عبادات، بصورتِ فرائض اور بصورتِ نوافل، مومن نفس کی تشکیل میں ایک گہرا اثر رکھتی ہیں ۔ دین کے بنیادی حقائق اور تصورات پر محنت کے بعد، تربیت کا یہی اہم ترین محاذ ہے ، یعنی عبادات میں ریاضت....
’اعمال‘ یقینا ایمان کا حصہ ہیں اور اسلام کی مطلوبہ شخصیت کا وجود میں آنا بلاشبہہ ’اعمال‘ پر بھی منحصر ہے ۔ اللہ کی پسندیدگی درستیِ اعتقاد، قوتِ یقین اور صحتِ طلب پر ملتی ہے اور پھر صالح اعمال پر۔ ”آمنوا وعملوا الصالحات“ کی تکرار کسی قرآن پڑھنے والے سے روپوش نہیں رہ سکتی۔ سنت اور سلف کے اقوال میں ”عمل“ پر بے حد زور دیا جاتا ہے اور ’علم بلا عمل‘ کی جس قدر مذمت اور وعید ملتی ہے وہ اندازے سے باہر ہے ۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عبادات اور اعمال کی بابت کچھ مزید امور ہم پر واضح ہوجائیں ۔
یہ تو درست ہے کہ ’اعمال‘ پر محنت کا درجہ ’دین کے حقائق‘ پر محنت کے بعد آتا ہے ، اور یہ بات ہم پیچھے ذکر کر آئے ہیں ، البتہ جو بات واضح کی جانا ابھی باقی ہے وہ یہ کہ ’اعمال‘ کا ’حقائقِ دین‘ کے بعد آنا بھی کوئی مستقل بالذات حیثیت میں نہیں ۔ یعنی یہ نہیں کہ پہلے دین کی حقیقت پر محنت اور پھر اعمال پر۔ بلکہ ’اعمال‘ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ’دین کی حقیقت‘ سے ہی جنم لے رہے ہوں ۔
وہ محنت جو دین کی بنیادوں کو ازبر کرنے اور قلوب میں گہرا لے جانے پر کی اور کرائی گئی ہو خود وہی چیز، ضروری ہے کہ، ’اعمال‘ کو پیدا کرے ۔ بصورت دیگر ’اعمال‘ ایک تکلف ہوں گے اور ان کی حالت ایک غیر طبعی انداز سے باہر نہ ہوگی، یعنی اعمال اپنا وہ بے ساختہ وجود اور اسلوب نہ رکھیں گے جوکہ ’اعمال‘ کے وجود میں آنے کیلئے اصل سنت ہے ، ویسے چاہے ان پر کتنی بھی محنت کیوں نہ کرا لی گئی ہو اور چاہے ان خاص اعمال کی حد تک سب کی سب ’سنتوں ‘ کا بھی التزام کیوں نہ کرا لیا گیا ہو.... یہ چاہے نماز و قیام کا مسئلہ ہو، چاہے زکوٰة و صیام کا، چاہے ذکر و اذکار کا، چاہے دعوت اور تبلیغ کا اور چاہے جہاد اور قتال کا، اور چاہے مسئلہ ٔ پیش نظر ان اعمال کے ”فرض“ پہلوؤں کی بجا آوری ہو اور چاہے ان کے ”نفل“ پہلوؤں کی ادائیگی....
ہمارے یہاں ایک نیک طبقہ ایسا پایا جاتا ہے جو ’اعمال‘ کی اہمیت پر بہت زور توجہ دیتا ہے اور ’دیندار‘ باور کیا جانے کا یہی تقاضا اور یہی معیار جانتا ہے ۔ جبکہ ایک دوسرا نیک طبقہ ہے جو ’اعمال‘ کو ’سنت کے مطابق‘ ادا کرانے پر بے حد محنت کرتا ہے ۔ ان سب نیک لوگوں کا اجر ان شاءاللہ یقینی ہے ، مگر ضروری ہے کہ ’اعمال‘ کا صحیح تصور ہی پہلے واضح ہو اور ’اعمال کی تفصیلات‘ سے متعلقہ ”سنتوں “ سے پہلے اعمال کی ’پیدائش‘ کے معاملہ میں ”سنت“ تصور ہی تربیت دینے اور لینے والوں کے ذہن نشین ہو....
”سنت“ اول تو اس پوری ”تصویر“ کا نام ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں مسلم فرد اور مسلم جماعت اور معاشرے کی تشکیل کے معاملہ میں وجود کے اندر لائی گئی۔ اس میں ’عقائد‘ بھی آتے ہیں اور ’اعمال‘ بھی۔ ’فرائض‘ بھی اور مستحبات و نوافل بھی۔ افعال بھی اور رویے بھی، حقوق بھی اور واجبات بھی، ’عبادات‘ بھی اور ’معاملات‘ بھی۔ ’مسائل‘ بھی اور ’تعلقات‘ بھی۔ غرض ”سنت“ ایک فریم ہے جس میں کوئی عمل، کوئی عقیدہ، کوئی عبادت اور کوئی معاملہ جب تک فٹ نہ آئے اس کو حق ہونے کی سند نہیں مل سکتی۔
پس ’سنت‘ کا یہ تصور جو فوراً اس کو کچھ ’خاص اعمال‘ کے ساتھ جوڑ دیتا ہے ایک بے حد قاصر اور ناقص مفہوم ہے اور ”دین“ کی بابت ہمارے کئی ایک داعیانِ سنت تک کا مفہوم بگاڑ چکا ہے ۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ فرقہ ٔ ناجیہ کیلئے جو مشہور ترین تسمیہ اور حوالہ وجود میں آتا ہے وہ ”سنت“ ہی کے ساتھ وابستہ ہے یعنی ”اہل سنت“۔ چنانچہ ”سنت“ جب ایک عمومی معنیٰ میں لی جاتی ہے تو منہجِ سلف میں اس سے مراد فکر اور عمل کا وہ پورا دھارا ہوتا ہے __ عموماً و اجمالاً بھی.. اور ایک ایک جزءکے معاملہ میں ، تفصیلاً بھی __ جو رسول اللہ ﷺ نے انسان کے قلب و ذہن اور اس کے پورے انفرادی و اجتماعی نشاط کو دیا۔سلف کے استعمالات کو دیکھئے تو لفظِ ”سنت“ سے ذہن میں جو سب سے پہلی بات آتی ہے وہ ”تصورِ دین“ ہی ہے ۔نہ صرف یہ بلکہ لفظِ ”بدعت“ سے بھی جو بات سب پہلے ذہن میں آتی ہے وہ ”تصورِ دین“ ہی ہے ۔ یعنی ایک طرف وہ تصورِ دین جو حق ہے اور رسول اللہ ﷺ اور سابقین اولین سے ماخوذ چلا آتا ہے اور دوسری طرف وہ تصورِ دین جو باطل ہے اور منحرف ذہنوں کی ایجاد۔ چنانچہ وہ (یعنی سلف) اپنے اور اپنے سے علیحدہ ہو جانے والوں کے مابین ”امتیاز“ کا کوئی عنوان اختیار کرتے ہیں تو وہ یہی دو لفظ ہیں : ”اہلِ سنت“ اور ”اہلِ بدعت“۔
ایک یہی بات، استعمالِ سلف کے حوالے سے ، بہت کافی ہے کہ ”سنت“ کی بابت اپنے تصور کو اس سے بہت بڑا کیا جائے جوکہ اس وقت بالعموم اذہان کے اندر ایک خاص صورت اختیار کر گیا ہے اور سمٹتے سمٹتے کچھ مخصوص اعمال سے جڑ کر رہ گیا ہے .... پھر جبکہ صورت حال یہ ہو کہ ایک طبقہ کے ہاں ’اعمال‘ کی ایک صنف پر زور ہے تو دوسرے طبقہ کے ہاں ’اعمال‘ کی کسی دوسری صنف پر، جس سے ’سنت‘ کا مفہوم نہ صرف ’محدود‘ ہوا ہے بلکہ ’منقسم‘ بھی ہوگیا ہے بلکہ کسی حد تک فرقہ وارانہ بھی۔
عمومی طور پر، ”اصولِ دین“ تو ”سنت“ کے لفظ سے ذہن میں آنابے حد بعید ہوگیا ہے ، حالانکہ یہ باقاعدہ طور پر ہمارا وجہِ تسمیہ ہے اور منحرف فرقوں سے ہمارے امتیاز کا جلی عنوان۔ لفظ ”سنت“ کا اصل اطلاق تو ہوتا ہی ”اصولِ دین“ پر ہے ۔
مزید براں .... ’عمل‘ میں ’سنتوں ‘ کا التزام ملحوظ خاطر رکھا جانا یقینا بے حد اہم ہے مگر خود اس ’عمل‘ کا تصور اور اس ’عمل‘ کا وجود میں آنا ہی جس حقیقت کا مرہونِ منت ہونا چاہیے سب سے پہلے تو وہ ”سنت“ ہماری توجہ کی مرکز ہونی چاہیے ! مگر کیا ایسا ہوتا ہے ؟ حالانکہ ’تربیتی عمل‘ کی اصل جان تو کسی چیز میں پوشیدہ ہے تو در اصل وہ یہی ہے ، یعنی ایمان کے بیج سے اور عقیدہ کے مواد سے عمل کی پیدائش۔
٭٭٭٭٭
پس نہ صرف یہ اہم ہے کہ ’عمل‘ کئے جائیں ، اور نہ صرف یہ کہ ’دورانِ عمل‘ کی ’سنتوں ‘ کا التزام کیا جائے اور اعمال میں اگر کچھ ’بدعات‘ معروف ہوگئی ہیں تو ان سے دامن بچا کر رکھا جائے .... بلکہ اس سے بھی پہلے جو بات اہم ہے وہ یہ کہ عمل کو ہی عقیدہ سے برآمد کیا جائے ۔ دوسرے لفظوں میں عقیدہ اگر دل میں جاگزیں ایک حقیقت کا نام ہے تو عمل اس حقیقت کی ہی زبان بن جائے جس کے ذریعے ’عقیدہ‘ عالمِ واقع کے اندر اپنا ظہور کرے اور عالمِ محسوسات کے اندر اپنا آپ بتائے اور ’دیکھنے ، سننے ، چھونے اور چکھنے ‘ میں آئے !
