نمونے کا فرد
اجتماع یعنی اکٹھ میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص لطف رکھا ہے جس کا مشاہدہ عموماً ہر شخص کرتا ہے۔ یہ ہے بھی حد درجہ مطلوب۔ پھر مسلمانوں کا اکٹھ تو اس سے بھی بڑھ کر ایک حسن اور ایک لطف رکھتا ہے۔ اجتماع کی ایک خاص برکت ہے جس کو انسان محسوس کئے بغیر نہیں رہتا۔
ایک ہی کام یا ایک ہی مشن ہو اور بس چند اشخاص ہی اس کو انجام دینے میں مگن ہوں تو اس میں وہ جوش اور دلچسپی اور وہ کیفیت نہیں آتی جو اس مشن پر ہزاروں اورلاکھوں کو دیکھ کر خودبخود آجاتی ہے۔ اور بہت سے لوگوںمیں تو اس مشن کی جانب داعیۂ عمل پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب وہ اس پر اپنے سے پہلے ہزاروں لاکھوں کو اکٹھا ہوا دیکھ لیں۔ بلکہ بعض نفوس تو ایسے ہوتے ہیں کہ یہ نوبت آجانے کے بعد، یعنی لاکھوں کروڑوں کو کسی راہ پر دیکھ لینے کے بعد، ان کے لئے پیچھے ہٹ رہنا خودبخود مشکل ہو جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو اس کا ساتھ دینے پر گویا مجبور سا پاتے ہیں!
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے اور ایک معاشرتی واقعہ، جس کو نظر انداز کرواناہرگز ہمارا مقصود نہیں۔ بلکہ اس کی جو ایک اپنی اہمیت ہے اس کو محسوس کرنا داعیوں کی ایک بڑی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کو ایک سا پیدا نہیں کیا۔ کچھ لوگ ایک بات کی دلیل اور توجیہ (rationale) سے متاثر ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو ایک بات کی دلیل اور توجیہ سے کوئی بہت سروکار نہیں ہوتا۔ اور اگر ہو بھی تو وہ محض ایک ’رسمی کارروائی‘ ہوتی ہے جو کہ انکا بہت وقت اور توجہ نہیں لیتی۔ اصل جاذب نظر چیز انکے لئے اس راستے میں پایا جانے والا جذبہ اور جوش وخروش اور رونق اور کثرت ہوتی ہے! جو لوگ اسی سے متاثر ہو سکتے ہوں انکے لئے اس چیز کی فراہمی، اگر اور جب ممکن ہو، کر دینا حرج کی بات نہیں۔ بلکہ یہ بھی، اپنی ترتیب سے اور اپنے وقت پر، مطلوب ہو گا۔ گو خدا کی سنت یہ ہے کہ خالص حق کی دعوت کے معاملے میں یہ بات دنوں کے اندر رونما نہ ہو تا کہ ہر آدمی اپنے فہم کے عمق اور رسوخ کا تعین کرنے اور اپنی قوتِ ارادی اور جراتِ اقدام کا وزن کرنے میں مدد پائے اور تاکہ دعوت کی حقیقت سے تمسک کی بابت لوگوں کی بڑی حد تک ایک طبعی درجہ بندی ہو۔
لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ(1)
ایک مدرسہ جس میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد سینکڑوں یا ہزاروں میں ہو وہ خود بخود آپ کی توجہ لے گا۔ اسکول لگنے اور چھٹی ہونے کے وقت اس کی ایک خاص ’شان‘ ہو گی اور بہت سوں کا اپنے بچوں کو وہاں داخلہ دلانے کو محض اس وجہ سے جی چاہے گا۔ اس میں کوئی بات بھی غیر طبعی نہیں؟ بہت تھوڑے ہوں گے جو یہ دیکھیں گے کہ وہاں پڑھایا کیا جاتا ہے اور تعلیم، جو کہ ’اسکول‘ کی اصل غایت ہوا کرتی ہے، کس معیار کی ہے اور یہ کہ تعلیم اور تربیت کے معیار کو جانچنے کا طریقہ کیا ہے۔
