بہتری اور ترقی لانے کے اندر ایک بڑا مانع ہے اور کوئی با ہمت تحریک اس امر کی متحمل نہیں چاہے اکابر اور مؤسسین سے وہ کتنی ہی عقیدت رکھتی ہو۔ غور طلب بات البتہ یہ ہے کہ ہماری تحریکوں کی تاریخ میں بیشتر ایسا ’مجبوری‘ کے تحت ہی ہو پایا ہے نہ کہ ”دلیل کی قوت“ اور ”مسئلے کے موضوعی حکم“ objective ruling کو سامنے رکھتے ہوئے اور نہ ہی اپنے فکر اور اپنے منہج کے ایک ”تنقیدی جائزے“ کے نتیجے میں!.... الا ما شاءاللہ

گویا اگر کبھی ہم اپنے مناہج پر نظرِ ثانی کریں گے بھی تو یہ ’حالات‘( کے جبر) کے زیرِ اثر ہوگا نہ کہ کسی علمی مراجعے یا کسی فکری و تحقیقی و تنقیدی تقاضے کے طور پر۔ ایسے میں خدشہ یہی ہے کہ فکر وعمل کے معاملہ میں ہماری تحریکیں بالآخر ’حالات‘ کی پیدا کردہ ہوں جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ ’حالات‘ ہماری تحریکوں کے پیدا کردہ ہوں۔یہ ایک بہت بڑا فرق ہے جو تا حال ہم میں سے بہت سے ذہنوں کے اندر واضح نہیں بلکہ یہ ایک گھاٹی ہے جسے ہماری تحریکوں کو بہر حال چڑھنا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہی اصل چیلنج ہے۔

زمانے پر اثر انداز ہونے کیلئے ہماری تحریکوں کو جس صلاحیت کی ضرورت ہے وہ اسی چیز کی پیداکردہ ہوگی کہ ہماری تحریکیں فکر اور منہجِ عمل کی معاملے میں اپنی پیدائش، دین کے ایک اصیل اور عمیق فہم سے کرائیں اور ’حالات‘ کو اپنے اندر کم سے کم بولنے دیں .... اور یہ کہ علم اور حکمت کی بات جب بھی اور جہاں سے بھی ملے اس کو قبول کرنے میں پس وپیش سے کام نہ لیں کیونکہ یہ جہاں بھی ملے در اصل انہی کی چیز ہے۔


٭٭٭٭٭٭٭

 

تحریکی میدان میں جو لائحۂ عمل ابتدا سے اختیار کیا گیا ___ یعنی آج سے کوئی ستر اسی سال قبل ___ و ہ بے حد مستحسن ہونے کے باوجود اپنے اندر کچھ بنیادی کمیاں رکھتا تھا، جن کی جانب اس کتاب میں باسلوبِ احسن اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ کمیاں اگر دور کرلی جاتیں تو آگے بڑھنے کا راستہ بہت کشادہ ہو جاتا ۔ مگر جب ایسا نہیں ہوا تو اس تحریکی عمل کا خاطر خواہ بار آور ہونا ممکن نہ رہا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو لوگ اس تحریکی عمل کی پیشرفت سے مطمئن نہ تھے وہ ان بنیادی کمیوں کے ازالہ پر ہی کمر بستہ ہو جاتے اور یوں ان کی کوششیں اس خلا کو جو ابتدا کے اندر پر ہونے سے رہ گیا تھا اب پر کر لیتیں۔ مگر ہوا یہ کہ ایسے نئے اٹھنے والے بیشتر طبقے تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ ویسی ہی ایک چیز برآمد کرنے لگے جو پہلے سے یہاں موجود تھی اور اسی سے امید لگا بیٹھے کہ وہ سنگِ گراں جو اس تحریکی عمل کی راہ میں حائل تھا اب ان کی اس کوشش سے دور ہو رہے گا۔ نتیجتاً ہر نئے طبقے سے مایوس ہو کر ایک نیا تر طبقہ سامنے آنے لگا بغیر اس کے کہ صورتِ حال میں مجموعی طور پر کوئی بڑی پیشرفت سامنے آئے۔ یہ سلسلہ اب بھی خاصے زور و شور سے جاری ہے اور لوگوں کے ہاں پہلے سے پائی جانے والی پریشانیوں کے اندر اور سے اور اضافہ کر رہا ہے۔

