اسلامی حقیقت کا قیام |
’ابتداء‘ سے نہیں بلکہ ’از سر نو‘ |
اس مسلم شخصیت کو جب ازسرنو منظر عام پر آنا ہے تو اس مرحلہ میں ، جب تک کہ یہ پھر سے دنیا کا ایک معروف اور نمایاں ترین واقعہ نہیں بن جاتی، ایک اور چیلنج بھی درپیش ہو گا اور اس کو نظر میں کرلینا بھی ضروری ہے۔
اسلامی شخصیت کے حوالے سے جو چیلنج اس وقت ہمیں درپیش ہے وہ یہ کہ ہمیں ایک چیزکو ابتدا سے نہیں بلکہ ازسرنو متعارف کرانا ہے۔ ایک چیز کوبالکل ابتدا سے متعارف کرانے کا کام رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کو کرنا تھا اور وہ انہوں نے باحسن انداز انجام دے دیا۔ معاشرے کی سطح پرایک بڑے انقطاع کے بعد ہمیں البتہ اس کو ’ابتدا سے‘ نہیں ’ازسرنو‘ سامنے لے کر آنا ہے۔ ایک کام کو ’ابتداءسے‘ کرنے اور ’ازسرنو‘ کرنے میں بہت بڑا فرق ہے.... اور یہ فرق ہرگز کسی وقت ہم سے روپوش نہیں ہونا چاہئے۔
اسلامی شخصیت کے حوالے سے ہمیں کوئی نئی تصویر نہیں بنانی بلکہ اسی پرانی تصویر کو نیا کرنا اور اسی کے نقوش کو گہرا کرنا ہے۔ یہ ایک تبدیلی لانا بھی ہے اور بیک وقت اسلام کے تاریخی تسلسل کا حصہ بن کر رہنا بھی۔
اور جب تاریخی تسلسل کی بات ہو گی اور ایک پہلے سے موجود چیز کو ازسرنو لائے جانے کی بات ہو گی تو پھر یہ عمل دو پہلوؤں سے ہماری توجہ لے گا:
- ہمیں اسلام کے نقش اول پر اسلامی شخصیت کی ایک مطلوب واقعاتی صورت کو ازسرنو تشکیل بھی دینا ہے
- اور ایک وہ غیر مطلوب صورت جو مختلف تاریخی عوامل نے اس شخصیت کی بنا رکھی ہے، اس کو مٹانا بھی ہے۔
اسلام کا آغاز تھا تو اسلام کی کوئی ایسی صورت نہ تھی جس کو مٹایا جائے۔ بس ایک کھلی کھلی جاہلیت تھی جس کو مٹایا گیا۔ اسلام کی البتہ ایک ہی صورت تھی جس کو متعارف کرایا جانا تھا۔ البتہ اب معاملہ مختلف ہے۔ اسلام کی ایک وہ صورت ہے جو اسلام نہیں مگر اسلام سمجھی جاتی ہے اور ایک اسلام کی وہ سچی صورت ہے جو بڑی حد تک نادر ہو گئی ہے اور اس کو زور لگا کر اور محنت کرکے عام کیا جانا ہے۔
اسلام کی وہ صورت جو ’اسلام نہیں ‘ آگے کئی قسموں میں منقسم ہے۔ تہتر کا لفظ چاہے لغوی معنی میں بولا گیا ہو یا محاورتاً، ہمیں بتایا گیا ہے کہ ’اسلام‘ کے نام پر ’غیر ا سلام‘ کی بے شمار اشکال ہوں گی۔ اسلام کی اس صورت کو جو ’اسلام نہیں ‘، مٹانا یا تصحیح کرنا اب ایک اضافی چیلنج ہو گا اور اس لحاظ سے ایک بے انتہا نازک کام بھی.... کہ لوگ نادانی کے باعث اس کو اسلام ہی کا نقصان کرنے پر محمول کر بیٹھیں گے!