جانچنے کیلئے ایک بڑے اکٹھ سے مختلف اہلیتوں کے نمونے (Samples) لئے جائیں گے اور ان کی ذہنی، فکری، شعوری، روحانی، معاشرتی اور عملی استعداد کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ کوئی ادارہ یا تنظیم یا گروہ ایک انسان میں کیا ’تبدیلی‘ لاتا ہے۔ یوں جس چیز پر، چلنے والوں کی کثرتِ تعداد، یا جوش وجذبہ، یا اجتماعی کیفیت نے جو ایک پردہ سا ڈال دیا تھا.... اس چھپی چیز کو کسی حد تک آسانی سے سامنے لایا جا سکتا ہے اور اسی کی روشنی میں اس اکٹھ یا اس اجتماع کا اصل وزن کیا جا سکتا ہے۔
’کثرت‘ اور ’جوش وخروش‘ اور ’اجتماعی کیفیت‘ اور ’منظم عمل‘ کی اپنی ایک اہمیت اور شان ضرور ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر کسی اکٹھ کی اصل قابلیت اور افادیت کا تعین اسی طرح کیا جا سکتا ہے کہ اس کی کثرت اور جوش وخروش وغیرہ ایسے عوامل کو کچھ دیر کیلئے نظر انداز کر دیا جائے اور اس اکٹھ کے ایک اوسط فرد کا ___بطور فرد___ علمی، فکری، شعوری اور معاشرتی وزن کر لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس کا ایک اوسط فرد دین کی حقیقت کو کہاں تک سمجھ پایا ہے اور دین کی حقیقت کا، نہ کہ دین کے مظاہر کا، اپنی شخصیت اور کردار کے ذریعے کہاں تک ایک عملی اور واقعاتی ’ترجمہ‘ کر پایا ہے۔
بنیادی طور پر ’شخصیت‘ سے ہماری یہی مراد ہے۔ یہاں اس سیاق میں ’مطلوبہ شخصیت‘ سے ہماری مراد ایک فرد کی وہ اہلیت ہے جو وہ حق کو اپنے قلب وذہن میں اتار کر عملاً اس کی عکاسی کرنے کی صورت میں ظاہر کرتا ہے۔ بنیادی طور پر کسی بھی انسان کی شخصیت اس کا وہ آئینہ ہوتا ہے جس میں اس کا عقل وفہم، اس کی سمجھ بوجھ، اس کے نظریات اور دین ودنیا کی بابت اس کے اخذ کردہ مفہومات ایک بڑے ہی فطری اندازمیں جھلکتے ہیں۔ اس کے یہ نظریات اور مفہومات اور تصورات اور خیالات حق ہیں یا باطل اور ان کا جو بھی مصدر ہے مگر ایک فرد اپنی شخصیت کے آئینے میں ان کی عکاسی کرکے رہتا ہے۔ چنانچہ ایک مسلمان کیلئے مطلوب ’شخصیت‘ یہ ہو گی کہ حق کے مفہومات اس کے باطن میں بہت گہرے اتریں اور پھر اس کے ’آئینے‘ سے بہت نمایاں ہو کر نمودار ہوں۔
’مسلم ہستی‘ یا ’اسلامی شخصیت‘ جس چیز کا نام ہے وہ یہی وحی کے حقائق کا دنیا میں انسانی انعکاس بننا ہے۔ دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی حقیقت کا ہی بیان ہوتا ہے، قطعِ نظر اس سے کہ وہ حقیقت کتنی زبردست ہے یا کتنی لایعنی۔ وہ حقیقت جو کسی انسان کو اپنے اظہار کا ذریعہ بناتی ہے اگر اسلام ہے (اسلام اپنی کلیت کے ساتھ) تو ایسے انسان کو ”اسلامی شخصیت“ کہا جائے گا۔ یہ تو رہی فرد کی بات۔ کسی مجموعے پر جو حکم لگے گا وہ اس کے ’اوسط فرد‘ کو دیکھ کر ہی لگایا جائے گا۔
