تعمیرِ فرد، بہ ترتیبِ سنت
خیالاتی دُنیا میں بسنا اسلام نہیں۔ واقعیت پسند ہونا اسلام میں حد درجہ مطلوب ہے۔ کمیاں کوتاہیاں انسانوں میں ہمیشہ پائی گئی ہیں اور پائی جائیں گی۔ ’تربیت‘ کا مطلب فرشتے پیدا کرنا نہیں۔ ’تربیت‘ انسان کی سرشت بدل دینے کا نام نہیں۔ انسانوں کو ہمیشہ ان کی کمیوں کوتاہیوں کے ساتھ ہی قبول کیا جائے گا اور کمیاں کوتاہیاں ہمیشہ ان میں رہیں گی۔ مگر اس حوالے سے بھی سوال یہی ہو گا کہ وہ کونسے پہلو ہیں جن میں کمیوں کوتاہیوں کی گنجائش نہ ہونے کے برابر رکھی جائے گی اور وہ کونسے پہلو ہیں جن میں ’نسبتاً‘ چھوٹ دی جا سکتی ہے؟
دین کے حقائق، جن کو اصطلاحی زبان میں ’عقیدہ‘ کہا جاتا ہے اسلام کا سب سے اہم پہلو ہے اور یہ وہ میدان ہے جس میں کمیوں کوتاہیوں کی گنجائش دین کے باقی ہر میدان سے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں پائی جانے والی غلطی یا انحراف یا قصور یا نقص سب سے مہلک جانا جائے گا اور اس کو درست کر لینے پر سب سے زیادہ زور دیا جائے گا۔
دین کے حقائق کے بعد پھر دین کے عملی فرائض کا درجہ آتا ہے جن میں واجبات کی ادائیگی اور ممنوعات ومحرمات سے اجتناب آتا ہے۔ سب واجبات اپنی اہمیت واولویت کے لحاظ سے اور سب محرمات اپنی شناعت اور سنگینی میں یکساں نہیں ان میں سے بعض باتیں بعض باتوں سے اہم تر اور سنگین تر ہوں گی۔ جیسا کہ عقیدہ یعنی حقائقِ دین میں بھی سب کی سب باتیں اہمیت یا حرمت کے لحاظ سے یکساں نہیں۔ عقیدہ میں بھی کوئی ایک بات کسی دوسری بات کی نسبت اہم تر یا سنگین تر ہوگی۔ البتہ مجموعی طور پر دین کے حقائق دین کے عملی فرائض پرمقدم ہیں اور اہمیت کے لحاظ سے اولی اور اول۔
فرائض کے بعد پھر مستحبات کا درجہ آتا ہے۔ مستحبات انسان کے دین اور ایمان کی تکمیل کرتے ہیں۔ مستحبات کی بابت جیسے کسی نے کہا کہ: ’فرائض‘ اگر ایک ایسا ہدیہ ہے جسے خدا کے حضور پیش کیا جانا ہے تو ’مستحبات‘ وہ خوبصورت غلاف ہے جس کے اندر اس ھدیۂ عقیدت کو لپیٹا جانا ہے۔ چیز کو اعلیٰ اور بہت ہی باادب انداز میں پیش کرنے کیلئے لازم ہے کہ بس وہ یونہی نہ تھما دی جائے، گو یہاں قبول کرنے والا بندگی کے عمل کو ایک ذرے کے برابر بھی ہو تو شرف قبولیت بخشتا ہے اور اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا اور اس کا پورا پورا صلہ دیتا ہے اور اس پر اپنے فضل سے ___اور ہم کیا جانیں کہ اس کا فضل اوربخشیش کیا چیز ہے___ یعنی خاص اپنے پاس سے اور بھی عطا کرتا ہے.... تاہم پیش کرنے والے کے لائق یہی ہے کہ وہ بندگی کے ھدیے کو بندگی ہی کے غلاف میں چھپا کر اور مزین کرکے معبود کو پیش کرے اور پوری عاجزی سے قبول کرنے کی درخواست کرے۔ اس انداز کی بندگی جس بات کی متقاضی ہے وہ ’مستحبات‘ کا التزام ہے!
