عقیدہ کا پیدا کردہ |
مگر امت کی بہبود میں بھر پور کردار |
امت سے سماجی وابستگی اس مسلم شخصیت کا ایک اہم وصف ہوگا۔ اس خاص انداز پر تربیت ہوئی ہو تو پوری ’امت‘ گویا ایک ہی فرد کے وجود میں ڈھل جاتی ہے۔ اپنے وجود کا ادراک کسے نہیں ہوتا۔ اپنی صحت اور تندرستی کا خیال کسے نہیں ہوتا۔ اپنی بقا کی فکر کون نہیں کرتا۔ ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کاجذبہ کس میں نہیں ہوتا۔ یہ دین پہلے اس انسان کو بڑا کرتا ہے اور اسے ’امت‘ کی سطح پر لے آتا ہے جس کو پوری زمین اپنے نیچے نظر آتی ہے.... پھر اس میں زندگی کی لہر دوڑاتا اور ترقی کا جذبہ بھرتا ہے۔ اب جبکہ یہ ایک فرد نہیں رہا بلکہ یہ ایک امت میں ڈھل چکا ہے.... اب اس کا اپنے وجود کا ادراک کرنا، اس کا اپنی صحت اور تندرستی کا خیال اور اپنی بقا کی فکر کرنا اور اس کے اندر اب ترقی کا ایک جذبہ موجزن ہونا ایک ایسے فرد سے، جو محض اپنی ذات یا اپنے خاندان یا اپنے ملک یا اپنے گروہ کیلئے جیتا ہے، بے انتہا مختلف ہو جاتا ہے۔
یہ فرد جو پوری امت کو اپنا وجود سمجھتا ہے جب ’اصلاح‘ کیلئے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو گویا وہ اوروں کا نہیں اپنے ہی وجود کا تحفظ کرتا ہے۔ مسلم معاشروں میں بدعات وانحرافات اور فسق وفجور کے خاتمہ کی جب یہ سعی کرتا ہے اور یہاں کی سماجی خرابیوں اور پسماندگی کے مادی ومعاشرتی اسباب کو یہ دور کرتا ہے تو گویا یہ اپنے ہی وجود سے کوئی کانٹا چنتا اور اپنی ہی راحت کا سامان کرتا ہے۔ اس کا دعوت دینا، اس کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی سرگرمیوں میں مصروف ہونا، اس کا باطل کی سرکوبی کرنا اور گمراہی کے آڑے آنا ایک ایسے شخص سے بہت مختلف ہوتا ہے جو ’امت‘ کو اپنی ’جماعت‘ میں لے آنے یا ’ملت‘ کو اپنے ’فرقے‘ میں فٹ کرنے کے مشن پر ہو یا جو اپنے مناظروں سے ’دوسروں‘ کو لاجواب کر دینے کی تاک میں ہو۔ اس کے لئے ”امت“ اس کے اپنے وجود کا نام ہے یہاں ’دوسرے‘ اس کیلئے پائے ہی نہیں جاتے۔ یہ تو اس کے اپنے وجود کا تحفظ ہے اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کا عمل۔ یہ اس کی اپنی ہی تندرستی کا انتظام ہے۔ کوئی کڑوی دوا دی جانا ناگزیر ہے تو اوروں سے پہلے اس کی کڑواہٹ کو یہ خود محسوس کرتا ہے۔