چنانچہ جانچ کا طریقہ یہ ہو گا کہ آپ ہزار سے ایک پر آجائیں۔ یعنی ہزار آدمیوں کا وزن ان کا ہزار آدمی ہونا نہ ہو بلکہ یہ بات ہو کہ ان میں کے ایک ایک فرد کا دین کے حقائق کو جاننے اور ان کا عملاً عکاس ہونے میں کیا وزن ہے۔ ہزار آدمی کا اصل وزن وہی ہے جو ان میں کے ایک اوسط فرد کا وزن نکلے۔ ’ہزار‘ ہونے کے ان کو اضافی نمبر ضرور دیئے جائیں گے کیونکہ یہ واقعتا ایک زبردست بات ہے مگر اصل اہمیت اسی بات کو حاصل ہو گی کہ ان میں کا ایک ایک فرد کتنے پانی میں ہے۔ یہاں اگر وہ گروہ کوئی بہت زیادہ نمبر نہیں لیتا تو محض ہزار ہونا یا لاکھ ہونا بہرحال کوئی غیر معمولی قابلیت نہ ہو گی۔ ’تبدیلی‘ کے عمل میں اس بات کی وہ اہمیت نہیں جو کہ اس بات کی ہے کہ اس کے ہاں نمونے (sample) کا ایک فرد معاشرے کی عام روش سے کس قدر مختلف ہے اور اپنی ذات میں اس ’تبدیلی‘ کا کس قدر عکاس ہے جومعاشرے کے اندر اسلام کی بنیاد پر لائی جانا ہے۔
لہٰذا آج ہمیں جو چیلنج درپیش ہے خواہ وہ ’تبدیلی‘ ہے یا ’تربیت‘ یا ’اس دور میں اسلام کے مطلوب انسان کو پیدا کرنا‘.... غرض کوئی بھی نام دے لیا جائے اصل محنت اور اصل کام اور اصل مقابلہ ’نمونے کے فرد‘ کو پیدا کرنے کے معاملے پر ہو گا۔ اصل کوششیں اسی بات پر صرف ہوں گی اور ’عمل‘ کا ایک بہت بڑا محاذ یہ ہوگا۔
واضح رہے ’نمونے کے فرد‘ سے مراد ’دکھانے‘ کا کوئی فردنہیں بلکہ کسی اکٹھ کے اوسط فرد کی اہلیت ہے۔ اصل جانچ اسی بنیاد پر ہوگی اور کسی حلقے یا کسی گروہ کا اصل کمال یہیں پر دیکھنے میں آئے گا۔ لہٰذا اصل توجہ بھی اسی بات کو دی جانا چاہئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں یہ بات بہت کم لوگوں کی توجہ لے پائے گی۔ مگر اس کے باوجود جن لوگوں کو اللہ نے ایک بصیرت بخشی ہے ان کی محنتوں کا یہی اصل مرکز ہونا چاہئے۔ کیونکہ جو بھی تبدیلی لائی جانا ہے (تبدیلی سے مراد ’انقلاب‘ نہیں(2)) اس کا تمام تر انحصار اسی بات پر ہو گا کہ ہمارے ہاں ایک ’فرد‘ کا کیا تصور ہے۔ ’فرد‘ ہی معاشرے کی اکائی ہے لہٰذا ہر وہ گروہ جو ’تبدیلی‘ کی صدا بلند کرتا ہے اس کی بابت یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ وہ ’کتنے‘ افراد پر مشتمل ہے بلکہ دیکھا یہی جائے گا کہ اس کے پاس ’کس پائے کا‘ فرد پایا جاتا ہے۔