’مسلم شخصیت‘ کی تاریخ کا سب سے مشکل اور کٹھن مرحلہ تو وہی تھا جب اس کو ابتدا سے وجود میں آنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کام قرآن کے نزول کی صورت اور نبی ﷺ کے ہاتھوں انجام پایا۔ ایک چیز کو جس کا کہیں تصور تک نہ ہو جیتی جاگتی حقیقت بنا دینا سوائے رسول اللہ ﷺ کے کسی کے بس میں نہ تھا اور وہ اللہ کی مدد سے آپ نے ہی بنفس نفیس انجام دیا۔ البتہ اس مرحلے کا اصل چیلنج بڑی حد تک یہی تھا کہ مسلم شخصیت کا چونکہ اس وقت کہیں وجود بلکہ تصور تک نہ تھا اسلئے زیادہ تر محنت اسی حقیقت کو جلی کرنے پر صرف کی جائے کہ ’یہ کیا ہے‘.... تاآنکہ ایک بڑی محنت کے نتیجے میں ، جو کہ صرف رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ہی کر سکتے تھے، لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ اس ’مسلم شخصیت‘ کی حقیقت اورماہیت کیا ہے۔ اس کا مصدر ومنبع کیا ہے اور اس کے وجود پانے کی صورت کیا۔ البتہ چونکہ اس حقیقت کو صرف ایک ہی دور اور ایک ہی نسل کے اندر وجود میں نہ لایا جانا تھا بلکہ یہ شخصیت باقی رہنے کیلئے وجود میں لائی گئی تھی اس لئے اس کی حقیقت کی تعریف اور توضیح مسلسل جاری رہی اور بعد کی نسلوں میں بھی اس عمل کی فرضیت برقرار رکھی گئی۔
مگر جلد ہی، حتی کہ صحابہ کے دور آخر میں ہی، ایک اور چیز کی ضرورت اپنے آپ کومنوانے لگی اور صحابہ نے اس کو بھی ہر ضرورت سے بڑھ کر ایک ضرورت جانا۔ پہلے اگر اس مسلم شخصیت کو عدم سے وجود میں لانے کیلئے اس بات پر شدید محنت مطلوب تھی کہ ’یہ کیا ہے‘ تو اب یہ واضح کرنے پر بھی شدید محنت کی ضرورت آپڑی کہ ’یہ کیا نہیں ہے‘۔ خوارج اور روافض ایسے ’اسلام نہیں ‘ کے نمونے حضرت علیؓ کے زمانہ میں ہی ظاہر ہو گئے تھے۔ قدریہ کی مذمت حضرت عبداللہ بن عمرؓ ودیگر صحابہ سے ثابت ہے۔ بعض بدعتی فرقوں کی مذمت عبد اللہ بن مسعودؓ اور عبداللہ بن عباسؓ سے مذکور ہے۔ یہ ابھی صحابہ کادور تھا۔ پھر تابعین اور اتباع تابعین کے دور میں تو فتنوں کے ظہور میں آنے کی کوئی انتہا نہ رہی۔ بنیادی طور پر یہ انحرافات مسلم شخصیت کے ’کیا ہے‘ کو ’کیا نہیں ہے‘ سے بدل دینے یا کم از کم خلط کر دینے کی ایک کوشش تھی اور صحابہ وتابعین وائمہ تبع تابعین نے یہ کوشش ناکام کر دینے کو اپنی سرگرمی کا بہت بڑا محاذ بنایااور نتیجہ ¿ کار ’اہلسنت‘ کی صورت میں اس مسلم شخصیت کو باقی اور برقرار رکھنے میں کامیابی پائی۔
بہرحال تب سے اب تک اس اسلامی حقیقت یا اس مسلم شخصیت کی بابت ’کیا ہے‘ اور ’کیا نہیں ہے‘ میں بدستور ایک جنگ ہے۔ یہ ایک بہت ہی نازک اور حساس مہم تھی کہ محاذ اب ایک نہیں دو ہو گئے تھے۔ باہر کے دشمن اور اندر کے انحرافات۔ اس مہم میں توازن رکھنا اور ان دونوں آفتوں کے درمیان سے راستہ بنانا ایک خاص حکمت اور دانائی اور اخلاص اور ذمہ داری اور واقعیت پسندی کا متقاضی تھا اور خدا نے یہ سب کچھ ائمہ اہلسنت کو وافر نصیب کیا تھا۔