٭٭٭٭٭
چنانچہ ’اعمال‘ جب بندگی کی زبان بنتے ہیں اور اللہ کی خالص پہنچان کا نتیجہ ہوتے ہیں اور اُس کی الاہیت کے سامنے انسان کی عبدیت کی بے ساختہ صورت میں سامنے آتے ہیں تو پھر ان کا ایک اور ہی رنگ ہوتا ہے اور ایک اور ہی کیفیت....
محنت تو ’اعمال‘ پر پھر بھی بہرحال کرنا اور کروانا پڑتی ہے اور بلاشبہہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے زیر تربیت نفوس کو اعمال پر بے حد محنت کروائی تھی، مگر اس صورت میں ’اعمال پر محنت‘ کی ایک خاص متعین سمت بنتی ہے اور نفس پر اس کی ایک خاص مبارک تاثیر دیکھنے میں آتی ہے ، یہاں تک کہ ایسے نفوس کے اکٹھ سے جو ایک اجتماعی صورت وجود میں آتی ہے وہ بھی نہ صرف یہ کہ ایک جاندار اور فاعلیت سے پر اجتماعیت ہوتی ہے بلکہ ”اللہ کی بندگی“ ان کے مابین کچھ ایسا بے ساختہ حوالہ بنتا ہے کہ بہت سے ایسے حوالے جن کے بغیر یہاں کے روحانی طبقوں یا تحریکی حلقوں میں ایک شدید کمی اور خلش پائی جاتی ہے ”اللہ کی تعظیم وکبریائی اور اس کی وحدانیت اور اس کی طلب و ارادت“ آپ سے آپ ایسی ہر کمی اور ہر خلش کو پورا کردینے کیلئے موجود ہوتی ہے !
٭٭٭٭٭
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ’عبادات‘ بندے اور خدا کے مابین اس خاص رشتے کا اظہار بن جاتی ہیں جس کا وہ عقیدہ اور ایمان کے ابواب میں انعقاد کر آیا ہوتا ہے ۔ بندے اور خدا کے مابین یہ ایک پختہ تعامل کی صورت بن جاتی ہیں ۔ جب عقیدہ نے اس کو بندے اور خدا کے مابین ایک باقاعدہ ’تعامل‘ اور ایک لین دین‘ بنا دیا تو یہ ’تعامل‘ اور یہ ’لین دین‘ تو پھر جتنا زیادہ ہو! اب یہ بندے کا مالک کو آواز دینا بن جاتا ہے ۔ بندے کا اُس کے آگے فریادیں کرنا، گریہ کرنا، بار بار اُس کا التفات چاہناجوکہ اسی صورت ممکن ہے کہ خود یہ پہلے اُس کی جانب ملتفت ہو اور طہارت و پاکیزگی اختیار کرکے اُس کے حضور با ادب ہو اور اُس کی رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا محل بننے کیلئے ہر ممکن ادا اور ہر مطلوب سلیقہ اپنائے اور اُس کی نوازشوں کے باران کی زد میں آنے کیلئے ہر مسنون جہت اختیار کرے ....!
اب جب ”بندگی“ اِس کا موضوع بنتا ہے تو اِس کا سجدہ و رکوع، اِس کی تسبیح اور تعظیم، اِس کا قیام اور قنوت، اِس کی دعا اور گریہ، اِس کا بار بار اُس کے آگے ہاتھ اٹھانا اور ہاتھ پھیلانا، جھک جھک کر دوزانو ہو بیٹھنا، نگاہوں کو اُس کے سامنے گرا لینا اور نظر تک میں خشیت لے آنا، استغفار، التجائ، استعاذہ وتسمیہ، تلاوتِ آیات، مالک کو اس کا ایک ایک نام لے کر پکارنااور پیرائے بدل بدل کر اُس کا التفات مانگنا اور اُس کی خوشی چاہنااور اُس سے معافی کی درخواستیں کرتے ہی چلے جانا، مالک سے اُس کا فضل مانگتے نہ تھکنا کہ یہ جانتا ہے مالک کا فضل اِس کیلئے کیا معنی رکھتا ہے ، نبی سے سیکھے ہوئے وہ خاص مؤثر الفاظ اور اذکار اور تعبیرات جو دراصل اُسی ذات کے القاءکردہ ہیں اور اسی کی رحمت کو جوش میں لے آنے کا یقینی ذریعہ، نبی کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ اور اذکار اور تعبیرات جو یہ اس سے بڑے ادب اور چاہت کے ساتھ سیکھ چکا ہے ، یہ ان الفاظ، ان اذکار اور ان تعبیرات کا بار بار اعادہ کرتا ہے اور بندگی کی ایک ایک ادا جو نبی سے اس کیلئے ماثور ہوئی ہے یہ بار بار دہراتا ہے .... تو یہ سب کچھ کرتے ہوئے دراصل یہ اس ”بندگی“ کی ہی ایک مجسم تصویر بنتا ہے جو ”عقیدہ“ نے اس کے دل کی لوح پرنقش کردی ہوتی ہے ۔
اب جب یہ ”عقیدہ“ کی لوح پر لکھی عبارتوں کو اپنے عمل، اپنے سجدوں اور اپنی تسبیحوں سے گہرا کرتا ہے اور بندگی کی ان عبارتوں کے اندر اپنی ریاضت اور جہد کے ذریعے ایک سے ایک خوبصورت رنگ بھرتا ہے ، اس آس میں کہ مالک کو بندگی کے یہ مسنون رنگ پسند آئیں ، تو ”عقیدے “ کی تحریر کردہ وہ عبارتیں اس کے وجود میں روز بروز گہری ہونے لگتی ہیں ۔ نہ صرف گہری بلکہ ہر دم تازہ ہونے لگتی ہیں ۔ وہ ایک ہی خوبصورت حقیقت جس کا یہ لا الہ الا اللہ کی شہادت میں اقرار کر آیا تھا تب اس کی ہستی میں ہر دم ”عبادت“ کے پھول کھلاتی ہے اور اس کا وجود ”بندگی“ کی خوشبو کے ساتھ اور سے اور مہکتا ہے .... اور یوں یہ اپنے وجود کی غایت کو پورا کرنے اور اپنی منزلِ سعادت کی جانب بڑھتا جانے کی ہر دم توفیق پاتا ہے !
چنانچہ ’نماز‘ کو اگر ’ایمان و توحید کی حقیقت‘ سے برآمد کیا جائے اور مسلسل اس کو یہی رخ اور یہی جہت دے رکھی جائے ، اور مربیوں کی محنت و ریاضت کا یہی اصل میدان ہوجائے .... تو وہ ’حرکات و سکنات‘ کا ایک مجرد مجموعہ نہیں رہتی جس کے محض فرائض و نوافل ہی پر صبح شام زور دے رکھا جائے کہ ’بھئی نماز پڑھو نماز!‘ یا ایک خشک و بے تاثیر انداز میں اس کی کچھ متروک سنتوں یا اس سے متعلق کچھ ’اختلافی‘ مسائل ہی کو اس کی تکمیل و تحقیق کی ایک زبردست صورت باور کیا جائے !
تب ’نماز‘ کوئی ’تنظیمی کارروائی‘ بھی نہیں رہتی جیسا کہ کئی ایک جماعتوں کے قواعد و ضوابط کو دیکھ کر آدمی کو محسوس ہوتا ہے ، بلکہ ان کے یہاں اس کو ایک کامیاب ’تربیتی نظام‘ کا حصہ بھی خیال کیا جاتا ہے !
تب ’نماز‘ وہ جسم بھی نہیں رہتا جس کیلئے ’روح‘ کا انتظام کرنے کی خاطر ”دین“ کو ’شریعت‘ اور ’طریقت‘ کے مابین دولخت کردینا پڑے اور ہر دو کیلئے علیحدہ اور مستقل دنیائیں وجود میں آجائیں !
عبادت میں ”احسان“ کی کیفیات لے آنے کا سنت ذریعہ وہی بے ساختہ عمل ہے جو در اصل ”ایمان کے حقائق“ پر محنت کرنے سے ہی وجود میں آتا اور عبادت کو اللہ کی صحیح صحیح پہنچان کا نتیجہ بنادینے سے ہی تشکیل پاتا ہے ....