ایک غایت درجہ کی ہمدردی.... اپنائیت.... قربت.... ایثار.... اور وحدت ہے جو اس شخصیت کا حامل فرد پوری امت کے ساتھ محسوس کرتا ہے (الدین النصیحۃ قلنا: لمن؟ قال: للہ ولکتابہ ولرسولہ ولاَئمۃ المسلمین وعامتھم)(1) امت کے وجود کو تنزل اور انحطاط اور بربادی کے اسباب سے بچانا اس کے لئے اپنی جان بچانے کے مترادف ہے۔ یہاں تک کہ امت کا کوئی فرد، تمام تر اقامتِ حجت کر لی جانے کے بعد بھی، شرک یاکفر کے کسی فعل پر ہی مصر ہو اور علمی بنیادوں پر اس کی تکفیر ہونا ہی ناگزیر ہو.... تو یہ اس کیلئے ایسا ہی ہے گویا یہ اپنا باقی وجود سلامت رکھنے کیلئے اپنے ہی جسم کا کوئی عضو کاٹ کر پھینک رہا ہے۔
’عامۃ المسلمین‘ گویا اس کا اپنا بوجھ ہیں۔ ان کے بغیر وہ خود بھی کہیں کا نہیں۔ ’امت کا حصہ‘ ہونے اور سمجھے جانے کا یہ ایک لازمی تقاضا ہے۔ بس اپنے آپ کو یا اپنے گنے چنے اصحاب کو یا خاص اپنے ’ہم مسلکوں‘ کو ہی ’امت‘ جاننا بربادی کا شاخسانہ ہے۔ ’دوسرے جائیں جہاں جاتے ہیں‘ یا یہ کہ ’دوسرے تو برباد ہوئے کہ ہوئے‘ .... عامۃ المسلمین کی بابت یہ اندازِ فکر بے انتہا مہلک ہے اور وہ فرد جو اپنے اجتماعی وجود کو اپنی امت سے مربوط جانتا ہے ہرگز اس رویے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اذا قال الرجل: ھلک الناس فھواَھلکھم (2)
”جب آدمی کہے لوگ برباد ہوئے تو وہ خود سب سے بڑھ کر برباد ہوا‘۔
اپنی علمی، فکری اور نظریاتی انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے بھی آپ یہاں کے مسلم معاشروں کا سماجی اور شعوری طور پر حصہ بن کر رہ سکتے ہیں۔ لوگوں کی خوشیاں آپ کی خوشیاں اور لوگوں کے دکھ آپ کے دکھ۔ ’عقیدہ درست کرنے‘ کی یہ شرط نہیں کہ آدمی مردم بیزار بن کر رہے، لوگوں کے معاملات میں دلچسپی نہ لے اور روزمرہ سیاسی و سماجی و معاشی مسائل کے حل کے معاملے میں معاشرے کے اندر کسی کردار کے اداکرنے کا روادار نہ ہو۔
یہاں کے بعض دینی طبقوں کو یہ یاد دلایا جاتا رہنا بے حد ضروری ہے کہ یہاں ان کے اردگرد میں ’کافر‘ نہیں بستے۔ یہاں دینداری کی ایک صنف ہے اور ’عقیدہ‘ سے تمسک کا ایک خاص دعویٰ رکھتی ہے، اس اندازِ فکر کے حامل لوگ آج کے مسلم معاشروں میں تقریباً تقریباً ویسے ہی رہتے ہیں جیسے ایک مسلمان سویڈن یا ڈنمارک میں رہے یا یہودیوں کے کسی محلے میںزندگی گزارے! بس اپنے کام سے کام رکھا، اپنے ’ہم مذہبوں‘ سے ہی کل سروکار جانا اور کبھی کبھار کسی ’دوسرے‘ کو بھی ’مسلمان‘ کرلیا! معاشرے کے ساتھ بس ’دنیاوی معاملات‘ میں ہی کوئی واسطہ رکھا تو رکھا، اس سے زیادہ ہرگز نہیں۔ گلی محلے یا عام جگہوں پر کسی ’دوسرے‘ کو سلام تو کیوںکریں گے اس کے سلام کا جواب بھی ’وعلیکم‘ سے دیں گے اور اس پر سوچ میں پڑے رہیں گے کہ کیا یہ اہل کتاب کے مرتبے کو بھی پہنچتا ہے یا نہیں پہنچتا!