اسلام یا اسلامی حقیقت یا اس مسلم شخصیت کے ’کیا ہے‘ اور ’کیا نہیں ہے‘ کی اس کشمکش پر ہزاروں دور آئے۔ زمانے نے اس سلسلے میں بہت وقت دیکھے۔ امت کے اندر حق اور باطل کی اس اندرونی کشمکش میں بے شمار نشیب وفراز آئے اور گئے۔ البتہ مجموعی طور پر اور ایک بڑی سطح پر یہ مسلم شخصیت اپنی برتری کو بچا کر رہی۔ بلاشبہ اس بڑی سطح پر یہ بہت سے عوامل کے باعث زک بھی اٹھاتی رہی۔ جزوی طور پر اس کو پسپائی بھی کرنا پڑتی رہی اور آخری صدیوں میں اس کو پیچھے خاصا زیادہ بھی ہٹنا پڑا پھر بھی یہی عالم اسلام کی اصل روحِ رواں رہی۔
بے شمار عوامل کے زیر اثر جب اس مسلم شخصیت کی پسپائی مسلم معاشروں میں ایک خاص حد کو پہنچی تو پھر معاشروں پر اس کی گرفت نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ اب یہ بے روح معاشرے دشمن کی گرفت میں آنے کیلئے بڑی حد تک تیار تھے۔ یہ ایک پکا ہوا پھل تھا جو دشمن کی جھولی میں بس خود ہی آگرا چاہتا تھا اور دشمن کو تھوڑی سی ہمت کرکے بس ’درخت‘ کو ہلانا تھا۔ اس ’بھٹکے ہوئے آہو‘ کو دشمن کے دام میں لایا جانا اب کچھ مشکل نہ رہا تھا۔
پھر جب دشمن چڑھ آیا شہر پناہوں کے دروازے کھل گئے اور اپنا تقریباً سب کچھ ہاتھ سے چلا گیا تو اس مسلم شخصیت کی پسپائی ان معاشروں سے اور معاشروں کے مختلف اداروں اور فورموں سے اور بھی ناقابل اندازہ حد تک بڑھی۔
انسانی معاشرے ایک متنفس مخلوق ہیں ۔ ہوا صاف ہو یا آلودہ، سانس لینے والی مخلوق بہرحال سانس لے گی۔ آپ اس کو روک کر نہیں رکھ سکتے۔ آپ اس کو انتظار کرنے کیلئے نہیں کہ سکتے۔ معاشروں میں پیدا ہونے والا خلا بہرحال کسی چیز سے پر ہوتا ہے۔ وہ چیز جو معاشروں میں پایا جانے والا خلا پر کر رہی ہو اگر باطل ہے تو یہ ایک بے انتہا پریشان کن بات ہے۔ آپ اگر اس کو حق سے پر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ کے کام کی دشواری اب دوچند ہو جاتی ہے۔ ایک خالی جگہ میں جو چیز آپڑی ہے اور آپ کو وہ قبول نہیں تو پہلے اب آپ اس کو ہٹائیں گے۔ یعنی پہلے آپ کو ایک طرح کا خلا پیدا کرناہو گا اور پھر ساتھ ہی اس کو پر بھی کرنا ہو گا۔ نہ یہ خلا پیدا کئے بغیر کوئی چارہ ہے اور نہ پر کئے بغیر۔ یہ خلا آپ کو اپنی ہمت کے بقدر پیدا کرنا ہو گا تاکہ یہ ساتھ ساتھ پر ہوتا رہے ورنہ وہ کسی اور چیز سے پر ہوگا کیونکہ ___جیسا کہ ہم عرض کر چکے___ معاشروں کے اندر کوئی خلا پڑا نہیں رہ سکتا۔ وہ کسی نہ کسی چیز سے ضرور پر ہو گا۔
بہت سے داعی دیکھے گئے ہیں جو افراد کو دعوت دیتے ہوئے ذہنوں کی دنیا میں .... اور بہت سی تحریکیں معاشرے میں کام کرنے کے دوران معاشروں کی سرزمین پر .... باطل کی کسی صورت کے خاتمہ کی کوشش میں ایک ایسا خلا پیدا کر لیتی ہیں جس کو کوئی دوسرا باطل آکر پُر کر دیتا ہے!