’مستحبات‘ کا اصل حسن یہ ہے کہ انسانی شخصیت میں یہ اپنی ترتیب سے آئے۔ یعنی انسان کا دین کے حقائق میں گہرا اتر جانا، پھر ان حقائق کے استیعاب سے ’فرائض‘ کا ایک نقشہ اس کے سامنے آنا اور اس کا ان کی ادائیگی میں لگ جانا، اور پھر اس کا اپنی باقی ماندہ توانائیوں کو مستحبات میں صرف کر دینا.... یہ ایمان کو برآمد کرنے کا ایک بہترین، متوازن ترین اور حسین ترین منہج ہے اور اگر آپ ایک لفظ میں بات کہنا چاہیں تو یہ ’سنت‘ منہج ہے۔ ایسا آدمی جو دین کی اس ترتیب سے تشکیل پائے قابل رشک ہوجاتا ہے:
انک تقدم علیٰ قوم اَہل کتاب، فلیکن اَول ما تدعوہم الیہ عبادۃ اللہ، فاذا عرفوا اللہ فاخبرہم اَن اللہ قد فرض علیہم خمس صلوات فی یومہم ولیلتہم، فاذا فعلوا فاخبرہم اَن اللہ فرض علیہم زکوۃً من اَموالہم فترد علي فقرائہم، فاذا اَطاعوا بہا فخذ منہم وتَوَقَّ کرائم اَموال الناس
(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ باب لا تاخذ کرائم اَموال الناس)(1)
”(اے معاذ!) تم ایک اہل کتاب قوم کے ہاں جا رہے ہو، پس وہ پہلی بات جس کی تم انہیں دعوت دو یہ ہونی چاہیے کہ وہ یکتا وتنہا اللہ کی عبادت کرنے لگیں، پھر جب وہ اللہ کو پہنچان جائیں، تو تب ان کوبتانا کہ اللہ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ٹھہرا دی ہیں، پھر جب وہ اس پر عمل کرنے لگیں، تو ان کو بتانا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں سے زکوۃ فرض ٹھہرا دی ہے، جو کہ انہی میں کے غریب لوگوں کو لوٹا دی جائے گی، پھر جب وہ اس میں اطاعت گزار ہوجائیں تو ان سے یہ قبول کر لینا، اور ان کی نہایت قیمتی اشیاءلینے سے گریز کرنا“ (صحیح بخاری)
وما تقرب الي عبدي بشيء اَحب الي مما افترضتہ علیہ۔ وما یزال عبدي یتقرب الي بالنوافل حتی اَحبہ، فاِذا اَحببتہ کنت سمعہ الذي یسمع بہ وبصرہ الذي یبصربہ ویدہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا، واِن ساَلني لاَعطینہ، ولئن استعاذني لاَعیذنہ.... (صحیح بخاری عن ابی ہریرۃ)
”میں نے اپنے بندے پر جو فرض کر دیا میرا تقرب پانے کیلئے اس سے بہتر ذریعہ اور کوئی نہ ہو گا۔ اور پھر میرا بندہ نوافل (میرے فرض کردہ امور سے بڑھ کر میری خوشی کے اعمال) کر کر کے جب میری قربت چاہتا ہے پھر تو میں اس کو پسند ہی کر لیتا ہوں، پھر جب میں اس کو پسند کر لیتا ہوں تو میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ میں اس کی نگاہ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ وہ مجھ سے مانگے تو میں اس کو ضرور دوں۔ وہ میری پناہ چاہے تو میں اس کو ضرور پناہ دوں“۔
کتنے ہی مربی دیکھے گئے جو آدمی کو دین کی طرف آتے ہی ’وظائف‘ تھما دیتے ہیں۔ بے شک آپ بدعت پر مبنی وظائف کی بات الگ رکھ دیں ایسے وظائف بھی جو سنت سے ثابت ہیں یا جن کی سنت سے گنجائش ملتی ہے.... ان پرمحنت بھی وہ پہلا عمل نہیں جو دین کی طرف آنے والے ایک فرد کو دیا جانا ہے۔