بہت زیادہ تعداد میں نہ سہی تھوڑے تھوڑے افراد پر مشتمل دینی طبقے اس ذہن کے بھی پائے جاتے ہیں۔ ان حلقوں میں بھی فرد کا ایک خاص تشخص بنایا جاتا ہے۔ ’مسلم فرد‘ کا یہ بھی ایک تصور ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے بھی چند کلمات کہنا ضروری خیال کیا گیا۔
عام مسلمانوں کے مسائل کو اپنے مسائل جاننا.... خواہ وہ سماجی مسئلے ہوں یا اقتصادی اور معاشی.... خواہ وہ سیاسی نوعیت کے ہوں یا بین الاقوامی اور عالمی.... خواہ وہ مسلمانوں کے دین سے تعلق رکھتے ہوں یا مسلمانوں کی دنیا سے.... ان مسائل میں بھرپور دلچسپی لینا، ان کے حل سے اپنی آرزوئیں وابستہ رکھنا، ان کو اپنے تفکرات اور اندیشوں میں جگہ دینا، ان کے حل میں کم از کم بھی شعوری اور وجدانی طور پر شریک ہونا.... یوں مسلمانوں کے احوال سے باقاعدہ غرض رکھنا، ممکنہ حد تک ان کے کام آنا، ان کے دکھ بانٹنے اور ان سے مصائب وآلام کو دور کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنا.... اور ان سب امور کو باقاعدہ عبادت کا حصہ جاننا اور اس پر خدا سے اجر کی امید رکھنا....
یہ سب ایک مسلم شخصیت کی ایک زبردست جہت ہے۔
المسلم اَخو المسلم، لا یظلمہ ولا یسلمہ، ومن کان فی حاجۃاَخیہ کان للہ فی حاجتہ، ومن فرج عن مسلم کربۃ فرج للہ عنہ کربۃ من کربات یوم القیامۃ۔ ومن ستر مسلماً سترہ للہ یوم القیامۃ (3)
٭٭٭٭٭
رہی یہ بات کہ سب سے اہم مسئلہ مسلم معاشروں کو اسلام کی حقیقت پر لانا اور اسلام کا مفہوم سمجھانا ہے اور یہ کہ اسلام ان معاشروں میں بالفعل غربت اور اجنبیت کا شکار ہے بلکہ یہ غربت واجنبیت کی ایک اندوہناک صورت کو پہنچ گیا ہے اور یہ کہ اسلام کی اس غربتِ ثانیہ کو دور کرنا آج کا سب سے بڑا اجتماعی فرض ہے.... اور یہ کہ اس تبدیلی کی بنیاد ایمان کے حقائق کو بننا ہے اور یہ کہ ان معاشروں کو، قرآنی بنیادوں پر، ایک نئے سرے سے تعمیر ہونا ہے اور یہ کہ اسلام کو زندگی کے منہج کے طور پر ایک طرح سے یہاں ازسرنو اپنایا جانا ہے.... جو کہ بالکل حق ہے اور ہماری دعوت ہے....