توحید کی حقیقت دلوں میں اتاری جانے پر ہر دم محنت ہو.. لا الہ الا ا للہ کی غایت کو نفوس میں گہرا لے جانے کا عمل تربیت میں پورے تسلسل کے ساتھ جاری رہے .. اللہ کی صفات، علم اور بصیرت کا بنیادی مضمون ہو جائیں اور غیر ہستیوں کی عبادت کا بطلان اور ان سے بیزار ہوجانے کے اسباق کا بار بار اعادہ ہو.. ایمان کے حقائق مجالسِ تعلیم وتعلم اور ذکر و فکر کا موضوع بنا دیے جائیں ، خصوصاً جنت اور حہنم کے تذکرے نبوی بیان اور صحابہ وسلف کی تذکیر کے اسلوب میں بکثرت ہوں .. اور سب سے بڑھ کر ”قرآن‘ کو ایک فرد کا دستر خوان بنا دینے میں کامیابی حاصل کرلی جائے .... تو پھر ”عبادت“ ”احسان“ کی منزلیں آپ سے آپ چڑھنے لگتی ہے اور جتنا ’رزق‘ کسی کیلئے اس راہ میں رکھ دیا گیا ہوتا ہے وہ اس کو ملنے لگتا ہے بلکہ اور سے اور کیلئے ذوقِ طلب آتا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ اس باب میں کسی چیز کی ضرورت رہ جاتی ہے تو وہ ایک صالح مربی کی توجہ اور نگہداشت کا دستیاب ہونا ہے ، جبکہ مربی کی ضرورت ہونا بذاتِ خود سنت اور منہجِ سلف سے ہی ثابت ہے ۔
آدمی کے ایمانی سفر کا آغاز ہی جب خالق کو جاننے اور اس کی صفات کا علم پانے سے ہو اور اس کا پہلا قدم ہی ربوبیت اور الوہیت کے مفہومات کو دل میں بٹھانے اور بندگی کی حقیقت سمجھنے اور رسولوں کی بعثت اور کتابوں کے نزول کی اصل غایت جاننے سے ہو اور ”دین“ کا پورا تصور ذہن نشین کرنے پر اس کی ڈھیروں محنت ہوئی ہو، یوں آدمی کا ”عبادت“ کیلئے کھڑا ہونا ہی جب ایک بصیرت کا نتیجہ ہو اور خدا کی طرف ”متوجہ“ ہونے کی ہی ایک شعوری حالت اور ایک خشیت سے پر کیفیت.... تو پھر اس عبادت میں اس کا اپنے آپ کو خدا کے سامنے پانا اور اگر ہوسکے تو اپنے سامنے خدا کو پانا،خدا کی طرف سے اس کی اس بابرکت محنت کا ہی ثمر ہوجاتا ہے ۔
اس ثمر کے ملنے کی کوئی حد نہیں اور اس کے مراتب شمار سے باہر ہیں مگر ہر وہ شخص جو اپنے دل کی سرزمین میں ایمان کا شجر کاشت کرتا ہے اور اس کیلئے ’زمین‘ کو بنانے سنوارنے اور محنت و مشقت کی مقدور بھر کوشش کرتا ہے خدا اس کو کچھ نہ کچھ ثمر اس کے عوض میں اپنے فضل سے ضرور چکھاتا ہے ۔ بے شک یہ ثمر محنت اور مشقت ہی کے نتیجے میں ملتا ہے اور صحابہ و سلف کی ’عبادت‘ پر محنت بھلا کسے معلوم نہیں ، البتہ یہ یقینی ہے کہ یہ ثمر سنت راستے میں رہ کر کی گئی محنت اور ریاضت ہی کا نتیجہ ہے اور توحید ہی کی زمین میں پایا جاسکتا ہے ۔
محدثاتِ امور اور بدعت طریقوں اور سلسلوں کے ساتھ کی گئی محنت کے نتیجے میں وہ ثمر بھلا کب ملتا ہے جسے صاحبِ سنت و شریعت ﷺ ”احسان“ کا نام دیتے ہیں ؟؟! دورِ نبوت و سلف کے مابعد ظہور کرنے والے سلسلے اور طریقے جو رسول اللہ ﷺ سے اور صحابہ وتابعین سے صحتِ سند کے ساتھ پایہ ٔ ثبوت کو ہی نہیں پہنچتے اور اسی لئے سینہ بہ سینہ کی بے بنیاد ’عنعنہ‘ پہ انحصار کرتے ہیں .... کوئی شخص اگر سنت راستوں کو چھوڑ کر جوکہ خدا کو پانے کا یقینی ذریعہ ہیں ، ان محدثاتِ امور ہی کو خدا کو پانے کا مؤثر تر ذریعہ سمجھتا ہے تو اس کی محرومیت میں کیا شک رہ جاتی ہے ؟ اور اگر بالفرض اسے لگے کہ اس بدعت راستے میں ہی اس پر ’احسان‘ کی کیفیات وارد ہونے لگی ہیں تو بہت امکان یہ ہے کہ وہ اس کے لئے شیطان کا بہکاوا ہو جوکہ بدعت راستے کا ایک معروف خاصہ ہے ، اور اس پر دلائل اور شواہد بے شمار ہیں ۔ اور اگر کسی کو قلب کی وہ شفافیت عطا ہوئی ہے کہ اس کو وہاں پر بھی کچھ سچے ’احوال‘ میسر ہوتے ہوں __ جوکہ ایسے لوگوں کے حق میں واقعتا ممکن ہے جنہوں نے لاعلمی کے ماحول میں ایسی کسی فضا کے اندر آنکھ کھولی ہو، بشرطیکہ ان کی وہ بدعت شرک تک نہ جاتی ہو __ تو ایسا پاک طینت شخص تو خاص طور پر یہ حق رکھتا ہے کہ وہ ”اخلاص“ اور ”احسان“ کی، سنت اور سلف سے ماثور بنیادوں سے ہی آشنا ہو اور تب وہ اللہ کی خالص عبادت میں وہ لذت اور لطف پائے اور قرآن سے اس کو ”حقیقت“ کے وہ خزینے ملیں اور تحقیقِ توحید میں وہ ایمان کی وہ بصیرت اور ترقی پائے جو اس کو سوائے اس راستے کے کہیں اور مل ہی نہیں سکتی.... کہ خیر سب کی سب نبی اور صحابہؓ کے راستے میں ہی رکھ دی گئی ہے !!!
بلاشبہہ وہ طبقے جن کی جانب سے ’نماز کو سنت کے مطابق‘ ادا کرنے کی صدا بلند کی جاتی رہی ہے ، بلکہ ان کے ہاں اس پر مناظرے اور لڑائی بھڑائی تک نوبت آجاتی رہی ہے ، حتی کہ بسا اوقات یہ فقہائے اہلسنت کے اختلافِ آراءتک کو ’انحراف‘ کے رنگ میں پیش کرتے ہیں ، اور اِن حضرات کی جد وجہد تو بہر حال نماز کے چند فروعی مسائل ہی کے گرد ہے .... بلاشبہہ ان کے اس رویے نے ’سنت‘ کی بابت ایک عام آدمی کے تصور اور تاثر کو شدید حد تک خراب کیا ہے ۔ ’سنت کی دعوت‘ کے اس تصور concept اور اس تاثر image نے جہاں اور بہت سے نقصانات کئے وہاں یہ اس بات کا بھی سبب بنا کہ ’سنت‘ کے حوالے سے ’عبادات‘ ایک خشک اور بے تاثیر موضوع بن کر رہ جائیں جس میں لذت، شیرینی، لطافت اور روح نام کو نہ ہو۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ’نمازِ نبوی‘ اگر یہی ہے جو ہمارے ان طبقوں کی فرقہ وارانہ بحثوں کو دیکھ کر سامنے آتی ہے تو پھر واقعتا یہ ایک جسم ہے جس کے لئے ’روح‘ کا انتظام ہر ’زندہ‘ شخص کی ضرورت ہوگا۔
ہم یہ کہنے کیلئے معذرت خواہ ہیں مگر حق یہ ہے کہ صوفیاءکا وہ مقدمہ جو اس جسم میں ’روح‘ بھرنے سے متعلق ہے ، وہ ہمارے ان ’داعیانِ سنت‘ کے دیے ہوئے خشک و بے جان رویوں کے باعث ہی ایک بڑی سطح پر مقبولیت پانے اور اپنی ضرورت محسوس کرانے میں کامیاب ہوا ہے ۔ ’روح‘ کے متلاشیوں پر بدعت کا فتویٰ آپ لگا سکتے ہیں جبکہ وہ واقعتا بدعت راہ پر ہوں ، مگر ’سنت‘ کا یہ مفہوم جو ہمیں یہاں کے ایک خاص طبقے کی ’دعوتِ سنت‘ میں ملتا ہے بذات خود کیا دین میں ایک نئی چیز نہیں ؟ بدعات کے رد کے مشن پر روانہ ہونے سے پہلے اگر آپ سنت راہوں کو خود ہی مسدود کر چکے ہوں ، بلکہ ’سنت‘ کے نام پر ہی مسدود کر چکے ہوں ،تو آپ کی یہ سرگرمیِ احیائے دین یہاں کونسی حقیقی تبدیلی لے کر آئے گی؟
ایک مثبت اور حقیقی تبدیلی برپا ہونے کی آس تو اسی وقت لگائی جاسکتی ہے جب واقعتا مقابلہ ’بدعت‘ اور ’سنت‘ کے مابین ہو۔
٭٭٭٭٭
اسلامی عبادات، خصوصا ان میں سے قلبی، قولی اور بدنی عبادات، در حقیقت اللہ کا ذکر ہیں ۔ اللہ کا ذکر ہی بدن اور روح کی اس مشترکہ سرگرمی کی اصل حقیقت ہے ۔ چنانچہ سب سے بڑھ کر جو چیز ضروری ہے وہ یہ کہ ’ذکر‘ ہی کی بابت انسان کا تصور قرآنی اور نبوی مفہومات سے ہم آہنگ ہوجائے ۔ ایک بڑا خلط مبحث در حقیقت یہیں سے جنم لیتا ہے اور پھر مختلف طبقوں کے تعامل میں آگے چل کر جب عملی طور پر ظاہر ہوتا ہے تو اس کی کجی محسوس ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ پس لازم ہے کہ اس مسئلہ کا تدارک یہیں پر ہوجائے ....