یہ ’فرد‘ کا تصور ہی دراصل وہ چیز ہے جسے اس مضمون میں ہم ’شخصیت‘ یا ’اسلامی شخصیت‘ یا ’مسلم ہستی‘ کے نام سے ذکر کریں گے۔ یہی ہمارا اس بار کا موضوع ہے۔ اصل سوال جو تبدیلی کے اس عمل میں آگے بڑھنے کے وقت ہمیں درپیش ہو گا وہ یہ نہیں کہ اس تبدیلی کے لانے کو ’کتنے‘ افراد چاہئیں۔ بلکہ سوال یہ ہو گا کہ اس تبدیلی کے لانے کو ’کس قسم کے‘ افراد مطلوب ہیں؟
اسلام کے کام کا بیڑا اٹھانے والوںمیں اس مطلوبہ شخصیت کوڈھالنے کا عمل اگر مناسب سطح پر شروع ہوجاتا ہے تو ہماری اس گفتگو کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ رہا یہ کہ اس شخصیت کے حامل افراد دنیا میں یا ملک کے اندر پھر کریں گے کیا؟ تو یقینا ان کو بہت کچھ کرنا ہوگا مگر یہ ایک الگ سوال ہے جو یہاں ہماراموضوع نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو طرح طرح کی صلاحیتیں دے کر پیدا کیا ہوتا ہے۔ ہر شخص کی افادیت اورنتیجہ خیزی (productivity) مختلف ہوتی ہے۔ لہٰذا کسی فرد کو یا افراد کے کسی مجموعہ کو وجود میں آجانے کے بعد کیا کرنا ہے، اس کا انحصار تو اس فرد یا مجموعۂ افراد کے وجود میں آنے پر اور اس کی عملی صلاحیتوںکی نوعیت اور معیار کے دیکھا جانے پر ہے اور یا پھر وقت کی ضرورت اورماحول کی صورتحال پر۔ سردست ہمارا موضوع یہ ہے کہ خود اس فرد کا یا اس شخصیت کا بنیادی وصف کیا ہے جس کو ایک بڑی سطح پر وجود میں لایا جانا ہے۔ رہا یہ کہ وجود میں آنے یا دوسرے لفظوں میں تربیت پانے کے بعد کس کو کیا کام سنبھالنا ہے تو یہ اس مضمون سے متعلق نہیں.... باوجود اس کے کہ یہ اپنی جگہ بہت اہم ہے۔
٭٭٭٭٭
(1) الحدید 10 ”تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے۔ اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے“۔
(2) ’انقلاب‘ کی اصطلاح عموما جس چیز کیلئے رائج ہے وہ ہے ایک نظام حکومت کو باقاعدہ اور یکسر ختم کرکے اس کی جگہ ایک دوسرے نظام کو قائم کردینا۔ ’انقلاب‘ سے متعلقہ بحثوں کو فی الحال ملتوی رکھتے ہوئے، جوکہ ہمارے دینی حلقوں کا ایک معروف موضوع ہیں.... اپنی تحریروں میں کئی ایک مقام پر ’تبدیلی‘ کا جو لفظ ہم بولتے ہیں یہاں ہم اس سے اپنی مراد واضح کردینا چاہیں گے....
اسلام کا عمل فرد پر بھی ہوتا ہے، جماعتوں پر بھی، معاشروں پر بھی اور نظام ہائے مملکت پر بھی۔ یوں اسلام کے مطلوبہ عمل سے، درجہ بدرجہ، ایک فرد بھی گزرتا ہے، ایک معاشرہ بھی اور ایک نظام بھی اور بلکہ شاید پوری دنیا بھی۔ اسلام کے اس مطلوبہ عمل سے گزرنے یا گزارے جانے کا نام ہی ہمارے نزدیک ’تبدیلی‘ ہے۔ یوں یہ ’تبدیلی‘ ایک بے حد وسیع مفہوم رکھتی ہے اور جونہی کہیں پر اسلامی عمل شروع ہو، خواہ وہ ایک فرد کی حد تک کیوں نہ ہو، ’تبدیلی‘ کا عمل ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے ظاہر ہے یہ ’انقلاب‘ کے مترادف یا ہم معنی نہیں، باوجود اس کے کہ ایک عموم خصوص کا تعلق کسی وقت ان میں پایا جاسکتا ہے۔