وظائف اور فضائل اور اعمالِ ذکر، مختلف قسم کے ورد، نفلی عبادات اورمستحبات.... بلاشبہ یہ انسان کی شخصیت میں ایک ’تبدیلی‘ لاتے ہیں۔ اس میں ’نیکی‘ بھی پیدا کرتے ہیں اور اس کو ایک سلسلے سے منسلک بھی کر دیتے ہیں۔ مگر کارِنبوت طبیعتوں میں محض ایک ’نیکی‘ پیدا کر دینا نہ تھا۔ یہ اس سے کچھ بڑھ کر تھا۔ البتہ یہ کیا تھا، اس کی سمجھ تبھی آئے گی جب دین کا ہر کام اپنی ترتیب سے اور اپنے وقت پر ہو۔ یعنی اس سے پہلے جو کام کئے جانا ہیں پہلے وہ کر لئے جائیں۔ کیونکہ وہ اہم تر ہیں اور اللہ کو اس سے کہیں بڑھ کر مطلوب ہیں۔ یہاں تک کہ اگرآدمی کی بیشتر توانائی انہی اہم تر کاموں میں صرف ہو جاتی ہے اور مستحبات پہ آنے تک اس کی ہمت اور توانائیوںمیں بہت کم گنجائش بچتی ہے یا اس کو ڈر ہے کہ تطوع (نفلی عبادات) پر محنت کی نوبت آنے تک اس میں بہت کم سکت باقی رہے گی تو بھی ضروری ہے کہ پہلے وہی کام کئے جائیں، بلکہ تب تو اوربھی ضروری ہے کہ پہلے وہی کام کئے جائیں، جو اللہ کو مستحبات سے بڑھ کر اور مستحبات سے پہلے مطلوب ہیں۔
’کمیاں کوتاہیاں ہر کسی میں ہوتی ہیں‘ .... عمومی حیثیت میں درست ہونے کے باوجود یہ بات ایک منہج کی غلطی کیلئے کوئی مطلق دلیل نہیں۔ ’کمیاں کوتاہیاں‘ دور کرنے کی بھی ضرور کوشش ہونی چاہئے لیکن اس سے بڑھ کر توجہ دینے کی بات یہ ہے کہ ’کمیاں کوتاہیاں‘ اگر کسی وجہ سے رہنی ہی ہیں تو وہ کہاں رہیں اور وہ کونسی جگہیں ہیں جہاں ’کمیوں کوتاہیوں‘ کی گنجائش سب سے پہلے ختم کرنی چاہئے؟
’کمیاں انسانوں ہی میں پائی جاتی ہیں‘ .... یہ بات بالکل برحق ہے مگر اس بنا پر کوئی سب سے زیادہ اگر آپ سے وہاں چھوٹ پاتا ہے جہاں اللہ اور رسول سب سے کم چھوٹ دیں بلکہ شاید بالکل ہی چھوٹ نہ دیں تو ایسی ’کمیاں‘ رہ جانے کی ذمہ داری ’انسانی کمزوریوں‘ کو نہیں بلکہ ’منہج کے انحراف‘ کو اٹھوانی چاہیے۔ ان نقائص کو ’بشری کمزوریوں‘ کے زمرے میں شمار کرنا البتہ ایک اضافی انحراف ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا انحراف ہو گا جو بہت سے انحرافات کی دلیل اور وجہِ جواز بن جایا کرے۔ یعنی درستی کا امکان ہی ختم ہو جائے۔
قرآن کی آیت البر پڑھنے اور سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ’نیکی‘ کا تصور درست کرتے رہنا بے انتہا ضروری ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو محض ’مظاہر‘ پر جاتی ہے۔ ایک کثیر خلقت ایسی ہے جو ’مستحبات‘ اور نفلی عبادات اور ’خاص اعمال‘ سے ’فرائض‘ کی نسبت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ پھر ’فرائض‘ اور ’اعمال‘ سے جتنا متاثر ہوتی ہے اتنا ’حقائقِ دین‘ میں رسوخ پانے کی محنت سے متاثرنہیں ہوتی۔ بلکہ اس آخر الذکر کو تو کوئی ’کام‘ ہی نہیں جانتی۔ الا ماشاءاللہ۔ دراصل یہ انسان کے تفقہ اور اس کے فہم کی گہرائی اور اس کی رجاحتِ عقل کا ایک زبردست پیمانہ ہے۔ یعنی اس کے شعور کی لوح پر دین کے امور کا ایک ترتیب سے آجانا۔ اس ترتیب کو درست کر لینا اس کے بغیر ممکن نہیںکہ انسان کا ذہنی افق ہی وسیع کیا جائے۔ تاریخ کے ملبے تلے سے مسلم شخصیت کو ایک بڑی سطح پر برآمد کرنے کا یہی طریقہ ہے۔