پچھلے دو عشروں سے البتہ ’تبدیلی‘ کی سعی کرنے والی یہ کوششیں ایک نیا رخ اختیار کرنے لگی ہیں جو کہ تحریکی عمل کیلئے بے حد خطرناک ہے، اور یہ ہے طاقت کے استعمال سے ’انقلاب‘ لانے یا ’شریعت نافذ‘ کرانے کا راستہ۔ وہ بنیادی کمیاں جو اس تحریکی عمل کی تہہ میں ابتدا سے پڑی ہیں، اس کے دور کرنے پر تو اس طبقے کے ہاں بھی کوئی قابل ذکر کوشش نہیں ہوئی جو اب تشدد کی راہ کو ہی ایک درست راہ باور کرنے لگا ہے۔ البتہ اس کے ہاں ایک بند راستے کو بزور کھولنے کا رجحان تیزی سے پرورش پانے لگا ہے۔ مصر، الجزائر، لیبیا اور شام کے اندر تو اس کے خاصی بڑی سطح پر تجربات ہو چکے ہیں جوکہ دینی کارکنوں کے کچھ بڑے بڑے نقصانات کرانے پر منتج ہوئے ہیں۔ البتہ کچھ دوسرے ملکوں میں بھی ’طاقت کے ا ستعمال‘ کی آوازیں مسلسل پڑ رہی ہیں اور ایک اچھے خاصے طبقے کی امیدیں اسی عمل سے وابستہ کرائی جانے لگی ہیں۔ ہمارے اپنے ملک کے حالات اور پھر حکمرانوں کی کفر نواز طاغوتی پالیسیاں بھی اسی تشدد اور رد عمل پر مبنی اندازِ فکر ہی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ اس سے معاملہ جس انتشار اور افراتفری کا شکار ہونے والا ہے اس سے اسلامی تبدیلی کا عمل اور بھی بہت پیچھے جا سکتا ہے بلکہ ”اسلامی تحریک“ کو ایک ’انحراف‘ ثابت کرنے والے جدت پسند طبقے اپنے مقدمہ کے ثبوت میں اس سے جیسے جیسے دلائل اور شواہد پائیں گے اور’ اسٹیٹس کو‘ کے داعی طبقے تبدیلی کی صدا کو دبا دینے یا پٹڑی سے ہٹا دینے کیلئے اپنے حق میں اس کے اندرجیسا جیسا مواد پائیں گے وہ شاید ہمارے ان قابلِ احترام طبقوں کے اندازے سے بھی باہر ہو۔

ان سب رجحانات کو ہی اس کتاب کے اندر جس انداز میں زیرِ بحث لایا گیا ہے اور تحریکی عمل کو کچھ سماجی جہتوں سے روشناس کرانے کی بھی جس طرح ایک کوشش کی گئی ہے.... یہ سب ہماری تحریکی دنیا میں ایک نئی پیشرفت لے آنے کیلئے یقینا اپنے اندر بہت کچھ رکھتا ہے۔ اردو دنیا میں یہ کتاب امید ہے”فقہِ تحریک“ پر ایک بیش بہا اضافہ سمجھی جائے گی۔

وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی پون صدی کا ایک معروضی جائزہ لیں اور مختلف خطوں کے اندر جو جو فکری اور تحریکی پیشرفت ہوئی ہے اس سے مدد لے کر اپنے کام کو مؤثر تر بنائیں۔ محمد قطب کی اس کتاب کا اردو استفادہ ہم نے اسی مقصد سے کیا ہے کہ ”تحریکی پختگی“ کی جانب بڑھنے کا یہ عمل ہمارے بر صغیر کے اندر بھی ترقی کی نئی منزلیں سر کرے۔

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

اس کتاب کا مؤلف ایک ایسی شخصیت ہے جو تحریکی دنیا کا ایک بہت بڑا نام ہے بلکہ ایک نہایت قابلِ احترام مایہ ناز بزرگ۔ آج کے کئی ایک جلیل القدر علما و مفکرین اسے اپنا استاد مانتے ہیں حتی کہ کئی ایک حلقوں میں اسے ”شیخ الصحوۃ“ یعنی ”اسلامی تحریکوں کا پیر“ کا خطاب دیا جاتا ہے۔