دوسری طرف بہت سے داعیوں اور بہت سی تحریکوں کی بابت یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک چیز کیلئے جگہ بنائے بغیر ہی اس کو کہیں ڈالنے اور فٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے!
بہرحال صحابہ اور قرون اولی کے دور میں اس مسلم شخصیت کی ایک ایسی صورت اور ایک ایسی جہت بن گئی تھی کہ صدیوں وہ مسلم معاشروں سے محو نہ ہو پائی۔ صدیوں معاملہ یہ رہا کہ اس شخصیت کو نکھارنے اور اجلا کرنے کی تھوڑی بہت کوشش بھی رنگ لے آتی رہی اور اس پر سے بدعات وانحرافات اور فسق وفجور اور بدعملی کی گرد وقفے وقفے سے جھاڑتے رہنے سے بھی معاملہ کسی نہ کسی حد تک درست چلتا رہا۔ تاآنکہ آخری صدیوں میں آکر جب یہ کوششیں بھی کم ہو گئیں تو اس کا معاملہ بہت زیادہ ناگفتہ بہ ہو گیا۔ پھر پچھلی دو تین صدیوں میں تو زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور اب جو معاملہ ہے وہ پہلے سے بے انتہا مختلف ہے۔ پہلے اگر محض ایک جزوی تبدیلی کی ضرورت تھی تو اب ہرگز ایسا نہیں ۔
اب ہرگز معاملہ ایسا نہیں کہ اب بھی آپ بس ’اعمال‘ کی دعوت دیں ۔ لوگوں کو ان کے ’فرائض‘ بتانے سے ہی کام کا آغاز کریں ۔ کچھ ’بدعات‘ کا رد کر لیں ۔ لوگوں میں ’عقیدے کی کچھ خرابیاں ‘ دور کر لیں ۔ بعض ’عملی سنتوں ‘ کے احیاءکو ہی بس اپنا مطمع نظر بنا لیں ۔ ایک بڑے پیمانے پر مسلم نوجوانوں کے بس ’تبلیغ‘ اور ’دعوت‘ میں مصروف ہو جانے پر ہی، یا دشمن سے برسرپیکار ہو جانے پر ہی، اور یا حکومتوں کے ’نظام‘ بدلنے کی سعی میں لگ جانے پر ہی، تمام تر زور دے دیں ۔ صورتحال اس وقت اس سے کہیں بنیادی کام کی متقاضی ہے۔
سب سے اہم کام اور سب سے زیادہ محنت اب اس مسلم شخصیت کو پورے طور پر برآمد کرنے پر ہی ہونی ہے۔ اس پر عمومی طور پر ہم کچھ بات کر چکے۔ ان سطور میں البتہ ہم اس عمل کی ایک خاص مشکل کا ذکر کر رہے ہیں ....
