وہی |
’پہلے پہل‘ والا مسلمان! |
نہایت ضروری ہے کہ ہم اس بات کا ادراک کر لیں کہ جو چیلنج ہمیں اس وقت درپیش ہے۔یعنی مسلم شخصیت کی تعمیر اور تشکیل نو .... اس شخصیت کو وجود میں لانے اور اس کو بنانے میں ہمیں کس نقطے تک پہنچنا ہے۔ مثالی اور خیالاتی دنیا سے دور رہتے ہوئے بھی اور انسانی کمیوں اورکوتاہیوں کو پوری طرح مدنظر رکھتے ہوئے بھی اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے بھی.... بلکہ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ہی.... اس مسلم شخصیت کو روپذیر کرانے میں ہمیں کم از کم کیا معیار رکھنا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کاکوئی بھی طالب علم ___خواہ وہ مسلم ہو یا کافر___ ’مسلمان‘ کے بارے میں ایک خاص تاثر رکھتا ہے۔ تاریخ کے کسی بھی مطالعہ نگار کو اپنے مطالعۂ تاریخ کے دوران کوئی ہزار سال سے زائد عرصہ تک ’مسلمان‘ سے واسطہ پڑا رہتا ہے.... ’مسلمان‘ جو اپنے عقیدے اور اپنی تہذیب کے ساتھ درجن بھر صدیوں تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے نمایاں اور سب سے موثر واقعہ بنا رہتا ہے۔ یہ ’مسلمان‘ جو اتنا طویل عرصہ اپنے ’ایمان‘ کی بنیاد پر پورے جہان کا سامنا کئے رہتا ہے اور اپنے دین اور اپنی تہذیب کے ساتھ دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے.... اتنا طویل عرصہ یہ دنیا کے ساتھ کبھی حالت جنگ میں ہوتا ہے اور کسی وقت حالت صلح میں ۔ البتہ دنیا سے برابر واسطہ رکھتا ہے اور دنیا کو اس سے برابر واسطہ رہتا ہے۔ یہ دنیا کے ساتھ باقاعدہ تفاعل (interaction) کرنے والی شخصیت ہے۔ یہ بلاشبہ ایک منفرد ظاہرہ phenominon ہے۔ دنیا سے جو لینے کے قابل ہے اس کو یہ بلا مضائقہ لیتی ہے اور دنیا کو جو دینا اس کے شایان شان ہے یہ اسے باصرار دیتی ہے....
دس بارہ صدیوں تک یہ شخصیت صرف ’فتوحات‘ ہی نہیں کرتی بلکہ یہ ہر طرح کے حالات دیکھتی ہے۔ اس پر اس طویل عرصہ میں ہر طرح کے وقت آتے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ اس پورا عرصہ اپنے دور کے انسان کو متاثر کرنے کیلئے بہت کچھ پاس رکھتی ہے اور قوموں کی قوموں کو نہایت خوبصورتی سے اپنے اندر ضم کر لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ مفتوحین کو ہی نہیں فاتحین کو بھی اپنے اندر جذب کر لیتی رہی ہے۔ یہ اس کی شخصیت کا عجیب ترین پہلو ہے۔ یہ ایک بے انتہا عجیب صلاحیت ہے اور اس کے سوا تاریخ میں کسی کو حاصل نہیں ہوتی۔ تاریخ کا طالب علم اس کی اس صلاحیت کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ قومیں اپنے باپ دادا کی تاریخ چھوڑ کر اس کی ملت میں گم ہونا اپنے لئے فخر جانتی ہیں ۔ سوا ہزار سال تک ’مسلمان‘ اپنے اوپر آنے والے تمام ہامد وجذر کے باوجود کرۂ ارض کے بیشتر انسانوں کیلئے قابل رشک شخصیت بنی رہتی ہے اور دنیا کے سمجھدار اور باشعور انسان برابر اس سے مرعوب رہتے ہیں ۔تاریخ پڑھنے والا ’مسلمان‘ کے نام سے ایک ایسی ہی شخصیت سے واقف ہے!
تو کیا پھر ہم نے اس شخصیت کو اپنے دین سے دوبارہ برآمد کرنے کی صلاحیت پا لی ہے یا پھر ہماری اس بار کی جدوجہد اس سے پہلے ہی یا اس کے بغیر ہی شروع ہو گئی ہے؟؟؟ کیا تاریخ کا ملبہ ہٹا کر ہم نے اس شخصیت کو پھر سے منظر عام پر لے آنے کا انتظام کر لیا ہے! اس کو اس کے اصل منبع سے نکال لانے اور اس کے خدوخال واضح کرنے کی، آج اپنے دور میں اور اپنے دور کے شایان شان، کوشش کر لی گئی ہے!؟ جبکہ ہمارا دور بھی کوئی عام سا دور نہیں !؟ اپنے دور کی امامت دراصل ایسی ہی شخصیت کا منصب ہے، اپنے ’اوسط فرد‘ کی تیاری کیا اس بات کو مدنظر رکھ کر کی جا رہی ہے؟ ہمارے دینی اور تحریکی حلقے اپنے ’اوسط فرد‘ کو جب آج کے معاشروں کی قیادت کیلئے، بلکہ پوری دنیا کی امامت کیلئے، ایک متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں تو کیا وہ ان حقائق کا ادراک رکھتے ہیں ؟؟؟ ’ہمارے ساتھ ساتھ چلیں ‘ کی صدا لگانے سے پہلے کیا وہ یہ جائزہ لیتے ہیں کہ انہوں نے کس پائے کا فرد تیار کرنے کی صلاحیت پائی ہے اور کس قسم کا فرد ان کے اس دور کی ضرورت ہے؟ دنیا کی امامت ظاہر ہے آپ کا کوئی ایک یا چند شخص نہیں بلکہ آپ کا ’اوسط فرد‘ ہی کرے گا۔ کیا آپ کے دینی اور تحریکی حلقے اس حوالے سے اپنے ’اوسط فرد‘ کی علمی، فکری اور شعوری استعداد سے مطمئن ہیں ؟ اور اگر کوئی حلقہ اس سوال کا جواب نفی میں پاتا ہے تو اس پر وہ کس درجہ کی بے چینی محسوس کرتا ہے؟ اور یہ جو کہ اصل بحران ہے اس پر قابو پانے کیلئے وہ کہاں تک بے تاب ہے؟
یہ بے چینی اور بے تابی پیدا ہونا ہی ہم سمجھتے ہیں کہ اصل گھاٹی ہے۔ اگر یہ ہو جائے اور اس پر اپنے لوگوں کی توجہ مرکوز ہو جائے تو اس مطلوبہ کام کا آغاز ہو جاتا ہے جس کی یہاں ضرورت بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ معاملہ ایک مطلوب سطح پر صرف اس کام کو شروع کرنے کا ہے۔ ہمارا دین جب اصل حالت میں ہمارے پاس موجود اور اپنے سلف کا ترکہ ہمارے پاس محفوظ ہے، اور ماشاءاللہ جذبۂ عمل کی بھی کیاکمی ہے، تو ہمیں اس موضوع پر کیا پریشانی ہو سکتی ہے؟
یہ مسلم شخصیت جو پچھلی کوئی دو تین صدیوں سے ___ایک بڑی سطح پر___ تقریباً تقریباً روپوش ہے، گو یہ افراد کی سطح پر بحمداللہ کبھی دنیا سے روپوش نہیں ہو پائی.... ان شاءاللہ پھر ان معاشروں کی حقیقت بننے والی ہے اور اس کو لامحالہ لوٹنا ہے۔ اس میں جس قدر دلچسپی لی جائے گی یہ عمل اسی قدر بہتری کے ساتھ اور اسی قدر پختگی اور اسی قدر خوبصورتی کے ساتھ انجام پائے گا۔ البتہ یہ توجہ اور دلچسپی اگر ایک خاص سطح سے نیچے رہتی ہے تو یہ کام موخر ہی نہیں ناپختہ بھی رہ سکتا ہے۔ ایک نسبتاً ناپختہ عمل بہت سے دیگر عوامل کے کارن اگر سرے لگ بھی جائے تو اس کی یہ کامیابی اس کے دور رس اور دیرپا نہ ہونے کی قیمت پر ہوتی ہے۔ نتیجتاً بگاڑ کے بہت چھوٹے چھوٹے عوامل بھی بہتر مختصر مدت میں اس پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ البتہ اس کی اٹھان میں اگر پختہ بنیادیں پڑی ہوں تو بگاڑ کے بعض زوردار عوامل بھی بسا اوقات منہ کی کھاتے ہیں ۔نتیجتاً اس کی جہت بھی صحیح رہتی ہے اس کا رخ بھی پٹڑی سے نہیں سرکتا۔ دشمن کو بھی اسے خراب کرنے کا موقعہ کم ملتا ہے اور وہ عمل طویل تر عرصے کیلئے اپنے مقاصد پورے کرتا ہے۔
یہ مسلم شخصیت آج کے دور کے اس منفرد انسانی ذہن اور انسانی واقع پر اثر انداز ہونے کیلئے جب بھی ان معاشروں میں قدم رکھے گی تو تاریخ کا ایک طالب علم ضرور یہ جاننے میں دلچسپی رکھے گا کہ کیا یہ وہی شخصیت ہے جس سے وہ اپنے مطالعۂ تاریخ کے دوران واقف ہو آیا ہے یا یہ کوئی اور شخصیت ہے.... خصوصاً جبکہ اس شخصیت کو اس بڑی سطح پر ایک اچھے خاصے انقطاع کے بعد ازسرنو نمودار ہونا ہے۔ ایسے موقعہ پر دیکھنے والوں کا تجسس بڑھ جانا ایک طبعی واقعہ ہوگا....!!!
دیکھنے والوں کو ضرور اس بات سے دلچسپی ہو گی کہ کیا یہ وہی ہمہ گیر اور متوازن اور مؤثر اور بھاری شخصیت ہے اور کیا یہ اسی طرح حقائقِ وحی کی پیدا کردہ شخصیت ہے جس کا کوئی توڑ اس دنیا کے پاس نہیں تھا اور جو کہ پہلے پہل کتاب اللہ کی نصوص سے ہی برآمد ہوئی تھی یا یہ صرف حالات کی جگائی ہوئی یا محض دشمنوں کی ستائی ہوئی شخصیت ہے جو ایک ردعمل کے طور پر وجود میں آئی ہے؟
دین کے حقائق سے جنم پائی ہوئی شخصیت....؟ یا پھر حالات کی پیدا کی ہوئی شخصیت ....؟ حقیقت یہ ہے کہ ان دو باتوں میں اتنا بڑا فرق ہے کہ ہم میں سے بیشتر کے اندازے سے بھی شاید باہر ہو۔
مسلم شخصیت کا یہ ایک بڑا وصف ہے جسے کبھی ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہ ہونا چاہئے۔ حالات کا ستم کبھی آسمان تک بھی پہنچ جائے اس ’مسلم شخصیت‘ کا خاصہ یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ’عمل‘ ہی ہوتی ہے اور کبھی ’ردعمل‘ نہیں ہوتی۔ ’ردعمل‘ بنیادی طور پر ایک کمزوری ہے جو اپنے وجود کیلئے اپنے آپ کو دوسروں پر انحصار کرواتی ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ وہ اپنی جہت متعین کرنے کے معاملہ میں بھی خارجی اثرات کی تشکیل کردہ ہوتی یا ہوسکتی ہے۔ ’مسلم شخصیت‘ جو کہ کائنات کے عظیم اور برگزیدہ ترین حقائق کا پیدا کردہ واقعہ ہے مجسم عمل ہوتا ہے نہ کہ ردعمل۔ یہ اس کا اعزاز بھی ہے اور اس کا وصف لازم بھی اور اس کی پہچان بھی اور اس کا مرتبہ و مقام بھی!!!
٭٭٭٭٭
صلی اللہ علی النبی وآلہ،
والحمد للہ رب العالمین۔