تو اس کامطلب موجودہ مسلم معاشروں سے ’تنفر‘ نہیں۔ اس سے مقصود ان معاشروں سے برأت نہیں۔ یہ ان معاشروں کے ساتھ کوئی ’انتقامی رویہ‘ اپنا رکھنا نہیں۔ اس بات کا ان مسلم معاشروں کے ساتھ اخوت وبرادری اور پیار ومحبت رکھنے سے کوئی تعارض نہیں۔ یہ بات ’عامۃ المسلمین‘ سے تعلق خاطر رکھنے کے منافی نہیں.... اگر ہے تو یہ ایک بڑی خرابی کا نقطۂ آغاز ہے اور یہ آپ کی تیار کردہ شخصیت میں ایک بڑے انحراف اور اعوجاج کے پائے جانے پر منتج ہوگا۔
اس معاشرے کو اپنا گھر جاننا اور اس کو اپنے گھر کی طرح سنوارنا حتی کہ اس کی تعمیر نو بھی اس کو اپنا گھر جان کر کرنا.... اس کو اپنی اجتماعی امیدوں کا مرکز بنانا اور اس کے پھلنے پھولنے کیلئے دُعا گو رہنا اور اس کی ترقی وخوشحالی میں مقدور بھر شریک ہونا.... یہ ان معاشروں میں رہتے ہوئے ایک مسلمان کی شخصیت کا ایک اہم گوشہ ہوگا۔
معاشرے کی ترقی میں حصہ لینا اپنے دین کی رو سے باقاعدہ طور پر مطلوب ہے۔ اس میں ذرہ بھر شک نہیں۔ فکر مندی کی بات تب ہو گی جب آپ کی شخصیت کی پہچان ہی یہ ہونے لگے اور جب شخصیت کے وہ اہم تر جوانب، جن کی بابت ہم اس مضمون کے شروع میں، کچھ بات کر آئے ہیں، نسبتاً پس منظر میں جانے لگیں.... ہاں تب ضرور فکرمندی سے آدمی کے کان کھڑے ہو جانے چاہئیں اور اس پر پریشان ہونے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
مسلمانوں کے بعض سماجی یا سیاسی یا فوجی یا معاشی مسئلے ہی آپکی ’نمایاں تر پہچان‘ بننے لگیں اور دین کی اصل بنیادیں آپ کا موضوع بحث ہونے تک کی حسرت کرنے لگیں اور دین کے اسیاسیات ومبادی کبھی آپ کی زبان پر آئیں بھی تو اوپرے محسوس ہوا کریں.... یعنی حقیقتِ اسلام ’گاہے گاہے‘ ہی کبھی ذکر ہو تو ہو ورنہ جولانی طبع کیلئے موضوعات اور بڑے ہوں.... اصل خطرناک بات یہ ہے نہ کہ محض مسلمانوں کی کسی سماجی ضرورت کی انجام دہی۔
ہاں اگر اس مسلم شخصیت میں ’معاشرتی مسائل‘ ہی بولنے لگیں اور یہ مسلسل ’حالات‘ کا ہی رونا بن جائے، یہ شخصیت ہمیشہ ’حالات‘ کے ہی بکھیڑے لے کر بیٹھی نظر آئے.... جبکہ دین کے بنیادی حقائق اور فرائض پر محنت اس کی سرگرمیِ تواصی بالحق کا بہت ہی ناقابل ذکر حصہ بن رہے، جیسا کہ افسوسناک حد تک بہت سی جماعتوں اور تحریکوں کا حال ہے.... تو تب معاملہ ضرور غور طلب ہے بلکہ بہت ہی زیادہ غور طلب ہے۔ عام طو رپر ہماری گفتگو مسلم شخصیت کے اسی پہلو کو درست کرنے پر ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلم مسائل کو__ جب تک امت کی تربیت نہیں ہو جاتی!__ مکمل طور پر نظر انداز کر رکھا جائے!
ایک متوازن شخصیت ہماری سب سے پہلی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭
(1) صحیح مسلم عن تمیم الداری: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دین خیر خواہی کا نام ہے“ ہم نے عرض کی: کس کے لئے خیر خواہی؟ فرمایا: ”اللہ کے لئے، اس کی کتاب کے لئے، اس کے رسول کے لئے، مسلم حکمرانوں کے لئے اور عامۃ المسلمین کے لئے“
(2) صحیح مسلم عن ابی ہریرہ، کتاب البر والصلۃ والآداب
(3) صحیح بخاری عن عبد اللہ بن عمرؓ: ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ وہ اس پر زیادتی کرتا ہے اور نہ وہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔ اور جو کوئی اپنے مسلم بھائی کی حاجت پوری کرے، اللہ اس کی حاجت پوری کرے گا۔ اور جو کسی مسلمان کو کسی مشکل گھڑی سے نکالے، اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کی مشکل گھڑیوں میں سے کسی گھڑی سے نکالے گا۔ اور جو کسی مسلمان کا پردہ رکھے اللہ قیامت کے روز اس کا پردہ رکھے گا۔