’مسلمان‘ کی اس تاریخی شخصیت کو پھر سے سامنے لانے کیلئے ایک تو اب بالکل بنیاد سے اور قرون اولیٰ کے نقشے پر محنت ہو گی۔ دوسرا یہ کہ یہ محنت اب ایک نہیں دونوں محاذوں پر ہو گی۔ یعنی یہ اسلامی حقیقت یا اسلامی شخصیت ’کیا ہے‘ اور ’ کیا نہیں ہے‘، دونوں محاذوں پر بیک وقت دلجمعی سے اور بالکل بنیاد سے کام کرنا ہو گا۔ ان دونوں جہتوں سے ہی مسلم شخصیت پر صدیوں کا ملبہ پڑا ہے۔ پھر پچھلی دو صدیوں سے تو اس کو باقاعدہ دفن کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں ۔ ان دو صدیوں میں اس مسلم شخصیت کو مسخ کر دینے کی ہر گھناؤنی حرکت ہوئی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک تفاعل interaction کرنے والی شخصیت ہے اور ہرگز کوئی متحجر چیز نہیں ۔ یعنی یہ ایک مفید اور منفعت بخش شخصیت ہے۔ بہت سے فوائد یہ دنیا کو دیتی بھی ہے اور دنیا سے لیتی بھی ہے۔ (الحکمۃ ضالۃ المؤمن حیثما وجدھا فہو اَحق بھا)(1) البتہ کچھ بنیادی نقائص واقع ہو جانے کے باعث پچھلی دو صدیوں میں یہ دُنیا کو بہت کم دے سکی ہے مگر دُنیا سے اس کے لئے یا اس کے نام پر بہت کچھ لیا گیا ہے۔ جبکہ یہ دنیا بھی اب وہ سادہ دنیا نہ رہی تھی بلکہ یہ وہ دُنیا تھی جس پر فساد اور انحراف کی ایسی ایسی صورتوں نے قبضہ جما رکھا تھا جن کی شاید تاریخ عالم میں مثال نہ مل سکے۔ چنانچہ پچھلے دو سو سال سے یہ تفاعل interaction بہت ہی غلط تناسب سے ہوتا رہا ہے۔ دیا سرے سے کچھ نہیں گیا، الا ماشاءاللہ، اور جو لیا گیا وہ بربادی کا سبب۔
لہٰذا اسلام یا اسلام کی مطلوبہ شخصیت ’کیا ہے‘ اور ’کیا نہیں ہے‘ کی بابت اب محض وہ روایتی موضوعات ہی نہیں چلیں گے جو کچھ صدیاں پیشتر تجدیدی مساعی کرنے والوں کے پیش نظر رہے ہیں ۔ اب محض روایتی اور ’مذہبی‘بدعات ہی زیر بحث نہیں آئیں گی بلکہ غیر روایتی اور ’غیر مذہبی‘ بدعات بھی عدسہ ¿ تنقید سے گزاری جائیں گی۔ اب بیک وقت ہمیں پرانے موضوعات سے بھی واسطہ پڑے گا اورنئے موضوعات سے بھی۔ اب بیک وقت پرانے انحرافات کو بھی تبدیلی کی زد میں لایا جائے گا، کیونکہ انہی کی اس پر گرد پڑ پڑ کر نوبت یہاں تک آئی کہ ’مسلمان‘ کی اصل صورت دُنیا سے روپوش ہوئی اور ہمیں ان جدید حملہ آور فتنوں کے آگے یوں بے بس ہونا پڑا، جبکہ ان نئے انحرافات اور ضلالت کی ان نئی نئی صورتوں کو بھی ___اس اندرونی کشمکش کے عمل میں ___ ختم کرنے کی سعی کی جائے گی۔