دین کے جو فرائض ہیں، انسان کے اپنے ماحول اورمعاشرے میں دین کے اس سے جو تقاضے ہیں.... اللہ کا حق، بندوں کا حق، والدین کا حق، اولاد کا حق، زوجین کے حقوق، رشتہ داروں اور ہمسایوں کے حقوق، معاشرے کے حقوق، پوری انسانیت کے حقوق حتی کہ مظلوم ہی نہیں ظالم کے حقوق بھی ہمارے دین میں واضح کر دیئے گئے ہیں۔ یہ سب ’فرائض‘ ہیں جن میں سرفہرست اللہ کا حق ہے.... ان فرائض کی سمجھ پانا، ان میں اہم اور اہم تر کی تمییز کرنا، اہم تر کو اہم سے مقدم رکھنا، ان فرائض کی ادائیگی کی عملی صورت نکالنے کیلئے بہتر سے بہتر لائحہ عمل وضع کرنا، ان میں توازن قائم کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنا.... پھر ان فرائض کو، خواہ وہ اللہ کے حق سے متعلق ہوں یا بندوں کے حق سے، بہترین انداز میں اور علی وجہ المطلوب ادا کرنے میں لگ جانا، اس کو پوری توجہ دینا اور اس پر باقاعدہ محنت کرنا.... بہت سے لوگوں کو یہ کوئی بڑا کام نظر نہیں آتا۔ البتہ کسی ایک ہی فرض میں ’نام‘ پیدا کر لینا ان کی نظر میں پھر بھی کچھ نہ کچھ اہمیت رکھتا ہے۔ البتہ جو تاثر ان کے دلوں پر ’وظائف‘ اور ’فضائل‘ میں نام پیدا کرنے لینے سے قائم ہوتا ہے وہ حیثیت کسی بات کو حاصل نہیں۔ اس پر محنت اور ریاضت سے انکے دل کو جو تسلی ہوتی ہے یا کسی کو کرتا دیکھ کر اس سے یہ جتنا متاثر ہوتے ہیں اتنا’فرائض‘ کی جامع و متوازن ادائیگی سے متاثر نہیں ہوتے!
پھر جو لوگ اس سے کچھ آگے بڑھتے ہیں.... ’مستحبات وفضائل‘ سے پہلے ”فرائض“ کو اہمیت دیتے ہیں اور اس بات سے بھی حتی الوسع بچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی ایک ہی فرض کو دین میں بہت زیادہ نمایاں کر دیں یعنی وہ فرائض میں ”توازن“ اور فرائض کی ”سنت ترتیب“ کا بھی ممکنہ حد تک خیال رکھتے ہیں___ اگرچہ ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں جو فرائضِ دین کی ”ترتیبِ اولویت“ رسول اللہ ﷺ کی سنت اور سیرت سے لیں___ اور ایسے لوگ بلاشبہ معاشرے کیلئے ایک بہت بڑا سرمایہ ہیں.... تو ان میں سے بیشتر لوگ بھی دین کا آغاز ’فرائض‘ اور ’عملی واجبات‘ اور ’مسائل واحکام‘ سے کرتے ہیں۔ حالانکہ دین کا آغاز دین کے ”حقائق“ سے ہوتا ہے۔ دین کے ’فرائض‘ اور ’اعمال‘ کا مرتبہ اس کے بعد ہے۔
’اسلامی شخصیت‘ کا حسن تبھی آتا ہے جب دین کا آغاز دین کے بنیادی اور اساسی حقائق میں عمق اور رسوخ حاصل کرنے سے کیا جائے اور ان ’حقائق‘ کو ہی ذہن میں اتر کر ’فرائض‘ کا تعین کرنے دیا جائے۔ عملی ’احکام‘ اور ’مسائل ‘کی تفصیل اسکے بعد آتی ہے۔