محمد قطب عالم اسلام کے اس وقت کے بڑے مفکرین میں سے ایک ہیں۔ آپ سید قطب کے برادرِ خورد ہیں۔ مصر سے جلاوطن ہو کر ایک عرصہ مکہ مکرمہ میں مقیم اور ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ عصر حاضر کے افکار اور نظریات کو اسلام کے آئینے میں دیکھنے اور قدیم وجدید کی گتھیاں سلجھانے میں ایک خاص مہارت اور امتیاز رکھتے ہیں۔ فکرِ مغرب کی درآمدات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اسلامی تاریخ ان کا خاص موضوع ہے۔ اسلامی بیداری کا عمل ان کی توجہ کا خاص مرکز ہے۔ دعوت، تربیت، جہاد، معاشرتی تبدیلی.... ان کی فکر کا مرکزی نقطہ ہیں۔

محمد قطب دو درجن سے زائد تصنیفات کے مؤلف ہیں۔ علاوہ ازیں، فکری اور تحریکی موضوعات پر ایم اے اور پی ایچ ڈی کی سطح کے متعدد بیش قیمت مقالات اور تحقیقات کے نگران رہ چکے ہیں۔ ان کی جلالت علمی کا اندازہ اس سے ہو جاتا ہے کہ ڈاکٹر سفر الحوالی جیسے نابغہ روزگار ان کے شاگرد ہیں۔ شیخ سفر الحوالی کے ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالے انہی کی نگرانی میں لکھے گئے۔

اپنے مرحوم بھائی ہی کی طرح، محمد قطب بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو الاخوان المسلمون کے پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور اخوان سے محبت کو اپنی زندگی کا اثاثہ جانتے ہیں۔ البتہ اخوان کے منہج کو نئی جہتوں سے ہمکنار کرنے کے بھی شدت سے خواہش مند ہیں.... اس کا اندازہ آپ کو ان کی اس تالیف سے بھی ہو جائے گا۔
’آلِ قطب‘ نے دور حاضر میں دین کے فکری اور تحریکی اثاثہ جات کی ثروت میں جو بیش بہا اضافے کئے ہیں، کچھ محتاجِ بیان نہیں۔ سید قطب کا نام تو تحریکی دنیا کے چہار آفاق میں پھیلا ہے مگر دیگر تینوں بہن بھائی بھی اس عمل میں اپنا اپنا حصہ رکھتے ہیں، خصوصا محمد قطب۔ یہ مکتبِ فکر دوستوں اور دشمنوں ہر دو کی نظر میں کس قدر اہمیت اختیار کر گیا ہے، اس کا اندازہ ہمیں محمد قطب کے اپنے ہی ایک اقتباس سے بھی ہو جاتا ہے۔ لکھتے ہیں:

” ایک دوست نے جو میرے ساتھ ایک ہی جگہ (ادارہ ثقافتِ عامہ ، مصر) کام کرتا رہا ہے، ایک مستشرق سے اپنی ایک بار کی ملاقات کا احوال مجھے سنایا۔ یہ مستشرق ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں قاہرہ کے دورے پر آیا تھا۔ اس نے میرے اس دوست سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہت سے سوال پوچھے اور مسلمانوں کے ہاں پائے جانے افکار کی بابت کچھ استفسارات کئے۔ دورانِ گفتگو، مستشرق اس سے میرے بارے میں پوچھنے لگا: ”کیا فلاں شخص کو جانتے ہو؟ “ میرے دوست نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر اس سے پوچھنے لگا: ”کیا وہ الازہر کا پڑھا ہوا ہے؟ “ دوست نے جواب دیا: ”نہیں، وہ قاہرہ یونیورسٹی کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ سے پڑھا ہے“۔ اس پر وہ اپنی حیرانی بلکہ نا پسندیدگی چھپائے بغیر نہ رہ سکا کہ قاہرہ یونیورسٹی کا انگریزی ڈیپارٹمنٹ جو کہ بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ یہاں چوٹی کے سیکولر پیدا کرے جو اس ملک میں رہتے ہوئے یہاں مغرب کی طرح سوچیں اور مغربی طرزِ زندگی کا ایک عکسِ جلی نظر آئیں.... اس ڈپارٹمنٹ کا پڑھا ہوا دینی معاملات میں کس طرح جتا ہوا ہے اور اسلام کے موضوعات پر لکھتا ہے!