چنانچہ آپ کے سامنے اب پرانے فتنوں کا بھی ایک انبار پڑا ہے اور نئے فتنوں کے بھی ڈھیر لگے ہیں ۔ ان دونوں کو ہٹا کر آپ کو اسلام کا اصل چہرہ برآمد کرنا ہے۔پھر جب آپ اسلام کی حقیقت سے روشناس ہونے اور کرانے پر کام کریں گے تو وہاں پر بھی آپ کو صرف اسلامی حقیقت کا ازسرنو اثبات ہی نہیں کرنا بلکہ اس پر سے انحرافات کی تہیں بھی کھرچ کھرچ کر اتارنی ہیں ۔ اب یہ ایک چومکھی لڑائی ہے اور اس میں ان سب پہلوؤں سے پورا اترنا ضروری ہے۔ کسی ایک پہلو میں رہی ہوئی خامی باقی سب پہلوؤں کی صورت کو متاثر کرے گی۔ ان بنیادی معاملات میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔ ایساکوئی بھی شارٹ کٹ اسلام کی حقیقت کے اور بھی زیادہ عرصے تک روپوش رہنے، اور یا پھر اگر وہ ظہور پذیر ہو بھی تو اسلام کے ناقص صورت میں برآمد ہونے، کی قیمت پر ہوگا۔
اس عمل میں ، خصوصاً اندرونی انحرافات کو اس مسلم شخصیت کے چہرے سے ہٹا دینے کے معاملے میں ، حکمت اور سمجھداری اور اخلاص کی ضرورت تو مسلّم ہے ہی مگر یہ عمل ایک حد تک بے رحم ہونے کا بھی متقاضی ہو گا جس کا مظاہرہ سب سے پہلے ہمیں صحابہ کے کردار میں امت کے اندرونی انحرافات اور بدعتی رویوں کے روبرو ملتا ہے۔ لہٰذا یہ عمل ایک بے انتہا موثر اور سنجیدہ حکمت عملی کا ضرورت مند ہو گا۔
ایک بڑی سطح پر ’مسلم صورت‘ کی اصالت originality برقرار رکھنے میں ہم سے جو صدیوں کی تقصیر ہوئی، درست ہے کہ وہ دنوں میں دور ہو جانے والی نہیں ۔ مگر یہ مضحکہ خیز بات ہو گی کہ اس کو اب ایک وقت طلب اور محنت طلب کام ہونے کی بنا پر ’غیر ضروری‘ قرار دیا جائے اور اس کے بغیر ’گزارا‘ کرنے کی سوچی جائے! درست طرز تفکیر یہی ہو سکتا ہے کہ چونکہ اس کام کے کرنے میں ہم سے پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی لہٰذا اس پر اب مزید کوئی تاخیر نہ کی جائے۔ یوں بھی دلجمعی سے کام کیا جائے تو ایک مختصر مدت میں یہ لیٹ نکالی بھی جا سکتی ہے، جس کا اصل انحصار اس بات پر ہو گا کہ اس کام کو کس قسم کے اور کس پائے کے لوگ ملتے ہیں اور اس کو اپنی سرگرمی میں وہ وزن کتنا دیتے ہیں ۔
یہ بھی درست ہے کہ یہ مہم جب تک کامیابی کی ایک خاص سطح تک نہیں پہنچتی تب تک امت کی دوسری روز مرہ ضروریات کو یکسر نظر انداز اور پس پشت نہیں ڈال دیا جائے گا بلکہ ان کی فراہمی اور دستیابی کیلئے بھی کوئی وقتی بندوبست برابر مطلوب ہو گا۔ معاملے کی اس جہت کو نظر انداز کر دینا اور اُمت میں بس ایک ’نظریاتی‘ اور ’تربیتی‘ محنت ہی کروانے پر زور دینا یقینا بے جا مثالیت پسندی کے زمرے میں آئے گا، جس کے ہم م ؤید نہیں ۔ کچھ حضرات اگر کسی ایسے خیالی اور مثالی منہج کے قائل ہیں اور اسی کو ’اصول پسندی‘ اور ’عقیدہ‘ کا تقاضا قرار دیتے ہیں تو ہم بہرحال اس منہج کی وکالت پر اپنے آپ کو آمادہ نہیں پاتے، گو اس کے وجوہ کے ذکر کا یہ مقام نہیں ....