’ذکر‘ دراصل ایک حقیقت کا اعادہ ہے ، خواہ وہ اعادہ نماز کی صورت میں ہے یا دعا کی صورت یا کچھ مسنون ورد اور وظائف کی صورت۔ پس سب سے پہلے ضروری ہے کہ وہ ”حقیقت“ ہی ایک انسان کے قلب و ذہن میں جانشین کرائی جائے جس کا ’اعادہ‘ پھر ذکر کہلائے گا۔ وہ اصل ”حقیقت“ ہی کہیں روپوش ہو اور اس کے قیام پر ہی کوئی محنت نہ ہوئی ہو تو بھلا ’اعادہ‘ کس بات کا؟! وہ اصل ’مدعا‘ ہی انسان کو معلوم نہ کرایا گیا ہو جوکہ ’ذکر‘ کی صورت اس کی زندگی میں مسلسل سامنے لایا جانا ہے ، تو اس کے ’بیان‘ پر مبنی عبارتیں دہرانا لازماً اس کے لئے ایک تکلف اور بڑی حد تک ایک غیر طبعی عمل ہوگا۔
یہی وجہ ہے جو ہم کہتے ہیں کہ ’اعمال‘ وہ پہلی چیز نہیں جس پر ”دین“ کی طرف آنے والے شخص کو محنت کرائی جائے گی۔ سب سے پہلے اس سے جو تقاضا ہوگا وہ یہی کہ وہ انبیاءکی بعثت کا مقصد جانے اور رسولوں کے لائے ہوئے پیغام کا لب لباب معلوم کرے ۔ وہ اس بات کا علم حاصل کرے کہ قرآن کا اصل موضوع کیا ہے اور وجود کی اصل غایت کیا۔ حتیٰ کہ اسی سبق پر وہ کچھ دیر ٹھہر جائے ۔ اسی محنت کے دوران وہ اللہ سے ایک صحیح تعارف پاچکا ہوگا اور اُس کی عبادت، اُس کی وحدانیت، اور اُس کی تعظیم و کبریائی کو اپنا سب سے بڑا موضوع بنا چکا ہوگا۔ پھر رسولوں کی دعوت کا لب لباب ازبر کرنے کے دوران وہ شرک اور طاغوت کا مطلب بھی جان چکا ہوگا اور باطل ہستیوں کی خدائی اور کبریائی کے خلاف اعلانِ عداوت بھی اس کی بندگی اور عبادت کے آہنگ میں باقاعدہ طور پر آچکا ہوگا اور ’خدا کی طلب اور چاہت‘ میں ’باطل معبودوں سے بیزاری‘ بھی ایک جزو لاینفک کے طور پر شامل ہوچکی ہوگی۔ غرض عقیدہ کے وہ سب برگزیدہ مطالب جو انبیاءکے مقدمہ ٔ دعوت میں بے حد جلی اور نمایاں ہیں اور ان کو ’تلاش‘ کرنے کیلئے ہرگز کسی ’بحث و تحقیق‘ کی ضرورت نہیں ، حقیقتِ دین کے حوالے سے اس کے پردہ ٔ ذہن پر ثبت ہوچکے ہوں گے ۔ اب جب وہ ’بندگی ‘ کی صورت میں ایک مدعا اپنے اندر پیدا کرچکا ہے ، اور اس بندگی کے محل کا صحیح صحیح تعارف کرچکا ہے ، جس پر کہ اسے اپنی یہ بندگی مختلف صورتوں میں نچھاور کرنی ہے ، نہ صرف یہ بلکہ وہ بندگی کے اس باطل محل سے بھی بری و بے زار اور اس کی پلیدی سے پوری طرح آگاہ ہو آیا ہے جو اس کی اس چاہت اور طلب کو آلودہ کر کے رکھ سکتا تھااور بندگی کے اس پاکیزہ محل کو پانے سے ہی اس کو محروم ونامراد کرسکتا تھا.... اب جب یہ اس حقیقت اور اس مشن کا ادراک کر آیا ہے جوکہ رسولوں اور کتابوں کا اصل الاصول ہے ، اور اسماءوصفات کی صورت معبود کو __اپنی استطاعت کی حد تک __ لاتعداد جہتوں سے جاننے اور ماننے کا شعور پا آیا ہے .... تو اب اس کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی اسی ’حالت‘ کو بار بار اپنے اوپر دہرائے اور مختلف انداز اور اسلوب میں اسی حقیقت کو اپنے اندر تازہ کرے ۔ اس عمل کا نام ہی ’ذکر‘ ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ’ذکر‘ کی یہ سرگرمی مختلف محوروں پر جاری رہتی ہے ۔ نماز، اذکار، ورد، وظائف اور دعا وغیرہ تو ’ذکر‘ ہے ہی۔ سب سے بڑھ کر ’ذکر‘ اس کیلئے یہ ہے بلکہ علی الاطلاق بہترین ’ذکر‘ ہے کہ قرآن کا ورد ہو۔ وجہ یہ کہ قرآن کا دہرایا جاناان سب اسباق کا بہترین اعادہ ہے اور اس اصل حقیقت کا اعلی ترین اثبات ہے جس کو ’ذکر‘ کے اندر در حقیقت بولنا ہے اور جس نے اس کی جملہ سرگرمیِ عبادت کے اندر اصل رنگ بھرنا ہے ۔
’ذکر‘ دراصل نفس کے حق میں ایک حالتِ بیداری کا نام ہے ۔ اس کے برعکس حالت کا نام قرآنی اصطلاح میں ’غفلت‘ ہے (1)، یعنی نفس کا خدا کی جانب متوجہ یا خدا کی ڈیوٹی پر کمربستہ رہنے میں کسی وقت کوتاہ ہوجانا اور اس پر ایسی ساعتوں کا گزرنا جب ایمان اور بندگی کی وہ حقیقت جو وہ رسولوں اور کتابوں سے سیکھ آیا ہے اس کے اندرون میں دھندلی ہو جائے اور ویسی روشن اور تازہ نہ رہ پائے جیسی کہ ’حالتِ بیداری‘ میں ہونی چاہیے ۔
’ذکر‘ کا یہ وسیع مفہوم سامنے نہ رہے تو نہ صرف ’عبادات‘ بے معنیٰ اور روح سے خالی ہونے لگتی ہیں بلکہ وہ خاص اعمال اور ’الفاظ‘ بھی جن کو معروف معنوں میں لوگ ’ذکر اذکار‘ ہی کے طور پر جانتے ہیں ، خود وہ اعمال اور الفاظ بھی ’ذکر‘ کی حقیقت سے خالی ہوجاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یا تو وہ ایک روٹین کا نام بن کر رہ جاتے ہیں اور یا پھر ان میں ’روح‘ اور ’جان‘ ڈالنے کیلئے کچھ اضافی تکلفات کرنا پڑتے ہیں مانند ضربیں لگانا، سانسیں کھینچنا اور پھنکارنا(2)، حال بے حال ہونااور بسا اوقات ناچ گانے تک نوبت آناوغیرہ، جن کا کہ سنتِ رسول اللہﷺ سے دور نزدیک کا بھی کوئی واسطہ نہیں ، اور جن سے ’ذکر‘ کے اندر روح اور جان تو پھر بھی نہیں پڑتی کہ ذکر کی جان تو ہے ہی اللہ کے درست تعارف میں اور دعوتِ رسل کا مقدمہ از بر کرنے اور قرآن کے مضامین دہرانے اور توحید کے حقائق کے اندر گہرا اترنے میں ، البتہ ایک وقتی رنگ اور ایک سماں ان چیزوں سے ضرور بندھ جاتا ہے ، جس کو ’احسان‘ کے برگزیدہ مطالب کی تکمیل بھی سمجھ لیا جاتا ہے !