کتنی ہی تنظیمیں اور جماعتیں ہیں جو لوگوں کو زیادہ تر فرائض اور عملی واجبات کی جانب، یا پھر فرائض اور عملی واجبات میں سے بعض کی جانب، متوجہ کرتی ہیں۔ بیشتر جماعتیں ’اعمال‘ کی بنیاد پر ہی نوجوانوں کی ذہن سازی اور شخصیت سازی کرتی ہیں۔ ’فرائض‘ یا ’بعض فرائض‘ کی تعلیم بلاشبہ ایک مطلوب کام ہے۔ دین کے کئی ایک فرائض کی انجام دہی بلکہ بعض متروک فرائض کا احیاءآج انہی کے دم سے ممکن ہوا ہے۔ دین کا آج بہت کچھ جو بچا ہوا ہے وہ انہی کی محنت کا مرہون منت ہے اور اللہ کے ہاں تو نیکی کا کوئی کام بھی معمولی نہیں۔ اللہ کی خاطر نیکی کا جو کام بھی کیا جائے وہ پورا پورا اجر پاتا ہے مگر ہمارا موضوع یہاں ’مطلوبہ فرد‘ کی تیاری ہے۔ ایک اوسط فرد کو، اس میں کمیوںکوتاہیوں کے ہوتے ہوئے بھی، جیسا ہونا چاہئے اور جہاں ہونا چاہئے ہم یہاں اس پر بات کر رہے ہیں۔ ہمارا موضوع یہاں یہ ہے کہ’بشری تقاضوں‘ کے تحت کسی تنظیم یا کسی فرد میں کچھ کمزوریاں اگر رہنی ہی ہیں تو ان کمیوں اور کمزوریوں کیلئے سب سے کم گنجائش کہاں ہونی چاہئے اور نسبتاً زیادہ گنجائش کہاں ہو سکتی ہے....
لہٰذا ہماری اس بات کا مقصد کسی کی محنت کو رائیگاں قرار دینا نہیں بلکہ اس کی محنت کو سنت سے قریب تر کرنا اور دُنیا وآخرت میں زیادہ سے زیادہ ثمر آور کرنا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کمی، جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا، محض ایک ’کمی‘ نہیں جو کہ انسانوں میں بہرحال پائی جا سکتی ہے۔ بلکہ یہ ایک ’بے جا کمی‘ ہے۔ بشری تقاضوں کے تحت کمی کو اگر کسی وجہ سے رہنا ہی ہے تو پھر وہ وہاں کیوں رہے جہاں وہ سب سے زیادہ نقصان دہ ہے اور ’نقص دور کرنے‘ پر محنت سب سے زیادہ وہاں کیوں ہو جہاں نقص کارہ جانا (مطلق تو نہیں) نسبتاً کم نقصان دہ ہے!؟
’کمزوریاں‘ دور کرنے پر محنت یا تو ہو نہ رہی ہو مگر جب اس پر کام ہو رہا ہے تو پھر دین کے اہم تر پہلو ہی اس محنت سے کیوں محروم رہیں؟
اسلام سب سے پہلے ’اعمال‘ نہیں ایک حقیقت ہے جو دل میں اترتی ہے اور پھر کردار میں رونما ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو سب سے زیادہ سنوارنا نکھارنا ضروری ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ پر سب سے پہلے نماز نہیں اتری۔ روزہ اور حج کے احکامات نہیں اترے۔ تبلیغ یا دعوت پر بھی مسلمانوں کو پہلے دن سے مامور نہیں کیا گیا۔ قتال کا فرض یا اسلامی نظام یا اسلامی حکومت کے قیام کا فرض نہیں اترا۔ خارجی اعمال میں سے کوئی عمل بھی اسلام کی ابتدا نہ تھی۔ اسلام کی ابتدا کچھ برگزیدہ حقائق کو قلب وذہن میں اتارنا تھا یہی وجہ ہے کہ پہلی وحی اقر اَ باقسم ربک الذي خلق سے شروع ہوتی ہے۔ اور امام بخاری بدءالوحی سے اپنی ”صحیح“ کا آغاز کرتے ہوئے کتاب الایمان اور کتاب العلم کو اپنی تصنیف کی پیشانی بناتے ہیں اور ایک جگہ یوں باب باندھتے ہیں:
باب: العلم قبل القول والعمل۔ لقول اللہ عزوجل فاعلم اَنہ لا الہ الا اللّٰہ۔ فبد اَ بالعلم(2) (صحیح بخاری کتاب العلم)
چنانچہ دین کا آغاز کچھ برگزیدہ حقائق ہیں جو کہ وحی کا اصل مضمون ہیں اور سب سے پہلے انہی کو قلب وذہن میں اتارا جاتا ہے۔ پھر یہ برگزیدہ حقائق ایک بار سمجھا کر اور ازبر کرا کے چھوڑ نہیں دیے جاتے کہ ’یہ تو اب سمجھ لئے گئے ہیں اب اگلی بات کریں‘۔ ابتدائے وحی میں کچھ دیر تک تو انہی حقائق کا ذکر ومذاکرہ اور تذکرہ ومراجعہ کرنا ’دین‘ رہتا ہے اور اس کے سوا کچھ نازل ہی نہیں کیا جاتا کہ مبادا معاملہ کسی خلط کا شکار ہو۔ کیونکہ ابتدا میں پایا جانے والا خلط پھر آخر تک باقی رہتا ہے۔ کچھ دیر تک یہ بات ذہن نشین کرا کر کہ اسلام اصل میں یہ ہے پھر جب کچھ اور ہدایات اور فرائض اور احکامات اور مسائل بھی تھوڑے تھوڑے کرکے بتائے جانے لگتے ہیں تو اسلام کی اس اصل حقیقت کا وِرد رُک نہیں جاتا۔ تئیس سال تک اسلام کے ان بنیادی حقائق کا برابر دور ہوتا ہے۔ قرآن پڑھ لیجئے.... مسائل، احکام اور عملی تعلیمات کے دوران ہر بات سے پہلے، ہر بات کے بعد، ہر بات کے درمیان رک رک کر پھر انہی حقائق کا تذکرہ ہونے لگتا ہے تاکہ معلوم ہو اور معلوم رہے اور کسی لمحہ بھر کیلئے بھی بھولنے نہ پائے کہ اصل اسلام یہی ہے اور باقی سب کچھ اسی کی بنیاد پر اور اسی کی نسبت سے اور اسی کی فرع کے طور پر مطلوب ہے اور یہ کہ ہر چیز کی قیمت اور وقعت بس اسی کے دم سے ہے۔
مسلم شخصیت کو برآمد کرنے.... یا ایک اوسط مسلم فرد کی ازسرنو تعمیر کرنے میں اس بات کو ذہن نشین کرلینا ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
(1) صحیح مسلم میں الفاظ یوں آتے ہیں:
انک تاَتی قوما من اَہل الکتاب۔ فادعہم الیٰ شہادۃ اَن لا الہ الا اللہ و اَنی رسول اللہ، فان ہم اَطاعوا لذلک فاَعلمہم اَن اللہ افترض علیہم خمس صلوات فی کل یوم ولیلۃ، فان ہم اَطاعوا لذلک فاَعلمہم اَن اللہ افترض علیہم صدقۃ
”تم ایک اہل کتاب قوم کے یہاں جارہے ہو۔ پس ان کو دعوت دینا کہ وہ شہادت دیں کہ نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ، اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ پھر اگر وہ اس میں اطاعت گزرا ہو جائیں تو تب ان کو آگاہ کرنا کہ اللہ نے ان پر ہر رات دن میں پانچ نمازیں فرض ٹھہرائی ہیں، پھر جب وہ اس میں اطاعت گزار ہوجائیں تو ان کو آگاہ کرنا کہ اللہ نے ان پر زکوۃ فرض ٹھہرائی ہے....“
(صحیح مسلم: کتاب الایمان، باب الدعاءالی الشہادتین وشرائع الاسلام)
(2) اس بات کا بیان کہ علم (کا درجہ) قول اور عمل سے پہلے آتا ہے، جس کی دلیل اللہ کا یہ ارشاد ہے ”پس اس بات (کی جقیقت) کو جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ چنانچہ (اللہ تعالی نے) یہاں علم (جاننے) کو مقدم کیا“.... امام بخاری