اس کے بعد وہ میری تحریروں پر تنقید کرنے لگا، خصوصا میری کتاب ”شبہات حول الاسلام“ پر۔ سب سے زیادہ وہ اس بات پر تلملا رہا تھا کہ میں مغرب کی مادیت پر کس طرح تنقید کرتا ہوں اور مغرب کی مادی تہذیب پر، جوکہ روح سے خالی ہے، کس انداز میں چڑھائی کرتا ہوں۔ اسی تنقید کی رو میں وہ میرے دوست سے کہنے لگا: ”اچھا تو تم لوگوں نے اپنی روحانیت کے بل بوتے پر کیا کرلیا؟ البتہ ہماری مادی ترقی اگر نہ ہوتی تو تمہارا جینا ہی آج دشوار ہوتا! “ میرے مرحوم دوست نے اس پر اس کی تصحیح کی: ”مگر وہ (محمد قطب) تو یہ کہتا ہے کہ اسلام صرف روحانیت نہیں۔ اسلام تو ہے ہی اس حقیقت کا نام جہاں عالمِ مادہ و عالمِ روح یکجا ہو جاتے ہیں۔ وہ تو اس بات کا داعی ہے کہ ان دونوں ہی میدانوں میں مسلمان بیک وقت سرگرمِ عمل ہو“۔ مستشرق کہنے لگا: ”مگر تمہارے ہاں حقیقتِ حال جو اس وقت پائی جاتی ہے وہ تو کچھ اور کہتی ہے“۔ میرے دوست نے میرے بارے میں اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ”اس کی فکر کا لب لباب یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں پائی جانے والی آج کی جو حقیقتِ حال ہے وہ حقیقتِ اسلام سے ایک بڑا فاصلہ اختیار کر گئی ہے“۔ اس پر تو مستشرق اپنا آپ ضبط ہی نہ کرسکا۔ جوش میں کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ کہنے لگا: ”اچھا! تو وہ یہ کہتا ہے؟!! کہاں کہا ہے اس نے یہ؟؟“ میرے دوست نے جواب دیا: ”اپنی کتاب ہل نحن مسلمون ”کیا ہم مسلمان ہیں؟“ میں۔ اس پر مستشرق نے پسپائی اختیار کرلی اور کہنے لگا: ”یہ ایک خطرناک جہت ہے!!“

(اقتباس از کتاب ہلم نخرج من ظلمات التیہ مؤلفہ محمد قطب ص 12)

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

مؤلف کی خاص یہ کتاب ” کیف ندعو الناس“ ایک طویل دعوتی و تربیتی تجربے کا نچوڑ ہے جو کہ پچھلے پچاس سال سے جاری تحریکی عمل کو بہت قریب سے دیکھنے بلکہ اس میں شریک رہنے والے اس نہایت مخلص اور ہمدرد بزرگ کے قلم سے نکلی ہے، خصوصاً جبکہ یہ مؤلف کی تاحال آخری ترین کتب میں سے ایک ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی مؤلف کے علم اور زندگی میں برکت دے۔

 

حامد کمال الدین

 


(1) الاحزاب: 45 ”ہم نے تمہیں شہادت دینے والا، بشارت دینے والااور خبر دار کردینے والا بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ کی طرف داعی، اُس کے اذن سے، اور ایک روزِ روشن کردینے والا سورج“

(2) یوسف: 108: ”کہو: یہ ہے میرا راستہ: میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ایک پوری بصیرت پر رہ کر، میں بھی اور میرے پیجھے چلنے والے بھی، اور اللہ کی پاکی ہے ، اور میں مشرکوں سے کچھ ناطہ رکھنے والا نہیں“

(3) النحل: 165 ”ان سے باحسن اسلوب ہی جدال کرو“

(4) التحریم: 9”ان پر شدت کرو“

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز