قل اللہ اَعبد مخلصاً لہ دینی ....
دین کو اللہ کیلئے خالص کرنا دو پہلوؤں سے ہو گا:
ایک یہ کہ نفس کو اللہ کیلئے خالص کرنا۔ ہر دوسرے مقصود سے تجرد حاصل کرنا۔ اس دل میں خدا کے سوا کوئی اورمطلوب نہ رہنے دینا اورکردارمیں اسی بات کی جھلک لے آنا۔ نفس میں خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری کو، ممکنہ حد تک، کوٹ کوٹ کر بھر دینا اور اس نفس کو اس کے شر سے اور شیطان کے حظ سے، ممکنہ طور پر، پاک کرنا۔ دینی حقائق کو اس میں گہرا اتارنا اور دینی فرائض کی انجام دہی پر اس کو مامور رکھنا اور خدا کی خوشنودی کیلئے اس کو سرگرم کرنا۔ دوسرے لفظوں میں ’ایمان‘ پر محنت کرنا۔ اس بات کو تزکیہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کیلئے تربیت کا لفظ بھی بولا جاتا ہے ”مخلصین لہ الدین“ ایک قرآنی تعبیر ہے۔ جس کا مطلب عبادت کے سب افعال اور بندگی کے سب حرکات وسکنات کو خدا کیلئے خاص کر دینا اور اس کو غیر اللہ کی عبادت اور بندگی اور پرستش سے پھیر دینا اور انسانی نشاط کا رخ بس ایک اللہ وحدہ لاشریک کی طرف کر دینا اور خدا کے احکامات پر نہایت عاجزی اور فرمانبرداری اور ذمہ داری سے عملدرآمد کرنے پر اپنا پورا زور صرف کر دینا.... اور اس انداز سے خدا کا وفادار بن رہنا ہے۔
اخلاصِ دین کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خود ان حقائق کو جو ”دین“ کہلائیں اور ان فرائض کو جو ”دین“ سمجھے جائیں اور ان جملہ امور کو جنہیں ”دینِ اسلام“ کہا جائے، خالص رکھنا اور ہر قسم کی آلائش اور خلط سے پاک رکھنا۔ خدا کی بندگی دراصل صرف ان بنیادوں پر اور صرف اس طریقے سے اور صرف انہی امور کے ذریعے ہو سکتی ہے جو خود اس نے اپنی شریعت میں مقرر ٹھہرا دیے ہوں اور جو اس نے اپنی نبی پر وحی کے ذریعے نازل فرما دیے ہوں اور جن کی نبی ﷺ نے صحابہ کو تعلیم دی ہو اور جن کو صحابہ نے ”اللہ کے دین“ کی حیثیت میں بعد کی نسلوں کو منتقل کیا ہو۔ کچھ تاریخی عوامل کے باعث اب دین کے ان حقائق یا ان فرائض یا دین کے ان امور میں جو تبدیلیاں اور اضافے ہوتے رہے اور اس طریقے سے دین کے ’مواد‘ میں جو کمیاں بیشیاں ہوتی رہیں اور اس میں اس وجہ سے جو ناخالص عناصر پائے گئے انکو اصل دین سے الگ کرنا، کھرے کو کھوٹے سے علیحدہ کرنا، بدعات اور انحرافات کو دور کرنا اور یوں اسلام کااصل چہرہ برآمد کرنا.... تاکہ خدا کو صرف وہی چیز پیش کی جائے جواس کی مرضی اور منشا کے موافق ہو اور تاکہ خلوص دل سے ہی سہی آدمی خدا کو کوئی ناخالص چیز پیش نہ کر بیٹھے .... یہ بھی دین کو اللہ کیلئے خالص کرنا ہے۔
چنانچہ دین کو اللہ کیلئے خالص کرنے کے یا یوں کہیے دین (عبادت اور بندگی) کودرست کرنے اور ایک شخص کو اسلام کا مطلوب فرد بنانے کے یہ دو محور ہیں جو اختصار کے ساتھ اوپر بیان کئے گئے۔ اول الذکر کیلئے عرب کے بعض تحریکی حلقوں میں ”التربیۃ“ کا لفظ رائج ہے اور ثانی الذکر کیلئے ”التصفیۃ“ کا۔ بنیادی طور پر یہ اصطلاح موجودہ دور کے ایک بہت بڑے عالم اور محدث شیخ ناصر الدین البانیؒ کی ہے جو آج کے اس دور کیلئے اپنے تجویز کردہ تحریکی منہج کو دو لفظوں میں بیان کیا کرتے تھے: ”التصفیۃ والتربیۃ“
”التصفیۃ“.... یعنی دین کے حقائق اور دین کے مندرجات اور دین کے ’مواد‘ کو صاف ستھرا کرنا اور باطل سے چھانٹ کرجدا کرنا۔ ”التربیۃ“.... یعنی نفوس کو خالص کرنا اور انکو دین پر علی وجہ المطلوب عمل پیرا ہونے کے قابل بنانا۔ نفوس کو بندگی کی مشقت کا عادی بنانا اور اس پورے عمل سے خدا کو ان کا مطلوب ومقصود بنانا۔
شیخ البانیؒ کی یہ اصطلاح ”التصفیۃ والتربیۃ“ اب کئی تحریکی حلقوں میں معروف ہو گئی ہے۔ بنیادی طور پر اس دور کیلئے جس اسلامی منہج کو دعوتی اور تحریکی عمل میں اختیار کیا جانا ہے اس کی یہ ایک بہترین تلخیص ہے۔
مسلم ہستی کو ان معاشروں کا پھر سے ایک اہم ترین اور زندہ ترین واقعہ بنا دینے کیلئے یہ منہج ناگزیر ہے۔ اس سے محتصر تر راستہ ہماری نظر میں اور کوئی نہیں ۔
٭٭٭٭٭