’ذکر‘ کا یہ وسیع مطلب پس جب تک واضح نہ ہو معروف معنیٰ میں ہم جن ’اذکار‘ سے واقف ہیں خود وہ بھی ’ذکر‘ نہیں رہتے بلکہ ’غفلت‘ ہی کی ایک صورت ہو رہتے ہیں ۔ مسنون اور غیر مسنون اذکار بالکل ایک الگ بحث ہے اور اس کی نوبت بہت بعد جا کر آتی ہے ، ہم البتہ یہاں ذکر کی اصل حقیقت پر بات کر رہے ہیں نہ کہ ’ذکر‘ کیلئے اختیار کئے جانے والے الفاظ اور کلمات پر۔
امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں پورا قرآن ذکر ہے ، بلکہ بہترین ذکر ہے ۔ کیونکہ پورا قرآن بندگی اور عبادت کے خوبصورت ترین مضامین پر مشتمل ہے البتہ ان مضامین میں جو وسعت ہے وہ اس ’ذکر‘ کا دائرہ بے حد پھیلا دیتی ہے اور اس کو نفس سے معاشرے تک اور دنیا سے آخرت تک لے جاتی ہے ۔ اس وسعت ہی کے باعث ایک محدود ذہن کو قرآن کے کئی ایک مضامین ’ذکر‘ کی کیٹگری میں فٹ ہوتے نظر نہیں آتے اور وہ ’ذکر‘ کی کیفیت میں آنے اور رہنے کیلئے قرآن پر ہمہ وقتی محنت سے صرف نظر کئے رہتے ہیں ۔ امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں قرآن میں یا تو اللہ کی ذاتِ کبریاءکا تعارف ہے ، جو کہ بندگی کا اصل محل ہے ، اور قرآن کا ایک بہت بڑا حصہ اسی پر مشتمل ہے اور تعارفِ ذاتِ باری تعالیٰ کے ایسے ایسے افق دکھاتا ہے اور معرفت کے باب میں ہر پہلو سے انسان کو اس قدر گہر ا لے جاتا ہے کہ عام صالحین کا کلام اور بیان تو رہا ایک طرف پہلی آسمانی کتابوں میں بھی خدا کی بابت ایسا خوبصورت بیان نہیں ....یا پھر باطل معبودوں اور طاغوتوں کا بطلان ہے اور اللہ کی بابت جاہلیت کے اختراع کردہ اوہام و تصورات کا ابطال، جوکہ اللہ کی تسبیح اور تنزیہ اور تقدیس ہی کی عملی اور واقعاتی تصویر ہے اور اس کے حق اور ناموس کیلئے حمیت اور غیوری ایسے احساسات نفس میں موجزن ہوجانے کو اللہ کے ذکر و تعظیم ہی کی ایک صورت بنا دینا.... یا پھر قرآن میں شریعت اور حلال و حرام اور اوامر و نواہی کا بیان ہے جو کہ بندگی کی عملی تفاصیل ہیں .... یا پھر جنت و دوزخ اور وعد و وعید کا بیان ہے جوکہ اس بندگی کے پائے جانے یا نہ پائے جانے کے نتائج اور عواقب ہیں اور خدا کے بادشاہ مطلق ہونے اور اس کی عدالت لگنے اور اس کے ہاں سے عدل کے فیصلے ہونے کا ایک مفصل ذکر، اس لحاظ سے یہ بندگی ہی کی عظمت وبرگزیدگی اور اسی کے عظیم الشان مضمرات کا بیان ہے .... یا پھر پہلے رسولوں اور گزری ہوئی قوموں کے قصص ہیں جوکہ زمین پر خدا کی بندگی اور عدمِ بندگی ہی کی سچی اور پر تاثیر داستانیں ہیں ،جن سے کہ بندگی ہی کے حوالے سے ہزار ہا عملی اسباق اور عبرت اور بصیرت کی ہزارہا جہتیں منکشف ہوتی ہیں اور بندگی سے متعلق حقائق کے بہت سے آبگینے ہاتھ آتے ہیں .... یا پھر قرآن میں کفار اور منافقین کی سرزنش و مذمت اور ان کے ساتھ جدال اور پھر ان کے مدمقابل جہاد یا قتال کا بیان ہے ، جوکہ بندگی ِ خداوند کی بنیاد پر زمین میں ایک کشمکش برپا کرنے کے ہی کچھ برگزیدہ ترین مباحث ہیں .... غرض پورا قرآن خدا کی بندگی اور تعظیم کا ذکر ہے اور اس قدر اعلیٰ و ارفع اور قلوب پہ اثر انداز ہونے والا کہ اس سے بہتر کوئی ذکر اور کوئی کلام ہو سکتا نہیں ۔
اب یہاں ہم ابن القیمؒ کے کچھ اقتباسات پڑھیں گے :
”سب کے سب اعمال مشروع ٹھہرائے گئے ہیں تو وہ اسی لئے کہ اللہ کا ذکر عمل میں آئے ۔ اعمال سے اصل غرض دراصل اللہ کے ذکر ہی کی بجا آوری ہے ۔ فرمانِ الہی ہے : وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ”کہ قائم کرو نماز میرے ذکر کیلئے “ .... (اس آیت کی بابت) علماءکے ایک فریق کا قول ہے : لفظ ذکر یہاں بطور مصدر، فاعل کیلئے ہے یعنی نماز قائم کرو اس لئے کہ میں تمہارا (اپنے یہاں ) ذکر کروں ۔ ایک فریق کا قول ہے : اس کی نسبت مفعول سے ہے ، یعنی نماز قائم کرو اس لئے کہ تم میرا ذکر وتذکرہ کرو۔ لذکری میں لام تعلیل کا ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ لامِ وقت ہے ، یعنی جب میری یاد آئے تو نماز قائم کرو۔جس طرح مثلا اس آیت میں لامِ وقت استعمال ہوا ہے : أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ”جب سورج ڈھل جائے تو نماز قائم کرو“، گو لامِ وقت کی بنا پر اس کی تفسیر کرنا محل نظر ہے .... ظاہر تر بات یہ ہے کہ یہ لامِ تعلیل ہے یعنی نماز قائم کرو اس لئے کہ میری یاد تازہو۔ ہاں اس سے یہ لازم ضرور آجاتا ہے کہ خدا کی یاد کے وقت نماز قائم ہو۔ علاوہ ازیں بندہ جب اپنے رب کو یاد کرے گا تو رب کا بندے کو یاد کرنا اس سے پہلے واقع ہوا ہوگا، کیونکہ رب نے جب بندے کو یاد کیا تو ہی بندے کے دل میں یہ ڈال دیا کہ وہ خدا کو یاد کرے ۔ اس لحاظ سے یہ تینوں معانی ثابت ہوجاتے ہیں ۔
علاوہ ازیں ، فرمایا:اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ یعنی ”تلاوت کرو اس کتاب سے جو تم پر وحی کی گئی، اور قائم کرو نماز، بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی سے اور بدی سے ، جبکہ اللہ کا ذکر کرنا زیادہ بڑا ہے “ اہل علم کا ایک قول ہے کہ اس سے مراد ہے تم نماز میں اللہ کو یاد کرتے ہو جوکہ اس کے تم کو یاد کرنے کا نتیجہ ہے البتہ اللہ کا تم کو یاد کرنا تمہارے اللہ کو یاد کرنے کی نسبت عظیم تر ہے ۔یہ قول مروی ہے عبد اللہ بن عباس، سلمان فارسی، ابوالدرداء، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے ۔ ابن ابی الدنیا نے بروایت فضیل بن مرزوق عطیہ سے بیان کیا: وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَر یعنی ”اللہ کا یاد کرنا عظیم تر ہے “ اس آیت سے متعلق ہے کہ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ یعنی ”تم مجھے یاد کرو تو میں تمہیں یاد کروں “ پس اللہ کا تم کو یاد کرنا تمہارے اللہ کو یاد کرنے سے عظیم تر ہے ۔ جبکہ ابن زید اور قتادہ کا قول ہے : اس سے مراد ہے اللہ کو یاد کرنا ہر چیز سے بڑھ کر ہے ۔سلمان فارسی سے دریافت کیا گیا: سب سے افضل عمل کیا ہے ؟ فرمایا: تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَر یعنی ”اللہ کا ذکر کرنا عظیم تر ہے “.... شیخ الاسلام قدس اللہ روحہ کہا کرتے تھے : صحیح یہ ہے کہ اس آیت میں نماز سے دو مقصود بیان کئے گئے ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے ، یعنی نماز بے حیائی اور منکر سے روکتی ہے اور خدا کے ذکر پر مشتمل ہے ۔ البتہ اس کا خدا کے ذکر پر مشتمل ہونا اس کے نہی عن الفحشاءوالمنکر سے بڑھ کر ہے ۔
سنن میں عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
انما جعل الطواف بالبیت وبین الصفا والمروة ورمی الجمار لاقامة ذکر اللہ تعالیٰ۔
(رواہ ابو داود والترمذی وقال حدیث حسن صحیح)
”نہیں ٹھہرایا گیا بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی اور کنکریاں مارنا مگر اللہ کے ذکر کے لئے “۔
(دیکھئے الوابل الصیب مؤلفہ ابن القیمؒ، صفحہ 102، طبعہ دار الکتاب العربی بیروت)
ابن القیمؒ مزید لکھتے ہیں :
ہر عمل کے کرنے والوں میں افضل وہ شخص ہے جس نے اس عمل کو اللہ کے ذکر کا زیادہ سے زیادہ ذریعہ بنایا ہوگا۔ پس روزہ داروں میں سب سے افضل روزہ دار وہ ہوگا جس نے اپنے روزہ کے اندر زیادہ سے زیادہ خدا کی یاد پیدا کرلی ہوگی۔ صدقہ کرنے والوں میں سب سے بہتر صدقہ گزار وہ ہوں گے جنہوں نے صدقہ میں سب سے زیادہ خدا کی یاد پیدا کی ہوگی۔ حجاج کے مابین افضل ترین وہ ہوں گے جن کا حج زیادہ سے زیادہ خدا کا ذکر بن گیا ہو۔ وقس علیٰ ذلک۔