اس کے باوجود اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ اس بنیادی کام کے معاشرے میں کم از کم حد تک تکمیل کو پہنچے بغیر یہاں کے مسائل کا جو حل کیا جائے گا، اور کیا جانا چاہئے، وہ ایک بہت ہی وقتی اور جزوی اور حاشیائی کام ہو گا اور اس کو اسی حیثیت میں لیا جانا ضروری ہو گا۔ جبکہ افضیلت اور اصل توجہ اسی کام کو حاصل ہو گی، اور ہونی چاہئے، جو دُنیا کو عملاً اس ’مسلمان‘ سے متعارف کرائے اور وحی کی نصوص سے اس ’مسلم شخصیت‘ کو برآمد کرے جس کاذکر دُنیا زیادہ تر تاریخ میں پڑھتی ہے۔
یہ ایک بے انتہا زبردست اور امید افزا کام ہے۔ مگر اس کی بہرحال ایک قیمت ہے۔ قیمت دینے کی کڑواہٹ سہے بغیر یہ بھاری چٹان جو ہم پر صدیوں کی پسپائی سے مسلط ہو گئی ہے ہلنے والی نہیں ۔
ہمارے یہاں آپ ایسے طبقوں کودیکھیں گے جو امت کے اندر کچھ ایسی گمراہیوں اور ایسے بدعتی رحجانات کے خلاف بات کرنے کو، جن پر کچھ صدیاں بیت گئی ہیں ، گڑے مردے اکھاڑنے کے مترادف قرار دیں گے! ان کا خیال ہے سب پرانے ’اختلافات‘ پر، خواہ وہ دین کے بنیادی امور کی بابت کیوں نہ ہوں ، بس مٹی ڈال دی جائے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس مٹی ڈالنے نے ہی تو ہمیں یہ دن دکھائے کہ حق پرست مسلم شخصیت دُنیا سے روپوش ہوئی اور یوں رفتہ رفتہ ہم اغیار کیلئے لقمہ ¿ تر ہوئے۔ اس پر مزید مٹی ڈالنا اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسلام کی صورت اور بھی دُنیا سے اور ان معاشروں سے چھپی رہے۔ اسلام کی اصل صورت کو اجلا کئے بغیر اور اسلام کی اس اصل صورت کو ہی اپنی صورت بنائے بغیر آپ تاریخ میں آخر کونسی تبدیلی لانے چلے ہیں ؟
جیسا ہم نے کہا، صحابہ کے آخری دور سے ہی اسلام ’کیا نہیں ہے‘ کے محاذ پر محنت شروع ہو گئی تھی۔ صحابہ میں اس معاملہ کے اندر بے پناہ حد تک سنجیدگی، صراحت اور حتی کہ ’بے لحاظی‘ دیکھی گئی۔ بدعتی رحجانات کے آڑے آنے کیلئے جس شدت اور سختی کی ضرورت تھی، اس کا، خدا سے ڈرتے ہوئے، صاف صاف مظاہرہ ہوا۔ آپ کو ہرگز اب اپنی محنت صرف اس ایک بات پر مرکوز نہیں کرنی کہ ’اسلام کیا ہے‘۔ گو اس پر محنت کرتے ہوئے بھی بہت کم لوگوں کو دیکھا گیا۔ بے شمار تاریخی عوامل نے اسلام کی اس صورت کو اس قدر بگاڑا ہے کہ آپ کو ’اسلام کیا نہیں ہے‘ کے محاذ پر بھی پوری بے پروائی سے جان کھپانا ہوگی۔
دوسری طرف آپ ایسے دینی طبقوں کو پائیں گے جو صرف پرانی بدعات اور پرانے انحرافات اور شرک کی پرانی صورتوں کو ہی اپنا موضوع بحث بناتے ہیں اور مسلم شخصیت کے اندر آنے والے نئے انحرافات کے خلاف محنت تو درکنار ان کا ادراک تک نہیں رکھتے۔ مسلم شخصیت کو جدید عصری رحجانات نے جس انداز سے مسخ کیا ہے اس کا علاج تو کیا اس کی تشخیص تک نہیں ہوتی اور بہت سے جدید معاشرتی رحجانات کو دین کے حوالے سے دیکھنے اور پرکھنے پر یہ آدمی کو تعجب سے دیکھتے ہیں !
صورتحال ان دونوں رحجانات سے بہت مختلف انداز فکر اپنانے کا تقاضا کر رہی ہے....
پرانی جاہلیت جوکہ حقیقتِ اسلام کو مسخ کردینے کیلئے عالم اسلام کے اندر کوشاں رہی اور پھر یہ نئی جاہلیت جو اسلامی حقائق کو مسخ کردینے کیلئے اس وقت حملہ آور دیکھی جارہی ہے.... ان سے صاف صاف اور سیدھی سیدھی مڈبھیڑ ہو گی۔ ماقبل استعمار گمراہیاں اور بعد از استعمار بدعات.... سب سے ٹھنے گی۔
٭٭٭٭٭