بن ابی الدنیا نے اسی مفہوم سے ربط پر مبنی ایک حدیث مرسل بیان کی ہے ، کہ نبی ﷺ سے دریافت کیا گیا: کونسی مسجد افضل تر ہے ؟ فرمایا: جس میں خدا کی یاد وتذکرہ زیادہ ہو۔ دریافت کیا گیا: کونسا جنازہ زیادہ فضیلت والا ہے ؟ فرمایا: جس میں اللہ کا سب سے زیادہ ذکر ویاددہانی ہو۔ دریافت کیا گیا: مجاہدین میں افضل کون ہے ؟ فرمایا: جو سب سے زیادہ اللہ کا ذکر وتذکرہ کرے ۔ پوچھا گیا: حجاج میں افضل کون ہے ؟ فرمایا: جو سب سے زیادہ اللہ کی یاد کو زندہ کرے ۔ پوچھا گیا: عبادت گزاروں میں سب سے افضل کون ہے ؟ فرمایا: جو اللہ کی یاد میں سب سے بڑھ کر ہو“۔
(دیکھئے الوابل الصیب مؤلفہ ابن القیمؒ، صفحہ 103)
مزید لکھتے ہیں :
عبد اللہ بن بسرؓ کی حدیث ہے ، کہا: ایک اعرابی آیا اور عرض کی: یا رسول اللہ ! اسلام کے شعبے اور احکام وشرائع میرے لئے بہت زیادہ ہوگئے ہیں ، مجھے کوئی ایسی جامع بات بتائیے جو مجھے خوب کفایت کرجائے ؟ فرمایا: ”اللہ کی یاد کو لازم پکڑ لو“۔ اس نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا یہ بات مجھے کفایت کر جائے گی؟ فرمایا: ”ہاں ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر“۔
یوں آپ نے اس کو ایک ایسی کام کی بات بتا دی جس سے وہ خود بخود اسلام کے شرائع و احکام کی بجا آوری پر مدد پانے لگے اور اس میں زیادہ سے زیادہ ترقی کرے ۔ کیونکہ جب وہ اللہ کی یاد اور تذکرہ کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے گا تو وہ اللہ سے محبت کرنے لگے گا اور اللہ کو جو پسند ہے وہ اس کو پسند آنے لگے گا۔ جبکہ یہ تو معلوم ہی ہے کہ اللہ کے تقرب کا کوئی ذریعہ اللہ کو اس سے محبوب تر نہیں کہ اسی کے ٹھہرائے ہوئے شرائع کی بجا آوری ہو۔ یوں آپ نے اس کو ایک ایسی کام کی بات کا پتہ دے دیا جس سے وہ سب کے سب شرائعِ اسلام کے قیام میں مدد پائے اور دین کے یہ سب اعمال اس کیلئے آسان اور مؤثر ہوجائیں ۔
(دیکھئے الوابل الصیب، مؤلفہ ابن القیمؒ، 104)
ابن القیمؒ کا ایک اور طویل اقتباس دیکھ لینا اس موضوع پر نہایت مفید ہوگا، فرماتے ہیں :
ذکر دو طرح کا ہے :
1) رب تعالیٰ کے ناموں اور صفتوں کا تذکرہ کرنا، اور ان دونوں کا ذکر کرکے اس کے گن گانا۔ علاوہ ازیں ہر ایسی بات سے جو اس کی شان اور مقام کے لائق نہیں اس کی تنزیہ اور اس کی تقدیس کرنا اور اس کی پاکی بیان کئے جانا، ذکر کی یہ صورت مزید دو قسموں میں منقسم ہے :
الف) ایک یہ کہ ذکر کرنے والا خدا کی تعریف میں خوب سے خوب پیرائے بیان کرے ۔ احادیث میں (خدا کی تعریف اور تسبیح) کے جو بہت سے اذکار وارد ہوئے ہیں وہ اسی قسم سے ہیں : مثلا یہ کہ (ہم یہاں ان اذکار کا اردو مفہوم دیں گے ، گو اصل عربی میں ہے ) : پاکی اللہ کیلئے ۔ تعریف اللہ کیلئے ۔ نہیں کوئی لائقِ عبادت سوائے اللہ کے ۔ اللہ سب سے بڑا ہے .... بندے کا یوں کہنا: پاکی اللہ کی اس کی حمد وتعریف کے ساتھ، نہیں کوئی پرستش کے لائق مگر اللہ تنہا ویکتا بلاشرکتِ غیرے ، بادشاہی اس کی، تعریف اسی کی، اور وہ ہر چیز پر قادرِ مطلق۔ وغیرہ وغیرہ۔ جہاں تک اس قسم کا تعلق ہے تو اس میں افضل ترین وہ پیرائے ہیں جو جامع ترین ہوں ۔ جیسے مثلا: پاکی اللہ کی اتنی جتنی اس کی مخلوق کی تعداد ہو۔ ایسا کہنا محض یہ کہنے سے کہ پاکی اللہ کی، زیادہ فضیلت کا حامل ہوگا۔ اسی طرح محض یہ کہنے سے کہ تعریف اللہ کی، یہ کہنا زیادہ فضیلت رکھے گا: تعریف اللہ کی، اتنی جتنی مخلوق کی تعداد آسمان میں اور جتنی اس کی مخلوق زمین میں اور جتنی زمین اور آسمان کے مابین اور جتنی ابھی وہ پیدا کرنے والا ہے ۔ چنانچہ جویریہؓ کی حدیث میں ہے کہ نبیﷺ نے ان سے فرمایا تھا: میں نے تمہارے بعد چار کلمات تین تین بار کہے ہیں جن کو تمہارے ان تمام اذکار کے مقابلے میں تولا جائے جو تم صبح سے کر رہی ہو تو وہ اس سے وزن میں بڑھ جائیں : پاکی اللہ کی، اتنی جتنی اس کی مخلوق کی تعداد۔ پاکی اللہ کی، اتنی جتنی اس کے نفس کو راضی کردے ۔ پاکی اللہ کی، اتنی جتنا اس کے عرش کا وزن۔ پاکی اللہ کی، اتنی جتنی اس کے کلمات کے لکھنے کو روشنائی (درکار) ہو۔ یہ روایت مسلم میں بیان ہوئی۔
ب) دوسری قسم یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسماءوصفات کے متعلق امور کی بابت گفتگو کرنا۔ مثلا آدمی کا اللہ کی بابت اس انداز میں گفتگو کرنا کہ’ اللہ ہر ہر بندے کی آواز سنتا ہے اور ان کی ایک ایک حرکت دیکھتا ہے اور کوئی پوشیدہ سے پوشیدہ بات اس سے اوجھل نہیں رہتی۔ اور وہ بندوں پر ان کی ماؤں اور باپوں سے زیادہ مہربان ہے ۔ ہر چیز اس کے قبضہ ٔ قدرت میں ہے ۔ بندہ اس کی طرف تائب ہو کر آئے تو وہ اس سے کہیں بڑھ کر خوش ہوتا ہے جتنا کوئی شخص صحرا میں اپنی گمشدہ سواری کے اچانک مل جانے پر خوش ہوسکتا ہے ‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس ذکر کا بہترین انداز یہ ہوگا کہ اللہ کے ایسے اوصاف بیان کئے جائیں جو خود اس نے اپنی بابت بیان کئے یا جو اس کے رسول نے اس کی بابت بیان کئے ، نہ آدمی اس میں اپنے پاس سے کوئی تحریف کرے ، نہ تعطیل، نہ تشبیہ اور نہ تمثیل۔ تذکرہ ٔ خداوندی کی اس قسم کی آگے مزید تین قسمیں ہیں : حمد، ثناءاور تمجید۔ حمد یہ ہے کہ آدمی اللہ کی صفاتِ کمال کا ذکر کر کرکے اور ایک خاص محبت اور رضاءوتسلیم ایسے محسوسات کے ساتھ اس کی تعریف کرے ۔ یعنی صرف محبت ہونا حمد نہیں ، حمد تب ہوگی جب آدمی محبت اور چاہت کے ساتھ اس کی خوبیوں کے تذکرے کرے ۔ محض خوبیوں کے تذکرے حمد نہیں جب تک وہ ایک خاص محبت اور چاؤ کے ساتھ نہ ہو۔ پس ان دونوں چیزوں کے ملنے سے حمد وجود میں آتی ہے : دل میں احساسِ عقیدت و وارفتگی اور زبان پر اس کی خوبیوں کا بیان۔ یہ ہوئی حمد۔ ثنا کیا ہے ؟ ابھی جس چیز کو ہم نے ”حمد“ کہا ہے یہ اگر بار بار اور دہرا دہرا کر ہونے لگے تو وہ ثنا کہلاتی ہے ۔ پھر یہ ”ثناء“ اگر خاص اُس کے جلال، اُس کی عظمت وکبریائی اور اُس کی پادشاہی ایسی صفات کے تذکروں پہ مبنی ہو تو وہ تمجید کہلاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں انواع کو سورہ ٔ فاتحہ کی ابتداءمیں اکٹھا کردیا ہے ۔ چنانچہ (حدیث کی رو سے ) بندہ جب الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ کہتا ہے : میرے بندے نے میری حمد کی ہے ۔ پھر جب وہ کہتا ہے الرحمن ا لرحیم تو اللہ کہتا ہے : میرے بندے نے میری ثناءکی ہے ۔ پھر جب وہ کہتا ہے مالک یوم الدین تو اللہ کہتا ہے : میرے بندے نے میری تمجید کی ہے ۔
2) تذکرہ ٔ خداوندی کی دوسری قسم ہے خدا کے امر ونہی اور اس کے احکام کا ذکر کرنا۔ یہ بھی آگے دو قسموں میں تقسیم ہوتا ہے : ایک یہ کہ اس کے امر ونہی کا بیان کرنا جیسے مثلا یہ کہنا اللہ نے فلاں چیز کا حکم دیا ہے ۔ فلاں چیز ممنوع ٹھہرائی ہے ۔ فلاں بات اللہ کو محبوب ہے ، فلاں بات اللہ کو ناپسند ہے ۔ فلاں بات سے وہ خوب راضی ہوتا ہے ، فلاں بات اس کو ناراض کردینے والی ہے ، وغیرہ۔ دوسری قسم ہے اس کے امر کے ذکر کے وقت اس کو اس طرح یاد کرنا کہ آدمی اس کے حکم کی بجاآوری کی جانب خود کو لپکتا ہوا پائے ۔ اس کے نہی و ممانعت کا ذکر ہو تو آدمی اس ممنوعہ امر سے بھاگتا ہوا محسوس ہو۔ کیونکہ اس کے امر ونہی کا ذکر ایک چیز ہے اور اس امر ونہی کے وقت خود اس کا ذکر ایک اور چیز....
ذکر کی یہ سب انواع کسی وقت دل اور زبان دونوں سے ہوتی ہیں ، جوکہ ذکر کی بہترین صورت ہے ، اور کسی وقت صرف دل سے ، جوکہ افضلیت میں دوسرے درجے پر ہے ، اور کسی وقت صرف زبان سے جوکہ خوبی میں تیسرے درجے پر ہے ۔ پس ذکر کی سب سے برگزیدہ حالت وہ ہے جس میں دل اور زبان یک آواز ہوں ۔ البتہ اکیلے اکیلے ہوجائیں تو صرف دل سے کیا گیا ذکر صرف زبان سے کئے گئے ذکر سے افضل ہے ۔ کیونکہ دل سے کیا گیا ذکرِ خدواوندی، فہم وعرفان کے پھل دیتا ہے ۔ محبتِ خدواندی کو مہمیز دیتا ہے ، خدا سے حیاءدلانے کا باعث بنتا ہے ، خدا کا خوف پیدا کرتا ہے ،خدا کی جانب توجہ اور خود کو ہر دم خدا کی نگاہ میں پائے جانے کا احساس برآمد کراتا ہے ، خدا کے حق میں قصور اور کوتاہی سے آدمی کو باز رکھتا اور گناہوں اور بدکاریوں کو معمولی جاننے میں اس کیلئے رکاوٹ بنتا ہے ۔ جبکہ صرف زبان سے کیا گیا ذکر یہ سب کچھ اس طرح پیدا نہیں کرتا، لہذا اس کا ثمر بھی اتنا ہی کمزور رہتا ہے ۔
(الوابل الصیب، صفحہ 117- 119)
اسی فصل میں آگے چل کر امام ابن القیم لکھتے ہیں :
”چونکہ نماز میں قرا ٔتِ قرآن بھی ہے ، ذکر بھی اور دعاءبھی، اور یوں نماز میں عبودیت کے متعدد اجزاءبکبارگی اکٹھے ہوجاتے ہیں اور کمال انداز میں اورنہایت خوبصورت ہیئتوں میں مجتمع ہوتے ہیں ، اس لئے نماز اکیلی قرا ٔت سے بھی بہتر ہوئی، اکیلے ذکر سے بھی اور اکیلی دعاءسے بھی۔ کیونکہ یہ سب نیکیاں نماز میں ایک ہی جگہ آملتی ہیں ، جبکہ اعضاءو جوارح کی بندگی وعاجزی اس پر مستزاد!!!
(الوابل الصیب، صفحہ 122)
٭٭٭٭٭
اب یہاں ایک طویل اقتباس ذکر کو عقیدہ سے برآمد کرنے اور پھر اس کو عمل اور جہاد کی جہتوں سے آشنا کرانے کے موضوع پر ہم محمد قطب کی ایک تحریر سے لیں گے :
یہ وہ لوگ تھے جو کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے خدا کی جانب متوجہ اور خدا کی یاد میں محو ہوتے ۔ صحابہؓ کا خدا کی یاد اور خدا کے ذکر میں محو ہونا کس طرح تھا؟ کیا یہ وہ ذکر ہے جو آدمی کو ’فنا‘ تک لے جاتا ہے جیسا کہ صوفیہ کے ہاں ملتا ہے جو کہ ’فنا‘ کو ہی وجود کی اصل حقیقت قرار دیتے ہیں ؟ یا یہ وہ ذکر ہے جو انسان کی تمام تر چستی اور توانائی کو ایک جیتے جاگتے معاشرے میں متحرک کرتی ہے اور ایک بھرپور زندگی کے اندر اس کو خدا کی خوشنودگی پانے پر تیار کرتی ہے ؟
وہ خدا کو ہر دم یاد کرتے اور اپنے آپ سے سوال کرتے کہ خدا اُن سے عین اس لمحے کیا چاہتا ہے ؟ اس سوال کا جواب جس لمحہ ’جہاد فی سبیل اللہ‘ ہوتا یہ ’ذکر‘ اس لمحہ ان سے جہاد فی سبیل اللہ کروا رہا ہوتا تھا .... جس لمحہ اس سوال کا جواب ’علم وآگہی کا حصول‘ ہوتا اور جو کہ ہر مسلم پر فرض ہے یہ ’ذکر‘ اس لمحہ ان کو علم کے حصول پر مجبور کر رہا ہوتا تھا .... جس لمحہ اس سوال کا جواب رزق حلال کا حصول ہوتا یا انفاق فی سبیل اللہ ہوتا یا زمین کی خدائی نقشے پر تعمیر وآبادی ہوتا اس لمحہ یہ ذکر ان سے یہ سب کام کروا رہا ہوتا تھا .... جس لمحہ اس سوال کا جواب ”وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ “ (3) ہوتا اس لمحہ وہ اس فرض کی ادائیگی کو خدا کے ذکر کا تقاضا سمجھتے .... یہی حال ان کا دین کے سب فرائض اور زندگی کے سب میدانوں میں ”خدا کے ذکر“ کی بابت تھا۔
وہ خدا کو ہر دم یاد کرتے اور اپنے آپ سے سوال کرتے کہ خدا کی چاہت پوری کرنے میں وہ اب تک کیا کر پائے ہیں اور یہ کہ وہ جس حال میں ہیں وہ خدا کو خوش کر دینے والا ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب اثبات میں پاتے تو خدا کی حمد اور تعریف اور شکر کرنے میں لگ جاتے اور اس کا تقرب پانے میں اس سے بھی بڑھ کر مصروف عمل ہو جانے کے متمنی وکوشاں ہوتے اور اگر وہ اس کا جواب کسی وقت نفی میں پاتے تو ’خدا کی یاد‘ ان سے استغفار کروانے لگتی! یعنی اس حال میں بھی وہ خدا کو یاد کرتے مگر اس لئے کہ وہ اپنے اس حال سے ، جس میں خدا ان کو دیکھنا نہیں چاہتا، نکل آئیں ۔ یہ چیز بھی ان کیلئے ’خدا کا ذکر‘ کرنا تھا!
اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ ان کو یاد آجاتا ہے ۔ تب وہ اس سے اپنے قصوروں کی معافی مانگنے لگتے ہیں ___ اور کون ہے اللہ کے سوا جو گناہ معاف کر دے ___ جبکہ وہ دیدہ و دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے ۔ ایسے لوگوں کی جزا انکے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں انہیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ کیسا اچھا بدلہ ہے ، ایسے نیک عمل کرنے والوں کیلئے | وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ أُوْلَـئِكَ جَزَآؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ (آل عمران: 135 ۔ 136) |
اب ذرا انہی آیات کو دیکھ لیجئے جن میں صحابہؓ کا کھڑے بیٹھے اور لیٹے ’خدا کے ذکر‘ میں مشغول ہونا بیان ہوا ہے ....
وہ جو اٹھتے ، بیٹھتے اور لیٹتے ، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی ساخت پر غور کرتے ہیں | الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ(آل عمران: 191 ) |
اس لمحہ خدا کی یاد میں محو ہونے کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ زمین اور آسمان کی ساخت میں بھی ذرا غور کریں اور یوں وہ زمین اور آسمانوں کی ساخت میں اور ان کے مابین جو جہان پائے جاتے ہیں ان کی تخلیق اور پیدائش کے معاملہ میں کسی ’مقصد‘ اور ’غایت‘ تک پہنچیں اور اس کارخانہ ہستی میں جو ’حق‘ ایک خاموشی کی زبان میں محو گفتگو ہے اس سے شناسائی حاصل کریں ۔
اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے ، اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے ، اور اسی کی طرف آخرکار تمہیں پلٹنا ہے | خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُِ (التغابن: 3 ) |
ہم نے آسمان اور زمین کو اور اس جہان کو جو ان کے درمیان ہے ، فضول پیدا نہیں کردیا ہے ۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے ، اور ایسے کافروں کیلئے بربادی ہے جہنم کی آگ سے | وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ (ص: 27) |
چنانچہ یہ لوگ خدا نے ان کو جو علم عطا کیا ہے اس علم کی بنا پر اور کائنات اور انسانی زندگی کے اندر جو خدائی سنتیں اور خدائی قوانین کارفرما ہیں ان کے تجزیہ ومشاہدہ کی بنا پر اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ اس کارخانہ ٔ حیات کا وجود عبث اور بے مقصد ہو یہ ممکن ہی نہیں اور یہ کہ اس کی ایک ایک جزئیات میں جب بے پناہ حکمتیں پائی جاتی ہیں پھر یہ ’کل‘ ایک عبثِ محض کیونکر ہو سکتا ہے .... پھر جب وہ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں تب یہ دُنیا کی زندگانی ان کی نظر میں منتہائے وجود نہیں رہتی۔ نہ ان کی نظر میں یہ ممکن ہی رہتا ہے کہ یہ دینا ہی وجود کا نقطہ ٔ آخرین ہو۔ کتنے انسان اس ہنگامہ ٔ حیات میں مخلوق پر ظلم وقہر ڈھاتے ہیں اور زندگی کی آخری سانس تک ظلم کئے جاتے ہیں ۔ کتنے انسان یہاں ظلم سہتے ہیں اور زندگی کی آخری سانس تک ظلم سہے جاتے ہیں ۔ اگر یہ دُنیا کی زندگانی ہی منتہائے وجود ہے تو پھر ”حق“ یہاں کہاں ہے ؟؟ پھر تو یہ عبث اور باطل ہو گی کہ اس میں ’حق‘ ہی روپوش ہے ۔
اب یہاں ان کا ’خدا کا ذکر‘ کرنا اور تخلیق میں چھپے ہوئے ’حق‘ پر ان کا غور وفکر کرنا ان کے شعور و وجدان کو یوم آخرت کی جانب لے چلتا ہے ۔ جہاں وہ جنت اور جہنم کو موجود پاتے ہیں ۔ تب وہ جہنم سے خدا کی پناہ مانگنے لگ جاتے ہیں :
اور وہ آسمان وزمین کی ساخت میں غور وفکر کرتے ہیں (تب وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں ) ”پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے تو پاک ہے (اس سے کہ عبث کام کرے ) پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے | وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران: 191 ) |
آگ کے ذکر پر آگ سے خوفزدہ ہونا اس ایمان کا تقاضا ہے ۔ اب یہ اس آگ سے نجات کا پروانہ پانے کیلئے یہیں دُعاگو ہونے لگتے ہیں ۔ یوں یہ ’ذکر‘ ’دُعا‘ میں بدل جاتا ہے :
خدایا! تو نے جس کو دوزح میں ڈالا اسے درحقیقت بڑی ہی ذلت و رسوائی میں ڈال دیا اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا | رَبَّنَا إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ (آل عمران: 192 ) |
پھر ان کی نگاہ متلاشی ہونے لگتی ہے کہ وہ مالک کے حضور میں کیا پیش کریں جو ان کی خلاصی اور کامیابی کیلئے سفارش کا کام دے سکے اور ان کو خدا کے ہاں سرفراز کر دے :
مالک! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو۔ ہم نے اس کی دعوت قبول کرلی۔ پس اے ہمارے آقا! جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزر فرما، جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کر دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔ خداوندا! جو وعدے تو نے رسولوں کے ذریعے سے کئے ہیں ، ان کو ہمارے ساتھ پورا کر اور قیامت کے روز ہمیں رسوائی میں نہ ڈال۔ بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے | رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلإِيمَانِ أَنْ آمِنُواْ بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأبْرَارِ رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلاَ تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لاَ تُخْلِفُ الْمِيعَادَ (آل عمران: 193۔ 194) |
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ ....
تب خدا کی طرف سے جواب آتا ہے !
خدا ان کی اس گریہ زاری اور اس مناجات کو باریابی بخشتا ہے ۔ مگر کلام کی خوبصورتی دیکھئے ۔ خدا کس چیز کو باریابی بخشتا ہے ؟ کیا محض ذکر کرنے کو؟ کیا محض ان کے غور وفکر کرنے کو؟ کیا محض تدبر اور تفکر کرنے کا ان کو یہ صلہ دیتا ہے ؟ کیا محض گریہ زاری کا یہ جواب دیتا ہے ؟ یہ سب کچھ ایک مومن سے بلاشبہ مطلوب ہے مگر دیکھئے جواب میں کیا آتا ہے :
جواب میں اُن کا رب فرماتا ہے : میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں ۔ خواہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور میری راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اورمیرے لئے لڑے اور مارے گئے ان کے سب قصور میں معاف کر دوں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ ان کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے | فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُواْ وَأُخْرِجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُواْ فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُواْ وَقُتِلُواْ لأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّن عِندِ اللّهِ وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ (آل عمران: 195) |
یہاں ہے ’تربیت‘ سے متعلق وہ درس جو ان آیات میں دیا گیا ہے ۔ آیات میں یہ بات شروع جس چیز سے کی گئی وہ صحابہؓ کا یہ وصف ہے جو یہاں بیان ہوا ”وہ جو کھڑے ، بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے خدا کا ذکر کرتے اور خدا کی یاد میں محو رہتے ہیں “ .... مگر اس ذکر کی ماہیت کیا ہے ؟ یہ وہ ذکر ہے جو ایک جیتی جاگتی اور حرکت وعمل سے پر زندگی کو جنم دیتا ہے ۔ یہ وہ ذکر ہے جو زمین کے اندر ہلچل برپا کرتا ہے .... یہ ہجرتوں میں لگے ہوئے لوگ .... یہ دیس نکالا پانے والے انسان .... یہ لوگ جو خدا کی خاطر اور اس کے مشن کی تکمیل کی راہ میں اذیت پاتے اور اذیت سہتے ہیں .... اور اس پر صابر وثابت قدم رہتے ہیں .... یہ باطل سے برسرپیکار لوگ اور خدا کی خاطر موت کو گلے لگا لینے والے انسان .... فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ خدا ان کی پکار سن لیتا ہے اور ان کی مناجات کو شرف باریابی بخش دیتا ہے !
’ذکر‘ کے کچھ ایسے ہی تصور پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحابؓ کی صورت گری کی تھی، سب سے پہلے اپنی شخصیتِ بابرکات کے اسوہ سے مدد لے کر، پھر ارشاد اور تلقین اور تعلیم سے کام لے کر اور پھر ایک مسلسل نگرانی، محنت اور احتساب کی راہ سے .... یہاں تک کہ وہ انسانی بلندی کی ان سطحوں کو چھونے لگے جن کی تاریخ میں واقعتا کہیں مثال نہیں ملتی۔
(”دعوت کا منہج کیا ہو؟“ صفحہ 172- 176،یکے از مطبوعات ایقاظ
اردو استفادہ”کیف ندعو الناس“مؤلفہ محمد قطب)
٭٭٭٭٭
(1) واذکر ربک فی نفسک تضرعا وخیفة ودون الجہر من القول بالغدو والآصال ولا تکن من الغافلین (ال اَعراف: ۵۰۲) ”اور یاد کرو اپنے رب کو اپنے درون میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ، زبان سے ، اونچی آواز رکھے بغیر، صبحوں کو اور شاموں کو بھی، اور ہرگز نہ ہورہنا غفلت والوں میں سے “
(2) ان بعض حلقوں میں ایک اور چیز بھی معروف ہے جس کو ’قلب کا جاری ہونا‘ کہا جاتا ہے ، ایک خاص مفہوم میں جس کا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ سے تو کوئی ثبوت ظاہر ہے کہ پایا ہی نہیں جاتا ، ویسے بھی یہ ایک بے حد پر تصنع چیز ہے ۔ بسا اوقات، اس عمل کے دوران، دیکھنے والا بڑی دور سے ’صاحبِ حال‘ کے سینے میں ایک ہلچل دیکھتا ہے اور کچھ دیر کیلئے حیران ہی ہو کر رہ جاتا ہے ۔ محسوس ہوتا ہے دل باقاعدہ پھڑپھڑا رہا ہے اور قمیص کے اندر سے اور بسا اوقات تو ’جرسی و سویٹر‘ کے اندر سے عین دل کے مقام پر سینے کے ’اندر‘ ہونے والی تیز تیز حرکت صاف دیکھی جاتی ہے ۔ خدایا کیا ماجرا ہے !؟ سب جانتے ہیں کہ یہ اگر اس قلب کی حرکت ہے جو سینے کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے (خود حدیث میں قلب کو بدن کے اندر پایا جانے والا ایک لوتھڑا کہا گیا ہے ) تو پھر ہم سب جانتے ہیں کہ اس لوتھڑے کے گرد پسلیوں کا ایک مضبوط پنجرہ بھی خدا نے تخلیق کر رکھا ہے ، جس کے ہوتے ہوئے دل کتنی ہی اچھل کود کرنے پہ آجائے ، سینے کے باہر خصوصاً موٹے گرم کپڑوں کے اندر سے دل کا آگے پیچھے تیز تیز حرکت کرتے دیکھا جانا ممکن نہیں ۔ تو پھر یہ کیا ہے ؟
مجھے میرے ایک دوست نے ، جو کوئی بیس سال سے زیادہ ان حلقوں کے ساتھ وابستہ رہے اور بعد ازاں اللہ نے ان کو خالص دین کی سمجھ دی، اپنا ’قلب‘ جاری کرکے دکھایا۔ ہمارے حیران ہونے اور سوال کرنے پر انہوں نے وضاحت کی کہ وہ دل جو سینے کے اندر ہے وہ تو پسلیوں سے ابھر کر کیسے باہر کو آسکتا ہے یہ البتہ عضلات کی ایک خاص مشق ہے جو سالوں کی محنت کے بعد ثمر آور ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں آدمی کچھ کوشش اور ترکیز صرف کرکے اپنے ان عضلات کو جو سینے پر عین دل کی سیدھ میں ہوتے ہیں بڑی تیزی کے ساتھ حرکت دے سکتا ہے ۔ انسان کے اندر مسلسل مشق کے نتیجے میں کئی ایسی قدرتیں پیدا کی جاسکتی ہیں جو بالعموم اس کے بس میں نہیں ہوتیں ۔ کچھ محنت اور مشق کے نتیجے میں آپ اپنے کان کو حرکت دے سکتے ہیں اور ناک کی کونپل بھی ہلا سکتے ہیں ۔ ہمارے اس دوست نے بتایا کہ جب وہ ’ذکر‘ کے ان حلقوں میں سرگرم تھے تو مسلسل کئی سالوں کی ریاضت کے بعد جا کر ہی ان کا قلب ’جاری‘ ہو پایا تھا!
(3) النساء: ۹۱ ”اور ان سے (عورتوں سے ) اچھا برتاؤ کرو“